اعتدال کے معنی ہیں دو متضاد پہلوئوں کے درمیان اس طرح توازن قائم کرنے کے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان برابر کا معاملہ ہو۔ جس طرح ترازو میں چیزیں تولی جاتی ہیں اور اگر دونوں پلرے مساوی ہوں تو کہاجاتاہے کہ میزان صحیح ہے۔ اعتدال میں عدل بنیادی عنصر ہے۔ دین اسلام افراط و تفریط کے درمیان اعتدال وتوازن کا نام ہے اور یہ اعتدال و توازن دین کے تمام احکام اور تعلیمات میں نمایاں ہے۔ عقائد، عبادات ، اخلاق ، معاملات۔غرض کہ ہر چیز میں اعتدال و توازن کاحکم دیاگیاہے۔
کائنات اعتدال پر قائم ہے
کائنات اور اس کے نظام پر غور کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اوّل سے آخر تک اس میں اعتدال و توازن قائم ہے ۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی خلل واقع ہوجائے تویہ کائنات تباہ و برباد ہوجائے گی۔ مثال کے طورپر اس کائنات میں اربوں کھربوں کی تعداد میں کہکشائیں، ستارے اور سیارے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک قوت کشش (Gravitation)ہے اور دوسری دور پھینکنے والی (Centri fugul force)ہے اگر ان دونوں میں ذرا بھی خلل واقع ہوجائے تو یا تو سارے ستارے اور سیارے فضا میں ایک طرف اڑ پڑیںگے یا ایک دوسرے پر گرپڑیںگے۔ یہ دونوں صورتیں کائنات کی تباہی کاباعث ہونگی۔ قرآن نے اس حقیقت کی طرف درج ذیل آیتوں میںاشارہ کیاہے۔
وَالسَّمَآئ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَان ﴿الرحمن: ۷﴾
’’اور اس نے آسمان کو بلند کیا اور توازن قائم کردیا‘‘
وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیْمoلَاالشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَآ أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُون ﴿یٰسین: ۳۸-۴۰﴾
’’اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلاجارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے اور چاند، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں۔ یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتاہے۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔‘‘
کرۂ ارض اپنے ڈھانچے، وقوع، گردش اور کیمیاوی اجزا کی موجودگی کے اعتبار سے حد درجہ معتدل ہے۔ اگر اس میں کسی بھی اعتبار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو زندگی ناپید ہوجائے گی۔ مثال کے طورپر زمین سورج سے جس فاصلے پر واقع ہے اگر اس میں تھوڑی سی بھی کمی ہوجائے تو فضا میں حدت کی وجہ سے زندگی کے آثار ختم ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس اگر زمین سورج سے زیادہ دوری پر واقع ہوتو یہاں کی ساری چیزیں منجمد ہوکر رہ جائیں گی۔ زمین جس رفتار سے گردش کرتی ہے، اس میں انتہائی درجہ توازن ہے۔ مثال کے طورپر وہ اپنے محور پر ۴۲گھنٹے میں ایک چکر مکمل کرتی ہے، اگر یہ تیس گھنٹوں میں اپنی گردش پوری کرے تو اس کے نتیجے میںاس پر اس قدر تیز و تند آندھیاں چلیںگی کہ یہاں کسی زندہ مخلوق کا بچ رہنا ناممکن ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وہ اپنی گردش بیس گھنٹوں میں پوری کرنے لگے تو یہاں ایک پودا بھی نہ اگ پائے گا۔زمین کے اندر جو اجزا اور کیمیاوی مادے پائے جاتے ہیں وہ بھی حد درجہ متوازن ہیں۔ اگر ان میں کمی یا بیشی واقع ہوجائے تب بھی یہاں زندگی ناپید ہوجائے گی۔
انسان کاوجود اعتدال و توازن پر مبنی ہے
کرۂ ارض پر زندگی کا وجود کائنات کے معتدل و متوازن ہونے کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ انسانی جسم کو ایک مناسب درجہ میں حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اسے وہ حرارت نہ ملے یا ضرورت سے زیادہ ملے تو دونوں صورتوں میں اس کاجسم متاثر ہوتا ہے۔ اس کے جسم کو متحرک و فعال رکھنے اور مختلف جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے غذا اور وٹامن کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی مقدار متعین ہے۔ اگر اس میں کمی و بیشی ہوجائے تو جسم کا توازن بگڑنے لگتا ہے۔ انھی حقیقتوں کی طرف قرآن میں اشارہ کیاگیا ہے:
یَآ أَیُّہَا الْاِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ oالَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ oفِٓیْ أَیِّ صُورَۃٍ مَّا شَآء رَکَّبَک ﴿الانفطار:۶-۸﴾
’’اے انسان! کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔ جس نے تجھے پیدا کیا تجھے نک سک سے درست کیا۔ تجھے متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑکر تیارکیا۔‘‘
اعتدال کا حکم
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز میں جوتخلیقی و تکوینی اعتدال قائم کر رکھا ہے، وہی انسان کے اعمال میں بھی مطلوب ہے۔ چاہے وہ عقائد ہوں یا دین کے دیگر احکام وتعلیمات۔ ہر جگہ اعتدال کا حکم دیاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ ﴿الرحمٰن:۹﴾
’’انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْط ﴿الاعراف: ۹۲﴾
’’اے نبی! ان سے کہو میرے رب نے راستی اور انصاف کاحکم دیا۔‘‘
ایک جگہ اور ارشاد ہے:
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْدا ﴿البقرہ: ۱۴۳﴾
’’اور اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘
آخری آیت میں وسط سے مراد عدل ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امت مسلمہ قیامت کے دن سابق امتوں اور ان کے پیغمبروں کے درمیان پیدا ہونے والی نزاع کوعدل و انصاف کی گواہی دے کر ختم کرے گی۔ اس لئے کہ دنیا میں اسے عدل و انصاف پر مبنی دین دیاگیاتھا۔ وسط کے معنی افضل کے بھی ہیں۔ جیساکہ کہاجاتاہے ’’قریش اوسط العرب نسباً و دارا‘‘ یعنی ’قریش نسب اور مقام کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے افضل ہیں‘۔ اسی طرح صلوٰۃ وسطیٰ کے معنی ہیںسب سے افضل نماز۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دنیا کی دیگر اقوام و ملل کے درمیان سب سے فاضل اور عدل پر مبنی بنایاہے کیوں کہ اس کی شریعت سب سے اکمل،منہج دین سب سے زیادہ مستحکم اور اس کے احکام سب سے زیادہ واضح ہیں۔
عقائد میں اعتدال
عقائد کے سلسلے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے وجود کا سوال پیداہوتاہے۔ ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں یہ وسیع و عریض کائنات خود بخود پیدا ہوگئی ہے اور چل بھی رہی ہے، دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہاں ان گنت خدا ہیں جو کائنات میں اپنی خدائی چلارہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان اسلام نے توحید کا عقیدہ پیش کیاہے اور بتایاکہ خدا موجود ہے اور ایک ہے۔ کائنات خود بخود پیداہوسکتی ہے نہ چل سکتی ہے۔
أَفِیْ اللّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْض ﴿ابراہیم: ۱۰﴾
’’کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے جب کہ اس نے آسمانوں و زمین کی تخلیق کی۔‘‘
تعدد اِلٰہ کی قرآن نے اس طرح تردید کی ہے:
ِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَیْْرٌ أَمِ اللّٰہ الْوَاحِدُ الْقَہَّار ﴿یوسف: ۳۹﴾
’’بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟‘‘
قرآن نے ان دونوں نقطۂ نظر کی تردید کے بعد کہاکہ اللہ ایک ہے۔
وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ﴿البقرہ:۱۶۳﴾
’’تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے۔ اس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔‘‘
عقیدۂ توحید کی تعبیر و تشریح میں بھی بہت سے مذاہب نے غلطیاں کی ہیں اور وہ افراط و تفریط کے شکار ہوئے ہیں۔ یہود اللہ تعالیٰ کو ایسی صفات ناقصہ سے متصف کرتے ہیں جن سے اس کی مخلوق متصف ہے۔ وہ خالق کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مثلاً انہوںنے کہاکہ اللہ بخیل اور فقیر ہے اور اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تو اسے تکان لاحق ہوگئی۔ قرآن میں اللہ کا ارشادہے:
لَّقَدْ سَمِعَ اللّہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوآْ اِنَّ اللّہَ فَقِیْرٌ وَنَحْنُ أَغْنِیَآء ﴿آل عمران: ۱۸۱﴾
’’اللہ نے ان لوگوں کا قول سنا جوکہتے ہیں کہ اللہ فقیر ﴿محتاج ﴾ ہے اور ہم غنی ﴿مال دار ﴾ ہیں۔‘‘
ایک جگہ فرمایاہے:
وَقَالَتِ الْیَہُودُ یَدُ اللّہِ مَغْلُولَۃٌ غُلَّتْ أَیْْدِیْہِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ یُنفِقُ کَیْْفَ یَشَآء ُ ﴿المائدہ:۶۴ ﴾
’’یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ﴿و ہ بخیل ہیں﴾ باندھے گیے ان کے ہاتھ اور لعنت پڑی ان پر اس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں۔ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ﴿وہ سخی ہے﴾ جس طرح چاہتاہے خرچ کرتا ہے۔‘‘
اسلام نے یہ عقیدہ دیاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ وہ سخی اور غنی ہے اور وہ ہر چیز پرقادر ہے۔ اسے تھکاوٹ لاحق نہیں ہوسکتی۔ قدرت ارادہ اور غنی ہونایہ وہ صفات ہیں جو صفات کمال کو لازم کرتی ہیں۔ یہود کے عقاید کے برعکس نصاریٰ مخلوق کو خالق کی صفات سے متصف کرتے ہیں۔ جو صرف اسی کے لیے مختص ہیں اور مخلوق کو خالق سے تشبیہ دیتے ہیں۔ قرآن میںارشاد ہے:
لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ اِنَّ اللّہَ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ ﴿المائدہ: ۷۳﴾
’’یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہاکہ اللہ تین میں کاایک ہے‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوآْ اِنَّ اللّہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ﴿المائدہ: ۷۲﴾
’’یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوںنے کہاکہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے‘‘
اسی طرح نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر احبار و رھبان کو اپنا رب قرار دے لیاتھا۔ ارشاد ہے:
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ﴿التوبہ: ۳۱﴾
’’انہوں نے اپنے علمائ اور دورویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی‘‘
ان کے مقابلے میں اسلام میں اللہ کی توحید کا عقیدہ پیش کیاگیا اور اس کو صفات کمال سے متصف قرار دیا اور تمام صفات کو نقص سے پاک ٹھہرایا اور اس بات سے اس کو پاک قرار دیاکہ وہ کسی مخلوق سے مشابہ ہو۔ پس وہ صفات کمال سے متصف ہے اور اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ نہ ذات میں نہ صفات میں اور نہ افعال میں۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ oاللَّہُ الصَّمَدo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ oوَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ ﴿الاخلاص: ۱-۴﴾
’’﴿اے نبیﷺ کہہ دیجیے﴾وہ اللہ ایک ہے اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور کوئی اس کا ہم سر نہیں ہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
لَیْْسَ کَمِثْلِہِ شَیْْئ ٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ﴿الشوریٰ:۱۱﴾
’’اس کے جیسا کوئی نہیں وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘
عقیدۂ رسالت کے بارے میں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوئے۔ خدا کاانکارکرنے والوں نے نبوت و رسالت کا بھی انکار کیا ہے۔ ان کے نزدیک کوئی وحی کرنے والا ہے نہ کوئی وحی لے کر آنے والا ﴿فرشتہ﴾ ہے اور نہ کسی پر وحی اترتی ہے ۔ بلکہ انسان اپنے عقل و دماغ سے کچھ انکشافات کرتاہے، جن میں بعض انکشاف علمی ہوتے ہیں اور بعض روحانی۔ جیسے سائنس دانوں اور صوفیائ کے واردات و انکشافات۔ اس کے برعکس بعض مذاہب کے ماننے والوں نے نبوت و رسالت کو اتنا عام قرار دیاکہ انہوںنے ایسے اشخاص کو نبی تسلیم کرلیا جو حقیقت میں نبی یا رسول نہیں تھے ۔ جیساکہ وہ حواریوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ رسول تھے۔ بل کہ وہ احبار اور رھبان کی ایسی اطاعت کرتے ہیں جیسے انبیائ کی کی جاتی ہے۔ گویا نصاریٰ ایک کنارے پر ہیں اور ملاحدہ دوسرے کنارے پر۔ یہود نبوت ورسالت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان کے اتباع سے انکار کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں۔ بل کہ بسااوقات انہوںنے ان کا قتل بھی کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں اسلام نے نبوت و رسالت کو ایک خاص مقام و مرتبہ قرار دیا، جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو منتخب کرتاہے اور جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو نبی و رسول نہ بنائے وہ نبوت و رسالت نہیں پاسکتا ہے۔
اللَّہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَآ ئِکَۃِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ اِنَّ اللَّہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ﴿الحج: ۷۵﴾
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ﴿اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے﴾ فرشتوں میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی وہ سمیع اور بصیر ہے۔‘‘
انسانی زندگی سے متعلق متوازن نقطۂ نظر
بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ اس بارے میں بھی تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔پہلا نقطۂ نظر ان لوگوں کاہے، جو اس کائنات میں خدا کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے اتفاقی حادثہ قرا ردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کی زندگی کا کوئی واحد اور متعین مقصد طے کرنا ہی سراسر فضول ہے۔ جس طرح کائنات اتفاقی حادثہ ہے، اسی طرح انسانی زندگی بھی اتفاقات کے سہارے چلتی ہے۔ ہر شخص کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اسی اعتبار سے اس کی زندگی کا مقصد بھی جداگانہ ہوگا۔ دوسرا نقطہ نظر ان لوگوں کا ہے، جو انسان کی خواہشوںاور جذبات کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے وجود کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان کو آخری حد تک پوری کرے اور کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ ورنہ اس کی زندگی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے بھرجائے گی۔ تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک منصوبے کے تحت ایک خاص مقصد کے لیے پیداکیاگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی آزمائش کی جائے۔
وَہُوَ الَّذِیْ خَلَق السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَّکَانَ عَرْشُہ‘ عَلَی الْمَآئِ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً ﴿ھود: ۷﴾
’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیداکیا جب کہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ آزماکر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
ان تینوںنقطہ نظر ہائے نظر میں سے آخری نقطہ نظر سب سے زیادہ معتدل اور متوازن ہے۔ کیوں کہ انسان نہ کسی اتفاقی حادثے کے نتیجے میں پیداہوا ہے نہ وہ خود اپنا خالق ہے اور نہ اس دنیا کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے اور نہ انسان اپنی خواہشوں کو آخری حد تک پوری کرلینے کے بعد الجھنوں اور پیچیدگیوں سے چھٹکارا پاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ اِلَیْْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴿المؤمنون:۵۱۱﴾
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھاہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیداکیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا لَاعِبِیْن َط لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَہْواً لَّاتَّخَذْنَاہُ مِن لَّدُنَّا اِن کُنَّا فَاعِلِیْنَ ﴿الانبیائ: ۱۶-۱۷﴾
’’ہم اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طورپر نہیں بنایاہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرناہوتا تو اپنے ہی پاس سے کرلیتے۔‘‘
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُون ﴿الذاریات:۵۶﴾
’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیاہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
مقصد زندگی کی اہمیت
اوپر کی سطروںمیں جس مقصد زندگی کاحوالہ آیا ہے، اس سے انسان سے متعلق نہ صرف سارے سوالات حل ہوجاتے ہیں، بل کہ اس کو ایک ایسی شاہ کلید بھی مل جاتی ہے، جس کے ذریعے سے وہ اپنی خواہشوں کو پوری طرح کنٹرول کرسکتا ہے اور زندگی کی تمام الجھنوں اور پیچیدگیوں سے چھٹکارا بھی حاصل کرسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ انسان کی تخلیق کا مقصد آزمائش ہے، آزمائش ایک محدود وقت کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے اسے اس دنیا کی مختصر زندگی دی گئی ہے۔ آزمائش میں کامیاب ہونے والے کو انعام دیاجاتا ہے۔ اس لیے اس کے مرنے کے بعد اس کو دوبارہ زندہ کیاجائے گا اور جنت کی شکل میں اسے انعام دیاجائے گا۔
انسان کی جبلّت میں اپنی خواہشوں کی تکمیل کا انتہائی شدید داعیہ موجود ہے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے جو اِس شدت کو کم کرسکے؟ لیکن مذکورہ مقصد زندگی کے تعین سے انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ اپنی خواہشوں کو کنٹرول میں رکھے۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ آزمائش میں ناکام ہوجائے گا، جس کا اثر نہ صرف اس دنیا میں منفی طورپر مرتب ہوگا، بلکہ اگلی زندگی میں بھی وہ بہت سی نعمتوں سے محروم ہوجائے گا۔
اس تصور سے کہ انسان یہاں ایک آزمائشی دور سے گزررہاہے، اس کی زندگی میں عظیم انقلاب رونماہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضیات سے دست بردار ہوجاتا ہے اور اپنی آزمائش کرنے والے کی مرضیات کاپابند ہوجاتا ہے۔ اس کانفس کیاکہتا ہے یہ وہ نہیں دیکھتا، بل کہ اس کے معبود کی کیا مرضی ہے اس پر اس کی نگاہ ہوتی ہے۔ اس کے کام و دہن کس طرح کے کھانوں کی خواہش کرتے ہیں، اس کو وہ قابل التفات نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ا س کا پیدا کرنے والا کن چیزوں کے کھانے کی اجازت دیتاہے۔ اِسی طرح دنیا کے ہر معاملے میں اپنی مرضی یا اپنی پسند کی بہ جاے وہ اللہ کی مرضی اور پسند کو سامنے رکھتا ہے۔
انسان کی بنیادی ضرورتوں میں اعتدال
انسان کے اندر بنیادی طورپر تین خواہشیں پائی جاتی ہیں: کھانے پینے کی خواہش، جماع کی خواہش اور ریاست ﴿اقتدار﴾ کی خواہش۔ اسی طرح اس کے اندر تین طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں: خوف و رجا،محبت و نفرت اور خوشی و غم۔ان سب معاملات میںاسلام نے اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ کھانا پینا انسان کی ایک فطری ضرورت ہے، اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس میں افراط کاپہلو یہ ہے کہ کھانے پینے ہی کو زندگی کامقصد سمجھ لیاجائے۔ اسلام نے انسان کو کھانے پینے سے منع نہیں کیاہے۔ البتّہ کھانے پینے میں حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا ہے۔
یَا بَنِیْ آٰدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُوآْ اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن ﴿الاعراف: ۳۱﴾
’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
کھانے پینے میں اسراف کاایک ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اس کے لیے ضرورت سے زیادہ اہتمام کیاجائے۔ لیکن اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ کھانے پینے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیاجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے اِس تمثیل کے ذریعے واضح کیا ہے:
’’بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے اور ربیع بے شک ہر طرح کی ہریالی اگاتی ہے مگر حبط ﴿ایک مخصوص پودا جس سے پیٹ پھول جاتاہے﴾ کھالینے والے کو مارڈالتی ہے یا مرنے کے قریب کردیتی ہے۔ لیکن وہ جانور جو صرف ہریالی چرے اور جب اس کاپیٹ بھرجائے دھوپ میں بیٹھ کر جگالی کرنے لگے پھر پیشاب وپاخانہ کرے اور پھر ہریالی چرنے لگے تو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ بے شک یہ مال لذیذ ہے جس نے اس کو حق کے ساتھ لیا اور حق کی جگہ خرچ کیا۔ تو وہ بہترین مددگار ہے۔ لیکن جس نے اس کو بغیر حق کے لیا تو اس کی مثال اس جانور کی ہے جو کھائے مگر آسودہ نہ ہو۔‘‘ ﴿بخاری، کتاب الرقاق باب مایحذر من زھرۃ الدنیا﴾
انسان کی دوسری بنیادی خواہش جماع ہے۔ یہ بھی ایک فطری امر ہے۔ کیوں کہ اس کے ذریعے سے انسان کی نسل باقی رہتی ہے۔ کھانے پینے کی خواہش کی طرح اس میں بھی افراط وتفریط کامظاہرہ ہوتارہا ہے۔ بعض مذاہب میں تجرد و رہبانیت کی تعلیمات ملتی ہیں جن سے اس فطری خواہش کی بیخ کنی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی نظریات نے جنسی خواہش کی تکمیل کو تمام حدود و قیود سے آزاد کردیا ہے اور انسانیت کو حیوانیت کے درجے پر گرادیا ہے۔ اسلام نے ان کے بیچ اعتدال قائم کرکے اس بنیادی خواہش کی تکمیل کی پوری آزادی دی ہے۔وہ حدود یہ ہیں کہ وہ اس خواہش کی تکمیل صرف نکاح کے ذریعے کرے۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ط الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ ط وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ oوَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُونَ ط وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ ط اِلَّا عَلَیٓ أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَ ط فَمَنِ ابْتَغَی وَرَآئ ذَلِکَ فَأُوْلٓئِکَ ہُمُ الْعَادُون ﴿المومنون:۱-۷﴾
’’یقینا فلاح پائی ایمان والوں نے جو اپنی زبان میں خشوع اختیارکرتے ہیں ۔ لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جوان کی ملکیت میں ہوں کہ ان پر محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں۔‘‘
انسان کی تیسری بنیادی خواہش ریاست ﴿اقتدار﴾ ہے۔ شریعت کے نزدیک یہ بھی کوئی شجرممنوعہ نہیں ہے۔ اگر کسی کو اقتدار حاصل ہوتو وہ اس سے پوری طرح مستفیدہوسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں عدل و انصاف کے دامن کو نہ چھوڑے اور ظلم وطُغیان کی راہ نہ اختیارکرے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ اِلَیٓ أَہْلِہَا وَاِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم﴿النسائ:۵۸﴾
’’اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے۔‘‘
امارت و خلافت اسلام کاایک اہم شعبہ ہے، اس کے بارے میں واضح احکام و تعلیمات قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بغیر بہت سے دینی و دُنیوی مصلحتوں کاحصول ناممکن ہے۔ اس کے بغیر مکمل سماجی عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ چنانچہ علمائے اسلام نے امارت و خلافت کے قیام کو واجب قرار دیاہے۔ شرح عقائد نسفی میں ہے:
’’اور واجب ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک کام ہو جو ان کے لیے احکام کا نفاذ عمل میں لائے، ان کے درمیان حدوداللہ کو قائم کرے ، ان کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔ ان سے صدقات وزکوٰۃ کی وصول یابی کرے اور سرکشوں، چوروں اور ڈاکوئوں کو سزائیں دے۔‘‘﴿شرح العقائد النسفیہ: ص۰۱۱، کتب خانہ رشیدیہ دہلی﴾
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’جب اقتدار اور مال کامقصود اللہ کی غربت کاحصول اور اس کے راستے میں اِنفاق کی نیت ہوتو یہ دین اور دنیا کی بہتری کاضامن ہے۔ لیکن اگر اقتدار دین سے جدا ہوجائے یا دین کارشتہ اقتدار سے باقی نہ رہے تو پھر لوگوں کے معاملات خراب ہوئے بغیر نہ رہیں گے ۔‘‘ ﴿السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی و الرعبۃ: ص ۱۶۶﴾
جس طرح دنیاکے دیگر امور کی انجام دہی کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، اسی طرح حکومت و امارت کی انجام دہی کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔ ان میں رعایا کے درمیان ہر طرح کا عدل و انصاف قائم کرنا، ان کے انسانی حقوق کی رعایت اور ریاست میںامن وامان کے ساتھ ان کو زندگی گزارنے دینے کا موقع دینا خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئ لِلّہِ وَلَوْ عَلَیٓ أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ ﴿النسائ:۱۳۵﴾
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو حق و انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے بنو۔ اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے۔ خواہ یہ تمہارے اپنے ہی خلاف یا والدین اور راشتے داروں کے ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
انسان کی ان بنیادی خواہشوں کے دوش بدوش اس کے جذبات ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان میںافراط و تفریط کا شکارہوجائے تو اس کی زندگی تباہی سے دوچار ہوجاتی ہے۔ ان جذبات میں خوف و رجائ ، محبت ونفرت اور خوشی وغم اہم ہیں اور ان کی انسانی زندگی میں خاص اہمیت ہے۔ اسلام نے ان میں سے کسی بھی جذبے کو بالکلیہ ختم کرنے کی تعلیم نہیں دی ہے۔ بل کہ ان میں اعتدال کاحکم دیا ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیث ِ رسول(ع) میں ان کی تفصیلات بہ کثرت موجود ہیں۔
خوف ورجا کے ساتھ محبت و نفرت کاجذبہ بھی انسان کے اندر انتہائی شدید ہوتاہے اور اس میں بھی عموماً افراط و تفریط کامظاہرہ ہوتارہتا ہے۔ جس شخص کے دل میں نفرت کے جذبات ہوں وہ اس آتش فشاں پہاڑ کے مانند ہے، جس کے اندر لاوے بھڑکتے اور باہر رہتے ہیں۔ اس جذبے کے تسلط سے آدمی درندے کی شکل اختیارکرلیتاہے اور اس سے نیکی و بدی کی تمیز مٹ جاتی ہے، دوستی اور محبت کے پاک رشتے، قرابت اور رحم کے مقدس تعلقات اور عزت و حرمت کے قیمتی رابطے سب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ اس کے برعکس محبت کاجذبہ ہے اور یہ بھی اپنی شدت میں کسی طرح کم نہیں ہوتاہے۔ اگر نفرت آدمی کو ایک انتہاپرلے جاتی ہے تو محبت بھی اس کو دوسری انتہاپر لے جاتی ہے۔ اسلام نے ان دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال و توازن قائم کیا ہے۔ اس کے لیے فی نفسہٰ نفرت ناپسندیدہ نہیں ہے کیوں کہ آدمی کے اندر غیرت نام کی کوئی چیز نہ ہو تو وہ باعزت زندگی کا تصور نہیں کرسکتا۔جب کہ انسان فطری طورپر عزت ووقار کاطالب ہے۔ چنانچہ اسلام نے غصہ کو بالکلیہ ختم کردینے والے کی تعریف نہیں کی ہے بلکہ غصہ کو پی جانے والوں کی تعریف کی ہے۔ اِرشاد ہے:
الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ فِیْ السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴿اٰل عمران: ۱۳۴﴾
’’جولوگ بدحالی اور خوش حالی ہر حال میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسرے کے قصور کو معاف کردیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسرے کو پچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے کو قابو میں رکھے ۔ ﴿بخاری کتاب الادب، باب المذر من الغصب﴾
کسی پر اگر زیادتی ہوئی ہوتو شریعت میں اس کی اجازت ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے سے اس کے مثل بدلہ لے۔ لیکن عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے وہ اگر اس کومعاف کردے تو یہ ا س کے لئے زیادہ بہتر ہے۔
وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِہِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْْرٌ لِّلصَّابِریْن ﴿النحل: ۱۲۶﴾
’’اور اگر تم لوگ بدلا تو بس اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہے لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔‘‘
انسان بغض وعداوت کے اظہار میں بسااوقات افراط و تفریط کاشکار ہوجاتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں افراط و تفریط سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔
’’دوست سے محبت اعتدا ل کے ساتھ کرو۔ کسی دن وہ تمہارا دشمن بن سکتا ہے۔ ﴿دشمن سے نفرت کو حد سے آگے نہ بڑھنے دو ممکن ہے وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔‘‘ ﴿اقتصادی فی رطب والبغض نمبر ۱۹۹۲﴾
غم ومسرت کاجذبہ بھی انسانی زندگی میں نہایت اہم ہے۔ انسان فطری طورپر خوشی کا طالب ہوتاہے جب کسی طرح سے اس کی خوشی چھِن جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو غم زدہ پاتا ہے۔ اس بارے میں بھی وہ افراط و تفریط میں مبتلاہوجاتا ہے۔ اسلام نے ان کے درمیان اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ نہ خوشی میںافراط ہو نہ غم میں تفریط ہو۔ کوئی شخص اگر مشکلات و مصائب سے دوچار ہوتو وہ بدرجہ افراط غم نہ کرے اور اگر اس کو خوشی لاحق ہوتو اس میں وہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
مَآ أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَآ فِیْ أَنفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا اِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْرط لِکَیْْلَا تَأْسَوْا عَلَی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَآ اٰتَاکُمْ وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿الحدید:۲۲،۲۳﴾
’’کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوئی اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایساکرنااللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ تمہیں اللہ عطا فرمائے اس پر پھول نہ جائو۔ اللہ ایسے لوگوں کوپسند نہیں کرتا ہے جو اپنے آپ کو بری چھیز سمجھتے ہیںاور فخر جتاتے ہیں۔
حقوق و فرائض میں توازن
اسلام نے بندوں کے درمیان حقوق وفرائض میں بھی توازن قائم کیا ہے۔ اس کے نزدیک ہر شخص کی نجی آزادی کی انتہائی اہمیت ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ اس کو مطلق آزادی حاصل ہے اور اس پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اسلام ے اس پر ذمے داریاں بھی عائد کی ہیں۔ گویا حقوق و فرائض کامتوازن نظام ہے جس کے تحت فرد حقوق سے متمتع ہوتاہے اورفرائض ادا کرتاہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے:
’’آگاہ ہوجائو تم میں ہر ایک نگراں ہے اور ہر ایک جواب دہ ہے۔ امام رعایا کا نگراں ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب وہ ہے۔ مرد اپنے اہل و عیال کانگراں ہے اور وہ اس کاجواب دہ ہے عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے متعلق جواب دہ ہے اور نوکر مالک کے مال کانگراں ہے اور وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ خبردار تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور ہر ایک کو جواب دہی کرنی ہے۔‘‘ ﴿بخاری کتاب الاحکام باب ۱﴾
حدیث مذکور میں ذمے داریوں کاذکر ہواہے جس میں امام ﴿حکمران وقت﴾ سے لے کر معمولی درجے کے ملازم تک کی ذمہ داریوں کاحوالہ دیاگیاہے۔ ظاہر ہے کہ ذمے داریاں آدمی اسی وقت ادا کرے گا، جب اس کے حقوق محفوظ ہوں۔ اگر حقوق محفوظ نہ ہوں تو وہاں ذمے داریاں بھی ادا نہیں ہوتیں۔ اس لیے اسلام نے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے اور اس کو بھی واضح طورپر بیان کیاہے۔ ارشاد ہے:
’’بے شک تمہارے نفس کاتم پر حق ہے اور تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور مہمان کا تمہارے اوپر حق ہے اور تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے۔’’﴿بخاری کتاب الصوم ، باب حق الجمع فی الصوم﴾
اسلامی تعلیمات کامطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے نہ صرف حقوق و فرائض کا متوازن تصور عطاکیاہے بلکہ متعین انداز میں طے کرکے بتایاہے کہ کس کی کتنی ذمے داریاں ہیں اور اُسے کتنے حقوق حاصل ہیں۔
اعتدال کا عام حکم
اعتدال و توازن کی ان تعلیمات کے ساتھ اسلام نے انسان کے عام رویوں اور روزمرہ کے معاملات میں بھی توازن و اعتدال کی تلقین کی ہے۔ مثال کے طورپر گفتار و کردار اورانسان کی چال ڈھال بھی معتدل اور متوازن ہو، اس میں کِبر اور گھمنڈ کا شائبہ نہ ہو اور اسی طرح اس میں انتہائی کمزوری کااظہار بھی نہ ہو۔ بلکہ معتدل و متوازن ہو۔ ارشاد ہے:
وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ اِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ﴿لقمان: ۱۹﴾
’’اپنی چال میں میانہ روی اختیارکرو اور اپنی آواز پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آوازگدھوں کی آواز ہے۔‘‘
انسان مال خرچ کرنے میں بھی عام طورپر بے اعتدالی کاشکار ہوجاتا ہے۔ کبھی وہ اسراف اور فضول خرچی سے کام لیتاہے اور کبھی بخل کرتاہے۔ یہ دونوں رویے ناپسندیدہ ہیں۔ اسلام کامطالبہ ہے کہ ان میں توازن کو ملحوظ رکھاجائے۔ ارشاد ہے:
وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً اِلَی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُورا ﴿بنی اسرائیل: ۲۹﴾
’’نہ تو اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑدو کہ ملامت زدہ اور عاجزبن کر رہ جائو۔‘‘
اسلام میں اعتدال و توازن کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بھی اعتدال قائم کرنے کا حکم دیاہے۔ دین میں غلو اور افرط و تفریط کو پسندنہیں کیاہے۔ ارشاد ہے:
’’نرمی اختیار کرو اور لوگوں کو دین سے قریب کرو اور یاد رکھو کہ کوئی شخص محض اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت میں نہیں جائے گا﴿جب تک کہ اللہ کا فضل نہ ہو﴾ اعمال میں مداومت بہتر ہے اگرچہ وہ مقدار میں کم ہو۔‘‘ ﴿بخاری کتاب الرقاق ، باب القصد والمداومۃ علی العمل﴾
غیرمسلموں سے تعلقات میں اعتدال
اسلامی تعلیمات واحکام کا تعلق فرد اور جماعت کے صرف داخلی امور سے نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ساری انسانیت کا دین ہے اور پوری انسانی برادری کے بارے میں یہ بحث کرتاہے۔ چنانچہ اسلام نے فرد و جماعت کے مختلف داخلی امور و مسائل میں اعتدال و توازن کاحکم دیاہے۔ ساتھ ہی خارجی امور و مسائل میں بھی اس کی تعلیمات میںتوازن موجود ہے۔ ایک اہم مسئلہ غیرمسلموں سے تعلقات کا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو دوسری اقوام سے بالکل کٹ کر زندگی گزارنے کاحکم نہیںدیتا ہے۔ اسلام نے رواداری کاحکم دیا اور دیگر مذاہب و ادیان کی مذہبی شخصیات کے احترام کی تعلیم دی ہے۔ اللہ کاارشاد ہے:
فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْْرِ عِلْمٍ ط کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ أُمَّۃٍ عَمَلَہُم ﴿الانعام:۱۰۹﴾
’’اے مسلمانو! تم ان کے معبودوں کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑکر پکارتے ہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا ہوکہ وہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ ہم نے تواس طرح ہر گروہ کے لئے اس کے عمل کو خوش نما بنادیاہے۔‘‘
اس کسی قدر تفصیلی گفتگوسے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے دین و دنیا کے تمام معاملات اور مسلمانوں اور غیرمسلموں سے تعلقات میں اعتدال و توازن کی تعلیم دی ہے۔ اِسی میں ملت اسلامیہ کی فلاح و کام یابی کا راز پوشیدہ ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2010