اعتدال: ایک اہم اسلامی قدر

اعتدال اسلام کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو اسلام کے ہر حکم اور ہر تعلیم میں بدرجہ اتم دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اعتدال ایک ایسی اسلامی قدر ہے جس کا تعلق انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو سے بہت گہرا اور لازمی ہے۔ بلکہ اعتدال ان چند اہم قدروں میں سے ہے جو تمام یا بیشتر مذاہب، روایتوں، فلسفوں اور افکار کے درمیان مشترک ہیں اور جن کی اہمیت پر تمام انسانوں کا اتفاق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ انھیں فطری اقدار اور فطری اصولوں کے طور سے بھی پیش کرتے ہیں۔ اعتدال میں یہ خصوصیت بھرپور طور سے دیکھی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر قدیم یونانی فلسفوں میں اور یہودیت و عیسائیت میں اسے Golden Mean بدھ مت میں Majjhimatipada، چین کی کنفوشین روایت میں Zhongyang اور قدیم تمل فلسفے میں Natuwu Nilaimai سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محمد عبدہ اعتدال یا وسطیت کو ایک فطری اصول کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اعتدال باوجود ایک فطری اور مشترک قدر ہونے کے انسانی تاریخ میں بڑی بے توجہی اور تعطل کا شکار رہا۔ عملی طور سے کوئی بھی روایت یا اس کے پیروکار بے اعتدالی سے مکمل طور سے محفوظ نہ رہ سکے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان چاہے وہ ایک فرد کے طور پر ہو یا ایک معاشرے کے طور پر کسی مخصوص جانب اس کا میلان اور جھکاؤ اور اعتدال کے درمیان ایک نہیں ختم ہونے والی جنگ ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ اس صورت حال سے مسلم قوم اور مسلم تاریخ کا بھی استثنا نہیں ہے۔ بے اعتدالی اور عدم توازن کو ہر قوم کی طرح مسلم قوم میں بھی مختلف پہلوؤں سے نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس مضمون میں اسلام میں اعتدال کی اہمیت، اعتدال کا صحیح مفہوم اور اعتدال کے مختلف پہلو اور اس کے تقاضوں کے حوالے سے گفتگو کی کوشش ہوگی۔

اسلامی تراث میں شروع ہی سے اعتدال کی خصوصیت پر کافی توجہ رہی ہے۔ اس کا اصل مصدر نصوص اور احکام کا استقرا ہے۔ البتہ مختلف آیات میں اس کا ذکر بھی ملتا ہے جو اس استقرا کے لیے معاونت کا کام کرتا ہے۔ گویا اس کا اصل مصدر استنباط اور استقرا ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں متعدد آیات ہیں جو اعتدال اور وسطیت کے اوپر مختلف پہلوؤں سے دلالت کرتی ہیں۔ امام سیوطی کے مطابق وسطیت پر دلالت کرنے والی قرآنی آیات کی تعداد چار ہیں۔ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یبَین لَّنَا مَا هِی قَالَ إِنَّهُ یقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَینَ ذَٰلِكَ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ (انھوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ بیل کس طرح کا ہو۔ (موسیٰ نے) کہا کہ پروردگار فرماتا ہے کہ وہ بیل نہ تو بوڑھا ہو اور نہ چھوٹا بچھڑا، بلکہ ان کے درمیان (یعنی جوان) ہو۔ جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے، ویسا کرو) (سورہ بقرہ: آیت ۶۸)، وَلَا تَجْعَلْ یدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا (اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ) (سورہ بنی اسرائیل: آیت ۲۹)، قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ أَیا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَینَ ذَٰلِكَ سَبِیلًا (کہہ دو کہ تم (خدا کو) الله (کے نام سے) پکارو یا رحمٰن (کے نام سے) جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اور نماز نہ بہت بلند آواز سے پڑھو اور نہ بالکل ہی آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو) (سورہ بنی اسرائیل: آیت ۱۱۰) اور والَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یسْرِفُوا وَلَمْ یقْتُرُوا وَكَانَ بَینَ ذَٰلِكَ قَوَامًا (اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اُڑاتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ صحیح روش اختیار کرتے ہیں) (سورہ فرقان: آیت ۶۷)۔ علامہ یوسف قرضاوی کی رائے میں ایسی آیات کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بھی اعتدال اور وسطیت کے حوالے سے متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ ایک حدیث میں آیا: ’’بلا شبہ تم پر تمھارے جسم کا بھی حق ہے، اور تمھاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمھاری زیارت کرنے والوں کا بھی حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی حق ہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں کہا گیا: ’’خدا کی قسم میں تم سب میں سب سے زیادہ اللہ کی خشیت والا اور اللہ کا تقوی اختیار کرنے والا ہوں لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں، نمازیں بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور بیویوں کے ساتھ بھی رہتا ہوں۔ یاد رکھو جس نے میری سنت سے منھ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘اسی طرح ایک حدیث میں آپ نے بہت سختی کے ساتھ فرمایا: ھلک المتنطعون (حد سے تجاوز کرنے والے ہلاک ہوگئے)۔ اس کے علاوہ بھی متعدد مثالیں احادیث کے ذخیرے میں پائی جاتی ہیں۔

اسلام کے ابتدائی دور ہی سے مسلم ائمہ وعلما کے یہاں بھی اعتدال کے حوالے سے بہت واضح اور پر زور اقوال دیکھے جا سکتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا مشہور جملہ ہے: ’’اس امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو اعتدال پر قائم رہیں‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں: ’’دنیوی معاملات کو ایسے انجام دو گویا تم ہمیشہ یہاں جیو گے اور آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا کل ہی تمھاری موت آنی ہے‘‘۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے کہا: ’’اللہ کے نزدیک سب سے محبوب چیز محنت میں اعتدال ہے‘‘۔ امام غزالی احیاء علوم الدین میں صحابہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وہ لوگ معتدل منہج والے اور واضح راستے والے تھے‘‘۔ امام شاطبی شریعت کے مزاج پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شریعت لوگوں کو اپنے احکام کا مکلف بناتی ہے اعتدال اور عدل کے ساتھ، جس میں وہ انتہاؤں کے درمیان کا راستہ اختیار کرتی ہے بنا کسی ایک طرف جھکاؤ کے‘‘۔ امام ابن قیم اعتدال کو دین کی ایک اہم خصوصیت کے طور پر ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دین پورا کا پورا انتہاؤں کے بیچ ہے، بلکہ اسلام تمام ملتوں کے درمیان اعتدال پرقائم ہے اور سنت تمام تمام بدعتوں کے درمیان واقع ہے اور اللہ کا دین غلو کرنے والے اور اعراض کرنے والوں کے درمیان میں ہے‘‘۔ جدید دور کے بڑے عالم محمد عبدہ کہتے ہیں: ’’اللہ تعالی نے اسلامی امت کے لیے اس کے دین میں دونوں حقوق کو جمع کردیا ہے، یعنی روح کا حق اور جسم کا حق۔ تو گویا امت اسلامیہ ایک روحانی امت بھی ہے اور ایک جسمانی امت بھی۔ بلکہ چاہو تو یہ کہہ لو کہ اس نے اس امت کو انسانیت کے تمام حقوق سے آراستہ کیا ہے‘‘۔ معاصر دور میں بہت سے علما ومفکرین نے اعتدال اور وسطیت پر باقاعدہ مستقل کتابیں لکھیں، جن میں یوسف قرضاوی، عبد اللطیف فرفور اور ہاشم کمالی کا نام قابل ذکر ہے۔

اعتدال کی تعریف

اعتدال کے لیے وسطیت، اقتصاد اور توازن کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور انگریزی میں اس کے لیے moderation کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اعتدال کی ضد کے لیے تشدد، شدت پسندی، انتہا پسندی وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ عربی میں اعتدال کے لیے زیادہ رائج اصطلاح وسطیت ہے۔ امام ابن قیم الجوزیہ ؒ اعتدال کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اعتدال یا اقتصاد افراط اور تفریط کی انتہاؤں کے درمیان کا راستہ ہے۔ اس کی دو باہم مخالف انتہائیں ہیں، ایک جانب تقصیر ہے اور دوسری جانب حد سے تجاوز ہے۔ اعتدال پسند درمیانی راستہ اختیار کرتا ہے اور دونوں انتہاؤں سے پرہیز کرتا ہے‘‘۔ یوسف قرضاوی اپنی کتاب فقہ الوسطیہ الاسلامیہ والتجدید میں اعتدال کی اصطلاحی اور شرعی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دو مقابل یا متضاد انتہاؤں کے درمیان کا راستہ اس طور سے کہ کوئی بھی ایک انتہا دوسری انتہا کو سرے سے ختم نہ کردے اور تاکہ دونوں انتہاؤں میں سے کوئی بھی اپنے حق سے زیادہ نہ لے سکے اور دوسری انتہا کا حق نہ مارے اور نہ اس کے ساتھ زیادتی کرے۔‘‘ انگریزی میں اعتدال پر لکھنے والے مسلم محققین میں ایک اہم نام ڈاکٹر ہاشم کمالی کا ہے۔ اعتدال پر ان کے کئی مقالات کے بعد ایک اہم اور جامع کتاب آکسفورڈ پریس سے شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے The Middle Path of Moderation in Islam: The Quranic Principle of Wasatiyyah ہے۔ ہاشم کمالی اعتدال یا وسطیت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اعتدال کسی چیز کے حوالے سے ایسے موقف کو کہا جاتا ہے جس میں نہ انتہا ہو اور نہ ہی بے توجہی، اور ایسے موقف اعلی فطرت والے اور عقل مند لوگوں کے یہاں پائے جاتے ہیں‘‘۔ اعتدال پر لکھنے والوں میں ایک نام عبد اللطیف فرفور کا بھی ہے۔ وہ بھی اعتدال کو افراط و تفریط کے درمیان یا دو انتہاؤں کے درمیان کا راستہ قرار دیتے ہیں۔

اعتدال کی مذکورہ تعریف اعتدال کے تفصیلی اور مرکب (complex)تصور اور اس کے مختلف الجہات پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹنے سے بڑی حد تک قاصر ہے۔ اس کے لیے چند پہلؤوں کی طرف اشارہ مناسب ہوگا۔

انتہاؤں کا تعین کون کرےگا؟

اس تعریف میں اعتدال کی تعریف کا پورا انحصار انتہا کے تصور پر ہے چناں چہ انتہا کا خود تعین بہت ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس انتہا کا تعین کیسے ہوگا؟ اس میں اس بات کا امکان ہوگا کہ کسی مسئلے سے متعلق موجود کوئی بھی دو موقف انتہا قرار پائیں اور ان کے درمیان کا موقف اعتدال سمجھا جائے۔ زمان و مکان کے اثرات کے نتیجے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تاریخ کے کسی دور میں ایک چیز انتہا مانی جائے لیکن دوسرے دور میں وہ انتہا کے زمرے سے خارج ہو جائے۔ چناں چہ عبد اللطیف فرفور جب یہ گفتگو کرتے ہیں کہ وسطیت کا معیار کیا ہوگا یا کون طے کرے گا کہ یہ دو انتہائیں ہیں اور یہ درمیانی راستہ ہے تو وہ کہتے ہیں کہ شریعت کے باب میں یہ فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف شریعت ہی کو ہوگا۔

کیا اسلام مکمل طور سے اعتدال سے عبارت ہے؟

اعتدال کی اس تعریف میں جس درمیان اور اوسط (Average)کو اعتدال کہا گیا ہے ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہمیشہ انتہاؤں کے درمیان ہی کا راستہ درست ہو یہ ضروری ہے؟ اور کیا اس مفہوم میں اسلام کو مکمل طور سے اعتدال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ امام شاطبی کے مطابق اسلام کی اکثر تعلیمات تو اعتدال اور وسطیت پر مبنی ہیں لیکن تمام نہیں۔ اسی طرح یوسف قرضاوی کہتے ہیں کہ ہر موقع پر درمیانی موقف ہی صحیح موقف ہو یہ ضروری نہیں ہے بلکہ قرآن تو بھلائی میں مبالغے اور انتہا کی ترغیب دیتا ہے جیسا کہ انسان کی زندگی کے بنیادی مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: لیبلوکم ایکم احسن عملا یعنی تاکہ اللہ آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون سب سے زیادہ بہتر ہے اپنے عمل میں۔ یہاں احسن نیکی کے سب سے اعلی درجے ہی کی طرف اشارہ ہے۔ یوسف قرضاوی نے ایسی متعدد مثالیں پیش کی ہیں جو اعتدال کے اس مفہوم کے منافی ہیں۔ اسی پس منظر میں یوسف قرضاوی اعتدال کے پورے مفہوم ہی کو نئی تعبیر دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اعتدال کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمیشہ نرم روی اور سہل انگاری کا موقف اختیار کیا جائے۔ بلکہ اعتدال کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں سختی برتی جائے اور نرمی کا مقام ہو وہاں نرمی اختیار کی جائے، جو نرمی اور لطافت کے مستحق ہیں ان کے ساتھ نرم رویہ اپنایا جائے اور جو سختی اور شدت کے مستحق ہوں ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے۔‘‘

کیا اعتدال ایک اخلاقی قدر بن سکتا ہے؟

اعتدال کی اس مشہور تعریف پر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اعتدال کو ایک اخلاقی قدر کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر کسی پر حکم لگایا جاسکے جس طرح دوسرے بہت سے تصورات کو اخلاقی قدر اور معیار کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے؟ اس کی ایک شاندار مثال امام ابن قیمؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب اعلام الموقعین میں پیش کی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’شریعت کی بنیاد انسانوں کی ان حکمتوں اور مصلحتوں پر ہے جن کا تعلق ان کی دنیوی اور اخروی زندگی سے ہے۔ چناں چہ شریعت پوری کی پوری عدل سے، رحمت سے اور حکمت سے عبارت ہے۔ اور وہ مسئلہ جو عدل کے بجائے ظلم پر، رحمت کے بجائے عدم رحمت پر، مصلحت کے بجائے فساد پر اور حکمت کے بجائے عبث پر قائم ہو وہ شریعت کا حصہ ہرگز نہیں ہوسکتا، گرچہ وہ کسی تاویل کے ذریعے اس میں داخل کردیا گیا ہو‘‘۔ کیا یہ موقف ہم اعتدال کے ساتھ بھی اختیار کرسکتے ہیں؟ مثال کے طور پر اگر شریعت کے کسی حکم میں اعتدال اس مفہوم میں مفقود ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شریعت کا حکم نہیں ہوسکتا؟ یا مثال کے طور پر اگر کوئی نیکی میں ایسا عمل کرتا ہے جو اعتدال کے اس مفہوم کے منافی ہو تو اسے غلط کہا جائے گا؟ کیا حضرت ابوبکر کا غزوہ تبوک کے موقع سے اپنی پوری دولت کا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا فیصلہ انتہا پسندی ٹھہرے گا؟ کیا اگر آج کوئی صاحب دل اپنی پوری دولت غریبوں کے لیے وقف کردے تو اسے انتہا پسند کہا جائے گا؟

اعتدال ایک مرکب تصور ہے

اعتدال درحقیقت ایک بہت ہی پیچیدہ تصور ہے اور ایسے مرکب تصورات کے لیے سادہ الفاظ میں تعریف پیش کرنا بہت مشکل بلکہ بسا اوقات غلط نتائج کا سبب بنتا ہے۔ اعتدال کے صحیح تصور کو سمجھنے کے لیے اعتدال کے الگ الگ پہلؤوں پر گفتگو کرنا زیادہ مفید ہوگا۔ یوسف قرضاوی اور ہاشم کمالی نے اعتدال کے مختلف مظاہر کے حوالے سے اس پر اچھی گفتگو کی ہے۔ ہم اعتدال کے کچھ اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

اعتدال یعنی سب سے بہتر اور سیدھا راستہ

اعتدال کا ایک اہم مفہوم تمام راستوں میں سب سے اچھا راستہ اور تمام کجیوں سے محفوظ سیدھا راستہ بھی ہوتا ہے۔ یہاں اعتدال ایک خط مستقیم پر واقع دو کناروں کے بیچ کا راستہ نہ ہوکر کے چاروں طرف موجود گہرائیوں کے درمیان کی اونچائی یا چاروں سمت پھیلی کجی کے بیچ سیدھے راستے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ چناں چہ امة وسطا کی تفسیر میں امام رازی، امام ابن کثیر، امام بیضاوی کے بشمول کئی مفسرین نے خیر یعنی سب سے بہتر کا معنی مراد لیا ہے۔ اسی طرح الصلاة الوسطی کی تفسیر میں بھی امام ابن کثیر، امام بیضاوی اور متعدد مفسرین کے یہاں سب سے بہتر اور سب سے افضل کی رائے ملتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ: وکان رسول اللہ ﷺ وسطا فی قومہ۔ یعنی اللہ کے رسول ﷺ اپنی قوم کے سب سے بہتر اور سب سے افضل فرد تھے۔ اعتدال کو اپنے اس مفہوم میں اسلام کی ایک اہم خصوصیت کے طور دیکھا جا سکتا ہے اور مکمل طور سے اسلام کو اعتدال کا ایک خوب صورت نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ عقائد کے باب میں سب سے زیادہ معقولیت، زندگی میں فعالیت، اور مقصدیت اسلامی عقائد کو سب سے بہتر اور سب سے معتدل عقائد کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ احکام کے باب میں مصالح کا سب سے زیادہ خیال، حقوق کی سب سے زیادہ پاس داری اسلامی احکام کو سب سے بہتر اور سب سے معتدل کے طور پر پیش کرتی ہے۔

اعتدال یعنی توازن

اعتدال کا دوسرا اہم پہلو وہ ہے جس کو توازن اور عدل کے حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ امة وسطا کی تفسیر میں نبی ﷺ سے ایک روایت عادل کی بھی ہے۔ یعنی ایسی امت جو عدل اور توازن سے آراستہ ہو۔ یوسف قرضاوی نے اعتدال کی تعریف میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کئی مفسرین نے امة وسطا کی تفسیر میں یہی معنی اختیار کیا ہے۔ اعتدال کا یہ مفہوم دراصل انسانی تعامل کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ انسانی تعامل اپنے وسیع معنی میں، انسان کا انفرادی عمل ہو جیسے کھانا پینا سونا جاگنا وغیرہ یا پھر اس کا اجتماعی نظم ہو، انسانی تعامل عمل کے حوالے سے ہو یا فکر کے حوالے سے یا انسان کا اپنے لیے نظام اور سسٹم بنانا ہو، اپنے ہر عمل میں توازن کا اہتمام کرنا ہی اعتدال ہے۔ انسان جب عمل کرتا ہے تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ اس عمل کے کئی پہلوؤں میں سے کسی ایک ہی کی طرف پورا جھک جائے یا کسی ایک کو بالکل نظر انداز کردے۔ ایسے میں اعتدال کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے سے متعلق تمام پہلوؤں کو ان کا پورا حق دیا جائے۔ اعتدال کا یہ مفہوم ایک قدر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

انسانی زندگی میں متعدد بار ایسی صورت حال سامنے آتی ہے جہاں اس کی فطرت اور شریعت اس سے زندگی کے دو یا مختلف پہلوؤں کے حوالے سے متوازن اور معتدل رویہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن وہ کسی ایک کی طرف ایسا جھکتا ہے کہ دوسرے کو بالکل ہی نظر انداز کردیتا ہے۔ ایسا اس کی انفرادی زندگی میں بھی ہوتا ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی جہاں وہ زندگی کے اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف نظام تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ انفرادی زندگی میں مثال کے طور پر انسان فطری طور پر ہی دو چیزوں سے مرکب ہے اور وہ ہے مادہ اور روح۔ شریعت نے بھی ان دونوں کو قبول کیا ہے اور دونوں کے حوالے سے رہ نمائی کی ہے۔ لیکن انسانی تاریخ ہو یا مسلمانوں کی تاریخ، مادے اور روح کے حوالے سے بے اعتدالی انسانوں کا ایک عام شیوہ رہی ہے۔ یہاں مسئلہ روح یا مادے کے صحیح یا غلط ہونے کا نہیں ہے بلکہ روح کو اس کا حق دینے اور مادے کو اس کا حق دینے کا ہے۔ چناں چہ اسی تناظر میں احادیث میں آئے وہ اکثر قصے سمجھے جاسکتے ہیں جن کا حوالہ اعتدال اور وسطیت کے لٹریچر میں کثرت سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں یہ واقعہ بیان ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ ایک صحابی کے گھر گئے اور ان سے پوچھا کیا یہ صحیح ہے کہ تم مستقل رات بھر تہجد پڑھتے ہو اور دن بھر روزہ رکھتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا جی ایسا ہی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’تم ایسا مت کرو، قیام لیل بھی کرو اور نیند بھی لو، روزہ بھی رکھو اور بنا روزے کے بھی دن گزارو۔ یاد رکھو تم پر تمھارے جسم کا بھی حق ہے، اور تمھاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمھاری زیارت کرنے والوں اور مہمانوں کا بھی حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی حق ہے‘‘۔ یہ تعلیم اعتدال اور توازن کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے بہت ہی اہم ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ کے گھر تین افراد تشریف لائے اور امہات المومنین سے اللہ کے رسول ﷺ کی عبادت کے متعلق دریافت کیا۔ ان کو جب بتایا گیا تو ان کو کم لگا۔ انھوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺ سے ہمارا کیا مقابلہ ان کے تو آگے پیچھے کے سارے گناہ معاف کردئے گئے ہیں۔ چناں چہ ان میں سے ایک نے یہ فیصلہ کیا کہ اب رات بھر جگ کر تہجد پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا اب میں ہمیشہ بلا ناغہ روزے سے رہوں گا۔ تیسرے نے کہا اب میں عورتوں سے ہمیشہ دور رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔ اللہ کے رسول ﷺ کو جب اطلاع ملی تو آپ ان کے پاس آئے اور ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں نے ایسا ایسا طے کیا ہے۔ خدا کی قسم میں تم سب میں سب سے زیادہ اللہ کی خشیت والا اور اللہ کا تقوی اختیار کرنے والا ہوں لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور بلا روزہ بھی رہتا ہوں، تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور صاحب زوجات بھی ہوں۔ یاد رکھو جس نے میری سنت سے منھ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ گویا اسلام نے مادے اور روح یا جسم اور روح دونوں کے حقوق کا پورا پورا اعتراف کیا ہے اور دونوں میں سے کسی کو بھی سرے سے ختم کرنے یا دبانے کی کوشش کرنا یہ بے اعتدالی کی علامت قرار پائے گا۔ اسی طرح کا معاملہ عقل اور وحی کا ہے۔ معرفت کے لیے عقل اور وحی دونوں کا بنیادی کردار ہے اور دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ دونوں میں سے کسی کو بھی ترک کرنا اس کے حق میں زیادتی کہلائے گی۔ ایسے میں عقل اور وحی دونوں کو پورا پورا مقام دینا ہی توازن اور اعتدال کا تقاضا ہے۔ یوسف قرضاوی نے اس سلسلے میں متعدد مثالیں پیش کی ہیں اور وہ سب اسی پہلو کے تحت سمجھی جا سکتی ہیں۔ جیسے انسانیت اور رہبانیت، اخروی زندگی اور دنیوی زندگی، ماضی و مستقبل، فرد و جماعت، واقعیت و مثالیت، حقوق و واجبات، حرفیت و مقاصدیت، ثبات اور تغیر، نص اور اجتہاد وغیرہ۔

اجتماعی زندگی میں جس میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی پہلو شامل ہیں، انسانی فلسفوں اور افکار کے ساتھ عموما یہی مسئلہ درپیش آتا ہے کہ وہ انسانی وجود اور انسانی سماج میں موجود عناصر کے ساتھ توازن اور عدل کا معاملہ برتنے میں ناکام رہتے ہیں۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ دور قدیم اور دور جدید میں جتنے بھی افکار اور فلسفے سامنے آئے ہیں وہ دراصل کسی ایک پہلو کی طرف پوری توجہ اور دوسرے پہلو سے پوری بے توجہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دور قدیم سے ایک بحث یہ رہی ہے کہ فرد اصل ہے یا معاشرہ۔ اور یہ نہ حل ہونے والا معمہ بنا رہا۔ ارسطو نے فرد کو اصل قرار دیا اور افلاطون نے معاشرے کو۔ یہ بحث مختلف شکلوں اور صورتوں میں دور جدید میں بھی جاری رہی۔ بعد میں اسی بحث کو فرد کی آزادی اور عدم آزادی کی ثنویت کی شکل دے دی گئی اور اسی کے نتیجے میں جیسا کہ یوسف قرضاوی نے نوٹ کیا سرمایہ داریت نے فرد کو اصل مان کر اسے مکمل آزادی دینے کی بات کی اور اشتراکیت نے معاشرے کو اصل قرار دے کر فرد کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی۔ اس کے بالمقابل اعتدال اور توازن کا تقاضا یہ تھا کہ فرد اور معاشرے، آزادی اور قیود، سب کو ان کی جگہ دی جاتی اور اس کی روشنی میں ہی نظام بنائے جاتے۔ اسلامی روایت کے اندر بھی یہ بے اعتدالی کہیں کہیں بہت صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ قدیم دور میں روحانیت اور تصوف اور دوسری طرف بے روح فقہ کی ثنویت وجود میں آئی۔ موجودہ دور میں دین کو صرف فرد کے تزکیے یا پھر دین کو اصلا سیاست کے وسیلے کے طور پر استعمال کرنے کی ثنویت دیکھی جاسکتی ہے۔

اعتدال کے لیے تجدید ضروری ہے

اعتدال کا یہ دوسرا پہلو ایسا ہے جس میں ہمیشہ یک طرفہ انسانی میلان، انسانوں کے اپنے مفادات، انسانوں کے اپنے رجحانات، زمانے کی بدلتی ہوئی صورت حال وغیرہ اعتدال اور توازن کو بگاڑنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یوسف قرضاوی نے اعتدال اور توازن کے لیے تجدید کو لازمی قرار دیا ہے۔ یہ تینوں چیزیں، یعنی بے اعتدالی، تجدید اور اعتدال ایک کبھی نہ رکنے والے دائری چکر کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ اعتدال کا یہ پہلو شریعت کے داخلی حصے سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ انسانی تعامل سے متعلق ہے، چاہے وہ تعامل شریعت کے فہم کو لے کر ہو، یا پھر مختلف حوالوں سے اپنے فکر اور نظام کو طے کرنے کے حوالے سے ہو۔ بات چوں کہ تجدید کی آئی تو اس سے متعلق بھی اعتدال کے اہم پہلوؤں کا ذکر کرنا مفید ہوگا۔

ثوابت اور متغیرات کے درمیان اعتدال

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شریعت کا ایک حصہ ایسا ہے جس کو ثوابت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور جس پر پوری امت کا اتفاق ہے اور وہ دین کے مسلمات اور اصولوں کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس میں کسی طرح کے تغیر یا کسی طرح کی تجدید کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ اس کے بالمقابل شریعت کا ایک حصہ متغیرات کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں زمان ومکان کی رعایت کا پورا امکان ہوتا ہے۔ اس میں اختلاف بھی اسلامی تراث کی تاریخ کا ایک اہم امتیاز ہے۔ اعتدال کا تقاضا یہ ہوگا کہ نہ پوری شریعت کو ثوابت اور مسلمات کے طور پر دیکھا جائے اور نہ ہی پوری شریعت کو متغیرات اور مختلف فیہ کے طور پر دیکھا جائے۔ ثوابت اور مسلّمات میں ہمارا رویہ سخت اور بے لچک ہو تو متغیرات اور مختلف فیہ مسائل میں ہمارا رویہ لچک دار اور نرم ہو۔

اعتدال کا مطلب بیچ کی رائے ہو، یہ ضروری نہیں ہے

متغیرات میں لچک کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ کسی بھی مسئلے میں دو رائیں اگر موجود ہوں تو ان دونوں کو انتہا قرار دے کر ان کے بیچ کے راستے کو معتدل اور سب سے عمدہ کہا جائے۔ متغیرات اور مختلف فیہ مسائل میں رائے کے اختلاف کا اور اجتہاد کا اپنا پورا ایک میکانزم ہے۔ رائے جو بھی ہو اسے اپنے پورے اجتہادی عمل سے گزر کر طے ہونا ضروری ہے۔ یوسف قرضاوی کے یہاں اعتدال کے حوالے سے یہ رویہ جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ کسی مسئلے میں موجود دو رایوں کے بیچ کی رائے کو معتدل رائے کے حوالے سے پیش کر دیتے ہیں۔ ان کی کتاب الحلال والحرام اور دوسری کتابوں میں اس کی متعدد مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ موسیقی کا مسئلہ ہو، اہل کتاب کی خواتین سے شادی کا مسئلہ ہو یا پردے کا مسئلہ ہو وغیرہ۔

بے اعتدالی کا بے جا الزام

اس سے بھی آگے بڑھ کر اعتدال کا یہ مفہوم سمجھنے والے اور اس پر اپنے تعامل کو قائم کرنے والے ان دوسرے علما کو جو اپنی رائے اپنے اجتہاد کے ذریعے طے کرتے ہیں اور اس کا برملا اظہار کرتے ہیں انتہا پسند بھی قرار دے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یوسف قرضاوی نے مولانا مودودی اور سید قطب کو متعدد جگہ انتہا پسند قرار دیا کیوں کہ مولانا مودودی کا چہرے کے پردے سے متعلق جو اجتہاد تھا انھوں نے بیان کردیا، جمہوریت کو لے کر جو موقف بنا وہ پیش کردیا، سید قطب نے بھی موجودہ معاشرے اور اس کے ڈھانچوں اور نظاموں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا موقف بلا جھجک پیش کردیا۔ اور پھر یوسف قرضاوی کی پیروی میں دوسرے کئی بڑے علما اور مفکروں نے بھی ان دونوں کو انتہا پسند قرار دے دیا جن میں ڈاکٹر عمارہ اور ہاشم کمالی کا نام قابل ذکر ہے۔ یہاں یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ چہرے کے پردے کا مسئلہ ہو، جمہوریت کا مسئلہ ہو یا موجودہ معاشرے اور نظاموں کے تعلق سے اسلامی نقطہ نظر سے evaluation کا مسئلہ ہو۔ ان تمام مسائل کو دیکھنے کے مختلف امکانات، مختلف دلائل اور مختلف نتائج ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ اعتدال یا بے اعتدالی سے زیادہ اجتہاد کے اس مرکب عمل کے نتیجے میں کسی مخصوص نتیجے تک پہنچنے کا ہے۔ یہاں ان کے دلائل اور نتائج کی قوت اور کم زوری یا صحت اور غلطی پر تفصیلی گفتگو ضرور کی جاسکتی ہے۔

حالاں کہ سید قطب کی تحریروں اور افکار میں اعتدال پوری طرح جلوہ گر دیکھا جاسکتا ہے۔ سید قطب شہید نے اپنی تفسیر فی ظلال میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ کی تفسیر لکھتے ہوئے اعتدال اور وسطیت سے متعلق جو گفتگو کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور اعتدال کی بے مثال ترجمانی کرتی ہے۔ مولانا مودودی کے یہاں بھی اعتدال اسلام کے ہر شعبے اور زندگی کے ہر میدان سے متعلق نظر آتا ہے۔ عقیدے کے باب میں جہاں بے اعتدالی کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے وہاں بھی جس طرح مولانا مودودی کے یہاں اعتدال پوری طرح جلوہ افروز ہے، مولانا مودودیؒ کی عبقریت کی دلیل ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محی الدین غازی کا کتابچہ ’’عقیدے کے باب میں مولانا مودودیؒ کا کارنامہ‘‘پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

تراث سے تعامل کے معاملے میں اعتدال

تراث سے تعامل کے معاملے میں دو سطح پر اعتدال کا خیال رکھنا بہت ہی ضروری ہے۔ ایک معاملہ تجدید اور اجتہاد کے دوران تراث سے تعلق کی نوعیت کا ہے۔ ایک طرف تراث کو سرے سے نکار دینے کا رویہ ہے اور دوسری طرف تراث سے ذرہ برابر اختلاف بھی برداشت نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل اعتدال کا رویہ اس بات کا متقاضی ہے کہ تراث سے بھرپور استفادہ ضرور کیا جائے لیکن چوں کہ شریعت کا ایک بڑا حصہ زمان و مکان سے بہت زیادہ جڑا ہوتا ہے تو ایسے میں موجودہ صورت حال کی روشنی میں شریعت سے براہ راست رہ نمائی کی کوشش ضروری ہے۔ علامہ یوسف قرضاوی نے اس سلسلے میں امام حسن البنا شہیدؒ کی بہت شاندار بات نقل کی ہے۔ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں: ’’امام حسن البنا نے تو یہ تک کہا کہ وہ تمام آرا اور علوم جو اپنے زمانے اور اپنے ماحول کے رنگ سے پوری طرح رنگے ہوں وہ ہم چودہویں صدی ہجری کے داعیانِ اسلام کے لیے بالکل لازم نہیں ہیں۔ ہمیں پوری آزادی ہے کہ ہم اپنے لیے خود اجتہاد کریں جس طرح انھوں نے اجتہاد کیا تھا۔ البتہ ہم ان کو پڑھنے اور ان سے استفادہ کرنے میں ہرگز کوتاہی نہیں کریں گے۔ کیوں کہ بلاشبہ وہ عظیم سرمایہ ہے۔‘‘

دوسرا اہم مسئلہ تراث کے حوالے سے گروہ بندی اور فرقہ بندی کا ہے۔ پوری اسلامی علمی تاریخ میں مختلف حوالوں سے مختلف فرقے وجود میں آتے رہے اور ہر فرقہ دوسرے فرقہ کے تئیں تنگ نظری اور کم ظرفی کا ثبوت دیتا رہا۔ اگر کسی “دوسرے” یا “غیر” فرقے سے تعلق رکھنے والے فرد نے کوئی بات کہی تو وہ ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ یہ رویہ بڑی حد تک آج بھی موجود ہے۔ کسی عالم اور محقق کی بات اس بنا پر قبول یا رد کی جاتی ہے کہ اس کا انتساب کس جماعت یا فرقے کی طرف ہے۔ اور خاص کر اگر کسی فرقے یا جماعت پر بدعتی، گم راہ یا اس جیسا کوئی لیبل لگ گیا پھر تو اس فرقے یا جماعت سے تعامل کا کوئی راستہ ممکن ہی نہیں رہتا۔ اس تناظر میں اعتدال کا رویہ کیا ہونا چاہیے اس پر امام ابن قیمؒ بہت خوب صورت بات کہتے ہیں جو آب زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’اہل سنت، حزب رسول اور اہل ایمان نہ اس گروپ کے ساتھ ہوتے ہیں اور نہ اس گروپ کے ساتھ۔ بلکہ وہ اُن کی بھی صحیح چیزوں میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور اِن کی بھی صحیح چیزوں میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ چناں چہ ہر حق چاہے وہ کسی بھی گروہ کے ہم راہ ہو وہ اس کی تائید میں ہوتے ہیں اور ہر کسی کے باطل سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ گویا ان کا مذہب ہر گروہ کے حق کو ایک ساتھ جمع کرنا، اس کو بیان کرنا اور اس حق کو ماننے والوں کا اس میں پورا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی گروہ کے ساتھ مکمل طور سے اور غیر مشروط وابستگی نہیں رکھتے ہیں اور کسی بھی جماعت کے پاس موجود حق کو رد نہیں کرتے ہیں۔ وہ بدعت کا مقابلہ بدعت سے نہیں کرتے ہیں اور باطل کا جواب باطل سے نہیں دیتے ہیں۔ اور کسی قوم کی دشمنی ان کو عدل سے انحراف پر مجبور نہیں کر سکتی۔ وہ ہر کسی کے بارے میں حق کہتے ہیں اور ان کے تئیں اپنے جملوں میں عدل سے کام لیتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے رسول کو لوگوں اور جماعتوں کے ساتھ عدل کرنے کا حکم فرمایا ہے‘‘۔ اعتدال کے حوالے سے یہ بہت ہی قیمتی اور جرأت آمیز بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح وہ مسائل جو مسلم امت سے متعلق یا اسلامی تعلیمات سے متعلق ہیں ان میں اعتدال کا تقاضا یہ ہے کہ گروہ بندی سے اجتناب کرکے نفس مضمون کے ساتھ معروضی انداز میں تعامل کیا جائے اسی طرح وہ مسائل جن کا تعلق عام انسانی فکر اور انسانی مسائل سے ہے ان میں بھی اس گروہ بندی اور فرقہ بندی سے بلند ہوکر ان کے ساتھ نفس مضمون پر تعامل کیا جائے۔

مسلمانوں کے درمیان عام بے اعتدالی اور توازن کے تقاضے

اعتدال کا دوسرا تصور جسے توازن اور عدل کے حوالے سے بھی پیش کیا گیا دراصل اعتدال کو ایک قدر کی صفت سے آراستہ کرتا ہے جس کو معیار بنا کر مسلمانوں کے درمیان مختلف افکار اور اعمال کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور صحیح طرز فکر اور رویے کی نشان دہی ہونی چاہیے۔ خاص کر دو حوالوں سے مسلمانوں کے درمیان عام بے اعتدالی کا تدارک اور توازن کے تقاضوں کی طرف اشارہ ضروری ہے۔

بے اعتدالی کی ایک بڑی قسم عقیدے سے متعلق ہے اور وہ انفرادی سطح پر بھی دیکھی جا سکتی ہے اور جماعتوں کے رجحانات کے طور پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس بے اعتدالی کا تعلق مسلمانوں کے آپسی تعلق سے بھی ہے اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات سے بھی گو کہ اول الذکر کا معاملہ زیادہ سنگین رہا ہے اور وہی دراصل بے اعتدالی کا مظہر بھی ہے جب کہ دوسرے کا مسئلہ بے اعتدالی سے زیادہ نصوص کے فہم اور تاویل کا ہے۔

عقیدے کے باب میں اعتدال کے تقاضے

عقیدے کے باب میں بے اعتدالی کے مختلف مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی بات پر ایک دوسرے کی تکفیر کرنا، جو چیزیں عقائد کا حصہ ہیں ہی نہیں ان پر غیر ضروری طویل بحث و مباحثہ کرنا، وہ امور جو اصل عقیدے کا حصہ ہیں، جو متفق علیہ اور واضح اور قطعی دلیلوں سے ثابت ہیں اور وہ عام نظری مسائل جو شروع سے اختلاف کا موضوع رہے اور جن کی دراصل اتنی اہمیت ہی نہیں کہ ان پر وقت صرف کیا جائے دونوں کے درمیان کے فرق کو ملحوظ نہ رکھنا، یہ اور ان جیسی بہتیری مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں بے اعتدالی کی۔ جب کہ عقیدے کے باب میں اعتدال کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیزیں صاف، محکم، اور قطعی مصادر سے ماخوذ ہوں اور قرآن و سنت میں واضح انداز میں عقیدے کے طور پر پیش کیا گیا انھی کو عقیدے کے طور پر دیکھا جائے اور ان کے بالمقابل نظری مسائل اور تاویل سے متعلق مسائل میں علمی ماحول میں تعامل کا راستہ اختیار کیا جائے۔ البتہ اس میں بھی اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ کن موضوعات پر وقت صرف کرنا مناسب ہے اور کن کو نظر انداز کرنا بہتر ہے۔ ساتھ ہی جیسا کہ ابن قیم کے حوالے سے ذکر کیا گیا کہ کسی ایک تاویل میں یا کسی فروعی مسئلے میں اختلاف ہو جانے کی بنیاد پر پورا الگ فرقہ قرار دینا اور ان سے مکمل طور پر براءت کا اظہار کرنا بھی اعتدال کی روح کے منافی ہوگا۔

شریعت کے باب میں اعتدال کے تقاضے

شریعت یا احکام کے باب میں بھی بے اعتدالی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ ایک سب سے اہم پہلو تو وہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا اوپر یعنی ثوابت اور متغیرات کے درمیان فرق سے بے توجہی۔ اسی طرح شریعت کے باب میں اعتدال کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ جس معاملے کی شریعت میں جتنی اہمیت ہو اس کے ذیلی احکام کو بھی اسی حساب سے اہمیت دی جائے۔ مثال کے طور پر تراویح کی اپنی حیثیت شریعت میں نفل یا سنت کی ہے لیکن اس کی رکعات کے مسئلے پر امت کو مختلف گروہوں میں بانٹ دینا کی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح عبادات میں کچھ مسائل ایسے ہیں جو دراصل ان عبادتوں کے ارکان کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان پر عموما مسلمانوں میں اتفاق ہوتا ہے ساتھ ہی کچھ جزوی اعمال ہوتے ہیں جن کی اہمیت ارکان جیسی نہیں ہوتی اور ان میں متعدد امکانات اور مختلف صورتیں ہوتی ہیں اور غالبا یہ تعدد خود اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ یہ مسائل اس قدر اہمیت کے حامل نہیں ہیں کہ ان میں اس قدر تحدید (precision یا exactness) رکھی جائے۔ لیکن ان مسائل میں کسی ایک صورت یا کسی ایک امکان کو لے کر اس قدر اہمیت دینا کہ اس کے لیے تحریکیں برپا کی جائیں اور اس کی بنیاد پر امت میں فرقہ بندی کی جائے ظاہر ہے اعتدال کے یکسر خلاف ہوگا۔

آخری بات

اعتدال کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی سامنے رہنا چاہیے کہ اعتدال پر موجودہ زمانے میں یہ غیر معمولی توجہ اور اس کا اتنا چرچا دراصل ایک مخصوص سیاسی اور سماجی صورت حال سے متعلق ہے اور خواہی نہ خواہی اس تعلق کے اثرات بھی اعتدال کے موجودہ پورے ڈسکورس میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے، ان کو دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کرنے کے لیے عالمی سطح پر بڑی کوششیں سامنے آئیں اس کے نتیجے میں مسلم علما و مفکرین کی جانب سے اس الزام کو دور کرنے کے لیے جن تصورات پر خصوصی توجہ ہوئی ان میں اعتدال اور امن قابل ذکر ہیں۔ چناں چہ امن سے متعلق لٹریچر ہو یا اعتدال سے متعلق، دونوں میں مدافعانہ ذہنیت کا وجود باقاعدہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ہر وہ رائے اور فکر جو غالب مغربی فکر کے لیے ناقابل قبول ٹھہرتی ہو وہ امن اور اعتدال کے نام پر بآسانی اسلام اور شریعت سے الگ کی جانے لگی اور جو لوگ اپنی تحریروں اور افکار میں غالب تہذیب اور نظام کے ساتھ سخت تنقیدی رویہ رکھتے رہے ان کو بے اعتدالی اور امن بے زاری کا الزام دیا جانے لگا۔ اس ردعمل اور مدافعانہ ذہنیت سے آزاد ہوکر اعتدال کے مختلف پہلوؤں کا صحیح ادراک کرکے، اعتدال کو اسلام کی ایک خصوصیت اور ایک قدر کے طور پر پڑھا جائے تو یہ اسلامی فکر کے لیے بہت ہی مثبت اور تعمیری اپروچ ہوگی۔

مراجع

  • فقہ الوسطیة الاسلامیة والتجدید۔ یوسف القرضاوی
  • الخصائص العامة للاسلام۔ یوسف القرضاوی
  • خصائص الفکر الاسلامی۔ عبد اللطیف فرفور
  • The Middle path of Moderation in Islam by Hashim Kamali
  • A Lifestyle of Moderation or Wasatiyyah: The Islamic Perspective by Hashim Kamali

مشمولہ: شمارہ فروری 2022

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223