جدید ورلڈ ویو – قرآن کریم کی روشنی میں

محمد ذکی کرمانی

ورلڈ ویو خاصی جدید اصطلاح ہے جو آج عالمی سطح پر ہر متحرک زبان میں مستعمل ہے۔ چاہے فلسفیانہ مباحث ہو ں یا تاریخ و معاشرت ہو یا ادب، ورلڈ ویو کا حوالہ ہر جگہ اعتبار کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسی وسیع چھتری کے مانند ہے جس کے تلے انسان خود اپنے وجود اور اپنی دنیا کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلیتا ہے اور اس طرح کرتا ہے کہ اس کے بعد پھر اس کی تمام سرگرمیاں معاملات، تخلیقات اور اپنی دنیا میں اس کی تمام مداخلتیں ان کا رخ اور ان کے مقاصد ایک معنویت اختیار کرلیتے ہیں۔ یوں دیکھیں تو ورلڈ ویو اکثر وجودیات (ontology)کا رول بھی ادا کرنے لگتا ہے۔ ترقی اور ارتقا کے ماڈل کی نقشہ گری میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ورلڈویو کے اثرات واضح ہوتے ہیں اور محض نقشہ گری ہی میں نہیں بلکہ پالیسی سازی، ترجیحات، بین الانسانی تعلقات، وسائل کی تقسیم، ریسرچ و تحقیق کا رخ اور انسانوں کی تخلیقی قوتوں کے اظہار میں بھی یہ بین السطور متحرک نظر آتا ہے، اس طرح دیکھا جائے تو ورلڈ ویو انسانوں کو کسی حد تک نفسیاتی و عملی استحکام عطا کرتا ہے اور انھیں قوموں، قبیلوں اور گروہوں کی تقسیم میں متحد بھی رکھتا ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ورلڈویو بالعموم جغرافیائی حدبندیوں کا شکار نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ دنیا میں ایک وقت میں متعدد ورلڈ ویو ہوسکتے ہیں، بحث آگے بڑھانے سے پہلے اس اصطلاح کا لفظی تجزیہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔

دولفظوں ورلڈ یعنی دنیا اور ویو (نگاہ) سے مل کر یہ اصطلاح بنی ہے۔ اس میں زیادہ اہمیت دیکھنے والے انسان کی ہے۔ مطلب یہ کہ انسان اس دنیا کو دیکھ کر کیا رائے قائم کرتا ہے اور اس سے کس طرح کا رشتہ قائم کرتا ہے۔یہی ورلڈ ویوکی اساس ہے۔ یہاں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس دنیا کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں کیا محض دیکھنے اور عقل کو متحرک کردینا ہی کافی سمجھتا ہے یا اس کے علاوہ کسی اور عنصر کا بھی کوئی رول ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مذہبی روایت انسان کے اس دنیا میں آنکھ کھولنے سے قبل ہی موجود ہوتی ہے جو کسی حد تک اسے ان سوالوں کا جواب مہیا کرنے لگتی ہے کہ وہ خود کیا ہے؟ اور نظرآنے والی کائنات سے اس کا تعلق کیا ہے؟ حالاں کہ مذہبی روایتیں بالعموم سوالوں کے عتاب سے نہیں گزرتیں لیکن عقل کی ارتقائی سطح کے اعتبار سے کبھی کبھی ان پر بھی سوال کھڑا ہوجاتاہے۔ گویا بحیثیت مجموعی ورلڈویو روایتوں اور عقل کے گرد قائم رہتا ہے، کبھی عقل غالب ہوکر روایت کے بعض پہلوؤں پر بے چینی کے پردے ڈال دیتی ہے اور کبھی روایت غالب ہوجاتی ہے اور عقل اس کے ساتھ صلح کرلیتی ہے، البتہ کسی بھی حال میں انسان کو ان سے مفر نہیں ہے۔

روایت کے پس منظر میں بالعموم مذہب اور مذہبی شعور کارفرما ہوتا ہے، بلکہ یہ کہنا بھی کوئی دور کی کوڑی لانا نہیں ہے کہ تمام ہی روایتوں کے پس منظر میں کوئی ایک ہی شعور ہے جو کبھی روایتوں میں خاصی گہری مماثلتوں کے ساتھ اور کبھی کم ہوتی ہوئی مماثلتوں کے ساتھ موجود نظرآتا ہے۔ اس کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ روایتوں کی تاثیر کا تعلق عقل انسانی کے ساتھ ان کے تعامل کا نتیجہ بھی ہے۔ عقل کا اطمینان ان روایتوں کو قدرے مؤثر اور اس کی بے اطمینانی ان کی تاثیر کو کم کردیتی ہے۔

معلوم ہوا کہ ورلڈ ویو کا رول روایت اور عقل دونوں سے طے ہوتا ہے۔ مذہبی روایت میں خدا کی حیثیت کیا ہے؟ یہ سوال ورلڈ ویو کی تشکیل کو متأثر کرتا ہے اور انسان اور دنیا کے ساتھ اس کے رشتہ کو استوار کرتا یا اس کی نوعیت کو واضح کرتا ہے۔ چناں چہ مذاہب بالعموم خدا کے تصور کے گرد ہی گھومتے ہیں، کہیں خدا یا تو محض ایک تصور بن کر رہتا ہے اور کہیں اس کا رول حرکی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس طرح ورلڈ ویو کی تشکیل میں خدا کا حرکی تصور دنیا کے ساتھ انسان کے تعامل کو جو شکل دیتا ہے وہ اس شکل سے کئی اعتبار سے مختلف ہوتی ہے جس میں خدا کا تعلق حرکی نہیں ہوتا اور انسانی سرگرمیاں آزاد روش اختیار کرلیتی ہیں۔ چناں چہ ورلڈ ویو کی تشکیل میں خدا اور انسان کے تعلق کی نوعیت اہم ہے، خدا اگر محض تصور ہے تو مذہب صرف روحانیت کا ایک روپ ہے اور اگر خدا کو مداخلت کا اختیار ہے تو ورلڈویو کی تشکیل میں خدا سے منسوب ہدایات اپنا رول اداکریں گی۔ لیکن بیسویں صدی میں ایک دوسرا لیکن خاصا دل چسپ نقطۂ نظر ابھراجو یہ تھا کہ خدا ہے یا نہیں، یہ سوال ہی خارج از بحث ہے۔ انسان کے مشاہدے، تجربے اور عقل کی صلاحیتیں نہ صرف اپنے مسائل حل کرنے بلکہ کائنات کے رازوں کو افشاکرنے کے لیے کافی ہیں۔اس نظریہ میں حرکیت بھی تھی اور ایک پر جوش خود اعتمادی بھی۔ یہی مغربی ورلڈ ویو میں بھی ڈھل گیا اور اسے بتدریج ترقی پذیز سائنس اور سماجیات اور انسانی علوم کے ارتقا نے اس طرح اپنایا کہ یہ تمیز ممکن نہ رہی کہ ورلڈویو ان علوم کی ترقی کی باعث ہے یا یہ علوم اس ورلڈ ویو کی تشکیل کا ذریعہ ہیں۔ آج کے دور میں غالب ورلڈ ویو یہی ہے، خدا کا وجود ہونا یا نہ ہو نا ذاتی مسئلہ ہے، بلکہ اس دنیا کے معاملات میں جو چاہے روحانی اور معاشرتی نوعیت کے ہوں یا طبعی، خدا کی مداخلت کا تصور بھی خالصتاًذاتی نوعیت کا ہے۔ اس کائنات اور انسانی معاشرہ میں رونما ہونے والے مظاہر کو ہم خدا کے بغیر سمجھ سکتے ہیں اور اس فہم کے ذریعے نوع بنوع سوالات اور مسائل کا حل دریافت کرسکتے ہیں، خدا ہماری روحانی ضرورت کو تو پورا کرتا ہے لیکن علم میں اس کا کوئی رول نہیں ہے، ہم اپنے طور پر نہ صر ف ترقی کرسکتے ہیں بلکہ اگر یہ ترقی نقصان دہ راہوں پر نکل جائے تو اس کا تدارک بھی خود کرسکتے ہیں۔ اس ورلڈ ویو کے غالب ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ بظاہر اس کے زیر سایہ دنیا نے زبردست ترقی کی ہے، ترقی کی رفتار اور اس کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ وہ خود ہی اس ورلڈ ویو کی صحت کا ثبوت بن گئی ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے انسان کی مذہب جیسی روحانی یا نفسیاتی ضرورت کی حوصلہ شکنی نہیں کی، کسی بھی نقطۂ نظر کا مالک اس ورلڈ ویو کے زیر سایہ سائنسی عمل اور تحقیق میں حصہ لے کر کام یابی حاصل کرسکتا ہے۔ آج ترقی و ارتقا کے عالمی پروگرام میں ہر نوعیت کی مذہبی شناخت کے مالک افراد شامل ہیں، وہ بھی جو کائنات کو ہی خدا کا درجہ دیتے ہیں اور وہ بھی جو ایک خدا کو تسلیم کرتے ہیں اسے برترین (supreme) مانتے اور دنیا کے معاملات میں اسے دخیل سمجھتے ہیں۔ وہ بھی جو خدا سے ایک زندہ اور ہمہ وقت ربط میں رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ بھی جو خدا کی نہ تو ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی ہدایت کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس غالب ورلڈ ویو کے اہم نکات کا ابتدائی تعارف کراتے ہوئے ہماری اپروچ یہ جاننے پر مرکوز ہوگی کہ انسان نے ذاتی طور پر کیا سوچا اور کیسے سوال اٹھائے ہیں جن کے ممکنہ جوابات نے جدید ورلڈ ویو کی تشکیل کی ہے۔

جدید ورلڈ ویو کے خدوخال

بعض بنیادی سوالات ہیں جو اس دنیا کا ہر انسان پوچھتا تو کم ہے لیکن ان کے پس منظر میں اپنے رویے ضرور بناتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جوفطرت کا حصہ ہونے کی بنا پر یا تو انسان کسی سے سن کر ان کے جوابات حاصل کرلیتا ہے یا پھر خود ہی کوئی رویہ اپنا لیتا ہے اور ذہنی سکون تلاش کرلیتا ہے۔ مذاہب کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس نوع کے سوالات حتمی نوعیت کے ہیں جن کا اظہار (articulation) تو کم ہی ہوتا ہے، لیکن ان کے جوابات رویوں میں ڈھل کر مذہبی روایتوں کو جنم دیتے ہیں۔ میرے خیال میں آٹھ سوالات ہیں جن کے جوابات نے آج کے ورلڈ ویو کی نقشہ گری کی ہے:

(1) سچائی کا معیار کیا ہے؟

کون سی اور کس کی بات پر اعتبار کیاجائے یعنی انسان اپنے رویوں کی تعمیر میں کس کی بات کو صحیح سمجھے یہ وہ سوال ہے جس کا ہر ایک کوسامنا ہوتا ہے، یعنی یہ سوال انسانی فطرت کا حصہ ہے، جس کا سامنا اس شخص کو بھی ہوتا ہے جو تہذیبی پیچیدگیوں سے بہت دور قبیلوں اور گروہوں کی شکل میں جنگلوں میں زندگی گزارتا ہے اور ان انسانوں کو بھی جو آج کی مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں سانس لیتے ہیں۔ ہماری علمی دنیا میں یہ سوالات دراصل epistemology یعنی نظریۂ علم کے تحت بحث کا حصہ بنتے ہیں۔

(2) کیا مادّی وجود حتمی نہیں ہے؟

آنکھوں سے نظر آنے والی دنیا ہی حقیقت ہے یا یہ حتمی نہیں ہے اور حقیقت اس سے کہیں آگے ہے، اس نوع کے مباحث پر آج ہم ما بعد الطبیعات (metaphysics)کے تحت غور و خوض کرتے ہیں۔

(3) کائنات کا علم

ہمارے سروں پر نظر آنے والا آسمان، اس میں موجود سورج، چاند اور ستارے وغیرہ یہ سب کیا ہیں ؟ کیا ان سے دور بھی کچھ ہے؟ یہ کب اور کیسے بنے؟ یہ کیسے متحرک ہیں ؟اس نوع کے سوالات کونیات (cosmology) کے تحت بیان کیے جاتے ہیں۔

(4) مقصدیت

اس وسیع و عریض کائنات اور اس میں موجود انسان آخر کس مقصد کے لیے یہاں موجود ہے؟ کیوں ہے؟ اور کس نصب العین کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، آج کے علمی دور میں ان سوالوں کو غایات (teleology)کے تحت سمجھا جارہا ہے۔

(5) دینیات

یہ پوری کائنات کیا کسی خدا کی تخلیق ہے؟ اگر ہاں تو اس کا ئنات سے اور انسان سے اس خدا کا کوئی تعلق بھی ہے؟ یہ تعلق کبھی کبھی کا ہے یا مستقل ہے؟ اس نوعیت کے سوالات پر آج ہم دینیات (theology)کے تحت غور و خوض کرتے ہیں۔

(6) علم الانسان

انسان یہاں کیسے موجود ہے؟ وہ کیا کرتا رہا ہے؟ انسان ان سوالات کا اور ان کے جوابات کا اظہار کس طرح کرتا ہے؟ یہ سوالات بہت قدیم ہیں اور آج کا انسان انھیں عمرانیات (anthropology) کے تحت اپنے غور و فکر اور جستجو کا محور بناتا ہے۔

(7) اقدار کا تعین

فرد ہو یا معاشرہ اچھے اور برے کے بارے میں کس بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں اور کسی رویہ اور عمل کی قدر قیمت کو کن بنیادوں پر اہمیت دی جاتی ہے یا انھیں اپنا یا جاتا ہے، آج کی دنیا میں اس طرح کے مباحث علم الاقدار(axiology)کے تحت حل کیے جاتے ہیں۔

(8) علم موجودات

حقیقت کیا ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے یعنی کیا وہ حسّی ذرائع تک ہی محدود ہے یا عقلی وجود کی بھی کوئی اہمیت ہے، اس نوع کے سوالات پر وجودیات (ontology) کے تحت بحث کی جاتی ہے۔

یہ وہ بنیادی نکات ہیں جو آج کے غالب ورلڈویو کی تشکیل میں اہم رہے ہیں لیکن خاص دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا سوالوں کے بارے میں کسی حد تک مذہب بھی جواب دیتا ہے اور آج کی جدید سائنس نے بھی کوشش کی ہے، یوں مذہب اور سائنس یا جدید علم پر مبنی ورلڈویو کی تشکیل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ورلڈویو کئی نکات میں مختلف ہوتے ہیں اور کیوں کہ مذاہب بھی مختلف پائے جاتے ہیں، اس لیے مذہبی ورلڈویو میں بھی باہم یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ مذہب کے حوالے سے ہمارے پیش نظر اسلام ہے جو اصلاً قرآن سے ماخوذ ہے، یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ورلڈویوکے نکات کی وضاحت ہم قرآن کے اپنے فہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرآن سے براہ راست مذکورہ بالا سوالوں کا جواب طلب کرتے ہوئے کریں گے۔ محمد رسول اﷲ ﷺ جو قرآن کے معتبر ترین شارح ہیں، ان کا حوالہ اگر ہوگا بھی تو وضاحت کردی جائے گی۔ اسی طرح سائنس کے سلسلے میں مسلمہ حقائق (established facts) پیش کیے جائیں گے۔ کسی معروف سائنس داں کا اگر حوالہ دیا جائے گا تو اس کی صراحت کردی جائے گی۔ البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ قرآن اور سائنس کے حوالوں میں ایک بنیادی فرق موجود ہے جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔قرآن تجربوں اور مشاہدات پر مشتمل کوئی بیانیہ نہیں ہے بلکہ مسلمان اسے خالق کائنات کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک ایسا ہدایت نامہ سمجھتے ہیں جو ان کی حتمی کام یابی کے لیے ہدایت دیتا ہے۔ یہ ہدایت نامہ تاریخ میں انسانی رویوں، کائناتی مشاہدات، انسانی کیفیات وغیرہ کے پس منظر میں کچھ نقطہائے نظر کی طرف بلاتا ہے اور عقل و تجربہ کی روشنی میں انھیں تسلیم کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ قرآن بالعموم ایسی کتابوں کے مانند نہیں ہے جو کسی موضوع پر ترتیب وار لکھی جاتی ہیں۔ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ اس میں کوئی بات غلط نہیں ہے اور یہ کہ یہ خدا کی تصنیف کردہ ہے۔ اس کا رواں موضوع (running theme)ہر ہر جملے سے عیاں ہے، لیکن مذکورہ سوالات یا کسی خاص موضوع پر قرآن کا نقطۂ نظر معلوم کرنے کے لیے اس پوری کتاب میں مختلف مقامات پر بکھرے ہوئے چیدہ چیدہ اشارے جب ایک خاص ترتیب میں پروئے جاتے ہیں تو ایک نقطۂ نظر یا ایک بیان (statement) ترتیب پاتا ہے۔ اس کے برخلاف جدید علوم کی نوعیت مختلف ہے، ان کا موضوع بھی الگ ہے اور طریقۂ کار بھی مختلف ہے، اس دنیا میں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ، ان کا تجزیہ اور اگر ہوسکے تو ان کی بنیادوں پر تجربہ اور عقل و تدبر کے ذریعے نتیجہ پر پہنچنا، یہ وہ مراحل ہیں جو سائنس کی شناخت ہیں اور اس میں یہ بھی انتہائی اہمیت کی حامل بات ہے کہ یہ نتائج اپنی نیچر کے اعتبار سے حتمی اور ناقابل تردید نہ ہوں [1] بلکہ یہ امکان موجود ہو کہ انھیں غلط ثابت کیا جاسکتا ہو۔ اس بنیادی فہم کے بعد دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا آٹھ نکات یا سوالوں کے باب میں سائنس کیا کہتی ہے اور مذہب یعنی قرآن کیا کہتا ہے؟

جدید ورلڈویو اور قرآن کریم

علم اور اس کا اعتبار

سائنس میں علم کا ذریعہ مشاہد ہ، تجربہ، عقل اور قابل اعتبار رپورٹس ہوتی ہیں، ان کے اعتبار کا معیار یہ ہے کہ وہ عقل کو اپیل کرتی ہوں اور انھیں از سر نو پیدا (reproduce) کیا جاسکتا ہو۔ ظاہر ہے کہ جاننے کا طریقہ اور اعتبار کا معیار انسان جو یعنی انسان مرکوز (human centered)ہے۔ لیکن یہ انفرادی مرکزیت نہیں ہے، کیوں کہ انفرادی نتائج بھی اس وقت ہی اہم ہوتے ہیں جب وہ از سر نو پیدا کیے جاسکیں، اسی بنا پر سائنس کے بہت سے پرجوش حامی ایسے نتائج کو سائنس کے معیار پر غیر معتبر قراردیتے ہیں جو یا تو انسانی تجربات و مشاہدات سے نہ آئے ہوں یا وہ کسی ماورائے انسان ذریعہ سے حاصل ہوئے ہوں۔

قرآن اس معیار صداقت پر معترض نظر نہیں آتا بلکہ مشاہدہ(بشمول تجربہ) اور عقل و تجربہ کے ذریعے کسی نتیجہ پر پہنچنے اور سننے کو حصول علم کا ذریعہ بتاتا اور اسی طرح دوسرے حسّی ذرائع کو تسلیم کرتا ہے اور ان کا ذکر بھی کرتا ہے[2] لیکن قرآن اس دنیا میں دو منطقوں (realms) کو تسلیم کرتا ہے، ایک وہ ہے جو حسّی ذرائع اور عقل کی گرفت میں ہے اور دوسرا ان سے ماورا ء۔ جو گرفت میں ہے اس پر عقل اور سائنسی طریقے نافذ ہوتے ہیں اور جیسا کہ بتایا گیا کہ ان طریقوں کی طرف قرآن اشارہ بھی کرتاہے اور انھیں مزید آگے بڑھانے کے لیے انسان کو آزاد چھوڑدیتا ہے۔ دوسرے منطقے کا تعلق اقدار (values) اور معتقدات (belief)سے ہے، جو تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت نہیں ہوسکتے البتہ ان کے اثرات جو مثبت ہوں یا منفی، عقل، مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعے ثابت کیے جاسکتے ہیں۔[3]

ما بعد الطبیعات

سائنس عملاً ایسے وجود سے علاقہ نہیں رکھتی جو طبعی دنیا سے ماوراء ہو یا ہمارے جسم میں موجود حسی ذرائع کی گرفت میں نہ آتا ہو۔قرآن اس کے برخلاف طبیعات سے ماوراء ایسی وجودی سطحوں کی طرف انسان کو دعوت دیتا ہے اور حقیقت کی ایسی سطحوں پر انسان کو یقین دلاتا ہے جو انسان کے حسی طریقۂ کار کی گرفت میں نہیں آتیں، لیکن وہ انسان کے وجود، اس کے رویوں، طرز فکر وغیرہ کو متاثر کرتی ہیں۔ ما بعد الطبیعاتی منطقےکو جاننے اور سمجھنے کا طریقہ حسی دائرےسے مختلف ہے۔ قرآن حقیقت کی کثیر تہوں (multiple layers) کی طرف دعوت دیتا ہے، حقیقت کی یہ سطحیں ایک دوسرے سے بالکل آزاد (independent) ہیں لیکن انسان حقیقت کی اس دنیا سے اپنا تعلق بعض تصوراتی اقدار (conceptual values) کو اپنا کر قائم کرتا اور مابعد الطبیعیاتی حقیقت (physical reality)کو متاثر کرسکتاہے۔[4]

علم کائنات

کائنات کے بارے میں سائنس کے ابھی تک کے اندازے یہی ہیں کہ اس کا آغاز بگ بینگ کے ساتھ ہوا، جس کے نتیجہ میں نظرآنے والی متعدد آسمانی اشیاء اور زمین وغیرہ وجود میں آئیں اور انرجی اور زمان و مکان کا آغاز ہوا۔ کائنات ارتقا کرتے کرتے آج جس مقام پر ہے اسے 13 ارب سال کے لگ بھگ لگے ہیں، آسمان میں نظر آنے والی یہ تمام اشیاء مستقل حرکت میں ہیں۔ قرآن اشارہ کرتے ہوئے اس کائنات کے آغاز کو ایک عظیم فشار کا نتیجہ قراردیتا ہے، اس سے قبل زمین و آسمان جڑے ہوئے تھے، جو دھماکے کے نتیجے میں الگ ہوگئے۔ جب خدا نے آسمانوں کی طرف توجہ کی تو وہ دھویں جیسا تھا[5]، قرآن کہتا ہے کہ یہ کائنات چھ ایام میں بنی، قرآن کا ایک دن ہماری زمین کے 24 گھنٹے نہیں بلکہ یہ ایک طویل مدت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قرآن اشارہ کرتا ہے کہ ہر چیز تیر رہی ہے[6]، رکی ہوئی یا ٹھہری ہوئی نہیں ہے، قرآن کہتا ہے کہ یہ پوری کائنات پھیل رہی ہے[7] اور یہ ایک دن ختم ہوجائے گی۔

انسان کیوں اور کائنات کس لیے؟

مذکورہ بالا سوال سے سائنس بحث نہیں کرتی، انسان یا اس کائنات کی تخلیق کس مقصد کے لیے کی گئی ہے، یہ سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے، البتہ سائنس یہ ضرور بتاتی ہے کہ انسان اور اس زمین و کائنات کی مختلف اشیاء میں گہرے رشتے پائے جاتے ہیں، جن کا خیال رکھنا انسانی و زمینی حیات کی بہتری کے لیے ضروری ہے، سائنس کے مطابق ان رشتوں کا ادراک انسان کو کائنات میں مداخلت کے بعد اس کے نتائج آنے پر ہی ہوتا ہے، یہ نتائج اگر منفی اور ضرررساں ہیں تو ان کی تصحیح بھی سائنس بعض نئے تجربات اور فکر و تدبّر کے ذریعے ہی کرتی ہے، اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے، لیکن اگر پرانے مسائل حل ہوجاتے ہیں تو نئے مسائل ابھرنے لگتے ہیں اور کائنات پھرتشدد (violence) اور فساد (disturbance)سے بھرنے لگتی ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ انسان خدا کی تخلیق ہے اور بنیادی طور پر عبودیت یعنی فرماں برداری سے عبارت ہے اور یہ فرماں برداری اسے اس کائنات میں پھیلی ہوئی اشیامیں مداخلت کرکے انجام دینی ہے[8]۔ قرآن یہ بھی باور کراتا ہے کہ اس کائنات میں اپنے با معنی وجود اور عبودیت کے منصب کو پورا کرنے کے لیے تجربہ، مشاہدہ اور عقل ضروری تو ہیں لیکن کافی نہیں ہیں، چناں چہ اسے ماورائے انسان ذرائع سے خدائی ہدایت دی جاتی ہے جس کی بدولت وہ کائنات میں دخل اندازی کرتے ہوئے مذکورہ بالا رشتوں کو ملحوظ رکھتا ہے اور تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے ترقی وار تقاء کا ذریعہ بنتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا کا تعلق اس کائنات اور انسان سے مستقل بنیادوں پر قائم ہے،[9] قرآن خدا کی لفظی ہدایت کی آخری شکل ہے، اس سے قبل بھی ہدایت انسانوں تک پہنچتی رہی ہے۔

حیات انسانی کے مختلف مراحل

یہ سوال ہر انسان کے ذہن میں مختلف شکلوں میں آتا ہے کہ حیات انسانی اپنے آغاز سے کن کن مراحل سے گزری ہوگی۔ اور محض حیاتیاتی مراحل نہیں بلکہ یہ بھی کہ انسانی زبان، اس کے کلچر اور اس کے طرز رہائش نے کس طرح ترقی کی۔

بنیادی طور پر یہ چاروں میدان مشاہدہ، تجربہ اور تعقل کی زد میں آتے ہیں اور آلات (tools) کی مدد سے سوالوں کے جواب سائنس نے حاصل کیے ہیں، یہ جواب یقینا حتمی نہیں ہوتے کیوں کہ یہ داستان ابھی جاری ہے، انسانی زندگی کے حیاتیاتی مراحل کے بارے میں سائنس کہتی ہے کہ حیات کاآغاز مٹی سے ہوا اور مختلف ارتقائی مراحل سے گزرے ہوئے زندگی کی مختلف شکلیں بننے لگیں، انسانی زندگی اپنے ارتقائی مراحل میں مختلف شکلوں میں تھی، یہ شکلیں ارتقا پذیر رہیں اور مختلف عوامل کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں اور نئی انواع و جود میں آتی رہیں۔ انسان بھی اس ارتقائی عمل کی ایک شکل ہے۔ حیات انسانی کے بارے میں ڈارون کی اصل الانواع (Origin of Species) آج اس باب میں سائنس کا اولین اشاریہ ہے۔ حالاں کہ اب یہ نظریۂ ارتقا کی مختلف تبدیلیوں سے گزرچکا ہے۔ زبان کا ارتقا ء بھی مختلف تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ زبان کے ارتقا کے بارے میں تصور یہ ہے کہ اولاً انسان نے وہ آوازیں نکالنی شروع کیں جو اسے اردگرد میں فطرة سنائی دیتی تھیں، ایک خیال یہ بھی ہے کہ ابتداء میں چیخنے، رونے بڑ بڑانے کی آواز یں نکالنی شروع کیں، ظاہر ہے کہ یہ آغاز انسان نما مخلوق (homonids)یا انسانوں کے مورث اعلی (human ancestors)کی جانب سے ہوا تھا۔

آغاز حیات کے باب کو قرآن موضوع نہیں بنا تا لیکن چوں کہ اس کا خطاب انسان سے ہے اس لیے اس طرح کے متعدد موضوعات پر قرآن اکثر و بیشتراشارے ضرور کرتا ہے۔ چناں چہ قرآن نے کہا کہ زندگی کی ابتداء زمین پر ہوئی اور مٹی و پانی کے آمیزے سے ہوئی، زندگی کی اولین شکل ایک یک خلیہ جرثومہ تھی جو ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے سوچنے سمجھنے اور بولنے والے انسان تک پہنچی۔ قرآن جرثومہ کی شکل کو ہی انسان کہتا ہے[10]، اس کی ارتقائی شکلیں اس طرح آئیں کہ ہر پرانی شکل معدوم ہوگئی اور اسی طرح نئی شکل ارتقا پاکر دوسری نئی شکل بن گئی اور قبل کی شکل ختم ہوگئی، قرآن اس طرح انسانی حیات کے ارتقا میں مختلف مراحل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[11] جس میں اربوں سال لگے ہیں، اس طویل عرصہ کی طرف قرآن اشارہ کرتا ہے[12]، بولنے اور سننے کی صلاحیتیں ان ہی مختلف مراحل میں ظاہر ہوئیں[13]، قرآن کہتا ہے کہ اسی ارتقا یافتہ شکل تک پہنچتے پہنچتے آدم یعنی اولین آدمی جو آج کے انسانوں کا باواآدم ہے پیداہوا، جس کے اندران تمام صلاحیتوں کی ابتدائی استطاعت موجود تھی جو ترقی کرتے کرتے آج کے انسان میں نظر آتی ہیں، آدم کی پیدائش قرآن کے مطابق ایک نفس واحدہ سے ہوئی[14] اور اسی سے اس کی ساتھی عورت کی پیدائش ہوئی اور آج کے تمام انسان اسی اولین جوڑے کی اولاد ہیں۔[15]قرآن کے مطابق آدم حیاتیاتی ارتقا کا اعلیٰ ترین اور آخری مرحلہ تھے جن کے بعد ذہن، فکر، عقل، کلچر اور تہذیبی ارتقا ہوتا رہا اور آج بھی جاری ہے۔ البتہ اعضا (anatomical)کا ارتقا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔

قدروں کا تعین

کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ کون سے رویے درست ہیں اور کون سے غلط، ان سوالات کا جواب انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، سائنس بھی اس سلسلے میں رہ نمائی کرتی ہے اور قرآن بھی ایک نقطۂ نظر دیتا ہے۔

جس طرح اشیاء کی قدر ان کی ضرورت کے پیش نظر ہوتی ہے اسی طرح سائنس ان رویوں کو اچھا اور درست کہتی ہے جو انفرادی اور اجتماعی مفاد کے حامل ہیں اور مفاد کا تعین بھی مشاہدہ اور تجربہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ سائنس کے ذریعے قدرکے تعین میں یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کا فیصلہ ہر قوم کے لیے فائدہ مند ہو، اس کے فائدے کی آگہی ان ہی کو ہوگی جو سائنسی اعتبار سے مستحکم ہوں گے، کم زور سائنس کی حامل اقوام کے لیے سائنسی اعتبار سے مستحکم و مضبوط اقوام کے فیصلے ممکن ہے کہ ان کے استیصال کا ذریعہ بن جائیں، مزیدیہ کہ سائنس کا اخلاقی معیار سیاسی فیصلوں کا مرہون منت بھی ہوسکتا ہے۔

اقدار کے تعین میں قرآنی اپروچ یہ ہے کہ رویوں کی قدروقیمت زمان و مکاں کی پابند نہیں بلکہ یہ مستقل ہے، قرآن کا تصوریہ ہے کہ انسان اصلاًایک اخلاقی وجود ہے اور اچھے برے کی تمیز اس کے اندر فطرتاًموجود ہے۔ فائدہ مند شئے کا اچھا ہونا اور نقصان دہ چیز کا براہونا اصول نہیں ہے گوکہ یہ بعض حالات میں درست ہوسکتا ہے۔ البتہ بالعموم اس کا فیصلہ انسانی ضمیر کرے گا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح اور اس کے نتیجہ میں کوئی نقصان پہنچانے والا عمل بھی قابل ترجیح ہوسکتا ہے اور ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب کسی قدر کی اہمیت نقصان اور فائدے میں نہیں تولی جاتی، قرآن کا نقطۂ نظر یہی ہے۔

 حقیقی کیا ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے؟

یہ سوال کہ کیا موجود ہے یا حقیقی وجود کیا ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے؟ (فلسفہ نے اسے وجودیات یا ontologyکہا ہے) یعنی یہ نظریا تی اور تصوراتی ہے یا واقعی وجود رکھتی ہے جیسے سوالوں کا جواب آج کے فلسفہ اورسائنس نے بھی دیا ہے اور قرآن کریم بھی دیتا ہے۔ سائنس کسی شئے کے وجود کے لیے مادّی پیرامیٹروں کو اہمیت تو دیتی ہے لیکن ریاضی کے ذریعے ثابت شدہ وجود کو بھی تسلیم کرتی ہے۔ کیمسٹری کے بہت سے تعاملات میں دوران عمل ایسے سالمات کا لمحاتی و جود تسلیم کیا جاتا ہے جنھیں علیحدہ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن انھیں تسلیم کیے بغیر ہم حتمی پروڈکٹ تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایسے وجود بالعموم حسّی آلات کی گرفت میں نہیں ا ٓتے البتہ عقل انھیں تسلیم کرتی ہے۔

قرآن بھی وجود کی ایسی ظاہری شکلوں کو جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر انسان کے حیطہ ادراک میں آجائیں انھیں حقیقی قراردیتا ہے۔ قرآن کی اپروچ یہ ہے کہ انسانی عقل اور اس کے حسی ذرائع ادراک زمان و مکاں کے پابند ہیں۔ اس لیے اسے اپنی عقل کے تزکیہ کے ذریعے زمان و مکاں کی تنگ نائیوں سے نکل کر سوچنا اوریقین کرنا چاہیے۔

سائنسی اورقرآنی اپروچ

یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ بنیادی اور حتمی نوعیت کے سوالوں اور ان کے جوابات دوٹوک اور بالکل واضح طور پر نہیں دیے جاتے بلکہ ان میں فلسفیانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ حالاں کہ سوالات عام انسان کو درپیش ہوتے ہیں لیکن عام انسان کی کم زوری یہ ہے کہ وہ انھیں بیان (articulate) نہیں کرپاتا بلکہ غیر شعوری طور پر ہی سہی ان کے جوابات کو اپنے رویوں میں تبدیل کرلیتا ہے۔ جولوگ بیان کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ان رویوں کو دیکھ کر سوالوں کا ادراک کرلیتے ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان بظاہر فلسفیانہ سوالات کے جوابوں کی جڑیں جہاں آج سائنس اورسائنسی طرز فکر میں بھی پیوست نظر آتی ہیں وہیں قرآن بھی اس نوعیت کے سوالوں کے جواب فراہم کرتا ہے اور آپ نے دیکھا کہ کس طرح ان جوابوں میں کہیں تو سائنس کے ساتھ گہری مماثلت پائی جاتی ہے اور کہیں یہ جواب جزوی طور پر مختلف ہوجاتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سائنس خالصتاًایک انسانی تخلیق ہے اور اس کی اپروچ اور نتائج کا ماخذ انسانی ذہن ہے جب کہ قرآن مسلمانوں کے نزدیک انسانی تخلیق نہیں بلکہ خدا کی تخلیق ہے جو محمد رسول اﷲ پر وحی کے ذریعے انسانوں کے لیے پہنچی ہے۔ مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ متعدد میدانوں میں سائنسی نتائج اورقرآن کے اشارے گہری مماثلت رکھتے ہیں جب کہ بعض میدان ایسے ہیں جن کے بارے میں قرآن عقل انسانی کو محدود گردانتا ہے یعنی انسان کے پاس موجود ادراکی آلات (cognitive tools) کی محدود رسائی کا تصور دیتا ہے، جیسا کہ اپیسٹمولوجی، علم الاقدار، وجودیات اور مابعد الطبیعیات وغیرہ کے بارے میں قرآنی نقطۂ نظر سے اندازہ ہوتا ہے۔ یعنی ان میدانوں میں عقل انسانی محض جزوی سچائی ہی دریافت کرسکتی ہے۔بالفاظ دیگر کسی بھی میدان میں عقل انسانی مکمل طور پر رسا نہیں ہے۔

ادراکی آلات کی محدود یت کی تلافی قرآن نے عقائد کے ذریعے کی ہے۔ عقائد دراصل مذکورہ بالا اور ان جیسے میدانوں میں انسانی عقل کے تزکیہ (cleansing) کے ذریعے اس کی محدودیت کو ختم کردیتے اور تجسس کی راہ کو آسان تر اور وسیع تر کردیتے ہیں اور اس طرح کے ممکنہ نقصانات سے انسان کو محفوظ کرنے کا کام کرتے ہیں۔

کچھ اس قسم کی صورت حال سائنس کے ساتھ بھی ہے۔ بیکسن (Gregory Backson)نے بہت خوب صورت بات کہی ہے کہ ہر تعریف کی بنیاد رشتوں پر ہونی چاہیے، اور ہمیں بچوں کو کسی چیز کے بارے میں یہ نہیں بتانا چاہیے کہ وہ اپنے آپ میں کیا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہیے کہ دوسری اشیا کے ساتھ اس کا کیا رشتہ ہے۔ اس طرح سائنس اشیا کے درمیان رشتوں کے مطالعے کا نام ہے۔[16] گوکہ اس قسم کا احساس سائنس کو اس وقت ہوچکا تھا جب دوسری جنگ عظیم کے مشاہدات پر مشتمل الیکس کارل کی ایک کتاب Man the Unknown منظر عام پر آئی تھی۔ لیکن بیسویں صدی کے آخر میں ماحولیاتی بحران کے سامنے آنے کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس طرح انسانی جسم محض ایک مشین نہیں بلکہ اس کا ہر ہر عضو دوسروں کے ساتھ بڑے گہرے رشتوں میں بندھا ہوا ہے اسی طرح ماحولیاتی کرائسس نے یہ سمجھایا کہ پورا گلوب ایک جسم کے مانند ہے جس کے کسی ایک حصے کو منفی یا مثبت طور پر متاثر کرتا ہے اور کیوں کہ انسان ان تمام رشتوں سے بیک وقت آگاہ نہیں ہوسکتا اس لیے نقصان اُٹھانے کے بعد ہی وہ متنبہ ہوتا ہے۔ یا تو ہمارے پاس ایسی ٹکنالوجی موجود ہو جو ان پیچیدہ اور پھیلے ہوئے رشتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہماری تگ و تاز کو مناسب رُخ دے کر نقصان سے محفوظ کردے یا پھر ایسی قابل عمل اقدار سے ہم آگاہ ہوں جو ان پیچیدہ رشتوں کی حفاظت کرتی ہوں۔ مذکورہ ٹکنالوجی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، اس لیے اقدار کے موضوع پر اس بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔ (جاری)

حواشی و حوالہ جات

[1] اشارہ پیپر (Karl Popper) کے نظریہ تغلیط پذیری (falsifiability theory) کی طرف ہے جس کا منشا میرے خیال میں یہ ہے کہ سائنس کے ہر نظریہ میں ارتقا کا امکان ہوتا ہے، وہ زمان و مکان کے اعتبار سے ہی حتمی ہوتا ہے۔ زمان و مکان کی تبدیلی اس نظریے کو تبدیل کرسکتی ہے۔ اور یہ سائنسی ارتقا کا ذریعہ بنتی ہے۔

[2]  a) جس کا تمھیں علم نہ ہوسکے اس کی جستجونہ کرو کیوں کہ سمع، بصر اور فواد کے بارے میں سوال ہوگا (17: 36)

[3] (b) جو ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے وہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔ ’’ذہن اور قلب ہے لیکن اس سے سوچتے نہیں اور محسوس نہیں کرتے۔ آنکھیں ہیں لیکن دیکھتی نہیں، کان ہیں لیکن سنتے نہیں‘‘ (7: 71)

[4] جب  اﷲ نے عقل پید ا کی تو اس سے کہا ’’آگے آ‘‘، یہ آئی۔ تب کہا کہ واپس جا۔ وہ پیچھے مڑ گئی۔ فرمایا ’’میرے نزدیک تجھ سے اچھی اور محبوب چیز میں نے نہیں پیدا کی۔ یقیناً تیرے ہی ذریعے میری عبادت ہوگی اور تیرے ہی ذریعے میں پہچانا جاؤں گا۔ تیرے ہی ذریعہ میں لوں گا اور تیرے ہی ذریعہ میں دوں گا (روایت حسن بصری، بحوالہ rattibha.com)

[5] قرآن وجود کی ایسی سطحوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس زندگی میں ماورائے مادّہ ہیں مثلاً روح، جنت دوزخ، جنات اور فرشتے وغیرہ یہ اپنا آزاد وجود رکھتی ہیں لیکن انسان اپنے رویوں (اقدار) سے ان سطحوں کے ساتھ اپنے تعلق کو بہتر کرسکتا ہے۔

[6] قرآن کہتا ہے کہ چاند، سورج وغیرہ آسمان میں تیر رہے ہیں (الا نبیاء 21: 33؛ یٰسین 36: 40)

[7] کائنا ت پھیل رہی ہے ’’آسمان کو ہم نے قوت سے بنایا اور ہم اسے پھیلارہے ہیں۔‘‘ (الذاریات: 51: 47)

[8] کائنات انسان کے لیے مسخر ہے۔ انسان اس میں مداخلت کرے گا۔ اور اس مداخلت کے نتیجہ میں فساد بھی ہوسکتا ہے اور امن و عدل کاقیام بھی اور یہ انسا ن کا امتحان ہے۔

[9] اسمائے الٰہی کے معنی خدا کا اس دنیا سے مستقل تعلق رکھنا شامل ہے۔ ہر اسم الٰہی ہمارے اور ہماری کائنات کے ساتھ خدا کے زندہ اور ہمہ وقت تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

[10] ھل أتی علی الانسان حین من الدھر ( سورہ الانسان۔76: 1 )

[11] ارتقائے انسانی کے مراحل کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو مرحلہ وار پیدا کیا۔ (سورة النوح 71: 14، الاعراف 7: 1)

[12] ارتقائے انسانی کے مراحل کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو مرحلہ وار پیدا کیا۔ (سورة النوح 71: 14، الاعراف 7: 1)

[13] بولنے و سننے کی صلاحیتیں : قرآن سورة الحجر (15: 26;28: 35)میں لفظ مسلسل کا استعمال کرتا ہے جن کے معنی آواز نکالنے کے ہیں۔

[14] انفسِ واحدہ سے ابن آدم کی پیدا ئش کا آغاز (ا لزُمر: 39.6)

[15]  تمام انسان اوّلین جوڑے کی اولادہیں (الحجرات 49: 13 )

[16] سائنسی اشیا کے درمیان رشتوں کا مطالعہ ہے فرٹجوف کیپرا نے اپنی کتاب The Turning Point صفحہ 81تا 87 پر Gregory Batesion کے حوالے سے اس تصور کا تعارف کرایا ہے۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2022

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau