مولانا محمود خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک نہایت سرگرم، مخلص اور متقی وپرہیزگار تحریکی رہ نما تھے۔ وہ ہر وقت تحریک کے فروغ اور توسیع کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔ وہ ۳/ دسمبر۲۰۱۱کو اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ یہ خبر سن کر بے حد افسوس ہوا ۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔میرا ان سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ ان کی شفقت و محبت کی تمام باتیں ایک ایک کرکے یاد آنے لگیں۔
میں سرکاری ملازمت میں افسر تھا۔ ۱۹۸۷ میں میرا تبادلہ گلبرگہ کے لیے ہوگیا۔ ۱۹۸۹میں رکنیت کے ساتھ گلبرگہ شہر کی امارت کی ذمے داری بھی مجھے دے دی گئی۔ اُس وقت مولانا محمود خاں مرحوم امیر حلقہ تھے۔ گلبرگہ بہت بڑا شہر ہے۔ یہ میرا وطن بھی نہیں تھا۔ میں اس اہم ذمے داری کو قبول کرنے سے گھبرا رہا تھا ۔مگر مولانا کی ہمت افزائی نے حوصلہ دیا۔ اس طرح تقریباً گیارہ سال تک مولانا سے میرا بہت قریبی تعلق رہا۔ مولانا کے ساتھ گزرے ہوئے دنوں کی چند یادیں اور باتیں سپرد قلم کررہا ہوں۔ تاکہ مولانا محترم کی تحریکی فکر سے رفقاء واقف ہوجائیں اورانھیں اپنے تحریکی سفر میں مدد ملے۔
مولانامحمود خاں صاحب کی خاص خوبی یہ تھی کہ وہ رفقاء اور دوسرے عام لوگوں کے مسائل سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ مولانا نے ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد ایک چھوٹی سی کرانے کی دکان کے سہارے گیارہ بچوں کی پرورش کی۔وہ تحریکی مصروفیات کی وجہ سے گھروالوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکے، اس کا انھیں شدید احساس تھا۔
مولانا کا سیاسی شعور اور حالات پر نگاہ قابل تعریف ہے۔ ۱۹۹۲ء میں جب جماعت پر پابندی عائدکی گئی ، اس وقت یہ حالت میرے لیے نئی تھی۔ میرے لیے یہ نیا تجربہ تھا۔ انتظامیہ اور پولیس کے ذمے دار ۱۴/دسمبر ۱۹۹۲ء کے دن میرے گھر آئے۔ مولانا نے سب سے آگے بڑھ کر میرے گھر پردستک دی اور کہا کہ ’’گھبرائیے مت ۔ پولیس کے ساتھ میں موجود ہوں‘‘۔اس وت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ پورے گلبرگہ میں کرفیو تھا۔ کیوں کہ شہر میں پولیس کی فائرنگ سے آٹھ مہمانوں کی شہادت ہوگئی تھی۔ مولانا کے الفاظ سے مجھے بڑی راحت ملی۔ گھر میں گفتگو کے دوران میں مولانا نے پولیس کے ذمے داروں سے کہا کہ ’’آپ لوگوں کا واسطہ ہمیشہ مجرموں سے ہوتا ہے۔ ہمیں چور ڈاکو مت سمجھیے۔ ہم اللہ سے ڈرنے والے لوگ ہیں۔ دوسرے دن پھر مجھے اور مولانا کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔دیر تک ہم کو وہاںبٹھایا گیا۔ مولانا نے کہا: ’’کیا یہ گرفتاری ہے؟‘‘۔ پولیس حکام نے کہا: ’’نہیں صرف پوچھ تاچھ کرنی ہے‘‘۔ پھرجماعت کے آفس کے ایک کمرے میں لے گئے۔ پولیس نے مجھ سے الماری کھولنے کے لیے کہا۔ میرے پاس کنجی نہیں تھی۔ مولانا نے مجھ سے کہا آپ گھر جاکر کنجی لے کر آئیے۔ ورنہ یہ لوگ سمجھیں گے کہ الماری میں اسلحہ ہے۔میں پولیس کی جیپ میں گھر گیا اور کنجی لاکر الماری کھول کر دکھائی۔ اس میں صرف قرآن مجید اور کچھ کتابیں تھیں۔ اسی وقت مولانا نے مجھ سے کہا: ’’اِن سب لوگوں کو قرآن مجید اور کتابوں کے نسخے دو۔
جماعت پر پابندی کے وقت مولانا کہا کرتے تھے : ’’ہم قانون کا لحاظ کریں گے ۔ دسمبر ۱۹۹۴ میں جب جماعت بحال ہوئی، مولانا نے سب سے پہلے فون پرمجھے اطلاع دی اور کہا کہ ہم سب اسی رات مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اور دوبارہ پوری قوت سے سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
حیدرآباد پولیس ایکشن کے بعد مسمار شدہ کئی مساجد کودوبارہ تعمیر کرنے میں مولانا کا بہت اہم رول رہا۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً تین سو مساجد تعمیر کی گئیں۔ میں کئی مساجد کے افتتاحی پروگراموں میں شریک رہا۔ بڑی تعداد میں برادران وطن بھی شریک رہے۔ مولانا نے سب کو کنڑ قرآن مجید کاتحفہ دیا۔
مولانا محترم مہمان نوازی سے بہت دل چسپی تھی۔ جب بھی ذمے داران جماعت دورے پر آتے تھے ان کے کھانے کا انتظام اکثر مولانا کے گھر ہی پر ہوتا تھا۔ ایک بار میں نے ہوٹل میں کھانے کی بات کی تو وہ ناراض ہوگئے۔
مولانا برادران وطن خاص کر پڑوسیوں کے ساتھ بہترین تعلقات رکھتے تھے ۔ وہ کرایہ کے جس مکان میں پچیس تیس سال تک رہے، مالک کے کہنے پر اُسے فوراً خالی کردیا اور دوسرا گھر خریدنے کی کوشش میں لگ گئے۔ پڑوس میں غیر مسلم ڈاکٹر نرسنگی تھے ، وہ اپنا گھر فروخت کر رہے تھے، لوگ اسے اچھی قیمت پر خریدنے کے لیے تیار تھے، مگرڈاکٹر صاحب نے کم قیمت میں مولانا کو گھر فروخت کیا اور کہا کہ ’’میں یہ گھر صرف مولانا کو ہی دوں گا، چاہے مجھے کم قیمت ہی کیوں نہ ملے۔
مولانا شامیانوں کا کام کرتے تھے۔جماعت کے بڑے بڑے پروگرام گلبرگہ ضلع میں ہوتے تھے۔ جماعت کے کاموں کے لیے انھوں نے شامیانوں کاکبھی کرایہ نہیں لیا۔ ایک بار مقامی خواتین کے ہفتہ وار اجتماع میں کوئی مسئلہ درپیش تھا۔ میری اہلیہ نے مولانا کے سامنے اسے رکھا۔ اُس وقت وہ امیرحلقہ تھے۔ انھوں نے اسی وقت آکر مسئلے کو حل کیا اور خواتین کی ہمت افزائی فرمائی۔
میں اکثر تحریکی کاموں کے لیے اپنا اسکوٹر استعمال کرتا تھا۔ ایک بار مولانا نے کہا کہ جماعت کے کاموں کے لیے جماعت کے بیت المال کے پیسے سے پٹرول کا استعمال کیجیے۔ اس سے کام میں تیزی آئے گی۔ مولانا نے تحریکی کاموں کے لیے گلبرگہ ضلع کے کئی گائوں کا دورہ کیا۔ میں بھی کئی بار ان کے ساتھ رہا۔ ایک بار مولانا کے ساتھ ہم ایک گاؤں جارہے تھے۔ بہت دیر تک کوئی بس نہ ملی۔ مولانا کے کہنے پر ہم ایک ٹریکٹر میں بیٹھ گئے، جس میں فرش کے پتھر رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً بہتر برس تھی۔
مولانا کے تحریکی کام تمام رفقاءکے لیے ایک نمونہ ہیں۔ انھیں تحریکی رفقاء کے سامنے رکھنا چاہیے۔ تاکہ ان کے اندر سرگرمی پیدا ہو اور وہ نئی میقات کو سامنے رکھ کر پوری طاقت کے ساتھ تمام اہداف (Targets) حاصل کرنے کی فکر کریں، دوڑ دھوپ کریں اور ذمے داروں کے ہاتھ مضبوط کریں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا محترم کی مغفرت فرمائے۔ گھر والوں کو صبر جمیل عطا کرے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ آمین!
مشمولہ: شمارہ اپریل 2012