مرکز جماعت میں منعقدہ اجلاس مجلسِ نمائندگان ﴿۳/تا ۶/اپریل ۲۰۱۱ء﴾ کے ابتدائی دنوں کا ایک منظر ہم سب کو متاثر کررہا تھا۔ وہیل چیئر پر چند رفقائ مولانا محمد شفیع مونس صاحب کو بڑے اہتمام سے اجلاس کے شروع ہونے سے قبل ہی اجتماع گاہ میں چھوڑ جاتے۔ اور مولانا خاموش اپنی کرسی پر بیٹھے کارروائی کا مشاہدہ کرتے۔ مولانا کی اس وقت کی حالت ہم سب پر واضح تھی، نہایت علیل تھے اور اطراف کے ماحول سے مکمل واقفیت میں ان کی کمزور قوتِ سماعت مانع ہورہی تھی۔ اجتماع گاہ میں تشریف لانے والے ارکان، نمائندگان، مولانا محترم سے سلام کلام کرتے۔ میں نے بھی پہلے ہی دن سلام کے بعد مولانا محمد سراج الحسن صاحب سابق امیر جماعت کا سلام سنایا۔ مولانا مونس صاحب نے بڑی دھیمی آواز سے سلام کا جواب دیا اور مولانا کی خیریت دریافت فرمائی۔ مولانا مونس صاحب کا اجلاس میں پابندیٔ وقت سے شریک ہونا، اجلاس میں داخل ہونے والوں کو نظم کی پابندی کا درس دے رہا تھا۔ یوں تو فرد کا عمل اس کا ظاہر ہے، لیکن اللہ واسطے کیا جانے والا عمل اس کا صاف و شفاف اور پاکیزہ اندرون ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے ایسے اعمال کو دل کے تقویٰ ﴿تقوی القلوب﴾ سے واضح فرمایا ہے۔
۶/اپریل، چوتھے دن ، اللہ کے دین کے اس جاں باز سپاہی کی اجلاس میں عدمِ شرکت، محترم قیم جماعت نصرت علی صاحب کے اس اعلان کے ساتھ واضح ہوئی کہ انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ پھر اسی دن ظہر کے قریب یہ اندوہ ناک خبر سننے کو ملی کہ وہ انتقال فرماگئے۔ اِنَّا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
ہمیں ایک ایسی عظیم شخصیت کو اپنے کاندھوں پر سوار کرتے ہوئے ربِ کریم کو لوٹانے کا شرف ملا، جس نے ان کے دین کی امانت کو اس کے بندوں تک پہنچانے میں اپنا سب کچھ لگادیا اور اپنی ساری زندگی وقف کردی۔ بندوں کے اعمال سے، منشاءءخداوندی ظاہر ہوتا ہے، ملک کے طول و عرض سے تشریف لائے ذمہ دارانِ جماعت کا نمازِ جنازہ پڑھنا، تدفین میں شرکت کرنا، مرحوم کے لیے دعائے خیر کرنا، مولانا مونس صاحبؒ پر ربِ کریم کی بے پایاں رحمتوں کے نزول کا گویا ایک طرح سے آغاز رہا۔ ایسی سعادت اور بشارت ہوسکتی ہے ہر اس شخص کے لیے جو اخلاص و للہیت کے ساتھ دینِ اسلام کے قیام کے لیے ان تھک جدوجہد کو اپنی پہچان بنالے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمیں بھی ایسی سعادت مندی کا کسی نہ کسی درجہ میں مستحق بنائے گا۔
مولانا محمد شفیع مونس صاحبؒ کی زندگی کا خلاصہ بیان کرنے کے لیے رسول اکرم ﷺ سے حضرت ابوبکر صدیق(رض) کا پوچھا گیا سوال ذہن میں تازہ کرلینا چاہیے کہ سب سے اچھا انسان کون ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ طَالَ عُمُرُہ، وَ حَسُنَ عَمَلُہ،۔ ’‘جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو۔‘‘ ﴿ترمذی﴾ مولانا مونس صاحبؒ کی زندگی اس ارشاد مبارک کے عین مطابق معلوم ہوتی ہے۔ آپؒ جوانی کے ابتدائی ایام ہی میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوئے اور اقامتِ دین کو شعوری طور پر اپنا نصب العین بنایا، ہر حال میں سرگرم عمل رہنے کو اپنی پہچان بنائی، نازک ترین دور میں بھی اپنے عزائم اور حوصلوں کو جوان رکھا، دمِ آخر تک تحریکِ اسلامی کو اپنا بیش قیمت تعاون، نظم و ڈسپلن کے ساتھ پیش کیا۔
میرا مولانا مونس صاحبؒ سے قریبی تعلق دہلی میں قیام کے دوران رہا ﴿١۹۹۹ تا۲۰۰١﴾ اور مختلف مواقع پر استفادہ کا موقع ملا۔ آخری سال یعنی ۲۰۰١ءمیں مرکزِ جماعت میں خدمات انجام دیتے ہوئے مولاناؒ سے اور زیادہ قریبی تعلق قائم ہوا۔ مرکز میں کاموں کی یکسوئی سے انجام دہی کے لیے مولاناؒ نے اپنے ہی دفتر میں مجھے بیٹھنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ دفتر بڑا کشادہ تھا اور اسی کی داہنی جانب ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جس میں بمشکل ایک چارپائی کی گنجائش تھی، مولاناؒ اسی میں قیام فرماتے، مصروفیات میں قرآنِ کریم اور اخبارات کے مطالعے کے علاوہ لوگوں سے ملاقات شامل رہتی۔ فارغ اوقات میں پلنگ پر لیٹے لیٹے اشعار گنگناتے، جس سے مولاناؒ کا ادبی ذوق ظاہر ہوتا۔ صبح ۱۱/بجے کے آس پاس چائے کے وقفہ میں انھیں کے ہاں چلا جاتا، مولانا کی پھیکی چائے میں دو شوگر فری گولیاں ڈالتا ﴿اور ایک اپنے منہ میں بھی﴾ پھر چائے پیش کرتا، آپؒ کبھی ماشاء اللہ تو کبھی جزاکم اللہ فرمایا کرتے۔ اس موقع سے مختلف تنظیمی اور تربیتی امور پر گفتگو ہوتی۔ تقریباً اسی سال کے آس پاس مولانا محترمؒ کی جماعت اسلامی ہند کی تاریخ پر کتاب منظر عام پر آچکی تھی اس کتاب کے مندرجات پر بھی گفتگو کا موقع ملا۔
مولاناؒ کی نگرانی میں اجلاسِ نمائندگان کی رودادوں کی ترتیب اور نمائندگان کے لیے رپورٹ کی تیاری کا کام کرنے کا موقع ملا۔ اجلاس نمائندگان کی تفصیلی روداد، مولاناؒ اجلاس میں لکھے گئے نکات کے پیشِ نظر مجھے املا کراتے۔ اس کام کی انجام دہی کئی لحاظ سے سود مند رہی اور میری اردو زبان میں بھی کافی نکھار محسوس ہوا۔ اور جہاں کہیں الفاظ کی بندش و ترکیب میں چوک ہوتی تو فوری تصحیح فرمایا کرتے۔ مولاناؒ کے املا کرائے ہوئے بعض الفاظ میرے لیے بالکل نئے ہوتے تھے۔ ایک مقام پر کسی سیاسی مسئلہ پر کتربیونت لکھنے کو کہا، ان الفاظ کو ٹھیک طور پر درج کرنے کے لیے میں نے دو تین مرتبہ پوچھا: کیا؟ آپؒ نے اپنے مخصوص خوش مزاج لہجے میں فرمایا: ارے مسلمان ہوکر کتربیونت نہیں جانتا؟
رودادوں کی ترتیب میں بعض اوقات حوالہ جات درپیش ہوتے، حوالوں کے لیے شعبۂ تنظیم کے پرانے رجسٹرز کا مطالعہ ہوتا، چونکہ تحریر شدہ مواد رجسٹر کی شکل میں مجلد ہے، اس وجہ سے بعض الفاظ بائنڈگ کے سبب بڑی مشکل سے پڑھے جاسکتے تھے۔ مولاناؒ محترم نے اس طرح کے تحریری کام کے پیشِ نظر بڑا خاص نکتہ ارشاد فرمایا: تنظیمی کاموں کی انجام دہی بس یوں ہی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ آگے کی سوچ کر، ذمہ داری ادا کرنے پر توجہ ہونی چاہیے، پھر فرمایا: ارے بھلے آدمی جب سادہ کاغذات پر کوئی تحریر لکھو تو دونوں جانب تھوڑی جگہ چھوڑ دیا کرو تاکہ مستقبل میں ان کی بائنڈنگ ہو تو الفاظ متاثر نہ ہونے پائیں۔
کاموں کی انجام دہی کے لیے مولاناؒ کا بڑاغیر معمولی staminaتھا، یکسوئی ہمیشہ برقرار رہتی اور تھکان نام کو نہیں آتی، میں جب رجسٹر کے بچے اوراق دیکھتا تو فرماتے ارے بھلے آدمی بقیہ کام کے سلسلے میں ایسا نہیں کرتے، ورنہ کام کے لیے درکار یکسوئی جاتی رہے گی۔ مثال کے ذریعہ سمجھاتے کہ اگر روئی دھننے والا باقی بچی روئی کے ڈھیر کو دیکھ لے تو شاید ہی پورا کام کرنے کی ہمت جٹا پائے۔ اس لیے فرمایا کہ بس کام کرتے جانا چاہیے۔ مولاناؒ اپنی غیر معمولی یادداشت کے ذریعہ روداد کے نوٹس میں درج قابلِ وضاحت جملوں کی تشریح فرمایا کرتے۔ سچ پوچھئے تو میری یکسوئی متاثر ہوتی جاتی بس اذان کے وقت کا انتظار رہتا، لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہی وہ قیمتی وقت تھا، جس کے سبب ہمارے تحریکی شعور کو نئی زندگی ملی۔
مولانا مونس صاحبؒ کے ساتھ قرآن کریم کے ایک ترجمہ پر نظر ثانی کا کام بھی ہوا، دراصل بعض تحریکی علماء نے اس پر نظرثانی فرمائی تھی، مولاناؒ کو اس کی چند سورتوں کا قرآنِ کریم کے دیگر اردو تراجم کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے رائے دینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ آپؒ کی نگرانی میں سورئہ البقرۃ اور سورئہ آل عمران کے مطالعہ کا موقع ملا۔ مجھے بڑی مسرت ہوتی جب بھی مولاناؒ بغیر قرآن کریم دیکھے، آیت کی تلاوت میں میری مدد فرمایا کرتے، اب بھی یاد ہے ترجمہ میں گائے کے رنگ سے متعلق کچھ دیکھنا تھا تو مولاناؒ نے برجستہ مجھ سے سورئہ البقرہ کی ۶۸ اور ۶۹ ویں آیات ملاحظہ کرنے کو کہا اور ان آیات کے بیشتر حصے کی تلاوت بھی فرمائی۔ مولاناؒ کا قرآنِ کریم کی آیات کے حفظ کا یہ پہلو، اور مختلف تنظیمی کاموں کا احسن انداز سے انجام دینا دراصل تحریک کے سابقون الاولون کی اعلیٰ علمی و فکری سطح کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ وہ افراد تھے، جو ہر فرنٹ پر فکر و عمل کے اعتبار سے انتہائی پرفیکٹ محسوس ہوتے۔ تحریکی شعور کی آبیاری، جہدِ مسلسل اور تحریکی اور تنظیمی کاموں میں اعتدال و توازن ایسی ہی فکر سے ممکن ہے۔
۲۰۰۶ء کے اوائل میں ایس آئی او کے ذمہ داران نے خاکسار کو اس تنظیم کی تاریخ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی ﴿جو بوجوہ مکمل نہ ہوسکی﴾۔ اس اہم ذمہ داری کی انجام دہی کے لیے جماعت اور ایس آئی او کے مرکزی اور ریاستی ذمہ داروں سے ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا۔ اس ضمن میں مولانا محمد شفیع مونس صاحبؒ سے دو روزہ ملاقات بڑی یادگار رہی۔ ۱۲ اور ۱۳/مارچ ۲۰۰۶ء کو مرکزِ جماعت کے دالان میں مولاناؒ سے ایس آئی او کے قیام کے مراحل اور اس کے بعد کے ڈیولپمنٹ پر بڑی تفصیلی گفتگو رہی۔ دو دن کی گفتگو کا بیشتر حصہ ایس آئی او کے قیام اور اس وقت کی طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیموں سے وابستہ افراد کی سرگرمیوں سے متعلق رہا۔ آپؒ نے اسی وقت واضح فرمایا تھا کہ ایس آئی او کے قیام کا مقصد اُسے بتدریج طلبائی رخ دینا ہے۔ مولاناؒ سے گفتگو میں طلبہ اور نوجوانوں کے کرنے کے کام بھی زیرِ بحث رہے۔ آپؒ نے چار باتیں نوٹ کرائیں اور فرمایا کہ اس جانب ذمہ داران کی خاص توجہ ہونی چاہیے:
﴿۱﴾ انفرادی و اجتماعی سیرت و کردار کی تعمیر﴿۲﴾ دعوت و تبلیغ﴿۳﴾ نظم کا استحکام﴿۴﴾ مطالعہ۔
ان چاروں نکات پر سیر حاصل گفتگو کا موقع میسر نہیں رہا اور نہ یہ پوچھنے کا کہ اور کیا ترجیحات ہونی چاہئیں۔ مولاناؒ نے اس وقت سیرت و کردار کی تعمیر پر خاصا زور دیا تھا اور فرمایا کہ نازک حالات اور آزمائش کے موقع پر ہی افرادِ تنظیم کا کردار جھلکتا ہے۔ اس لیے تنظیم کے استحکام پر بطورِ خاص توجہ ہونی چاہیے۔ شاید آپ جانتے ہوں گے، یہ وہ دور ہے جبکہ دنیا بھر میں اسلام، مسلمانوں اور تحریکِ اسلامی سے متعلق غلط پروپیگنڈے عام کیے جارہے تھے۔ مولاناؒ نے فرمایا کہ جو تحریک ٹھوس بنیادوں پر کھڑی ہو اسے مخالفتوں سے فائدہ ہوگا، دنیا چاہے کچھ بھی کرلے اُس سے تحریک اور افراد تحریک کو نقصان نہیں پہنچے گا اور کہا کہ یہ ایسا دور ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کو ان مخالفتوں سے خوب فائدہ پہنچے گا۔
مولانا محمد شفیع مونس صاحبؒ — ہمارے درمیان نہیں رہے، ان کی تحریکی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ ان کے صاحبزادے جلیل اصغر صاحب اور پوتے برادر طارق جلیل کی تحریک کے لیے جدوجہد مولانا مونسؒ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپؒ کے تمام ہی اعزہ و اقربا تحریک کی خدمات کسی نہ کسی درجہ میں انجام دے رہے ہوں گے۔ مولاناؒ کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ربِ کریم کے اِرشاد کے مطابق نظر آتی ہے۔ اللہ کے نیک بندے ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے ہر طرح کے حالات میں اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنا مشن بنایا، بڑی آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں، لیکن انھوں نے اپنے ارادوں، منصوبوں،حوصلوں اور سرگرمیوں میں ضعف آنے نہیں دیا اور نہ ہی چھوٹی بڑی کامیابی حاصل کرکے اور کچھ کام کرکے تکان ظاہر کی۔ نہ وہ کمزور پڑے اور نہ ہی انھیں تھکان لاحق ہوئی۔ ﴿.ماضعفوا ومااستکانوا. آل عمران:۱۴۶﴾ اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی جانباز سپاہیوں میں بلاشبہ مولانا مونس صاحبؒ کا شمار ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مولانا مونسؒ کو اپنے دامنِ رحمت میں ابدی جگہ عنایت فرمائے۔ آمین!
مشمولہ: شمارہ جولائی 2011