مسلمان ۔ علم و سائنس میں یوروپ کےپیش رو

(1)

اسلام ایک مکمل نظام ِ حیات ہے اور حیاتِ انسانی، علم کے بغیر نا مکمل اور ادھوری ہے۔علم کے ذریعہ ہی انسان دوسرےجانداروں سے ممتاز ہوتا ہے، علم کے اسی اہمیت کے پیشِ نظر اسلام نے علم حاصل کرنےپر ابھارا ہے۔ اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے  لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں علم سے متعلق بهت سی آیات نازل کی گئیں۔ اسلام نے علم کی اشاعت کی جس کے زیر اثر مسلمانوں نے علم حاصل کیا اور پھر اس کی اشاعت میںسرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ عرب سے لے كر یوروپ کی تیرہ و تاریک گلیوں اور افریقہ کے جنگلوں تک علم کی روشنی بکھیر دی۔ اسلام کی اس علم پروری کا اثر یوروپ پر پڑا ، علم کی روشنی نے اپنا سفرشروع کر کے  ملک اسپین میں پڑاؤ کیا،  پھر اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہوا۔

یوروپ پر مسلم اسپین کے اثرات:

آج  مسلمانوں کے مقابلہ میں یورپ اور امریکہ کی قومیںوسائل كے استعمال كے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں ۔ ان کے پاس مال و دولت  زیادہ ہے، ٹكنالوجی كا علم  زیادہ ہے، صنعتی شہر  ہمارے شہروں کے مقابلہ میں بڑے ہیں ، لیکن مسلمانوں کے عروج کے زمانہ میں معاملہ اس کے بر عکس تھا ۔ مسلمانوں کے پاس علم تھا، دولت تھی، بڑے  شہر تھے اور وہ وسائل كے استعمال پر قادرتھے ۔ اس کے برخلاف یوروپ  والے جہالت اور افلاس و غربت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ آج لوگ انگریزی زبان جاننے کو فخركا سبب سمجھتے ہیں اور اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یوروپ   و امریکہ کا سفر کرتے ہیں، لیكن مسلمانوں کے عروج کے زمانہ میں عیسائی اور یہودی حصولِ علم کے لیے عربی زبان سیکھتے اور اسلامی ملکوں میں آکر تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ اسپین پر مسلمانوں کی حکومت تھی نیز وہ علم و سائنس کا مرکز تھااس لیے یوروپ  نے  زیادہ استفادہ اسپین کے علماء  و مدارس سے کیا ۔ اسپین کے ذریعہ یوروپ  میں مسلم تہذیب و افکار کا تعارف ہوا  یہیں سےیوروپ  کی علمی بیداری اور اس کی نشاۃثانیہ کا آغاز بھی ہوا ۔ مشرقی تہذیب اور مسلمانوں کے علوم و فنون كویوروپ تک پہنچانے میں مسلم اسپین نے ایک رابطہ اور واسطہ کا کام کیا ۔

اس وقت مسیحی دنیا جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی،  اسپین ہی ایسا ملک تھا جو علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھا اورعلم كی شعاعیں بکھیرنے میں مصروف تھا ۔

فرانس کا مشہور مؤرخ گستاؤ لیبان(Gestao Liban) لکھتا ہے :

’’ کیا بلحاظ ترقی دولت اور کیا بلحاظ ترقی علمی و عملی ، وہ عرب ہی تھے جنہوں نے یوروپ کو مہذب بنایا ۔ ان کی علمی تحقیقات اور ان کی ایجادات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی قلیل مدت میں ان سے زیادہ کسی قوم نے ترقی نہیں کی ، اور جب ان کی صنعت و حرفت پر نظر ڈالی جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے صنائع میں ایک ندرت اور جدت ہے جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘ ۔(۱)

لبنان کا مصنف فلپ کے ۔ حٹی (Philip K. Hitti)لکھتاہے:

’’ قرون وسطیٰ کےیوروپ کے ذہنی ارتقاء کی تاریخ میںمسلم اسپین نے ایک نہایت ہی درخشاں باب کا اضافہ کیا ہے ۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ آٹھویں صدی عیسوی کے وسط اور تیرہویں صدی عیسوی کے آغاز کے درمیانی زمانہ میں عربی بولنے والے ہی ساری دنیا میں تہذیب و تمدن کے مشعل بردار بنے ہوئے تھے ، عربی زبان ہی وہ واسطہ تھی جس کے ذریعہ قدیم سائنس اور فلسفہ کی بازیافت ہوئی، ان میں اضافے ہوئے ، ان کی اشاعت ہوئی اور ان سے مغربی یوروپ میںنشاۃثانیہ کا دور شروع ہوا‘‘۔ (۲)

 یوروپ کی تاریک گلیاں:

اسپین کا شہر قرطبہ(Cordoba) یوروپ والوں کے لئے اس زمانہ میں ایسا ہی تھا جیسےآج تیسری دنیا کے باشندوں کے لئے  لندن و پیرس۔ قرطبہ کی آبادی اپنے عروج کے زمانے میں پندرہ لاکھ کے قریب تھی۔ شہر چوبیس میل لمبا اور سات میل چوڑا تھا اور دریائے وادی الکبیر کے کنارے کنارے پھیلا ہوا تھا ۔ اس شہر میں دو لاکھ مکان تھے۔ اسی ہزار دو کانیں ، تین ہزار آٹھ سو مسجدیں اور سات سو حمام تھے ، پرانے زمانے میں اتنا بڑا شہرنادر تھا۔سڑکیں پختہ تھیں ، پانی کے نکاس کے لئے زمین دوز نالیاں تھیں ، چوراہوں پر فوارے لگے ہوئے تھے ، رات کے وقت راستوں پر روشنی ہوتی تھی۔(۳)  پوری دنیا میں سوائے بغداد کے کوئی شہر قرطبہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ، قرطبہ تو قرطبہ تھا ، یوروپ میں کوئی شہر اشبیلیہ ، بلنسیہ ، غرناطہ اور سرقطہ کے برابر بھی نہیں تھا ۔ اس زمانے کے لندن اور پیرس چھوٹے چھوٹے شہر تھے ، ان کی سڑکیں کچی تھیں ، گندہ پانی سڑکوں پر بہتا پھرتا تھا (۴)  مکانات گھاس پھونس کے تھے، جن کو مٹی سے لیپ دیا جاتا تھا ۔

جب لوگوں کی تہذیب و تمدن کی یہ حالت ہوتو ظاہر ہے کہ علم سے ان کو دور کا واسطہ بھی نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ شمالی یور وپ کے لوگوں کے متعلق تو یہ خیال عام تھا کہ وہ لوگ فطری طور پرناسمجھ  ہیں اور سردی کی شدت نے ان کی عقل زائل کردی ہے ۔(۵)  اس زمانے میں سوائے پادریوں اور چند امراء کے کوئی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا لیکن اسپین کا ہر مسلمان پڑھا لکھاہوتا تھا ۔ (۶) یوروپ میں اس زمانے میں اس قدر جہالت تھی کہ جو کوئی ریاضی ، علم ہیئت ، کیمسٹری ، طب یا سائنس کے مسائل حل کرتا تھا لوگ اسے جادوگر قرار دے دیتے تھے ۔(۷)

 مسلمانوں كی کتابوں سے دلچسپی:

یوروپ میں عام لوگوں کو کتابوں سے دلچسپی نہ تھی ۔ عوام تو عوام امراء کو بھی کتابوں سے برائے نام ہی لگاؤ تھا ، چنانچہ فرانس کے بادشاہ کے کتب خانہ میں صرف چھ سات سو کتابیں تھیں ۔ اس کے بر خلاف قرطبہ میں عام  لوگوں کے پاس ذاتی کتب خانے تھے جن میں ہزاروں کتابیں تھیں اور شاہی کتب خانہ میں چار لاکھ کتابیں تھیں ۔ (۸) خلیفہ حکم ثانی کے زمانے میں شاہی کتب خانہ میں کتابوں کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ صوبائی اور ضلعی سطحوں پر کتب خانے موجود تھے جن میں نادر و اہم کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا ۔ (۹) گھر میں ذاتی کتب خانے رکھنا اور کتابیں جمع کرنا اس زمانہ میں ایک عام چلن  تھا۔ مسلمانوں میں ہر دولت مند شخص ، گھر میں کتب خانہ ضرور رکھتا تھا  (۱۰)  اس شوق كی ترویج كے بهت سے دلچسپ واقعات ہیں جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ۔ابو جعفر ابن عباس جو المریہ کے حکمراں زہیرکا وزیر تھا اس کے ذاتی کتب خانہ میں چار لاکھ سے زائد کتابیں موجود تھیں ،(۱۱)  اس زمانے میں آج کل کی طرح چھاپے خانے نہیں تھے لوگوں کو ہاتھ سے کتابیں لکھنا پڑتی تھیں لیکن علم کے شوق نے ان تمام مشکلوں کو آسان کر دیا تھا اسپین میں ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی کتابوں کے لکھنے اور بیچنے پر منحصر تھی ، صرف قرطبہ میں بیس ہزار لوگ کتابوں كی خرید وفروخت کرتے تھے ۔

 کاغذ  مسلمانوں کی دین:

کتابوں کے لئے کاغذ ایک ضروری چیز ہے، اس زمانے میں چین اور اسلامی دنیا کے سوا کسی ملک کے لوگ کاغذ بنانا نہیں جانتے تھے ۔ اسپین میں شاطبہ کاغذ بنانے کا مرکز تھا ، یہاں کے کارخانوں کا بنا ہوا کاغذ اسپین اور سارےیوروپ کو جاتا تھا، بعد میں یوروپ والوں نے یہیں سے کاغذ بنانا سیکھا ۔(۱۲)

فلپ کے۔ حٹی كا بیان هے:

’’ اسلام نے یوروپ پر جو بڑے بڑے احسان کئے ہیں ان میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے یوروپ کو کاغذ سازی کے فن سے آشنا کرایا‘‘ ۔(۱۳)  چنانچہ فرانس میں سب سے پہلے ۱۱۸۷؁ء میں ، جرمنی میں ۱۳۲۰؁ء میں اور انگلستان میں ۱۴۹۴؁ء میں کاغذ بنانے کی صنعت شروع ہوئی ۔ ایک امریکی مصنف لکھتا ہے : ’’ اس زمانے میں قرطبہ یوروپ کا علمی مرکز تھا ، مسیحی یوروپ کے لوگ تعلیم حاصل کرنے اور تحقیق کے لئے اسلامی اسپین کا رخ کیا کرتے تھے اور با لآخر ان ہی لوگوں کے ذریعے عربوں کے بہت سے علوم فرانس اور اٹلی پہنچے‘‘ ۔(۱۴)  ایک یورپی مؤرخ لکھتا ہے : ’’ الفانسو ششم (۱۰۶۵۔ ۱۱۰۹) کے زمانے میں طلیطلہ کی درسگاہوں میں یوروپ کے ہر حصہ سے حتی کہ انگلستان اور اسکاٹ لینڈ سے اہل علم کشاں کشاں چلے آتے تھے ‘‘۔(۱۵)

یوروپ میں مسلمانوں کے علوم و فنون  اسپین کے واسطے سے پہنچے ،  اس لئے آئندہ سطور میں اسپین میں مسلمانوں کی تاریخ کی کچھ جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں ۔

اسپین پر پانچویں صدی عیسوی سے قوطیوں (قوم گاتھ) کی حکومت تھی ،  قوطی بادشاہ عیسائیت کے پیرو تھے ،  ۷۱۰ء میںطریف بن مالک نے  چار سو فوجیوں اور سو گھوڑسواروں کے ساتھ اسپین پر پہلا حملہ کیا ، جس کو موسی بن نصیر نے بھیجا تھا ، اس وقت اسپین پر راڈرک نامی ایک عیسائی بادشاہ کی حکومت تھی جو عوام پر ظلم ڈھاتا تھا (۱۷)  طریف کی کامیاب واپسی کے بعد موسیٰ بن نصیر نے اسپین پرحملہ کا خاکہ تیار کیا اور         ۷۱۱ء؁ میں اپنے ایک آزاد کردہ بر بر غلام طارق بن زیاد کی سپہ سالار ی میں سات ہزارافراد پر مشتمل ایک فوج بھیجی ۔طارق کی روانگی کے بعد موسیٰ بن نصیر نے پانچ ہزار فوجیوں کی ایک اور کمک بھیج دی جس سے مسلمان فوج کی کل تعداد بارہ ہزار ہو گئی ۔ (۱۸)

 طارق بن زیاد کی تاریخی فتح:

۱۹؍ جولائی ۷۱۱؁ ء کو وادی لکہ (Gaudaldete) میں طارق اور اسپینی بادشاہ راڈرک کی فوجوں کا فیصلہ کن مقابلہ ہوا ۔ راڈرک کو شرمناک شکست ہوئی اور بھاگتا ہوا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوا ، اس فتح عظیم کے بعد طارق نے اسپین کے دوسرے شہروں پر بھی یکے بعد دیگرے قبضہ کرنا شروع کر دیا ۔ جون  ۷۱۲؁ء میں موسیٰ بن نصیر خود بھی اٹھارہ یا بیس ہزار فوج لے کر اسپین میں داخل ہوا اور اسپین کے بقیہ غیر مفتوحہ علاقوں کو فتح کر لیا ، چند ہی برسوں میں مسلمان نہ صرف پورے اسپین پر قابض ہو گئے بلکہ جبل البرانس (  Pyrenes ) کو پار کر کے فرانس کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ۔ رڈارک کی شکست کے بعد اسپین دمشق کی مسلم خلافت کا ایک حصہ بن گیا ۔ اور ۷۵۶؁ ء تک انھیں کے مقرر کئے ہوئے گورنر حکمراں رہے جنہیں امیر کہا جاتا تھا ۔ (۱۹)

بعد میں ایک اموی شہزادہ عبد الرحمن بن معاویہ الداخل (جو اموی خلیفہ ہشام کا پوتا تھا) اپنی جرأت و ہمت اور عقلمندی  سے ۷۵۶ء میں اسپین کا حکمراں بن گیا ، اس طرح اسپین میں نئی اموی حکومت کا آغاز ہوا ، جو تقریباً پونے تین سوسال ( ۷۵۶۔ ۱۰۳۱) تک قائم رہی، اس دوران سولہ امرائے سلطنت تخت شاہی پر متمکن ہوئے۔ (۲۰)

اموی حکومت کے زوال کے بعد اسپین طوائف الملوکی کا شکار ہو گیا پورے ملک میں چھوٹی چھوٹی خود مختارحکومتیں قائم ہو گئیں، اس کے علاوہ شمالی علاقے کے عیسائیوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ۔

جس وقت اسپین میں مسلم حکومت کا شہزادہ بکھر رہا تھا ، اس وقت مغربی افریقہ میں ایک نئی طاقت ظاہر ہو چکی تھی ۔ صحرائی بر بروں نے اسلام قبول کر کے ایک وسیع سلطنت قائم کر لی تھی ، یہ بادشاہ مرابط کہلاتے تھے ، ان حکمرانوں میں سب سے مشہور نام یوسف بن تاشفین کا ہے جس نے ۱۰۸۶؁ء میں الفانسو ششم (  Alfanso 6th  ) کو زلاقہ کے میدان میں شکست دی اور ۱۰۹۰؁ء میں اسپین میں داخل ہو کر تمام خود مختار ریاستوں کا خاتمہ کر کے اپنی ایک مستقل حکومت کی بنیاد رکھی ۔ اسپین میں مرابطین کی حکومت ۱۰۹۰؁ء سے  ۱۱۴۶؁ء تک قائم رہی۔ (۲۱)

جس وقت مرابطین اسپین میں مصروف تھے افریقہ میں ایک دوسری مذہبی تحریک نے سر ابھارا اور یہ تاریخ میں موحدین کے نام سے مشہور ہوئے ۔ اس تحریک کا بانی اور روح رواں محمد بن تو مرت تھا ۔ ابن تومرت کا جانشیں عبد المؤمن ہوا ، جس نے پہلے افریقہ اور پھر اسپین میں مرابطین حکومت کا خاتمہ کر کے اسپین میں موحدین کی حکومت کی بنیاد ڈالی ۔ (۲۲)

  اسپین میں مسلم حکومت کا زوال و خاتمہ :

موحدین کے زوال کے بعد اسپین ایک بار پھر طوائف الملوکی کا شکار ہو گیا ، ملک کا زیادہ تر حصہ اب مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا ، مسلمانوں کی آپسی خانہ جنگیوں سے فائدہ اٹھا کر عیسائی حکمرانوں نے دوبارہ اسپین پر اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی ، انھوں نے بہت سے علاقے مسلم حکمرانوں سے چھین کر اپنی مملکت میں شامل کر لئے ، اب مسلمانوں کے پاس چند ہی علاقے باقی رہ گئے تھے ، اور وہ بھی آپسی خانہ جنگیوں کی وجہ سے آخری سانس لے رہے تھے ، مسلمانوں کی وہ شاندار حکومت جو  ۷۱۱؁ء میں طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر جیسے بہادروں کے ذریعہ قائم ہوئی تھی بالآخر ختم هو گئی۔  ۱۴۹۲؁ ءمیں بنو نصیر کے آخری اور بز دل حکمراں ابو عبد اللہ نے وہ حکومت غرناطہ کے عیسائی حکمراں فر ڈینٹنڈ کے حوالے کر دی ، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسپین سے مسلم حکومت کا خاتمہ ہو گیا ۔ (۲۳)

 اسپین کی تاریخ کا  سنہرا دور :

اسپین کی سر زمین سے اگر چہ مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا ،لیکن مسلمانوں نے اپنے آٹھ سو سالہ دورِ حکومت میں وہاں ایسے کارنامے انجام دیئے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہیں گے ، اسپین کی  تاریخ میںوہاں کئی قوموں نے حکومت کی ، لیکن ان میں سے کسی قوم کے کارنامے اسلامی دور کے کارناموں کے برابر نہیں ہیں ، اور کسی زمانے میں اسپین کو وہ خوش حالی نصیب نہیں ہوئی جو اسلامی دور میں حاصل ہوئی ۔ اسپین کی پوری تاریخ میں صرف اسلامی دور ہی ہے جس میں اسپین کے لوگوں نے دنیا کی رہنمائی اور امامت کی ۔ اور صرف یہی وہ دور ہے جس میں اسپین والوں نے یوروپ میں علم و فن کی روشنی پھیلائی ۔اسپین کی تاریخ کے کسی دور کو اگر عہد زریں کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف اسلامی دور ہے ۔

 اسپین میں مسلمانوں کے علمی و سائنسی کارنامے :

دور حاضر میں ہم طلبا کو امریکہ اور یوروپ کی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اسی طرح عہد وسطیٰ میں اسپین علوم و فنون کا مرکز بن گیا تھا، جس کی طرف فرانس ، اٹلی اور دوسرے  ممالک سے تشنگانِ علوم  چلے آرہے تھے ۔ کسی قوم کے علمی کارناموں اور اس کی فنی صلاحیتوں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی تہذیب بلندی کے کس مقام پر تھی۔

مسلمانوں کو اسپین فتح کئے ہوئے  زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسپین علوم و فنون کی سر زمین بن گیا ۔ یہاں علم دوستی ، فکری آزادی ، اور مذہبی رواداری کو فروغ ملا ، جس کے باعث ہر قسم کے علوم و فنون کو ترقی کا بھرپور موقع ملا ۔ یہاں تفسیر ،علوم القرآن ، علوم الحدیث ،فقہ ، فلسفہ ، کلام ، تصوف و احسان ، تاریخ و جغرافیہ ، نباتات و حیوانات ، طبیعیات و کیمیا ، طب و جراحت اور طبقات الارض و فلاحت وغیرہ  علم و فن کے ہر میدان میں بیش بہا کارنامے انجام دیئے گئے اور زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبوں کو بھر پور ترقی ملی ، اسی طرح علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کو علمی تاریخ میں ایک عظیم مقام حاصل ہوا ، چنانچہ تفسیر میں ابن احمد قرطبی ، ابن عربی مالکی اور ابن عطیہ ، حدیث میں یحیی بن یحیی لیثی ، بقی بن مخلد اور ابن عبد اللہ، فقہ میں ابن حزم ، یحیی بن یحیی، ابو اصبغ اور ابن وضاح، اصول فقہ میں شاطبی ، سیرت و مغازی میں ابن عیاض ، تاریخ میں ابن قوطیہ ، لسان الدین ابن الخطیب اور ابن خلدون ، فلسفے میں ابن رشد ، ابن باجہ ، ابن طفیل اور ابن میمون، طبیعیات میں ابن جابیرول ، علوم تقابل ادیان میں ابن حزم ، طب و جراحت میں زہراوی ، ابن زہر اورابن البیطار ، جغرافیہ و سیاست میں شریف ادریسی اور ابن جبیر ، ریاضیات میں مسلمہ مجریطی اور زرقالی وغیرہ ماہرین علم و فن پیدا ہوئے ۔ ان تمام علوم کے تفصیلی تذکرے کا یہ محدود مقالہ متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔

  فلسفہ (Philosophy):

مسلم اسپین میں فلسفہ کا پہلا عالم محمد بن عبد اللہ بن سیرۃ قرطبی ( ۸۸۳ء۔ ۹۳۱ء)تھا ، اسی طرح سلیمان ابن جابیرول (۱۰۲۱ء۔۱۰۵۸ء) کا شمار بھی اسپین کے ابتدائی فلسفیوں میں ہوتا ہے ، اسے اسپین میں نو افلاطونی فلسفے کا پہلا معلم کہاجاتا ہے،  فلسفہ کے موضوع پر اس کی اہم کتاب ’’ینبوع الحیات ‘‘ ہے۔ (۲۴)  بارہویں صدی عیسوی کو مسلم اسپین میں فلسفیوں کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے کیوں کہ اس صدی کے اسپین میں بہت سے عظیم فلسفی پیدا ہوئے ، ان میں  ابن باجہ (۱۰۵۸ء۔۱۱۳۸ء) قابل ذكر هے،  جس کا پورا نام ابو بکر محمد ابن یحیی ابن باجہ تھا،  یہ فلسفی سائنس داں ، طبیب ، موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ ارسطو کا بہت بڑا شارح تھا ، ابن باجہ نے فلکیات اور طب پر  اہم کتابیں لکھیں، لیکن سب سے اہم اور مشہور تصنیف ’’ تدبیر المتوحد ‘‘ ہے جو فلسفہ کے موضوع پر ہے ۔

اس میدان میں دوسرا اہم نام ابو بکر محمد بن عبد الملک بن طفیل کا ہے، جو نو افلاطونی فلسفہ کا دوسرا معلم ہے ۔ اپنے فلسفیانہ افکار و خیالات میں ابن سینا کی پیروی کرتے ہوئے اس نے کہا کہ روح غیر مادی چیز ہے جو انسانی موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور جسم کے ساتھ ہلاک نہیں ہوتی ۔ فلسفہ کے موضوع پر اس کی اہم کتاب ’’ حی ابن یقظان ‘‘ ہے، جو ایک طرح کا فلسفیانہ رومانس ہے،  جس میں ادبی چاشنی کے ساتھ نو افلاطونی افكار    Neo-Platonism   کی تشریح کی گئی ہے۔ یعنی انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خارجی مدد کے بغیر خدا کی معرفت حاصل کر سکے ۔(۲۵)

فلپ کے۔ حٹی لکھتا ہے : ’’ابن طفیل کا شاہکار ایک اچھوتا فلسفیانہ افسانہ ہے ، اس افسانے کا بنیادی تخیل یہ ہے کہ فہم انسانی کسی خارجی عامل کی مدد کے بغیر عالم بالا کی آگہی حاصل کرسکتا ہے ، اور رفتہ رفتہ اس پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس دنیا کا دارو مدار ایک قادر مطلق ہستی پر ہے ‘‘۔

یہ قرون وسطی کے ادب کا با لکل اچھوتا اور نہایت دلکش افسانہ ہے ، اڈورڈ پوکاک نے  ۱۶۷۱؁ء میں اسے پہلی بار لاطینی میں منتقل کیا ، پھر اس کے بعد یوروپ کی اکثر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا چنانچہ ولندیز ی زبان میں اس کا ترجمہ ۱۶۷۲ء میں ، روسی زبان میں ۱۹۳۰ء میںاور اسپینی زبان میں ۱۹۳۱ء میں ہوا ہے ۔(۲۶)  زمانہ وسطی کی غالبا ً سب سے زیادہ پر لطف اورطبع زاد  Original  کہانی حی ابن یقظان ہے۔

فلسفہ کے میدان میں مسلم اسپین میں  زیادہ ممتازنام ابو الولید ابن رشد (۱۱۲۶۔۱۱۹۸) کا ہے ، انهیں یوروپ    Averroesکے نام سے جانتا ہے ، جو فلسفہ اور طبیعیات میں استاد  تصور کئے جاتے ہیں۔ابن رشد نے علم کے بہت سے شعبوں میں خدمات انجام دیں ، لیکن فقہ ، طب اور فلسفہ ان کی دلچسپی کے مضامین رہے ہیں ، ان میں بھی فلسفہ ان کا خاص میدان رہا ہے، وہ شارح ارسطو کے نام سے مشہور ہوئے ۔ فلسفہ کے موضوع پر ان کی کتابیں   فصل المقال فیما بین الحکمۃ والشریعۃ من الا تصال، کشف الادلۃ  اور تھافۃ التھافۃ  معرکۃ الآراء تصانیف ہیں۔(۲۷)

مسلم اسپینی فلسفہ میں ایک اور اہم نام محی الدین ابن عربی (۱۱۶۴ء ۔۱۲۴۰ء ) کا ہے ، ابن عربی نے فلسفیانہ افکار و نظریات کو ایک نیا رخ دیا او ر فلسفہ کی ایک نئی قسم سے لوگوں کو روشناس کرایا جسے  متصوفانه فلسفہ کہاجاتا ہے ۔ فلسفہ کے موضوع پر ابن عربی کی اہم کتابوں میں ’’ فصوص الحکم ،اور فتوحات مکیہ‘‘ ہیں ۔ ابن عربی وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے فلسفہ میں وحدۃ الوجود کا نظریہ پیش کیا ، ابن عربی کے فلسفیانہ افکار و خیالات سے بعد کے بہت سے مشرقی و مغربی مفکرین متاثر ہوئے ۔ جن میں دانتے کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔(۲۸)

 فلکیات (Astronomy) :

اسپین میں فلکیات کا مطالعہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور بہت سے اہم ماہر فلکیات پیدا ہوئے ۔ اس عہد میں مسجدوں کے مینارے بطور رصد گاہ استعمال ہوتے تھے ، اسی مقصد کے تحت مشہور ریاضی داں جابر بن افلح کی نگرانی میں مسجد اشبیلیہ سے متصل ۱۱۹۰؁ ء میں مینار اشبیلیہ تعمیر کیا گیا۔ان رصد گاہوں میں اسپینی مسلمانوں نے بہت سے فلکیاتی آلے تیار کئے اور جدولیں مرتب كیں۔ ان جدولوں کو زیج کا نام دیا گیا ، اہل اسپین کے تیار کردہ اصطرلاب کو یورپ نے بارہویں صدی تک استعمال کیا ۔ اصطرلاب کے فن پر بہت سے ماہرین نے کتابیں لکھیں ، مگر اس کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل ابو اسحاق زرقالی نے ایجاد کی ۔ اس کے علاوہ علی بن عیسی اصطرلابی نے آلہ سدس (  Sextant ) ایجاد کیا،  جس سے زاویوں کی پیمائش کی جا سکتی تھی ۔

اسپین کے مسلم دور حکومت میں فلکیات و نجوم کے جو ماہرین پیدا ہوئے ،  ان میں خاص طورپرمسلمہ مجریطی قرطبی ، ابو اسحاق الزرقالی طلیطلی اور جابر بن افلح اشبیلی قابل ذکر ہیں ۔ابو القاسم احمد بن عبد اللہ الغافقی بھی ایک ماہر فلکیات تھا ۔ (۲۹)  ابو اسحاق الزرقالی نے ’’ الزیج الطلیطلی ‘‘ کے نام سے ایک جدول تیار کیا ،جو یورپ میں جد اول طلیطلہ (  Toledian Tables ) کے نام سے مشہور ہے۔ زرقالی نے ایک فلکی آلہ بھی ایجاد کیا جو ’’ صحیفۂ زرقالیہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ، یہ آلہ علم ہیئت میں ایک اہم ایجاد تصور کیا جاتا ہے۔ زرقالی کی  اہم دریافت اس کا وہ نظریہ ہے جس میں اس نے بتایا کہ ستاروں کے مقابلہ اوج شمس حرکت پزیر ہے ، اس نے اس حرکت سے پیدا ہونے والی تبدیلی کی پیمائش بھی کی ہے ۔ زرقالی نے اپنی تصنیفات میں بعض معرکۃ الآراء نظریات بھی پیش کئے ہیں ، اس کی ایک تصنیف کا ترجمہ   Trado dela lemina lossiete planets  کے نام سے مشہور ہوا ہے ، یہ کتاب یوروپ کی کتاب    Aequatorium planetarium کی پیش رو قرار دی جاسکتی ہے ، زرقالی کی تحریروں کے اثرات بعد کے ادوار میں بھی کیپلر اور دوسرے مغربی ہیئت دانوں پر نظر آتے ہیں ۔

حاصل یہ ہے کہ مسلم اسپین کے مشہور و معروف ہیئت دانوں کی کتابوں سے یوروپ میں وسیع پیمانے پر استفادہ کیا گیاان میں  المجریطی، الغافقی، الزرقالی ، ابن افلح اور بطروجی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان ہی کتابوں اور نظریات پر جدید علم فلکیات کی بنیاد رکھی گئی۔ (۳۰)

   ریاضیات  (Mathematics) :

فلکیات کے ساتھ ریاضیات کو بھی اسپینی مسلمانوں نے خوب ترقی دی اور اسے یوروپ کی علمی بیداری کا ایک ذریعہ بنایا۔ ریاضی دانوں میں مسلمہ بن احمد المجریطی اور ابن السمح کے نام قابل ذکر ہیں ، المجریطی نے المعاملات کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں تجارتی حساب و کتاب اور محصولات  ( Tax )سے بحث کی ہے ، نیز اس میں الجبرا اور ہندسہ کے طریقے بھی استعمال کئے گئے ہیں ۔

مجریطی نے شاگرد ابن السمح نے بھی ’’ المعاملات‘‘ ہی کے نام سے ایک کتاب مرتب کی۔ پھر ایک اورکتاب اعداد کے موضوع پر ’’حساب الھوائی ‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ابن السمح کی تحریروں کا مطالعہ الفانسو دہم کے یہودی درباری دانشوروں نےبغور کیا ۔مجریطی کا ایک شاگرد الکرمانی ریاضی میںجامع انسائیکلو پیڈیائی تحریروں کا بڑا مصنف تھا ۔ مجریطی کے دوسرے شاگردوں میں ابو القاسم اصبغ اور ابو القام احمدشامل هیں۔انهوں نے فلکیات اور ریاضی کے موضوع پر ہندوستانی مأخذ ’’ سند ہند ‘‘ کا ترجمہ کیا۔  ماہر فلکیات جابر بن افلح نے الجبرا ایجاد کیا ، علم المثلث سے متعلق اپنی کتاب میں اس نے بہت سے نئے  فارمولے اور اصول پیش کئے ہیں جن کو بعد کے ریاضی دانوں نے سراہا ، رابرٹ بریفالٹ ریاضی میں مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :

’’ مسیحی مغرب کا اعلی ترین علم ریاضی اس سے آگے نہ بڑھ سکا کہ وہ قاعدہ ثلاث کا استعمال (اور وہ بھی دشواری کے ساتھ ) کر لیا کرتے تھے ( جو آج کل ہمارے کنڈر گارڈن اسکولوں میں چھوٹے بچے استعمال کرتے ہیں ) لیکن مسلمانوں نے صفر کا استعمال رائج کر کے ترسیم اعداد کے نظام اعشاریہ کو مکمل کر دیا ، انھوں نے الجبرا ایجاد کیا اور اسے چوتھے درجے کی تعدیلات کے حل تک پہنچا دیا ، انھوں نے علم مثلث کا استعمال شروع کیا اور یونانیوں کے وتر کی جگہ جیب زاویہ اور مماس کو ترجیح دی ، اس طرح انھوں نے انسانی تحقیق و تجسس کی قوتوں میں ہزار گنا اضافہ کیا‘‘ ۔(۳۱) (جاری)

مشمولہ: شمارہ جون 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau