تحریکِ اسلامی اور اس کی اثر آفرینی

جماعت اسلامی ہند اور دیگر اسلامی تحریکات جو بیسویں صدی کے نصف میں منظر عام پر آئیں اور دنیا کے کچھ علاقوں میں اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب ہو ئیں۔ فی الحال ایک ایسے دور سے گزر رہی ہیںجسے عبوری دور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ہر علاقے کی تحریک اسلامی اپنے علاقے کے ہمہ رنگ مسائل سے دوچار ہے۔ سر زمین ہند میں تحریک اسلامی کی بنیاد سید مودودیؒ نے ڈالی ۔اس کا اثر جنوب مشرقی ایشیا کی مسلم آ بادیوں میں آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔خصو صی طور پر بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔

بھارت اپنی وسعت ارضی اور ہمہ جہتی تھذیب و ثقافت کے اعتبار سے ایک مخصوص مقام کا حامل ہے اور اسی وجہ سے تحریک اسلامی ہند بھی اپنا ایک مخصوص مقام اوراہمیت رکھتی ہے۔ بھارت کے متنوع پس منظر میں تحریک اسلامی ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔یہ نعمت صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی اللہ کی دین ہے۔

تحریک اسلامی ہند کو قائم ہوئے تقریبا ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔اس کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے اور آتے رہیں گے۔ نشیب و فراز کا ہر مرحلہ تحریک کے رخ اور اس کی رفتار کو آزماتا رہے گا۔ جو کل تھا آج نہیں ہے اور جو آج ہے کل نہیں رہے گا۔ تاریخ کے اوراق پر اس کے اچھے فیصلے سنہرے الفاظ میں لکھے جاتے رہیں گے اور جو فیصلے صحیح نہیں تھے اس پر تنقید کی جاتی رہے گی۔ اچھے فیصلوں کے مثبت اثرات انسانیت کو فیض پہنچاتے رہیں گے اور غلط فیصلوں کے منفی اثرات بھی اپنا رنگ دکھاتے جائیں گے۔

ہر کامیاب تحریک اپنا احتساب کرتی رہتی ہے۔خصوصا اپنی تنظیمی ہیئت اور ساخت کا اور افراد کی فکری و عملی تربیت کا۔ تاکہ تحریک ہمیشہ صحیح رخ پر اپنا سفر طے کرتی رہے۔تحریکاتِ اسلامی کے لیے یہ احتساب اس لیے بھی لازمی ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں قرآن اور سنت کو اپنی اساس مانتی ہیںاور ساتھ ہی ساتھ ایک نظامِِ عدل کو زمین پر قائم کرنے کا دعوی کرتی ہیں۔ احتساب سے مراد یہ نہیںکہ اپنی کارکردگی کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں۔ بلکہ احتساب اس معنی میں کہ اس کی رفتار وقت کی رفتار سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں، اس کے فیصلے ابھرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے میں فعال رول ادا کر رہے ہیں کہ نہیں، اس کے وہ افراد جن کے ہاتھ میں تنظیمی اقتدار کی باگ ڈور ہے اپنے نظریہ، عمل اور مزاج کے اعتبار سے اساسِ تحریک کے نمائندہ ہیں کہ نہیں یا اس کے عام کارکن جن کی وجہ سے تحریک کی شناخت باقی رہتی ہے، تحریکی نصب ا لعین کے آئنہ دار ہیں کہ نہیں۔ اکثر تنظیموں میں نیچے کی سطح پر کارکنوں کا احتساب ایک آسان سی چیز ہے۔لیکن درجِ بالا دیگر تمام امور کا جائزہ ایک دشوار ترین کام ہے۔ وقت کی رفتار سے تحریک کی ہم آہنگی، فیصلوں کی اثر آفرینی، تنظیمی کلچر اور اس کے اقدار کی پاسبانی، ارکان کے معاملات کا جائزہ اور قیادت پر مامور افراد کا ہمہ پہلو جائزہ وغیرہ۔ اس میں سے کچھ چیزیں اس لیے بھی دشوار ہوتی ہیں کہ اس کے احتساب کی ضرب خواہی نہ خواہی اربابِ حل و عقد پر پڑتی ہے یا اس احتساب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تنظیم کے پاس کوئی ضابطہ یا procedure موجود نہیں ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اب اس قسم کی ضربوں کو اگر برداشت کیا بھی جاتا ہے تو بڑی بددلی کے ساتھ۔ البتہ جہاں جہاں اور جب جب بھی اسے خوش دلی سے برداشت کیا گیا وہاں کامیابی حاصل ہوئی۔

جب ہم سیرت ِرسول ﷺ کا مطا لعہ کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ محمد ﷺ کی تحریکی رفتار وقت کی رفتار سے تیزتر تھی یا پھر دو نوں ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔دورِ جدید میں اسے Vision بھی کہا جاتا ہے۔آپ اسے بصیرت بھی کہہ سکتے ہیں۔اس احساس کی وجہ محمد ﷺ کے بروقت فیصلے اور ان فیصلوں کے اثرات ہیں۔ پہلی وحی کے نزول سے تین سال تک محمد ﷺ نے اپنی بصیرت کے مطابق جو فیصلے کیے اس کے نتیجے میں ایک ایسی حکمتِ عملی خود بخود تیار ہوئی کہ خاموشی سے اپنی بات قریبی حلقوں میں پہنچائی جائے۔ مخا لفتوں کے جواب میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جا ئے جس سے تحریک کے وسیع تر مفاد پر زد پڑتی ہو۔ حالانکہ اس دوران ۶۴ افراد دائرہ تحریک میں داخل ہو چکے تھے۔ مکہ جیسی چھوٹی سی بستی میں یہ تعداد کافی اہم تھی۔ مزید یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول تھے او ر آپ کو اللہ کی نصرت کا کامل یقین تھا۔آپ کا خاندان بھی کمزور نہیں تھا۔ ان تمام موافقانہ عناصر کے باوجود آپ کے اقدامات میں کہیںکوئی ایسا عنصر نہیں ملتا کہ آپ نے حالات سے متاثر ہوکر یا حالات کے ردِ عمل میں کوئی فیصلہ کیا ہو۔آپ کے تمام فیصلے اور خطوطِ کار بروقت تھے۔

جب دعوت کا علانیہ دور شروع ہوااور ماحول میں ایک ہلچل سی پیدا ہوئی تو مشرکین نے اس بات کی کوشش کی کہ مصا لحانہ تدبیروں کے ذریعہ محمد ﷺ کے مشن کو متاثر کیا جائے۔ وہ وقت بڑا نازک تھا۔محمد ﷺ حرم میں تنہا بیٹھے ہوئے ہیں۔ قریش کی مجلس سے اجازت اور اختیار کے ساتھ عتبہ بن ربیعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔عتبہ کی اس کوشش کو ایک سنجیدہ اور مخلصانہ کو شش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔عتبہ نے کہا:’ اے برادر زادے! تمہارا جو کچھ مرتبہ ہمارے درمیان ہے وہ تم خود جانتے ہو۔خاندان بھر میں تمہارا مقام بلند ہے۔ نسب کے لحاظ سے تم ایک شان رکھتے ہو۔‘ اندازہ کیجیے لاکھ اختلاف کے باوجود اندازِ تخاطب کتنا معیاری تھا۔ اپنی گفتگوجاری رکھتے ہوئے عتبہ بن ربیعہ نے کہا: ’سنو، تمہارا مقصد اگر دولت ہے تو پھر ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کر دیںگے کہ تم ہم سب سے بڑھ کر مالدار ہوجاؤگے۔

اگر تم اس کے ذریعے قیادت اور حکمرانی چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنے اوپر سردار مقرر کیے لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم کسی بھی معاملے میں تمہارے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔

اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ تسلیم کیے لیتے ہیں اور اگرمحمد ﷺ نے اس پیشکش کو غور سے سن لیا۔اور ایک ایسا فیصلہ سنایا کہ اس بصیرت افروز فیصلے نے تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا۔ فیصلہ کیا تھا۔ سورہ حٰمٓ کی ایک سے پانچ تک آیات ۔No compromise ۔کتنا دور رس فیصلہ تھا۔عقل حیران ہے۔حالانکہ کشمکش کے اس زمانے میں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر مکہ کی سیاست اور معاشرت میں ایک فیصلہ کن اور کلیدی رول ادا کیا جاتاہے۔ جب آپ کو بادشاہ تسلیم کیا جائے تواور کیا چاہیے۔جب مکہ کی پارلیمنٹ میں کوئی فیصلہ آپ کی رائے کے بغیر پاس نہیں ہو گا تو مزید کیا چاہیے؟ جب آپ کے پاس دولت ہے تو خدمتِ خلق کا کام کرتے جائیے۔ یہ شعب ابی طالب کے مقاطعہ کی صعوبتوں کو خود بھی جھیلنا اور اپنی امت کو بھی اس کے لیے آمادہ کرنا، یہ ہجرت کی راہِ الم ناک کا انتخاب کرنا اور جلا وطنی کی زندگی گزارنا، یہ مدینہ جا کر نظمِ اسلا می کو قائم کرنے کی جد و جہد کرنایہ سب کیا معنی رکھتا ہے؟ آپ نے سرداری قبول کی نہ بادشاہی ،مال قبول کیا نہ فیصلوں میں شراکت۔ بلکہ آپ نے اس فیصلے کے ذریعے ایک ایسی حکمتِ عملی کی بنیاد ڈالی جو آپ کو فتحِ مبین کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ اس تاثر کی ہے کہ محمد ﷺکے فیصلے وقت کی رفتار سے تیز ترتھے۔ محمد ﷺ کے وہ اقدامات جو آپ نے ہجرت کے بعد فوری مدینہ میں کیے وقت کی رفتار سے بہت آگے تھے۔انصار و مہاجرین میں اخوت کے نظام کو رائج کرنا،مسلمانوں کے درمیان اسلامی تعاون کا پیمان اور یہود کے ساتھ معاہدہ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی شخصیت ،اپنے فیصلوں اور اپنی حکمتِ عملی کو اپنے صحابہ کی نظروں سے اوجھل نہیں رکھا۔

غزوہ بدر ہی کے موقع کو لیجئے۔ جب محمدﷺ نے بدر کے قریب ترین چشمے پر پڑاو ڈالنے کا ارادہ کیا تو حباب بن منذرؓ نے پوچھا کہ کیا اس مقام پر آپ اللہ کے حکم سے نازل ہوئے ہیںیا ہمارے لیے اس سے آگے پیچھے ہٹنے کی گنجائش بھی ہے یا اسے آپ نے ایک جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا ہے؟آپنےﷺ فرمایا یہ جنگی حکمتِ عملی کے طور پرہے۔حبابؓ نے کہا یہ مناسب مقام نہیں ہے۔آپﷺ آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے سب سے قریب ترین جو چشمہ ہو اس پر پڑاو ڈالیں۔رسولﷺ نے فرمایا تم نے بہت ٹھیک مشورہ دیا۔

تحریک میں احتساب کا عمل نہ صرف کثرت سے ہونا چاہیے، بلکہ صحیح رخ اور احسن طریقے سے ہونا چاہیے۔ یہ صرف نیچے کی سطح ہی پر نہیں، بلکہ اسے اوپر کی سطح تک پہنچنا چاہیے۔اس کا دائرہ بہت وسیع ہونا چاہیے۔ اتنا وسیع کہ اس کے احاطے میں فکر بھی آئے، عمل بھی آئے، فرد بھی آئے اور اجتماعیت بھی آئے۔چھوٹا بھی آئے اور بڑا بھی آئے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ وسیع و عریض علاقوں میں کام کرنے والی تنظیمیں اس ہمہ جہتی احتساب کو یا تو ترجیح نہیں دیتیں یا ان میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی یا ان کے پاس کوئی ضابطہ نہیں ہوتاکہ وہ اس کا اہتمام کریں۔ ہر دو صورتیں تحریکوں کے لیے مضر ثابت ہوتی ہیں۔یہی نہیں، بلکہ کم احتسابی کی یہ روش تحریک سے تحریکیت ختم کردیتی ہے اورایک عظیم الشان تحریک ایک بہت بڑے ادارے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ رفتہ رفتہ تحریک کی روح ختم ہو جاتی ہے اور ادارے اپنا کام کرنے لگتے ہیں۔ اداروں کی بہت ساری خصوصیتوں میں سے ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ تنظیم کے مقاصد سے زیادہ افراد کے مفادات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔بالآخر مفادات کی حفاظت کی روش اداروں کو سیاست کی آماجگاہ بناکر رکھ دیتی ہے۔یہ عمل غیر محسوس طریقہ سے شروع ہوتا ہے۔ بہت عرصے تک چلتا رہتا ہے، دیمک کی طرح تحریک،تنظیم یا ادارے کو غیر محسوس طریقے سے ختم کر کے رکھ دیتا ہے۔ جسم رہ جاتا ہے، روح پرواز کر جاتی ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کی یہ بھی ایک بنیادی ضرورت ہے کہ وہ صحت مند احتساب و تنقید کے دائرے کو وسیع کرے اور اس کے لیے ایک خوشگوارفضا تیار کرے۔وہ اپنے کارکنوں کو اس کا موقع فراہم کریں۔

تحریکِ اسلامی چونکہ قران و سنت کو اپنی اساس تسلیم کرتی ہے لہٰذا اس کی سرگرمیوں کی بنیاد میں وسیع مشاورت کارفرما ہوتی ہے۔مشاورت کا دائرہ جتنا تنگ ہوگا، اتنا ہی آمریت کا دائرہ وسیع ہوگا۔مشاورت کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا،آمریت کا دائرہ اتنا ہی تنگ ہوگا۔آمریت خواہ فرد کی ہو خواہ گروہ کی۔

تحریکِ اسلامی ہند میں مشاورت کا ایک نظم موجود ہے ۔دستور میں بیان کردہ طریقہ انتخاب کے ذریعے مجلسِ شوری یا مجلسِ نمائندگان کا انتخاب عمل میں آتاہے ۔اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں کیونکہ تحریک سے وابستہ تمام افراد اس سے واقف ہیں۔

مشاورت کے انتخاب کے لیے جس قسم کا طریقہ کار دستور کی روشنی میں برسوں سے رائج ہے۔ اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والی مجلسِ شوری یا مجلسِ نمائندگان صحیح معنی میں تحریک کی نمائندہ مجلس نہیں ہو سکتی ۔یہی نہیں، بلکہ بسا اوقات اس طریقہ انتخاب کے باعث مشاورت اور نمائندگان کے فیصلوں کی ثقاہت بھی مجروح ہوجاتی ہے۔ یہ از کار رفتہ طریقہ انتخاب نجی مجلسوں میں ہمیشہ زیر بحث رہاہے۔

اس تبصرے کا یہ مفہوم نہیں لیا جانا چاہیے کہ تحریکِ اسلامی کی لیڈرشپ کلیۃً غیر نمائندہ رہی ہو، بلکہ اس کا مقصد تحریک اسلامی کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ وہ حالات کے تقاضوں کو سمجھے اور اپنے اندر بہتر سے بہتر تبدیلی پیدا کرے۔

تحریکوں کی زندگی میں فکری انتشارتحریک کی موت کے مترادف ہوتا ہے۔فکری انتشار تحریکوں کو اپنی صحیح روش سے ہٹا دیتا ہے۔اس کی وجہ سے تحریکیں افراد کھودیتی ہیں،ترجیحات بدل جاتی ہیں اور غیر اہم امور اہم بن جاتے ہیں۔فکری انتشار عملی انتشار پر منتج ہوتا ہے۔صحیح وقت پر اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ وبا کی طرح پھیلنے لگتا ہے۔

تحریکِ اسلامی ہند کو ان تمام گوشوں کا جائزہ لینا چاہیے جہاں فکری یکجہتی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔بلکہ فکری یکجہتی کو تقویت پہچانے کی ہر تدبیر کو ر وبہ عمل لانے کی مسلسل کوششیں ہونی چاہییں۔ کامیاب تحریکاتِ اسلامی میں عصری حس بدر جہ اتم موجود ہوتی ہے۔لیکن اس حس سے ابھرنے والا رویہ مثبت ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل نہیں جاتیں، بلکہ ان حالات میں اپنے اثاثہ فکرو عمل کو محفوظ رکھتے ہوئے جدیدیت سے بھرپور استفادہ کرتی ہیں۔ اس موڑ پرتحریکات ِ اسلامی کو بیرونی تبدیلیوں کے چیلنج کو قبول کرنے میں زیادہ دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ ا لبتہ اسے دشواری ہوسکتی ہے تو داخلی محاذ پر۔حالات کے تغیر کا سب سے گہرا اثر نوجوان نسل پر ہوتا ہے، جو تجربات کے لحاظ سے انتہائی پسماندہ ہوتی ہے، لیکن حرکت و سعی کے معاملے میں بہت آگے۔ اس کی سعی و جہد کو دیکھ کرایک غالب رجحان یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کچھ ذمے داریوں سے نوازا جائے۔ یہ مرحلہ نازک تر ہوتا ہے کیونکہ ذ مے د اریوں پر فائز ہونے کے بعد اکثر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ وہ سعی و جہد نہیں، بلکہ ان کی بے مثال قابلیت اور صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انھیں اس مقام پر فائز کیا گیا ہے۔جب یہ احساس جڑپکڑنے لگتا ہے تو عموما ًیہ دیکھا گیا ہے کہ عقل و تجربہ رکھنے والوں کی بات کوروایتی یا گھسی پٹی بات سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے اور نئے تجربات کے نام پر کاموں کی منصوبہ بندی ہونے لگتی ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔یعنی آج سے ۰۲ سال پہلے جو تجربے کیے گیے تھے، انھیںپھر سے نئی حکمتِ عملی کے نام پر آزمایا جاتا ہے۔آزماتے آزماتے یہ نوجوان نسل از کار رفتہ ہو جاتی ہے اور تحریک آگے بڑھنے کی بجائے وہیں رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

دراصل عصرِ حاضر کے نئے رجحانات کو قبول کرنے کے لیے بھی عقلِ سلیم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تحریکِ اسلامی کو اس سلسلے میں کافی محتاط ہونا چاہیے۔

تحریکِ اسلامی کی مخصوص شناخت کے لیے یہ امر بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی صحت مند روایات کی حفاظت کرے۔محض نئے تجربات کے نام پر انھیں ضائع نہ ہونے دے۔نئے رجحانات کی تطہیر اسی کا ایک پہلو ہوتا ہے۔کبھی کبھی بعض چیزیں اپنے ناظر میں صحیح ہوتی ہیں لیکن اگر انھیں تناظر سے ہٹا کر نافذ کرنے کی کوشش کی جا ئے تو اس کے اثرات مفید نہیں ہوتے۔

موجودہ عہد تخصص کا عہد ہے۔یہ بات نئی نہیں ہے، بلکہ ہر دور میں تحریکوں نے اس کا لحاظ رکھا ہے۔کامیاب فیصلے،کامیاب حکمتِ عملی اور کامیاب لائحہ عمل کی اساس میں ماہرین کی آرائ کام کرتی ہیں۔یہ عمل کافی طویل ہوتا ہے۔

ہر کامیاب تحریک یا تنظیم کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسی اپنے دستور کی روشنی میں ترتیب دیتی ہے اور اسی پالیسی کی روشنی میں وہ اپنے پروگراموں کو تشکیل بھی دیتی ہے اور نافذ بھی کرتی ہے ۔لیکن ان کے پروگراموں میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی آرا کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ پروگراموں کی ترتیب اور ان پر عمل میں ماہرانہ رائے کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔پروگراموں کی کامیابی تصوراتی منصوبہ بندی اور غیر ماہرانہ رائے کی بنیاد پر ممکن نہیںہے۔اگر ایسے پروگرام بن بھی جائیں اور انھیں منظرِ عام پر لایا بھی جائے تو ان کی مثال ایک ایسے مجسمے کی ہوگی، جسے ماہر سنگتراش نے نہیں، بلکہ سنگتراشی کے ایک نوسِکھ طالب ِعلم نے بنایا ہے۔ مجا لسِ شوری کا رول یہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی مسئلے میں ما ہرا نہ آرا ئ کا لحاظ رکھتے ہوئے مشورہ دیں۔ ہم نہیں جانتے کہ تحریکِ اسلامی ہند اس کا کتنالحاظ رکھتی ہے۔ البتہ اس کی رودادوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا،جہاں تک ہمیں علم ہے تحریکِ اسلامی ہند کے نظام میں اب تک اس قسم کا حقیقت پسندانہ رجحان عام نہیں ہوسکا۔

ایک اہم بات جو تحریکاتِ اسلامی کے لیے آزمائش بنتی رہی ہے وہ ملکی قوانین کا پاس و لحاظ ہے۔بحیثیتِ مجموعی تحریک ملکی قوانین کا پاس و لحاظ ضرور کرتی ہے لیکن اسے اس بات کا جائزہ ضرور لیتے رہنا چاہیے کہ اس سے وابستہ افراد اور ادارے بھی اس کا پاس و لحاظ کریں۔مثلاً تعلیمی اداروں میں ڈونیشن کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔اس قانون کی پابندی تحریک سے وابستہ تمام تعلیمی اداروں کو کرنا چاہیے۔ اتفاقاً میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔بد قسمتی سے وہ جماعت کے مخالف تھے۔دورانِ گفتگو جب جماعت کا ذکر ہوا تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا: ’’میں سیدمودودی کو پسند کرتا ہوں، لیکن جماعت کو نہیں‘‘۔اپنی بات کو دلیل کی بنیاد پر منوانے کے لیے انھوں نے فون اٹھایا اور گفتگو شروع کی۔ وہ کسی سے بات کررہے تھے اور یہ اصرار کرتے جا رہے تھے کہ وہ ڈونیشن دے نہیں سکتے۔ اتنی رقم ان کے پاس موجود نہیںہے،غریب ہیںاور ان کے بچے کو کے جی کلاس میں داخلہ ملنا چاہیے۔ گفتگو کے بعدانھوں نے مجھ سے کہا: ‘‘یہ جماعتی اسکول ہے،پبلک فنڈ سے قائم ہوا ہے اور یہ قانون کے خلاف مجھ سے ڈونیشن مانگ رہے ہیں۔’’فون کے اسپیکر پر اس گفتگو کو سنا جا سکتاتھا۔ انھوں نے صرف ایک سوال مجھ سے کیا۔’آپ میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟‘

میرے والد صاحب شولاپور کے امیرِ مقامی تھے۔کافی گہرا مطالعہ تھا۔۲۰ سال پہلے کی بات ہے کہ ایس آئی او کی میٹنگ کے بعد سرکیولر س کی کچھ فوٹو کا پیوں کی ضرورت تھی۔ہمارے ایک ساتھی نے،جو سرکاری ملازم تھے، کہا کہ وہ آفس سے اس کام کو پورا کر لیں گے۔والد صا حب نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا: ’’آفس میں اس کام کو کرنا اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال ہے۔‘‘ان کے جانے کے بعد مجھے سمجھا یا کہ جب آپ کہیں ملازمت کرتے ہیں تو آپ امین ہوتے ہیں ۔دفتر کے اوقات میں کوئی نجی کام اس وقت تک نہ کریں جب تک کہ اعلی افسر کی اجازت نہ لیں۔دفتر اور دفتر کی چیزوں کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ کریں۔اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ نے خیانت کی۔

میں نجی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو  سرکاری ملازمت کرتے ہیں اور اپنے سرکاری وقت کو مسلسل جماعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایک ذمےّ دار نے یوں جواز پیدا کیا : ‘‘اجی! وہ توہم اجازت لے کر کرتے ہیں۔’’کوئی افسر اس بات کی اجازت کیسے دے سکتا ہے کہ آپ دفتری اوقات میں کو ئی اور دوسرا کام کریں۔ اگر ایسا ہوا ہے تو اس افسر نے بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیاہے۔

قانونِ وقت کی پابندی سے فرد اور جماعت کی معنوی تصویر میں حسن پیدا ہوتا ہے۔دعوت کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔سماج میں تحریک کی شبیہ امتیازی ہونی چاہئے۔ورنہ آپ میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟

تحریکِ اسلامی کو چاہیے کہ وہ اپنی بہترین روایات کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔انھیں روایات سے تحریکی کلچر کی تشکیل ہوتی ہے۔حضورﷺ کی دعوتی سرگرمیوں میں آپ اور آپﷺ کے صحابہ کے حسنِ کردار کی بادِ صبا بھی شامل تھی۔آپﷺ نے عہد و پیمان کا ہمیشہ پاس و لحاظ رکھا۔مشکل سے مشکل حالات میں بھی۔ معاہدہ حدیبہ کے بعد ابو بصیر عتبہ بن اسید جب مکہ سے خفیہ طور پر نکل کر مدینہ پہنچے۔اور ان کو گرفتار کرنے کے لئے دو مشرکین کا وفد جب حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے انھیں لوٹا دیا۔کیونکہ یہ شرط معاہدہ حدیبیہ میں موجود تھی۔ قوانین اور عہد و پیمان کی پابندی سے تحریکاتِ اسلامی کو جلا ملتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2010

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau