مولانا رطب علی الٰہ آبادیؒ

دنیا کو مسافرخانے سے تعبیر کیا گیاہے۔ مسافر خانوں میں دور دراز سے مسافر آتے ہیں، ایک دن دو دن یا اس سے کم وبیش وہاںٹھہرتے ہیں اور جب اس شہر سے ان کے قیام کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے تو مسافر خانے کے قانون اور ضابطے کے مطابق اس کاحساب بے باق کرکے وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ وہاں آنے جانے کا یہ سلسلہ مستقل چلتا رہتا ہے۔ یہی حال دنیا کابھی ہے۔ یہاں بھی جو آیاہے، وہ جانے ہی کے لیے آیا ہے۔ کوئی انسان کسی بھی عہدہ و منصب کا ہو، معاشرے میںوہ کسی بھی حیثیت سے دیکھاجاتاہو یا کسی بھی ذات برادری سے اس کا تعلق ہو، اُسے چند روزہ زندگی گزارکر ایک دن یہاں سے ضرور رخصت ہوجانا ہے۔ یہ سب ہماری اور آ پ کی نگاہوں کے سامنے آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے کوئی نہیں آیاہے۔ سچ کہاہے کسی نے:

انساں کو چاہیے کہ خیالِ قضا رہے

ہم کیا رہیںگے جب نہ رسولِ خداﷺ رہے

دنیا کے اِس مسافرخانے سے رخصت ہونے والوں میں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ یہاں سے رخصت ہوتے ہیں تو صرف ان کے دوست احباب،اعزہ واقارب اور اہلِ خاندان ہی نہیں، دور و نزدیک کے بے شمار لوگوں کو غم ہوتاہے، وہ دیر تک ان کو یاد کرتے ہیں،ان کا سوگ مناتے ہیں، جلسے اور تعزیتی پروگرام ہوتے ہیں، ان میں ان کے اوصاف بیان کیے جاتے ہیں، ان کے جانے کااپنے اپنے حساب سے ماتم کیاجاتاہے اور ان کے اِرتحال کو دیر تک یا کبھی نہ پُرہونے والا خلا محسوس کیاجاتاہے اور اخبارات و رسائل میں بھی کافی دنوں تک ان کے تعزیتی جلسوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن میں بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں، جن کو دیر تک نہیں بھلایا جاسکتا اور ان کی رحلت پر لوگوں کا یہ رویہ ﴿فقہی مباحث کو درمیان میں لائے بغیر﴾ فطری معلوم ہوتاہے۔ لیکن دنیا کے اِس مسافرخانے کو خیرباد کہنے والی بعض شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں، جن کی روانگی کا بس معدودے چند کو علم ہوتا ہے۔ یہ خبر گائوں، محلّے اور قریبی عزیزوں تک محدود ہوتی ہے۔ حالاں کہ اپنے علم وفضل اور دینی وملّی خدمات کے اعتبار سے وہ بہتوں پر بھاری ہوتی ہیں۔ ہمارے نہایت محترم ومکرّم بزرگ حضرت مولانا رطب علی الٰہ آبادی بھی انھی کم یاب شخصیتوں میں تھے۔ جن کے سانحۂ ارتحال کو دو ڈھائی مہینے کا عرصہ گزرگیا، لیکن جس کے سامنے ذکر آتاہے، وہ بڑی حیرت اور اچنبھے کے ساتھ اِناللہ واناالیہ راجعون پڑھتاہے۔ اس لیے کہ یہ خبرنہ ریڈیو سے نشر ہوئی نہ ٹی وی سے اور نہ اخبارات و جرائد میں شائع ہوئی۔ حتیٰ کہ اس اخبار میں بھی یہ خبر نہ پڑھنے کو ملی، جس کی توسیع اشاعت کے لیے وہ ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔

مولانا رطب علی وطناً الہ آبادی تھے۔ ضلع الٰہ آباد کا مشہور قصبہ سرائے عاقل ان کاوطن تھا۔ وہیں۱۹۱۷؁ء میں وہ پیداہوئے تھے اور وہیں سے انھوں نے ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے ضلع کے مشہور علمی وصنعتی قصبے مؤآئمہ میں مدرسہ انوارالعلوم اور وہاں کے دوسرے مدارس میں عربی وفارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ مزید تعلیم کے لیے انھوں نے مرزا پور کا سفر کیا اور وہاں کے ایک بزرگ عالم دین سے استفادہ کیا۔

مولانا رطب علی تاحیات تعلیم وتدریس اور وعظ و تبلیغ کے مشغلے سے وابستہ رہے۔ ابتدا میں انھوں نے قصبہ مؤآئمہ ضلع الہ آباد کے ایک ادارے مدرسہ چشمہ صمد میں عربی وفارسی کی تعلیم دی۔ وہیں پر مؤآئمہ کے جیّد قاری اور میرے محسن و مشفق ڈاکٹر قاری رحمت اللہ صدیقی مرحوم نے بھی مولانا سے خصوصی استفادہ کیا اور عربی وفارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ چوں کہ قاری صاحب کے نانا محترم حکیم سید عبداللہ آئمی ؒ سے مولانا کے دوستانہ مراسم تھے اور حکیم صاحب کے اشارے پر انھوں نے تحریک اسلام کے لٹریچر کامطالعہ کیاتھا اور انھیں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تصانیف اورجماعت اسلامی ہند سے دل چسپی پیداہوئی تھی، اس لیے قاری صاحب پر ان کی خصوصی نظر تھی۔ قاری صاحب جب بھی اپنے اساتذہ کا تذکرہ فرماتے تھے، مولانا کا ذکر بہ طور خاص کرتے تھے۔ مؤآئمہ میں مسلکی ونظریاتی اختلاف کی وجہ سے زیادہ دیر تک مولانا نہ ٹھہرسکے۔ وہاں سے وہ مہاراشٹر کے ایک گم نام قصبے مانا ضلع اکولہ چلے گئے۔ مانا کی سرزمین مولانا کو اتنی راس آئی کہ پوری عمروہیں گزار دی۔ درمیان میں کچھ دنوں کے لیے کرناٹک کی مثالی درس گاہ منصورہ ہاسن کے رفقا انھیں اپنے ہاں لے گئے، لیکن مولانا کو وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی۔ اُدھر مانا والوں کابھی اصرار بڑھتا رہا۔ چناںچہ بہت جلد وہ وہاں سے پھر مانا آگئے اور وفات سے کچھ ماہ پہلے تک وہیں درس وتدریس ، امامت وخطابت اور وعظ و تبلیغ میں مشغول رہے۔

مولانا رطب علی تحریک اسلامی کے مخلص، سرگرم اور بے ریا خادم تھے۔ تحریک کامقصدِ قیام اور اس کا نصب العین ہروقت ان کے پیش نظررہتاتھا۔ وہ کسی بھی وقت اس بات سے غافل نہیں رہتے تھے کہ وہ ایک داعی جماعت کے رکن ہیں اور انھوںنے اقامتِ دین اور تبلیغ اسلام کو اپنی زندگی کا نصب العین قراردیا ہے۔ انھوںنے قرآن مجید کی عملی تفسیر پیش کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ اپنی کوشش سے مختلف مقامات پر بیت المال کا ایسا نظام قائم کیاکہ اس بستی میں کوئی ایک فرد بھی بھوکا نہ رہے۔ انھوںنے جہاںاور جس مقام پر یہ نظام قائم کیا، اس میں انھیں بڑی حد تک کام یابی حاصل ہوئی۔ شادی بیاہ کے سلسلے میں بھی انھوںنے اس نظام کے تحت بہت نمایاں کام کیے۔ ان کی اس کوشش سے برادرانِ وطن بھی متاثر تھے اور مستفیدبھی ہوے۔ کتنوں کو اسلام کی دولت نصیب ہوگئی۔ لیکن انھوںنے جو کچھ کیا یک سوئی اور خاموشی کے ساتھ کیا۔ کارکردگی کی رپورٹوں کو خوش نما بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اشتہار سے انھیں نہ کوئی دل چسپی تھی اور نہ وہ اس فن سے واقف تھے۔ مزاج میں اخفا بہت تھا۔

مولانا یہ بات بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ نمازوں کے بعد یا کسی اور موقع پراعلان ہوکہ فلاں صاحب درسِ قرآن یا درسِ حدیث دیں گے یا خطاب فرمائیں گے۔ فرماتے تھے بس یہ کہہ دینا کافی ہے کہ درس قرآن یا درسِ حدیث ہوگا۔ تاکہ لوگ قرآن و حدیث کے رشتے سے بیٹھیں۔ قرآن وحدیث کی بات سنناان کا مقصد رہے۔ ان کے سامنے کسی کا نام نہ رہے۔ مولانا جب درس کے لیے بیٹھتے تھے تو کافی دیر تک خاموش بیٹھے رہتے تھے، فرماتے تھے، درس شروع کرکے کسی کو روکنا مناسب نہیں، جس کو جاناہو چلاجائے اور جسے سننے کی طلب ہو بیٹھارہے، تب شروع کرنے سے فائدہ ہوگا۔

قرآن مجید مولانا کی سوچ اور جستجو کاخاص موضوع تھا۔ وہ اس سلسلے میںمسلسل مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ایسے نکات کی تلاش میں رہتے تھے، جن سے دعوت و تبلیغ کی راہیں کھلتی ہوں اور بات کی ترسیل میں مدد ملتی ہو۔ اُردو مفسرین میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ، علامہ شبیراحمد عثمانیؒ اور مفکراسلام حضرت مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو وہ خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ فرماتے تھے: ان کے ہاں کوئی نئی تحقیق پیش کرنے کا ادعائی انداز نہیںملتا۔ ان کے ہاں تفسیر قرآن مجید کے وقت دعوت واصلاح کا مقصد ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ کی نکتہ آفرینیوںیا ’’تحقیق بندہ‘‘ سے یہ لوگ اجتناب کرتے ہیں۔ یہ ان کے اخلاص کی علامت ہے۔

۱۹۹۸؁ء کے اوائل کی بات ہے، میںان دنوں جُزوقتی طورپر ماہ نامہ ’’زندگی نو‘‘نئی دہلی سے وابستہ تھا۔ میری طلب پر انھوں نے اپنے ایک تربیت یافتہ ناصرالدین انصار صاحب سے املا کراکر ایک مضمون ’’قارون کی موت: تحقیقی جائزہ‘‘ بھیجا، ان کا وہ مضمون جیساکہ عنوان سے ظاہر ہے بعض اہل علم کے درمیان الجھے ہوئے اس قضیے پر مشتمل تھاکہ قارون حضرت موسیٰ کی دعوت کے بعد کس گروہ میں شامل تھا اور اس کی ہلاکت کب اور کہاں ہوئی۔ اس میں مولانا نے بعض مفسرین کے اس نقطۂ نظر کو اسرائیلی روایات سے متاثر قراردیاتھا، جس میں بتایاگیاہے کہ قارون منافق تھا یا اس میں کسی درجے میں ایمان کی رمق تھی۔ مولانا نے وماکیدالکافرین اِلاّ فی ضلال سے استدلال کرتے ہوئے اُسے کافر بل کہ اکفرالکافرین قرار دیا ہے۔ اسی طرح مولانانے اپنے اس مضمون میں بعض علما ءکی اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے بتایاکہ قارون فرعون کی غرقابی سے پہلے ہی مصر میں اپنے مال ومنال کے ساتھ زمین میں دھنسا دیاگیاتھا۔ مولانا کا یہ مضمون جب ’’زندگی نو‘‘ اپریل ۱۹۹۹؁ءکے شمارے میں شائع ہوا تو اہل علم نے مولانا کے تحقیقی رویّے اور عالمانہ سوچ کو کافی اہمیت دی۔ مولانا اِن تعریفوںسے قطعی خوش نہیں ہوے۔ مجھے ایک خط میں لکھاکہ لوگ میرے مضمون کو پسند تو کررہے ہیں ، لیکن یہ کوئی بتارہاہے کہ میری اس تحقیق سے دعوت و تبلیغ کے لیے کیا سہولت پیدا ہوئی۔

مولانا اپنے دروس قرآن وحدیث اور تذکیری بیانات میں عذاب قبر کو خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ سامعین کو عذاب قبرکی طرف بڑے مدلل اور پرسوز انداز میں متوجہ فرماتے تھے۔ اپنے عام دروس ومواعظ میں اختلافی باتوں سے پرہیزکرتے تھے۔ البتہ نجی گفتگوئوں کے دوران میں ان لوگوں کی خصوصیت کے ساتھ مذمت کرتے تھے، جو عذاب قبر کے انکاری ہیں اور اپنی تقریروں اور تحریروں میں بھی عذاب قبر کی طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا فرماتے تھے: جو لوگ عذابِ قبر کا رد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں خواہ مخواہ کی چُنیں و چناں کرتے ہیں، وہ دراصل بندگان الٰہی کو آخرت اور جنت و دوزخ کے تصور سے بے نیاز کرنے کی سازش میں مبتلا ہیں۔

مولانا رطب علیؒ سے میری ملاقات ۱۹۸۱؁ءکے اواخر میں مانا ضلع اکولہ ﴿مہاراشٹر﴾ میں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے ان کا نام بھی نہیں سناتھا۔ میں ان دنوں ماہ نامہ ’’الایمان‘‘ دیوبند کا ایڈیٹر تھا۔ اس کی توسیع اشاعت کے لیے مہاراشٹر کے بعض ان مقامات کا سفر کیاتھا، جہاں ’’الایمان‘‘ کے قارئین پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود تھے۔ اِس سفر میں بھائی احمد علی اختر اور برادرِ مکرم پروازرحمانی ﴿موجودہ مدیراعلیٰ سہ روزہ دعوت﴾ کے خصوصی مشورے اور رہ نمائیاں بھی شامل حال تھیں۔ مانا میں مولانا ہی کے پاس قیام کیا۔ انھوں نے اپنی رہایش پر ایک نشست رکھی، وہاں کے اہل ذوق حضرات کو مدعو کیا اور کھڑے ہوکر اِس بے بضاعت کا ایساتعارف کرایاکہ تھوڑی دیر تک میں اپنے کو کوئی اہم شخص سمجھتارہا۔ بعد میں احساس ہواکہ یہ تو محض مولانا کی خردنوازی ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ اس سفر کے بعد مولانا سے مسلسل میرا ربط رہا۔ اپنے بعض علمی اور تحقیقی کاموں میں مجھے ان سے خاصی رہ نمائی ملی۔ ایک دو بار تو ایسا ہواکہ میری طرف سے خط لکھنے میں دیر ہوگئی تو انھوں نے خود ہی خط لکھ کر میری خیریت دریافت فرمائی۔ وہ اپنے خطوںمیں دعوتی کاموں کی طرف خصوصیت سے متوجہ فرماتے تھے۔ کبھی کبھی بعض نودریافت کتابوں کے حصول اور مطالعے کی بات بھی تحریر فرماتے تھے۔ ایک بار لکھاکہ اس مہینے آپ نے جو نعت تحریر کی ہو ضرور بھیجیں۔ میں نے جب دونعتیں انھیں لکھ کے بھیجیں تو بے حد خوش ہوئے۔بڑا تفصیلی خط لکھا اور بہت دعائیں دیں۔ بعض اشعار کی متعین طورپر تحسین فرمائی۔

۱۲/جون ۱۹۹۸؁ءکو کھونپا ﴿ضلع الہ آباد﴾ میں رفقاے جماعت نے ایک مشاعرہ کرایاتھا۔ اس وقت ہمارے ایک دیرینہ رفیق جناب افضال احمد درس وتدریس کے سلسلے میں وہیں مقیم تھے۔ وہی اس مشاعرے کے کنوینر تھے۔ ان کے بے انتہااصرار پر میں اس میں شریک ہوا۔ ہم سب کے ممدوح ومخدوم علامہ ابوالمجاہدزاہد  اور عزیزی ڈاکٹرعمیر منظر بھی ہم راہ تھے۔ نطامت عزیزی عمیرمنطر کو ہی کرنی تھی۔ ہم سب کھونپا پہنچ کر رفقا ءکے درمیان رودادِ سفربیان کررہے تھے کہ کسی نے آکر میرے کان میں کہا باہر ایک بزرگ کھڑے ہیں، وہ آپ سے ملناچاہتے ہیں۔ باہر گیا تو دیکھامولانا رطب علی صاحب بڑی سادگی اورمسکینی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اُنھیں اس انداز میں دیکھ کر میری حیرت کی انتہانہ رہی۔ وہ وہاں سے کئی میل کے فاصلے پر واقع سراے عاقل سے کسی کی سائیکل پر بیٹھ کر آئے تھے۔ میں نے بہت اصرار کیالیکن بیٹھنے پر آمادہ نہ ہوے۔ فرمایا: ’’پرسوں مانا ﴿اکولہ﴾ سے آیاہوں، آج ظہر بعد آپ کی آمد کی خبر ملی تو ملنے کے لیے بے چین ہوگیا۔ کل دوپہر کاکھانا آپ کو غریب خانے پر ہی کھانا ہے۔ اِن شا اللہ مچھلی کھلاؤںگا۔‘‘ اتنا کہہ کرانھوں نے مصافحہ کیا اور فرمایا: ’’محروم مت رکھیے گا‘‘ اور پھر اپنے رفیق کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ میں ان کو رخصت کرکے بہت دیر تک تنہاوہیں کھڑا رہا اور مولانا کے بارے میں سوچتا رہا۔ بہت دیر تک ان کی اِس خردنوازی پر میری آنکھیں بھیگی رہیں۔ وہاں کے رفیق عبدالظاہرصاحب آئے پوچھا کون صاحب ملنے آئے تھے؟ جب میں نے لرزیدہ آواز میں مولانا کانام لیا تو وہ تڑپ اٹھے، آگے بڑھ کر دیکھا توہ وہ سائیکل کے ذریعے بہت دور نکل چکے تھے۔

اگلے دن عزیزی عمیر منظرتو طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے وطن چاندپٹی اعظم گڑھ کے لیے روانہ ہوگئے اور ایک مقامی رفیق کی رہ نمائی میں تانگے کے ذریعے ہم اور علامہ ابوالمجاہد زاہد  سراے عاقل پہنچے۔ سراے عاقل پہنچنے کے بعد جس گلی سے بھی گزرے ہم نے وہاں کے باشندوں کو مولانا رطب علی کی عقیدت و محبت کا اسیر دیکھا۔ اس میں ہندومسلمان سب شامل تھے۔ مولانا کے دولت خانے پر پہنچے تو دیکھاکہ وہ سراپا انتظار بنے ہوے تھے۔ جب تک ہم ان کے پاس رہے، وہ مسلسل اپنی شفقتوں اور نوازشوں سے ہم کنار کرتے رہے۔ عصرکی نماز کے بعد وہاں سے جب ہم رخصت ہونے لگے تو دونوں کو ہینڈفین کا ہدیہ پیش کیا، فرمایا: گرمی شدید ہے، ٹرین میں یہ پنکھا کام آئے گا۔ بہت دور تک ہمیں پہنچانے آئے، موقع پاکر میرے کان میں علامہ ابوالمجاہدزاہد کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا: آپ کی بہ دولت آج ایک ’’ولی اللہ‘‘ سے ملاقات ہوگئی اور آب دیدہ ہوگئے۔ عجیب حسن اِتفاق کہ ٹرین پر بیٹھنے کے بعد یہی جملہ حضرت ابوالمجاہدزاہدنے فرمایا: ’’تابش صاحب! میں آپ کا بے حد شکرگزار ہوں، آج آپ نے اللہ کے ایک ولی سے ملاقات کرادی۔ میں نے ان کا نام تو کئی لوگوں سے سناتھا، ان کی قرآنی تحقیقات کابھی ذکرسناتھا، لیکن یہ اخلاص، نیکی، تقویٰ ، خداترسی اور خدمت خلق کے اتنے بلند مقام پر فائز ہیں، اس کا اندازہ اِس دوچار گھنٹوں کی ملاقات میں ہوا۔‘‘ میں نے عرض کیا: مولانایہی بات مولانا رطب علی صاحب نے آپ کے بارے میں بھی فرمائی تھی۔ غالباً فارسی کا مقولہ ولی را ولی می شناسد، ایسے ہی موقعوں کے لیے وضع ہواہے۔ مولانا ابوالمجاہدزاہد نے ہلکاسا تبسم فرمایا اور بہت دیر تک خاموش رہے۔

نومبر ۲۰۱۰؁ءکے اواخر میں مانا سے برادرم ناصرالدین انصار کا فون آیا۔ ان سے وقتاً فوقتاً فون کے ذریعے رابطہ رہتاہے۔ میں نے سلام کیا اور پوچھا:مولانا کا کیا حال ہے۔ انہوں نے بتایاکہ مولانا اپنی بیماری کی وجہ سے اس وقت اپنے وطن سراے عاقل الہ آبادمیں مقیم ہیں۔ میں نے اسی وقت ان کے دیے ہوئے نمبر پر الہ آباد فون کیا۔ ان کی بیٹی عفیفہ خاتون صاحبہ نے بتایاکہ ابھی وہ دوا کھاکر لیٹے ہیں، نیند آگئی ہے، اِن شاء اللہ اٹھنے کے بعد میں بات کرادوںگی۔ پھر وہاں سے بھی فون نہیں آسکا اور میں بھی دوبارہ رابطہ نہ قائم کرسکا۔ اچانک اطلاع ملی کہ ۱۵/دسمبر ۲۰۱۰؁ء کو مولانا اپنے خالق ومالک سے جاملے۔ یہ خبر میرے لیے کوہِ غم ثابت ہوئی۔ اِنّاللّٰہِ وَاِنّااِلیہ راجعون پڑھا اور ان کی عنایتوں اور نوازشوں کی ورق گردانی کرنے لگا۔ ‘‘

مشمولہ: شمارہ مارچ 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223