مولانا صدرالدین اصلاحیؒ

دین ِ حق کی اِطاعت اور اقامتِ دین کے نصب العین کی بنیاد زمین پر نہیں بل کہ آسمان پر، آسمان پر بھی نہیں بل کہ عرش پر رکھّی گئی ہے۔ یہ رضاے الٰہی کی تلاش کادوسرا نام ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کے لیے ہی اِختیار کیاجائے۔ اِس لیے یہ غایت درجے کااخلاص اور بے نفسی چاہتاہے۔

ابھی آپ نے جو سُطور پڑھیں، یہ دراصل ہندستان کے عظیم عالم دین اور تحریک اسلامی کی صف اوّل کے فکری رہ نما مولانا صدر الدین اصلاحی ﴿۱۹۹۸-۱۹۱۶﴾ کی معرکہ آرا تصنیف ’اِساسِ دین کی تعمیر‘ سے لی گئی ہیں۔ میں نے یہ سطوراساس دین کی تعمیر کو سامنے رکھ کر نہیں نقل کیں۔ بل کہ یہ میرے حافظے میں محفوظ تھیں۔ البتّہ انھیں صفحۂ قرطاس پر لانے کے بعد اصل سے مراجعت کرلی ہے۔ مولانا کی یہ کتاب میں نے اب سے کم و بیش اڑتیس﴿۳۸﴾ برس پہلے پڑھی تھی۔ اُن دنوں میں نواب گنج علی آباد ﴿ضلع بہرائچ ،یو-پی﴾ میں مقیم تھا۔ وہاں کے مدرسہ فیض العلوم میں مجود تھا اور مدرسے کے سربراہ حسان الہند حضرت مولانا بلالی علی آبادی ؒ سے کسبِ فیض بھی کررہاتھا۔ نواب گنج سے تھوڑے ہی فاصلے پر خان صاحبوں کے دو گائوں راجہ پور اور پوریناتھے۔ پورینا میں جناب ولی اللہ خاں رہتے تھے۔ یہ جماعت اسلامی کے رکن اور علاقے کے معزز فرد کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ اُس وقت تک میں نہ جماعت اسلامی یا اس کے نام سے واقف تھا اور نہ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی یا مولانا صدر الدین اصلاحی سے۔ نہ جانے کس طرح میرا نام ولی اللہ خاں صاحب تک پہنچ گیا۔ موصوف مرحوم اپنے گائوں سے پیدل چل کر مجھ طالب علم سے ملنے آئے اور استاذِ مکّرم مولانا بلالی علی آبادی کو اور مجھے دعوت دی کہ ہم پورینا ان کے ہم راہ چلیں۔ مولانا تو کسی وجہ سے نہیں تشریف لے جاسکے، البتّہ مجھے بھیج دیا۔ خاں صاحب نے بڑی پُرتکلف ضیافت فرمائی۔ خاندان کے بعض دوسرے لوگوں کو بھی کھانے پر مدعو کیا۔ باتوں باتوں میں جماعت اسلامی اور اس کی دعوت کا بھی تعارف کرایا اور جب اگلے دن میں رخصت ہونے لگا تو تین کتابوں کاایک سیٹ بھی تحفے میں دیا۔ ان میں ایک تو مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ‘‘قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں’’ تھی، ایک ‘‘فریضۂ اقامتِ دین’’ اور ایک یہی ‘‘اساسِ دین کی تعمیر’’۔ سب سے پہلے میں نے ‘‘اساسِ دین کی تعمیر’’ پڑھی اور منقولِ بالا اقتباس پر پہنچ کر میں ٹھیرگیا اور ایک خیال آفریں شعر کی طرح اِسے بار بار دہراتارہا اور لطف لیتا رہا۔ وہ لطف آج بھی میں محسوس کرررہاہوں۔ اس اقتباس کو اتنی بار بار پڑھاکہ مجھے لفظ بہ لفظ یادہوگیا۔ متعدد احباب کو بھی سنایا۔ استاذِ محترم نے سن کر کافی لطف لیا۔

مولانا صدر الدین اِصلاحی سے میری سب سے پہلی ملاقات دسمبر ۱۹۷۸ئ میں پان والی کوٹھی کے ادارۂ تصنیف میں ہوئی تھی۔ اس وقت یہ ادارۂ تصنیف ہی تھا۔ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی تو اس کے بعد بنا۔ وہیں مولانا سیّد جلال الدین عمری اور ان کے نئے رفیق مولانا سلطان احمد اصلاحی سے بھی پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہواتھا۔ اس کے بعدمولانا سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟ اِس کاکوئی ریکارڈ میرے پاس نہیں ہے۔

فراق گورکھپوری نے کہاتھا:

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو!

جب اُن کو معلوم یہ ہوگا، تم نے فراق  کو دیکھا ہے

فراق  مزاجاً خود پرست اور تعلّی پسند واقع ہوے تھے۔ اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے اپنی شخصیت کے بارے میں اِس قسم کے بیانات اکثر صادر کرتے رہتے تھے۔ اُن کا یہ شعر اُن پر کس حد تک صادق آتا ہے، اس کا فیصلہ اُن کے ناقدین کریں گے۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں ہے۔ لیکن مولانا صدر الدین اصلاحی سے میں جب بھی ملا ہوں، فراق کا یہ شعر مجھے ضرور یاد آیا ہے۔ مجھے ایسا لگاکہ تحریکِ اسلامی کی ایک پوری صدی کی تاریخ میرے سامنے کھلی کتاب کی طرح رحل پر رکھی ہوئی ہے اور میں اس کے ایک ایک لفظ کو اپنے ذہن و دل میں اُتار رہاہوں۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ مولانا تھے بھی تحریکِ اسلامی کی تاریخ۔ جب ان کی وفات کی خبر ملی، ایسا محسوس ہواکہ تحریکِ اسلامی کی تاریخ اختتام کو پہنچ گئی۔

مولانا صدر الدین اصلاحی ۱۹۱۶؁ میں اپنے آبائی وطن سیدھا سُلطان پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوے۔ یہ وہی سیدھان سلطان پور ہے، جہاں اُردو ادب و تنقیدکی ممتاز شخصیت ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی بھی پیدا ہوے تھے اور جہاں کے بعض لوگ گائوں کے نام کے پہلے جز‘‘سیدھا’’ کی تعریب کرکے خود کو ’مستقیمی‘ لکھتے ہیں۔ مولانا کے والدِ محترم حافظ جلیل احمد خاں مرحوم علاقے کے متدین اور معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ درس و تدریس اُن کا مشغلہ تھا۔ انھوں نے اپنے لائق فرزند کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم بند دل میں اور ثانوی درجات کی بلریا گنج ﴿ضلع اعظم گڑھ﴾ کے سرکاری اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے دینی رجحان کی وجہ سے والدین نے ضلع کے ایک مدرسے، مدرستہ الاصلاح میں داخلہ کرادیا اور ۱۹۳۷ میں وہیں سے اُنھوں نے  سندِ فراغ حاصل کی۔ اس کے بعد قرآن، حدیث اور فقہ کی اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے لیے سرپرستوں کے ایما سے ایشیا کی ممتاز اِسلامی یونی ورسٹی دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ لیکن حالات مساعدنہ ہونے کے سبب وہاں زیادہ دنوں تک نہ ٹھیر سکے۔ چوں کہ لکھنے پڑھنے کا ذوق تھا، رسائل میں مضامین بھی شائع ہونے لگے تھے، اس لیے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے مراسلت کاسلسلہ شروع کیا۔ ایک دو مضامین ماہ نامہ ‘‘ترجمان القرآن’’ حیدرآبادمیں بھی شائع ہوے۔ مولانا مودودیؒ کو ان کے اندر کی مخفی صلاحیتوں کا ادراک ہوچکاتھا، اس لیے مولانا نے دارالاسلام کے قیام کے بعد ان کو بھی اپنی رفاقت میں لے لیا اور جب جماعت اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی تو وہ اس میں بھی شامل ہوگئے۔

مولانا صدرالدین اصلاحی مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد تادمِ آخر تحریک اسلامی سے وابستہ رہے اور بانی جماعت اسلامی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ اُنھوںنے فریضۂ اقامتِ دین کی ادائی کا جو عہدکیاتھا، اُسے اس خوبی اور تن دہی کے ساتھ نبھایاکہ آیندہ نسلوں کے لیے نمونہ چھوڑگئے۔ ان کی زندگی کاایک ایک لمحہ، سوچ اور فکر کی پوری صلاحیت اور علم و قلم کی تمام تر قوت و توانائی اسلام کے غلبہ و قیام کے لیے برپا کی جانے والی اور تحریک اسلامی کے لیے وقف تھی۔

جب ہم مولانا صدرالدین اصلاحی کے حالات زندگی پر غور کرتے ہیں، ان کے معاصرین اور مقربین سے ان کے بارے میں سنتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صبر جمیل اور عزیمت کے پیکر تھے۔ دنیا کی گزرگاہ میں صبر کرنے والے اور عزیمت پر عمل پیرا اللہ کے بہت سے بندے ملتے ہیں، اچھے اور سعادت مند لوگوں سے یہ دنیا یکسر خالی نہیں ہے، لیکن بالعموم اکثریت وقتی مصائب پر، صبر کرتی ہے اور عارضی حادثات کے مقابلے میں عزیمت کا ثبوت دیتی ہے۔ ایسے مردان آہن بہت کم ملتے ہیں، جو زندگی کی مسلسل پریشانیوں، صعوبتوں اور آزمایشوں کے دوران صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہے اور دین کی عظیم جدوجہد کی راہ میں ہمیشہ صبرو استقامت کی چٹان بنے رہے ہیں۔ مولانا صدرالدین ایسے ہی کم یاب رجال میں تھے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِ س ارشاد کاعملی نمونہ تھے: قُل اٰمَنْتُ باِللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِیم ﴿کہہ میں ایمان لایا اللہ پر اور اسی پر جم جا﴾ انھوں نے زندگی میں کسی بھی موڑ پر کسی قسم کے صلہ و ستائش کی کبھی پروا نہیں کی۔ نہ خود کو کبھی بڑا سمجھا اور نہ کسی پر کبھی باور کرایاکہ میں چنیں اور چناں ہوں اور نہ اپنے اردگردایسے مدح خوانوں کو جمع کیا، جو ان کی عظمت وبزرگی کے پروپیگنڈے کرتے پھریں۔

مولانا صدرالدین اصلاحی تحریک اسلامی کے مخلص اور سچّے خادم تھے۔ تحریک سے ان کا تعلق جُزوقتی نہیں، بل کہ بہ ہر اعتبار ہمہ وقتی اور غیرمشروط تھا۔ تحریکِ اسلامی ہی ان کی سوچ ، فکر اور عمل کامحور تھی۔ ان کی ساری دل چسپیاں تحریک کے لیے وقف تھیں۔ تحریک اسلامی کو علمی و فکری قوّت پہنچانا اور اس کے لیے وسائل پر نظررکھنا، ان کاپسندیدہ مشغلہ تھا۔ ایسے افراد پران کی خصوصی توجّہ رہتی تھی، جو کسی بھی طرح تحریک کے کسی شعبے یا اس کی کسی مہم میں مفید یا کارآمد ثابت ہوسکتے ہوں۔

غالباً اپریل ۱۹۸۴؁ کی بات ہے۔ مولانا جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لائے ہوئے تھے، میں بھی کسی ذاتی کام سے دیوبند سے دلّی آیاہواتھا۔ مرکز ہی میں میرا بھی قیام تھا۔ قدیم مرکز ﴿چتلی قبر﴾ کے سامنے والی مسجد میں نماز مغرب پڑھی گئی۔ مسجد کے امام صاحب نے غالباً اپنی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے امامت کے لیے مجھے آگے بڑھادیا۔ نماز کے بعد مولانا نے اپنے رہائشی کمرے پر مجھے طلب فرمایا۔ میں حاضر ہوا، کافی دیر تک تجوید اور قرآنِ مجید کے سلسلے کی صحّتِ الفاظ اداے حروف سے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ مزاحاً فرمایا: ‘‘تابش صاحب! ہم لوگ ایک ایسے ادارے کے پڑھے ہوے ہوئے ہیں، جہاں قرآن مجید کو عربی میں نہیں اُردو میں پڑھاجاتا ہے۔’’ میں نے شوکت تھانوی کی نظم‘‘قبلہ و کعبہ’’ کا ایک شعر سنایا، جس میں قبلہ و کعبہ کے لقب سے یاد کی جانے والی ایک شخضیت کاتعارف کراتے ہوئے شاعر نے کہاہے :

چلتا ہے جبرئیل کے پر تولتا ہوا

اُردو زبان میں عربی بولتا ہوا  ٭

مولانا نے شعر سے بہت لطف لیا۔ پھر گفتگو کا موضوع بدل کر میری مصروفیت دریافت فرمائی۔ آخر میں بلا کسی تمہید کے فرمایا: ‘‘اِن تمام باتوں کاحاصل یہ ہے کہ میں چاہتاہوں کہ تم اب جامعتہ الفلاح میں آجائو اور وہیں اپنے فن کاجوہر دکھاؤ۔ انتظامیہ نے شعبہ تجوید کا فیصلہ تو کردیاہے، لیکن اب تک کوئی قاری مناسب حال نہیں مل سکا۔’’ اِسی اثنا میں قیّم مرحوم ﴿افضل حسین صاحب﴾ بھی کہیں سے آگئے۔ انھوںنے بھی مولانا کی لَے میں لَے ملادی۔ میں عجیب شش و پنج میں پڑ گیا۔ بالآخر آمادگی تو نہیں ظاہر کی، لیکن یہ کہہ کر اُسی دن دیوبند کے لیے روانہ ہوگیاکہ اِن شائ اللہ غور کروںگا۔ اچانک جولائی ۱۹۸۴ئ کے اواخر میں مولانا کی طرف سے جامعتہ الفلاح سے ایک لفافہ ہم دست ہوا، جس میں ناظم دفتر نظامت جناب رضی الدین نے ناظم جامعہ مولانا صدرالدین اصلاحی کی طرف سے لکھاتھاکہ اگست کے پہلے ہفتے میں تم اس طرح تیاری کرکے آجائو کہ بات طے ہوجانے کے بعد کام شروع ہوجائے۔ اِسی دوران میں جناب رشید احمد صدیقی صدر یو،کے اسلامک مشن لندن کا نوازش نامہ باصرہ نواز ہوا، جس کی رُو سے مجھے ۲۷/اگست کو لندن پہنچ جانا چاہیے تھا، تاکہ ۳۰/اگست کو ہونے والی کانفرنس میں میں شرکت کرسکوں۔ چنانچہ میں سفر برطانیہ کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ پھر وہاں پہنچ کر ۲۹/اگست کو مولانا کو لکھاکہ ‘‘میں لندن آگیا ہوں۔ یہ کچھ پتا نہیں کہ مجھے کتنے دنوں یہاں رہنا ہوگااور کہاں کہاں جانا ہوگا۔ اس لیے میں معذرت خواہ ہوں۔’’ دراصل میں جامعتہ الفلاح کی ملازمت سے بہ وجوہ کترارہاتھا۔ لیکن میرے اِس خط کے جواب میں پھر مولانا کے ہاتھ کا ایک خط برمنگھم کے پتے پر باصرہ نواز ہوا، جس میں مولانا نے بڑی محبت اور اپنائی کے ساتھ تحریر فرمایاتھاکہ ‘‘تم اطمینان سے وہاں کی سرگرمیوں میں حصّہ لو، جب بھی تم ہندستان آ ؤگے، تمھارے لیے یہاں کی جگہ خالی رہے گی۔‘‘ مولانا کایہ خط پڑھ کر میری عجیب کیفیت ہوگئی۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ مجھ جیسے بے بضاعت و ہیچ مداں پر مولانا اِس حد تک کرم گستری فرمائیں گے۔

میں نے برطانیہ میں پانچ مہینے قیام کیا۔ آج برمنگھم تو کل مانچسٹر، پرسوں سٹی آف یارک یالیسٹر تو ترسوں اسکاٹ لینڈ کے حسین شہر گلاسگو۔ غرض کہ پورے پانچ مہینے اسی طرح گزرگئے۔ وقت کا کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ اِسی ہما ہمی اور سیر سپاٹے میں مولانا کو خط لکھنا بھی یاد نہیں رہا۔ یو-کے میں پانچ مہینے گزارکر عمرے کی غرض سے سعودیہ عربیہ چلاگیا۔ وہاں جدّہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں قیام کیا، وہاں بھی ایک مہینے شعری محفلوں اور ادبی نشستوں کی نذر ہوگئے۔ جدّہ، مکّہ، مدینہ اور جرف میں درجنوں پروگرام ہوے، وہاں سے بھی مجھے کوئی خط لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ فروری ۱۹۸۵ ؁کی پہلی یا دوسری تاریخ کو دیوبند پہنچا تو سیکڑوں خطوں کو منتظر پایا۔ ان کے جوابات دینے کے بعد اپنے کام کومنظم کرنے میں مصروف ہوگیا۔ ایک تالیفی پروجیکٹ جو کافی دنوں سے حیدرآباد کے ایک ادارے نے مجھے دے رکھّا تھا، اس کی تکمیل کی۔ اِس طرح ایک ڈیڑھ سال تک میں چپ سادھے رہا۔ مجھے اِس بات کا کامل یقین بھی ہوگیاتھاکہ میری طرف سے مسلسل اور طویل بے نیازی دیکھ کر مولانا نے میرے تقرر کی بات ذہن سے نکال دی ہوگی۔ لیکن معاملہ بالکل اس کے برعکس تھا۔ ہوا یہ کہ جون ۱۹۸۶؁ میں میں پرتاپ گڑھ گیا۔ ایک عزیز نے جامعتہ الفلاح میں داخلے کی خواہش ظاہر کی اور چاہاکہ میں بلریا گنج چل کر ان کی سفارش کردوں۔ چوں کہ مجھے مچھلی شہر اور معروف پور ﴿ضلع جون پور﴾ بھی جاناتھا، اس لیے اُن عزیز سے یہ طے ہواکہ وہ فلاں تاریخ کو جامعہ پہنچ جائیں، اِن شائ اللہ میں وہاں موجود ملوںگا۔ پھر ہوا یہ کہ میں تو طے شدہ پروگرام کے مطابق بلریا گنج پہنچ گیا، لیکن وہ عزیز کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکے۔ البّتہ جامعہ کے نائب ناظم جناب منشی محمد انور صاحب اوربعض دوسرے رفقانے مولانا کا حوالہ دے کر مجھے گرفتارکرلیا۔ میں نے یہ سوچ کر زیادہ انکار کرنا مناسب نہ سمجھاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ میں اللہ کے حضور دھرلیاجائوں کہ مجھ جیسے بے صلاحیت شخص کو اس قدر گھیراؤ کرکے ایک مبارک خدمت تفویض کی جارہی ہے اور میں ہوں کہ انکار پہ انکار کیے جارہاہوں۔ چناں چہ میں نے حامی بھرلی۔چند دنوں بعدمولانا وہاں تشریف لائے تو مجھے موجود دیکھ کر اُن کے چہرے پہ مسرت وانبساط کی جو چمک تھی وہ بہ آسانی محسوس کی جاسکتی تھی۔

اِس واقعے سے اِس بات کا بہ خوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ مولانا تحریکی اداروں اور شعبوں کے لیے مناسب حال افراد کی تلاش و جستجو میں کس درجہ ساعی وکوشاں رہتے تھے۔ وہ جماعت اِسلامی کی مختلف ذمّے داریوں پر فائز رہے، آغاز ہی سے اس کی مجلسِ نمایندگان اور مرکز ی مجلس شوریٰ کے رکن رہے، متعدد بار قائم مقام امیر جماعت مقرر ہوے، ثانوی درس گاہ رام پور کے سربراہ رہے، شعبۂ تصنیف کے صدر رہے اور آخر میں جامعتہ الفلاح کے ناظم کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ ہر جگہ انھوں نے اپنی توجہ اور لگن سے تحریک اسلامی کو علمی وفکری غذا فراہم کی اورمناسب و اہل افراد کو ڈھونڈڈھونڈ کر اس کے اداروں سے وابستہ کیا۔

مولانا صدرالدین اصلاحی تحریک اسلامی ہند کے ایک بڑے عالم اور فکری رہ نما تسلیم کیے جاتے تھے۔ وہ تحریک اسلامی کے حقیقی مزاج شناس تھے۔ اجتماعیت کیا ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں؟ اس سے وہ بہ خوبی باخبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کے بعض فیصلوں سے اپنے شدید اختلاف کے باوجودوہ نہ صرف اس سے وابستہ رہے، بل کہ کبھی اپنے اختلاف کو اخبارات یا عوام کا موضوع بھی نہیں بننے دیا۔

جماعت اسلامی ہند میں انتخابی سیاست کے ذیل میں ہمیشہ دو رائیں رہی ہیں۔ مولانا صدرالدین اصلاحی ان لوگوں میں تھے، جو اس بات کے قائل نہیں تھے کہ ارکانِ جماعت انتخابی سیاست میں حصّہ لیں۔ ۱۹۸۵میں جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے کثرتِ آرا کی بنیاد پر جب ارکان جماعت کو ووٹ دینے کی آزادی دی تو تحریکی حلقے میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایسا لگتاتھا کہ جماعت دو حصّوں میں بٹ جائے گی۔ بعض کوششیں ایسی بھی سامنے آئیں کہ کیوں نہ دوسری جماعت بنالی جائے، لیکن اِن کوششوں کی حوصلہ شکنی بل کہ سرکوبی جن مخلص و معاملہ فہم شخصیتوں نے کی، ان میں میری معلومات کے مطابق مولانا صدر الدین اصلاحی اور ان کے دیرینہ ہم نوا و ہم مزاج حکیم محمد ایوب ندوی ﴿بلریا گنج﴾ کے نام سرفہرست ہیں۔ اِن دونوںبزرگوں کا یہ وہ کارنامہ ہے، جسے جماعت اسلامی ہند کی تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکے گی۔

مولانا صدرالدین اصلاحی جماعت کے فکری قائد و رہ نما تھے۔ ان کی عظمت اور علمی بلندی کاایک زمانہ معترف ہے، انھوں نے جماعت کی فکر اور اس کی دعوت کو کامل طورپر اپنے اندر جذب کیاتھا۔ بہ قول مولانا سیّد جلال الدین عمری: ‘‘مولانا اُن ممتاز و نمایاں لوگوں میں تھے، جو جماعت کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی اور اس کے مقصد و نصب العین کی طرف رہ نمائی کرسکتے تھے۔’’ لیکن اس کے باجوود انکسار و خاکساری کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اپنی رائے پر اٹل رہنا یا اس پر اصرار کرنا ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتاتھا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی نے مولانا کے انتقال کے موقع پر زندگی نو میں لکھاتھا:

’’مولانا صدرالدین اصلاحی کی عظمتِ کردار کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ موصوف نے ہمیشہ کسر وانکسار سے کام لیا اور اکثر اوقات اجتماعی رایوں کا لحاظ کیا۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے مباحث میں جب کبھی بھی کسی عملی مسئلے پر لوگ دو مختلف و متضاد رایوں میں بٹ جاتے تو یہ مولانا کی ہی ذات تھی جو مصالحت کی راہ ہم وار کرتی تھی۔‘‘

اپنے اِسی مضمون میں فریدی صاحب نے بتایاہے کہ مولانا کے ساتھ مجھے ایک لمبے عرصے تک مرکزی مجلس شوریٰ کارکن رہنے کااتفاق رہا ہے۔ مجھے یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ تقریاً ہر متنازع و اختلافی موقعے پر انھوں نے اجتماعی فائدے کے لیے مصالحت کی روش اختیار کی۔ مولانا کو اپنی راے بہت عزیز تھی، لیکن اس سے زیادہ وہ تحریک کے عمومی مفاد کو عزیز رکھتے تھے۔ اسی موقعے پر مولانا سیّد جلال الدین عمری نے اپنے تعزیتی مضمون میں تحریر فرمایاتھا :

’’مولانا صدرالدین اصلاحی اپنے علم و فہم اور دینی بصیرت کے لحاظ سے برصغیر ہی کے نہیں عالم اسلام کے ممتاز فرد تھے۔ لیکن وہ اپنی خاموش مزاجی اور استغنا کی وجہ سے ملکی ، سیاسی اور ملّی سرگرمیوں میں کم ہی نظرآتے تھے۔‘‘

حالاں کہ ان سے کم تر سطح کے لوگ ہر جگہ ممیّزاور نمایاں ہیں۔ بل کہ بہت سے لوگ تو مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب بھی انھیں مناسب موقع ملتا ہے، وہ نمایاں ہونے یا اپنے وجود کا احساس دلانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا کو یہ روش پسند نہیں تھی، اس لیے کہ ان کی شخصیت اِن سب باتوں سے بلند تھی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی تحریکِ اقامتِ دین کو قوّت پہنچانے میں صرف کردی۔ بلکہ بقول مولانا سیّد جلال الدین عمری :

‘‘وہ مولاناسیّد ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے رفیق ہی نہیں بل کہ ان کی برپاکردہ تحریک کے بہترین ترجمان تھے۔’’

مولانا نے تحریک اسلامی کی فکر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلّل و مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی گراں قدر تصانیف فریضہ اقامتِ دین، اسلام اور اجتماعیت، معرکہ اسلام و جاہلیّت، راہِ حق کے مہلک خطرے اور دین کا قرآنی تصّور اس کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

مولانا صدرالدین اصلاحی نسباً پٹھان تھے۔ لیکن نرم دلی اور مروّت سے ان کا سینہ لبریز تھا۔ ان کی اس مزاحی کیفیت سے بعض موقع شناسوں نے ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا۔ ایک صاحب جو کہ کبھی ہمیں بھی بہت عزیز تھے اور مولانا بھی انھیں پسند کرتے تھے، انھوںنے اپنی ایک کتاب میں اپنے مؤیدین کی فہرست میں کئی فرضی ناموں کے ساتھ مولانا کا بھی نام شامل کردیا۔ اس کتاب سے تحریکی حلقے میں بھی اضطراب پیدا ہو اور غیرتحریکی حلقوںمیں بھی۔ چوں کہ تائید کرنے والوں میں مولانا کابھی نام شامل تھا، اس لیے تحریکی حلقے کی بے چینی اور تشویش شدّت اختیارکرتی گئی۔ میں خود مصنّف کا دیرینہ نیاز مند ہونے کے باوجود اپنے شدید اختلاف کااظہار کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس لیے کہ جس قدر مجھے کتاب کے مصنّف عزیز تھے، اس سے کہیں زیادہ دین عزیز تھا اور ہے۔ مؤیدّین کی فہرست میں مولانا کانام دیکھ کر بہت سارے رفقاے تحریک کی طرح مجھے بھی تعجب ہوا۔ اچانک ایک سفر میں پھول پور بھی جانے کا پروگرام بن گیا۔ برادرم مکرم جاوید اقبال صاحب ﴿اس وقت کے منیجرمرکزی مکتبہ اسلامی﴾بھی ساتھ موجود تھے۔ بل کہ صحیح بات یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ تھا۔ مولانا سے مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا اور معلومات حاصل ہوئیں۔ دورانِ گفتگو غالباً بھائی جاید اقبال صاحب نے اس کتاب کاذکرچھیڑدیا۔ بس مولانا کا تمام کرب و اضطراب الفاظ کی شکل اختیارکرگیا۔ مولانا نے بے زاری اور کوفت کے ساتھ فرمایا:

‘‘انھوںنے اپنے ساتھ مجھ کو بھی رسوا کیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ اِس طرح کی فضول اور گم راہ کن باتوں کی تائید کا الزام بھی میرے سر تھوپاجائے گا۔کیا کروں میرا اخباری مزاج تو ہے نہیں کہ میں بیان دیتاپھروں۔ مولوی ابوالبقاندوی اور حکیم محمد ایوب صاحب کے بھی خطوط آئے تھے۔ آخر میں کس کس کو صفائی پیش کرتاپھروں۔

ایک بزرگ اپنی نجی مجلسوں اور چھوٹے بڑے پروگراموں میں اکثر درشت لہجے میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’مولانا صدرالدین اصلاحی نے اپنی کتاب ‘‘دین کا قرآنی تصوّر’’ میں ‘‘دین کا غیرقرآنی تصوّر’’ پیش کیا ہے۔‘‘ مولانا جب بہ غرض علاج دہلی تشریف لائے تو ہم لوگوں نے ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں وہ بزرگ بھی ہمارے ہم راہ تھے۔ میں نے دیکھاکہ مولانا نے ان کے ساتھ غیرمعمولی عزت وتکریم کامعاملہ کیا۔ وہ اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے اس عزتّ وکریم کے مستحق بھی ہیں۔ دل میں خیال آیاکہ شاید مولانا کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ موصوف ان کے بارے میں کیا کہتے رہتے ہیں۔ ورنہ مولانا کے رویے میں ضرور فرق واقع ہوتا۔ دو تین روز کے بعد مجھے دوبارہ مولانا کی خدمت میں حاضری کا اتفاق ہوا۔ میں نے عرض کیاکہ مولانا ہمارے بعض دوستوں کاکہنا ہے کہ آپ کی کتاب ‘‘دین کا قرآنی تصوّر’’ میں دین کا غیرقرآنی تصور پیش کیاگیا ہے۔ مولانا نے برجستہ فرمایا: ‘‘بعض دوستوںکاکیا…صاحب یہ بات کہاکرتے ہیں۔ ان سے کہنا کہ ایک بار پھر اس کا مطالعہ کرلیں، بلکہ  نظرثانی شدہ ایڈیشن میں میں نے تسہیل کردی ہے، تاکہ جن کی بہ راہ راست قرآن وحدیث تک رسائی نہیں ہے، وہ بھی بات کی تہہ تک بہ آسانی پہنچ سکیں۔

یہ دو واقعات مولانا کے علم و حلم پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور نرمی و مروّت پر بھی اور اِن سے اِس بات کی بھی کامل نشان دہی ہوتی ہے کہ مولانا اپنے سے اختلاف کرنے والوں یا اپنے نقطہ نظر کے مخالفین کے ساتھ وہ رویّہ رکھتے تھے، جو ہمیشہ اور ہر عہد کے اہل علم کا شیورہ رہاہے۔

مولانا صدر الدین اصلاحی بسیار نویس مصنفین میں نہیں تھے۔ ان کی کتابوں کی تعداد ان کی عمر اور شہرت کے لحاظ سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ لیکن جو کچھ بھی انھوں نے لکھ دیاہے، اسے اہل علم کے طبقے میں درجۂ اعتبار حاصل ہے۔ ان کی تحریروں میں خوش گوار قسم کا ٹھیرائو پایاجاتا ہے۔ زبان وبیان کے سلسلے میں وہ کافی حد تک محتاط تھے۔ املا و انشا پر بھی خصوصی توجّہ رکھتے تھے۔ دین کا قرآنی تصوّر کی تدوین نو کے موقع پر ان سے کئی بار خط و کتابت رہی۔ وہ اپنے خطوں میں املے کے سلسلے میں ضرور ہدایات تحریر فرماتے تھے۔ مثلاً یہ کہ لے کر، کے لیے، دے کر، اس لیے وغیرہ کو ملاکر نہ لکھا جائے یا کیجیے، دیجیے اور لیے، دیے وغیرہ میں ہمزہ کااستعمال نہ کیاجائے۔ اسی دوران میں ایک ملاقات کے موقع پر میں نے عرض کیاکہ مولانا ! آپ املے کے سلسلے میں کافی حسّاس ہیں۔ یہ رویّہ بالعموم علما یا مذہبی موضوعات پر لکھنے والے طبقے میں نہیں ملتا۔ مولانا نے خفیف سی مسکراہٹ کے بعد فرمایا: دراصل میرا یہ ذوق مولانا امتیاز علی خاں عرشی مرحوم کی دین ہے۔ میں جس زمانے میں رام پور میں تھا، ان سے مسلسل ملتاتھا۔ زیادہ تر انشا واملا ہی کے موضوع پر ان سے گفتگو رہتی تھی۔

میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں مولانا کی علمی و تحریکی خدمات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، اس سلسلے میں بعض معتبر اہل علم و دانش کی آرا بھی نقل کی ہیں اور مولانا کی بعض اخلاقی خوبیوں کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن جو کچھ لکھاہے محض اجمال و اختصار کے ساتھ لکھا ہے۔ اِس سے زیادہ تفصیل کایہاں موقع بھی نہیں تھا۔ مولانا پر لکھنے اور کہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ یہ تحقیق و جستجو کاایک اہم موضوع ہے۔ اگر سنجیدگی سے اس پر کام کیاجائے تو یہ ایک اہم علمی خدمت ہوگی۔

مولانا صدرالدین اصلاحی ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئے۔ افسوس کہ جولوگ رخصت ہوتے جارہے ہیں ، ان کی جگہ کو پُرکرنے والے نہیں پیدا ہورہے ہیں۔ مولانا نے کم و بیش نصف صدی تک تحریک اسلامی کی بے لوث اور مخلصانہ خدمت کی اور علمی و فکری رہ نمائی کا فریضہ انجام دیا۔ اِن شائ اللہ اُنھیں تحریکِ اسلامی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ اور ان کے چھوڑے ہوے نقوش سے نسلیں روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔

مشمولہ: شمارہ جون 2010

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223