عقیدۂ توحید اور وحدتِ اُمت

(2)

پہلا اور بڑا سبب شرک

اتحاد نہ ہونے کاایک بڑا سبب شرک ہے۔ اللہ وحدہ‘ لاشریک پر ایمان لانے والے مومن اور مسلم کی بڑی تعداد  شرک میں مبتلا ہے۔ قرآن پاک اس حقیقت کو برملا بیان کرتا ہے:

وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ۔ (یوسف:۱۰۶)

’’ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں‘‘۔

بیشتر لوگ شرک ہی میںمبتلا ہیں وہ بزرگان دین اور اولیاء اللہ جنھوں نے اپنی زندگیاں ایک اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے میں لگا دی ، انہیں کولوگوں نے جوش عقیدت میں غلو کرکے خدائی کے مقام تک پہنچا دیا اور خدا پرستی کے ساتھ ساتھ دوسری پرستیاں بھی شامل ہوگئیں۔ طاغوت پرستی ، قوم پرستی، انا پرستی، مفاد پرستی، وطن پرستی، آباء پرستی، اولیا پرستی وغیرہ وغیرہ۔ مشائخ اور بزرگوں کی قبریں ہر شہر کے گوشے گوشے میں موجود ہیں اور علانیہ ان کی پوجا ہورہی ہے۔ ان کے بڑے بڑے مراکز بھی ہیں۔ اجمیر شریف، دیوہ شریف ، کلیر شریف، یہ سب شریف ہیں سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ ہر سال دھوم دھام سے عرس ہوتا ہے اور قیمتی چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ کروڑوں روپے اس میں صرف کئے جاتے ہیں ، نذریں اور نذرانوں کی رقم الگ سے مجاوروں کی جیبوں میں جاتی ہیں۔ ان سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ان کی زیارت کے لئے دوردراز سے عورتیں اور مرد سبھی جاتے ہیں۔سجدے کرتے ہیں۔ مزاروں پر جتنی آرائش اور سجاوٹ ہوتی ہے اتنی شاید دیوالی میں بھی نہیں ہوتی، بقول ابوالمجاہد زاہد                           ؎

قبریں ایسی جیسے دلہنیں چوتھی کی ہوں اے زاہدؔ

کیا کیا زیب وزینت دیکھی اسلامی بت خانوں میں

بھارت کی مشرکانہ تہذیب و حکومت بھی اس کلچر کو فروغ دینے میں بڑی دلچسپی رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ ان کے لئے ہم رنگ زمین ہے۔ ہندوئوں کے چھوٹے بڑے وزراء اور سیاسی لیڈران بڑی آن بان اور شان سے چادریں چڑھاتے ہیں۔ بعض لوگوں نے تو نبی آخرالزماں ﷺ کو خدا کے مرتبہ تک پہنچاکر انہیں خدا کا اوتار بنا دیا اور شاعر نے کہا                    ؎

وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہوکر

اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہوکر

شاعروں نے اپنے کلام میں اولیاء اللہ اور عشق رسول ؐ میں اتنا غلو کیا کہ خدا کی ضرورت باقی نہیں رہی جو کچھ مانگنا ہے نبیؐ اور اولیاء سے مانگ لیا جائے             ؎

اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے

جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمد سے  (استغفراللہ)

ماہرالقادری جیسا کہنہ مشق اور توحید پرست شاعر بھی جو رسول اللہ ﷺ کی بشریت اور عبدیت کا معلن تھا غلو سے نہ بچ سکا اور یہ کہہ گزرا   ؎

سلام اس پر کہ تھا الفقر فخری جس کا سرمایا

سلام اس پر کہ جس کے جسم اطہر کا نہ تھا سایا

اب یہ بھی دیکھئے کہ علامہ اقبال حضرت نظام الدین اولیاء (نہیں معلوم انہیں ولی کی جمع اولیاء کیوں کہا جاتا ہے) کی منقبت میں کیا فرماتے ہیں           ؎

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تِرا

ہمیں بچپن میں فقہ کی درسیات میں یہ پڑھایاگیا تھا کہ بڑے سے بڑا ولی چھوٹے سے چھوٹے صحابی کے درجے اور مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا کجا کہ نبی سے بھی اونچا کردیا جائے۔ مسلمانوں کے عقیدۂ توحید میں جسے قرآن پاک نے بہت ہی صراحت اور وضاحت سے بیان کیا ہے شرک جیسا ظلم عظیم کیسے درآیا۔ اس کی بنیادی وجہ غلو ہے۔ کسی کی محبت اورعقیدت میں حد سے زیادہ بڑھ جانا ہی غلو کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہلک مرض سے بچنے کے لئے گزشتہ قوموں خاص طور سے اہل کتاب یہود ونصاریٰ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ۔

(المائدہ: ۷۷)

’’کہو! اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور نہ ان لوگوں کے تخیلات کی پیروی کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور سواء السبیل سے بھٹک گئے۔

مسلمانوں میں شرک کے داخل ہونے کاایک اور اہم سبب فلسفیانہ تصوف ہے۔ اس تصوف کی کرامات نے ایسا طلسم ہوشربا تیار کیا ہے کہ جس نے بھی اس میں قدم رکھا وہ وحدت الوجود تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکا اور وحدت الوجود ایسا افراسیابہ ہے جس نے اپنی شریعت میں لاالٰہ الا اللہ کا ترجمہ لا موجود الا اللہ کر رکھا ہے۔ اس کے فلسفے میں شرک اس طرح سرایت کرجاتا ہے کہ اسے شرک سمجھا ہی نہیں جاتا۔ بڑے بڑے صوفیائے کرام کی کتابیں پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اولیاء اللہ کو کس قدر باطنی تصوف کا حل قرار دیاگیا ہے۔ مولانا عروج قادری ؒ شیخ علی ہجویری جو داتا گنج بخش کے لقب سے بھی مشہور ہیں اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے پیر تھے ان کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ جو تصوف کی مشہور و معروف اور مستند کتاب مانی جاتی ہے وہ فارسی زبان میں ہے اس کی ایک عبارت نقل کرنے کے بعد اس کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اور میں علی بن عثمان اجلالی رضی اللہ عنہ کہتا ہوں کہ توحید حق کی طرف سے عطیہ اسرار ہے اور عبارت سے ظاہر نہیں ہوتا جب تک کوئی شخص اس کو ملمع عبارت سے آراستہ نہ کرے، اس لئے کہ عبارت  معبر (جس کی تعبیر کی جائے) کی غیر ہوتی ہے اور غیر کا اثبات توحید میں شرک کا اثبات ہے لہٰذا عبارت لہو کا درجہ رکھتی ہے اور موحد الٰہی ہوتا ہے لاہی (لہو کا مرتکب) نہیں ہوتا‘‘۔

اس عبارت سے متعلق وہ لکھتے ہیں:

یہ عبارت پڑھ کر ایک خیال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کشف میں شیخ ہجویری نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب عبارت مزحزف (ملمع غیر حقیقی) ہے، لیکن اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ قرآن مجید جو بیان توحید سے بھرا ہوا ہے وہ کون سی توحید ہے، کوئی مسلمان اس عبارت کو مزحزف تو نہیں کہہ سکتا۔ اب یہی ہوسکتا ہے کہ قرآن میں جو توحید ہے وہ کوئی اور توحید ہے اور شیخ ہجویری نے جس توحید کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ہے وہ کوئی اور توحید ہے اور اب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ جس توحید کے بارے میں یہاں رائے دی گئی ہے وہ وحدۃ الوجود کا وہی فلسفہ ہے جسے ابن عربی نے مرتب ومدون کردیا ہے‘‘۔

(تصوف کی تین اہم کتابیں صفحہ ۲۲ ، ناشر ہندوستان پبلی کیشنز، دہلی ، سن اشاعت مارچ ۱۹۸۳ء)

مزید لکھتے  ہیں۔ کشف المحجوب میں اولیاء کے بارے میں یہ بھی ہے:

’’خداوند تعالیٰ کے اولیاء ملک کے مدبر ہیں اور عالم کے نگراں اور خداوند تعالیٰ نے خاص طور پر ان کو عالم کا والی (حاکم) گردانا ہے اور عالم کا حل وعقد ان کے ساتھ وابستہ کردیا ہے اور احکام عالم کو ان ہی کی ہمت کے ساتھ جوڑ دیا ہے‘‘۔

قرآن حکیم کہتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ ہی کو اپنے ملک کا مدبر سمجھتے اور مانتے تھے کسی اور کو نہیں۔ فلسفیانہ تصوف کہتا ہے کہ اولیاء سلطنت الٰہی کے مدبر ہیں اور عالم کا حل و عقد اللہ تعالیٰ نے ان کے حوالے کردیا ہے۔

استغفر اللہ واعوذباللہ ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

اب اگر لوگ اولیاء کی دہائی دے رہے ہیں اور ان کی قبروں کو پوج رہے ہیں تو اس شرک کا  سبب کیا ہے اور کون ہے؟ جب اولیاء کا مقام یہ ہے تو ان کی معصومیت کا خیال تو کم درجے کی چیز ہے۔ کیونکہ مدبر کائنات ہونے کا مقام تو انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی حاصل نہ تھا‘‘۔ (ایضاً،ص:۳۲)

تصوف میں ضعیف اور موضوع احادیث کا خاصا چلن ہے۔ اس طرح کی کئی حدیثوں کے نمونے مولانا عروج صاحب نے کشف المحجوب سے پیش کئے ہیں ان میں سے صرف ایک حدیث کا نمونہ حاضر ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اہل تصوف کی آواز سنی اور پھر ان کی دعا پر آمین نہیں کہی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غافلوں میں لکھا جائے گا۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’واقعہ یہ ہے کہ کشف المحجوب میں یہ حدیث پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ میں نے اب تک تصوف کی جتنی کتابیں پڑھی ہیں ان میں اتنی واضح موضوع حدیث نہیں پڑھی تھی۔ خود اہل تصوف تسلیم کرتے ہیں کہ تصوف اور اہل تصوف کے الفاظ عہد صحابہ کرام کے بعد مسلمانوں کے لٹریچر میں داخل ہوئے ہیں۔ لیکن انھوں نے بلاتامل رسول اللہ ﷺ کی طرف یہ حدیث منسوب کردی— جن لوگوں نے اس طرح کی حدیثیں وضع کی ہیں انھوںنے خدا تعالیٰ کے دربار میں پیش کرنے کے لیے کوئی جواب سوچ لیا ہوگا۔ لیکن جن لوگوں نے اسی طرح کی حدیثیں اپنی کتابوں میں نقل کرکے انھیں پھیلایا وہ کم ذمے دار نہیں ہیں۔ (ایضاً،صفحہ ۳۵)

اب ایک حدیث اور دیکھئے جو مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب تصوف میں لکھی ہے:

شریح بن عبیدؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روبر و اہل شام کا ذکر آیا ۔ کسی نے کہاکہ اے امیرالمؤمنین ان پر لعنت کیجئے۔ فرمایا نہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے فرماتے تھے کہ ابدال (جو ایک قسم ہے اولیاء کی) شام میں رہتے ہیں اور وہ چالیس آدمی ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا شخص بدل دیتا ہے۔ ان کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور ان کی برکت سے اعداء پر غلبہ ہوتا ہے اور ان کی برکت سے اہل شام سے عذاب (دنیوی) ہٹ جاتا ہے۔

اس کے بعد مولانا تھانویؒ اولیاء اللہ کی مختلف اقسام بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس باب میں بزرگوں کی مختلف عبارتیں ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ سب بارہ گروہ ہیں۔ (۱) ابدال(۲)ابرار (۳)اخیار (۴)اقطاب (۵)اوتاد (۶) عمد (۷) امامین (۸) غوث (۹) مفرداں (۱۰) مکتوناں (۱۱)نجبا (۱۲)نقباء‘‘۔

پھر انھوں نے تفصیل سے یہ بھی بتایا ہے کہ کون کتنی تعداد میں کن ملکوں اور شہروں میں رہتے ہیں۔  پھر وہ قطب الارشاد اور قطب التکوین کے عنوان سے اولیاء اللہ کی دو قسمیں بتاتے ہیں۔ جن میں قطب الارشاد کے ذمے بندوں کی ہدایت اور اصلاح قلوب اور تربیت نفوس ہے۔ قطب التکوین کے ذمے معاش کا انتظام اور امور دنیویہ ودفع بلیات ہیں۔ ان کی مثال حضرات ملائکہ جیسی ہے جنھیں مدبرات امر فرمایاگیا ہے۔ ان کے مقام و منصب کے لئے ایسے تصرفات عجیبہ کا ہونا لازم ہے۔ (جاننا چاہئے کہ) قطب التکوین کے لئے ضروری ہے کہ اس کو اپنے قطب ہونے کا علم ہو۔ کیونکہ وہ ایک عہدہ ہے۔ (شریعت وطریقت ،صفحہ ۳۹۴تا ۳۹۸، ناشر مکتبہ نعیمیہ دیوبند)حضرت تھانویؒ کی یہ عبارت بھی کشف المحجوب کی عبارت جیسی ہی ہے۔

اس طرح کی احادیث کے بارے میں پروفیسر سعود عالم قاسمی صاحب علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب ’المنار المنیف‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

احادیث الابدال والاقطاب والاغواث والنقباء والنجباء والاوتاد کلہا باطلہ۔

(فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان ،صفحہ ۷۸، طبع دوم اگست ۱۹۹۰ء ناشر مکتبہ اسلامی، دہلی)

ابدال، قطب، غوث، نقباء، نجباء اور اوتاد سے متعلق ساری روایات باطل ہیں۔

’زہد وتصوف ‘ (صفحہ ۷۵ تا ۷۹) کے عنوان کے تحت انھوں نے بہت سی ضعیف اور موضوع روایات کا تذکرہ کیا ہے۔

پروفیسر یوسف سلیم چشتی عقیدۂ توحید میں شرک کی آمیزش اور مسلمانوں میں تفرقہ پڑنے کا ایک دوسرا سبب بتاتے ہیں وہ کہتے ہیں اور بہت حد تک صحیح کہتے ہیں ، یہ یہودیوں کی سازشوں سے ہوا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں کے ہاتھوں یہود کو جو ذلت نصیب ہوئی اس کی خلش ان کے دل سے کبھی محو نہ ہوسکی۔ چنانچہ مسلمانوں کی طاقت کو ضعف پہنچانے اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لئے حضرت عثمان کی خلافت کے آخری دور میں یمن کے ایک یہودی عبداللہ بن سباع نے مدینہ میں آکر منافقانہ طور پر اسلام قبول کرلیا۔ (اسلامی تصوف میں غیراسلامی نظریات کی آمیزش ، صفحہ ۱۷ ، سال طباعت ۱۹۸۹ء، الحمد پبلی کیشنز، دہلی )

حضرت علیؓ کے حق میں عبداللہ ابن سبا نے سب سے پہلے پروپگنڈا شروع کیا اور مختلف شہروں میں جاکر ان عقائد کی تبلیغ کی کہ آنحضرت ﷺ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور حضرت علیؓ آنحضرت ﷺ کے وصی ہیں اس نے یہ بھی کہا تھا خلفاءثلاثہ (نعوذ باللہ ) غاصب ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کے اندر جوالوہیت تھی وہ ان کے بعد حضرت علی کی ذات میں منتقل ہوگئی ۔ جو لوگ حضرت عثمان غنیؓ سے ناخوش تھے انھوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہا۔ پروفیسر کے ہٹی کے بقول یہ شخص غالی شیعہ فرقے (غلاۃ) کا بانی ہے۔

پروفیسر عباس اقبال، معلم دارالمعلمین عالمی طہران کے بقول سبائیہ غالی فرقوں میں سب سے پہلا فرقہ ہے۔ یہ لوگ عبداللہ ابن سبا کے طرفدار تھے جنھوں نے سب سے پہلے حضرات ابوبکر وعمر وعثمان ؓ پر طعن کا اظہار کیا اور یہ لوگ حضرت علیؓ کی حیات جاوید اور رجعت (دوبارہ واپسی دنیا میں) اور الوہیت کے معتقد تھے ۔ امیرالمؤمنین حضرت علیؓ نے عبداللہ ابن سبا کو قتل کرا دیا۔ فرقہ نصیریہ کے افراد اسی فرقہ سبائیہ کے باقی ماندہ افراد ہیں‘‘۔ (ایضاً)

امام محمد بن عبدالکریم شہرستانی اپنی مشہور تالیف ’’الملل والنحل‘‘ میں کہتے ہیں۔

ان فرقوں میں سے ایک فرقہ سبائیہ ہے۔ یہ عبداللہ ابن سباع کے اصحاب ہیں جس نے حضرت علی سے کہا تو ، تو ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تو خدا ہے۔ عبداللہ بن سباع پہلا شخص ہے جو امامت علی کی فرضیت کا قائل ہوا۔ اور غلاۃ کے مختلف فرقے اسی مخذول شخص کی تعلیمات سے پیدا ہوئے۔ اس کی رائے میں حضرت علی ؓ مقتول نہیں ہوئے اور ان میں الوہیت کے اجزاء میں سے ایک جزء موجود تھا۔ رعد ان کی آواز اور برق ان کا تازیانہ ہے۔ (ایضاً،صفحہ ۲۱)

عبداللہ ابن سبا نے ایک تیر سے دوشکار کیے: (۱) اسلام کے بنیادی عقائد میں غیر اسلامی اور مشرکانہ عقائد داخل کردیے (۲) مسلمانوں کی وحدت ملی اور یک جہتی و یک رنگی کو پارہ پارہ کردیا۔

اس شخص کی فتنہ انگیزی اور منافقانہ   روش کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اس کو قتل کرا دیا لیکن جو خفیہ جماعت اس نے پیدا کردی تھی اور جس قسم کے غیر اسلامی عقائد اس جماعت میں راسخ کردیے تھے ان دونوں باتوں کا خاتمہ نہ ہوسکا بلکہ اس کی وفات کے بعد اس کی جماعت کو ایران میں قبول عام کی سند حاصل ہوگئی۔

پروفیسر چشتی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

حضرت جعفر (شیعوںکے چھٹے امام) نے ۱۴۸ہجری میں وفات پائی ، ان کی وفات کے بعد ان کے متبعین میں دو گروہ پیدا ہوگئے : (۱) جس نے چھوٹے بیٹے حضرت موسیٰ کاظم کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ (۲) جنھوں نے ان کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو ان کا جانشین تسلیم کیا وہ آگے چل کر اسماعیلیہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ہمیں اس وقت اسی دوسرے گروہ کی مختصر داستان لکھنی ہے۔

یہ فرقہ اگرچہ شیعیت ہی کی ایک شاخ ہے مگر جن لوگوں نے اس فرقے کی رہنمائی کی انھوں نے اسے ایک تخریبی تحریک بنا دیا اور آگے چل کر یہ تحریک اپنے معتقدات  اور اعمال کے لحاظ سے شیعیت سے بھی کوسوں دور ہوگئی۔ تاریخ اسلام میں اس تحریک کو علاحدہ، باطنیہ، تعلیمیہ اورقرامطہ کے رسوائے عالم  لقب سے یاد کیاگیا ہے۔ یہی فرقہ دنیائے اسلام میں غیر اسلامی تصوف کا بانی ہے۔ (۲)علامہ جمال الدین ابن جوزی نے آٹھ ناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ (تلبیس ابلیس ، صفحہ ۱۳۷، ۱۳۸ ، اردو ترجمہ ابو محمد عبدالحق اعظم گڑھی۔ علامہ نے مذکورہ ناموں کے علاوہ جو نام لکھے ہیں وہ اسماعیلیہ ،سبعیہ، بابکیہ، محمرہ ہیں۔ انھوں نے ہر نام کی وجہ تسمیہ بھی بتائی ہے۔

’قرامطہ نے ہمیشہ اس اصول پر عمل کیا کہ جیسا دیس ویسا بھیس ۔ چنانچہ جب ان کے دعاۃ ہندوستان آئے تو انھوں نے صوفیوں اور جوگیوں اور پیروں کے طور طریقے اختیار کئے اور ہندوئوں میں حضرت علیؓ کو وشنو کے دسویں اوتار کے روپ میں پیش کیا۔ عوام میں ہردلعزیزی حاصل کرنے کے لئے انھوں نے اپنے ناموں سے پہلے پیر کے لقب کا اضافہ کیا۔ پیر صدر الدین نے گجرات میں اور پیر شمس الدین نے ملتان میں تصوف کے پردے میں اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔ (اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش ،صفحہ ۳۱)اس کے پیر وصوفیوں کی زبان میں محمدؐ اور علیؓ کی تعریف میں بھجن گایا کرتے تھے اس نے اپنے مریدوں کے لئے دشم اوتار نامی کتاب لکھی جو آج بھی اسماعیل مزاری خوجوں کی نہایت مقدس (قرآن کی طرح) کتاب ہے۔ (ایضاً،صفحہ ۳۳)

اس فرقے نے بہت سی روایات وضع کرکے مسلمانوں میں شائع کردیں اور اپنی مجلس میں ان وضعی روایتوں کو مسلسل بیان کیا اور سامعین نے ان حضرات پر اعتماد کرکے انہیں قبول کرلیا۔ مثلاً یہ روایت بہت مقبول ہے کہ جب جنگ احد میں آنحضرت ﷺ زخمی ہوگئے اور جسم سے خون بہنے لگا تو جبریل نے آکر آپ سے کہا کہ ’’نادعلیا‘ والی دعا پڑھو یعنی علی کو پکارو۔ جب آپ نے یہ دعا پڑھی تو علیؓ فوراً آپ کی مدد کے لئے آئے اور کفار کوقتل کرکے آپ کو تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا لیا‘‘۔

اہل علم جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے غزوۂ احد میں اس قسم کی کوئی دعا نہیں مانگی۔ یہ کسی مستند کتاب اور سیرت میں نہیں ملے گی اور پھر جب جنگ احد میں حضرتؓ اول تا آخر آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہے تو انھیں پکارنے کی ضرورت کیسے پیش آسکتی تھی۔(ایضاً صفحہ ۳۶)

یہی روایت اہل سنت کی کتابوں میں راہ پاگئی کیونکہ عقیدہ میںغلو انسان کو تحقیق وروایت دونوں سے بیگانہ کردیتا ہے۔ چنانچہ سید مظفر علی شاہ چشتی اپنی تالیف موسومہ جواہر غیبی میں لکھتے ہیں:

’’غزوہ تبوک میں جب لشکر اسلام کو شکست ہوئی ، آنحضرت ﷺ مقتولین کے درمیان تھے تو جبریل نے یہ کلمات بتائے:

ناد علیاً مظہرالعجائب تجدہ عوناً لک فی النعائب کل ہمِ وغمِ سینجلی بنبوتک یا محمد وبولایتک یا علی یا علی یا علی۔

’’(اے محمدؐ) علی کو پکارو جو عجائبات کا ظاہر کرنے والا ہے تو اسے مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ تمام پریشانیاں اور غم تیری نبوت اور علی کی ولایت کے وسیلے سے دور ہوجائیں گے۔ (ایضاً، صفحہ ۳۵)

(اس دعا کا پڑھنےوالا اگر علیؓ کو حضرت محمد ﷺ سے افضل سمجھ لے تو اس کا کیا قصور ہے)

اللہ مصنف کی غلطیوں کو معاف فرمائے۔ انھوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ غزوہ تبوک میں تو سرے سے قتال ہوا ہی نہیں۔ خدا معلوم غزوۂ احد کے بجائے انھوں نے غزوہ تبوک کہاں سے نقل کردیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھوںنے سیرت النبیؐ یا تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا ہی نہیں تھا۔ حضرت علیؓ کے متعلق یہ انتہائی غلو شرک تک  پہنچ گیا ہے۔ لوگوں نے سب سے زیادہ غلو حضرت علیؓ کی شخصیت ہی میں کیا ہے۔

مولانا احمدرضا خاں صاحب نے بھی اپنی تصنیفات میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور وہ اسے صحیح سمجھتے ہیں وہ لکھتے ہیں:

وصل چہارم: اصل مسئلہ مسئولہ یعنی اولیائے کرام سے استمداد والتجا اور اپنے مطالب میں دعا اور حاجت کے وقت ان کی ندا میں مقال (۸۰ تا ۸۸)شاہ ولی اللہ نے ’ہمعات‘ میں کہا ان کی قبروں کی زیارت کو جائے اور وہاں بھیک مانگے (فتاویٰ رضویہ جلد ۹،صفحہ ۸۱۹)مقال (۹۰ تا ۱۰۲) شاہ ولی اللہ کتاب الانتباہ فی سلاسل اولیاء میں لکھتے ہیں:

اس فقیر نے شیخ ابوطاہر کردی سے خرقہ پہنا اور انھوںنے ’جواہر خمسہ‘ میں جو کچھ کہا ہے اس کی اجازت دی (اس کے بعد ) فقیر سفر حج میں جب لاہور پہنچا شیخ محمدس عید لاہوری کی دست بوسی پائی۔ انھوں نے دعائے سیفی کی اجازت دی بلکہ جواہر خمسہ کے تمام عملیات کی اجازت دی۔ شاہ محمد غوث گوالیاری تو ان سلاسل کے منتہیٰ اور ’جواہر خمسہ‘ کے مؤلف ہیں۔ اب ملاحظہ ہو اسی جواہر خمسہ میں اسی دعائے سیفی کی ترکیب میں کیا لکھا ہے:

ناد علی ہفت بار سہ بار یا یک بار بخواند آں ایں است

تاد علی سات بار یا تین بار یا ایک بار پڑھے اور وہ یہ ہے (ایضاً،صفحہ ۸۲۱، ۸۲۲)

ناد علی…… اس ناد علی میں بنبوتک یا محمد کے الفاظ نہیں ہیں‘‘۔

اس تفصیل سے  معلوم ہوتا ہے کہ ’ناد علی‘ جواہر خمسہ جو شاہ محمد غوث کی کتاب  ہے انھوںنے درج کی وہاں سے شاہ ولی اللہ نے لی پھر وہاں سے مولانا احمد رضا صاحب نے لی۔ پھر فرماتے ہیں (اس کا خلاصہ ہے) شاہ اسماعیل شہید کی صراط مستقیم ، شاہ ولی اللہ کی ’’الناس العارفین‘ اور ہمعات نیز شاہ عبدالعزیز کی اثنا عشریہ وغیرہ ان سب میں اس طرح کی باتیں ہیں ۔ اگر یہ شرک ہے تو وہ تمام لوگ شرک کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ بات درست ہے ۔ صرف مولانا احمد رضا صاحب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ لیکن جو بات غلط ہے وہ سب کے لئے غلط ہے خواہ کتنے ہی بڑے ٓادمی نے کہی ہو۔ ہمارے سامنے کسوٹی اور معیار اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں اس سلسلے میں کیا ہدایتیں دی ہیں۔ قرآن پاک نے فرمایا:

وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَـيْـــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۔ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۔ (النحل: ۲۰)

’’اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ، مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کرکے) اٹھایا جائے گا‘‘۔

اس آیت میں جن مصنوعی خداؤں کی تردید کی گئی ہے وہ نہ تو فرشتے ہیں اور نہ شیاطین اور نہ لکڑی پتھر کی مورتیاں ہیں بلکہ وفات یافتہ اصحاب قبور ہیں کیونکہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں ۔ ان پر اموات غیر احیاء کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ رہ گئیں لکڑی پتھر کی مورتیاں تو ان کے لئے شعور و عدم شعور کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ دوبارہ زندہ کئے جانے کا۔ لہٰذا الذین یدعون من دون اللہ سے صرف وہ غیر معمولی انسان مراد ہیں جن کی وفات کے بعد ان کے غالی معتقدین نے انہیں داتا۔ مشکل کشا، بندہ نواز، غریب نواز، دستگر اور نہ جانے کیا کیا بنا دیا ہے۔ پھر انہیں اپنی چھوٹی بڑی ضرورت اور مصیبت میں پکارنے لگتے ہیں۔ یہی مضمون جن دیگر سورتوں میں بیان کیاگیا ہے ان میں چند یہ ہیں۔ سورہ نمل آیت ۶۲، المومنون: ۱۱۷، زمر: ۳، ۴۳، ۴۴، فاطر: ۱۴، احقاف:۴ وغیرہ ۔   (جاری)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2015

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223