عقیدۂ توحید اور وحدتِ اُمت

(8)

ڈاکٹرموسیٰ موسوسی شیعہ حضرات کے ذریعے ائمہ کی قبروں پر پڑھی جانے والی عبارت (جسے زیا ر ت کہتے ہیں ) کے بارے میں لکھتے ہیں:

’زیارت‘ اسی طرح کی عبارتوں پرمشتمل ہے …….ہم نے جس ’ زیارت‘ کے  مختصر اقتباسات پیش کیے ہیں وہ اپنے مضمون کے اعتبار سے سب سے معتدل ’زیارت‘ مانی جاتی ہے ۔ ورنہ بہت سی ’ ز یا ر توں‘ میں شدت پائی جاتی ہے اوربعضـ میں توخلفائے راشدین پرطعن و تعریض ہے ۔ ان زیارتوں کا عام رنگ یہی ہے ۔ میں جب زیارت کی کتابوں کا جائزہ لیتا ہوں تومجھے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان  میں خلفائے راشدین کے نام صراحۃً یا اشارۃً اس دور کے بعد شامل کیے گئے ہیں جن میں یہ کتابیں لکھی گئی تھیں، اسی لیے چند ہی میں ان کا ذکر ملتا ہے ۔(۱) جوبھی اس پر غور کرے گا ان زیارتوں کے وضع کرنے ، ائمہ کی قبروں کے سامنے انہیں پڑھنے کا رواج دینے اورقرآن کی تلاوت سے مکمل اعراض کرنے ۔(جبکہ کلام الٰہی ہونے کی حیثیت سے اسے مخلوق کے کلام پر ہرطرح فضیلت حاصل ہے ۔) کے پیچھے کارفرما اسباب کو جان لے گا۔ وہ صاف طورپر جان لے گا کہ اس کا مقصد مسلک کی نشرواشاعت اور اس کے اہم ترین اصول پرزور دینا ہے اوروہ اہم ترین اصول  ہے  خلافت کے سلسلے میں ائمہ کا دوسر وں سے زیادہ حق دار ہونا ۔ زیارت کے نام پرامام حسینؓ کی قبر پر ہونے والے ان اجتماعات کی پشت پر کارفرما عوامل پر غور کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ مختلف علاقوں کے شیعہ امام حسینؓ کی قبر پر جمے ہوں او راس طرح ثواب بھی کمائیں ، شیعہ مسلک کا پرچار بھی ہواور خلافت کی مذمت بھی کی جائے……ساتھ ہی شیعوں کومتحد کرنے اورشیعہ مسلک کے مقاصد کوپھیلانے کا کام بھی انجام پائے ۔لہٰذا مجھے حیرت  نہیں ہوتی جب میں روایات کی کتابوں میں شیعہ ائمہ سے منسوب ایسی ر وایتیں پڑھتا ہوں جن میں امام حسینؓ کی قبر کی زیارت پرابھارا گیا ہے ۔ ایک روایت میں تویہاں تک ہے :’’امام حسینؓ کی زیارت کی راہ میں ا ٹھنے والے ہرقدم کے بدلے زائر کو جنت میں ایک محل ملے گا ۔‘‘

یہاں تک کہ انہوںنے کربلا کا درجہ کعبہ سے بھی بڑھادیا ۔ ایک شیعہ شاعر کہتا ہے:

’’ کربلا و کعبہ کی بحث میں کربلا کا برتر مقام ظاہر وعیاں ہے ۔‘‘

دیگر روایات میں آتا ہے :

’’ جوبھی امام حسین پررویا، رلایا، اللہ تعالیٰ اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردیں گے ۔‘‘

ماننا پڑے گا کہ ان زیارتوں کا منصوبہ بنانےوالے بڑے عبقری لوگ تھے جواموی اورعباسی دور میں شیعہ نفسیات کوپوری طرح سمجھتے تھے ۔ چنانچہ خاص مواقع پر یہ’زیارتیں‘ خلافت کی مزاحمت و مخالفت کی نظم وتحریک کا کردار ادا کرتی تھیں…….اسی لیے ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ عباسی خلیفہ المتوکل ‘ نے گھبرا کر لوگوں پرپابندی لگادی تھی…….اورآپ کی قبر کے آثار مٹانے کے لیے اس نے قبر پر ہل چلوانے کا حکم دے دیا تھا ۔(۱)

یہ ’زیارتیں ‘ جن سے زیارت کی کتابیں بھری ہوئی ہیں، ہر شیعہ انہیں اپنے گھر میں رکھتا ہے …..مجھے کوئی شک نہیں کہ اگر امام علیؓ ان زیارتوں کے بعض ایسے جملے سنتے جن میں ائمہ کو مافوق البشر صفات سے متصف کیا گیا ہے اوران کی ایسی صفتیں بتائی گئی ہیں جواللہ تعالیٰ کی صفات سے قریب یا ان میں شرکت پرمبنی ہیں توان جملوں کو لکھنے والے اورپڑھنے والے پر یکساں حد جاری کرتے ۔ ( ۲ ) زیارتوں کے سلسلے میں مزید تفصیل لکھنے کے بعد آخر میں مصنف علام فرماتے ہیں:

میں یہ بات اس حدیث پرختم کرتا ہوںجوکتب صحاح میں منقول ہے:

’’ میں نے تمہارے درمیان دو وزن دار چیزیں  چھوڑی ہیں : کتاب اللہ اورمیری سنت۔ جب تک تم انہیں پکڑے رہوگے میرے بعد کبھی گم راہ نہیں ہوگے ‘‘

شیعہ حضرات اس حدیث کویوں  روایت کرتے ہیں اوربعض کتب صحاح مثلاً ترمذی میں بھی اسی سے ملتی جلتی روایت ملتی ہے :

’’ میں نے تمہارے درمیان دو وزن دار چیزیں چھوڑی ہیں : کتاب اللہ اورمیرا خاندان،  میر ے اہل بیت۔ جب تک تم ان دونوں کوپکڑے رہوگے میرے بعد کبھی گم راہ نہیں ہوگے۔‘‘

شیعہ حضرات کے لیے یہ کتنی بہترین بات ہوتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چلتے ہوئے سنت اورعترت (خاندان ) کواپنی روایت کے مطابق ایک ہی جگہ جمع کردیتے ۔(۳)

اہل تشیع حضرات نے امام حسینؓ کی شہادت کے غم کومنانے کے لیے دوماہ محرم اورصفرمختص کر د یے ہیں ۔ یہ بھی ایک عملی غلو ہے ۔ محرم کی دس تاریخ کووہ کربلا میں ان کی شہادت کے غم کو یادگار کے طور پر بڑ ے اہتمام والتزام سے مناتے ہیں ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر موسوی ’یوم عاشورہ پر ما تم ‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ’’ تاریخ میں کسی بھی مقدس انقلابی تحریک کا چہرہ اتنا نہیں بگاڑا گیا جتنا شیعہ حضرات نے حُبِّ حسینؓ کے نام پر امام حسین ؓ کی انقلابی تحریک کا چہرہ بگاڑا ہے ۔‘‘(۱)

’’امامِ حسینؓ کے غم میں محرم کی دسویں تاریخ کوسینہ کوبی، کندھوں پر زنجیریں پیٹنے اور سروں اورجسم کے دیگرحصوں پرتلواروں وغیرہ سے ضربیں لگانے کے بارے میں ایک علیٰحد ہ باب چاہیے ۔ چوں کہ یہ نفر ت انگیز طریقہ امام حسینؓ کی شہادت کا دن منانے کی رسموں کا ایک حصہ بن چکا ہے اورایران ، پاکستان ، ہندوستان اورلبنان کے نبطیہ علاقہ میں ہرسال دہرایا جاتا ہے اوربسا اوقات ہندو پاکستان کے بعض علاقوں میں شیعوں اورسنیوں میں خوں ریز تصادم کا سبب بن جاتا ہے جس میں فریقین کے سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں، اس لیے اس موضوع پر مستقل بحث کی ـضرورت ہے ۔‘‘ (۲)

آگے مزید  لکھتے ہیں …….کربلا میں امام حسین کی قبر پر لوگ تنہا اورجلوس کی شکل میں گزرتے تھے اوروہی ’زیارتیں‘ پڑھتے تھے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے اورآہ وبکااس موقع پر ایک ضروری چیز سمجھی جاتی تھی۔ یہی دستور آج تک جاری ہے ۔ان کا خاتمہ رونے پر ہی ہونا ضروری ہے کہ ائمہ سے منسوب بعضـ روایات میں کہا گیا ہے کہ ’’جو حسین پررویا ، رلایا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی‘‘۔ معاذ اللہ کہ اس طرح کا کلام کسی امام کے  منہ سے نکلا ہو۔

ان تقریبات پر عام رنگ اس وقت چڑھا اوریہ شیعہ وجود کا جز اس وقت بنا جب اقتدار شاہ اسمٰعیل صفوی کو ملا اوراس نے ایران کو تشیع میں داخل کرکے اسے مذہبی طور پر مربوط بنایا، تا کہ وہ پڑوس  کی عثمانی خلافت کی توسیعی امنگوں کے مقابلے میں کھڑا ہوسکے ۔ صفوی دربار ہرسال محرم کے پہلے عشرہ میں سوگ کا اعلان کرتا تھا ۔ شاہ یوم عاشورا پرتعزیت کرنے والوں کواذنِ باریابی دیتا تھا اور محل میں اس سلسلے میں خاص تقریبات منائی جاتی تھیں وہ خود شریک ہوتا اور عوام بھی حصہ لیتے تھے ۔‘‘(۳)

ہمیں معلوم نہیں کہ یوم عاشورا پر کندھوں پرزنجیریں مارنے کا سلسلہ کب سے شروع ہوا اورکب یہ ایران وعراق وغیرہ کے شیعہ علاقوں میں رائج ہوا ، لیکن اس میں شک نہیں کہ سروں پر تلواروں سے ضربیں لگانے کا سلسلہ ایران وعراق میں ہندوستان سے آیا اوریہ اس وقت ہوا جب وہاں انگریزوں کا قبضہ تھا ۔ یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے شیعوں کی جہالت وسادگی اورامام حسین سے ان کی والہانہ محبت سے فائدہ اٹھاکر انہیں یوم عاشورا پر ضربیں لگانے کا طریقہ سکھایا ۔

ابھی کچھ برسوں پہلے تہران وبغداد میں برطانوی سفارت خانے حسینی جلوسوں کی مالی امداد کیا کرتے تھے اوریہ جلوس سڑکوں پر اورگلیوں میںنہایت بھونڈے مظاہرے کرتے تھے ۔ اس  طریقے کو فروغ دینے کی پشت پر انگریز استعماریوں کی یہ پالیسی تھی کہ برطانوی قوم کو حق بجانب ٹھہرایا جائے او ر ہندوستان اوردیگر اسلامی ملکوں کے برطانیہ مخالف آزاد اخباروں کویہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کی جا ئے کہ ان ملکوں کے عوام جنگلیوں جیسے مظاہرے کررہے ہیں انہیں ایسی قدروں کی ضرورت ہے جو انہیں جہالت ووحشت کے دور سے نکال سکیں۔ یوم عاشورا پرجوجلوس نکلتے اورجن میں ہزاروں لوگ اپنی پشت زنجیروں سے پیٹتے ہوئے اور سروں پر تلوار وں سے ضربیں لگا کر خون بہاتے ہوئے چلتے تھے ان کی تصویریں برطانیہ اوریورپ کے دیگر ملکوں کونوآبادی بنا کر استعماری سیاست داں یہ فرض ادا کررہے ہیں کہ وہاں کے لوگوں کوتہذیب وتمدن سے آشنا کریں۔

یہاں میں ایک بڑے شیعہ رہنما کی ایک دلچسپ (اورسبق آموز) بات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہو ں :

تیس برس پہلے یہ بزرگ و ضعیف رہ نما میرے پڑوس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ دسویں محرم کا دن تھا اوردوپہر کے بارہ بجے تھے۔ جگہ تھی کربلا میں امام حسینؓ کاروضہ- اچانک دیکھا توامام حسین کا سوگ منانے والا ایک جم غفیر سینہ کوبی کرتے ہوئے اورتلوار چلاتے ہوئے روضہ میں داخل ہوا۔ ان کی پیشا نیو ں اورجسم کے دیگر حصوں سے اس طرح خون بہہ رہا تھا کہ رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ ان کے پیچھے ایک دوسرا بڑا جلوس تھا جس میں لوگ اپنی پشتوں پر زنجیریں پیٹ رہے تھے اورانہیں زخمی کرچکے تھے۔ اس وقت رہ نما نے مجھ سے دریافت کیا :

’’ ان لوگوں کوکیا ہوا ہے کہ یہ اپنے آپ کو اتنی تکلیف و مصیبت میں مبتلا کررہے ہیں؟

میں نے عرض کیا !کیا آپ سن نہیں رہے ہیں۔ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

امام حسینؓ کے غم میں ’ہائے حسین‘ کہہ رہے ہیں۔ بزرگ نے پوچھا ! کیا امام حسینؓ اپنے رب کے پا س صحیح جگہ نہیں پہنچ گئے؟میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔بزرگ نےپھر کہا: کیا امام حسین اب اس جنت میں نہیں ہیں جوزمین وآسمان سے زیادہ وسیع ہے اورمتقیوں کے لیے بنائی گئی ہے میں نے عرض کیا :کیوں نہیں؟

بزرگ نے پھر کہا: کیا جنت میں موتیوں کی طرح چمکنے والی حوریں نہیں ہیں؟

میں نے عرض کیا :کیوں نہیں؟

’’تب بزرگ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اورانتہائی غم واندوہ کے ساتھ فرمایا: ان جاہل اورکوڑھ مغز لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟ کیوں یہ امام کے لیے اپنے آپ کو اس طرح ستارہے ہیں جبکہ امام جنت میں آرام فرمارہے ہیں اورانہیں ہر طرح کی نعمتیں حاصل ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ۱۳۵۲ھ میں شام کے سب سےبڑے اورمقامی عالم سید محسن امین عالمی اوران کے دادا سید ابوالحسن کی کوششوں سے آہستہ آہستہ ان رسوم وخرافات میں بہت کمی آگئی، لیکن وہ پوری طرح ختم نہیں ہوسکیں ،پھر۱۳۶۵ھ میں علامہ سید ابوالحسن کے انتقال کے بعد بعض نئے شیعہ رہ نماؤں نے پھرسے ان چیزوں کوابھارنا شروع کردیا ۔

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:

’’ایران میں جب اسلامی جمہوریہ کا اعلان کیاگیا اورولایت فقیہ نے ایک اقتدار سنبھالا تب مذہبی پالیسی کے ایک حصہ کے طور پر پھر ان چیزوں کواز سر نوزندہ کرنے کے احکام جاری کیے گئے ہیں اورنئی اسلامی جمہوریہ دنیا کے تمام حصوں میں شیعوں کومدد دینے لگی اورانہیں اس بدعت کو زندہ کرنے کے لیے مالی واخلاقی طور پر ابھارنے لگی جسے شیعہ اسلامی دنیا میں انگریزی استعمار کی پالیسی نے دو سو برس قبل داخل کیا تھا اورجس کا مقصد اسلام اورمسلمانوں کو برے روپ میں دکھا کر اسلامی ملکوں پر اپنے قبضہ کے لیے وجہ جواز فراہم کرنا تھا ۔‘‘(۱)

ولایت فقیہ کیا ہے ؟ شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری کے بعد ان کے بیٹے محمد، جن کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ غائب ہوگئے مگر زندہ ہیں اور آخری دور میں امام مہدی بن کر آئیں گے ، ان کی غیو  بت کے زمانے میں ان کی جگہ پُر کرنے اوران کا قائم مقام بنانے کے شیعہ علماء نے ولایتِ فقیہ کی اصطلاح اختراع کی اورولایت فقیہ کے لیے وہی امامت کی صفت، جس کے ساتھ معصومیت کاتصور وابستہ ہے ،اس میں داخل کردی ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر موسیٰـ فرماتے ہیں:

’’یہ نظریہ کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک شخص روٗنما ہوگا جودنیا کوعدل وانصاف سے بھردے گا ایک خوب صورت اورنیک امیدوں سے پُر نظر یہ ہے ۔ لیکن شیعہ علماء نے امام مہدی کے تصور کے ساتھ دو ایسی چیزیں جوڑدی ہیں جن سے ہرجگہ اورہر زمانے میں شیعہ زیر بار رہے ہیں۔یہ ہیں کمائے ہوئے منافع میں خمس (پانچواں حصہ) اورولایت فقیہ کی بدعتیں ۔ پہلی چیز کا مطلب ایسا مالیاتی ٹیکس ادا کرناجس کے لیے اللہ تعالیٰ نے کوئی ہدایت نہیں فرمائی اوردوسری چیز کا مطلب بلا قیدو شرط ایک انسان کی دوسرے انسان کی بندگی ہے ۔‘‘(۱)

انہوں نے پورے چوبیس (۲۴)صفحات میں خمس  اور ولایت فقیہ پر مدلل بحث کی ہے ۔آخر میں نتیجۂ بحث کے طورپر خمس کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’خمس کی بدعت اپنے شیعہ مفہوم کے ساتھ سنتِ رسول ؐ اورخلفائے راشدین وشیعہ ائمہ کی سنت کے خلاف ہے ،کیوںکہ اسلام میں خمس مال غنیمت میں ہے، تجارت وکمائی کے منافع میں نہیں۔‘‘

ولایت فقیہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’یہاں پھرمیں دہراؤں گا کہ میرے یقین کی حدتک انسانی تاریخ میں کبھی کسی دینی نظریہ نے انسانیت کواتنی خوں ریزی ، غم واندوہ اور آنسوؤں سے دوچار نہیں کیا جتنا شیعوں کے نزدیک ولایتِ فقیہ کے نظریہ نے اپنے ظہور سے لے کر آج تک کیا ہے ۔‘‘(۲)

حسینی مٹی پرسجدہ:

یہ بھی ایک بدعت ہے جوشرک سے مشابہ ہے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر موسیٰ موسوسی کہتے ہیں:

’’حسینی تربت(کربلا کی مٹی) پرسجدہ کرنے کا آغاز شیعوں اور تشیع کے درمیان کش مکش کے د و سر ے دور میں ہوا ، پھر پھیلتے پھیلتے اس نے تمام شیعوں کواپنی لپیٹ میں لے لیا ۔(۳)

بہت کم ایسے گھر ملیں گے جن میں کربلا کی مٹی نہ پائی جاتی ہو جس پر شیعہ حضرات نمازمیں سجدہ کرتے ہیں۔ کربلا وہی جگہ ہے جہاںامام حسین شہید ہوئے تھے اورجہاں آپ کا جسد خاکی مدفون ہے…..حسینی مٹی پر سجدہ، جیسا کہ ہم اورتمام شیعہ حضرات  جانتے ہیں، اس فقہی حدتک نہیں رکتا ۔ یہ معاملہ اتنا ہی نہیں کہ مٹی پر سجدہ کرلیا اوربس، بلکہ اس سے بہت زیادہ آگے تک جاتا ہے ۔ بہت سے لو گ اسے چومتے ہیں، اس سے تبرک حاصل کرتے ہیں اوربعض اوقات کسی بیماری سے شفایابی کے لیے اس میںسے تھوڑی سے کھا بھی لیتے ہیں، جب کہ شیعہ فقہ میں مٹی کھانا حرام ہے ۔پھر انہوںنے مٹی کو مختلف شکلوں میں ڈھال لیا ہے اوراسے جیبوں میں لیے پھرتے ہیں اور تقدیس و تکریم کا معاملہ کرتے ہیں ۔ نہیں معلوم ،شیعہ حضرات کے یہاں یہ بدعت کب داخل ہوئی…….معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ صفویوں کے دور سے شروع ہوا جب خاص خاص مواقع پر شیعوں کے قافلے کربلا جانے لگے اورواپس میں امام حسین کی قبر کے پاس سے آثار کے طور پر کچھ مٹی لے جاتے رہے ۔

اس مٹی کے استعمال کے ساتھ ایک اوربدعت کا اضافہ کیاگیا جودیگر بدعتوں سے زیادہ سنگین ہے وہ یہ کہ فقہاء نے یہ فتویٰ دے دیا کہ مسافر  جب امام حسین کی قبر کے پاس پندرہ گز کے اندر ہوں توانہیں قصر کے بجائے پوری نماز پڑھنا جائز ہے، جبکہ شیعہ فقہاء کے یہاں اس پر اجماع ہے کہ مسافرنماز میں قصر کرے گا، لیکن انہوں نے امام حسین کے مدفن کے علاقہ کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا ۔(۱)

اہل تشیّع کا ایک معروف عقیدہ تقیہ بھی ہے یعنی اپنے عقیدہ ونظریہ کوچھپائے رکھنا ۔ ڈاکٹر موسوی تقیہ کے بارے میں کہتے ہیں:

’’میرا پختہ یقین ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں پائی جاتی جس نے اپنے آپ کواتنا ذلیل و حقیر کیا ہو جتنا شیعوں نے اپنے آپ کو تقیہ کا نظریہ قبول کرکے اوراس پر عمل کرکے کیا ۔‘‘(۲)

تقیہ کب اورکیسے شیعوں میں داخل ہوا، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

’’خالص شیعی معنی میں تقیہ کا نظریہ چوتھی صدی ہجری کے وسط میں بارہویں امام کی غیبوبت کے اعلان کے بعد اس دور میں ظاہر ہوا جب شیعوں اورتشیع کے درمیان کش مکش شروع ہورہی تھی اورجب شیعہ مذہبی وسیاسی فکری قیادت نے یہ ارادہ کرلیا کہ حکم راں عباسی خلافت کوختم کرنے اور اس کی’ غیرشرعی‘ حیثیت کے اعلان کے لیے ذریعہ کے طور پر خفیہ عمل شروع کیا جائے، چنانچہ ایسی صورت میں یہ فطری بات تھی کہ امام علیؓ اورآپ کے اہل بیت کی حمایت کے نظریہ کوخوب مضبوط کرنے کے لیے کوئی نیا عنصر شامل کیا جائے ۔ اس طرح خلافت کے سلسلے میں نص الٰہی کا نظریہ بڑھایا گیا …….اور اسی وقت اسے عقیدہ کا خاص جز بنایا گیا ۔ کہاجاسکتا ہے کہ خفیہ مذہبی عمل اسی دور سے شروع ہوا جس میں تقیہ ایک شرعی فرض کے طورپر رونما ہوا جس پر عمل کرنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہوگیا جودینی فکر رکھتا ہو اورحکومت وقت اور مسلم اکثریت کے سامنے اسے ظاہر کرنے سے ڈرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ غیبوبت کبریٰ کے بعد روٗنما ہونے والی شیعہ مذہبی قیادتوں کومستحکم کرنے میں تقیہ کا زبردست کردار رہا ہے۔ تقیہ ہی کے ذریعہ یہ قیادتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی رہیں اورحکومتِ وقت سے محفوظ بھی رہیں، اسی طرح تقیہ ہی کے پردے میں ان کے پاس مال ودو لت بھی پہنچتی رہی اوراس طرح صدیوں تک فکر وعمل میں تقیہ سرایت کرتا رہا اورشیعہ شخصیت میں ایک المناک پہلوکا اضافہ کرتا رہا ۔(۳)                         (جاری)

مشمولہ: شمارہ نومبر 2015

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau