زندگی میں اہم رشتہ ازدواجی رشتہ ہوتا ہے ۔یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے نئے رشتے وجود میں آتے ہیں ۔ یہ ترازو کے میزان کی طرح ہے اگر توازن قائم رہے تو زندگی بوجھ نہیں لگتی اور اگر توازن بگڑ جائے تو زندگی اپنے ہی بوجھ سے دَب جاتی ہے ۔ ان رشتوں کو نبھانے کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے۔ اگر میاں بیوی کے مزاج میں برداشت کی صلاحیت ہو تو یہ تعلق مضبوط بنتا اور قائم رہتا ہے ۔ یہ رشتے محبت ،الفت ،احساس ذمہ داری کے حقوق کی پاسداری سے مضبوط ہوتے ہیں ۔ عورت کا احساس شکر گزاری اور مرد کا ظرف کسی بھی گھر کو جنت بنا سکتا ہے۔ مگر آج کل لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے مضبوط سے مضبوط رشتوں میں دراڑ پڑجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر گھر بے سکونی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے ۔
ہم اگر موٹر سائیکل پر سفر کررہے ہوں اور سامنے سے اچانک ٹرک آجائے تو ہم ٹرک والے سے یہ نہیں کہتے کہ وہ غلط رخ پر ہے اسے ٹرافک کے أصول نہیں بتاتے بلکہ خود کو بچانے کے لئے اپنی موٹر سائیکل کو دوسرےرخ موڑ دیتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنی زندگی بچانا مقصود ہوتی ہے ایسے ہی زندگی کے رشتوں میں تصادم کی صورت پیدا ہوتی ہے تو ہمیں موٹر سائیکل کا رخ دوسری سمت موڑ دینا چاہیے تاکہ رشتہ بچارہے ۔ رشتوں کو بچانے کے تعلق سے ہمارے رسول ﷺ نے فرمایا۔ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا‘ سیدنا جبیر بن مطعمؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریمؐ کو فرماتے سنا کہ کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ سیدنا سفیانؓ نے کہا کہ یعنی رشتوں کو کاٹنے والا۔ (بخاری ومسلم) سیدنا ابوموسیٰؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے‘ ہمیشہ شراب پینے والا‘ قطع رحمی کرنے والا اور جادو کی تصدیق کرنے والا۔‘‘ (مسند احمد‘ ابن حبان) قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا: سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا‘ آپؐ فرما رہے تھے کہ’’بنی آدم کے اعمال ہر جمعرات (جمعہ کی رات) کو پیش کیے جاتے ہیں مگر قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔‘‘ (احمد)
مشترکہ رہائش
میرے شناساؤں میں ۹۹ فی صد مشترکہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو محسوس کریں گے کہ تقریبا مشترکہ گھر کا ہر فرد اپنی خود غرضی کی جنگ لڑ رہاہے ساس کو اپنے مفادات چاہئیں، نند کواپنے چاہئیں، بہو کو اپنے چاہئیں اور اس وجہ سے اب گھر کے اندر لڑائی کی ایک فضا بن جاتی ہے اب یہ ذمہ داری سسرکی ہے کہ وہ حالات کو درست رکھے اور آنے والی بہو کو وہاں ایڈجسٹ ہونے میں اس کی راہ ہموار کرے ۔ بہو محسوس کرے کہ میرے سر کے اوپر کوئی سایہ ہے ۔ ساس بہو کا جھگڑا 99 فیصد گھروں کے لئے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ عورت میں ملکیت کا جذبہ شدید ہوتا ہے وہ اس میں شرکت برداشت نہیں کرتی ۔
جب ایک دوسری عورت اس کے بیٹے کی زندگی میں آتی ہے اور اس کے وقت اور مال و دولت میں شریک بنتی ہے تو یہ بات ماں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہوتی ہے۔ وہ طرح طرح سے اپنی بہو پر ظلم ڈھاتی ہے۔ اگر بہو نرم مزاج کی ہو تو وہ ان تمام سختیوں کو سہتی رہتی ہے لیکن اگر وہ بھی اسی طرح مضبوط ہو تو اس کی جوابی کاروائیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں جو اکثر گھروں کی تباہی پر منتج ہوتی ہیں۔ جب یہ بہو ساس بنتی ہے تو پھر سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔
جھگڑا انسان کی ملکیت کی خواہش کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف اور صرف تزکیہ نفس ہے جو اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے ۔ ہمارے مذہبی طبقے کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ تزکیہ نفس کی عظیم تحریک بپا کریں جس کی ہمارے معاشرے کو شدید ضرورت ہے۔ ساس کا رویہ کیا ہوسکتا ہے اور بہو کو کیا کرنا چاہیے ذیل میں درج ہے:
آمرانہ مزاج:
اس قسم کی ساس سب سے زیادہ ہیں – حاکم کی طرح خاندان کے افراد پر حکم چلاتی ہیں ۔ یہ بیٹے پر اپنا کافی اثر ورسوخ رکھتی ہے – یہ بہو کواسکے مسائل پر بیٹے سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی – جس سے بہو کے مسائل جوں کے توں دھرے رہتے ہیں۔
اِن حالات میں بہوکو ہوشیاری اور حکمت سے رہنا چاہیے۔
ساس کی باتوں کو غور سے سنے اور توجہ دے اور ساس کا اعتماد زیادہ سے زیادہ حاصل کرے۔
تنقیدی مزاج
یہ بہوکے کاموں کی ٹوہ میں رہتی ہے اور ہر کام میں نقص نکالتی ہے چاہے وہ کیسا بھی ا چھا ہو۔ – یہ بہو کے ہر معاملہ میں دخل دینا پسند کرتی ہے کہ وہ کیا کھاتی ہے کیا پہنتی ہے کن لوگوں سے بات کرتی ہے. گھر کے ہر کام میں دخل دیتی ہے ۔
ایسے حالات میں محتاط انداز میں حکمت کو بہو اپنے شوہر کو ساس کے رویہ کی جانب توجہ دلائے ۔
بہو ساس کے ساتھ باتیں کم سے کم کرے جس سے ساس کی تنقید کم ہوگی ورنہ زیادہ باتیں کرنے سے تنقید میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
دوسروں کے سامنے ساس کے منفی رویہ کا کوئی ذکر نہ ہو بلکہ مثبت رویہ کا ذکر ہو۔ کوئی ساس اداکارہ بھی ہوتی ہے یہ لوگو ں کی موجوگی میں بہو کی تعریف کرتی اور پیٹھ پھیری زہر اگلتی ہے ۔ یہ بیٹے پر ایسا دباؤ رکھتی ہے کہ بیٹا ماں کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا ۔ بہو کو اس قسم کی ساس سے محتاط رہنا چاہیے ۔ سیاست چلتی ہے ۔
حاسدانہ مزاج
اس قسم کی ساس سمجھتی ہے کہ بہو اسکے بیٹے کو اس سے چھینے آئی ہے ۔ساس کے دل میں ایک انجانا خوف رہتاہے کہ یہ بہو کہیں میرے بیٹے کے دل پر قبضہ نہ کر لے جب کہ اس نے بیٹے کی تربیت اور تعلیم کے سلسلے میں کافی مشقتیں جھلیں ۔ ساس کی حسد بڑھتی جاتی ہے۔ جب اسکا بیٹا بہو کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے۔
اِن حالات میں جتنا ممکن ہو بہو کو چاہیے کہ ساس کا قرب حاصل کرے اور زیادہ محبت کا اظہار کرے۔ساس کے سامنے شوہر سے بظاہردوری برتے ۔
ظالم ساس:
ظالم ساس سے نباہ بہت مشکل ہوتا ہے یہ ہمیشہ بہو اور بیٹے کے بیچ جھگڑے کا ٹوکرہ لئے پھرتی ہے – اسکے نزدیک بہو محض ایک نوکرانی ہے ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیٹے کو ورغلاتی رہتی ہے اور باتوں کا ہوا کھڑا کردیتی ہے۔
ان حالات میں بہو کو چاہیے کہ شوہر اور گھر کے دوسرے افراد کا قرب حاصل کرے کیونکہ یہ لوگ بہو کا ساتھ دیں ۔
ساس کے مسائل کے باوجود بہو محبت سے اور مثبت رویے سے پیش آئے ۔
بہو بھول کر بھی ساس کی شکایت شوہر سے نہ کرے۔
ساس کی الزام تراشیوں کے باوجود بہو حسن اخلاق سے پیش آئے۔
متکبر ساس
یہ تکبر کا پیکر ہوتی ہے ۔ وہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک اعلی گھرانے سے ہے ا سکے طور طریقے بہت اعلیٰ اور ارفع ہیں ۔ بہو کو ہر وقت بری نظر سے دیکھتی ہے بہو کی باتوں اور معمولات کا مذاق اڑاتی ہے۔
اِن حالات میں بہو اپنی ذہانت کا اظہار نہ کرے اور نہ ہی باتوں سے ظاہر کرے کہ بہو کسی معاملہ میں ساس سے اعلی ہے۔
ساس کے بارے میں اپنے شوہر سے غلط انداز میں بات نہ کرے ۔
کوئی ساس خود غرض ہوتی ہے جو بہو سے جھوٹی محبت ظاہر کرتی ہے لیکن – بہو کے پیچھے بیٹے سے شکایت کرتی ہے ان باتوں یا اعمال کا ذکر کرتی ہے جو بہو نے کیے ہی نہیں – ہر وقت بیٹے کے ساتھ لگائی بجھائی کرتی ہے تاکہ بیٹے اور بہو کے درمیان دوری بڑھے۔
ایسی حالت میںبہو کو چاہیے کہ شوہر کی باتوں کا ذکر ساس سے نہ کرے
رحیم و درگذر کرنے والی ساس
شاذ و نادر ملنے والی ساس ، بہو کے ساتھ بیٹی جیسا سلوک کرتی ہے ایسی ساس زیادہ سے زیادہ معاشر ے میں ۲ فی صد پائی جاتی ہے ۔
بہو کو بھی چاہیے کہ بہتر سے بہتر سلوک کرے اور ہمیشہ محبت سے پیش آئے۔
ساس کے تجربات سے استفادہ کرے اور شوہر کے افکار و معاملات کو سمجھے ۔یہ ساس بہو کے لئے دوسری ماں ہے لہٰذا بہو ایسی ساس کی ہمت افزائی کرے ۔
عام تجاویز:
موقع بموقع تحفے تحائف ساس کو دیا کرے۔
تھوڑا وقت نکال کر ساس سے گفتگو کرلیا کریں۔
شوہر کو ساس کی صحت کی طرف توجہ دلاتی رہے ۔
ہمیشہ آپ اپنے شوہر سے اس کی صحت کے بارے میں پوچھیں۔
ساس سے ہدایت لیں اور انہیں مدد فراہم کرتی رہے ۔
اگر شوہر اور اسکے خاندان کے درمیان اختلافات ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کروائے ۔
مثالی ساس کی ذمہ داریاں:
ہم جانتے ہیں کہ ساس گھر کی بڑی ہے، اس کی عزت اور احترام سب پر واجب ہے – ساس کو سمجھناہوگا کہ آنے والی بہو پلاسٹک یا ربر کاکھلونا نہیں، جیتا جاگتاانسان ہے ساس اسے اپنے بیٹے کے لیے چن کرلے آئی ہے۔ یہ بہو انسان ہے اس میں یقیناً خوبیاں بھی ہوں گی اور خامیاں بھی ہوں گی،تو ساس کو بہو کی خوبیاں قبول کرناہے تو بہو کی خامیوں کو بھی قبول کرنا ہوگا اورپیار ومحبت سے بہو کی اصلاح کرنی ہے۔
ساس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ابتدائی چنددنوں میں اپنی بہو کو گھر کے اندر اپنے آپ کو ایڈجسٹ ہونے کاموقع دے۔ اس کی غلطیوں سے در گزر کرے،نئی جگہ پرانسان بعض چیزوں کو نظر انداز کر جاتاہے بعض کاموں کوبھول جاتاہے توبہوسے اس قسم کی غلطیاں ہونا،کوئی انہونی بات نہیں، لہٰذا اسے چاہیے کہ ابتدامیں اگر بہو غلطیاں کرے تو در گزرسے کام لے ۔
زندگی کا اصل حسن رشتوں اورناتوں پہ استوار ہے۔ یہ تعلقات جتنے زیادہ مضبوط اور پائے دار ہوں گے، زندگی اتنی ہی ہم وار و خوش گوار ہو گی، لہٰذا رشتوں اور قرابت داری کو اہمیت دینی چاہیے۔
اپنی ذمہ داریوں کو بانٹ لیں۔ یہ بات ہوتی ہے کہ ساس بڑے چاؤ سے بہو تو بیاہ کر لائی ، لیکن گھر میں اس کی ’’مداخلت‘‘ انہیں ناگوار گزرنے لگتی ہے۔ بعض گھروں میں ساسو ماں کو اپنا کا م خود کر نے یا صرف کھانا خود پکانے کا شوق ہوتا ہے، ایسے میں بہو کی باورچی خانے میں دخل اندازی انہیں پسند نہیں آتی۔ ایک سمجھ دار بہو معاملے کو حل کرے گی کہ کسی کی انا کا مسئلہ نہیں بنے گا۔ صورت حال دیکھ کر ذمہ داریاں تقسیم کر لی جائیں۔ اگر ساس کھانا خود پکانا چاہ رہی ہیں، تو آپ ان کے ساتھ مل کر سبزی وغیرہ صاف کرلیں۔
ساس کی موجودگی کے کئی فائدے ہیں بہومیں صبرو شکر کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ ساس کی موجودگی سے بہو برد بار اور سمجھدار ہوجاتی ہے۔کسی خاوند کے لئے ممکن نہیں کہ چوبیس گھنٹے بیوی کے پاس بیٹھا رہے۔ چناں چہ بہو کا وقت ساس کے ساتھ زیادہ گزرتا ہے ۔ ساس کی غلطیوں سے بھی بہو کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ساس بچوں کو تنبیہ کرتی ہے ۔جس سے بچوں پر ساس کا دبدبہ ہوتا ہے اور بچے کم شرارت کرتے ہیں ۔ بہو کو کھانا اچھا پکا نا آ جاتا ہے۔
گھر دلوں کے جڑنے سے بنتا ہے نہ کے سمنٹ اور کنکریٹ سے، اگر دل جڑے ہوئے ہوں تو جھونپڑ ے میں بھی سکون میسر آتا ہے ۔حضرت ابوموسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا تھا یہی وجہ ہے کہ بنو آدم زمین ہی کی طرح ہیں چنانچہ کچھ سفید ہیں، کچھ سرخ ہیں کچھ سیاہ فام ہیں اور کچھ اس کے درمیان، اسی طرح کچھ گندے ہیں اور کچھ عمدہ، کچھ نرم ہیں اور کچھ غمگین وغیرہ۔ (مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 1420 )
انسان مٹی سے بنا ہے اور اسکے مزاج میں مٹی کی تاثیر ہے جس سے وہ بنا ہے لہٰذا اسکے ساتھ جتنا ایڈجسٹ کرے گا زندگی اتنی کامیاب ہوگی یہی ایڈجست منٹ دین اسلام کی روشنی میں ساس بہو کو کرنا ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2017