وہ عام شہروں کی طرح نفرت و محبت کا مرکب نہیں تھا۔ وہ نہایت حسین اور پاکیزہ شہر تھا۔ پیارے نبی ﷺ نے دن رات محنت کرکے اس کا نقشہ بنایا اور اس میں رنگ بھرا تھا۔ وہ خالص محبت کا شہر تھا۔ وہاں ہم دردی اور غم گساری کا دور دورہ تھا۔ انسان کو اصل مسرت محبت کے ماحول میں ہی حاصل ہوتی ہے۔وہاں ہر شخص خوش وخرم اور خوش نصیب تھا،چاہے بھوک کی وجہ سے اس نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہوں اور جسم چیتھڑوں سے ڈھانپ رکھاہو۔ اس شہر کے باشندوں کا انداز ہی نرالا تھا۔ وہاں غریبوں اور ناداروں میں بھی سخاوت کا مقابلہ رہتا۔ایثار پسندی ایسی تھی کہ خود فاقے کرتے مگر ایثار والی شان پر آنچ نہ آنے دیتے۔انفاق پسندی کا عالم یہ تھا کہ حد سے زیادہ پسندیدہ مال بھی لٹانے کو تیار رہتے۔استغنا کی کیفیت یہ تھی کہ ضرورت مندوں کی بہتات ہوتی مگر انھیں پہچاننا مشکل ہوتا۔ کوئی خاتون شوہر کے سایے سے محروم ہوتی تو عدت پوری ہوتے ہی کئی رشتے اس کی کفالت کے لیے پہنچ جاتے۔ کوئی بچی یتیم ہوتی تو کئی مشفق نفوس اپنی شفقت والفت کا سایہ دینے آگے بڑھ جاتے۔ وہ محبت کا شہر تھا، باہر سے آنے والے نفرت کی آگ لے کر آتے مگر محبت کے پھول دامن میں بھر کرلے جاتے۔ ہم یہاں اس شہرِ محبت کی کچھ حسین و جمیل تصویریں پیش کریں گے۔
پہلی تصویر: مال کی حفاظت کا انوکھا تصور
ایک بار پیارے رسولﷺ کے گھر میں بکری ذبح کی گئی۔ آپ کی تربیت کا فیضان تھا کہ آپ کے اہل خانہ بھی خود کھاکر مزے لینے سے زیادہ غریبوں کو کھلانے کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے بکری کا سارا گوشت غریبوں میں تقسیم کردیا اور ایک بازو روک لیا۔ آپ گھر آئے تو پوچھا بکری میں سے کیا بچا؟ گھر والوں نے کہا: کچھ نہیں بچا سوائے ایک اگلے دست کے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ پوری بکری بچ گئی صرف ایک دست بچنے سے رہ گیا۔ (سنن ترمذی) اس طرح آپ نے بہترین اصول دیا۔ جو مال اللہ کے راستے میں خرچ کیا جاتا ہے وہ خرچ نہیں ہوتا ہے بلکہ محفوظ ہوتا ہے اور جو اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرکے بچالیا جاتا ہے وہ کہیں اور خرچ ہو یا نہ ہو لیکن محفوظ ہونے سے رہ جاتا ہے۔ایسے سنہری اصولوں کو اپناکر لوگ اپنا مال محفوظ کرنے میں لگ گئے۔
دوسری تصویر: دنیا کے سامان سے جنت میں خریداری
اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک یتیم لڑکا آیا اور رو رو کر اپنا دکھڑا سنانے لگا۔ اس کا کھجوروں کا باغ تھا۔ باغ کی چہار دیواری نہیں تھی۔ اس لیے اس کا بڑا نقصان ہوجاتا تھا۔ وہ چہار دیواری کرانا چاہتا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ باغ کے اندر ایک کھجور کا درخت دوسرے آدمی کا تھا۔ وہ چہار دیواری کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ لڑکے کا کہنا تھا کہ اگر وہ شخص اپنا درخت اسے دے دے تو وہ اپنے باغ کو دیوار سے گھیر سکے گا۔
اللہ کے رسولﷺ کو احساس ہوا کہ اس لڑکے کی شکایت بجا ہے، اس کی پریشانی دور ہونی چاہیے۔ آپ نے اس آدمی سے کہا : تم وہ درخت مجھے فروخت کردو میں اس کی قیمت تمھیں ادا کردوں گا۔ وہ آدمی اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔ آپ نے کہا: تب وہ درخت ہبہ کردو، وہ اس کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوا۔ آپ نے کہا: وہ درخت جنت میں ایک درخت کے بدلے بیچ دو۔ اس پر بھی وہ راضی نہیں ہوا۔وہ شخص اپنی ملکیت کے معاملے میں آزاد تھا، اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے اسے مجبور نہیں کیا۔ لیکن آپ افسردہ ہوگئے کہ اس یتیم بچے کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔
کچھ دیر کے بعد ایک صحابی حضرت ابودحداحؓ آپ کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے کہا اللہ کے رسول، خوش ہوجائیے، اس یتیم کا مسئلہ حل ہوگیا۔ آپ نے پوچھا وہ کیسے؟ حضرت ابودحداح نے بتایا : میں اس آدمی کے پاس گیا اور اسے اس کے لیے تیار کرلیا کہ اس ایک درخت کے بدلے وہ میرا ایک پورا باغ لے لے۔اب وہ درخت میں آپ کو پیش کرتا ہوں آپ اس یتیم بچے کو دے دیجیے۔ اللہ کے رسولﷺ بہت خوش ہوئے اور دیر تک دہراتے رہے: ابودحداح کے لیے پھلوں سے لدے کتنے زیادہ درخت ہیں جنت میں۔ پھرحضرت ابودحداح اپنے باغ میں آئے اور اپنی بیوی سے کہا : باغ سے باہر آجاؤ، میں نے اسے جنت کے ایک درخت کے بدلے بیچ دیا ہے۔ حضرت ابودحداح کی نیک بیوی نے کہا: آپ نے فائدے کا سودا کیا۔( مسند احمد، مستدرک حاکم، سنن بیہقی)
تیسری تصویر: یتیم پروری کا کیسا شوق ہے یہ!
اللہ کے رسول ﷺ عمرہ کے ارادے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اہلِ مکہ نے رکاوٹ ڈالی۔ مذاکرات کے بعد صلح ہوئی اور اس کی رو سے آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اگلے سال عمرہ کرنے گئے۔ معاہدے کے مطابق وہاں تین دن گزارے اور پھر مدینہ واپسی کے لیے کوچ کیا۔ مکہ سے نکل ہی رہے تھے کہ لوگوں کو پیچھے سے ایک بچی کی آواز آئی۔ اے چچا جان اے چچا جان!
حضرت علیؓ نے دیکھا کہ وہ حضرت حمزہ کی چھوٹی بچی ہے جو ان کے ساتھ مدینہ نہیں جاسکی تھی اور اپنے نانیہال میں تھی۔ اب اس کی عمر آٹھ نو سال تھی۔ اس کے والد حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوچکے تھے۔ وہ یتیم بچی مسلمانوں کے ساتھ مدینہ جانا چاہتی تھی۔ حضرت علی نے فوراً اس کا ہاتھ تھاما اور اپنی بیوی حضرت فاطمہؓ کے پاس لے گئے اور کہا یہ ہم دونوں کی چچا زاد بہن ہے اس کی پرورش ہم کریں گے۔ آگے چل کر یہ خبر عام ہوئی تو حضرت جعفرؓ اور حضرت زیدؓ بھی پہنچ گئے اور تینوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ اس یتیم بچی کی پرورش کی سعادت اس کے حصے میں آئے۔ معاملہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس پہنچا۔ حضرت علی کا کہنا تھا کہ حمزہ میرے چچا تھے، اس لیے میرا حق بنتا ہے۔ حضرت زید کا کہنا تھا کہ وہ میرے بھائی جیسے تھے، میرا زیادہ حق ہے۔ حضرت جعفر کا کہنا تھا کہ ایک تو وہ بچی میری چچا زاد بہن ہے، دوسرے یہ کہ اس بچی کی خالہ میری بیوی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فیصلہ حضرت جعفر کے حق میں کردیا اور کہا کہ خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے تینوں کی دل جوئی بھی کی۔ فرمایا: جعفر تم صورت شکل میں بھی مجھ سے ملتے ہو اور اخلاق میں بھی، علی تم تو مجھ سے نہایت قریب ہواور زید تم تو ہمارے بھائی اور دوست ہو۔ یہ سن کر تینوں خوش ہوگئے۔ (صحیح بخاری)
چوتھی تصویر: ہم غریب ہیں، مگر پیچھے کیوں رہیں!
وہ غربت کا زمانہ تھا۔ زیادہ تر لوگ غریب ہوا کرتے تھے۔ مکہ سے آنے والے مہاجرین کو مدینے میں رہنے انصار نے اپنا بھائی بنالیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی مختلف علاقوں اور قبیلوں سے اسلام قبول کرکے آنے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ افراد بھی آتے اور پورا گروپ بھی آتا۔ ان کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے اور پیٹ بھرنے کے لیے کھانا نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسول ﷺ ان کی حالت دیکھ کر بے چین ہوجاتے اور لوگوں کو مدد پر ابھارتے۔ ایسے بہت زیادہ غریب لوگوں کی مدد کے لیے اللہ کے رسول ﷺ جب عام اپیل کرتے تو غریب بھی پیچھے نہیں رہتے۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب آپ صدقہ کرنے پر ابھارتے تو بعض لوگوں کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، مگر دل میں جذبہ ٹھاٹھیں مارتا۔ وہ بازار جاتے،دن بھر لوگوں کا سامان اٹھاتے اور اس کی اجرت کے طور پرجو ایک دو مٹھی غلہ ملتا وہ لاکر پیش کردیتے۔ (سنن نسائی)
پانچویں تصویر: میرے پاس دو ہی کپڑے ہیں تو کیا ہوا!
اللہ کے رسول ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ وہ بہت خستہ حال تھا۔ جسم پر پھٹا پڑانا کپڑا تھا۔ آپ کی نظر پڑ گئی۔ آپ نے اس سے کہا: کیا تم نے نماز پڑھی؟ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: دو رکعت نماز پڑھ لو۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ اس کی حالت دیکھ لیں۔ اس کے بعد آپ نے اپنے خطبے میں لوگوں کو صدقے پر ابھارا۔ نماز کے بعد لوگوں نے کپڑے لاکر دیے۔ ان میں سے دو کپڑے آپ نے اس آدمی کو دے دیے۔ اگلے ہفتے پھر آپ نے جمعہ کے خطبے میں لوگوں کو صدقہ کرنے پر ابھارا۔ نماز بعد پھر لوگ اپنی اپنی طرف سے کچھ لاکر وہاں ڈالنے لگے۔ انھی میں ایک آدمی آیا اور اس نے ایک کپڑا ڈال دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی نظر پڑگئی۔ آپ نے اس بلایا اور پیار بھری ڈانٹ کے ساتھ کہا : اپنا کپڑا واپس لو۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا: دیکھتے ہو، یہ وہی آدمی ہے جس کی خستہ حالی کو دیکھ کر میں نے پچھلے جمعے تم لوگوں سے صدقہ کرنے کو کہا تھا اور اس شخص کو اس میں سے تن ڈھانپنے کو دو کپڑے دیے تھے۔ اسے دیکھو آج یہ اپنا ایک کپڑا صدقہ کررہا ہے۔(سنن نسائی)
چھٹی تصویر: اللہ کے راستے کی اونچی شان
ایک بار اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابی بن کعبؓ کو زکات وصول کرنے کے لیے مدینے کے اطراف میں بھیجا۔ اس بستی کے لوگوں سے زکات وصول کرنے کے بعد ان کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا، اس کے پاس اونٹ تھے۔انھوں نے بتایا کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کا قاصد ہوں اور زکات وصول کرنے آیا ہوں۔ اس شخص نے اپنے سارے اونٹ میرے پاس جمع کیے اور کہا: آج پہلی بار اللہ کے رسول کا قاصد میرے پاس آیا ہے، تو بتاؤ مجھے کیا دینا ہے۔ حضرت ابی بن کعب نے حساب لگایا تو وہ کچھ پچیس اونٹ تھے جن پر ایک سال کا اونٹنی کا بچہ دینا تھا۔ انھوں نے جب اسے یہ بتایا تو وہ کہنے لگا : یہ بچہ تو نہ دودھ دینے کے لایق ہے اور نہ سواری کے قابل ہے۔ میں اللہ کو یہ چھوٹا بچہ قرض نہیں دوں گا، یہ کس کام آئے گا۔ دیکھو یہ جوان موٹی تازی اونٹنی ہے اسے لے جاؤ۔ حضرت ابی نے کہا: مجھے تو اتنے اونٹوں پر اتنا ہی لینے کا حکم ملا ہے، اس سے زیادہ تو میں نہیں لے سکتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہیں ظلم نہ ہوجائے۔ یہاں سے مدینہ قریب ہی ہے، چلو اللہ کے رسول کے پاس معاملہ لے کر چلتے ہیں۔ اس آدمی نے صحت مند اونٹنی کو ساتھ لیا اور مدینے کی طرف چل پڑا۔ دونوں دربارِ رسالت میں پہنچے۔ اللہ کے رسولﷺ کے سامنے معاملہ پیش ہوا۔ آپ نے کہا: دیکھو تمھارے اوپر واجب تو اتنا ہی ہے، لیکن اگر تم دل کی آمادگی سے زیادہ دینا چاہو تو ہم قبول کرلیں گے اور تمھیں اس کا اجر اللہ کے یہاں ملے گا۔ اس نے کہا: تب ٹھیک ہے، یہ اونٹنی میں لایا ہوں، اسے قبول فرمائیے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اونٹنی قبول کی اور اس کے مال میں برکت کی دعا کی۔
پیارے رسول کی دعا قبول ہوئی۔ اس واقعہ کے کوئی چالیس سال بعد حضرت ابی حکومتِ وقت کی طرف سے ایک بار پھر زکات وصول کرنے اسی علاقے میں گئے۔ ان صاحب سے ملاقات ہوئی، ان کے اونٹ شمار کیے توقریب ڈیڑھ ہزار اونٹ تھے۔ ان اونٹوں کی زکات چار چار سال کے تیس اونٹ بنتی تھی، جو انھوں نے ادا کی۔(مسند احمد)
ساتویں تصویر: اقتدار تو بس اللہ کی شان ہے
وہ غلامی کا زمانہ تھا۔ عام انسانی سماج میں غلاموں کو مارنا اور غلطی پر سخت سزا دینا عام بات تھی۔ اس زمانے یہ کوئی عیب کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔لیکن اللہ کے رسولﷺ تو زمانے کو بدلنے آئے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حضرت ابو مسعودؓ اپنے غلام کو کسی غلطی پر مار رہے تھے۔ اتنے میں پیچھے سے آواز آئی: ابومسعود، ابو مسعود۔ انھوں نے پلٹ کر دیکھا۔یہ آواز اللہ کے رسولﷺ کی تھی۔ آپ نے کہا: تم اس غلام پر جتنی قدرت رکھتے ہو اللہ تمھارے پر اس سے زیادہ قادر ہے۔ (للهُ أقدَرُ عليكَ منكَ عليهِ) اس جملے سے ابو مسعود پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ فوراً بول اٹھے: میں نے یہ غلام اللہ کی خاطر آزاد کیا۔ آپ نے فرمایا: اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کے شعلے تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ (سنن ابو داود)
آٹھویں تصویر: آپ تنہا نہیں، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں
حضرت سلمان فارسیؓ ایک یہودی کے یہاں غلام تھے۔ وہ حق کی تلاش میں نکلے تھے اور مدینہ پہنچ کر ایک یہودی کی غلامی میں جکڑ گئے تھے۔پیارے رسولﷺ کی نشانیاں دیکھ کر انھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ پیارے نبی آپ کو آزاد کراکے اپنے خاص ساتھیوں میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ یہودی آزاد کرنے کو تیار نہیں تھا۔ آخر کار وہ اس شرط پر تیار ہوا کہ سلمان فارسی اس کے باغ میں تین سو کھجور کے درخت لگائیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اپنے بھائی کی مدد کرو۔ لوگ مدد کے لیے آگے بڑھے۔ کھجور کے پودے کافی بڑے اور بھاری ہوتے ہیں۔کوئی تیس پودے لایا، کوئی بیس پودے تو کوئی دس پودے۔ یہاں تک کہ تین سو پودے جمع ہوگئے۔ اب اس کے بعد انھیں لگانے کے لیے گڈھے کھودنا تھے۔ ساتھیوں نے بڑھ کر مدد کی اور تین سو گڈھے بھی تیار ہوگئے۔ اس کے بعد اللہ کے رسول خود تشریف لائے۔ حضرت سلمانؓ اور ان کے مسلمان ساتھی ایک ایک پودا اٹھاکر لاتے اور اللہ کے رسول ﷺ اپنے دست مبارک سے اسے گڈھے میں رکھتے۔ اس طرح بہت کم وقت میں تین سوکھجوروں کا باغ تیار ہوگیا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی برکت سے کوئی ایک بھی پودا خراب نہیں ہوا اور تمام درخت ایک سال کے عرصے میں تیار ہوکر پھل دینے لگے۔(مسند احمد) کھجور کا یہ باغ مدینے میں اب بھی موجود ہے اور یاد دلاتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے ساتھیوں سے کتنی محبت کرتے تھے، ان کی کتنی فکر رکھتے تھے اور آپ کے ساتھی ایک دوسرے کے لیے کتنے ہم درد و غم گسار تھے۔
نویں تصویر: اور نفرت ہار گئی
کہتے ہیں کہ عمیر بن وہب قریش کے شیطانوں میں سے ایک بڑا شیطان تھا۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو تنگ کرتا اور آپ کے ساتھیوں کو تکلیفیں دیتا تھا۔ وہ کسی دن چین سے نہیں بیٹھتا تھا، انھیں ہر دم ستاتا تھا۔ جب مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرلی، تب بھی عمیر بن وہب کی اسلام دشمنی برقرار رہی۔ بدر کے موقع پر وہ اپنے بیٹے کے ساتھ جنگ کے لیے نکلا۔ فوجیں آمنے سامنے آکھڑی ہوئیں، تو عمیر نے آگے بڑھ کر جنگ کا بگل بجادیا۔ سب سے پہلے وہ خود آگے بڑھا، اور مسلم سپاہ میں گھس کر گھوڑے سے کود پڑا اور نعرے لگاتے ہوئے جنگ چھیڑ دی۔
اس جنگ میں اسلام کے دشمنوں کو سخت ہزیمت ہوئی، مکہ کے بہت سے سردار مارے گئے۔ عمیر بھی شدید زخمی ہوا، لیکن کسی طرح بھاگنے میں کام یاب ہوگیا، اس کا بیٹا گرفتار ہوا اور قیدی بنالیا گیا۔ مکہ میں کہرام مچ گیا۔ جنگ بدر کے زخم اتنے گہرے تھے کہ وقت گزرنے کے باوجود بھر کے نہیں دے رہے تھے۔ روز کسی کی یاد آجاتی اور غصہ و انتقام کی انگیٹھیاں دہک اٹھتیں۔ عمیر بن وہب کو بہت گہرا زخم آیا تھا، تلوار پیٹ میں گھس کر پیٹھ سے نکل گئی تھی، اس کا وہ گہرا زخم بھی بھر گیا تھا۔ مگر دل میں انتقام کی آگ مسلسل بھڑک رہی تھی۔ اس کا دوست صفوان بن امیہ بھی دشمنی کی آگ میں جل رہا تھا، کیوں کہ اس کا باپ اور بھائی دونوں جنگ میں مارے گئے تھے۔ ایک دن دونوں ساتھ بیٹھے تھے کہ صفوان نے عمیر کو تیار کیا کہ وہ اس کے سارے قرضے ادا کردے گا اور اس کے خاندان کی پوری کفالت کرے گا، بس وہ مدینہ جاکر محمد کو قتل کردے۔ عمیر تیار ہوگیا۔
صفوان نے ایک تلوار کو زہر میں بجھایا اور اس کی دھار خوب تیز کرکے اسے دی۔ زہر میں بجھی ہوئی تلوار بہت خطرناک ہوتی ہے، اگر ہلکا سا بھی زخم لگ جائے تو پورے بدن میں زہر پھیل جاتا ہے۔
عمیر مدینہ پہنچا، اور مسجد نبوی کے دروازے پر جاکر اونٹ کو بٹھادیا، اتنے میں حضرت عمرؓ کی نظر اس پر پڑ گئی۔ حضرت عمر ؓنے اس کے ساتھ تلوار دیکھی تو ان کا ماتھا ٹھنکا۔ بے اختیار ان کی زبان سے نکلا: ارے یہ کتا، یہ تو وہی دشمن خدا ہے جس نے ہماری فوج کی گنتی کی تھی، اسی نے لوگوں کو بھڑکایا تھا اور اسی نے جنگ چھیڑی تھی۔یہ ضرور کسی برے ارادے سے آیا ہے۔
وہ جلدی سے اٹھ کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پہنچے، عرض کیا کہ عمیر بن وہب تلوار لٹکائے مسجد میں آیا ہے، یہ بڑا دھوکے باز اور بدعہد ہے۔ آپ اس پر ذرا بھی بھروسا مت کیجیے گا۔ آپ نے کہا: اسے میرے پاس آنے دو۔
اللہ کے رسولﷺ نے عمیر کا تپاک سے استقبال کیا۔ اس کے لیے دعائیہ کلمات کہے۔اس کے بعد آپ نے پوچھا: کہو عمیر، کیسے آنا ہوا۔ اس نے کہا: میں اپنے قیدی کو چھڑانے آیا ہوں، آپ لوگ تو ہمارے بھائی بند ہیں، ہمارا قیدی آپ کا قیدی ہے، اسے فدیہ لے کر چھوڑدیں۔ آپ نے کہا: یہ تمھاری گردن میں تلوار کیسی لٹکی ہوئی ہے؟ اس نے کہا: برا ہو اس تلوار کا، یہ بدر میں کہاں ہمارے کام آئی، دراصل بات یہ ہے کہ جب میں اندر آیا تو اسے اپنے سامان میں رکھ کر آنا بھول گیا۔ آپ نے کہا: سچ سچ بتاؤ کس نیت سے آئے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے قیدی کے سلسلے میں ہی آیا ہوں۔تب آپ نے اس کی اور صفوان کی ساری گفتگو اس کو سنادی۔ اور کہا: دیکھو مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہو، لیکن اللہ میری حفاظت فرمائے گا۔ یہ سن کر عمیر کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس کی آنکھوں پر پڑا پردہ ہٹ گیا۔ اس نے بے اختیار کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسولؐ، ہم تو آپ کی یہ بات جھٹلاتے رہے کہ آپ کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ لیکن یہ تو ہماری بالکل راز کی بات تھی جو آپ کو معلوم ہوگئی۔
پھر عمیر نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس راستے پر ڈالا اور یہاں تک لے آیا۔ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: عمیر ؓ بیٹھو ہم تمھاری دل لگی اور انسیت کا سامان کریں۔ پھر آپ نے صحابہ سے کہا: اپنے بھائی کے ساتھ رہو، اس کے اندر دین کا فہم پیدا کرو، اسے قرآن کی تعلیم دو اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔ عمیر ؓ کو اللہ کی ہدایت ملتے دیکھ کر مسلمان بہت خوش ہوئے۔ وہی مسلمان جنھیں اس نے سخت تکلیفیں دی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، عمیر جب یہاں نمودار ہوا تھا تو اس سے مجھے اتنی شدید نفرت تھی جتنی خنزیر سے نہیں ہے۔ مگر آج وہ مجھے اپنے کچھ بیٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
کچھ ہی دنوں کی تعلیم وتربیت کے بعد، حضرت عمیرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے پاس جتنی طاقت تھی وہ میں نے اللہ کا نور بجھانے کے لیے جھونک دی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ہلاکت و تباہی سے بچاکر ہدایت سے نواز دیا۔ اے اللہ کے رسولؐ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں قریش کے پاس جاؤں، انھیں اللہ کی طرف بلاؤں اور انھیں اسلام کی دعوت دوں۔ کیا پتہ اللہ انھیں ہدایت دے دے اورانھیں بھی ہلاکت سے بچالے۔اللہ کے رسولﷺ نے انھیں جانے کی اجازت دے دی۔ وہ مکہ پہنچے۔ مکہ والوں نے عمیر کو بہت برا بھلا کہا، مگر حضرت عمیرؓ نے اس کی ذرا پروا نہ کی۔ ان کے اوپر تو بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ میں مکہ والوں کو آخرت کی تباہی سے بچالوں۔ حضرت عمیر بن وہبؓ دین کی دعوت کا کام دیوانہ وار کرتے رہے۔ اللہ نے محنت میں برکت دی اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ خاص بات یہ ہے کہ سیرت کی کتابوں میں کسی اور کے بارے میں یہ تذکرہ نہیں ملتا کہ بہت سے لوگوں نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ حضرت عمیر بن وہبؓ کے بارے میں یہ تذکرہ سیرت کی کتابوں میں خاص طور سے ملتا ہے۔ (سیرت ابن ہشام)
دسویں تصویر: محبت جیت گئی
ثمامہ بن اثال قبیلہ بنو حنیفہ کا سردار تھا۔ وہ مسلمانوں کے قتل میں ملوث تھا۔ ایک بار مسلم سپاہیوں کا دستہ اسے گرفتار کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ وہ مدینے لایا گیا اور اللہ کے رسول ﷺ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھنے کا حکم دے دیا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو ہدایت دی کہ اس کے ساتھ بہترین سلوک کریں۔ اس کے بعد آپ نے اپنے گھر وں میں موجود کھانے کا سامان جمع کرایا اور ثمامہ کے لیے بہتر سے بہتر کھانے کا انتظام کیا،ساتھ ہی اپنی اونٹنی کا دودھ صبح شام اسے پیش کرنے کی ہدایت کی۔ کسی دشمن قیدی کے لیے یہ غیر معمولی قسم کی خاطر داری تھی۔آپ قیدیوں کو مسجد نبوی میں رکھتےتھے، اس کی مصلحت یہ تھی کہ لوگ اسلام کی خوبیوں اور مسلم معاشرے کی محبتوں کو قریب سے دیکھ لیں۔ اگلے دن اللہ کے رسولﷺ ثمامہ کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم اپنے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ اس نے کہا: اگر آپ قتل کریں گے تو ایک قاتل کو قتل کریں گے۔ اگر احسان کرکے چھوڑ دیں گےتو احسان یاد رکھنے والے پر احسان کریں گے۔ اور اگر فدیہ چاہتے ہیں تو جتنا مال چاہیے ہو بتائیے۔ تین دن تک یہی سوال جواب ہوتا رہا۔ تیسرے دن آپ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ قید سے آزاد ہوتے ہی ثمامہ قریب ایک کھجور کے باغ میں گئے، وہاں غسل کیا اور واپس مسجد نبوی آئے اور کلمہ شہادت ادا کیا۔ پھر کہا: اے محمد! خدا کی قسم! اس روئے زمین پر مجھے سب سے زیادہ آپ کے چہرے سے نفرت تھی، مگر اب سب سےزیادہ آپ کے چہرے سے محبت ہے۔ مجھے سب سے زیادہ آپ کے دین سے نفرت تھی، مگر اب سب سے زیادہ آپ کے دین سے محبت ہے۔ مجھے سب سے زیادہ آپ کے شہر سے نفرت تھی، مگر اب سب سے زیادہ آپ کے شہر سے محبت ہے۔ اس کے بعدحضرت ثمامہ مکہ گئے ، وہاں اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ لوگوں نے بہت برا بھلا کہا لیکن انھوں نے کوئی پروا نہ کی۔ حضرت ثمامہؓ واپس اپنے قبیلے آئے اور انھیں اسلام کی دعوت دی۔ ان کے قبیلے کی بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا۔اس زمانے میں نجد سے غلہ مکہ جایا کرتا تھا۔ حضرت ثمامہ نے اعلان کردیا کہ اب سے ایک دانہ بھی مکہ نہیں جائے گا۔ مکہ والے بہت پریشان ہوئے اور انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے یہاں درخواست بھیجی۔ آپ اپنے دشمنوں کے لیے بھی رحم دل تھے۔ آپ نے حضرت ثمامہ کو ہدایت کی کہ مکے والوں کا غلہ حسب سابق جاری کردیں۔ حضرت ثمامہ ؓنے آپ کے حکم پر لبیک کہا اور غلہ جاری کردیا۔(صحیح بخاری، سیرت ابن ہشام)
شہرِ محبت مدینہ منورہ کی یہ منھ بولتی تصویریں بتاتی ہیں کہ اچھا سماج اعلی تصور رکھنے والے اچھے افراد سے بنتا ہے۔آپ سب کو نہیں بدل سکتے لیکن خوداچھے بن کر سب کو اچھا بننے کا راستہ دکھاسکتے ہیں۔ اور پھر چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2023