محمد مسلمؒ – میرے مُحسن میرے کرم فرما

ابو البرکات اصلاحی

اپنی شیریں کلامی،خوش گفتاری اعلیٰ اخلاق وکرداراورایثاروقربانی کےپاکیزہ جذبات سے دلو ں کومسخرکرکے اپناگرویدہ بنالینے والے محمدمسلم صاحب (اللہ انہیں جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے) مرحوم سہ روزہ دعوت دہلی کے مدیراعلیٰ تھے وہ جامع مسجد کےعلاقہ میں محلہ چوڑی والان کےایک چھوٹےسےکمرےاوراس کمرے کی مناسبت سےچھوٹےسےصحن میں جسے کمرےکے ایک حصہ کی حیثیت دےدی گئی تھی رہائش پذیرتھےنیچے گراونڈ فلور میں اصطبل تھا جہاںتانگے والے کاگھوڑابندھتا تھااورتانگہ مکان کےاحاطےمیں ایک کنارےکھڑاہوتاتھا اسی بوسیدہ کمپاؤنڈکے فرست فلور پر وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے اورفیملی بھی ماشاء اللہ گیارہ افراد پرمشتمل تھی(آٹھ بیٹے،تین بیٹیاں )ہر شخص یہ اندازہ لگاسکتاہےکہ مرحوم مسلم صاحب کی زندگی اس چھوٹے سے مکان میں کتنی تکالیف اور پریشانیو ں میں گزری ہوگی۔مسلم صاحب کےدل کارکنان کیلئے بڑاوسیع وعریض تھاجہاںہر چھوٹےبڑے کی سمائی تھی،مسلم صاحب لوگوںکی ہمدردی وخیر خواہی سےبھرادل رکھتےتھے ہر چھوٹےبڑےکےکام آتے ہرایک کےدکھ دردمیں شریک ہوتےہرایک کوراحت وفائدہ پہنچانےکی کوشش کرتےقوم وملّت کی خدمت دینی فریضہ سمجھ کر کرتےتھے،اُن سے میری کوئی پیشگی شناسائی نہ تھی مدرسۃالاصلاح سرائےاعظم گڑھ (یوپی) کےدورتعلیمی کےآخری سال میںسہ روزہ دعوت میںمیرے دوایک مضامین چھپے تھے ان کے ذریعہ مسلم صاحب کاکچھ غائبانہ تعارف تھامدرسۃ الاصلاح سے فراغت کےبعد جب میں دہلی آیا اوران سےملاتومرحوم بڑی شفقت سے پیش آئے۔

میں ابھی نیانیا تھا پہلےسےان سے کوئی واقفیت نہ تھی لیکن کچھ دنوں کی مصاحبت اور مشاہدات نے ا ن کا ایک اچھا اورپیارا سا نقش دل پرثبت کردیااوروہ تھامحب وعقیدت کانقشۂ کئی بارخیال آیاکہ مرحوم کے احسانات کاتذکرہ کرکےاپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں انہیں محبت وعقیدت کا نذرانہ پیش کروںگامگراس کی نوبت نہ آسکی، حدیث میںہے اذکروا موتاکم بمحا سنکم ’’اپنے مرحومین کوان کی خوبیوںکےساتھ یادکرو ‘‘۔ان کی اچھائیوں کاذکراور یہ امر واقعہ ہےکہ مسلم صاحب مرحوم کی ذات گرامی خوبیوںاوراچھائیوں سے عبارت تھی۔

۱۹۵۷ء میں مدرسۃالاصلاح سرائے میراعظم گڑھ سے میری فراغت ہوئی۔رمضان کےبعد بفرض تدریس سوائے مادھوپورکی درس گاہ اسلامی چلاگیاا س درس گاہ کی حیثیت ایک مکتب کی تھی پڑھنے والےچھوٹے بچے تھے طبیعت نہ لگی چنانچہ دوتین ماہ استعفیٰ دے کر دلی چلاآیا اب سامنے مسئلہ تھارہائش کااورپھر اس کے اخراجات پورےکرنےکا پھرخیال آیا مدرسۃریاض العلوم میں دورۂ حدیث میں داخلہ لے لوںگا۔ سال کے بقیہ سات آٹھ مہینے اس طرح گزر جائیںگے۔ اتنے دنوں رہنے سہنے کھا نے پینے کی پریشانی نہ ہوگی ۔ حدیث کاعلم ومطالعہ بھی کچھ نہ کچھ وسیع ہوجائے گا اوردوسری سب سے اہم چیز جو پیش نظر تھی وہ یہ تھی کہ درس کےعلاوہ فرصت کے اوقات میں کیلی گرافی ، خوش خطی اورفن کتابت سیکھ کر اسے ذریعہ معاش بنایاجاسکتاہے۔دینی تعلیم کے سات آٹھ مہینے گزرنےکے بعد جوصورت حال ہوگی اللہ اس سےنپٹنے کی کوئی سبیل نکالےگا۔

ریاض العلوم میں میری تعلیم کےچھ سات مہینےبیت گئےکتابت کی تعلیم پوری نہ ہوپائی ۔ اب مشکلات پھر آکرسامنےکھڑی ہوگئیں۔رہائش اور دو وقت پیٹ بھرنے کےلیےروٹی کی فراہمی کی ۔ ریاض العلوم سے فراغت کے چنددن بعد رمضان کا مہینہ آگیا۔

ریاض العلوم جامع مسجد سے قریب اردو بازار سےملا ہوانل والی گلی میںہے وہاں سے بلیّماران ڈیڑھ دو کلومیٹر دورہے۔ بلیماران کے پنجابی پھاٹک میں ’’جامع اعظم‘‘نام کا ایک اہل حدیث مدرسہ تھا وہ مدرسہ مولانا عبدالوہاب صاحب صدری کے عقیدت مند حاجی محمد صدیق صاحب تیزاب والے چلاتے تھے وہاں میرے ایک ہم عصر جومجھ سے دو تین سال سینئر تھے یعنی مولانا محمودالحسن صاحب اصلاحی پڑھاتے تھےوہ مئوناتھ بھنجن کے اطراف میںواقع گاؤں کے رہنے والے تھے۔وہاں ایک اورنیک صفت عالم مولانا محمد شمیم صاحب قاسمی بھی مدرس تھے وہ دیوریاکے رہنے والے تھے۔ مولانامحمود الحسن اصلاحی کےذریعہ ان سے بھی تعارف وتعلق ہوگیا تھا ۔ بعدمیں وہ جامع مسجد کے قریب مٹیا محل کے مدرسہ حسین بخش میں شیخ الحدیث ہوگئے تھے ۔ ان دونوںدوستوںوبزرگوں نےمجھے از راہ ترحّم و شفقت آفر کررکھا تھاکہ آپ رمضان میں  ہمارے یہاںآجایا کریں۔دوکا کھاناتین کے لئے کافی ہوگا ان شاء اللہ ، اور اگر ضرورت پڑ ی تو بازا ر سے منگالیں گے۔ان لوگوں کومدرسہ سے کھانا ملتا تھا۔ شب میں میرا قیام ریا ض العلو م میں رہتا تھا۔ میںکبھی کبھی رات میںسحری کےوقت بلیّماران ان دوستوں کے پاس پیدل چلا جا تا تھا ۔ کچھ اِس طرح رمضان کےایّام بیت گئے ۔ عید آئی اور چلی گئی ۔ عید بعد میری پریشانیا ں پھر عو د کر آئیں ۔

دعوت میں میرے دوایک مضامین شائع ہوچکےتھے اس حوالے سے دعوت کےایڈیٹر محمدمسلم صاحب سے غائبانہ تعارف ہوچکا تھا۔ مسلم صاحب نے تسلّی دی ، حوصلہ بڑھایا اورہمت نہ ہارنے کی تلقین کی ۔ وہ بہت مخلص شریف النفس اور ہمدرد انسان تھے۔ انہوںنے مجھے سمجھاتےہوئے کہا۔

’’آپ واپس جاؤگے تو شرمندگی ہوگی کہ آپ کمانے کےلئے نکلے تھے اورناکام واپس لوٹ آئے ۔ پھردوبارہ آپ کواس مقصد کے لئے باہر نکلنے کی ہمت نہ ہوپائےگی ۔آپ کے والدین کو صدمہ ہوگا کہ بیٹا کمانے نکلا تھاناکام واپس آگیا۔ پھر آ پ اپنے والدین کے سر کابوجھ بنیںگے ۔ میری رائے ہے کہ آپ اس طرح ناکام واپس نہ جائیں۔ ایسا ہےاردوبازارمیں میری ایک دوکا ن ہے ۔کتابوں کاانتظام کردیتاہوںاس میںجماعت اسلامی کی کتابیں رہیں گی۔آپ وہاں بیٹھو۔ کوئی گاہک آجائے تواسے کتاب بیچ دو اورفرصت میں اپنی کتابت کی مشق جاری رکھو اورصبح دکان کھولنےسےپہلے یاشام دکان بند کرکے جانے کے بعد کسی استادسےاس پراصلاح لے لیا کرو ۔  میں آپ کو 30/=(تیس روپے ) ماہواردےدیا کروںگا۔‘‘

میں نے مسلم صاحب کی پیشکش قبول کرلی اورگھر نہ گیا اوراسی ایک روپیہ یومیہ اُجرت پر زندگی کےکچھ ایام گزرے۔مسلم صاحب مرحوم ومغفور کےاس مخلصانہ ومشفقانہ مشورہ پرمیںنے سنجیدگی سے غورکیااوروطن واپسی کا ارادہ ترک کردیاچنانچہ مسلم صاحب کی کتابوں کی دکان پرتیس روپیہ ماہوارمقررہ مشاہرہ پرمیںپابندی سے بیٹھنےلگا۔

مسلم صاحب کی مہربانیوںکا سلسلہ جاری رہا ۔اسی دوران معلوم ہوا کہ ہمدرد طیبہ کالج گلی قاسم جان بلّیماران میں طب پڑھنے والوں کے لئے نائٹ شفقت بھی کھل گئی ہےمجھے پڑھنے کاخیال ہوا میں نے مسلم صاحب سےذکر کیا تو آپ نے مجھے داخلہ لینے کی اجازت دےدی ۔ کالج کے پرنسپل اور صدرحکم محمدالیاس صاحب نہایت قابل حکیم اوربہت شریف انسان تھے۔داخلےکی شرائط کیا تمہیں یاد نہیں ، ہاں اتنایادرہےکہ عربی مدارس کے فارغین کے لیے اس میںداخلہ لینے کی دشوار ی نہیں تھی ۔ چنانچہ میںنے بھی داخلہ لےلیا۔البتہ میرےلئےایک پریشانی کی بات یہ تھی کہ دکان بند کرنےکے ٹائم سےکچھ پہلے ہی دکان سے اُٹھنا پڑتا۔مہربان مسلم صاحب نے مجھے اس کی بھی چھوٹ دے دی کہ تم دکان بند کرکےچلے جایا کرو اور میں جانےلگا،اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے۔امتحان کے دن قریب آئےتو پتہ لگاکہ امتحان فیس کے 20/=روپےجمع کرانےہوںگے۔ پیسےمیرےپاس تھےنہیں اس ضرورت کے لئےبھی میں نےمسلم صاحب ہی کی طرف رجوع کیا ۔ جماعت کے ایک بزرگ تھے عبدالقدیر اعظم عباسی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ جماعت کی کس پوسٹ پرتھے۔ شاہ جہانی جامع مسجد کے پوسٹ آفس کے قریب پہلی یا دوسری منزل پرایک ادارہ چلا رہےتھے ۔غالباًاس کا نام ’’ادارہ شرقیہ تھا وہ اِلہ آباد اور پنجاب یونیورسٹی سے عالم وغیرہ کے امتحانات کی تیاریاں کراتے تھے۔ ایک دن مسلم صاحب نےاُنہیں بلوایااورمجھےان کےساتھ کرکےکہا۔کہ انہیں لےکر چوک میںچشمےکی دکان’’پنجاب آپٹیکل‘‘ چلے جائیے اورمیرانام لےکرکہے’’کہ فلاں نے بھیجا ہے انہیںامتحانی فیس جمع کرانےکے لیے بیس روپے دیدیجئے ۔مجھے نہیںمعلوم مسلم صاحب کی ان سے کیسی جان پہچان تھی یامسلم صاحب کی زبان میں کیسی اورکتنی تاثیرتھی کہ پنجاب آپٹیکل والے ان بزرگ نےجن کا نام مجھےیاد نہیں کچھ پوچھے بغیر20/=روپے نکال کرمجھے دے دئیے اورمیںنے لے جا کرجمع کرادیا۔ امتحان ہوا تو ادویات مضمون میں سپلیمنٹری آگئی مگرسپلیمنٹری میںنہیں بیٹھا۔طب پڑھنے سے طبیعت ہٹ گئی تھی۔ چنانچہ طب کی تعلیم سے میں نے رشتہ منقطع کرلیا۔

کسی نے مجھےبتایاکہ پنجابی پھاٹک بلّیماران میںجامع اعظم نام کے ایک اہل حدیث مدرسہ میں ایک استاذ کی جگہ خالی ہے ۔ میں نے جاکربات کی تو 60/= روپئےماہوار پر قیام و طعام میری تقرری ہوگئی۔ اب پہلے سےمیری حالت بہتر ہوئی اورمزید بہتری یہ ہوئی کہ مجھے کتابت کاکام بھی تھوڑا بہت ملنے گا ۔ فالحمدللہ علی ذلک

مدرسہ جامع اعظم سے دوڈھائی سو گز کےفاصلہ پر ’’نئی دنیا ‘‘ نام کا اردو روزنامہ نکلتا تھا کبھی کبھی دو ایک کالم وہاں سے بھی لکھنےکومل جاتا تھا ۔ (دعوت کا دفتر بھی جامع مسجد کے مقابل میں نصف فاصلہ پر تھا وہاں بھی میرا آناجانا ہونے لگا تھا ۔ مجھے دعوت کے ہفت روزہ ایڈیشن کے مضامین بھی کتابت کے لئے ملنے لگے ۔ میں دوسرے تیسرے دن کتابت کرکےدیدیا کرتا تھا۔ کبھی کبھی دعوت دفتر سے واپسی میں مسلم صاحب کا ساتھ ہوا۔ دیکھا چھپنے کے لئے جڑی ہوئی کتابت شدہ کاپی چپراسی کے ہاتھ بھیجنے کے بجائے خود ہی لے کر آگئے اور پریس پہنچا کر پھر گھر گئے ۔ انہیں دوسرے کاکام کردینے میں کوئی ہتک محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ اس وقت دعوت جیّد برقی پریس بلیماران میں چھپتا تھا۔

کچھ دنوں بعد ۱۹۶۰ء میں جماعت اسلامی ہند کا کل ہند اجتماع لال قلعہ اورجامع مسجد کے درمیان والے میدان میں منعقد ہوا ۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے مستقل مرکزی دفتر کے لئے ۱۳۵۳ بازار چتلی قبر والی عمارت اور دعوت کے لئے سوئی والان میں ۱۵۲۵ والی بلڈنگ خریدی گئی اور سہ روزہ دعوت کوروزنامہ بنانے کا اہم فیصلہ ہوا تو دعوت کے اسٹاف میں بھی اضافہ ہوا ۔ مجھے بحیثیت کیلی گرافر اس میں نوکری مل گئی جو۱۹۹۶ء میں ریٹائر منٹ پر جاکر ختم ہوئی۔ مسلم صاحب جب تک دلی میں رہے ان سےبرابر ملتا جلتا رہا ۔ اللہ ان کے حسنات قبول فرمائے اورانہیںا جر فراداں عطا فرمائے۔

میں اگرچہ دعوت میں ملازم تھا تاہم پارٹ ٹائم میں جمعیۃ اہل حدیث کا ترجمان بھی لکھتا تھا اور کبھی کبھی مرتب بھی کرتا تھا ۔ مولانا عبدالوہاب آروی جمعیۃ اہل حدیث کے صدر اور’ترجمان‘ کے مدیر مسئو ل تھے۔ مولانا عبدالجلیل رحمانی ترجمان کے مدیرتھےاور یہ دونوں حضرات زیادہ تردلّی سے باہر رہتے تھے۔ جن دنوں ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف’’ فسادات کا زور تھا فرقہ وارانہ فسادات —— جائزہ اسباب علاج وحل‘‘ کے عنوان سے فرسٹ آرٹیکل کی جگہ میرا مضمون شائع ہوا ۔ وہ کچھ شدت جذبات کا مظہر لئے ہوئے تھا تاہم حکومت کو بروقت اس کی طرف توجہ نہ ہوئی ۔ مگر آروی صاحب گھبرا گئے ۔ اور ڈرے کہ کہیں مجھ سے سرکار کی طرف سے باز پُرس نہ ہوجائے اورمیں معتوب ہوجاؤں انہوںنے دلی کے چیف پولیس کمشنر کواس مضمون کا ذکر کرکے اپنی برأت کا خط لکھ دیا۔

میرا مضمون ’’ فرقہ وارانہ فسادات — جائز ہ اسباب علاج اورحل‘‘ کے عنوان سے پندرہ روزہ ترجمان دہلی کی ۱۵؍اکتوبر اوریکم نومبر ۱۹۶۸ء کی دو اشاعتوں میں شائع ہوا تھا۔

مضمون کی اشاعت کے تقریباً چھ مہینے بعد کورٹ کی طرف سے میرے نام سمن آیا، اہل کار پوچھتے پوچھتے دعوت دفتر پہنچا۔ ان دنوں چھٹی پر میں وطن گیا ہوا تھا۔ مسلم صاحب موجود تھے انہوں نے اسے میری عدم موجودگی کی خبر دی کہ چند دن بعد آنے کے لئے کہا اسے اندازاً کچھ دن بتائے اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ وہ اس وقت واپس آجائیں گے ۔ وہ واپس چلا آیا ۔ میرے واپس آجانے کے بعد سمن والا آیا اور میں نے اس کی تعمیل کی ۔ گورنمنٹ کی طرف سے دفعہ ۱۵۳(الف) کے تحت مجھ پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے اسی دفعہ کے تحت جمعیۃ علماء ہند کے اخبار روزنامہ ’الجمعیۃ‘کے فاضل ایڈیٹر مولانا محمد عثمان فار قلیط کے کسی آرٹیکل پر بھی اس سے پہلے مقدمہ چلا تھا۔ ہمارے مقدمہ کو دیکھنے کے لئے وکیل محمد مسلم صاحب کے مشورہ ہی سے منتخب کیا گیا تھا ۔ کارروائی قریب ۴ سال چلتی رہی ۱۳؍نومبر ۱۹۷۳ء کی شام پونے تین بجے جوڈیشیل مجسٹریٹ درجہ اوّل پی کے دھام کی عدالت سے باہر آخری وقت میں فیصلہ سنایاگیا ۔ معاون مدیر اور پرنٹرز پبلشرز پر دو دو ہزار روپے کے جرمانے لگائے گئے جوبروقت ادا کردیئے گئے اور مجھےچھ ماہ قید با مشقت کی سزا سنائی گئی اورتہاڑ جیل بھیج دیاگیا ۔ اب اس وقت کسی اور عدالت میں اپیل اورضمانت کی کارروائی مکمل ہونے کی امید نہ تھی ۔اس لئے آگے کی کارروائی ۱۵؍نومبر کوعمل میں آئی اورشام ہوتے ہوتےضمانت پررہائی کا پروانہ ملا۔دیر ہونے کے باعث احباب ۱۵ کے بجائے ۱۶ ؍نومبر کومجھے لینے کے لئے تہاڑ جیل پہنچے۔ رہائی کے لئے میرےنام کی پکار سن کر کئی قیدیوں نے مجھے رہائی پانے کی مبارک باد دی ۔ میں ایک نئی زندگی ، نئے ماحول اورنئی بستی کی نئی یادیں لئے جیل کے احاطے سے باہر آگیا۔

میں نے جیل سے باہر آکر’’……..اورمیں جیل گیا‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات قلم بند کئے ۔ اور جمعیت اہل حدیث کے ترجمان ہی میں اشاعت کے لئے اس کے نئے ناظم اعلیٰ اورنئے مدیر کودئیے اورانہوںنے پتہ نہیں کیا سوچا ، کیا سمجھا کیا ڈرے کیا گھبرائے اسے شائع نہ کیا اورجب میں نے اس مضمون کے متعلق پوچھا ان کا جواب کچھ اسی طرح رہا۔’’ ابھی تک دیکھنے کا موقع نہیں مل پایا ‘‘ یاد نہیں کہاں رکھ دیا مل نہیں پا رہا ہے ‘‘وغیرہ وغیرہ میں نے سمجھ لیا کہ یہ سب بہانے ہیں انہیں نہیں شائع کرنا ہے اگرچہ اس میں کوئی قابل گرفت اورموجب اعتراض  بات نہ تھی۔اُس وقت میں نے اپنا مضمون جری با عزم وحوصلہ حق گوحق پسند دینی غیرت وملی حمیت کے ترجمان بیباک صحافی دعوت کے قابل صد احترام ایڈیٹر محمد مسلم صاحب کودیا تو میر ا وہ مضمون’’……. اورمیں جیل گیا‘‘ سہ روزہ دعوت دہلی کی چھ قسطوں :۷؍۱۰؍۱۳؍۱۶ اور ۱۹؍اور۲۲؍ستمبر ۱۹۷۳ء کے سہ روزہ ایڈیشنوں میں قسط وار شائع ہوا اور بحمد اللہ پسند کیا گیا۔

صاف گوئی وبیباکی

ایمر جنسی کے دور میں جب ترکمان گیت کی مسلم آبادی پر بلڈوزر چلانے کا سانحہ پیش آیا اور مزاحمت کے دوران گولی چلی اورکئی مسلمان شہید ہوئے تو سہ روزہ دعوت نے ترکمان گیت کے چھ شہدا کے فوٹو شائع کئے پولیس کو اس کی خبر لگ گئی اوراس نے اخبار ضبط کرلینے کا پلان بنالیا اس وقت دعوت کا دفتر جامع علاقہ میں گلی کوتاز سوئی والان میں تھا او رقریبی تھا نہ چاندنی محل کی حدود میں آتا تھا چنانچہ کئی پولیس والے آکر دفتر میں بیٹھ گئے ۔ مسلم صاحب بھی اپنے آفس میں موجود تھے اورکچھ لکھ رہے تھے ایک رفیق نے بتایا کہ آفس میں آکر بیٹھنے والوں میں چاندنی محل کے تھا نے کا ایس ایچ اوبھی تھا ۔ مسلم صاحب لکھتے جاتے تھے اوران پولیس والوں سے باتیں بھی کرتے جاتے تھے ۔ غالباً ایک دوسرے سے تعارف اور شناسائی کا دور چل رہا تھا ۔ جب ایک پولیس والے نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں چاندنی محل کے تھانے کا ایس ایچ اوفلاں ہوں تو مسلم صاحب نے ان سے آنکھیں ملاتے ہوئے مسکرا کر کہا : اچھا تو آپ ہیں بد نام زمانہ ایس ایچ اوفلاں ۔ وہ کچھ نہ بولا۔ مسلم صاحب پھر لکھنےاوربیچ بیچ میں باتیں کرنے لگ گئے۔

کوئی بتاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

اس موقع پر میں نے مسلم صاحب میں بڑی ہمت عزم حوصلہ اوروقار وتمکنت دیکھی چہرے پر گھبراہٹ بالکل نہیں ۔ حسب معمول لکھنےاورباتوں میں وقت گزررہا تھا ۔ کافی دیر بعد دو پولیس والے بھاگم بھاگ دفتر میں آئے اور وہاں بیٹھے پولیس والوں سے کہا۔ تم یہاں بیٹھے کیا کررہے ہو وہاں اخبار نکل کر بازار میں پہنچ گیا اوربک رہا ہے تو پھر انہوں نے بڑی تیزی سے پریس پہنچ کر باقی کاپیاں اپنے قبضے میں لے لیں اس وقت اخبار دعوت پٹود ی ہاؤس دریا گنج میں چھپ رہا تھا اور وہیں سے بازاربکنے اور پوسٹ ہونے کے لئے ڈاک خانے میں چلا جاتا تھا غالباً وہاں بیٹھے پولیس والوں کا خیال تھا کہ اخبار چھپ کر دفتر میں آتا ہے اور پھر بکنے کے لئے یہاں سے مارکیٹ جاتا ہے اخبار چھپ کر جب یہاں آئے گا تو انہیں اپنی تحویل میں لے لیں گے دفتر سے نکل کر جاتے ہوئے کسی پولیس والے نے مسلم صاحب کی طرف رُخ کرکے کہا تھا کہ آپ نے ہمیں بتایا نہیں (کہ اخبار چھپ کر سیدھے دفتر نہیں آتا بلکہ پریس ہی سے ڈاکخانہ اوربازار چلا جاتا ہے )سوال یہ ہے کہ کیا مسلم صاحب کے بتانے کی بات تھی ۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ۔ پولیس والے اوراتنے بےخبر۔

مَرد درویش

مُسلم صاحب ایک درویش صفت انسان تھے۔ ٹیپ ٹاپ نہ رکھتے تھے ۔ صاف ستھری سیدھی سادی طبیعت کے مالک تھے۔ شاہ فیصل کی دعوت پر سعودی عرب گئےایک جگہ سے تنہا گزررہے تھے سامنے سے آتے ہوئے ایک شخص نے انہیں مسکین سمجھ کر ان کی ڈھیلی ڈھالی شیر وانی کی جیب میں کچھ سکے ڈال دیتے ۔ وہ چونکے اوراسے آواز دے کر اس سے کچھ بات کرنی چاہی اوربتانا چاہا کہ میں اس کا مستحق نہیں ہوںمگر وہ شخص آگے بڑھ گیا ۔ شاید اس نے سمجھا کہ یہ روک کر مزید پیسے مانگنا چاہتا ہے ۔ مسلم صاحب اپنا یہ پیش آمدہ واقعہ سنا کر مسکرائے۔ وہ غیرت مند انسان تھے ظاہر ہے انہوںنے وہ پیسے کسی غریب وضرورت مند کودے دیے ہوں گے ۔ میر ے ایک رفیق نے بتایا کہ بعد میں  میںنے مسلم صاحب سے پوچھا کہ وہ پیسے آپ نے کیا کئے تو انہوںنے بتایا کہ آگے جاکر میں نے وہ پیسے ایک واقعی مستحق کودے دئیے۔

شاہی تحفے وہدیے

مسلم صاحب کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر ہندوستان کے کچھ اور مسلم صحافی بھی گئے تھے شاہ فیصل نے میرے علم کی حد تک ہر صحافی کوگھڑی اورکیمرہ وغیرہ کچھ تحفے بھی دئیےاوروں نے اس تحفے کا کیا کیا ۔ مجھے نہیں معلوم لیکن مسلم صاحب نے جو دین کا علم رکھتے اورمزاج شناس شریعت تھے جب واپس آئے تو انہوںنے یہ دونوں چیزیں دفتر میں جمع کرادیں ۔ ایک رفیق نے بتایا کہ گھڑی دفتر سے کسی صاحب نے خریدلی اورکیمرہ دعوت کے اسٹاف رپورٹر کے استعمال کے لئے رکھ دیا گیا ۔ دفتر میں ایک صاحب محمد امین اعظمی نام کے تھے انہوںنے کچھ دنوں دعوت کے اسٹاف رپورٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا تھا وہ کہیں جاتے تو اپنے ساتھ و ہ کیمرہ لے جاتے۔ ایک رفیق نے بتایا کہ وہ کیمرہ ان سے کہیں غائب ہوگیا تو انہوںنے اس کی قیمت اپنی تنخواہ سے ماہ بماہ قسطوار جمع کرائی۔

مسلم صاحب نے وہی کیا جوایک صالح مرد مومن کا شعار ہے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء ، اعمال اورحکام کے ہدیوں کوغلول چوری اورخیانت میں شمار کیا ہے ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : مابال العامل بعثہ فیقولُ ہذا اہدی لی۔ افلا جلس فی بیت امہ فینظرایہدی الیہ ام لا۔

ترجمہ : ’’ ہم عامل کو(وصولی )کے لئے بھیجتے ہیں ۔ و ہ وصول کرکے لاتا ہے تو کہتا ہے اتنا آپ (آپ کے بیت المال کا ہے ) اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے ۔ اگر یہ کہنا صحیح ہے تو وہ پھر اپنی ماں کے گھر یعنی اپنے گھر بیٹھ کر کیوں نہیں دیکھ لیتا کہ اسے گھر بیٹھے کتنا ہدیہ ملتا ہے ‘‘۔

یہ ہدیہ و تحفہ صرف اُسی کا قبول کیا جاسکتا ہے جس کا اس پو سٹ وعہدہ پر آنے اور بحا ل ہونے سے پہلے سے ہدیہ وتحفہ کا لین دین رہا ہو۔ ورنہ عام طور پر حاکم وافسر کواسی مقصد سے دیا جاتا ہے کہ اس سے کچھ رعایت ، سہولت نفع وفائدہ حاصل کیا جائے۔

احادیث اوراسلامی کتب سَیر وتواریخ میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں حُکام وعمّال کے ہدایا وتحائف بحق سرکار ضبط کرلئے گئے اوران کی قیمت بیت المال میں داخل کردی گئی۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس شہنشاہ روم کا قاصد آیا آپ کی بیوی حضرت ام کلثوم نے ایک اشرفی کسی سے قرض لےکرعطر خریدا اوراسے خوبصورت شیشی میں رکھ کر اسی قاصد کے ذریعہ شہنشاہ روم کی بیوی کے پاس بطور ہدیہ بھیجا مل کر شاہ روم نے اس کے عوض چند شیشوں میں جواہر بھر کر واپس کیا ۔ جب حضرت عمر ؓ نے اسے دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ ان کی بیوی نے تحفہ بھیجنے کا واقعہ بتلایا ۔ حضرت عمر ؓ نے ان جواہرات کو لے لیا اور ان کو فروخت کرکے ایک اشرفی اپنی بیوی کو واپس کردیا اورباقی تمام نقد بیت المال میں داخل کردیا  اور فرمایا یہ جواہرات جوتم کومیرےعہدہ کی بنا پر طے ہیں جب کہ میں مسلمانوں کا امیر ہوں تو یہ مال مسلمانوں کے بیت المال میں داخل ہوگا۔ (منتخب کنز العمال جلد چہارم) اللہ ہم سبھی کودین وملت کے لئے مخلص بنائے(آمین)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2018

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau