ستمبر کے اشارات ’راے عامہ کی تشکیل‘ کی حوالے سے
شمارہ ستمبر ۲۰۱۹ کے اشارات بہ عنوان ’’راے عامہ کی تشکیل‘‘ فکر انگیز نکات پر مشتمل ہے۔ اس میں اسلام کے حق میں راے عامہ کی تبدیلی کو ’’اولین ضرورت ‘‘قرار دیا گیا ہے۔آگے چل کر اس کو “اگلا فوری ہدف اور سنگ میل ” اور “اہم ترین قریب الحصول مقصد ” بتایا گیا ہے۔ مزید کہا گیا ہےکہ ’’اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہماری کوششیں اور جدوجہد اس ہدف پر مرکوز ہوجائیں۔‘‘ ماضی میں اس بارے میں غفلت کا بھی ماتم ہے۔‘‘ واقعہ یہ ہے یہ اہم ترین کام بہت کم ہماری اجتماعی کوششوں کا ہدف بن پایا ہے، جس کے سبب ’’گذشتہ ستر برسوں میں (یعنی جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے بعد سے) ملک کی راے عامہ میں اگر کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے تو وہ زیادہ تر منفی رخ پر ہے۔’’اس وقت صورت حال یہ ہے کہ راے عامہ کی تبدیلی اہل اسلام کا اہم ترین اقدامی ایجنڈا بھی ہے اور دفاعی ایجنڈا بھی۔ ‘‘
’’یہ حالات کا نہایت شدید تقاضا ہے کہ مسلمان پوری قوت کے ساتھ اس اہم کام کی طرف متوجہ ہوں اور اس پر اپنی کوششوں اور توجہات کا بڑا حصہ مرکوز کردیں۔ ‘‘
ابتدائی ڈھائی صفحات میں اس ہدف کی اہمیت اور فوری ضرورت بیان کرکے اگلے نو صفحات میں راے عامہ کی تعریف، اس کو بنانے میں بااثر اقلیت کا رول، اسلام کے حق میں راے عامہ کی تشکیل کا طریقہ، اپنی حکمت عملی، اجتماعی مزاج اور سرگرمیوں میں مطلوب تبدیلیوں کی فہرست اور ان کی مثالیں قرآن میں مذکور پچھلی اقوام کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں اور ان کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ افتتاحی پیرا گراف میں بتایا گیا ہے کہ موجود دور میں میڈیا اور خاص طور سے سوشل میڈیا، واقعات و حوادث کا بھی اہم رول ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مقالہ نگار نے اپنے موقف کو مضبوطی سے اور مدلل طریقے سے پیش کیا ہے لیکن شاید وہ بھول گئے کہ وہ کسی تعلیمی یا تحقیقی ادارے میں تدریس و تحقیق سے منسلک نہیں بلکہ ایک کثیر جہتی تنظیم یا تحریک کے نو منتخب سربراہ ہیں۔ ان سے مجھ جیسے قارئین علمی اور نظری مقالات کے بجائے ان عملی اقدامات، اس کے روڈ میپ اور مراحل کا ذکر سننا چاہتے ہیں جو مذکورہ یا کسی بھی اہم ہدف کو حاصل کرنے کے لیے طے کیے گئے ہیں۔ الایہ کہ مقالے کا مقصد خود جماعت کے اندر راے عامہ کی تبدیلی ہو۔
محمد حسین ذوالقرنین
[وضاحت: اس میقات کا جماعت کا منصوبہ اور اس کی تفصیلات طبع شدہ موجود ہیں۔ زندگی کے اشارات کا مقصد مطلوب فکر اور جدوجہد کے سلسلے میں عام مسلمانوں کے اندر بیداری لانا ہوتا ہے۔ (ادارہ)]
سابقہ شمارے کےمضمون ’قافلہ کیوں لٹا، ایک تجزیاتی تعارف ‘کے حوالے سے
زندگی نو کے تازہ شمارہ میں ’قافلہ کیوں لٹا ‘یا Destiny Disrupted کا ایک تجزیاتی تعارف دیکھنے کو ملا، اور قدرےحیرانی ہوئی۔ صاحب تحریر نے واضح طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کی تہذیبی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ اب تک کا جو تاریخی سرمایہ اسلام کے حوالے سے موجود ہے اس کا فوکس یا تو سیاسی تاریخ پر ہے یا فکری تاریخ پر۔ اس کے برعکس تمیم انصاری کی موجودہ کتاب کا اصل فوکس تہذیبی تاریخ پر ہے۔ مزید یہ کہ تمیم انصاری اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس تعلق سے غور کرنا چاہیےکہ وہ اپنے تہذیبی غلبے یا تہذیبی ترقی کی دوبارہ بازیافت کیسے کریں۔ تمیم انصاری کی کتاب جو کہ میں پہلے ہی کئی بار مطالعہ کر چکا تھا اس تعارف کے بعد دوبارہ از سر نو مطالعہ کرنے پر مجبور ہوا اور اس پر میرا تاثر پیش خدمت ہے۔ تمیم انصاری نے اپنے مقدمے کے علاوہ جگہ جگہ اس سیاق اور اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے تحت ان کو اس کتاب کے لکھنے کا داعیہ ملا۔ وہ سیاق دراصل یوں ہے کہ تمیم انصاری نے جب اپنے بچپن میں افغانستان میں تاریخ یا تاریخ انسانی پر نصابی کتابیں پڑھیں اور پھر جب امریکہ میں کسی ادارے میں کتابوں کی ایڈٹنگ کے دوران تاریخ انسانی سے متعلق کتابوں پر کام کرنے کا سابقہ ہوا یا پھر بعد میں امریکہ ہی میں تاریخ پر نصابی مواد تیار کرنے کی ذمہ داری دی گئی تو ان کو ایک چونکا دینے والے احساس نے گھیر لیا۔ احساس یہ تھا کہ جب ’اسلامی دنیا‘میں رائج تاریخ کا بیانیہ دیکھیں تو اور ’مغربی دنیا‘میں رائج تاریخ کا بیانیہ دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بہت ہی قدیم زمانے سے دو الگ الگ دنیائیں متوازی چل رہی ہیں جن کا کبھی بہت واضح ملن یا آمنا سامنا نہیں ہوا۔ دونوں کی اپنی تاریخ ہے اور وہ دونوں اپنی ہی محدود تاریخ کو تاریخ انسانی کے طور پر سمجھتے اور پیش کرتے ہیں۔ یہ اجنبیت کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ استعماریت کے سائے میں دونوں دنیاؤں کا آمنا سامنا ہوا اور دونوں دنیائیں ایک نئی صورتحال سے دوچار ہوئیں۔ یہی وہ نئی صورتحال ہے جس کے تئیں وہ دونوں دنیاؤں کو آپسی تعامل اور سمجھوتے کے لیے کچھ اہم اصولوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور دونوں کے موجودہ رویے پر تنقید کرتے ہیں۔ بیچ کی پوری کتاب اسلامی تاریخ کو اس مقصد سے ساتھ پیش کرتی ہے کہ دوسری دنیا کے ان لوگوں کو جو انسانی تاریخ میں اسلامی تاریخ کے وجود سے یا تو ناواقف ہیں یا اس کے شمولیت کے قائل نہیں ہیں وہ اسلامی تاریخ اور اس میں پیش آئے مختلف واقعات کو پیش کرتے ہیں۔ اور اس نئے باہمی تعلقات پیدا ہونے کے حوالے سے ایک بہت اہم بات وہ فریم ورک اور مصطلحات کی کرتے ہیں۔ یعنی مغربی دنیا مسلمانوں کی ’پستی‘ کو کس زاویہ سے دیکھتی ہے جب کہ خود مسلم اسے کس الگ زاویے سے ایک اعلی تہذیب کے طور پر باور کرتے ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یا تو دونوں آپسی گفتگو سے مشترک اصطلاحات پر متفق ہو جائیں یا کم از کم ایک دوسرے کو خود انہی کے پرسپیکٹیو میں سمجھنے کی کوشش کریں۔
مغرب اور اسلامی دنیا کے اندر موجودہ دور میں آئی تبدیلی پر موازنہ کرتے ہوئے اور دونوں کے درمیان وجود میں آنے والے تعلقات کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے وہ اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ چونکہ موجودہ دور کی تبدیلی کے اسباب اور وجوہات مغرب میں فراہم ہوئے چنانچہ ان کے یہاں ہونے والی تبدیلیوں میں ثقافتی کوئی بڑا ٹکراؤ نہیں پیش آیا۔ حالانکہ مسلم دنیا یا غیر مغربی دنیا میں صنعتی اور معاشی اداروں کی ترقی کے نتیجے میں خود اس ممالک کے اندر ثقافت کو لے کر دو باہم مختلف طبقے وجود میں آگئے۔ اور چونکہ ایک طبقہ مغربی ثقافت سے متاثر تھا اور دولت و معیشت پر اسی کا غلبہ بھی تھا تو ایک عجیب صورتحال پیش آئی اس دنیا میں جہاں بڑی آبادی تو اپنے پرانے اقدار اور ثقافت کو پوری طرح باقی رکھنا چاہتی ہے دوسری طرف اقلیت میں مگر طاقتور طبقہ مغربی ثقافت اور طرز زندگی کا علمبردار ہوا اور ان کو مغرب نے اپنے اقدار اور نظریات کو مسلم دنیا میں پھیلانے کے لیے مہرے کے طور پر بھرپور استعمال کیا۔
دوسری اہم بات یہ کہ صاحب تحریر کے مطابق انیسویں اور بیسویں صدی کی اصلاحی تحریکوں پر تمیم انصاری کی یہ تنقید رہی کہ ان کا پورا فوکس یا تو سیاسی تبدیلیوں کے بیانیہ پر رہا یا نظریہ کے فی زمانہ اظہار یا فکر کی تصحیح پر رہا حالانکہ ان کی توجہ شارح کے اصلی پہلو یعنی تہذیب کی تشکیل پر نہیں گیا۔ حالانکہ یہ بات بھی تمیم انصاری کی پوری گفتگو میں ڈھونڈتے نہیں ملی۔ اس کے بالمقابل ان کا فوکس اس کی طرف بہت واضح رہا کہ مسلمان اپنی فکر اور دین کی تعبیر کے حوالے سے بیدار رویے کا مظاہرہ کریں۔ مثال کے طور پر خواتین کے تشخص اور ان کے سماجی کردار کے حوالے سے وہ مسلم مفکرین کو دعوت فکر دیتے ہیں۔
آخر میں چونکہ یہ ایک تجزیاتی تعارف کے طور پر لکھا جانے والا مضمون تھا تو مجھے امید تھی کہ کچھ اہم پہلوؤں سے صاحب تحریر اپنا تجزیہ پیش کریں گے یا اٹھنے والے کچھ اہم سوالات کا جواب دیں گے۔ مثال کے طور پر تمیم انصاری کے مطابق اسلامی تاریخ میں تین بڑے نظریات رائج تھے۔ تصوف، فلسفہ اور (فقہ) اسکالرشپ۔ امام غزالی نے فلسفے کا اسلامی تاریخ سے مکمل طور سے خاتمہ کردیا اور تصوف اور فقہ یا شریعت کو باہم یک جا کردیا۔ اور مزید یہ کہ امام غزالی نے نہ صرف فلسفے کو بلکہ مکمل طور پر سائینسی اور عقلی تمام علوم کو مسلم دنیا میں کمزور اور ختم کردیا۔
اس کے علاوہ چونکہ صاحب تحریر نے مسلمانوں کی تہذیبی ترقی اس کتاب کا مرکزی عنوان طے کر ہی دیا تو پھر اس تعارف میں بھی بہت سی غیر ضروری چیزیں جن کا اس کتاب کے مشمولات اور رخ سے کوئی تعلق نہیں تھا مضمون کا حصہ بن گئے ہیں۔ اگر اس کے بجائے معروضی طور پر اصل کتاب کے مباحث اور اس کی تھیمس پیش کی جاتیں اور جہاں ضرورت تھی وہاں ان کے موقف کا علمی جائزہ لے کر اپنا موقف پیش کرنے کی زحمت کی جاتی تو یہ مضمون کہیں زیادہ فائدے مند اور مزید گفتگو کے دروازے کھولنے کا کام کر سکتا تھا۔
ذوالقرنین حیدر (ریسرچ اسکالر، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی ،ملیشیا)
سابقہ شمارے کے مضمون ’ہندوستانی مسلمان، مشن اور تقاضے‘کےحوالے سے
تقسیم وطن کے مخصوص پس منظر، اور اسلام کے تصور ثقافت کی ناقص سمجھ کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان ایک علاحدگی پسندانہ ذہن اور رویہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی قوم کا حصہ نہیں سمجھتے،یا اس میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کا ایک بڑا کا م یہ ہوسکتا تھا کہ وہ اس حوالے سے مسلمانوں کی اصلاح کا کام کرتی اور علاحدگی پسندانہ رویوں کو ختم کرنے کی سعی کرتی۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ جب تک مسلمانان ہند اپنے اندر ہندوستانی قوم ہونے کا احساس پیدا نہیں کرلیتے، جب تک وہ تمام انبیاے اسلام کی طرح ہندوستان کے ہندواور دیگر برادران وطن کو ’یا قومی‘( اے میری قوم کے لوگو!) کہہ کر پکارنے کی پوزیشن میں نہیں آ تے،اور جب تک خود یہاں کے برادران وطن بھی مسلمانوں کو ’اپنی ہی قوم کے افراد‘ محسوس نہیں کرتے، یہاں اسلامی دعوت کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔جس طرح ایک فرد کے تزکیہ کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک خود اس کے اندر اپنے تزکیہ کا داعیہ پیدا نہیں ہوگا،تب تک تزکیہ کوئی بیرونی کوشش ثمر آور نہیں ہوگی، اسی طرح دعوت کے ضمن میں بھی ہمیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ جب تک برادران وطن یہ نہ محسوس کرلیں کہ یہ جو اسلام کے داعی ہیں،یہ ہماری ہی قوم کے لوگ ہیں، ہماری ہی طرح کھاتے پیتے ہیں،ہمارے ہی طرح پہنتے ہیں،،ہماری ہی زبان بولتے ہیں،بس ان کا عقیدہ اور نظریہ ہم سے مختلف ہے، تب تک دعوت کی کوئی کوشش بڑے پیمانے پر کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ہندوستانی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بیک وقت مسلمان اور ہندوستانی نہیں ہوسکتے۔ یہ خیال غلط ہے۔ہم عالمی ملت اسلامیہ کا حصہ بھی ہیں،ساتھ ہی ہم اپنے بردران وطن کی طرح ہندوستانی قوم کا بھی حصہ ہیں۔قوم اور ملت دو مختلف شناختیں ہیں۔ان دونوں شناختوں کا اجتماع ممکن،بلکہ ہندوستانی تناظر میں، ضروری ہے۔ملتیں مشترک ایمان و عقیدے سے وجود میں آتی ہیں جب کہ قومیں مشترک جغرافیہ اور ثقافت کی بناء پر۔ ہندوستانی مسلمان اپنے ایمان و عقیدے کے لحاظ سے عالمی ملت اسلامیہ کا حصہ ہیں۔یہ ان کی ایک شناخت ہے۔اس شناخت کا احساس مسلمانوں میں پایا بھی جاتا ہے۔تاہم مسلمانوں کی ایک دوسری شناخت بھی ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ مسلمان ہندوستانی قوم بھی ہیں۔اس شناخت کا احساس مسلمانوں میں مفقود ہے ۔بلکہ بعض مرتبہ ’شرعی ‘بنیادوں پر اس کی نفی بھی کردی جاتی ہے۔ ’اسلامی ثقافت ‘ ہمیں اپنی مقامی اور علاقائی ثقافت کا بائیکاٹ کرنے کا درس بالکل نہیں دیتی۔ ہم مقامی و علاقائی ثقافت کو اختیار کرتے ہوئے بھی اسلامی ثقافت پر عمل کرسکتے ہیں۔ ثقافت کے حوالے سے اسلام صرف دو اصول پیش کرتا ہے۔ اول، کوئی ایسا عمل نہ ہو جس میں شرک کا شائبہ بھی موجود ہو۔دوم، کوئی غیر اخلاقی عمل نہ ہو۔ ان دونوں اسلامی اصولوں کو سامنے رکھ کر ہم اپنی اپنی مقامی ثقافتوںکو اختیار کرسکتے ہیں،بلکہ اختیار کرنا چاہیے۔یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول کی سنت بھی ہے ۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں جب کسی دوسرے ملک سے کوئی وفد مدینہ آتا تو امیرالمومنین سامنے ہونے کے باوجود وفد کے لوگوں کو مقامی افراد سے معلوم کرنا پڑتا کہ ان لوگوں میں سے امیر المومنین کون ہیں۔اس کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت کے مسلمان اپنی کوئی علاحدہ قومی شناخت نہیں رکھتے تھے اور وہ اسی ثقافت میں ضم تھے جو مدینہ کے تمام افراد کی ثقافت تھی۔
ہندوستان میں علما اور اہل فکر حضرات کو قوم و ملت کے حوالے سے ان باتوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایک اور اہم مسئلہ مسلمانوں میں رائج کے موجودہ تصور دعوت کا ہے۔عام طور سے اسلامی دعوت کو محض اسلام کے عقائد تک محدود کردیا گیاہے۔ حالاں کہ اسلام محض عقائد کا نام نہیں ہے۔ قرآن اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام چار چیزوں کا مرکب ہے،ان چار وں کی جانب دعوت ہی صحیح اسلامی دعوت ہوگی۔ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظر انداز کیا جائے گا،تو وہ ادھوری دعوت مانی جائے گی۔پہلی چیز ہے مذہب (religion)۔ مذہب فرد سے خطاب کرتا ہے، ایک عقیدہ دیتا ہے،اور اس کی پوری توجہ زندگی بعد موت پر ہوتی ہے۔ دوسری چیز ہے نظریہ(ideology)۔ نظریہ سماج سے بحث کرتا ہے، اجتماعی نظام کے اصول پیش کرتا ہے، اور اس کی توجہ موجودہ زندگی میں انسانیت کے مسائل کے حل پر مرکوز ہوتی ہے۔ تیسری چیز ہے اقدار(values)۔مثلاً ایمان داری، عدل، انصاف، حیاء، محبت، تعاون فی الخیر،قناعت وغیرہ۔ چوتھی چیز ہے نظام (system)۔یعنی یہ کہ اسلام جس سماج کی تعمیر کا خواہاں ہے، وہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ’کلیمی ‘کے ساتھ ساتھ’ عصاے موسی‘ بھی موجود نہ ہو۔بقول اقبال ؏ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد۔
ہمارے محدود تصور دعوت کا نتیجہ ہے کہ اب ہم اسی کام کو دعوتی کام سمجھتے ہیں جہاں لازماًتوحید،رسالت یا آخرت پر گفتگو ہو۔حالاںکہ یہ اسلامی دعوت کا محض ایک پہلو ہے۔اس پہلو کی اہمیت بنیادی اور کلیدی ہے۔ لیکن اسے ہم اسلام کی مکمل دعوت قرار نہیں دے سکتے۔ اگر کوئی شخص موجودہ سیاسی نظام پر تنقید کرنے اور اسلام کے سیاسی نظام کا تعارف کرنے کے لیے کوئی سیمینار یا کانفرنس منعقد کرے، یا کوئی شخص مہاراشٹر کے کسانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے،انہیں حکومت وقت سے انصاف دلوانے کے لیے کوئی مہم چلائے، نعرہ لگائے، ریلی نکالے یا مظاہرہ کرے،تو ہم ان کاموں ’دعوتی سرگرمی ‘میں شمارکرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ہم بین مذاہب مکالمات(interfaith dialogue) میںتو کافی دل چسپی لیتے ہیں، لیکن ملک کی معیشت کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لیے کہیں سیمینار ہو، تو وہاں ہماری شرکت محسوس نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں ایکٹیوزم دعوت کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا، بلکہ دعوت بمقابلہ ایکٹیوزم کی ایک فضاء بن گئی ہے ۔ جس کے نتیجے میں بعض افراد ’داعی‘ ہیں، اور بعض افراد ’ایکٹیوسٹ‘ ہیں۔ یہ در اصل دین و دنیا کی ایک نئی تحریکی تفریق ہے۔
ہمارے موجودہ تصور دعوت کا قرآن اور سیرت کی روشنی میں بے لاگ جائزہ لینے اور اس کی روشنی میں نئی اور صحیح دعوتی اپروچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
سعود فیروز (مدیر ماہنامہ رفیق منزل)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019