اچھی یا بُری کوئی ذہنیت خواہ کسی فرد کی ہو یا قوم کی، اس میں تبدیلی کا واقع ہوجانا دنیا کا کوئی نادر الوقوع واقعہ نہیں ہے، بلکہ ایسا برابر ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہےاور دنیا کی پوری تاریخ در حقیقت اسی قسم کی تبدیلیوں کی ایک مسلسل داستان ہے۔ خود ہندوستان میں خاص ہندو مسلم تعلقات کے ضمن میں اچھے اور بُرے دونوں طرح کے ادوار بارہا گزر چکے ہیں، ماضی بعید میں یہ قومیں باہم کس طرح رہتی تھیں، یہ جاننے کے لیے تو آپ کو تاریخ کی ورق گردانی کرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن اتنی بات تو بہت سے لوگ محض اپنے حافظہ پر زور ڈال کر معلوم کرسکتے ہیں کہ اسی ہندوستان میں جہاں مسلم و غیر مسلم کش مکش اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ ان کے لیے بھلے مانسوں کی طرح ایک ساتھ رہنا ناممکن ہوگیا اور مجبورًا ملک کے دو ٹکڑے کرنے پڑے اور اس پر بھی ان کی باہمی رنجشیں اور عداوتیں دور نہیں ہوئیں اور وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کے لیے آمادہ کھڑے ہیں، وہیں چشمِ فلک نے ان کے باہمی اتحاد و اعتماد کی یہ کیفیت بھی دیکھی ہے کہ جامع مسجد دہلی کے منبر سے غیر مسلم تقریر کررہے ہیں اور مسلمان نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سنتے اور سر دھنتے ہیں، یا خلافت کے نام پر جلسے ہورہے ہیں اور ہندو اُن میں شریک ہوتے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر اُنھی کی طرح اللہ اکبر کے نعرے لگارہے ہیں۔ غرض یہ کہ قوموں کی اچھی یا بُری کوئی بھی ذہنی کیفیت ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ ایک حال پر قائم رہ سکے۔ اس میں عوامل واسباب کے تحت تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں اور واقع ہوسکتی ہیں اس لیے مسلمانوں کے ضمن میں اس وقت غیر مسلموں کی جو ذہنیت اور طرز عمل ہے اس سے مایوس ہوجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں از خود بھی تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں کیوں کہ اس کے اسباب موجود ہیں اور اگر مسلمان چاہیں تو وہ اپنے حسنِ تدبیر سے ان حالات کو بہت کچھ بدل سکتے ہیں۔
(مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد، ص 156 تا 159)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2022