میں اسے مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ ملک کی بھی بدنصیبی سمجھتا ہوں کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی صلاحیت اور قابلیت کے جوہر دکھانے کے مواقع نہیں مل سکے۔ تقسیم کے ساتھ ہی فسادات کا سلسلہ شروع ہوا تو اب تک ختم نہیں ہو سکا۔ اور یہ ان کی جان و مال کے ساتھ ان کے سکون و اطمینان کے لیے بھی غارت گر ثابت ہوا ہے اور اس پر مزید وہ چوٹیں ہیں جو آئے دن کسی نہ کسی نام سے انھیں سہنی پڑتی ہیں۔ خود جماعت اسلامی کا حال یہ رہا ہے کہ اس کے اوقات کا بڑا حصہ انھی مسائل اور الجھنوں میں صرف ہوتا رہا ہے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ مسلمان اپنی اس وقت کی تمام الجھنوں کے ساتھ بھی ملک کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں اور ان میں اس کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ بلکہ میرا خیال یہ بھی ہے کہ ان کا اس طرف متوجہ ہونا خود اپنے مسائل کے حل کی بھی ایک کارگر تدبیر ہے مسلمان اگر ایک مثالی گروہ کی حیثیت سے آگے بڑھیں اور ان میں خود اعتمادی اور خودشناسی ابھر آئے تو وہ اس ملک کے شب و روز کو کہیں زیادہ روشن کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کو اس وقت مساوات اجتماعی عدل، فراخدلی، رواداری اور حقوق شناسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا خاصہ ہیں اگر کسی طرح وہ اپنی یہ تصویر ابھارسکیں تو یقینی ہے کہ پورا ملک اس سے عملی سبق حاصل کرے گا۔ حالات کی ناموافقت اور راہ کی دشواریوں سے بددل یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہر حال میں اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے اس کا وعدہ ہے۔ وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِینَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ۔
(ایک انٹرویو کا اقتباس، سہ روزہ دعوت: 22 ؍مارچ 1972ء)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2023