نماز کا حق ہے کہ اسے

وقت پر ادا کیا جائے

یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیےکہ نمازوں کااپنےاوقات میں اداکرنا فرض ہے۔ وقت ٹال کر یا دوسرے وقت میں پڑھنا بالکل جائزنہیں۔ قرآن میں وقت پرنماز ادا کرنےکی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ حضر میں، سفرمیں، امن میں، خوف میں، جنگ میں، ہرحال میں۔ اللہ کاحکم ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا (سورةالنساء: ۱۰۳)

‘‘یقیناً نماز اہلِ ایمان پر فرض ہے وقت کی پابندی کے ساتھ۔’’

کسی نماز کے سلسلے میں سستی اور کم زوری لاحق نہ ہو۔ہر نماز اپنے وقت پر پوری پابندی کے ساتھ ادا کی جائے۔اس کے لیے قرآن میں ایک خاص لفظ ‘‘محافظت’’ کا استعمال کیا گیا ہے، جس کے لفظی معنیٰ’’ نگرانی’’ کے ہیں اور جس کی وسعت میں پابندی سے ادا کرنا، وقت پر ادا کرنا اور بہ شرائط ادا کرنا سب داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلوٰةِ الْوُسْطٰىۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ (سورةالبقرة: ۲۳۸)

‘‘تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصا درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔’’

سچے مومنوں کی پہچان ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی مکمل حفاظت کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پابندی کے ساتھ وقت پر نماز پڑھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نےان کی تعریف کی ہے:

وَالَّذِینَ هُمْ عَلٰی صَلاتِهِمْ یحَافِظُونَ (سورةالمعارج: ۳۴)

‘‘ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔’’

وَالَّذِینَ هُمْ عَلٰی صَلَوَاتِهِمْ یحَافِظُونَ (سورة المؤمنون: ۹)

‘‘اور جو اپنی نمازوں کی نگہداشت کرتے ہیں۔’’

وَ هُمْ عَلٰی صَلاتِهِمْ یحَافِظُونَ (سورة الأنعام: ۹۳)

‘‘اور وہ اپنی نماز کی نگرانی رکھتے ہیں۔’’

وقت پرنمازاداکرنااللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ میں نےاللہ کےرسول ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:

الصَّلَاۃُ عَلیٰ وَقْتِهَا ‘‘وقت پرنماز پڑھنا۔’’ (بخاری، باب فضل الصلاۃ لوقتہا )

جب نمازکاوقت ہوجاتاتورسول اللہﷺاپنےاہل وعیال کےلیےاجنبی ہوجاتے۔آپ وضوکرتے، نمازکالباس زیب تن کرتےاور مسجدکےلیےنکل جاتے۔نمازکےعلاوہ دیگرہرچیزکی حیثیت ثانوی تھی۔وقت پر نماز ادا کرکے ہم اللہ کے رسولﷺ کی اس سنت کو زندہ کرسکتے ہیں۔

وقت ٹال کرنمازپڑھنامنافق کی پہچان ہے۔اہل ایمان کی خوبی ہےکہ وہ ہر نمازکواپنےوقت پراداکرتےہیں، ٹال مٹول نہیں کرتےکہ نمازچھوٹ جائے، بلکہ نمازکی دیکھ بھال کرتےہیں، نمازکاانتظارکرتےرہتےہیں تاکہ اسےوقت پراداکرلیں۔ اس طرح وہ اپنی نمازسےغافل نہیں ہوتے اور نمازکوضائع نہیں کرتے۔ وہ وقت کی پابندی اس طرح کرتےہیں کہ کسی قسم کی سستی اور آرام طلبی، یا کوئی مصروفیت، یا کوئی دل چسپی ان کی نماز کی پابندی میں رکاوٹ نہیں بنتی۔جب نماز کا وقت آجائے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے خدا کی عبادت بجالانے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ وقت کی پابندی کےبغیرنمازکی حفاظت ممکن نہیں۔

جب نمازکا وقت ہو جائے توپہلے نماز کو موقع دیجیے۔ نمازکے وقت ہر چیز اپنی باری کا انتظار کرے گی۔موبائل، فون کال، اخبار، کھیل کود، آفس کی ڈیوٹی، میٹنگ سب کواپنی اپنی باری کاانتظارکرنا ہے۔ اب نماز کے بعد ہی کسی کو موقع ملے گا۔اگرآپ وقت پرنمازپڑھتے ہیں تو خوش قسمت ہیں لیکن اگروقت پرنہیں پڑھتے بلکہ وقت ٹال کرپڑھتے ہیں توپھر خود سے پوچھیں کہ میں کیوں ٹال مٹول کرکےنماز کا وقت ٹال دیتاہوں؟ ایسا میں کتنے مہینوں اور برسوں سےکررہاہوں؟ جب کہ ہر کام، ہر ڈیوٹی تو وقت پر انجام دیتا ہوں مگر نماز کیوں وقت پرنہیں پڑھتا؟ پھر اصلاح کےلیےفکرمندہوجائیں اور عزم کرلیں کہ چاہےکچھ بھی ہوجائے نماز بہرحال وقت پر ہی پڑھیں گے۔

کیا مجال کہ نماز کا وقت نکل جائے

صحابہ کرامؓ نماز کے وقت کی پوری پوری پابندی فرماتے اور ہمیشہ ٹھیک وقت پر نمازپڑھتے تھے۔ کیا مجال کہ کبھی وقت نکل جائے چاہے کیسا ہی ارجنٹ کام ہو۔ایک بار پیارے رسولﷺ نے ایک صحابی کو ایک بہت ہی پُر خطرکام کےلیے بھیجا۔ ابھی وہ منزلِ مقصودسے ادھر ہی تھے کہ عصر کا وقت ہوگیا۔سوچا ایسا نہ ہوکہ منزل تک پہنچتے پہنچتے عصر کا وقت تنگ ہوجائے۔اس لیے انھوں نے آگے بڑھتے ہوئے نیت باندھی اور اشاروں ہی اشاروں میں نمازاداکرلی۔

ایک دن کچھ لوگ ظہرکی نماز کے بعد حضرت انس ابن مالکؓ کےپاس پہنچے۔وہ لوگ آپ سےکچھ گفتگو کرنی چاہتےتھےکہ آپ اٹھ کرعصرکی نمازکےلیے چلے گئے۔جب نماز پڑھ کرآئے تو لوگوں نے کہا حضرت آپ نے عصر کی نماز بڑی جلدی پڑھ لی۔آپ نے فرمایا ہاںعصر کی نمازمیںتاخیرنہیں کرنی چاہیے۔ پیارے رسولﷺ نے فرمایا ہے: ‘‘یہ منافقین کی نماز ہے، یہ منافقین کی نماز ہے، یہ منافقین کی نماز ہے کہ گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب سورج کی ٹکیا زرد ہونے لگتی ہے تو چار رکعتیں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں اور ذرا بھی اس میں ‘‘خداکویاد’’ نہیں کرتے۔’’ (مولانامحمدیوسف اصلاحیؒ، روشن ستارےص: ۲۲۸۔۲۲۹)

نماز میں تاخیر برداشت نہیں

‘‘حضرت عبدالعزیز بن مروان مصرکےگورنرتھے۔جب ان کےبیٹےعمرنےہوش سنبھالا تو آپ کو ان کی تعلیم وتربیت کی فکرہوئی اور آپ نے ان کو مدینہ، صالح بن کیسان کے پاس تعلیم وتربیت کےلیےبھیج دیا۔حضرت صالح نےبڑی محنت اور توجہ سےان کی تربیت فرمائی۔خاص طورپرنمازکی تاکیدفرماتےاور نمازمیں کوتاہی کوہرگزبرداشت نہ کرتے۔

ایک دن اتفاق سے عمر نماز میں دیرسے پہنچے۔نمازسے فراغت کے بعد حضرت صالح نے شاگرد کو تنبیہ کی اور پوچھا: دیر سے کیوں آئے؟ عمر: حضرت میں بال سنوار رہا تھا۔صالح: اچھا اب بالوں کی طرف اتنی توجہ ہوگئی ہےکہ نمازمیں تاخیر ہونے لگی۔ ایسےبال سرپرکیسے رکھے جاسکتے ہیں جو نمازوں میں تاخیر کا سبب بنیں۔فوراً حضرت صالح نے عمر کے باپ یعنی مصر کے گورنر عبدالعزیزکوخط لکھ بھیجا اور پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ لکھا۔عقل مندباپ نےفوراًایک آدمی کومدینہ بھیجااور یہ تاکیدکی کہ مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے عمرکے بال منڈواؤ اور اس کےبعدکسی سےبات کرنا۔اسی حسنِ تربیت اور نمازکی پابندی کی برکت تھی کہ عمر بن عبدالعزیز، عمرثانی کہلائے اور تاریخ کی ایک زندۂ جاویدہستی بنے۔’’

(مولانامحمدیوسف اصلاحیؒ، روشن ستارےص: ۲۳۱۔۲۳۲)

حُکّام کا حال اور وقت پر نماز پڑھنے کی تاکید

نبی اکرمﷺ: (حضرت ابو ذرؓ سے)جب تم پر ایسے حاکم مسلط ہو جائیں جو نماز کو (مستحب) وقت سے مؤخر کر کے پڑھیں یا فرمایا : نماز کے (مستحب) وقت کو ختم کر کے پڑھیں تو تم کیا کرو گے؟ حضرت ابو ذرؓ : جو آپ ارشاد فرمائیں۔ نبی اکرم ﷺ: تم اپنے وقت پر نماز پڑھ لیا کرو پھر اگر ان کے ساتھ نماز پاؤ تو(اُن حاکموں کے فتنہ سے بچنے کے لیے) وہ بھی پڑھ لینا ؛کیوں کہ وہ تمھارے لیے نفل ہو جائے گی۔’’ (مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاة، ا ٔبو داود : کتاب الصلاة، ابن ماجہ : کتاب إقامة الصلاة والسنة فیہا)

‘‘حضرت عبادہ بن صامتؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (ایک زمانے میں) میری امت کے حکام ایسے لوگ ہوں گے جو دنیوی امور کی وجہ سے نماز تاخیر سے پڑھا کریں گے۔ تم اپنی نمازوں کو ان کے ساتھ نفل کے طور پر پڑھ لیا کرو۔’’ ( ابن ماجہ: کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب ما جاء فی إذا أخروا الصلاۃ عن وقتہا)

حضرت انسؓ کے رونے کی وجہ

بخاری کی پہلی جلد میں اوقات نماز کے بارے میں ایک باب ہے: بَابُ تَضْییعِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِہَا یعنی بے وقت نماز پڑھنا، نماز کو ضائع کرنا ہے۔اسی باب میں امام زہری کےحوالےسے درج ذیل واقعہ کا ذکربھی ہے:

‘‘راوی کہتےہیں کہ میں نے زہری سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں دمشق میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو ر ہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو ر ہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔’’ (بخاری، بَابُ تَضْییعِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِہَا)

اس روایت سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓکے مدنظر نمازوں کا کس قدر اہتمام تھا۔ حضرت انسؓ نے تاخیر سے نماز پڑھنے کو نماز کا ضائع کرنا قرار دیا۔ امام زہری نے حضرت انس ؓ سے یہ حدیث دمشق میں سنی تھی۔ جب کہ حضرت انسؓ حجاج کی امارت کے زمانہ میں دمشق کے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے حجاج کی شکایت کرنے آئے تھے کہ وہ نماز بہت دیر کرکے پڑھاتے ہیں۔ بلکہ خود ولید بن عبد الملک بھی اس سلسلے میں کوتاہی کرتےتھے۔

اس حدیث سے پہلے ایک اور حدیث بیان ہوئی ہے، جس میں حضرت انسؓ تعجب بھرے لہجے میں کہتے ہیں: ألیس صنعتم ما صنعتم فیھا؟!اس کے متعلق حاشیہ میں لکھا ہوا ہے:

‘‘ألیس صنعتم سے مرادنماز کو ضائع کرنا ہے اور وہ ہے نماز کے وقت کا نکل جانا۔ مہلب کہتے ہیں کہ نماز ضائع کرنے سے مراد اسے اس کے مستحب وقت سے ٹال کر ادا کرنا ہے، یہ نہیں کہ لوگ نماز کو وقت سےٹال دیتے تھے، اسی بات کی ایک جماعت قائل ہے۔

میرے نزدیک صحیح بات وہی ہے جس کا اوپر ہم نے ذکر کیا ہے؛ کیوں کہ انسؓ نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب انھیں معلوم ہوا کہ حجاج اور ولید بن عبد الملک اور دوسرے لوگ نماز کو اس کے وقت سے ٹال دیتے تھے، اس سلسلے میں روایتیں مشہور ہیں۔’’

(الجامع الصحیح للإمام البخاری بحاشیۃ المحدث السہارنفوری، کتاب مواقیت الصلاة)

ایک آسان تدبیراپنائیں

وقت پرنمازاداکرنےکےلیےایک آسان تدبیر اپنائیں:

نماز کے منتظر رہیں۔گھڑی دیکھتے رہیں۔ اذان سننے کا اہتمام کریں۔ اذان ہوتے ہی مسجد کے لیے روانہ ہوجائیں۔اس سلسلے میں اللہ کےرسول کی یہ حدیث بہترین رہ نمائی کرتی ہے۔ارشاد فرمایا:

۔۔۔وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسَاجِدِ إذَا خَرَجَ حَتّٰی یعُودَ إِلَیهِ

(بخاری، کتاب الأذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ)

‘‘اور وہ مومن (قیامت کے دن عرش کے سائے میں ر ہے گا) جس کا حال یہ ہوتا ہے کہ مسجد سے باہر جانے کے بعد بھی اس کا دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا ہے جب تک کہ لَوٹ کر مسجد میں واپس نہ آجائے۔’’

اگریہ کرلیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ وقت پرنمازنہ پڑھ سکیں۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2024

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223