نام کتاب : دعاے دل
مصنف : نعیم الرحمن نعیم جلال پوری
صفحات : ۱۴۴ قیمت : ﴿درج نہیں ہے﴾
ملنے کا پتا : اے۔۶۱۱، کریلی جی -ٹی -بی ، نگر، الہ آباد، یوپی
‘‘دعاے دل’’جناب نعیم جلال پوری کامجموعۂ حمد و مناجات ہے۔ یہ نعیم صاحب کے لیے تودعاے دل ہے، انھوںنے اِسی حیثیت سے اِسے پیش بھی کیاہے، لیکن اِسے پڑھ کر میں نے اپنے لیے اِسے ‘‘دواے دل’’محسوس کیا۔ اپنی تمام غفلتیں، کوتاہیاں اور سیہ کاریاں یاد آنے لگیں، کسی تخلیق کو پڑھ کر قاری کو اپنی غفلتوں، کوتاہیوں اور سیہ کاریوں کی طرف توجہ ہوجائے، یہ اس کی بہت بڑی کام یابی ہے۔ اِن اشعار نے تو جھنجھوڑکر رکھ دیا:
عطا فرما مجھے اپنی محبت
میں حبِّ غیر میں کھویا ہوا ہوں
مرے دل میں تو اپنی یاد بھردے
الٰہی میں تجھے بھولاہوا ہوں
جو خوشی سے تیری مرضی میں فنا ہوتا نہیں
علم اس کو بندگی کے لطف کاہوتا نہیں
اُردو شاعری میں حمدو مناجات کی روایت تو بہت قدیم ہے، ہر عہد کے شعرا کے کلام میں حمدو مناجات کے کچھ اشعار ضرور مل جاتے ہیں، لیکن اِن کے مجموعوں کی روایت خال خال ہی ملتی ہے۔ البتّہ گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران میں اِس طرف کافی توجہ ہوئی ہے۔ ۵۸۹۱ میں پاکستان کے مشہور نعت گو حضرت مظفر وارثی کامجموعہ حمد ’’الحمد‘‘ آیا تو اخبارات میں اس کا بڑا چرچا رہا۔ صدر پاکستان جنرل محمد ضیائ الحق نے اس کا اجرا فرمایاتھا۔ اُن کے تاثرات بھی زینت کتاب تھے۔ اس کے بعد کئی مجموعے سامنے آئے۔ ہندستان میں حضرت ابرار کرت پوری کے تین مجموعے یکے بعد دیگرے خالقِ ذوالجلال ، قسّام ازل اور ’حمد کہوںتو‘ کے نام سے شائع ہوے۔ ہمارے بھائی نعیم جلال پوری بھی انھی فہرست ِ خوش نصیباں میں شامل ہیں، جنھوںنے اِس صنفِ سخن کو خصوصیت کے ساتھ اپنی سخن وری کا موضوع بنایا۔ ’دعاے دل‘ اِس کاحسین اور دل چسپ مظہر ہے۔
’دعاے دل‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب نعیم جلال پوری کو زبان و بیان پر کامل دست رس حاصل ہے۔ محاورات اور روزمرّہ بھی ان کی نگاہ میں ہیں اور شعر و فن کی جملہ روایات کو برتنے کاہنر بھی انھیں آتا ہے۔ قارئین ان کے یہ اشعار پڑھ کر میری رائے کی تصویب کریںگے۔
تو کردے صاف اِسے اپنے آبِ رحمت سے
ہمارا دامنِ ہستی ہے، داغ دار بہت
ترے ہی فضل سے ملتی ہے صحّت سب مریضوں کو
دوائوں کو بھی جو دیتاہے، تاثیر شفا، تو ہے
عاجز ترے عرفان سے ہے فہم کی پرواز
قاصر ترے ادراک سے ہر ایک بصر ہے
بیاں کیا تری نرمی کا وصف پھولوں نے
ترے مزاج کی سختی بتاگئے پتھر
نعیم جلال پوری نے جہاں کہیں قرآنی آیات اور ماثورات کو نظم کاپیکر عطا کیا ہے اور اپنی شاعری کے ذریعے اُن کے مفاہیم کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ ’ازدل خیزد و بردل ریزد‘ کی فارسی کہاوت تو بہت پرانی ہے، لیکن نعیم صاحب کے اِن حمدیہ و دعائیہ اشعار پڑھ کر دل کہتاہے کہ اِسے ایسے ہی موقع کے لیے وضع کیاگیا ہوگا۔
جناب نعیم جلال پوری سلوک و احسان کے ذائقہ چشیدہ ہیں۔ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد پھول پوری رحمتہ اللہ علیہ سے قرابتی تعلق کے ساتھ ساتھ ارادت کابھی تعلّق رکھتے ہیں۔ اس لیے اُن کی شاعری میں یہ رنگ بہت گہرا ہے۔ حضرت مولانا پھول پوری رحمتہ اللہ علیہ شاعری کا بڑا ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ اپنی تقاریر اور اصلاحی مجلسوں میں وجدو کیف کے ساتھ اپنے اشعار پڑھتے تھے تو سامعین پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ مجھے یاد ہے نومبر یا دسمبر ۷۶۹۱ میں ضلع پرتاپ گڑھ کی ایک بستی بابو گنج میں حاجی نذیر احمد انصاری کے دولت خانے پر فجر کے بعد کی مجلس میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ جب یہ شعر پڑھا تو سامعین کی چیخیں نکل پڑیں:
حیاطاری ہے تیرے سامنے میں کس طرح آؤں
نہ آئوں تو دلِ مضطر کو لے کر پھر کہاں جاؤں
جناب نعیم کے ہاں اپنے مرشد کا یہ رنگ قدم قدم پر دیکھنے کو ملتاہے۔ یقین ہے کہ ان کا یہ مجموعۂ حمد و مناجات ہزاروں انسانوں کی اصلاح و تربیت ، توبہ و انابت اور رجوع الی اللہ کاذریعہ بنے گا۔
٭
نام کتاب : شاہ بانی
مصنف : سیّد شاہ حسین نہری
صفحات : ۱۲۴ قیمت : -/۲۲۵ روپے
ناشر : نواے دکن پبلی کیشنز، بیت العنکبوت، مجنوں ہل، رشیدپورہ،
اورنگ آباد، ۴۳۱۰۰۱ ﴿مہاراشٹر﴾
جناب سیّد شاہ حسین نہری مذہب پسند حلقے کے ایک جانے پہچانے معّلم و سخن ور ہیں۔ پوری عمر معلمی کے پیشے سے وابستہ رہے اور مشقِ سخن کا بھی سلسلہ جاری رہا۔ گزشتہ دس برس سے موظف ہونے کے بعد اب پورے طورپر شعر وسخن کے لیے یک سو ہوگئے ہیں۔ زیرنظر کتاب شاہ بانی ، ان کی دوسواٹھائیس ﴿۸۲۲﴾ رباعیوں کامجموعہ ہے۔ شاعر نے اس میںبات کا التزام کیاہے کہ الف سے یاتک ہرحرف پر ختم ہونے والی رباعیات شامل کتاب کی ہیں۔ رباعی خود ایک نہایت مشکل صنفِ سخن ہے، اس پر اِس التزام نے اس کی اہمیت کو دو چند کردیاہے۔ بالعموم رباعیات غیرمردّف ہیں۔ پہلی حمدیہ رباعی کاقافیہ الف ہے:
رحمن کا ہو شکر ادا پہلے آ
اے شاہ! قلم اور بہاں اس کی عطا
وجدان و نظر، عقل و شعور اور تمیز
سب اس کی عنایت کے نظارے بابا
دوسری نعتیہ رباعی کاقافیہ ’’با‘‘ ہے:
ہر بات بنی آپ کی تبیان صواب
امّی لقبی آپ ہیں حکمت کا شباب
ہاں اِنّ مِنَ الشِّعر لَحِکْمۃ کہہ کر
دی شعر کو بھی خلعتِ حکمت کی تاب
حرفِ ’’یا‘‘ پر ختم ہونے والی رباعیوںکی تعداد تیس ﴿۳۰﴾ ہے۔ ان میں سے صرف ایک آپ بھی ملاحظہ کریں:
گرمی، سردی جھیل رہا ہوں میں بھی
ٹوٹی گاڑی ٹھیل رہا ہوں میں بھی
سانسوں کے میدان میں جیتا ہے کون
کیسی بازی کھیل رہا ہوں میں بھی
میں ایک مشکل صنف سخن میں ایک اچھّی اور تعمیری شاعری کانمونہ پیش کرنے پر حضرت شاہ حسین نہری کو ہدیہ تبریک پیش کرتاہوں۔
مشمولہ: شمارہ جون 2010