نقد و تبصرہ

فردوسِ تغزل

شاعر:       ابوالبیان حماد عمری

صفحات:    ۳۸۰       ٭ قیمت:    -/۲۲۵روپے

ناشر:        حماد پبلشنگ ہائوس ۴/۸۲، سکنڈمین روڈ،۸۱ کراس، لکسندرا،بنگلور-۵۶۰۰۳۰

حضرت مولانا ابوالبیان حماد  عمری کی شخصیت ہندوپاک کے تحریکی و جماعتی ہی نہیں بل کہ ہر اہلِ علم و دین پسند طبقے کے لیے ایک جانی پہچانی اور معتبر شخصیت ہے۔ وہ ہندستان کے ایک بزرگ اور بلند پایہ عالم دین کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں اور ایک مخلص و شفیق معلم ومربی کی حیثیت سے بھی۔ وہ کم و بیش چھے دہائیوں سے ایشیا کی عظیم اسلامی دانش گاہ جامعہ دارالسلام عمرآباد میں درس وتدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جامعہ سے شائع ہونے والا معروف ماہانہ رسالہ ’راہِ اعتدال‘ انھی کی سرپرستی میں شائع ہورہاہے۔ علمی و تربیتی موضوعات پر ان کی متعدد کتابیں شائع ہوکر اہل علم طبقے میں پزیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ ان میں تازیانے، توحید کی حقیقت، تاریخ ہند کی ایک سبق آموزداستان اور سفرنامہ حجازو ایران خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ اِن سب کے ساتھ ساتھ ماضی کے دوسرے بڑے علماء  کی طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی شعرو سخن کانہایت پاکیزہ اور ستھرا ذوق ودیعت فرمایاہے۔ اس سلسلے میں بھی انھیں استادانہ حیثیت حاصل ہے۔ درجنوں شعراء ان کے دامنِ فیض سے وابستہ ہوکر شعرو سخن کی دنیا میں اعتبار حاصل کرچکے ہیں اوران کی اپنی ایک شناخت ہے۔

زیرنظر کتاب ’فردوس تغزل‘ مولانا ابوالبیان حماد  عمری کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کے دو مجموعے نغماتِ حمد ونعت اور بانگِ حرا کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ نغماتِ حمدونعمت جیساکہ نام سے ظاہر ہے مولانا حماد  عمری کی حمدیہ نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ جب کہ ’بانگِ حرا‘ میں ان کی مذہبی، ملّی اور تاریخی نظمیں ہیں۔ زیرِ نظرمجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں کو دیکھ کر مولانا کی فنّی ولسانی مہارت اور فکری گہرائی و گیرائی کااندازہ ہوتاہے۔ درج ذیل اشعار کو بھرپور تغزل کاامین کہاجاسکتا ہے:

نذرانۂ جاں لے کے چلاآیا خوشی سے

بازارِ محبت میں خریدارِ محبت

نہ جدا ہوے وہ مجھ سے، نہ الگ ہوا میں ان سے

کبھی خود ہی آگئے وہ، کبھی یاد بن کے آئے

ان کاخیال، ان کی تمنا، انھی کاذکر

ہم ان کے ساتھ ساتھ رہے، وہ جہاں رہے

’فردوسِ تغزل‘ میں ایسے اشعار کی کمی نہیں، جن سے شاعر کی عصری آگہی اور اپنے گردو پیش کے حالات سے باخبری کااندازہ ہوتاہے۔ اس سلسلے کا صرف ایک شعر ملاحظہ کریں:

کلی کلی نوکِ خارکیوں ہے، خزاں سے بدتر بہار کیوں ہے

ذرا کوئی باغ باں سے پوچھے، چمن کا یہ حالِ زار کیوں ہے

فردوسِ تغزل میں یہ شعر پڑھ کر وجدان جھوم اٹھا:

مقامِ دار و رسن آخری مقام نہیں

رہِ وفا میں بہت دورہم کو جانا ہے

درج ذیل شعر میںمولانا ابوالبیان حماد  عمری نے اپنے شعری مزاج کابھرپور تعارف کرادیا ہے:

غزل کو رنگ دیا میں نے درد کو حماد

غزل نہیں یہ مرا دکھ بھرافسانہ ہے

اُردو کے کہنہ مشق وممتاز شاعر حضرت قمرسنبھلی  نے’فردوس تغزل‘ کے پیش لفظ میں بہ جا طورپر بڑی صفائی کے ساتھ لکھاہے کہ مولانا حماد  عمری کی شاعری میں کوئی پیچیدگی یا کسی طرح کا ابہام نہیں ہے۔ وہ نہایت متانت ، سنجیدگی اور سادگی کے ساتھ اپنے محسوسات و مشاہدات کو شعرمیں ڈھالنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ ان کی پوری شاعری اسلامی افکار واقدار کی آئینہ داری کرتی ہے۔ وہ غزل کی فنّی روایتوں کااحترام کرتے ہوئے اپنے مثبت نظریات کو واضح اور غیرمبہم انداز میں پیش کرتے ہیں۔

میں شعرو ادب کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے فردوسِ تغزل کااستقبال کرتاہوں اور شعرو ادب کے پاکیزہ ذخیرے میں اِسے ایک خوش گوار اضافہ محسوس کرتاہوں۔

﴿تابش مہدی﴾

 

ترکی کا ایک عظیم مجاہد

تحریر:       ثروت صولتؒ ،مولاناسیّدابوالحسن علی ندویؒ

مرتب:     ڈاکٹر اقبال احمد خاں

صفحات:    ۱۴۴        ٭قیمت:  -/۸۰ روپے

ناشر:        مکتبہ عنایت گیا، بہار

’ترکی کاایک عظیم مجاہد‘ دراصل ترکی کے ہی نہیں ، بل کہ دنیاے اسلام میں اپنے دور کے عظیم مرد مجاہد غازی انور پاشا شہیدؒ کی داستان حیات ہے۔ جنھوںنے جنگ طرابلس اور جنگ بلقان میں مجاہدانہ کارنامے انجام دیے۔ انھوںنے سلطان عبدالحمید کی استبدادی حکومت کو ختم کرکے دستوری حکومت کے قیام میںنمایاں حصہ لیا۔ جنگ عظیم اول کے دوران وہ وزیر جنگ تھے اور ترکی جیسے کم زور ملک جسے یورپ کامرد بیمار (Sick of Europe) کہاجاتاہے، اپنی فوجی تنظیم سے روس، برطانیہ اور دوسرے اتحادی ملکوں کا چار سال تک مقابلہ کیا۔ انھوںنے ترکستانیوں کے مختلف گروہوں کو متحدکرکے روس کی فوجوں کا دو سال تک مقابلہ کیا اور کئی علاقوں کو روسی حملہ آوروں سے آزاد کرالیا۔ لیکن ہتھیاروں کی کمی کی وجہ سے وہ بھی بے بس ہوگئے اور ۸/اگست ۱۹۲۹؁ء کو افغانستان کی سرحد کے پاس روسی حملہ آوروں کامردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔

یہ کتاب دراصل محترم ثروت صولت کی تحریروںکا خلاصہ ہے، جس کابیشتر حصہ ان کی معروف کتاب ’ملت اسلامیہ کی مختصرتاریخ‘سے ماخوذ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مرتب نے حضرت مولانا سیّدابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’اسلام اور مغربیت کی کشمکش‘ سے بھی کچھ اقتباسات پیش کیے ہیں۔ ترکی کی مختصرتاریخ کے ساتھ ساتھ موضوع کی مناسبت سے علامہ اقبال کی کئی نظمیں مثلا بلاداسلامیہ کو اقبال کاپیغام، طارق کی دعا، فاطمہ بنت عبداللہ وغیرہ کو بھی اس کتاب کے صفحات میں جگہ دی گئی ہے۔ انور پاشاشہیدؒ اور ان کے مقابلے میں کمال اتاترک ، مصطفی کمال کی زندگی کے بھی کچھ دریچے موازناتی مطالعے کے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ انور پاشاہ شہید کا اپنی بیوی نازیہ سلطان جو کہ عثمانی شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، کو لکھے گئے خطوط ان سے لاکھ محبتوں کے باوجود اپنے فرض منصبی سے چمٹے رہنے کاپرعزم درس دے رہے ہیں۔ ایک انوکھی چیز جس کو مرتب نے کتاب کے ابتدائی اور آخری صفحات میں جگہ دی ہے، وہ مختلف تراشے اور اقتباسات ہیں جو مختلف کتابوں اور جرائد و رسائل سے لیے گئے ہیں۔

کتاب کے مرتب ڈاکٹر اقبال احمدخاں اس سے پہلے’ملت میں گم ہوجا‘ اور ریاست کے بہار کے مردمجاہد اور یتیم خانہ اسلامیہ گیا کے بانی عنایت خاںؒ کی داستان حیات مرتب کرچکے ہیں اور اب وہ ٹیپوسلطان اوراورنگ زیب کی زندگیوں کے تاریک گوشوں کو صفحہ قرطاس پر جگہ دینا چاہتے ہیں۔

حاصل تبصرہ یہ کہ بحیثیت مجموعی یہ کتاب زنگ آلود روح اور سرد جذبات کو مہیز لگانے کے لیے مفید اور کارآمدکتاب ہے۔

﴿محمودعاصم شیرازی﴾

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223