کتاب شماری
از : پروفیسر مظفر حنفی
صفحات: ۴۲۴ ٭ قیمت:۔/۳۰۰ روپے
ناشر: ماڈرن پبلشنگ ہائوس،گولا مارکیٹ دریاگنج، نئی دہلی۱۱۰۰۰۲
پروفیسر مظفر حنفی ہمارے عہد کے ممتاز رجالِ ادب میں ہیں۔ اُنھوں نے اپنی بے پناہ تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی کاوشوں اور متنوع علمی و ادبی سرگرمیوں سے اُردودنیا کے ایک وسیع حلقے کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ شعر و ادب سے ان کی غیر مشروط وابستگی، مسلسل قلمی وفکری جدوجہد اور ان کے مزاج کی انفرادیت نے ان کی شہرت و نام وری کو غیرمعمولی وسعت دے دی ہے۔ جہاں اور جس علمی و ادبی حلقے میں وہ پہنچتے ہیں اُنھیں ہاتھوں ہاتھ لیاجاتا ہے اور لوگ اُنھیں عزت ووقار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اربابِ علم ودانش کے لیے یہ بات مزید وجہِ کشش بنتی ہے کہ مظفر حنفی ادبی وتنقیدی حلقوں میں پائے جانے والے تحزبات اورگروہ بندیوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ وہ ادب میں کسی بھی قسم کی گروہ بندی یا تحزب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ حُریتِ فکر سے کام لیا ہے اور آزادانہ طور پر لکھنے اور بولنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حریتِ فکر ان کی شاعری میں بھی ملتی ہے اور نثر میں بھی۔ اُنھیں جس شاعر یا ادیب کے ہاں جو خوبی یا خامی نظر آتی ہے،اس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں ۔ خواہ وہ شاعر یا ادیب کسی بھی طائفے سے تعلق رکھتا ہو۔ میرا خیال ہے کہ ان کے اس رویے نے انھیں نقصان بھی پہنچایا ہے۔ اس لیے کہ یہ تحزب، گروہ بندی، انجمن پسندی اور ادارہ سازی کا دور ہے۔ اِن سے کٹ کر کوئی شاعر یا ادیب سُرخ روئی نہیں حاصل کرسکتا۔ وہ گرچہ بنیادی طور پر تخلیق کار ہیں۔ ان کی ادبی وفکری زندگی میں شاعری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔فکر کا تنوع، اُسلوب کی ندرت اور بیان کی تازگی ان کی شناخت بن چکی ہے۔ اُنھوں نے اُردو غزل کو جس بانکپن اور توانائی سے نوازا ہے، اس کے لیے وہ پورے ہندستان و پاکستان کی ادبی دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ شعر وغزل سے ہٹ کر اُنھوں نے علم و ادب کے دوسرے شعبوں میں بھی فکر ونظر کی قندیلدیں روشن کی ہیں اور اپنے فہم ودانائی کا لوہا منوایا ہے۔ اب تک ان کی کم وبیش چھے درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی بعض تنقیدی و تحقیقی کتابیں ادب وتنقید کی دنیا میں مرجع کی حیثیت حاصل کرچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ترتیب وتدوین کی بھی منفرد صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ اس ذیل میں بھی ان کی متعدد کتابیں علم وادب کی دنیا میں مقبول ہیں۔ بائیس ﴿۲۲﴾ جلدوں پر مشتمل ’وضاحتی کتابیات‘ ان کا ایساتدوینی کارنامہ ہے جسے علم وادب کی تاریخ میں تادیر نہ فراموش کیا جاسکے گا۔ اس میں اُنھوں نے ۱۹۸۰ سے ۲۰۰۱ کے دوران میں شائع ہونے والی علمی، ادبی، تنقیدی، تحقیقی اور تاریخی کتابوں کے سلسلے میں جو ضروری معلومات فراہم کی ہیں، وہ مصنفین اور ریسرچ اسکالروں کے لیے ایک بیش بہا خزانہ ہے۔
ہم پروفیسر مظفرحنفی کی خواہ کوئی تخلیق دیکھیں، خواہ تصنیف یا تدوین وترتیب، ان کی سوچ کی بالیدگی ،مزاج کی انفرادیت اور طریق کار کی ندرت ہرجگہ جلوہ گر نظر آئے گی۔ ان کی جو چیز بھی سامنے آتی ہے ،اچھوتی اور منفرد ہوتی ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اس میں سہل ممتنع کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ان کی ایک کتاب ’کتاب شماری‘ کے نام سے آئی ہے۔ یہ کتاب بھی ان کے مزاج کی انفرادیت کا مظہر ہے۔ ’کتاب شماری‘ چار سو بیس صفحات پر مشتمل صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے ایک نہایت اہم، جاذب نظر اور پرکشش کتاب ہے۔ اِسے دلّی کے معروف اشاعتی ادارے ماڈرن پبلشنگ ہائوس نے اپنے روایتی معیار اور گٹ اپ کے ساتھ بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ یہ دراصل بیسویں صدی کے ربع آخر ۱۹۷۶ئ سے ۱۹۹۹ئ کے دوران میں اُردو زبان، ادب، تنقید، تحقیق، سوانح،لسانیات، سماجی علوم ، سیاسیات، تعلیم، سائنس، طب اور مذہب سے متعلق شائع ہونے والی کتابوں کا اشاریہ ہے۔
پروفیسر مظفر حنفی کی یہ بات اپنے اندر غیر معمولی وزن رکھتی ہے اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتی ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں جب کہ چھوٹی سے چھوٹی بات چند سیکنڈ میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور یورپ وامریکہ سے شائع ہونے والی ہر کتاب مختصر سی مدت میں عام ہوجاتی ہے، اُرد وکتابوں کا معاملہ ناگفتہ بہ ہے۔ اِس مظلوم زبان کی تمام کتابوں کا حصول اور ان سے استفادہ تو بہت دور کی بات ہے ، ان کے ناموں اورموضوعات تک سے واقفیت نہیں ہوپاتی۔ یہ چیز شائقین اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے بہ ہرحال تکلیف دہ ہے۔ پروفیسر مظفر حنفی کا یہ بڑا اہم کارنامہ ہے کہ انھوں نے اُردو زبان و ادب کے شائقین اورمحققین و مصنفین کی دشواریوں کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور کسی نہ کسی درجے میں ان کی تلافی کی کوشش کی۔ ’کتاب شماری‘ اس کی بہترین مثال ہے۔
پروفیسر مظفر حنفی نے کتاب کی ترتیب یہ قائم کی ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے کتابوں کا مجموعی اعتبار سے سال بہ سال جائزہ لیا ہے۔ ہر سال کے جائزے میں انھوں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ کتابوں کی ترتیب انھوں نے حروفِ تہجی کے اعتبار سے رکھی ہے۔ تاکہ استفادے میں سہولت رہے۔ اس کے بعد اُس سال کی کتابوں کے اندراجات کو شقوں میں تقسیم کیا ہے اور بتایا ہے کہ کن کن شقوں میں کن موضوعات سے متعلق کتابیں ہیں۔ اِس تفصیلی گفتگو کے بعد بتایا ہے کہ اس سال شائع ہونے والی کتابوں کی مجموعی تعداد کیا ہے اور اِن میں موضوعاتی اعتبار سے کتابوں کی کیا تعداد ہے اور ان میں اولیت کا درجہ کن موضوعات کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۷۶ء کو لے لیجیے۔
۱۹۷۶ء میں مصنف کی تحقیق کے مطابق کل ۳۸۰ کتابیں شائع ہوئیں۔ انھیں انھوں نے سولہ شقوں میں تقسیم کیا ہے۔ اولین نو﴿۹﴾ شقوں میں اولیت ادبی تنقید کو حاصل ہے۔ اس کے بعد علی الترتیب شاعری، ناول،افسانہ، ڈراما، مضامین، انشائیہ ، خاکہ، سفر نامہ، مکتوبات اور زبان کا نمبر آتا ہے۔ بعد کی سات شقوں میں سماجی علوم، سائنسی علوم، تاریخ، تہذیب ، سیاسیات ، صنعت و حرفت ، مذہبیات اور بچوں کے ادب سے متعلق کتابیں ہیں۔ پھر فہرست دے کر بتایا ہے کہ اِس سال ادبی تنقید و تحقیق میں کل ۷۸کتابیں شائع ہوئیں، صنفِ شاعری میں ۱۰۱، ناول میں ۳۷، افسانوں کی ۳۴، ڈراموں کی ۹، مضمون، انشائیہ اور خاکہ کی صف میں ۸، سفر نامے کے ذیل میں ۲، مکتوباتی ادب میں تین اور اُردو زبان کے موضوع پر ۱۷ کتابیں شائع ہوئیں۔ اسی طرح تاریخ، تہذیب اور سیاست کے موضوع پر ۲۰ کتابیں شائع ہوئیں، تعلیم کے موضوع پر ۳، صنعت و حرفت اور کامرس سے متعلق ۶، سائنسی علوم سے متعلق ۷، مذہبیات کے موضوع پر ۲۱، بچوں کے ادب سے متعلق ۳۸ اور متفرقات کے ذیل میں ۶ کتابیں شائع ہوئیں۔ اس طرح ان کی مجموعی تعداد ۳۸۰ ہوئی۔
ہر سال کی شائع شدہ کتابوں کے اشاعتی جائزے کے بعد پروفیسر مظفر حنفی نے ناشرین کی ترجیحات اور شائقینِ کتب کے ذوق ورجحان کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے اور اِن ترجیحات اور ذوق و رجحان کے اسباب وعلل پر روشنی ڈالی ہے۔ اپنے جائزے میں انھوں نے اس بات کو بھی دیکھا ہے کہ اِن شائع شدہ کتابوں میں کتنی کتابیں سرکاری اداروں اور ریاستی اردو اکادمیوں نے شائع کیں اور کتنی ان کے جزوی مالی اشتراک سے شائع ہوئیں اور یہ بھی کہ کتنی کتابیں شخصی یا پرائیویٹ اشاعتی اداروں نے شائع کیں اور کتنی مصنفین ،مرتبین یا مترجمین نے ۔
مذکور بالا تفصیلی جائزوں کے بعد موضوعات کے اعتبار سے مصنفین کے ناموں کے ساتھ کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔ یہاں بھی حروفِ تہجی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
بہ ظاہر ’کتاب شماری‘ ایک فہرست کتب ہے، تکنکی اعتبار سے اِسے اشاریے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی جاسکتی اور مصنف نے اِسے تیار بھی اِسی حیثیت سے کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تیار کرکے پروفیسر مظفر حنفی نے شائقین مطالعہ، مصنفین، محققین اور ریسر چ اسکالروں کی بہت بڑی مدد بہم پہنچائی ہے۔ اس کی صحیح قدروقیمت کا احساس وہی لوگ کرسکیں گے ، جو اِس دشت کے سیاح ہیں اور جنھیں آئے دن اس قسم کی پریشانیوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے، جس کی کسی نہ کسی درجے میں تلافی کی کوشش اِس کتاب کے ذریعے کی گئی ہے۔ بلاشبہ وہ اپنی اس منفرد دریافت کے لیے پورے اہل علم طبقے کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔
پروفیسر مظفر حنفی نے اپنی اس کتاب کا انتساب اپنے خالق ومالک رب ذوالجلال والاکرام کے نام کیا ہے۔ اِس کا اظہار اس طرح کیا ہے:
خداے عز ّوجل تو جاوداں کرتا ہے لفظوں کو
مظفر اپنی ہر تخلیق تیرے نام کرتا ہے
اِس انتساب سے بھی پروفیسر مظفر حنفی صاحب کی طباعی اور جودت فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اِس سے ان کی اس بلند خیالی، تعمیری سوچ اور ذہن وفکر کی سمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا، جو ان کی اِس علمی کاوش میں کارفرما رہی ہے۔ دراصل ان کی علمی، ادبی اور تحقیقی زندگی کا یہی وہ رویہ ہے، جو اُنھیں آج کے بے شمار تخلیق کاروں ، ناقدوں اور محققوں کی بھیڑ میں ممتاز ونمایاں کرتا ہے۔
﴿تابش مہدی﴾
رسولِ رحمت۔ رہبرِ کامل
مرتب : محمد افضل لون
صفحات: ۱۰۴٭ قیمت ۰/۶۰ روپے ﴿لائبریری ایڈیشن ۔/۱۰۰
ناشر: ملت پبلی کیشنز،حیدر پور، سری نگر
زیر نظر کتاب سیرت نبویﷺ پر پانچ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے تین مضامین مشہور کشمیری رہ نما جناب سید علی شاہ گیلانی کے قلم سے ہیں اور تین عالم اسلام کے شہرۂ آفاق مفکر ین مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ اورسید قطب شہیدؒ کے تحریر کردہ ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے مضمون کا عنوان ہے: ’’ا نک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ اس میں مولانا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک اہم دلیل آپﷺ کے اخلاق حسنہ ہیں۔ آپ ﷺ کے کردار کی گواہی اپنوں اور دشمنوں دونوں نے دی ہے۔ آپﷺ کی دعوت اور کردار میں کوئی تضاد نہ تھا۔ آپﷺ نے جو نمونہ پیش کیا ، پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒ نے اپنے مضمون ’نبوت کا اصل کارنامہ‘ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ دنیا نے مادی اعتبار سے تو خوب ترقی کی ہے، محیرالعقول ایجادات سامنے آئی ہیں، لیکن اخلاقی و روحانی اعتبار سے انسان پستی اور تنزل کا شکار ہوا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپﷺ نے ایسے انسان تیار کیے جو اعلیٰ اخلاق اور کردار کا نمونہ تھے۔ اس سلسلے میں انھوںنے عہد صحابہ اور بعد کے ادوار میں نمونے کی چند شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ سید شہید قطب کے مضمون کا عنوان ہے: ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ بہ حیثیت داعی انقلاب،۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قومیت کا نعرہ بلند کیا نہ اقتصادی انقلاب کی صدا بلند کی ، نہ محض اصلاح اخلاق کی مہم چلائی۔ بلکہ آپﷺ کی دعوت مکمل انقلاب کی دعوت تھی، اس نے انسانی زندگی کو یک سر بدل کر رکھ دیا۔ جناب علی گیلانی کے مضامین کے عناوین یہ ہیں: رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم عصر حاضر میں ، کان خلقہ القرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے عظیم ترین محسن ، ان میں بھی سیرت نبویﷺ کے مختلف پہلوئوں پر اچھے انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کی ابتدائ میں مرتب نے ’جمال مصطفی‘ کے عنوان سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بیانات کی روشنی میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا بیان کیا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2013