قرآن مجید پر اعتراضات۔ ایک جائزہ
مصنف: مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۲ئ٭ صفحات: ۴۴٭ قیمت ۔/۲۰ روپے
قرآن کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے،جو ہر طرح کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ہے۔یہ اپنے اندر زبردست تاثیر رکھتی ہے۔ اس کا، اس پر ایمان لانے والوں کے علاوہ دوسروں، حتیٰ کہ اس کے دشمنوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس سے عام انسانوں کو روکنے اور اس سے بدظن کرنے کیلئے اس پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے رہے ہیں۔ یہ اعتراضات قرآن کریم کے زمانۂ نزول میں بھی کئے جاتے تھے، بعد میں بھی کئے گئے ہیں اور موجودہ دور میں تو ان کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
زیر نظر کتاب میں قرآن کریم پر کئے جانے والے اعتراضات کا تذکرہ کرکے ان کے جوابات دیئے گئے ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ ان تمام اعتراضات کو جمع کردیا جائے جو کسی بھی دور میں مخالفین اسلام کی جانب سے کئے گئے ہیں۔ چنانچہ مشرکین مکہ کے ان اعتراضات کو بھی بیان کردیاگیا ہے ، جن کا خود قرآن کریم نے تذکرہ کیا ہے، مستشرقین اور عیسائی مشنریوں کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات کو بھی شامل کیاگیا ہے اور ان اعتراضات کو بھی جگہ دی گئی ہے جو ہندوستان میں بعض شدت پسندوں اورفرقہ پرستوں کی جانب سے پیش کئے جاتے ہیں ۔ جواب میں اختصار ملحوظ رکھا گیا ہے اور آسان اور عام فہم اسلوب اختیار کیاگیاہے۔ اس کتابچے کے مصنف مشہور دینی درس گاہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں تفسیر وعلوم قرآنی کے استاد اور اس کے علمی ترجمان سہ ماہی نظام القرآن کے مدیر معاون ہیں۔
امید ہے ،راہ دعوت میں کام کرنے والوں کے لئے یہ کتابچہ مفید ہوگا۔
مذاہب عالم
مصنف: مولانا انیس احمد فلاحی مدنی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء٭صفحات: ۳۹۲ ٭ قیمت: ۔/۲۲۵ روپے
مذاہب کا مطالعہ دوپہلوؤں سے اہمیت رکھتا ہے: اول یہ کہ آج پوری د نیا سمٹ کر ایک گاؤں کے مثل ہوگئی ہے۔ تمام ممالک میں اور ہر ملک کے تمام علاقوں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں۔ زندگی کے مختلف معاملات میں ان کا ایک دوسرے سے سابقہ پیش آتا ہے۔ پُرامن بقائے باہم کیلئے ضروری ہے کہ انھیں ایک دوسرے کے مذہب، عقائد، رسوم ورواج اورجذبات واحساسات کے بارے میں واقفیت ہو۔ دوم یہ کہ مسلمان ایک داعی گروہ ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ جہاں بھی رہیںوہاں اللہ کے بندوں تک اسلام کی دعوت پہنچائیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ان کے اطراف میں رہنے بسنے والے جن مذاہب کو ماننے والے ہیں ان کا انھیں مکمل اور تفصیلی علم ہو، ان کے عقائد، تہذیب وثقافت اور ان کی نفسیات سے انھیں کماحقہ واقفیت ہو، تاکہ وہ ان سے اسلامی عقائد ، اقدار اور تعلیمات کا تقابل کرسکیں، ان کے سامنے مشترکہ اقدار و امور کو پیش کرسکیں اور اختلافی باتوں میں اسلام کی حقانیت کو آشکارا کرسکیں۔
علمائے اسلام نے ہر دور میں مطالعۂ مذاہب کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ، خاص طور سے یہودیت وعیسائیت کے مطالعے،ان کے بنیادی عقائد اور اسلامی عقائد سے ان کے تقابل کے موضوع پر سیکڑوں کتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔ ان میں علامہ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ) کی کتاب الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح اور ان کے شاگرد رشید علامہ ابن قیم (م ۷۵۱ھ) کی کتاب ھدایۃ الحیاریٰ فی اجوبۃ الیہود والنصاریٰ کو خاصی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ایسی کتابیں بھی تصنیف کی گئی ہیں جن میں غیر اسلامی ادیان و مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کا بھی احاطہ کیاگیا ہے اور ان کے معتقدات اور مراسم کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں الفَرق بین الفِرَق (ابو منصور عبدالقاہر بن ظاہر البغدادی م۴۲۹ھ) الملل والنحل (ابوالفتح محمد بن عبدالکریم الشھرستانی م۵۴۸ھ) الفصل فی الملل والاھواء والنحل (علی بن احمد بن حزم ، م ۴۵۶ھ) اور اعتقادات فرق المسلمین والمشرکین (فخرالدین الرازی ،م ۶۰۶ھ) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
مذاہب کے تقابلی مطالعے پر مختلف زبانوں میں متعدد کتابیں دستیاب ہیں۔اس موضوع پر اردو کتابوں میں رشید احمد گوریجہ کی ’تقابل ادیان‘، محمد مظہرالدین صدیقی کی ’اسلام اور مذاہب عالم‘، عمادالحسن آزاد فاروقی کی ’دنیا کے بڑے مذاہب‘ اور محسن عثمانی کے مرتبہ مجموعۂ مقالات ’مطالعۂ مذاہب‘ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ مولاناانیس احمد فلاحی مدنی کی زیر نظر کتاب بھی اس سلسلے کی ایک عمدہ کاوش ہے۔
مولانا انیس احمد (پ ۱۹۶۹ء) شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ میں مذاہب وتاریخ کے استاد ہیں۔ انھوں نے دینی اور عصری دونوں طرح کی تعلیم گاہوں سے فیض اٹھایا ہے۔ جامعۃ الفلاح سے عالمیت اور فضیلت کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے لیسانس (بی اے) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم ٹی ایچ (ماسٹر ان تھیالوجی) کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ تحریر وتصنیف کا بہت ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں ان کی متعدد کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں ۔ وہ جامعہ کے اردو ترجمان ’حیات نو‘ کے مدیر اور عربی ترجمان ’مجلۃ الفلاح‘ کے معاون مدیر ہیں۔
اس کتاب میں یہودیت، عیسائیت اور صابئیت کے علاوہ ہندوستانی مذاہب: جین مت، ہندو مت، سکھ مت اور بدھ مت کا مطالعہ پیش کیاگیا ہے۔ ہر مذہب کی تاریخ، بنیادی عقائد، مذہبی کتب، عبادت کے طور طریقوں اور رسم ورواج، تہوار اور فرقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مناظرانہ انداز سے احتراز کرتے ہوئے معروضی طریقہ اختیار کیاگیا ہے۔ مصنف نے اگرچہ بنیادی مآخذ کے ساتھ کثرت سے ثانوی مراجع ومصادر سے بھی استفادہ کیاہے، لیکن اس بات کی شعوری کوشش کی ہے کہ مذاہب کی صحیح ترجمانی ہو اور کوئی غلط بات ان کی طرف منسوب نہ ہونے پائے۔ اسی طرح انھوں نے ان مذاہب کے عقائد، اقدار اور تعلیمات کا اسلام سے موازنہ کرکے ان میں اتفاق و اختلاف کے وجوہ کی بھی نشاندہی کی ہے۔
اس کتاب سے، امید ہے کہ دینی وعصری تعلیمی اداروں کی نصابی ضرورت بھی پوری ہوگی اور عام قارئین، بالخصوص میدانِ دعوت میں سرگرم افراد بھی فائدہ اٹھائیں گے۔
عصر حاضر میں اسلام کے علمی تقاضے
مصنف: مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء٭صفحات: ۸۰ ٭ قیمت: ۔/۵۲روپے
آج کا دور علم وتحقیق کا دور ہے۔ اس میں اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کی حقانیت کو علمی انداز میں ثابت کیا جائے اور اس کے جن پہلوئوں پر اعتراضات کئے جارہے اور شکوک وشبہات پھیلائے جارہے ہیں،ان کا جدید علمی وتحقیقی اسلوب میں جواب فراہم کیا جائے اور اسلام کو منقح صورت میں پیش کیا جائے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے مولاناسید جلال الدین عمری نے آج سے تیس(۳۰) سال پہلے جنوری ۱۹۸۲ء سے ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی کے ترجمان کی حیثیت سے سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کا اجراء کیا تھا۔ الحمد للہ یہ مجلہ اپنے مقصد اجراء میں کامیاب ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے ذریعے اسلامی تحقیق کو صحیح رخ دینے میں کسی نہ کسی حد تک کامیابی ملی ہے اور علمی حلقوں میں اس کا اعتبار قائم ہوا ہے۔
مجلہ تحقیقات اسلامی میں اس کے مدیر محترم کے قلم سے ایسے مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں جن میں اسلام کے علمی تقاضوں کو اجاگر کیا گیا ہے اور زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ موجودہ دور ِ علم وتحقیق میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہو اور اس کی حقانیت کو تسلیم کرے تو ابھرنے والے سوالات کا علمی بنیادوں پر جواب دینا ہوگا اور آج کے پیچیدہ مسائل حیات کااسلامی حل پیش کرنا ہوگا۔ زیرِ نظر کتاب اس سلسلے کے چند مقالات کا مجموعہ ہے۔
یہ کتاب گیارہ مضامین پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک ماہ نامہ زندگی نو میں اور بقیہ تحقیقات اسلامی میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض مضامین یہ ہیں: (۱) عرب ممالک میں اسلامی علوم کا احیائ: اس میں عرب ممالک میں اسلامی علوم کے احیاء کا تذکرہ کیاگیا ہے اور تفسیر وعلوم قرآنی، حدیث، فقہ و اصول فقہ اور سیرت و تاریخ میں شائع ہونے والی نئی مطبوعات اور ان کے محققین کا تعارف کرایاگیا ہے۔ (۲) اسلام کے مطالعے کے اصول وشرائط: اس میں واضح کیاگیا ہے کہ اسلام کے مطالعے کے بنیادی شرائط یہ ہیں کہ عربی زبان سے اچھی واقفیت ہو، نصوص کا غیرجانبداری کے ساتھ مطالعہ کیاجائے، جو احادیث زیر بحث آئیں ان کی صحت کا اطمینان کرلیاجائے، دین کی مجموعی تعلیمات پیش نظر ہوں اور عہد نبوی اور عہد خلفائے راشدین پر بھی نگاہ ہو۔ (۳) نظامِ شرک اور اس کے خلاف اتمام حجت: اس میں واضح کیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نظام شرک کے خلاف حجت تمام کردی ہے اور توحید کا صاف ستھرا تصور دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ آج یہی عمل موجودہ نظام ہائے حیات کے سلسلے میں انجام دینا ہوگا۔ اسی وقت حجت تمام ہوگی۔ (۴) اسلامی علوم میں اقدامی رجحان: اس میں بتایاگیا ہے کہ اسلام کی تعبیر وتشریح میں اب مرعوبیت ختم ہورہی ہے اور اقدامی رجحان ابھر رہا ہے۔ (۵) شریعت کی ابدیت: اس میں ان لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو شریعت کو ایک خاص دور سے متعلق کرکے موجودہ دور میںاس کے بعض احکام میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ (۶) احکام شریعت میں حکمت کا صحیح تصور: اس میں اس نکتے سے بحث کی گئی ہے کہ احکام شریعت حکمتوں پر مبنی ہیں، لیکن ان پر عمل حکمتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے ۔ (۷) احیائے اسلام کے علمی تقاضے: اس میں چند اصطلاحات : دعوت الی اللہ ، انذار وتبشیر، شہادت علی الناس، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اظہار دین کی تشریح کرتے ہوئے ان کے علمی پہلوئوں کو نمایاں کیاگیا ہے۔ (۸) اقامت دین کے لئے علمی تیاری کی اہمیت: اس میں اس بات پر زور دیاگیا ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم علمی طور پر تیار ہوں اور اسلامی نقطۂ نظر کو دلائل سے پیش کریں۔(۹) اسلامی علوم میں تحقیق کا طریقۂ کار: اس میں بتایاگیا ہے کہ اسلامی علوم میں تحقیق کے دوطریقۂ کار رائج ہیں۔ ایک ایڈیٹنگ کا طریقہ ہے اور دوسرا طبع زاد تحریر وتصنیف کا۔ دونوںطریقوں کی اپنی اپنی جگہ افادیت ہے اور مسلم علماء اور محققین کی کوششیں دونوں طرح کی ہیں۔ لیکن اصل اہمیت اوریجنل اور طبع زاد تحریروں کی ہے۔ اسی سے اسلامی فکر آگے بڑھے گی۔
ہمارے علمی حلقوں میں آج کے دور کی مناسبت سے اس طرح کی بحثیں کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ مضامین اہمیت رکھتے ہیں۔امت کے احیاء کے لئے فکرمند رہنے والوں کے یہاں موجودہ زمانے میں وقتی اور ہنگامی کاموں میں تو زیادہ دلچسپی لی جاتی ہے، لیکن سنجیدہ ، ٹھوس اور علمی کاموں کی اہمیت نہیں محسوس کی جاتی۔ امید ہے کہ یہ کتاب امت کے سنجیدہ اور باشعور طبقے کو احیائے اسلام کے علمی تقاضوں کی طرف متوجہ کرے گی اور ان کے اندر اس کے لئے سرگرم ہونے کا جذبہ پیدا کرے گی۔
ماہ نامہ ’صلاح کار‘ نئی دہلی کا مولانا محمد شفیع مونس نمبر
ایڈیٹر: حامد علی اختر
جلد: ۲، شمارہ: ۴، اپریل ۲۰۱۳ء ،صفحات: ۱۴۴،قیمت۔/۵۰ روپے
پتہ: E-54، گرائونڈ فلور، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۔۲۵
مولانا محمد شفیع مونس (۱۹۱۸ء۔ ۲۰۱۱ء) جماعت اسلامی کے اکابرمیں سے تھے۔ ۱۹۴۴ء میں وہ جماعت سے وابستہ ہوئے، پھر تقسیم ملک کے بعد جماعت اسلامی ہند کے رکن بنے۔ اس وقت سے زندگی کی آخری سانس تک وہ فرض شناس سپاہی کی طرح ہر مفوضہ ذمے داری کو بخوبی انجام دیتے رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ایک ہائر سیکنڈری اسکول میں ٹیچر ہوگئے تھے، لیکن جماعت کے کہنے پر انھوں نے سرکاری ملازمت ترک کردی اور مرکزی درس گاہ جماعت اسلامی ہند ملیح آباد اور رام پور میں عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ مختلف اوقات میں وہ دہلی، اترپردیش اور آندھرا پردیش کے امیر حلقہ رہے، بعد میں قیم جماعت اور نائب امیر جماعت کی بھی ذمے داریاں نبھائیں۔ وہ جماعت کی اعلیٰ مجالس کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ، دینی تعلیمی کونسل ، آل انڈیا ملی کونسل، بابری مسجد کوآرڈی نیشن کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ ان کی متعدد خدمات جماعت اسلامی ہند کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ جماعت کے ابوالفضل انکلیو کے موجودہ وسیع و کشادہ کیمپس کے لئے قطعۂ آراضی ان ہی کی ذاتی دلچسپی اور کوشش سے خریدی گئی تھی۔ ماہ نامہ ’صلاح کار‘ نئی دہلی ، جس کے اجراء کو ابھی صرف دو سال ہی ہوئے ہیں، اس کے مدیر جناب حامد علی اختر شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مولانا مرحوم کی یاد میں اس خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا۔
تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل اس خصوصی شمارے میں تیس سے زائد افراد نے اظہار خیال کیا ہے اور مرحوم کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔ ان میں جناب سید شہاب الدین سابق ایم پی وصدر مسلم مجلس مشاورت، مولانا محمد سراج الحسن، سابق امیر جماعت اسلامی ہند، ڈاکٹر ابن فرید مرحوم، مولانا محمد جعفر نائب امیر جماعت، مولانا نصرت علی قیم جماعت، ڈاکٹر محمد رفعت مدیر ماہ نامہ زندگی نو، ڈاکٹر حسن رضا رکن مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند اور ڈاکٹر سید عبدالباری صدر ادارۂ ادب اسلامی ہند خصوصیت سے قابل ذکرہیں۔ دیگر حضرات نے بھی اپنے مضامین میں مرحوم کو بڑی عقیدت اور محبت سے یاد کیا ہے۔ان مضامین سے مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی پڑتی ہے اور ان کی سادگی، انکساری ، خوش خلقی، نظم وضبط ، اوقات کی پابندی، غریبوں کی امداد، صلہ رحمی، رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، رفقاء کے ساتھ محبت و اپنائیت، ہر لمحہ جماعت کی بہی خواہی، اطاعت امیر، سیاسی حکمت عملی، فہم وفراست، تدبر، دانش مندی، معاملہ فہمی جیسی خوبیاں نمایاں ہوتی ہیں۔
اس اہم خدمت پر اللہ تبارک وتعالیٰ مدیر ماہ نامہ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور مرحوم کی خوبیاں موجودہ وابستگان تحریک میں بھی پیدافرمائے۔ (آمین)
مشمولہ: شمارہ اگست 2013