تحریک اسلامی کامزاج
مصنف: مولانا سید احمد عروج قادری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات: ۱۲۰ l قیمت: ۷۰ روپے
مولانا سید احمد عروج قادری ؒ (م ۱۹۸۶ء) تحریک اسلامی ہند کے رہ نمائوں میں سے تھے۔ وہ تقسیم ملک سے قبل ہی تحریک اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے اور زندگی کی آخری سانس تک اس کی خدمت کرتے رہے ۔ انھو ںنے عملی طور پر بھی تحریک کی قیادت کی اور فکری اعتبار سے بھی اس کے کارکنوں اور وابستگان کو غذا فراہم کرتے رہے۔ وہ ۱۹۶۰ء میں تحریک اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی رام پور کے مدیر بنائے گئے۔ اپنی وفات تک انھوںنے ۲۶ سال اس کی ادارت کے فرائض بہ حسن وخوبی انجام دیے۔ اس عرصے میں انھوںنے قرآنیات ، حدیث و سیرت، فقہ ، تصوف، سوانح اور دیگر موضوعات پر ہزاروں صفحات پر مشتمل قیمتی تحریریں پیش کیں۔ ان کی مستقل تصانیف کے علاوہ مقالات کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
تحریک اسلامی ہند نے پورے زور اور قوت کے ساتھ یہ بات پیش کی کہ امت مسلمہ کا مقصد وجود اقامت دین ہے، یعنی اللہ کے دین کو زندگی کے تمام میدانوں میں رہ نما بنانا، اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینا۔ اس موضوع پر تحریک کے جن رہ نمائوں نے قیمتی لٹریچر تیار کیا اور اپنے نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ پیش کیا ان میں ایک نمایاں نام مولانا سید احمد عروج قادری ؒکا ہے۔ ان کی کتابیں: ’اقامت دین فرض ہے‘ اور ’اُمت مسلمہ کا نصب العین ‘ تحریکی حلقوں میں متداول ہیں اور تحریکی کارکنوں کے لیے تیار کردہ نصابِ مطالعہ کا لازمی جزء ہیں۔
مولانا نے ماہ نامہ زندگی کے ادارت کے دوران تحریکی موضوعات پر اور بھی بہت سے مقالات تحریر فرمائے تھے، جو ماہ نامہ زندگی کی فائلوں میں موجود تھے، لیکن ان سے استفادے کی کوئی سبیل نہیں تھی۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر چند منتخب مقالات کا مجموعہ شائع کیاگیا ہے۔ ان مقالات میں تحریک اسلامی کے مزاج اور اس کے مطلوبہ اوصاف پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ یہ واضح کیاگیا ہے کہ تحریک اسلامی اصلاً انبیائی تحریک ہے، عصر حاضر میں مختلف ملکوں میں سرگرم اسلامی تحریکات کے حالات بیان کیے ہیں اور تحریکی نقطۂ نظر سے دیگر اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔
امید ہے، یہ کتاب تحریکی کارکنوں کے لیے ایک گائڈ بک کا کام دے گی اور وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
سیرت رسولؐ۔ دروس اور نصائح
مصنف: ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی
مترجم: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء ، l صفحات: ۶۷۲ l قیمت: ۳۲۰روپے
سیرت نبویؐ پر سب سے مستند لوازمہ قرآن مجید کی آیات میں موجود ہے۔ یہ بجا ہے کہ اگر دنیا سے سیرت کی سب کتابیں معدوم ہوجائیں تو صرف اسی کتاب مبین سے سیرت کے جملہ پہلوئوں کا احاطہ کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجیدنے آپؐ کے تذکارِ جمیل کو وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَک قرار دیا ہے یہ سیرتِ مطہرہ اور اسوۂ حسنہ ایک طرف صحابہ کرامؓ کے نفوس قدسیہ میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب تاریخ نے ایک صالح معاشرے اور متمدن ریاست میں اس کے انعکاس کی شہادت دی۔ سوانح نگاری محض ایک فن تھا، مگر اس ایک سیرت نے اسے متنوع اسالیب عطا کردیے۔ اس روشن سیرت کا تذکار اول اگر عروہ ؒ بن زبیرؓ کے ’مغازی رسول اللہ ﷺ‘ ہیں تو اس کے بعد اس موضوع پر تاریخ کے ہر مرحلے پر ہزاروں قلم کاروں نے لاکھوں صفحات تحریر کیے ہیں۔ آج دنیا کی کون سی معروف زبان ایسی ہے ، جس میں یہ تذکرۂ سعادت بیان نہیں ہوا۔ تیس کے قریب چھوٹی بڑی مختلف زبانوں کی فہارس سیرت جن کتابیاتی کوائف کو سامنے لاتی ہیں انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ انسانی کے سرمایے میں کوئی دوسری سیرت ایسی نہیں ملتی، جس کے بارے میں اس قدر متنوع موضوعات ، جہات اور اسالیب کے ساتھ لکھا گیا ہو۔ نظم ونثر کے سب پیرائے اور نعت کاسارا جمال اس شخصیت کی سیرت بیان کرنے پر صرف ہوا ہے ، مگر ’ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است‘۔
’سیرت رسول ﷺ ۔ دروس اور نصائح‘ شام کے معروف عالم دین ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی کی مقبول کتاب ’فقہ السیرۃ النبویۃ کا عربی سے اردوزبان میں ایک رواں اور شگفتہ ترجمہ ہے، جسے برصغیر کے معروف مصنف اور مترجم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اردو زبان کا قالب پہنایا ہے۔ ڈاکٹر البوطی کا قلم فکر اسلامی اوردعوت وتربیت کے موضوعات پر بہت سے علمی جواہر پارے پیش کرچکا ہے۔ اس ضخیم کتاب سیرت میں انھوں نے اپنے معاصر سیرت نگاروں محمد الغزالی اور ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی کی طرح محض وقائعِ سیرت کو پیش کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ان واقعات میں جو دروس و نصائح اور احکام وفوائد مضمر ہیں ان کو ہر جگہ الگ عنوان سے واضح کیا ہے۔ مستشرقین کے ہاںشخصیات کے سوانحی پہلوئوں پر ایک خاص زاویۂ نظر سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس تصنیف میں ان کی اس خام کاری کا مداوا یوں کیاگیا ہے کہ اس میں آپﷺ کے وظائف ِ رسالت اور تعلیماتِ نبوت کو ترجیحاً پیش کیاگیا ہے۔ مختلف وقائعِ سیرت میں جو فقہی احکام مستنبط ہوتے ہیں، انہیں مسالک کی قید سے بالاتر ہوکر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسی مساعی میں بعض مقامات پر چند اہل علم نے کچھ تسامحات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس سلسلے میں کتاب کے آخر میں محدثِ عصرعلامہ محمد ناصرالدین البانی ؒ کی تحقیقی کاوشوں کو درج کردیاگیا ہے۔
سیرت کی اس گراں قدر کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کے ادبی پہلوئوں کے ساتھ اس کا تذکیری اسلوب ہمیں متاثر کرتا ہے، جس کے باعث ہم آئینہ سنت کے ذریعے اپنی تعلیم و تربیت کا ایمان پروراور عمل افروز پیغام ذہن کے دریچوں سے دل کے آنگن میں اتارتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب سیرت کا مطالعہ انشاء اللہ اہل فکر ونظر اور عامۃالمسلمین کے لیے دامانِ رسالت سے وابستگی کا ایک کیف آور سامان فراہم کرے گا۔
(پروفیسر) عبدالجبار شاکر
سابق ڈائرکٹرجنرل، دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد(پاکستان)
گجرات اور آگے …. فسادات کا فوری اوریقینی حل
مصنف: ڈاکٹر محمد معظم علی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۳ء l صفحات: ۷۰ l قیمت: ۷۰روپے
ملنے کا پتہ: ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس۴۵۵، نزد مسجد یک خانہ، پرانی حویلی، حیدرآباد۔۲
موجودہ دور میں پوری دنیا میں بدامنی، فتنہ وفساد، قتل وغارت گری اور ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ افراد ہوں یا گروہ، اقوام ہوں یا ممالک، سب اس سنگین مسئلے سے دوچار ہیں اور امن کے متلاشی ہیں۔ اخبارات، ٹیلی ویژن ، مذاکروں اور مباحثوں کے ذریعے تدارک کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔
اگر واقعی امن وامان کی خواہش ہے تو اس کے لیے قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اس میں ساری دنیا کے لیے ہدایت ورہ نمائی فراہم کی گئی ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرکے دنیا نے اپنی آنکھوں سے امن وامان، سلامتی اور خوش گوار انسانی معاشرے کا مشاہدہ کیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ اسی کو موجودہ دور کی بدامنی اور فتنہ وفساد کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے اوراس کے ماننے والوں پر ہر طرح کے بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ ان حالات میں شدید ضرورت ہے کہ ان الزامات کا جواب دیا جائے اور قرآن کی تعلیمات پیش کرکے پوری قوت اور دلائل کے ساتھ یہ بات کہی جائے کہ اسلام امن وسلامتی کا علم بردار ہے اور دنیا میںپھیلی ہوئی بدامنی کا ازالہ اور اس کا قیام قرآنی تعلیمات پر عمل کرکے ہی ممکن ہے۔ الحمد للہ اہل علم کا ایک طبقہ اس کام میں لگا ہوا ہے۔ زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب درج ذیل دس مضامین پر مشتمل ہے:
(۱) فساد فی الارض— ایک تعارف (۲) مصلح گروہ کی غفلت (۳) فساد فی الارض کے نقصانات کی شدت،وسعت اور اس کے پہلو (۴) فسادات کے حل کے غلط اور کم زور طریقے اور سوچ کی کجی۔ (۵) حل کا صحیح طریقہ (۶) فسادات کا فوری اور یقینی حل (۷) مسلمانوں کو مظلومین کی ایک آواز (۸)تمام باشندگان ملک کو ایک نصیحت (۹) قرآن میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں (۱۰)مایوسی کے لیے قطعاً کوئی جگہ نہیں‘‘۔
اس کتاب میں فاضل مصنف نے ملک عزیز ہندوستان کے موجودہ حالات کا بے لاگ تجزیہ کرنے ، پھر حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ فسادات کا مسئلہ صرف مسلمانوں یا کسی اور طبقے کا نہیں، بلکہ ملک کے ہر شہری کا ہے۔ ان فسادات میں ملک کا ہر شہری کسی نہ کسی شکل میں بلاواسطہ یا بالواسطہ ضرور متاثر ہوتا ہے۔ پورا ملک تباہ وبرباد ہورہا ہے۔ مفادپرست گروہ نہ صرف قتل وخون ریزی کے ذریعے فساد مچا رہا ہے، بلکہ ہر سمت سے فساد فی الارض کی حرکتیں کر رہا ہے۔ تاریخ میں تبدیلی کرنا، تعلیمی نصاب کے ذریعے نفرت پھیلانا، بے حیائی کو فروغ دینا، طبقاتی وگروہی کشمکش پیدا کرنا، شراب و جوا میں برادران وطن کو پھنسانا، مادہ پرستی ودنیا پرستی کی فضا پیدا کرنا، مختلف مذہبی گروہوں کو آپس میں لڑانااس کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔
مصنف نے ملک اور معاشرے کے ہرفرد کو فسادات کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کیا جائے اور ان کا غیرجانبداری سے مطالعہ کیا جائے۔ اسی کے ساتھ انھوںنے امت مسلمہ کو متوجہ کیا ہے کہ اس کے پاس قرآن مجید کی شکل میں الٰہی وآفاقی پیغام ہے، جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس پیغام پر خود بھی عمل کریں اوردوسروں تک بھی اسے پہنچانے کی کوشش کریں کہ یہی ان کے خیر امت ہونے کا فریضہ ہے۔
کتاب معلوماتی ہے۔ مصنف نے اپنی بات کو ایک نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ (زبیر عالم اصلاحی)
داعی اسلام مولانا سید عبداللہ حسنی ندویؒ: شخصیت اور پیغام
مصنف: شاہ اجمل فاروق ندوی
ناشر: مکتبہ فاروق G5/A، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ ۱۱۰۰۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات: ۲۲۴ l قیمت : ۱۲۰روپے
مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی (۱۹۵۷ء— ۲۰۱۳ء) دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ایک مقبول استاذ، صاحب بصیرت مربی اور جذبۂ دعوت سے سرشار اسلام کے سپاہی تھے۔ انھوں نے مختلف حیثیتوں سے دینی خدمات انجام دیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کی تحریک پیام انسانیت کا پیغام عام کرنے کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ملک کے کونے کونے میں سفر کیے۔ انھیں غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کا خاص ذوق تھا۔ ان کے ذریعے ایک معتدبہ تعداد مشرف بہ اسلام ہوئی۔
مولانا کی وفات کے بعد متعدد رسائل و جرائد نے خصوصی شمارے اور گوشے شائع کیے اور اخبارات میں مضامن لکھے گئے۔ اس کے باوجود ضرورت تھی کہ ان کی کوئی مربوط سوانح منظرعام پر آئے۔الحمد للہ اس کتاب کے ذریعے یہ ضرورت پوری ہوگئی ہے۔
یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب حالات زندگی پر ہے۔ اس میں حسب و نسب، خاندان اور بچپن سے لے کر میدان عمل میں آنے تک کا تذکرہ ہے، ان کے طرز تدریس کا تفصیلی تعارف ہے، اصلاح و تربیت کے سلسلے میں ان کا منہج نیز ان کی خطابت اورطرزنگارش پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس باب میں ان کی دعوتی خدمات کے لیے ایک حصہ مختص ہے۔ مرض وفات، سفر آخرت پر اس کو مکمل کیاگیا ہے۔ دوسرے باب کا عنوان ہے: داعی اسلام — مشاہیر امت اور معاصرین کی نظر میں‘‘ ۔ اس میں مرحوم کے انتقال کے بعد مشاہیر امت، معاصرین اور عقیدت مندوں کی طرف لکھے گئے تعریف ناموں کے اقتباسات کو جمع کردیاگیا ہے۔
تیسرے باب میںمولانا مرحوم کے افکار ونظریات اور ملفوظات کو جمع کردیاگیا ہے۔ کتاب کا اختتام ’’داعی اسلام کا آخری پیغام۔ آپ کے نام‘‘ کے عنوان سے کیاگیا ہے۔ کتاب پر پیش لفظ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے قلم سے ہے۔ انھوں نے اس پیغام کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ واقعی آب زر سے لکھے جانے اور دامنِ دل سے باندھے جانے کے لائق ہے‘‘۔ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف مولانا عبداللہ حسنی کی شخصیت سے متعلق معلومات حاصل ہوں گی، بلکہ قارئین میں امت مسلمہ کی حقیقی ذمے داری کا احساس اور تڑپ پیدا ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش ابھرے گی۔ (زبیر عالم اصلاحی)
فلسطین میں یہودی ہوم لینڈ اور یاجوج ماجوج
مصنف: عارف شریف
ناشر: چلڈرن بکس، ایونیو، مرادآباد(یوپی)
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات:۱۱۲ l قیمت : ۸۰روپے
زیر نظر کتاب میں یہودیت کی تاریخ، صہیونیت اور اس کی تنظیموں کا تعارف، اسرائیل کا وجود اور اس کے ذریعے فلسطین میں ظلم وتشدد کی کارروائیوں پر اظہار خیال کیاگیا ہے۔
ابتداء میں مصنف نے بتایا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ اس بنا پر ان کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔ ان کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کانام ’یہوداہ‘ تھا۔ فلسطین میں رہنے والے اسی کی نسل سے تھے۔ اس نسبت سے وہ یہودی کہلائے اور ’حقیقی اسلام‘ میں تحریف کرکے انہوں نے جو مذہب اختیار کیا وہ ’یہودیت‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ صہیونیت کسی مذہب کا نہیں، بلکہ تحریک کانام ہے۔ جو فلسطین میں عظیم اسرائیلی سلطنت کے قیام اور پوری دنیا میں یہودیوں کی جان ومال کے تحفظ کی علم بردار ہے۔ آگے ، حکمائے صہیونی کی دستاویزات (Protocols)کے حوالے سے صہیونیت کے اہداف ومقاصد اور ان کو حاصل کرنے کے وسائل وذرائع پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا بھر میں سرگرم صہیونی ایجنسیوں اور تنظیموں کا تعارف کرایا ہے۔ یہودیوں کے عروج وزوال کی تاریخ کو بھی مختصراً بیان کیا ہے۔ آخر میں فلسطین میں اسرائیل کی شکل میں یہودیوں کو حاصل ہونے والے ہوم لینڈ کا تذکرہ کیاہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ قرآن میں ’یاجوج ماجوج‘ کے نام سے جس فسادی قوم کا تذکرہ ہے اس سے مراد یہی یہودی ہیں۔ اس بحث میں انہوں نے جن قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے استدلال کیا ہے ان کے ناقص حوالے دیئے ہیں۔ بعض استنباطات بھی کم زار ہیں (ص۱۰۸) حضرات ام سلمہؓ کو ام سلمیؓ (ص۱۰۹) اور ابن حجر عسقلانیؒ (ص۱۰۷) لکھاہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2014