قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ یہ اس لیے نازل کی گئی تھی کہ مسلمان اسے پڑھیں، سمجھیں اور اس سے رہ نمائی حاصل کریں، اسے غیر مسلموں تک پہنچائیں، تاکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے بہرہ ور ہوں۔ افسوس کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی اکثریت یہ سب کام تو نہیں کرتی، مگر دوسرے کاموں میں ، جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ وہ ناجائز ہیں، پھنس گئی ہے۔ وہ قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے، غیرمسلموں تک قرآن پہنچانا غلط سمجھتے ہیں، اور قرآن خوانی، ایصال ثواب ، قرآن سے فال نکالنا، تعویذ گنڈا، جھاڑپھونک وغیرہ کو اختیار کررکھا ہے۔
اس کتابچے میں ایک طرف مسلمانوں پر قرآن کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور اس کے بارے میں پائی جانے والی بعض غلط فہمیاں دور کی گئی ہیں ، دوسری طرف اس سے منسوب بعض غیر شرعی اعمال کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مستند اور معروف علماء کرام کی تحریریں اور معتبر دینی اداروں کے فتاویٰ تائید میں پیش کیے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کا فائدہ عام کرے اور مسلمانوں کو قرآن حکیم سے حقیقی تعلق قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
سیرت رسولؐ اور ہم
مصنف: مولانا سید احمد عروج قادری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات:۱۵۲ l قیمت: ۔؍۸۰ روپے
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی شخصیت وسیرت اوردعوت و پیغام پر دنیا کی بیشتر زبانوں میں بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ اردو زبان بھی اس اعتبار سے مالا مال ہے کہ اس میں سیرت نبویؐ کے ہر پہلو پر قابل قدر لٹریچر موجود ہے اور اس میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ سیرت نبویؐ پر مشہور عالم دین مولانا سید احمد عروج قادری (م ۱۹۸۶ء) کی تحریروں کا ایک مجموعہ زیر نظر کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔
یہ مجموعہ قیمتی مقالات پر مشتمل ہے۔ ان میں سیرت کے جن گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہ موجودہ دور کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ پہلا مقالہ ’رسالت‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں انکارِ رسالت کے اسباب سے بحث کرتے ہوئے ان کا جائزہ لیاگیا ہے اور ضرورتِ رسالت کے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ اگلے دو مقالات میں رسالت محمدیؐ کا ثبوت اور مقصد بیان کیاگیا ہے۔ ایک مقالہ معراج کی حقیقت پر ہے۔ اس میں تسخیر کائنات کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ اگلے چار مقالات میں مکی اور مدنی ادوار کا دعوتی نقطۂ نظر سے تجزیہ کیاگیا ہے۔ ان میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے کیا خدمات انجام دی گئیں؟ کن کن طبقات کی جانب سے مخالفتیں ہوئیں؟ ان کے جواب میں کیا رویہ اختیار کیاگیا؟ اسلامی دعوت کو اللہ تعالیٰ کے بندوں تک پہنچانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی گئیں؟ یہ مباحث اس اعتبار سے بڑے اہم ہیں کہ ان کی روشنی میں موجودہ دور میں دعوت وتبلیغ کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا جاسکتا ہے؟ ایک مقالے میں یہ موضوع زیر بحث آیا ہے کہ انبیاء کی پیروی کیوں ضروری رہی ہے اور اب آخری نبی پر ایمان لانا اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا کیوں ضروری ہے؟ آخری مقالہ میں بتایاگیا ہے کہ سیرت نبویؐ کا مطالعہ اور اس سے استفادہ کیسے کیا جائے؟
زیر نظر مجموعہ میںشامل یہ مقالات سیرت نبویؐ سے متعلق نئی جہتیں روشن کرتے ہیں۔ امید ہے، دینی، دعوتی اور تحریکی حلقوں میں ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا۔
تحریک اسلامی۔ ایک تاریخ، ایک داستان
(مولانا مودودی کی نگارشات پر مبنی تحریکی رپورتاژ)
انتخاب و ترتیب: پروفیسر خورشید احمد
ناشر: منشورات، E-61، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۔۲۵
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات: ۱۴۴ l قیمت: ۔؍۱۲۰ روپے
بیسویں صدی عیسوی میں جن مسلم شخصیات کے عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جنھوں نے اسلام کو غیر اسلام سے ممیز کرنے کی بے مثال خدمات انجام دی ہے اور اسلامی علمی سرمایہ میں بے بہا اضافہ کیا ہے ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ (۱۹۰۳۔۱۹۷۹ء) کا نام نامی سرفہرست ہے۔ ان کی یہی خدمت کیا کم تھی کہ انھوں نے فکر اسلامی کے مختلف پہلوئوں پر بیش قیمت تصنیفات تحریر کی ہیں، جنھوں نے لاکھوں نوجوانوں کو اسلام کا گرویدہ بنا دیا ہے اور اس پر ان کے ایمان ویقین کو پختہ کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ان کا عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے جماعت اسلامی کے نام سے ایک تحریک برپا کی ،جو اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کے دین کو قائم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ یہ تحریک یوں تو برصغیر ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا، کشمیر میں ایک ہی نام، لیکن الگ الگ نظم کے تحت کام کر رہی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں جتنی بھی تحریکیں اسلام کی سربلندی اور احیاء کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں انھوں نے مولانا مودودی کی انقلابی تحریروں ہی سے فکری غذا حاصل کی ہے اور انھیں اپنا رہ نما تسلیم کیا ہے۔
جماعت اسلامی کی تشکیل یوں ہی اتفاقی طور پر نہیں ہوگئی تھی،بلکہ اس کے پیچھے ایک سوچا سمجھا منصوبہ کارفرما تھا۔ تشکیلِ جماعت (۱۹۴۱ء) سے بہت پہلے مولانا مودودیؒ نے اسلام کی عظمتِ رفتہ کی بحالی اور اس کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے سوچنا شروع کردیا تھا۔ اس کا ثبوت ان کی معرکہ آرا تصنیف ’الجہاد فی الاسلام‘ ہے۔ اسی مقصد کے لیے انھوں نے ۱۹۳۲ء میں حیدرآباد میں رسالہ ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی، پھر برابر اس میں ایسے مضامین شائع کیے جن سے مغربی تہذیب و افکار سے مسلمانوں کی مرعوبیت ختم ہو اور یہ بات ان کے ذہن نشیں ہو کہ اسلام اپنا ایک نظام زندگی رکھتا ہے، جو ہر لحاظ سے دیگر تہذیبوں اور نظاموں سے فائق ہے۔ اسی مجلے کے ذریعے مولانا نے مسلمانوں کو اسلام کے غلبہ و نفاذ کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنے پر ابھارا، جس کے نتیجے میں ۱۹۴۱ء میں لاہورمیں پچہتر (۷۵) پاکیزہ نفوس اکٹھا ہوئے اور جماعت اسلامی کی تشکیل ہوئی۔
جماعت اسلامی کی تشکیل سے لے کر اب تک کی اس کی تاریخ سے لوگ عموماً واقف ہیں۔ اس کے سالانہ اجتماعات کی رودادیں شائع ہوچکی ہیں ۔ مجالس شوریٰ کے اجلاسوں کی رودادیں اور ان میں منظور شدہ قراردادیں بھی مدوّن ہیں اور اس کی تاریخ پر بھی متعدد کتابیں آچکی ہیں، لیکن تشکیل جماعت سے پہلے کی تاریخ سے لوگ عموماً ناواقف ہیں۔ اس لیے کہ اس کی تفصیلات رسالہ ’ترجمان القرآن‘ کی ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۱ء تک کی فائلوں میں محفوظ ہیں، جو عموماً دستیاب نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے جناب پروفیسر خورشید احمد، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان کو ، کہ انھوں نے مولانا مودودی ؒ کی اس دور کی تحریروں سے اقتباسات لے کر انھیں بہت خوب صورت انداز میں مرتب کردیا ہے۔ یہ کام انھوں نے آج سے پچاس سال قبل انجام دیا تھا اور یہ تحریر ما ہ نامہ چراغ راہ کے تحریک اسلامی نمبر ۱۹۶۳ء میں ’تحریک اسلامی : ایک تاریخ، ایک داستان‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ بعد میں کتابی صورت میں بھی اس کی اشاعت ہوئی۔ اب نصف صدی کے بعد انھوں نے اس پر نظرثانی کی، ۱۹۴۱ء کے بعد کے دور کی مولانا کی بعض تحریروں اور تقریروں کے اقتباسات کا اضافہ کیا، خاص طور پر ان کی ایک مبسوط اور تاریخی تقریر اس میں شامل کی جو انھوں نے ۱۹۷۰ء میں ’جماعت اسلامی کے انتیس (۲۹) سال، کے عنوان سے کی تھی۔ اس طرح اب یہ کتاب زیادہ بہتر صورت میں منظر عام پرآئی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی پاکستان کے فکری رہ نمائوں میں سے ہیں۔ اس کے ابتدائی دور میں وہ اس سے وابستہ ہوئے اور اول روز شعوری طور پر جو راہ اپنے لیے منتخب کی تھی اسی پر گام زن ہیں۔جماعت کی تاریخ کےتمام نشیب وفراز ان کی نگاہوں کے سامنے رہے ہیں۔ وہ مولانا مودودی ؒ کے ان شاگردوں میں سے ہیں جن پر مولانا مرحوم بہت زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ انہیں مولانا کی متعدد تحریروں کو کتابی صورت میں مرتب و مدوّن کرنے اور انگریزی زبان میں ترجمے کرنے کا بھی شرف حاصل ہے۔ زیر نظر کتاب کی صورت میں انھوں نے جو خدمت انجام دی ہے اس کا انھیں حق پہنچتا تھا اور بہت اچھی طرح یہ خدمت انجام دی ہے۔
جماعت اسلامی کی ابتدائی تاریخ اور اس کے قیام کے پس منظر سے متعلق یہ ایک قیمتی دستاویز ہے۔ امید ہے، تحریکی حلقوں میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے اور تحریک کی تاریخ کے ابتدائی نقوش سے واقفیت حاصل کرنے کے سلسلے میں اس سے مدد لی جائے گی۔
پانی کا مسئلہ اور قرآن
مرتب: مولانا سلطان احمد اصلاحی
ناشر: ادارۂ علم وادب، نزد پان والی کوٹھی، دودھ پور روڈ، علی گڑھ(یوپی)
مولانا سلطان احمد اصلاحی کی تصانیف عصر حاضر کے اہم علمی، دینی، سیاسی اور سماجی مسائل سے بحث کرتی ہیں۔ ان میں مذہب کا اسلامی تصور، مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام، پردیس کی زندگی اور اسلام، شہریت پسندی کا رجحان اور اسلام، کم سنی کی شادی اور اسلام، بندھوا مزدوری اور اسلام، بچوں کی مزدوری اور اسلام، جنسی تعلیم کا مسئلہ اوراسلام ، جدید ذرائع ابلاغ اور اسلام، آزاد ہندوستان میں مسلمان اور سیاست، مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردارخصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔
زیر نظر کتابچہ ایک اہم سماجی مسئلے سے بحث کرتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر تیسری عالمی جنگ برپا ہوئی تو وہ پانی کے مسئلے پر ہوگی۔ بعض علاقوں میں پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے تو کہیں اس کی پہلی سطح آلودہ ہوگئی ہے، کہیں کوئی ملٹی نیشنل کمپنی اپنی فیکٹری کے زہریلے فضلے کو براہ راست زمین میں اتار کر پانی کو زہر آلود کر رہی ہے۔ اس وجہ سے پانی نہ صرف انسانوں اور جانوروں کے پینے کے قابل نہیں رہ گیا، بلکہ اس سے کھیتی کی سینچائی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کتابچے میں مصنف نے پانی کی حقیقت ، اس کے حصول کے ذرائع ،مثلاً بارش، سمندر، دریا، نہریں، جھیل، چشمے، پوکھر، تالاب، کنواں اور پن گھٹ وغیرہ جیسے موضوعات سے بحث کرتے ہوئے انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت ، ضرورت اور اس کے استعمالات سے بحث کی ہے۔ موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے فاضل مصنف نے لکھا ہے کہ ’’ماہرین کے ایک اندازے کے مطابق ملک میں ۷۵ فیصد پانی پینے کے لائق نہیں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں، جہاں ریاست کی اسّی (۸۰) فی صد سے زیادہ آبادی پینے کے لیے زیر زمین پانی کو براہ راست استعمال کرتی ہے، وہاں کے ۷۲ میں سے ۴۹ اضلاع کے لوگ کینسر جیسے مہلک مرض پیدا کرنے والے آرسینک اور سیسہ آمیز پانی پینے کے لیے مجبور ہیں۔ آرسنیک پانی سے کینسر اور جلدی امراض کے علاوہ گردہ، جگر، آنتوں، اعصاب، قلب اور سانس کے امراض کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کتاب میں واضح کیاگیا ہے کہ بارش اور سمندر کے پانی کے سلسلے میں قرآن کی تصریحات مطالبہ کرتی ہیں کہ ندی، نہر، نالے، پوکھر، تالاب وغیرہ ‘ پانی کے جتنے ذرائع ہیں ان سب کو بالکل صاف شفاف اور ہر طرح کی آلودگی سے پاک رکھنا چاہیے ، ندی کے اندر مردوں کی لاشوں کو بہایا جائے نہ ان کی ادھ جلی لاشوں کو پھینکا جائے، نہ شہر کے گندے پانی اور صنعتی فضلے کی نکای کا اس کو ذریعہ بنایا جائے‘‘۔
یہ مختصر کتابچہ موضوع ، مواد اور دلائل کے اعتبار سے کافی اہم ہے ۔ تمام مباحث کو کتاب وسنت اور قدیم وجدید مراجع سے مدلل کیاگیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کا ترجمہ دوسری زبانوں میں بھی ہو ،تاکہ اس سے استفادہ عام ہو۔ (زبیر عالم اصلاحی)
نام کتاب: رجوع الی القرآن۔ اہمیت اور تقاضے (مقالات سیمینار) جلد دوم
مرتب: اشہد رفیق ندوی
ناشر: ادارہ ٔ علوم القرآن، شبلی باغ، علی گڑھ، یوپی (انڈیا)
سنہ اشاعت: ۲۰۱۴ء l صفحات: ۳۶۷ l قیمت: ۔؍۲۷۵
ادارۂ علوم القرآن علی گڑھ کی طرف سے گزشتہ کئی برسوں سے ہر سال قرآن مجید سے متعلق کسی اہم موضوع پر سیمینار منعقد کیا جاتا ہے، جس میں وقت کےسلگتے ہوئے مسائل کا حل قرآن مجید کی روشنی میں اجتماعی بحث ومباحثے کے ذریعے دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ زیر نظر کتاب ۲۰،۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء کو منعقد ہونے والے سیمینار بعنوان ’رجوع الی القرآن۔ اہمیت اور تقاضے‘ میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ پیش لفظ، عرض مرتب اور استقبالیہ کلمات کے علاوہ سترہ (۱۷) وقیع مقالات پر مشتمل ہے۔ پہلا مقالہ پروفیسر سید مسعود احمد کا ’قرآنی تعلیمات کے چالیس امتیازی نکات‘ کے عنوان سے ہے، دوسرے مقالے میں پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے واضح کیا ہے کہ قرآن مجید کسبِ مال کے لیے جائز ذرائع اختیار کرنے اور تمام باطل طریقوں (بالخصوص چوری، رشوت، سود، خیانت، غصب، غبن و فریب) سے کلی طور پر پرہیز کی تعلیم دیتا ہے اور مال خرچ کرنے میں اسراف اور بخل دونوں سے روکتا ہے۔مولانا خورشید اعظمی نے اپنے مقالے میں قرآن کی روشنی میں اسلامی معاشرے میں عورت کا صحیح مقام متعین کیا ہے اور مولانا نسیم اظہر اصلاحی نے عورتوں کی گواہی کے مسئلے کو موضوع بحث بنایا ہے۔جناب محمد رفیع الدین فاروقی کے مقالے کا عنوان ہے’ قرآن میں فوز وفلاح اور خسران کا تصور۔ پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی اور مولانا نعیم الدین اصلاحی نے تزکیۂ نفس کے قرآنی تصور پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ مولانا عبدالبر اثری فلاحی کا مقالہ’ غیر مسلم کا قرآن مجید سے استفادہ ۔ مسائل اور طریق کار‘ کے عنوان سے اورمولانا ضمیر الحسن فلاحی کا مقالہ’ بین المذاہب مکالمہ اور قرآن کریم کی رہنمائی‘ کے عنوان سے ہے۔ راقم الحروف کے مقالے کا عنوان ’درس قرآن۔ اہمیت، ضرورت اور تقاضے‘ ہے۔ اس کے علاوہ اس مجموعے میں درج ذیل مقالات بھی شامل ہیں۔
رجوع الی القرآن کی ایک نادر اور خوش گوار مثال (پروفیسر عبدالرحیم قدوائی) جنسی استحصال کا سدباب ۔ قرآن کی روشنی میں(مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی) تلاوت وتدبر کے چند رہ نما اصول(مولانا کمال اختر قاسمی) دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر چلنے والے مدارس میں تفسیر کی تدریس (مولانا اشتیاق احمدقاسمی) اتمام حجت کا قرآنی اسلوب (مولانا محمد جرجیس کریمی) قرآن مجید کا اسلوب استدلال (مولانا سعید احمد عمری) عقل کی نشو ونما کے لیے رجوع الی القرآن کی اہمیت (ڈاکٹر محی الدین غازی)
یہ مجموعۂ مقالات مجموعی اعتبار سے ہر سطح کے قارئین کے لیے مفید ہے، البتہ کتابت کی بعض غلطیاں کھٹکتی ہیں۔ اس خدمت کے لیے ادارہ کے ذمے داران اور حسن ترتیب وتزئین کے لیے فاضل مرتب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعے کو قرآن کی طرف پلٹنے کا ذریعہ بنائے اور اس سے استفادہ عام کرے۔ (زبیر عالم اصلاحی)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2015