نقد وتبصرہ

معاشرتی اصلاح قرآن کی روشنی میں

مصنف     :               مولانا محمد عمراسلم اصلاحی

صفحات     :               ۱۶۸         ٭ قیمت:  -/۷۰ روپے

ملنے کاپتا     :               مدھرسندیش سنگم، ای۲۰، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۱۱۰۰۲۵

مولانا محمدعمراسلم اصلاحی ایک ذہین، خیرپسند اور داعی مزاج عالم دین ہیں۔ درس وتدریس اور دعوت واصلاح سے اُنھیں خصوصی دل چسپی ہے۔ وہ تقریباً دو دہائیوں سے مشرقی یو-پی کی مشہور درس گاہ مدرسۃ الاصلاح سراے میر میں معلمی کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور مدرسے کے سہ ماہی ترجمان ’نظام القرآن‘ کے مدیر معاون بھی ہیں۔ زیر نظر کتاب انھوں نے نہایت سلیقے اور دردمندی کے ساتھ انسان کے مختلف سماجی اور معاشرتی پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوے ان کی اصلاح کے امکانات کو اجاگر کیاہے اور واضح طورپر بتایاہے کہ اگر ہم واقعی اپنے سماج یا معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنِ مجید سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایمانیات، عبادات، اخلاقیات، معاشرت، معاملات، معیشت اور سیاست کو خصوصی طورپر اپنی گفتگو کا موضوع بنایاہے۔

چوںکہ مولانا محمد عمراسلم ایک اچھے اور سنجیدہ خطیب بھی ہیں، اس لیے ان کا یہ رنگ ان کی تحریر پر کافی حد تک غالب ہے۔ ایسی صورت میں جو بات بھی کہی گئی ہے وہ موثر اور دل پزیر ہے۔

میرے دعوتی تجربات ﴿اوّل﴾

مصنف     :               مولانا نسیم احمد غازی فلاحی

صفحات     :               ۴۸۰       ٭ قیمت   :               -/۲۰روپے

ملنے کاپتا     :               مدھرسندیش سنگم،ای۲۰، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۱۱۰۰۲۵

مولانانسیم احمد غازی فلاحی ہندستان کے تحریکی حلقے کے لیے محتاج تعارف نہیں ہیں۔ وہ اپنی دعوتی و تبلیغی جدوجہد اور دینی و تعلیمی مسائل سے خصوصی دل چسپی کے لیے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ انسانی برادری کے ہر طبقے کے لوگوں سے ملنا، کسی فرق وامتیاز کے بغیر ان کے مسائل سے دل چسپی لینا، ان کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کی فکر کرنا اور ان کے حالات کو سامنے رکھ کر کوئی مثبت اقدام کرنا ان کامزاج ہے۔ ان کی زیر نظر کتاب ’میرے دعوتی تجربات‘ ان کے اِسی مزاج کا مظہر ہے۔ اِس میں انھوںنے اپنے تجربے اور مشاہدے میں آنے والے واقعات کو نہایت دردمندانہ انداز میں پیش کیاہے۔ پوری کتاب ’ازدل خیزد بردل ریزد‘ کی عملی تصویر ہے۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اِسے پڑھنے کے بعد دعوت وتبلیغ کا کام بالکل آسان معلوم ہونے لگتاہے۔ یہ کتاب کا پہلا حصہ ہے۔ اِن شائ اللہ اگلا حصہ ’نقاش نقشِ ثانی بہتر کشدز اول‘ کا مصداق ہوگا۔

سخن کدہ

مصنف     :               محب کوثر

صفحات     :               ۱۰۴         ٭قیمت   :               -/۱۰۰ روپے

ملنے کا پتا     :               محب کوثر ، قمر کالونی، گل برگہ ﴿کرناٹک﴾

حضرتِ محب کوثر  ہمارے عہد کے جانے پہچانے شاعر ہیں۔ وہ کم وبیش نصف صدی سے مشق سخن فرمارہے ہیں۔ اپنی بے لوث مشق وممارست، فکر کی گہرائی، بیان کی ندرت اور لہجے کی انفرادیت کی وجہ سے وہ شعرو سخن کے شائق ایک بڑے طبقے کو متاثر کرچکے ہیں۔ ہندوبیرون ہند کے مشاعروںمیں انھیں بڑی قدرو منزلت کے ساتھ سناجاتاہے۔ وہ یوں تو جملہ اصنافِ سخن میں شعر گوئی کی قدرت رکھتے ہیں، لیکن غزل سے انھیں خصوصی مناسبت ہے۔ گزشتہ کئی برس ﴿سفرحج کے بعد﴾سے وہ نعت گوئی کی طرف متوجہ ہیں۔ سخن کدہ حضرت محب کوثر  کی غزلوں کا دل آویز مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کے دو مجموعے ’ایاغ تازہ‘ اور ’سود وزیاں‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسودراز کی منظوم سوانح حیات بھی ان کا اہم شعری کارنامہ ہے۔

محب کوثر کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات واضح طورپر سامنے آتی ہے کہ ان کے سینے میں وہ دل گداز ہے، جو گردو پیش کے حالات و حوادث سے متاثر ہوتاہے۔ ان کے شعروں کو پڑھ کر قاری کو ایک خوش گوار قسم کی تازگی و بالیدگی کا احساس ہوتاہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جب بھی شعور وفکر کا سورج ہوا طلوع

کچھ لوگ اپنے جہل کے سایوں سے ڈرگئے

نہیں ہے خوف کوئی ٹوٹنے بکھرنے کا

وہ اپنے سرپہ کھلا آسمان رکھتاہے

حادثے دہر میں جینے کاہنر دیتے ہیں

وقت کی چوٹ سے ہر شخص سنبھل جاتاہے

اِسی غریب کی جھولی میں بادشاہت ہے

کبھی نہ توڑیے ہرگز فقیر سے رشتہ

حضرت بیکل  اُتساہی نے محب کوثر کو دکن کا البیلا شاعر اور امجد جاوید  نے صدف کی آنکھ سے موتی نکالنے والا شاعر قرار دیاہے۔ میری حقیر راے میں وہ زندگی کی قدروں سے جڑنے اور جوڑنے والے شاعر ہیں۔

طبّی تبصرے

مصنف      :               حکیم خورشید احمد شفقت  اعظمی

صفحات     :               ۱۹۲         ٭قیمت   :               -/۱۰۰ روپے

ملنے کا پتا     :               فکروفن، دل کُشا، این-۴۹، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۱۱۰۰۲۵

حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی ضلع اعظم گڑھ یو-پی کے ایک متدیّن اور اہل علم خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والدِ محترم حضرت مولانا محمد سعید اعظمی مدرسہ بیت العلوم سراے میرکے ناظم تھے اور اس وقت کے جیّد علما و مشائخ کا انھیں اعتبار حاصل تھا۔ شفقت صاحب مشرقی اور مغربی دونوں علوم میںدرک رکھتے ہیں۔ وہ ایک عرصے تک انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن اینڈمیڈیکل ریسرچ سے بہ حیثیت ریسرچ فیلو وابستہ رہے ہیں۔ پھر حکومت ہند کی وزارت صحت و خاندانی بہبود کے ادارے سنٹرل کونسل فارریسرچ اِن یونانی میڈیسن سے وابستہ ہوے اور وہیں سے ۷۰۰۲ئ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے وظیفہ یاب ہوے۔ اپنی اِن تمام منصبی ذمّے داریوں کے ساتھ انھوں نے تصنیف وتالیف سے بھی اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔ ان کی کتابوںمیں:امراض النسائ، امراض الاطفال، امراض العین، امراض ِ قلب اور صحت وتن درستی کے طبّی اصول اہل علم وفن سے دادتحسین حاصل کرچکی ہیں۔

زیرنظر کتاب ’طبّی تبصرے‘ جناب شفقت اعظمی کی کوئی مستقل تصنیف نہیں، بل کہ ان کے ان تبصروں پر مشتمل ہے، جو انھوں نے وقتاً فوقتاً فن طب سے متعلق مختلف کتابوں پر مصنفین یا رسائل وجرائد کی فرمایش پر کیے تھے۔ اِن تبصروںمیں مصنفین کی سعی و کاوش کو سراہا بھی گیاہے اور ان کی تحقیقات اور بازیافتوں کی تحسین بھی کی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان مقامات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے، جہاں ان سے کوئی سہو ہوگیاہے یا کسی پہلو سے ان کی بات قابلِ گرفت ہے۔ ایسی صورت میں یہ کتاب ایک تصنیف کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اِس کتاب کے مطالعے سے جہاں مختلف موضوعات سے متعلق مصنفین اور ان کی علمی وتحقیقی کاوشوں کا علم ہوتاہے اور ان سے استفادے کا شوق پیداہوتاہے، وہیں تبصرہ نگار جناب خورشید احمد شفقت اعظمی کی وسعتِ مطالعہ، علمی شایستگی اور سلامت طبعی کا بھی اندازہ ہوتاہے۔

یوگا شریعت اسلامی کی روشنی میں

مصنف     :               ابوالعزم

صفحات     :               ۱۰۴         ٭قیمت   :               -/۵۰ روپے

ناشر          :               نیوکریسنٹ پبلشنگ کمپنی۲۰۳۵ گلی قاسم جان، بلّی ماران، دہلی۱۱۰۰۰۶

’یوگا‘ کا تعارف صحت و تن درستی کے ایک طریقے کے طورپر کرایاجاتاہے۔ بڑی تعداد میں لوگ اس سے جڑرہے ہیں۔ لیکن اس کی یہ مقبولیت دین پسند طبقے میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ متعدد معتبر علما اِسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، انھیں اس میں مسلمانوں کو ان کی دینی ، روحانی قدروں سے دور کرنے کی سازش محسوس ہورہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو عمل ہم مسلمان تعبّدی طورپر صرف اللہ کی مرضی و خوش نودی کے طورپر انجام دیتے ہیں، اُسے صحت و تن درستی کا ایک ذریعہ بتاکر ہماری توجّہ اس کی للہیت کی طرف سے ہٹائی جارہی ہے۔ تاکہ ہم جب ان اعمال کو انجام دیں تو تصوّر میں اللہ کی مرضی وخوش نودی کی بہ جاے ان اعمال سے وہ مخصوص طبّی فائدہ یا جسمانی ورزش رہے، جو ان سے متعلق بیان کیاجاتاہے۔ علما اور اہل دین کا یہ تاثر بہ ہرحال قابلِ توجّہ ہے۔

زیرِ نظر کتاب ’یوگا شریعت اسلامی کی روشنی میں‘میں جناب ابوالعزم نے ’یوگا‘ کا ہر پہلو سے جائزہ لیاہے اور کتاب و سنت کی روشنی میں ’یوگا‘ کی حیثیت واضح کی ہے۔ قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ کتاب لکھنے کے بعد مصنف نے موجودہ عہد کے متعدد اہلِ نظر علما اور اربابِ افتا کی نگاہ سے بھی اِسے گزارا ہے۔ ان میں معروف عالم دین و مفتی حضرت مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی اورموجودہ عہد کے نام ور فقیہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ان سب نے مصنف کی تحسین کی ہے، ان کی اس کتاب کو وقت کی ایک بڑی اہم ضرورت سے تعبیر کیاہے اور اِسے مختلف زبانوں میں شائع کرکے عام کرنے کی بھی ضرورت محسوس کی ہے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau