نقد و تبصرہ

نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

مصنف:    محی الدین غازی

ناشر:        ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی۔۲۵، ای میل: [email protected]

سنہ اشاعت:              ۲۰۱۵ء، صفحات: ۱۳۲، قیمت: ۱۰۰؍روپے

اسلامی عبادات میں نماز اور حج اتحادواتفاق کا خاص مظہر ہیں اور ان دونوں کے متعلق حدیث میں ہے کہ’’ جس طرح سے میں نماز پڑھتا ہوں اسی طرح سے پڑھو’’ اور‘‘مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج صرف ایک مرتبہ کیا، لیکن اس کے بارے میں اختلاف بہت کم ہے، جب کہ ہجرت کے بعد مسلسل تیرہ سال تک جماعت کے ساتھ روزانہ پانچ مرتبہ نماز پڑھتے رہے لیکن اس کے بارے میں اتنا زیادہ اختلاف ہے کہ اسے سن کر لوگ گھبرا جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے صحابہ کرام کی محبت بلکہ وارفتگی اور شیفتگی اور آپ کی ہر ادا پر پروانہ وار نچھاور ہوجانے کی بے تابی اور اس کیفیت کے ساتھ سیکھنے اور جاننے کے جذبہ سے روزانہ پانچ مرتبہ آپ کی نماز کا مشاہدہ، لیکن ان سب کے باوجود یہ اختلاف کیوں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ خود آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے نماز پڑھی ہواور صحابہ کرام کو بھی اس کی آزادی دی گئی ہو کہ اس میں سے تمام طریقے اپنائے جاسکتے ہیں، ان میں سے کسی کو کسی پر کوئی برتری اور فضیلت حاصل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نماز میں دونوں ہاتھ کہاں تک اٹھائے جائیں؟ بعض روایتوں میں کانوں تک اور دوسری روایتوں میں کندھوں تک مذکور ہے، دونوں روایتیں صحیح ہیں اور بخاری وغیرہ نے انہیں نقل کیا ہے اور تمام لوگ قائل ہیں کہ دونوں طریقے صحیح ہیں۔ یہی حال نماز کے دوسرے اختلافات کا بھی ہے۔

ان متعدد طریقوں کا ثبوت’ خبرواحد‘سے نہیں ہے، بلکہ ان کی پشت پر أمت کا عملی تواتر ہے، یعنی سینکڑوں صحابہ کرام کو ہزاروں تابعین نے ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ان ہزاروں تابعین کے عمل کو ائمہ دین نے اپنی کتابوں میں محفوظ کردیا ہے۔ نماز کے یہ طریقے امت کومحض اور روایتوں کے ذریعے نہیں ملے، بلکہ اماموں کو یہ نماز امت کے عمل کے ذریعہ ملی، اس لیے نماز کے تمام طریقے درست اور عملی تواتر سے ثابت ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان نماز کے ان تمام مسائل کے سلسلے میں اختلاف رہا لیکن کسی نے اپنی نماز کو دوسرے سے بہتر اور دوسرے کی نماز کو کم تر خیال نہیں کیا، اور اس کی وجہ سے علیحدہ جماعتیں ہوئیں نہ الگ الگ مسجدیں بنیں۔

نماز کے سلسلے میں اس اجمال کی تفصیل مولانا محی الدین غازی کی تازہ کتاب’ نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کتاب کیا ہے؟ علم وتحقیق کی آئینہ دار اور بحث وجستجو کا شاہ کار ہے ۔ نماز کے اختلافات کے موضوع پر یہ بالکل نئے طرز کی کتاب ہے، بلکہ اس موضوع پر پورے اسلامی لٹریچر میں پہلی اور منفرد کتاب ہے۔ کتاب اس درجہ دل چسپ ہے کہ ہاتھ میں لینے کے بعد مکمل پڑھے بغیر رکھنے کے لیے دل آمادہ نہیں ہوتا ۔حقیقت یہ ہے کہ کتاب کی تالیف میں مصنف کا سوز دروں بھی شامل ہے جو نماز کی اصل حقیقت یعنی خشوع وانابت کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور امت میں وحدت اور یگانگت کے لیے کوشاں ہیں۔ آج امت اسی اتحاد کی پیاسی ہے اور اس کے تن مردہ میں جان پھونکنے کے لیے اسی جذبہ صادِق کی ضرورت ہے۔  امید ہے کہ جس حقیقت کی نقاب کشائی کے لیے اور جس جذبے کے تحت یہ کتاب لکھی گئی ہے اس کی قدر کی جائے گی اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے لوگ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب کو جلد ازجلد عربی،انگریزی اور دیگر  زبانوں میں منتقل کیا جائے، تاکہ اس کی افادیت  عام ہوسکے۔                 (ولی اللہ مجید قاسمی)

 مولانا الطاف حسین حالی کی یاد میں (مجموعۂ مقالات سمینار)

مصنف:    اشتیاق احمد

ناشر: دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، أعظم گڑھ، (یوپی)

سنہ اشاعت:              ۲۰۱۵ء، صفحات: ۲۲۸، قیمت: ۲۵۰؍روپے

خواجہ الطاف حسین حالی (۱۸۳۷۔۱۹۱۴) اردو، فارسی اورعربی کے قادر الکلام شاعر تھے ۔ وہ سرسید احمد خاں کے جانثار دوستوں میں سے تھے ۔ اردو شاعری، تحقیق وتنقید اور تاریخ نویسی میں حالی کا بڑا نام ہے ۔

انیسویں صدی کے اواخر اوربیسویں صدی کی ابتدا میں جوچند منتخب روزگار شخصیات نمودار ہوئیں ان میں ایک اہم اورمعتبر نام حالی کا ہے ۔ انہوں نے سرسید احمد خاں کے تعلیمی اوراصلاحی مشن میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

یہ کتاب سلسلۂ دارالمصنفین نمبر: ۲۲۴، شبلی صدی مطبوعات ۱۱کے تحت شائع کی گئی ہے ۔ یہ اصلاً ایک سمینار میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ ہے جو علامہ شبلی دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ میں ۲۶؍ اپریل ۲۰۱۵ء میں منعقد کیا گیا تھا ۔ یہ سچ ہے کہ اس مایہ ناز ہستی کی عظمت، اس کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں یہ حقیر سا نذرانہ ہے، جس میں اس کا دلآویز شخصیت کی بو قلمونی زندگی کا احاطہ کرنے کی کسی قدر کوشش کی گئی ہے ۔ یہ دارالمصنفین کا یہ ایک مبارک قدم ہے، اس میں اٹھارہ گراں قدر مضامین شامل ہیں جن سے مولانا حالی کی زندگی کے تقریباً سبھی گوشوں پر بھر پور روشنی پڑتی ہے ۔ مرتب نے مولانا مرحوم کی مختصر مگر جامع خود نوشت سوانح عمری کواس کتاب میں شامل کرکے اس کا حسن دوبالا کردیا ہے ۔

اہم مندرجات میں حیات سعدی اورمولانا حالی، علامہ شبلی کے قیام علی گڑھ کے ابتدائی دنوں کی ایک نادر تحریر، اوراشتیاق احمد ظلی کا ایک اہم اور معلوماتی مضمون ہیں ۔ یہ مجموعۂ مقالات مولانا حالی کی عبقری شخصیت کی علمی خدمات کے اعتراف کی ایک اچھی کوشش ہے، مولانا حالی جتنی بڑی شخصیت کے مالک تھے، اُس کے اعتراف میں چند کتابوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام اب تک نہیں ہوسکا ہے ۔ توقع ہے کہ علمی حلقوں میں یہ کتاب قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔                  (محمد رضوان خان)

محسن مائیں تربیتِ اولاد کے مثالی نمونے

مؤلف:    عنایت اللہ خاں فلاحی

ناشر:       الحمدپرنٹرس اینڈ پبلیشرز، کوسہ ممبر ا، تھانہ ؍مکتبہ اسلامیہ، قاسم گنج، بلریا گنج، أعظم گڑھ، یوپی

سنہ اشاعت:             ۲۰۱۵ء، صفحات: ۱۸۸، قیمت: ۱۲۰؍روپے

دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد سب سے پہلے انسان کا واسطہ ماں باپ سے پڑتاہے ۔ وہ اپنا ہر طرح کاآرام قربان کرکے اولاد کو راحت وسکون پہنچاتے ہیں ۔ بغیر کسی ریا ونمود کے، وہ اپنی اولاد کے بازوپر اس وقت بنتے ہیں، جب کہ وہ گوشت وپوست اور ہڈی کے ڈھانچے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ بڑا ہوتا ہے تو والدین اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا پھر نا اوردوڑنا بھاگنا سکھاتے ہیں ۔ وہ گرتا ہے تواسے سہارا دے کر اُٹھاتے ہیں ، اسے چوٹ لگتی ہے ، اس کی تکلیف کومحسوس کرتے ہیں ۔ کچھ بڑا ہوتا ہے توزندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے ، وہ اسے اچھی سی اچھی تعلیم دلا کر زندگی کے میدان  میں آگے بڑھنے میںمدد کرتے ہیں۔

زندگی دو طرح کی ہوتی ہے ۔ مومنانہ زندگی اورکافرانہ زندگی۔ مومنانہ زندگی سے مراد ایسی زندگی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل ہو۔ کافر انہ زندگی یہ ہے کہ آدمی صرف دنیاوی عیش وآرام میں مگن رہے اور آخرت کی بالکل فکر نہ کرے ۔ اپنی اولادکی کامیابی کے لیے اپنے طور پر تما م والدین تگ ودو کرتے ہیں ۔ لیکن مومن ومسلم والدین کے مقاصد عظیم ہوتے ہیں اس لیے دوسروں کے مقابلے میں ان کوقربانی بھی بڑی دینی ہوتی ہے ۔ زیرِ نظر کتاب’ محسن مائیں‘میں ان مومن او رمسلم خواتین کا تذکرہ ہے جنہوںنے اپنی اولاد کی حسن تربیت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کی ہے۔

خوبصورت ٹائٹل، بہترین کا غذ، عمدہ طباعت کے ساتھ ،۱۸۸؍صفحات پر مشتمل یہ کتاب، چار ابواب پر مشتمل ہے: سابقہ امتوں کی چند مائیں، دورِ نبوی ؐ کی چند مائیں، دور نبوی کے بعد کی چند عظیم ما ئیں اور ہندوپاک کی چند مائیں ۔

کتاب کا آغاز حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ماں حضرت ہاجرہ کے تذکرہ سے ہوا ہے اورسب سے آخر میں حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی کی والدہ کا ذکرخیر ہے ۔ تربیتی نقطۂ نظر سے یہ کتاب اپنے اندر بہت سے ایسے واقعات کوسمیٹے ہوئے ہے، جوامت کی ماؤں کواپنی اولاد کوصحیح رخ پر ڈالنے میں معاون ومدد گار ثابت ہوں گے۔                                         (عبدالحاکم مجاہد فلاحی)

 حکیم عبد الحمید: حیات وخدمات کے چند گوشے

مصنف:   ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی

ناشر: ہدایت پبلیکیشنز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی

سن اشاعت:             ۲۰۱۵ءصفحات :۱۹۶قیمت :۱۱۳؍روپے

دنیا میں ہر روز نہ جانے کتنے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کتنے اسے خیرآباد کہہ جاتے ہیں، لیکن ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو انسانی زندگی پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، جن کی بدولت وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ایسی عظیم شخصیات اللہ کی نصرت اور اپنی صلاحیت کی بنا پر سماجی، تہذیبی، اقتصادی اور سیاسی دھاروں کو موڑ دیتی ہیں۔حکیم عبد الحمید بھی ان تاریخ ساز شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی صلاحیت وعمل کی بنا پر تاریخ کے زریں صفحات میں ان کا نام روشن ہے ۔

حکیم عبد الحمید(۱۹۰۸ء۔۱۹۹۹ء) نے بہ ظاہر طب و تعلیم کے میدانوںمیں گہرے نقوش چھوڑے ہیں،لیکن ان کی شخصیت کا زریں عنوان ان کی ہمہ گیری،فعالیت اور خلوص ہے ۔وہ بیسوی صدی کے ان نامورانِ ہند میں سے ہیں جنہیں ان کی زندگی ہی میں مرد کامل ،عالم با عمل،ولی،مدبر زماں،بابائے طب اور مصلح قوم جیسے القابات سے نوازا گیا تھا۔حکیم صاحب نے اپنی زندگی میں بہت سے تاریخی کام انجام دیے ،جن میں ہمدرد دوا خانہ کی تشکیل نو،جامعہ ہمدرد کا قیام(۱۹۵۶ء)،ہمدرد فائونڈ یشن (۱۹۶۴ء) ، ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی (۱۹۸۱ء)،غالب اکیڈمی (۱۹۶۸ء)،انڈیا اسلامک کلچر سینٹر ، اسٹدی سرکل ،سینٹر فار فیڈرل اسٹڈیز وغیرہ کا قیام قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے چھوٹے بڑے اداروں ،اسکولوں اور کالجوں کی بنیادرکھی ہے ۔

زیرِ نظرکتاب کو مصنف نے سات(۷) ابواب میں تقسیم کیا ہے۔انہوں نے حکیم صاحب کی پیدائش، حصول تعلیم، طبی وتصنیفی خدمات وغیرہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ یہ کتاب عوام وخواص دونوں کے لیے مفیدہے۔ بعض جگہ پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں، امید ہے کہ طبع ثانی میںاس کمی کو دور کر دیا جائے گا۔                                                                                           (محمد اسعد فلاحی)

 عصر حاضر کے قائدِ اعلی ۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی ؒ

( حیات و خدمات ،ماہ وسال کے آئینے میں،مع متعلقہ منتخب تصاویر)

مؤلف:    احمد ابو سعید

ناشر:       شان پبلیکیشنز، طاہر ولا، یوسف گوٹرہ، حیدر آباد

سنہ اشاعت:              ۲۰۱۵ءصفحات :۲۲۴قیمت :۲۰۰؍روپے

اسلامی تاریخ میں ایسی بہت سی شخصیتیں گزری ہیں، جنہوں نے زندگی کے فکری، سیاسی، دینی، صحافتی، سماجی، معاشی، اخلاقی یا علمی، کسی نہ کسی گوشے میں امت کی رہ نمائی کی ہے، لیکن تاریخ میں چند ہی شخصیتیں ایسی گزری ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت رہی، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر میدان میں قیادت کی سعادت نصیب فرمائی ۔ مولانا مودودیؒ بھی انہی میں سے ایک ہیں ۔زندگی کا کوئی میدان ایسا نظر نہیں آتا جس پر انہوںنے قلم نہ اٹھایا ہو۔پردہ، سود، الجہاد فی الاسلام، تنقیحا ت، تفہیمات، حقوق ا لزوجین، اسلامی ریاست، اسلامی معاشیات، رسائل ومسائل، سنت کی آئینی حیثیت وغیرہ جیسی بے شمار کتابوں کے ساتھ ان کی شہر آفاق تفسیرتفھیم القرآن سے لاکھوں انسانوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور ان کی زندگیاں سنور گئی ہیں ۔

یوں تو مولانا مودودیؒ کی حیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن ان سب میں زیر نظر کتاب کی ایک الگ شان ہے ۔ اس میں مولانا کی حیات وخدمات کا سن وار جائزہ اس طرح لیا گیا ہے کہ ہر شخص صاف طور پر دیکھ سکتا ہے کہ مولانا نے اپنی زندگی کس طرح گذاری؟ اور زندگی کے کس مرحلہ میں کیا خدمات انجام دیں؟ کسی مرحلہ میں اگر کوئی قابل ذکر واقعہ پیش آیا تو مؤلف نے اسے بھی بیان کر دیا ہے ۔

محترم احمدابو سعید صاحب شکریہ کے مستحق ہیں ۔ان کی یہ کوشش ہر لحاظ سے قابل قدر اور لائق ستائش ہے ۔ کتاب کی طباعت، سرورق اور پیش کش عمدہ ہیں ۔کتاب کا مطالعہ یقیناً   یہ حوصلہ پیدا کرے گا کہ ہم بھی اپنی زندگی میں کچھ ایسا کارِ خیر کریں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آجائے اور آخرت میں ہمارے لیے اجر کا باعث بن جائے۔  (محمد اسعد فلاحی)

*ولی اللہ مجید قاسمی

**محمد رضوان خاں

***عبدالحاکم مجاہد فلاحی

****محمداسعد فلاحی

مشمولہ: شمارہ فروری 2016

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223