نقد و تبصرہ

اسلام – انسانی حقوق کا پاسبان

(تیسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن)

مصنف:    مولانا سید جلال الدین عمری

ناشر:        مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی

سن اشاعت:             ۲۰۱۶، صفحات: ۱۸۴، قیمت: 90/=روپئے

مولانا سید جلال الدین عمری کی کتاب ’ اسلام۔ انسانی حقوق کا پاسبان ‘ کا یہ تیسرا ایڈیشن ہے، جو نظر ثانی اور ضروری ترمیم  و اضافے کے بعد شائع ہوا ہے ۔ مولانا نے انسانی حقوق کے تحفظ اوردفاع میں خالص قرآن وسنت کے حوالے سے گفتگو کی ہے ، جس کا وہ خود اظہار فرماتے ہیں : ’ کتاب کا انداز خالص قانونی نہیں ہے، بلکہ جس حق کا ذکر کیا گیا ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں ا س کی توضیح وتشریح اورحسبِ موقع معاشرہ پر اس کے اثرات کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ کہیں کہیں حقوق کی قانونی حیثیت واضح کرنے کے ساتھ اس سے متعلق اسلام کی اخلاقی تعلیمات بھی بیان ہوئی ہیں ۔

بلا شبہ اسلامی شریعت میں انسانوں کوجوحقوق عطا کیے گئے ہیں ، دوسرے معاشروں میں ان کا تصور کرنا بھی محال ہے ۔ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ انسان پر کوئی ایسا زمانہ نہیں گزرا ہے جس میں کم زور اورطاقت ور دونوں قسم کے لوگ روئے زمین پر موجود نہ رہے ہوں ، لیکن المیہ یہ ہے کہ کم زور و ں کے ساتھ تعاون اوران کے مفادات کے تحفظ کے لیے حکم راں طبقے یا فلاحی وسماجی اداروں کی جانب سے مؤثر اورکار گرقدم نہیں اُٹھائے گئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔

فاضل مصنف نے انسانی حقوق اورتاریخی پس منظر پرروشنی ڈالتے ہوئے برطانیہ اور فرانس کے تصو ر ِ انسانی حقوق پر ناقدانہ بحث کی ہے اوراقوام متحدہ کی طرف سے مختلف مواقع پر منظور کی گئی قرار دا د و ں کی تفصیل بھی پیش کی ہے۔ مغرب میں اس سے متعلق کیےگئے اقدامات اور کوششوں کاتذکرہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اس کے لیے کتنے مخلص اورسنجیدہ تھے۔ انسانی حقوق کے بنیادی تصورات کو واضح کرتے ہوئے متوجہ کیا گیا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ انسان کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کیا ہے ؟ کیوں کہ اسلام میں یہ راہ نمائی موجود ہے کہ جس طرح بندوں پر اللہ کے حقوق ہیں، اسی طرح انسانوں کوبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حقوق عطا کیے گئے ہیں۔

پیش نظر کتاب میں مولانا عمر ی نے انسانی حقوق کے تاریخی پس منظر،فرد کے شخصی اورذاتی حقوق ، بنیادی ضروریات کی تکمیل کا حق، سماجی ومعاشرتی حقوق، کم زور افراد اورطبقات کے حقوق، معذور کے قانونی اوراخلاقی حقوق، دفاع کا حق اورمذہب کی آزادی کا حق جیسے عناوین پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گفتگوکی ہے ۔ اہلِ علم اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ دنیا کے تمام جمہوری قوانین نے فرد کے زندہ رہنے کا حق تسلیم کیا ہے ، کیوں کہ زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے ، اسے کسی کوسلب کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے ۔ شخصی اورذاتی حقوق کے ضمن میں انسانوں کے درمیان حقِ مساوات ، عدل و انصاف کا قیام ، قانون کی برتری، حقوق کے تعلق سے ریاستوں کی جواب دہی ، عدالتوں کی نگرانی میں سزا کا نفاد ، مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر کسی کوغلام بنا نے کی ممانعت ، قصور کے بغیر سزا دینے کی قباحت، عزت وآبرو کی حفاظت کا قانون ، دینی ودنیوی ضروریات کے لیے سفر کا حق اورمظلوموں کے ساتھ تعاون کی ترغیب جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔

مصنف نے شخصی آزادی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ۔ معاشرے میں کم زور افراد اور طبقات بھی پائے جاتے ہیں ،جن کے حقوق شریعت نے متعین کردیے ہیں۔ اسی طرح سماج میں جن کا درجہ کم تر سمجھا جاتا ہے انہیں بھی مساوی حقوق دینے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اس فہرست میں عورت کے حقوق، بیوی کے حقوق ، بیوہ کے حقوق، یتیموں کے حقوق ، غلام، محکوم، محتاج، مسکین اور ضعیف کے حقوق شامل ہیں ۔ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں ایسے طبقات کوحقوق سے محروم کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کی مثالیں  پڑھنے کوملتی ہیں ۔ مولانا کے الفاظ میں’’ زور آوروں کے ظلم کی چکی میں نادار،یتیم، مسکین  اور معذور  رہے تھے۔  قرآن نے وقت کے جابروں اورظالموں کوسخت تنقید کا ہدف بنایا اور ان کے ظلم پر آخرت کی وعید سنائی ۔‘‘

پیش نظر کتاب کے سبھی مضامین انتہائی اہم اور وقیع ہیں۔ مطالعہ کے شائقین ، بالخصوص دینی ، ملی اورسماجی ادارو ںسے وابستہ لوگ، جوانسانی حقوق کے کاموں میں مصروف ہیں، کتاب سے بھر پور استفادہ کرسکتے ہیں ۔مولانا کی پیش کش کا طریقہ اوراندازِ بیان قاری کواپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ امید ہے کہ یہ کتاب انسانی حقوق اورخدمتِ خلق کے موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر کو سمجھنے میں مفید اور کار آمد ہوگی۔

(ڈاکٹر عبدالرحمٰن فلاحی)

انچارج شعبۂ ادارت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی

 وامعتصماہ (سرگزشتِ عافیہ)

مصنف:    ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی

ناشر:        شعورِ حق ، M-21/6&7، نزد خلیل اللہ مسجد ، بٹلہ ہاؤس، جامعہ نگر، نئی دہلی۔۲۵

تاریخِ اسلام کا مشہور واقعہ ہے ۔رومیوں نے ایک جنگ میں کچھ مسلمانوں کوگرفتار کیا ۔ ان میں ایک عورت بھی تھی ۔ اس نے عباسی خلیفہ معتصم باللہ کی دہائی دی : وامعتصماہ (ہائے ، اے معتصم !) اس مظلوم وبے بس عورت کی پکار خلیفہ معتصم تک پہنچی تووہ تڑپ اُٹھا ۔اس نے فوراً النفیر ……النفیر …… (کوچ ، کوچ) کی صدا بلند کی ۔ بڑی فوج تیار کی اوررومیوں پر حملہ کردیا ۔ اس طرح اس نے نہ صرف اس خاتون اوردیگر مسلم قیدیوں کوچھڑا لیا ، بلکہ اہلِ روم کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرکے اسے مملکت اسلامیہ میں شامل کرلیا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ’غیرت‘ زندہ تھی اورمسلمان اس کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتے تھے۔

لیکن جب غیرت مرجاتی ہے تووہ کچھ ہوتا ہے جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہوا۔ عافیہ (ولادت ۱۹۷۲ء) نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی ۔ گریجویشن ، پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں امریکی یونیورسٹیوں سے حاصل کیں ۔ بعد میں وہ پاکستان آگئیں ۔ یہاں ۲۰۰۳ء میں ان کے دو بچوں کے ساتھ خفیہ پولیس نے ان کا اغوا کرکے امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے حوالے کردیا۔ پھر ان کی ایذا و تعذیب کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ۔ پہلے ان کوافغانستان کے بگرام عقوبت خانے میں مرد قیدیوں کے درمیان رکھا گیا اور شدید اذیتیں دی گئیں، جس سے وہ ذہنی توازن کھوبیٹھیں ۔ پھر انہیں امریکہ لے جایا گیا ۔ ان پر القاعدہ سےتعلق اوردہشت گردی میں ملوّث ہونے کے الزامات لگائے گئے اورقانون وانصاف کے تمام تقاضوں کوپامال کرتے ہوئے 86سال کی سزا سنائی گئی ۔

زیر نظر کتاب میں عافیہ کیس کی پوری سر گزشت بیان کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ کا خاندان ، ابتدائی زندگی، اعلیٰ تعلیم کا حصول،عائلی زندگی ، اغوا اورقید وبند ، افغانستان ، پھر امریکہ میں منتقلی ، مقدمہ کی تفصیل اورآخر میں سزا ۔ فاضل مصنف نے انٹر نیٹ پردستیاب اردو اور انگریزی میں چھوٹے بڑے مضامین ، اخباری رپورٹوں اوردیگر تحریری مواد سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر انہوںنے چیونٹیوں کے منہ سے شکر کے ریزے جمع کرکے ایک بہت قیمتی دستاویز تیار کی ہے ۔

یہ کتاب جہاں قوم کی بے غیرتی کوواشگاف کرتی ہے کہ اس نے عافیہ کی رہائی کے لیے منصوبہ بند طریقے پر سنجیدہ کوشش نہیں کی، وہی امت کی غیرت کوللکارتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف کوجزا ئے خیر دے کہ انہوںنے اس کتاب کی تالیف کی صورت میں فرض کفایہ ادا کیا ہے ۔

( ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

تذکرہ حکیم محمد ایوبؒ

مؤلف:    صباح الدین اعظمی

ناشر:        حکیم محمدایوب ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ، بلریا گنج اعظم گڑھ

سنہ اشاعت:              ۲۰۱۶ء ، صفحات: ۱۲۰، قیمت درج نہیں

ای میل:  [email protected]

بلریا گنج اعظم گڑھ کے حکیم محمد ایوب رحمہ اللہ ہندوستان کی تحریک اسلامی کی معروف شخصیت تھے ۔ عموماً ان کا تعارف ایک مشہور طبیب ،تحریک کے ایک متحرک اورہر دم رواں پیہم دواں خادم اورشمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ — جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ، اعظم گڑھ —  کے سر پرست کی حیثیت سے ہے، لیکن یہ ان کا بہت مختصر اورناقص تعارف ہے ۔ وہ اور بھی بہت کچھ تھے ۔ ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کوسمیٹ کر اگر ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو کہا جاسکتا ہےکہ وہ اللہ کے ’ولی‘ تھے۔

حکیم محمد ایوب ؒ کی وفات (اکتوبر ۲۰۰۴ء)پر مختلف رسائل واخبارات میں تعزیتی اورتاثراتی مضامین اوربیانات شائع ہوئے تھے ۔ اس کے بعد ان سے تعلق رکھنے والے اصحابِ قلم سے مضامین لکھوائے گئے ، لیکن ان کا مجموعہ شائع نہ ہوسکا ۔ گزشتہ سال (۲۰۱۵ء) کے اواخر میں تیس (۳۰) مضامین پرمشتمل ایک مجموعہ ’’حکیم محمد ایوب۔ وہ مردِخود آگاہ مجھے یاد ہے اب بھی‘‘ کے نام سے رازی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز ، جامعہ نگر، نئی دہلی ۔ ۲۵ سےشائع ہوا ہے ۔ اب مرحوم کے نواسے ڈاکٹر صباح الدین اعظمی نے بہت خوب صورت انداز میں ان کا ذکرِ جمیل ’ تذکرہ حکیم محمد ایوبؒ ‘کے نام سے مرتب کردیا ہے۔

مصنف کتاب ڈاکٹر صباح الدین اعظمی مرحوم کے نواسے ہیں۔ انہوںنے جامعۃ الفلاح سے اعلیٰ  دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے معاشیات میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے اوران دنوں خلیج میں بہ سرِ روز گار ہیں۔ کئی سال قبل مولانا مودودیؒ کے بارے میں ان کی صاحب زادی سیدہ حمیرا مودودی کی کتاب ’شجرہائے سایہ دار‘ پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا تھا ۔ یہ دوسری کتاب ہے جسے پڑھ کر میں اسی طرح کے تاثرات وجذبات سے مغلوب ہوا ہوں ۔ ڈاکٹر صباح الدین نے بہت سلیس ، شستہ اور روا ں زبان میں حکیم صاحب کے حالات، عادات واطوار، خوبیاں ، اندازفکر  ، طریقۂ عمل اورامتیازی اوصاف بیان کیے ہیں ۔و اقعہ یہ ہے کہ اس کتاب میں انہوں نے اپنادل نکال کر رکھ دیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی شخص اس کتاب کا مطالعہ شروع کرےگا تو ممکن نہیں کہ ختم کرنے سے پہلے اسے رکھ دے ۔ حکیم صاحب اس میں اپنی فنّی ، علمی اورتحریکی خوبیوں کے ساتھ ایک زندہ دل انسان ، مہرومحبت کے پیکر اور اخلاق حسنہ کے بلند مرتبے پر نظر آتے ہیں ۔ اس عمدہ کتاب کی تالیف پرفاضل مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

اسلام کا نظامِ امن وجنگ

مصنف:    ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی

مترجم:      مولانا عبدالحلیم فلاحی

ناشر:        مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، ڈی۳۰۷، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، نئی دہلی ۲۵

سنہ اشاعت:              ۲۰۱۶ء ، صفحات: ۷۲، قیمت:۔؍۴۴ روپے

اسلام امن وسلامتی کا داعی ہے اور چاہتا ہے کہ فرد سے لے کر معاشرہ اورمملکت تک امن قائم رہے ، تاکہ ہر فرد اطمینان کے ساتھ اپنے حصہ کی ذمے داری کما حقہ ‘ پوری کرسکے اور اپنے فرائض آسانی سے بجا لائے ۔  اس نے امن کوتباہ کرنے والے عوامل کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے ۔ لیکن آج عجیب المیہ ہے کہ دنیامیں فتنہ وفساد پھیلانے والے امن کے نام نہاد علم بردار بنے ہوئے ہیں اوراسلام کودہشت گردی کا مذہب قرار دے رہے ہیں۔اس صورتِ حال میں ضروری تھا کہ امن وجنگ کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات واضح کی جائیں اوردلائل کے ذریعے ثابت کیا جائے کہ اسلام امن کا داعی ہے اوردنیا میں امن قائم کرنا چاہتا ہے۔

زیر نظرکتاب مشہور اخوانی رہ نما ڈاکٹر مصطفیٰ السباعی کی عربی کتاب’ نظام السلم والحرب فی الاسلام ‘ کا ترجمہ ہے ۔ اس میں مصنف نے امن وجنگ کا اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا ہے اورقرآن وحدیث نیز تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ اسلام امن کا داعی ہے ۔ سب سے پہلے انہوںنے امن وجنگ کے سلسلے میں اسلام اورعیسائیت کی تعلیمات کا تقابل کیا ہے ۔ ضرورت تھی کہ اس موضوع پر یہودیت کا بھی موقف پیش کیا جاتا، اس لیے کہ آج کل دنیا میں جوفتنۂ فساد پھیلا ہوا ہے اس میں بڑا کردار یہودیوں کا ہے ۔

اگلے باب میں انہوںنے اسلام میں امن وسلامتی کی پانچ بنیادوں کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد قیام امن کے لیے داخلی وخارجی نظام پرروشنی ڈالی ہے ۔ امن وسلامتی کوقائم رکھتے اورفتنہ وفساد کوختم کرنے کے لیے بسا اوقات جنگ کی نوبت آجاتی ہے اس لیے مصنف نے اسلام میں جنگ کا فلسفہ ، اس کے ممکنہ اسباب اورنظام جنگ پر بھی گفتگو کی ہے۔ اور اسلامی جنگوں کی حقیقی صورت حال واضح کی ہے ۔ جزیہ کے متعلق اعتراضات کا بھی جواب دیا ہے ۔ اسلام کے نظامِ امن وجنگ پر یہ ایک لائقِ مطالعہ کتاب ہے۔ امید ہے کہ اس کتاب سے بھر پور استفادہ کیا جائےگا۔ کتاب معلوماتی اوردلائل سے پر ہے اور لائق متر جم نے ترجمانی کا حق ادا کردیا ہے، البتہ کچھ جگہوں پر حوالے چھوٹ گئے ہیں یا ناقص ہیں۔

(عبدالحئی اثری)

شعبۂ ادارت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی

حدجاں سے گزرنے تک (شعری مجموعہ)

مصنف:    ساحرؔ داؤد نگری

زیر اہتمام: حالی پبلشنگ ہاؤس۔ دہلی

سنہ اشاعت:              ۲۰۱۶ء ، صفحات: ۱۵۵، قیمت:۔؍۷۵ روپے

ساحر داؤد نگری کا تعلق بہار کے مردم خیز خطہ داؤد نگر، اورنگ آبادسے ہے ۔ ضلع اورنگ آباد بہار کا تاریخی شہر ہے ، جہاں کے نواب داؤد خان تھے ، جن کی قدیم حویلیاں ، قلعے اورمحرابی عمارتیں آج بھی مکینوں کورورہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ نواب داؤد خا، منصف ، ایمان دار ، رحم دل اورانسانیت نواز نواب تھے ، اورنگ آباد کی شہرت اس وجہ سے بھی ہے کہ کئی مجاہدینِ آزادی کا تعلق اس شہر سے رہا ہے ۔ ان میں سے ایک شوکت علی انصاری بھی تھے، جوساحر داؤد نگری کے دادا تھے۔

داؤد نگرقدیم زمانے سے ہی نوابوں ، علماء اورادبا کا شہر رہا ہے اورآج بھی یہاں شعر وادب کا ذوق رکھنےوالوں کی  بڑی تعداد پائی جاتی ہے ۔ اس طور پر ساحر داؤد نگری کوشعروادب کا ذوق وراثت میں ملا ہے۔

’حد جاں سے گزرنے تک‘ جناب اطہر حسین انصار ی (قلمی نام ساحر داؤد نگری) کا پانچواں مجمو عۂ کلام ہے ۔ اس میں حمد،  نعت، غزلیں ، آزاد غزلیں ، نظمیں ، سانٹ ، ترائیلے ،ماہیے اور ہائیکو بھی شامل ہیں۔ ساحر داؤد نگری  بہ یک وقت شاعر، صحافی اورحالی پبلیشنگ ہاؤس کے مالک بھی ہیں ، جسے دہلی اردو اکیڈمی نے ۲۰۱۵ء کے بیسٹ پبلی کیشن ایوارڈ سے  نوازا ہے ۔ ساحر کی خوبی یہ ہے کہ وہ غزلیں چھوٹی بحروں میں کہتے ہیں اورخوب کہتے ہیں۔ ان کی غزلوں کوپڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری کوانہوں نے اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کا ذریعہ بنایا ہے ۔ وہ جوکچھ بھی سوچتے ، دیکھتے اور محسوس کرتےہیں اسے خوب صورتی سے شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں ۔ نمونے کے اشعار ملاحظہ کیجئے:

زندگی اپنی رائیگاں کرلی

ایک مٹی کا گھر بنانے میں

لمس کی روشنی عطا کرکے

کس نے مہتاب کردیا مجھ کو

ہم بناتے ہیں دشت کو گلزار

وہ گھروں کو کھنڈر بناتے ہیں

لوگ اس ِشہر کے سب اپنے لیے جیتے ہیں

اپنی مٹی کا وفادار نہیں کوئی یہاں

ساحرداؤد نگری کے تخیلات کی دنیا وسیع ہے۔ درج بالا اشعار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے احساسات ، جذبات، خیالات اورفکر میں کس قدر تنوع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے اپنی شاعری کے ذریعے عوامی احسا سا ت وجذبات کی ترجمانی کی ہے ۔ ان کے یہاںکیفیات کی کمی نہیں ہے ، جس کی وجہ سے انہوں نے زمانےکے ستم ، غم یار اور روزگار کا ذکر بڑی بے باکی اور صاف گوئی سے کیا ہے ، ساحر داؤد نگر ی جواں سال شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں ہمیں لطیف استعارے ، کنایے اورعلامتیں بھی مل جاتی ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کی غزلوں کی فضا اتنی دلکش ہے کہ بہت جلد قاری ان کی گرفت میں آجاتا ہے ۔ امید ہے، اس شعر ی مجموعے کوادبی ذوق رکھنے والوں کے درمیان پذیرائی حاصل ہوگی۔

(محمد رضوان خاں)

شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی

مشمولہ: شمارہ نومبر 2016

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223