نام كتاب : بصائر قرآن
مصنف : مولانا محمد جرجیس کریمی
سنہ ٔ اشاعت: ۲۰۱۷ء،صفحات : ۱۶۸؍، قیمت: ۹۶؍روپے
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
قرآن مجید دنیائے انسانیت کے لیے بصیرت و بصارت اور دنیا کو امن وامان کی آماج گاہ بننے کا حقیقی ذریعہ اور راستہ ہے، کیوں کہ یہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ۔اس میں ان کے تمام بنیادی امور کے بارے میں واضح ہدایت ہے۔ اس کی تعلیمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس کتاب کا کائناتی نظریہ ، تصور توحید، تصور رسالت، تصور آخرت، انبیاء واقوام کی تاریخ، تصور خلافت، زندگی کا حقیقی مقصداور وسیع تصورِ ملت واضح ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات زمان ومکاں کی حد بندیوں سے آزاد ہیں۔ اس کا پیغام ہمہ جہت اور رعالم گیر ہے۔ اس کا مخاطب کوئی خاص نسل، طبقہ ، قوم نہیں، بلکہ پوری انسانیت ہے۔
زیر نظر کتاب میںان چند اہم موضوعات کی تفہیم کرائی گئی ہے جن کی انسان کو قدم قدم پر ضرورت پڑ تی ہے۔ یہ کتاب دراصل قرآٰنیات سے متعلق چند مقالات کا مجموعہ ہے جو ادارہ علوم القرآن کے سیمناروں اورمختلف اوقات میں بعض رسائل و جرائد کے لیے لکھے گئے تھے۔ کتاب کے مصنف مولانا محمد جرجیس کریمی ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے سینئر محقق ہیں۔ زیر نظر کتاب گیارہ(۱۱) ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب ’ قرآن مجید کے اسما اور ان کی معنویت ‘ کے عنوان سے ہے۔اس میںمولانا نے قرآن مجید کے بیس(۲۰) اسما وصفات پر مدلل اندا ز سے روشنی ڈالی ہے ۔ دوسرا باب بہ عنوان’ رجوع الی القرآن کی اہمیت‘ ہے ۔اس میں مصنف نے واضح کیا ہے کہ قرآن مجید ہی سے اللہ ، کائنات اور انسان کے تعلق سے ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے اور انسانیت کو وہ راہ مل جاتی ہے جس پر چل کر وہ دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرسکے ۔‘‘ (ص۳۶)تیسرا باب ’اتمام حجت کا قرآنی اسلوب‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میںمصنف نے لکھا ہے کہ ’’نزول قرآن کا ایک مقصد اتمام حجت ہے ،یعنی لوگوں کے سامنے اس بات کو مختلف دلائل سے واضح کر دینا کہ اس کائنات کا خالق و مالک اور رب و معبود تنہا اللہ تعالی ہے ۔ ‘‘ چوتھا باب ’ ہدایت الٰہی کی تفہیم و تنفیذمیں عقل کا رول ‘ کے عنوان سے ہے، اس میں مصنف نے عقل سلیم ، عقل مسلم اور عقل کی مدافعانہ افادیت پر گفتگو کی ہے ۔ ’آزمائش کا قرآنی تصور‘ کے عنوان سے ایک اور باب ہے، جس میں مصنف نے آزمائش کے متعدد پہلووں پر روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اس کی آزمائش ہے اور جس طرح اللہ تعالی ٰ نے انسان کو پیدا کر کے اس پر اپنا احسان کیا ہے اسی طرح وہ اس پر آزمائش کر کے مزید احسان کرنا چاہتا ہے ۔(ص:۶۷) اگلا باب ’ صبر کا قرآنی تصو‘ کے نام سے ہے ۔ اس میں مصنف نے صبر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ کتاب کا اگلا باب ’فلاح کا قرآنی تصور‘ کے عنوان سے ہے،اس میں موصوف نے فلاح کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ ایک اور باب’ ایمان کی کم زوری ۔ اسباب و ازالہ ‘ کے عنوان سے ہے، اس میں مصنف نے ایمان کی کم زوری کے اسباب کی نشان دہی کی ہے اور ان کے ازالہ کا طریقہ بھی بتایا ہے ۔ نفس کی اصلاح کن ذرائع سے ہوسکتی ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب مصنف نے جامع انداز سے دیا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ اسلام نفس کی ہر پہلو سے اصلاح چاہتا ہے، لہٰذا اس کے لیے ایک ہمہ گیر طریقہ کی ضرورت ہے۔ وہ طریقہ ایسا ہو کہ آدمی بال بچوں میں رہ کر بھی نفس کی اصلاح اور تربیت کر سکے اور اس مرتبہ کو پالے جو اسلام کو مطلوب ہے ۔(ص: ۱۲۷) ایک اور باب ’ انسان کی بعض غلط فہمیاں اور قرآن مجید ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں مصنف نے قرآن مجید کی روشنی میں بعض غلط فہمیوں کو دور کیا ہے۔ اگلا مضمون’ مسلم معاشرہ میں فواحش کے انسداد کی تدابیر‘ کے عنوان سے ہے ،مصنف کا کہنا ہے کہ انسانی معاشرہ کو تباہ کرنے والی، فحاشی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی،اسی وجہ سے انسانی معاشرہ کو ان اسباب سے بچانے کی تدابیر بتائی گئی ہیں ۔ (ص:۱۴۸)آخری باب’غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت اور قرآن مجید کی تعلیمات ‘کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف لکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے تہواروں کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہر تہوار میںشرک کی آمیزش ملے گی ۔ ان میں ان کے بتوں کی خصوصی نمائش اور پوجا کے اعمال انجام دیے جاتے ہیں ۔ اس پس منظر میں قرآن مجید کی تعلیمات کا مطالعہ کرنا چائیے ۔(ص: ۱۶۵)
یہ کتاب کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے، بلکہ مقالات کا مجموعہ ہے، لیکن ان میں باہم ربط پایا جاتا ہے ۔یہ کتاب قرآن مجید سے متعلق بعض اہم علمی نکتوں کی وضاحت کرنے کے ساتھ ہر فرد کی زندگی کے بنیادی سوالات کا جواب بھی فراہم کرتی ہے ۔
(مجتبیٰ فاروق)
رکن ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
نام كتاب : تحریکی مکالمے
مصنف : شیخ جاسم محمد المطوع
مترجم : محی الدین غازی
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی۔ ۲۵
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۷ء،صفحات: ۸۰؍، قیمت: ۶۰؍روپے
خیر امت کے منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے امت کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ پر بھی ناقدانہ نگاہ ڈالتا رہے۔ جن حوصلہ مند نفوس نے یہ عزم مصمم کرلیا ہے کہ انہیں لوگوں کے دلوں پر دستک دے کر ان کے قلوب کو نور ایمانی سے منور کرنے کی سعی کرنی ہے ، انہیں خود بھی اپنی کردار سازی اس طرح کرنی ہوگی کہ انہیں دیکھ کر خدا یاد آئے۔ شخصیت کو سنوارنے کا نسخۂ کیمیا یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایسے اصحابِ خیر کی مجلسوں سے وابستہ کرلیا جائے جن کی گفتگو سے ایمان میں حلاوت اور آخرت کی فکر تازہ ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں کائنات میں بکھری ہوئی بے شمار نشانیوں پر غور کرتے رہنا بھی اہل نظر اور اولوالالباب کا شیوہ ہے۔
زیرنظر کتاب ’تحریکی مکالمے‘ دراصل ایمان افروز اور تحریک افزا گفتگوؤں کا نادر مجموعہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مکالمے اللہ تعالی کی ان مخلوقات سے بھی کیے گئے ہیں جو بہ ظاہر زندگی سے عاری نظر آتی ہیں، لیکن اگر غورکیا جائے تو اہل نظر حضرات کے لیے ان کی تخلیق میں بھی زندگی کا مقصد سمجھنے کے لیے بہت سے نکات پوشیدہ ہیں۔ یہ تمثیلی مکالمے جناب شیخ جاسم محمد المطوع نے تحریر کیے ہیں اور انہیں بڑی خوب صورتی سے ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے اردو پیراہن فراہم کیا ہے۔ کائنات میں غوروفکرکی بنیادی شرط بیان کرتے ہوئے جناب فاضل مترجم رقم طراز ہیں : ’’دل اور سمع وبصر نفس کی تنگ کوٹھری میں قید رہتے ہیں تو نفس کے علاوہ کسی کی آواز نہیں سن پاتے ہیں۔ انہیں اگر نفس کی بندشوں سے آزاد کردیا جائےتو وسیع کائنات کی بہت سی چیزوں سے ہم کلام ہونے کی لذت ملتی ہے‘‘۔ (صفحۂ ۴) واقعہ بھی یہی ہے کہ اگر انسان اس کائنات کے ایک ذرے پر بھی غور کرے تو اس کا دل اللہ کی وحدانیت اور اس کی حاکمیت کی گواہی دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ربِّ کائنات نے بار بار غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ مصنف کی نظر میں یہ غوروفکرایمان میں اضافے کا سب سے اہم محرک ہے۔
اس کتاب کو مصنف نے دوحصوں میں تقسیم کیا ہے: پہلے حصے میں ایمان افروز گفتگوئیں رقم کی گئی ہیں جیسے جائے نماز سے گفتگو، دینار سے گفتگو، دنیا سے گفتگو، دیوار سے گفتگو، فکرمندی سے گفتگو وغیرہ۔ ان گفتگوؤں سے اسلام کا صحیح اور جامع تصور کسی حد تک واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ اس ضمن میں بعض منفی صفات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اس سے یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ بہ ظاہر قبیح نظر آنے والا عنوان بھی اپنے پہلو میں درسِ نصیحت رکھتا ہے۔ مثلاً ’’گفتگو غفلت سے‘‘ کا ایک مکالمہ کچھ اس طرح ہے:
’’میں: کیا الفاظ بھی بولتے ہیں؟
وہ: ہاں جب غفلت حد سے بڑھ جاتی ہے تو الفاظ بھی پکار اٹھتے ہیں۔
میں: کیا مطلب؟کیا میں غافل ہوں؟
غفلت: تمہارا دل ایمانی کیفیات سے غافل ہے، اب دیکھو تمہارے اندر مراقبے کی کمی ہے، مجاہدے کی کمی ہے، نہ احتساب ہے اور نہ توبہ وانابت ہے۔‘‘ (صفحہ۱۹)
اس گفتگو میں مصنف نے بڑی خوب صورتی کے ساتھ غفلت کے بنیادی اسباب خود ’غفلت ‘ کی زبانی بیان کردیے ہیں۔ اسی طرح ’بدی‘ ایک منفی موضوع ہے۔ لیکن بدی کچھ اس طرح ضمیر کو جھنجوڑتی ہے، ملاحظہ ہو:
’’یکایک مجھے ایک سیاہ سی مخلوق نظر آئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا: تم کون ہو؟
اس نے کہا: میں تمہاری بدی ہوں۔
میں: تم اس رات گئے کیوں آئی ہو؟
بدی: تمہیں نصیحت کرنے۔
میں: بدی اور نصیحت!!
بدوی: ہاں سمجھ دار کے لیے بدی میں بھی نصیحت کا سامان ہے‘‘ (صفحہ۲۹)
ان تمام ہی گفتگوؤں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں احتساب کا پہلو نمایاں ہےاور مکالمے حوالوں سے پر ہیں۔ جابجا سلف صالحین وائمہ مجتہدین کے اقوال وحکایات نقل کی گئی ہیں جس سے قاری کو تاریخ کی اہم شخصیات سے بھی تعارف حاصل ہوتا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ ’تحریک افزا گفتگوئیں‘ کے عنوان سے ہے۔ اس حصے میں گفتگو حوصلے سے، گفتگو قربانی سے، گفتگو جمود سے، گفتگو قلعے سے، گفتگو پھول سے، گفتگو بادل سے، گفتگو فتنہ سے بڑی معنی خیز ہیں۔ مثلاً صفحہ ۶۲پر فتنہ سے گفتگو کے زیرعنوان حضرت ابومحمد تستری کے حوالے سے یہ اہم نکتہ واضح ہوتا ہے کہ ’’اہل معرفت کا فتنہ یہ ہے کہ کسی خاص وقت پر کسی حق کی ادائیگی ان پر واجب ہو اور وہ اسے دوسرے وقت پر ٹال دیں‘‘۔ اسی طرح حرکت وعمل پر ابھارنے والی ’گفتگو جمود سے‘ بھی تحریک اسلامی کے کارکنان کے لیے خاصی اہم ہے۔ اس میں ایک فریق ’جذبات‘بھی ہے۔ جذبات اور جمود کی باہم تکرار میں داعی بھی حصہ لے کر تحریک اور جمود کے بنیادی اسباب سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ الغرض یہ کتاب داعیان اسلام اور کارکنان تحریک اسلامی کے لیے نہایت مفید اور حوصلہ افزا ہے۔ زبان نہایت آسان ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔
( محمد معاذ)
معاون مدیر، ماہ نامہ رفیق منزل، نئی دہلی
9891097859
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2017