نام كتاب : علم حدیث کا تعارف (حصّہ اوّل)
مصنف : طارق احمد مکّی
ناشر : چنار پبلی کیشنز ٹرسٹ، مائسمہ ، سری نگر، کشمیر
سنہ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات:۲۳۴ ، قیمت۱۸۰؍روپے
حدیث دین کا دوسرا بنیادی ماخذ ہے۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک جانب قرآن کریم نازل کیا، جس میں تمام بنیادی اور اصولی تعلیمات مذکور ہیں تو دوسری جانب خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث کیا اور آپ کی ذمہ داری قرار دی کہ قرآن کریم کی تبیین و تشریح کی خدمت انجام دیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ فہم دین کے لیے قرآن اور حدیث دونوں سے رہ نمائی حاصل کی جائے اور دونوں کو پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
ترکت فیکم امرین،لن تضلوا ما مسکتم بھما: کتاب اللہ و سنۃ نبیّہ (مؤطا امام مالک، ۲۶۱۸)
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، تم جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے، گم راہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت‘‘۔
بعض معترضین کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کا کام صرف اللہ کی کتاب کو اس کے بندوں تک پہنچا دینا تھا، اس لیے اصل مرجع صرف قرآن مجید ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ احادیث نبوی تیسری صدی ہجری میں مدوّن ہوئی ہیں، اس لیے ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں باتیں سراسر غلط ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا منصب قرآن مجید کی تبیین و تشریح بھی تھا، اس لیے فہم دین کے معاملے میں قرآن مجید کے ساتھ صحیح احادیث بھی حجت ہیں۔ احادیث کی کتابت و تدوین کا کام عہد نبوی ہی میں شروع ہو گیا تھا، جو بعد میں برابر جاری رہا، یہاں تک کہ تیسری صدی ہجری کے محدثین نے حدیث کے مختصر مجموعوں کو اپنی ضخیم کتابوں میں ضم کر لیا۔ اس لیے ان کی معتبرہونے پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ذمے داران قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اپنے ارکان و کارکنان اور وابستگان کی علمی و فکری تربیت کے لیے تربیت گاہ قائم کی تو اس میں احادیث کے موضوع پر بھی دروس کا اہتمام کیا اور یہ خدمت جناب طارق احمد مکی کے سپرد کی۔ اسی طرح بعد میں جب میدان دعوت میں کام کرنے والوں کی تربیت اور رہ نمائی کے لیے ’روضۃ الدعاۃ‘ کے نام سے ہفتہ وار کلاسز کا اہتمام کیا تو اس میں بھی حدیث اور اصول حدیث پر دروس کو شامل کیا اور طارق صاحب سے یہ خدمت لی۔ موصوف ماشاء اللہ جامعہ ام القریٰ سعودی عرب سے فارغ التحصیل ہیں اور انھیں اس موضوع پر اختصاص حاصل ہے۔
یہ کتاب اصلاً ’تربیت گاہ‘ اور ’روضۃ الدعاۃ‘ کے شرکاء کے لیے تیار کی گئی ہے، تاکہ زبانی دروس کے ساتھ انھیں تحریری مواد بھی فراہم کیا جا سکے۔ لیکن اسے طبع کر دینے سے، امید ہے کہ فائدہ عام ہوگا اور اس سے دوسرے حضرات بھی استفادہ کر سکیں گے۔
یہ کتاب چھ(۶) ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں علم حدیث کا تعارف کرایا گیا ہے۔ حدیث کے لغوی معنی اور اصطلاحی تعریف، حدیث اور قرآن میں فرق، حدیث اور سنت میں فرق اور دیگر متعلقہ موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔ بقیہ ابواب میں تدوین احادیث کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام ، تابعین عظام، تبع تابعین اور محدثین کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اہم شخصیات کے سوانحی حالات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ایک باب میں ’اہم اصطلاحات حدیث ‘ کا بھی تعارف کرا دیا جائے۔
(ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : امت مسلمہ کا نظام اجتماعی
مصنف : ڈاکٹر محمد رفعت
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی ،پبلشرز، نئی دہلی
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات:۱۲۰، قیمت۸۰؍روپے
زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر محمد رفعت، چیئرمین تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند کے چند مضا مین کا مجموعہ ہے، جو انھوں نے ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی میں بہ حیثیت مدیر گزشتہ کچھ عرصے میں لکھے تھے۔ ان میں امت کو خطاب کیا گیا ہے اور اسے اپنے نظامِ اجتماعی کی تشکیل و تر تیب کی تلقین کی گئی ہے۔
یوں تو دین کی تعلیمات اور احکام پر عمل کرنے کا ہر شخص فرداً فرداً مکلّف ہے، لیکن ان پر عمل آوری اجتماعیت کا تقاضا کرتی ہے۔ عبادات ہوں یا انسانی زندگی کے دیگر پہلو، سب میں اجتماعیت کی روح کارفرما ہے۔ جب امت میں اجتماعی شعور کم زور ہوا تو اس میں زوا ل آنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ وہ انحطاط کی پستیوں میں جاگری۔ اسے بامِ عروج پر پہنچانا اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کا اجتماعی شعور پیدا کیا جائے اور افرادِ امت میں اتحاد و اتفاق اورنظم و اجتماعیت پیدا کی جائے۔
ان مضامین میں اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ بیان کیا گیا ہے کہ دین انفرادی ذمے داری کے ساتھ اجتماعی سرگرمیوں کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ امت کے اجتماعی نظام کی تعمیر کی کوشش کی جائے۔ صدرِ اول میں اس پہلو پر بھرپور توجہ کی گئی تھی، لیکن بعد میں امت کا اجتماعی نظام ڈھیلا ہوتا گیا اور اس کی گرہیں ایک ایک کر کے کھلتی چلی گئیں۔ موجودہ حالات میں ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر امت کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ضرورت ہے کہ امت کا باشعور طبقہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کر ے اور ان گردابوں سے امت کو نکالنے کی کوشش کرے جن میں وہ پھنسی ہوئی ہے۔ یہ اس کی منصبی ذمے داری ہے۔
امید ہے، یہ کتاب امت میں اجتماعی شعور بیدار کرنے اور دین کے اجتماعی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے میں معاون ثابت ہوگی۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : دعوت اورجہاد— عصرِ حاضر کے تناظر میں
مصنف : ڈاکٹر محمد رفعت
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنہ اشاعت : ۲۰۱۸، صفحات: ۱۶۰، قیمت۱۰۰؍روپے
زیرِ نظر کتاب میں اقامتِ دین کے مراحل اور خاص طور پر دعوت اور جہاد کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ اصلاً ان مضامین پر مشتمل ہے جو گزشتہ چند برسوں میں ما ہ نامہ ’زندگی نو‘ نئی دہلی کے ادارتی صفحات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں ہر شخص کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی آزادی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کو بھیجا ہے او ران کے سامنے حق و باطل، صحیح و غلط اور خیرو شر کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ ساتھ ہی ان کو پوری آزادی بھی دی ہے کہ وہ جو طریقۂ زندگی اپنے لیے بہتر سمجھیں اسے اختیار کرسکتے ہیں، لیکن یہاں ہمیشہ طاقت وروں نے دوسرو ں پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کی ہے، کم زوروں کو دبا کر رکھا ہے اور ان پر اپنا ارادہ و اختیار مسلط کیا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے اپنی زندگی کے تمام معاملات میں اس کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔ وہ اہل ایمان کی ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ ا ن تک اللہ کا پیغام پہنچائیں، اس کے لیے مختلف تدابیر اور ذرائع اختیار کریں اور انھیں آزادا نہ ماحول میں غور و فکر کے مواقع فراہم کریں۔ اسی لیے جو لوگ اس راہ میں مزاحم بنتے ہیں اور دوسرے انسانوں پر جبر اور ظلم روا رکھتے ہیں، اسلام اپنے ماننے والوں کو ان کا مقابلہ کر نے اور ان کے جبر کو ختم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہی اسلام میں جہاد کی مشروعیت کی بنیاد ہے۔ موجودہ دور میں ’جہاد‘ کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے دہشت گردی کے مترادف بنا دیا گیا ہے، حالاں کہ اگر درست اور وسیع تناظر میں اس پر غور کیا جائے تو کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔
اس کتاب کے مضامین میں دین کی اقامت اور غلبہ کے طریقۂ کار پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ فاضل مصنف نے دعوتِ دین کی ضرورت و اہمیت، اس کے نکات اور طریقۂ کار، مخاطبین کی نفسیات اور دعوتِ حق کو قبول نہ کرنے کے اسباب، عصر حاضر کے مزاج اور اسلوبِ دعوت اور معاصر دنیا میں دعوت کے محاذ پر اظہارِ خیال کیا ہے اور آخر میں اس سے بحث کی ہے کہ اس راہ میں جہاد کی ضرورت کب پیش آ تی ہے؟ اور اس کے کیا شرائط، آداب اور حدود ہیں؟
امید ہے، اس کتاب سے عصری تناظر میں دعوت و جہاد کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : تصوف۔ ایک تحقیقی مطالعہ
مصنف : پروفیسر اشتیاق احمد ظلی
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی ، پبلشرز، نئی دہلی
سنہ اشاعت: ۲۰۱۸، صفحات :۱۲۸، قیمت/- ۸۲ روپے
تصوف کے بارے میں تائیدوحمایت اوررد وقدح ، دونوں طرح کا لٹریچر موجود ہے۔ کچھ حضرات اسے روح کی تربیت اورنفس کے تزکیہ کا ایک پاکیزہ ذریعہ قراردیتے ہیں، تو کچھ دوسرے حضرات اسے غیر اسلامی اورگم راہ کن نظریات واعمال کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے۔ تصوف کا آغاز روحانی تربیت کے ایک ذریعے کے طورپر ہواتھا، لیکن آہستہ آہستہ اس میں ایسی چیزیں شامل ہوتی گئیں جن کا کتاب وسنت سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔مخلص اورنیک صوفیہ نے ان چیزوں کو تصوف سے خارج کرنے کی کوشش کی ، لیکن انھیں خاطر خواہ کام یابی نہ مل سکی۔ درست اورقابل ِ ستائش رویہ یہی ہے کہ دین کے معاملے میں ہرچیز کو کتاب وسنت کی کسوٹی پرپرکھا جائے۔ جو چیز یں اس پر کھری اتریں انھیں قبول کرلیا جائے اورجن چیزوں کا کھوٹ ظاہر ہوانھیں رد کردیا جائے۔
پروفیسر اشتیاق احمد ظلی اپنی علمی وجاہت ، فن تاریخ میں بلوغ، اسلامیات پردست رس اورانتظامی صلاحیتوں کی بناپر شہرت رکھتے ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ تاریخ میں طویل تدریسی خدمات کی انجام دہی کے بعد سبک دوش ہوئے ہیں ۔ ادارئہ علوم القرآن علی گڑھ کے صدر اور اس کے ترجمان شش ماہی مجلہ علوم القرآن کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ کے ناظم ہیں۔ ان کی نظامت میں دارالمصنیفین برابر ترقی کی راہ پر گام زن ہے۔ ادارئہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ کی مجلس منتظمہ کےرکن ہیں۔
ادارئہ تحقیق کے ترجمان سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ کے اجرا کے وقت (۱۹۸۲)ہی سے پروفیسر ظلّی اس کے قلمی معاونین میں شامل ہیں۔ تصوف کے موضوع پران کے پانچ (۵) مضامین اس میں شائع ہوئے ہیں ، جو درج ذیل ہیں:
۱-برّصغیر میں اشاعت ِ اسلام میںصوفیۂ کرام کا حصہ ، جولائی۔ ستمبر۱۹۸۵ء
۲-تصوف اورغیر مسنون عبادات، جنوری-مارچ ۱۹۸۳ء
۳-تصوف میں پیرکاتصور، اپریل -جون ۱۹۸۲ء
۴-حکومتِ وقت سے مشایخ چشت کے روابط، جولائی-ستمبر۱۹۸۳ء
۵-مشایخ ِ چشت اورکسبِ معاش، اپریل -جون ۱۹۸۸ء
انھوں نے اس موضوع پرمزید مضامین لکھنے کا ارادہ کیا تھا ، لیکن افسوس کہ بعد میں بڑھتی ہوئی انتظامی مصروفیات کی وجہ سے وہ اس کے لیے وقت نہ نکال سکے۔ زیرِ نظر کتاب کی صورت میں ان مضامین کا مجموعہ شائع کیا جارہاہے۔اشاعت سے قبل موصوف سے خواہش کی گئی تھی کہ ممکن ہوتو ان پرنظرثانی کرلیں، لیکن موصوف اس کے لیے وقت نہ نکال سکے، البتہ انھوں نے ان مضامین کو جوں کا توں شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔
ان مضامین میں تصوف کے بعض پہلوئوں کا تنقیدی مطالعہ کیاگیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب صوفیہ کی خدمات کا بالکلیہ انکار نہیں ہے۔ نقد وتجزیہ سے تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں۔ ان مضامین کا مطالعہ اس حیثیت سے کیا جانا چاہیے۔
(محمد رضی الاسلام ندوی)
نام كتاب : محروم و مظلوم طبقات اور مسلمان
مصنف : محمد اقبال ملاَّ
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سنۂ اشاعت : دسمبر ۲۰۱۷ء،صفحات،۸۸،قیمت :۔/۶۵ روپے
وطنِ عزیز (ہندوستان) میں دلت سماج اور کچھ دیگر طبقات عرصۂ دراز سے اپنے ہی ہم وطن بھائیوں کے ظلم سہتے چلے آرہے ہیں۔ اس منظر نامہ کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ظلم کے اس رویہ کو مذہبی جواز فراہم کردیا گیا ہے۔ اس نازک صور ت حال میں امتِ مسلمہ کے ہر فرد کا فریضہ ہے کہ محروم و مظلوم طبقے کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہوئے ظالم کا ہاتھ پکڑنے کی استعداد بھر سعی و جہد کرے۔ اس سلسلے میں مظلوم اور حاشیہ بردار سماج کا مطالعہ ضروری ہے، تاکہ ہم ان کے حقیقی مسائل اور پریشانیوں سے واقف ہوسکیں اور ان تک اسلام کی دعوت کما حقہ پہنچا کر شہادت حق کی ذمہ داری ادا کرسکیں۔
زیرِ نظر کتاب ’محروم و مظلوم طبقات اور مسلمان‘ ہندوستان میں رہنے والے اس سماج سے ہمیں متعارف کراتی ہے جو مختلف عنوانوں کے تحت مسلسل ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس کتاب کے مصنف جناب محمد اقبال ملا(سکریٹری جماعت اسلامی ہند) دعوتِ دین کے میدان میں خاصا تجربہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے مظلوم طبقات اور دلتوں کی حالتِ زار کا نقشہ فاضل ان الفاظ میں کھینچی ہے:
’’ملک میں دلت کہلانے والے مظلوم طبقات کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے مسائل کے حل کی کوششیں مختلف این جی اوز (NGOs)، فلاحی تنظیمیں اور حکومتیںکرتی ہیں، لیکن محدود فائدوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ اصل مسائل جوں کے توں باقی ہیں، بلکہ ان کی سنگینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں، استعمارانہ اسکیموں اور غریب مخالف فیصلوں کی وجہ سے صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ برسرِ اقتدار مختلف حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ طویل ہے۔‘‘ (پیش لفظ، ص۵)
اس کتاب کا پہلا باب قاری کو دلت سماج کا تعارف کراتا ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے محروم و مظلوم طبقات کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاحوں کا تذکرہ کیا ہے۔ مثلاً ہریجن، شودر اور دلت۔ ان میں سے بعض اصطلاحیں ایسی ہیں جن میں حقارت کا پہلو نمایاں ہے۔ ان میں سے ’دلت‘ کی اصطلاح رائج ہوگئی، جس کا مطلب ہے ’دبا کچلا ہوا‘۔ (ص ۱۱) اس باب میں مصنف نے ان اصطلاحو ں کے رواج پانے کی وجوہ اور خاص طور سے لفظ ’دلت‘ کے استعمال کی وجوہ اور جواز پر روشنی نہیں ڈالی ہے، نیز ان اصطلاحوں کے تعلق سے ایک داعی کا کیا موقف ہونا چاہئے یہ اہم سوال بھی زیرِ بحث نہیں لایا گیا ہے، جس سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔
دوسرا باب محروم و مظلوم طبقات کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس موضوع کے تحت مصنف نے قدیم ہندوستان میں آریوں کی آمد کا ذکر کیا ہے اور ذات پات پر مبنی نظام کا مختصر سا نقشہ کھینچا ہے۔ یہ باب بھی مختصر ہے اور قاری کو تشنگی کا احساس دلاتا ہے۔
تیسرا باب ’اہم حقائق‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ اس میں بہت اہم مباحث زیر بحث لائے گئے ہیں، مثلاً:’’ غلط پروپیگنڈا، یعنی یہ غلط فہمی کہ دلت سماج کی موجودہ حالت زار کے ذمہ دار مسلما ن ہیں۔‘‘ (ص۱۹) اور یہ کہ مسلمان بادشاہوں نے اپنے دورِ حکومت میں ان طبقات پر مظالم ڈھائے۔ (ص ۱۹) فاضل مصنف نے اصل حقیقت اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا بجا طور پر یہ احساس ہے کہ دلت سماج کا اصل مسئلہ یعنی (خودی، عزت نفس، مساوات اور سماجی انصاف کا حصول) اپنی جگہ برقرار ہے ۔ (ص۲۰)
چوتھے باب میں مصنف نے مظلوم طبقات سے روابط کی اہمیت قرآن حکیم اور اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں واضح کی ہے۔ اس سلسلے میں فسادات کے موقع پر مظلوم طبقات کے استعمال کا ذکر بھی کیا ہے۔
پانچواں باب قاری کو محروم طبقات کے چند مفکرین سے روشناس کراتا ہے۔ اس بیانیہ میں فاضل مصنف نے ڈاکٹر امبیڈکر، پتت پاون داس اور راماسوامی نائیکر کے خیالات نقل کیے ہیں۔
کتاب کا چھٹا باب ’ذاتوں کی کش مکش اور مسلمان‘ کے نام سے قائم کیا ہے۔ اس باب میں مصنف نے قرآن کی تعلیمات اور اسوئہ رسولؐ کی روشنی میں ذاتوں اور نسلوں کے درمیان قائم مصنوعی دیواروں کو ڈھا دینے کا نسخہ فراہم کیا ہے۔ مصنف کا شدید احساس ہے کہ ان دیواروں کو زمین بوس کرنے کے تمام فارمولے اسلام کے سوا بے کار ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں خود یقین ہونا چاہیے کہ اسلام ہی واحد حل ہے۔ یہ خدائی نسخہ ہے۔ باقی فارمولے انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ناکامی ظاہر ہے۔‘‘ (ص ۴۶)
کتاب کا اگلا باب محروم طبقات کی اہم شخصیات کی زندگی کے حالات اور ان کی سماجی اصلاحات کی جدوجہد کا مفصل بیانیہ ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے حوالوں کے ساتھ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر جیوتی با پھولے، شاہو مہراج، راما سوامی نائیکر اور کانشی رام جیسے مصلحین کا ذکر کیا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے جذبات اور احساسات کوپیش کیا ہے۔
کتاب کا آخری باب داعیانِ اسلام کی رہ نمائی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اس باب میں مصنف نے عملی اقدامات کی نشان دہی کی ہے۔ مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ محروم و مظلوم طبقات سے مسلسل روابط رکھے جائیں اور اسلام کا پیغام قولی اور عملی شہادت کے ذریعہ ان تک پہنچادیا جائے۔ بہ طور ضمیمہ پونہ پیکٹ کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
اس اہم کتاب کی زبان سادہ اور آسان ہے۔ کتاب حوالوں سے بھرپور ہے۔ البتہ کہیں کہیں کتا بت کی غلطیاںموجود ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ دعوتی حلقوں میں یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی ۔
(محمد معاذ)
معاون مدیر رفیق منزل
9891097859
مشمولہ: شمارہ اپریل 2018