نقد و تبصرہ

نام كتاب           :            درس قرآن كي تیاری کیسے ؟

مصنف               :             خلیل الرحمٰن چشتی

ناشر                       :             مکتبہ تفہیم، اسلام آباد، اننت ناگ،۱۹۲۱۰۱ ( جموں و کشمیر)

سنہ اشاعت: ۲۰۱۸،صفحات:۱۰۴،قیمت:۸۰ روپے

ایک زمانہ تھا جب عوام کو قرآن پڑھنے ، سننے اور سمجھنے سے روکا جاتا تھا ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب ان کا تعلق قرآن سے بڑھ رہا ہے  ۔ وہ قرآن کی تعلیمات جاننا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ دینی پروگراموں میں قرآن کا درس دینے کا بھی اہتمام کیا جانے لگا ہے ۔

بعض حضرات سوال کرتے ہیں کہ قرآن کا درس کیسے دیا جائے ؟ اس کے لیے کیسے تیاری کی جائے ؟ کن آیات کا انتخاب کیا جائے ؟قرآنی آیات کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے کن کتابوں سے مدد لی جائے؟ اس سلسلے میں پاکستان کے عالم دین مولانا خلیل الرحمٰن چشتی کی کتاب’درس قرآن کی تیاری کیسے‘ ؟ مفید ہے۔

مولانا خلیل الرحمٰن چشتی قرآنی تعلیمات کو عام کرنے اور اسے عوام کے لئے قابل فہم بنانے کا مشن چلا رہے ہیں ۔ اس موضوع پر انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ، مثلاً قواعد زبان قرآن (دوجلدیں) ، قرآنی سورتوں کا نظم جلی ،  آسان اصول تفسیر ، قیادت اور ہلاکت اقوام ، سورہ یٰسین ، توحید اور شرک ، رسا لت اور منصب رسالت ، آخرت اور فکر آخرت ، اسلام میں نجات کا تصور اور عقیدۂ شفاعت ، تزکیہ نفس وغیرہ ۔

یہ کتاب (درسِ قرآن کی تیاری کیسے؟)  اپنے موضوع پر اختصار کے ساتھ مفید معلومات پیش کرتی ہے ۔ ابتدا میں مصنف نے بتایا ہے کہ قرآن کا درس دیتے وقت کن بنیادی اصولوں کی رعایت کی جانی چاہیے ؟ فہم قرآن کے بنیادی اصول کیا ہیں؟ درس قرآن کے لیے مقرر وقت کو کس طرح تقسیم کیا جائے ؟ کسی مخصوص سورت کا درس دینا ہو تو اس کے لیے کن باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے؟ اور اگر کسی موضوع پر درس قرآن دینا پیش نظر ہو تو اس کی تیاری کیسے کی جائے ؟ انہوں نے چند موضوعات کی بھی نشان دہی کی ہے ، جن پر درس قرآن دیا جا سکتا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان موضوعات پر مواد قرآن کی کن آیات میں مل سکتا ہے؟  انہوں نے درس قرآن دینے والوں کے لیے مفید کتابوں کی ایک فہرست بھی دی ہے ۔ چند کتبِ تفسیر اور علوم قرآن کی بعض اہم کتابوں کا تعارف کرایا ہے ۔ آخر میں چند موضوعا ت کی نشان دہی کرکے بتایا ہے کہ ان پر مواد تین تفسیروں ( مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن ،  مولانا امین احسن اصلاحی کی تدبر قرآن اور سید قطب کی فی ظلال القرآن) میں کہاں مل سکتا ہے؟

درس قرآن کی تیاری کے لیے یہ ایک بہت مفید کتاب ہے ۔ پاکستان میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ۔  ہندوستان میں اب اسے ’ مکتبہ تفہیم‘، اننت ناگ ، جموں کشمیر نےشائع کیاہے ۔ امید ہے ، اس سے دینی حلقوں میں بڑے پیمانے پر استفادہ کیا جائے گا۔

(محمد رضی الاسلام ندوی)

نام كتاب           :            اسفارِ اربعہ

مصنف               :            صدر الدین شیرازی (ملّا صدرا)

مترجم                   :             مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

ناشر                       :             شان  پبلی کیشنز ، طاہر ولا ، یوسف گوڑہ، حیدرآباد ۔۴۵

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۸ء،صفحات:۸۶۴،     قیمت: ایک ہزار چھ سو پچاس(۔؍۱۶۵۰ )روپے

ملا صدرالدین شیرازی (م1050/ھ1640ء)کی تصنیف ’ الحکمة المتعالیة في الاسفار العقلیة‘ ، ’جواسفار اربعہ‘ کے نام سے مشہور ہے ، عربی زبان میں فلسفہ کی ایک ادقّ ، وقیع اور بلند پایہ کتاب ہے – اس کا شمار فلسفہ کی امہات الکتب میں ہوتا ہے ۔ یہ ایران میں فلسفہ کے نصاب میں شامل رہی ہے – ہندوستان میں بھی اسے گزشتہ صدی کے اوائل میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کے شعبۂ فلسفہ و منطق کے نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے دہلی کے دورانِ قیام علوم شرقیہ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے حاصل کیے اور فلسفہ و منطق مولانا عبدالسلام نیازی سے پڑھا  ، جو فلسفہ کی گہری معلومات رکھتے تھے ۔ مولانا مودودی کو ترجمہ نگاری میں بھی مہارت حاصل تھی  ۔ انھوں  نے انگریزی اور عربی دونوں زبانوں سے اردو میں ترجمہ کیا ہے  ۔ جن کتابوں کا انھوں نے  عربی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا ان میں مصری دانش و ر قاسم امین کی المرأۃ الجدیدة‘ ، مصطفی کامل مصری کی المسئلۃ المشرقية‘ ،  ابن خلکان کی تاریخ سے مصر کے فاطمی خلفاء سے متعلق حصہ اور شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی کی’ ‘حجۃ اللہ البالغة ‘ کے منتخب حصوں کا ترجمہ (جو ان کے مجموعۂ مضامین ’ ‘تفہیمات‘ جلد چہارم میں شامل ہے) قابل ذکر ہیں ۔ اسفار اربعہ کے ترجمہ کے منظر عام پر آنے سے مولانا کے تراجم میں ایک اور کتاب کا اضافہ ہوگیا ہے ۔

حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کے آخری نظام ہفتم میر عثمان علی خان کے عہد (1911-1948) میں جامعۂ عثمانیہ کا قیام 1919 میں عمل میں آیا تھا  ۔ اس کا ذریعۂ تعلیم اردو رکھا گیا تھا ۔اس کے لیے ضروری تھا کہ تمام علوم و فنون کی کتابیں اردو میں مہیا کی جائیں ، طبع زاد کتابیں  تالیف کی جائیں اور دیگر زبانوں سے اہم علمی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کروایا جائے ۔ چنانچہ جامعۂ عثمانیہ کے قیام سے پہلے ہی 1917 میں ‘سررشتہ تالیف و ترجمہ جامعہ عثمانیہ سرکار عالی ‘ قائم کیا گیا ، نیز  ایک مجلس وضع اصطلاحات  کے لیے بھی قائم کی گئی ، جو مختلف علوم و فنون میں اصطلاح سازی میں معاونت کرتی تھی ۔ اس ادارہ کے ذریعے  جو تالیفات وتراجم دارالطبع جامعہ عثمانیہ سے شائع ہوئے ان کی تعداد 400 سے زائد ہے اور تقریباً ایک لاکھ اصطلاحات مختلف علوم و فنون کی وضع کی گئیں ۔مولانا مودودیؒ کے بڑے بھائی جناب ابوالخیر مودودی دار الترجمہ سے وابستہ ہوکر تاریخ اسلام کی کتابوں کا ترجمہ کر رہے تھے ۔ ان کی ترجمہ کردہ کتابوں میں تاریخ کامل ابن اثیر ، تاریخ یعقوبی ، تحفۃ الامراء  فی تاریخ الوزراء اور کتاب الخراج قابل ذکر ہیں ۔ غالباً مولاناً مودودی نے اپنے بھائی کی ترغیب پر دار الترجمہ کے لیے ترجمہ کا  کام کیا تھا ۔

دار الترجمہ کے تحت’ ‘اسفار اربعہ‘ کے پہلے حصے کا ترجمہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے کیا تھا  ، جو دو جلدوں میں 1941 اور 1942 میں شائع ہوا تھا ۔دوسرے حصے کا ترجمہ مولانا مودودی نے کیا تھا ، جو شائع نہ ہو سکا تھا ۔ مولانا  کے ترجمے پر مولانا گیلانی نے نظر ثانی کی تھی ۔ یہ  ترجمہ مولانا مودودی نے 1932 میں کیا تھا ۔ جب ان کی عمر 28 ، 29 برس ہوگی ۔ اسفار اربعہ  کے حصہ دوم کا ترجمہ کرنے کا ذکر مولانا نے اپنی ایک خودنوشت میں کیا ہے ، جو انہوں نے 1932 کو قلم بند کی تھی ۔  دوسروں کے استفسار پر مولانا نے  اپنے مکتوبات میں بھی اس کی توثیق کی ہے ۔تلنگانہ آرکائیو کے ریکارڈ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے ۔

1948میں انڈیا کے پولیس ایکشن کے ذریعے سلطنت آصف جاہی کا سقوط ہوا ۔  اس کے بعد 1954  میں جامعہ عثمانیہ یوجی سی کے تحت  عثمانیہ یونی ورسٹی بن گئی ، اس میں مذہبی تعلیم کا خاتمہ کر دیا گیا ، ذریعۂ تعلیم کو اردو سے انگریزی کردیا گیا ، چنانچہ دارالترجمہ کی ضرورت باقی نہ رہی ، اس بنا پر اسے ختم کردیا گیا  ۔ کچھ دنوں کے بعد  یکایک دارالترجمہ کے ذخیرے میں آگ لگی (یا لگادی گئی)جس سے وہاں محفوظ  نصف سے زائد مسودات اور دیگر اہم دستاویزات کا ریکارڈ جل کر خاکستر ہو گیا – جو مسودات بچ گئے، بعد میں انہیں بھی محفوظ نہ رکھا جا سکا ۔

ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی نے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز  ‘ عثمانیہ یونی ورسٹی سے مولانا مودودی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ہے  ۔ انہوں نے مولانا کی ابتدائی تحریروں کو مدوّن کیا ہے ، جو اخبار مسلم(1921 تا 1923) اور الجمعیة (1925 تا 1928)میں شائع ہوئی تھیں ۔ انہوں نے مولانا مودودی کے ترجمہ اسفار اربعہ‘ کو تلاش بسیار کے بعد دریافت کیا  ۔ یہ مسودہ 90 برس قدیم تھا ۔ روشنائی پھیکی اور دھندلی پڑ گئی تھی ۔ املا قدیم طرز پر تھا  ۔ ایک برس میں کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ ، تصحیح اور طباعت کے مراحل طے کیے ۔

مولانا مودودی کے اس ترجمے سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں      :

(۱)  اس سے مولانا کی عربی دانی کا ثبوت ملتا ہے ۔ اس وقت ان کی عمر 29 برس تھی ۔ اس عمر میں انہوں نے فلسفہ کی ایک ادقّ اور معیاری کتاب کا عربی سے اردو میں ایسا رواں ترجمہ کیا ہے کہ اس میں  ترجمہ پن بالکل دکھائی نہیں دیتا۔

(۲) اس کتاب میں مولانا کے جو حواشی ہیں وہ علوم عقلیہ میں ان کی گہرائی ، وسعت اور مہارت کا پتہ دیتے ہیں۔

(۳) اس سے مولانا کے انداز ترجمہ کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ وہ لفظی ترجمہ کے بجائے بامحاورہ آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ، جس میں مفہوم و مدّعا  کی ادائیگی مقصد اور روح کے ساتھ ہوتی ہے ، نیز انشا اور ادب کے قواعد کا پورا لحاظ ہوتا ہے۔

اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی  قابل مبارک باد ہیں  اور جناب احمد ابو سعید صاحب بھی ، جنہوں نے اس کتاب کو اپنے اشاعتی ادارہ شان پبلیکیشنز حیدرآباد سے شائع کیا۔

(محمد رضی الاسلام ندوی)

نام كتاب           :            گلستانِ الفاظ و معانی

مصنف               :            ڈاکٹر ف۔ عبدالرحیم

ناشر                       :             اسلامک بک فاؤنڈیشن ۔ ۱۷۸۱۔ حوض سوئی والان ، نئی دہلی ۔ ۲

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۸، صفحات: ۱۴۴، قیمت:۱۵۰ روپے

جس طرح انسانوں کا سفر ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہوتا ہے ، وہ وہاں کی بود و باش اختیار کرلیتے ہیں ، وہاں کی زبان بولنے لگتے اور وہاں کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں ، اسی طرح الفاظ کا بھی سفر ہوتا ہے  وہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے ، ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہیں اور وہاں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔ یہ لسانیات ( Linguistics ) کا ایک دل چسپ موضوع ہے۔

ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم کو اس موضوع سے گہری دل چسپی ہے۔  2003 میں ان کی کتاب ’پردہ اٹھا دو ں اگر چہرۂ الفاظ سے‘ اسلامک فاؤنڈیشن ٹرسٹ چنئی سے منظرِ عام پر آئی تھی تو علمی حلقوں میں اس کی کافی پذیرائی ہوئی تھی۔    بعد میں بیت الحکمت لاہور سے بھی اس کی اشاعت ہوگئی تھی  اب اسی طرز کی ان کی دوسری کتاب’ گلستانِ الفاظ و معانی‘ کے نام سے اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم(ولادت 1933)کا تعلق ہندوستان کی ریاست تامل ناڈو کے شہر وانم باڑی سے ہے۔ انھوں نے جامع ازہر قاہرہ سے پی ایچ ڈی کی ہے ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں عرصہ تک تدریسی خدمت انجام دی ہے  دروس اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقين بھا (3 جلدیں) عربی سکھانے والی ان کی مقبول تصنیف ہے۔  عربی زبان و ادب میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدرِ جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔  ان دنوں موصوف کنگ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس، مدینہ منورہ میں ٹرانسلیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں ۔

اس کتاب کے شروع میں 40 صفحات پر مشتمل مبسوط مقدمہ ہے ، جس میں الفاظ کے مختلف زبانوں میں پہنچنے کی وجہ سے ہونے والی تبدیلیوں سے بحث کی گئی ہے  اس کے بعد  62 الفاظ کی تحقیق پیش کی گئی ہے ۔ذیل میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے، جس سے ان کے اندازِ تحقیق کا اظہار ہوجائے گا۔  انھوں نے لفظ ’سمینار‘ کی تحقیق  کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’یہ انگریزی لفظ (جس کا املا Seminar ہے) آج کل اردو میں بھی بولا جاتا ہے۔  اس کا معنیٰ علمی مذاکرہ ہے ، یعنی کسی موضوع پر سیر حاصل بحث کرنے کے لیے اس فن کے ماہرین کا اجتماع  ابتدا میں ا س لفظ کا استعمال یورپی یونی ورسٹیوں میں ہوتا تھا اور اس کا اطلاق اونچے درجے کے طلبہ کے ایسے اجتماعی مطالعہ پر ہوتا تھا جو کسی پروفیسر کی نگرانی میں انجام پائے ۔        اکثر علمی اصطلاحات کی طرح یہ لفظ بھی لاطینی زبان سے ماخوذ ہے۔ اس زبان میں اس لفظ کا بنیادی معنیٰ ہے نرسری ، یعنی باغ کا وہ حصہ جہاں بیج اگائے جاتے ہیں۔ یہ لفظ Semen سے ماخوذ ہے ، جس کا معنیٰ ہے بیج۔ انگریزی اور دوسری زبانوں میں یہ لفظ از روئے مجاز منی کے لیے بولا جاتا ہے  (ص90_91-)

( محمد رضی الاسلام ندوی )

نام كتاب           :            نشاطِ غم

شاعر                     :            زاہد اعظمی عمری

ناشر                       :             ادارہ تحقیقات اسلامی، جامعہ دارالسلام ، عمر آباد ، ٹمل ناڈو

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۸، صفحات: ۱۸۴، قیمت:۱۲۵ ؍روپے

شعر کمال فن کا عکاس ہوتا ہے ۔ دیگر اصنافِ ادب کے بالمقابل یہ ایک مشکل صنف ہے ۔ اس میں فنی خوبیوں کے ساتھ احساسات وجذبات کو حسنِ بیان کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی شاعر کو اپنی ذہانت و ذکاوت سے کام لے کر اپنے خیال کونیر نگی حسن دینا ہوتا ہے ۔ یہاں ایک ہی بات اور ایک ہی موضـوع کوسو طرح سے باندھنے اوربیان کرنے کا ملکہ درکار ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شاعر بیان کی انفرادیت ، خیالات کی رنگا رنگی اور تخیل پرواز سے محروم ہوتو پھر اس کا مقدر گوشۂ گمنائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ شاعر کو جہاں مطالعۂ ذات درکار ہوتا ہے وہیں اس کے لیے مطالعۂ کائنات بھی ضروری ہے ۔ کوئی بھی شاعر صرفِ ِذوقِ سخن کی وجہ سے اچھا شاعر نہیں ہوسکتا جب تک اس کی فطرت میںوہ اپنی صلاحیت موجود ہو جس کا تذکرہ اوپر آیا ہے ۔

فن شعر گوئی سے کئی طرح کے کام لیے جاتے ہیں ۔ جہاں اس میں تذکرۂ بوالہوسی کو محسوس کیا جاتا ہے ،و ہیں اس میں گل وبلبل اورعاشق ومعشوق کا تذکرہ بھی خوب ہوتا ہے ، جب کہ یہ فطرت کی زبان ہے تو ہمیں اس سے فطرت کی بات کرنی چاہیے۔ مثبت فکرو خیال کی ترویج کے لیے بھی یہ فن بے حد کار گر ہے ۔ اس سے پیغام ربانی کی ترسیل کا کام بھی لیا جاسکتا ہے اورلینے والوںنے لیا بھی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی تعداد کم ہے ۔ ان میں علامہ ابوالمجاہد زاہد ، حفیظ میرٹھی ، عزیز بگھروی  اور شفیع  مونس وغیرہ کے نام قابل ذ کر ہیں ۔ زاہد اعظمی کی شاعری میں بھی ہمیںمثبت افکار وخیالات کا عکس نظر آتا ہے ۔  ان کا غم ، غمِ جاوداں ہے  اوریہ بڑا کمال ہے کہ کسی کواپنے محبوب کا غم زندگی کا مژدہ معلوم ہو ۔ چند اشعار دیکھیے:

تنہائی میں یاد ان کی آتی ہے مجھے اکثر

تنہائی میں بھی زاہدؔ، رہتا ہوں میں کم تنہا

ویرانۂ ہستی میں زاہدؔ میں ہوں اکیلا

ہے کون جومجھ کو مری منزل کا پتا دے

جس طرح انسانی ز ندگی پر موسموں کا اثر ہوتا ہے اسی طرح انسانی فکر پر ملکی ، غیر ملکی، سیاسی، معاشی حالات اور واقعات اثر انداز ہونے ہیں۔زاہد ؔ اعظمی کے یہاں ہمیں اس کا اظہار ملتا ہے ۔ ظاہر ہے ، انسان ماں کے پیٹ سے تنہا اور آزاد پیدا ہوتا ہے ۔ لہٰذا آزادی اس کا فطری حق ہے ۔ وہ کسی طور اپنی آزادی کوغلامی کا طوق نہیں پہنانا پسند کرے گا ۔ مگر دار فانی میں سیاسی بازی گری کے نتیجے میں مثبت فکر اور اسلام پسندوں کو ہمیشہ سے پابند سلاسل کیا جاتا رہا ہے ۔ شعر ا وادبا نے اس کی مخالف کی ہے ۔ زاہد اعظمی کے کلام میں اس رنگ کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

ہرگام پہ بندش ہے ، کیسی ہے یہ آزادی

کانوں میں مرے اب تک ، کیوں شورِ سلاسل ہے

رلاتی ہے مجھے گل کی یہ بے بسی زاہدؔ

چمن میں کھل کے بھی کھلتا نہیں کسی کے لیے

’نشاطِ غم ‘ میں شاعر نے اپنے فکر ی اورفنّی کمال کا جگہ جگہ احساس دلایا ہے ۔ اس مجموعہ میں کئی رنگ کی شاعری ہے ۔ کہیں غم کی باتیں ہیں توکہیں داستانِ عشق ہے ، کہیں ملک میں تعصب کا ذ کر ہے تو کہیں زندگی کی بے ثباتی کونظم کیا گیا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ کئی شعرا کی شاعری کا اس میں  عکس ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا تتبع کیا گیا ہے ،  خیالات ،  بحر اور زمین میں جیسے اقبال ، فیض، امیر مینائی، ابوالمجاہد زاہد وغیرہ۔مگر  یہ ایک خوب صورت کا وش ضرور ہے ۔ مجموعہ عمدہ طباعت کی مثال ہے ۔ اس کے لیے شاعر اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

(خان محمد رضوان)

[email protected]

Mob:9810862283

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223