نقدو تبصرہ

نام كتاب           :            تعمیر انسانیت اورقرآن

مصنف               :            محمد صابر حسین ندوی

ناشر                       :            فاران ایجوکیشنل اینڈ چیری ٹیبل ٹرسٹ، پوچری ، دھنباد (جھارکھنڈ)

 Email:[email protected],Mob:8120412392

 سنۂ اشاعت     :            ۲۰۱۸،صفحات:۱۰۰ ،قیمت:۷۰؍ روپے

قرآن کریم کا موضوع ’انسان ‘ ہے ۔ اس میں انسانی مشکلات ومسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔ جس زمانے میں یہ نازل ہوا اس میں انسان اپنے خالق ومالک کوبھولے ہوئے تھے ، طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھےاورایک دوسرے پرظلم کرتے تھے۔ قرآن نے انہیں ان کےرب سے جوڑا، ان کے درمیان عدل ومساوات قائم کی اورانہیں زندگی گزارنے کے اعلیٰ طریقے بتائے، چنانچہ ان کی زندگیوں میں انقلاب آگیا اور وہ قوموں کے رہ نما بن گئے ۔ آج دشمنانِ اسلام طرح طرح کے غلط  الزامات عائد کررہے ہیں، قرآن کودہشت گردی اورفرقہ واریت پر ابھارنے والی کتاب کہہ رہے ہیں ۔ دوسری طرف مسلمانوں کا بھی اس سے تعلق کم زور ہوگیا ہے ۔ وہ اسے طاقوں میں سجاتے اور اس کی آیات کے تعویذ بناتے ہیں ، لیکن اپنی زندگی میں اس سے رہ نمائی حاصل نہیں کرتے۔ ضرورت ہے کہ دنیا کے سامنے قرآن مجید کا صحیح تعارف کرایا جائے اورمسلمانوں کا بھی اس سے گہرا تعلق استوار کیا جائے۔ زیر نظر کتاب میں اسی موضوع پرشرح وبسط کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے مؤلف ریاست کرناٹک کے ایک مدرسہ جامعہ ضیاء العلوم کنڈ لور میں استاد ہیں۔ انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد سے بھی اختصاص کیا ہے۔ علمی وتصنیفی ذوق ر کھتے ہیں۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کےسالانہ اجلاسوں میں پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں انہوںنے تعمیر انسانیت کے موضوع پرقرآنی تعلیمات پیش کی ہیں۔ابتدا میں نزول قرآن کے زمانے کا نقشہ کھینچا ہے ۔ یہ بیان کیا ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ انسانوں کی رہ نمائی کے لیے نازل ہونے والی دیگرآسمانی کتابیں تحریف کاشکار ہوگئیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا خاص انتظام کیا ہے ۔ عقائد، عبادات، معاشرت ، اخلاق کے بارے میں دین کی بنیادی تعلیمات کی وضاحت کی ہے ۔ مصنف کے پیش نظر کتب تفسیر ، شروح حدیث اورقدیم وجدید مراجع ومصادر بھی رہے ہیں اورانہوں نے ان سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے اوران کے حوالے دیے ہیں۔

امید ہے ، اس کتاب کو مقبولیت حاصل ہوگی اور اس سے فائدہ اُٹھایا جائےگا۔

(محمد رضی الاسلام ندوی)

نام كتاب           :            محبت رسولؐ اور اس کے تقاضے

مصنف               :            ولی اللہ سعیدی فلاحی

ناشر                       :            ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس ، F-155، فلیٹ نمبر۲۰۴، ہدایت اپارٹمنٹ ،

 شاہین باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔۲۵ موبائل :9891051676

 سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۸،صفحات:۲۱۶ ،قیمت:۱۶۰؍ روپے

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کی کسوٹی ہے ۔ جوشخص آپؐ سے محبت اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرے اس کے ایمان کا کوئی اعتبارنہیں۔ ایک حدیث میںہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کومخاطب کرکے ارشادفرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص اِس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میںاس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔ (بخاری:۱۵، مسلم:۴۴) محبتِ رسول کا دین میں کیا مقام ہے؟ اس کے کیا حدود ہیں؟ اورایک مومن سے اس کے کیا تقاضے مطلوب ہیں؟زیر نظر کتاب میں ان سوالات کا قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیا گیا ہے۔

اس کتاب کے مصنف مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی اپنی دینی خدمات کی وجہ سے ملک وبیرونِ ملک میں شہرت رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی تقریر یں بہت شوق سے سنی اوردیکھی جاتی ہیں۔طلبہ تنظیم اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO)اورجماعت اسلامی ہند میں مختلف ذمے داریوں پر فائز رہے ہیں۔ اس وقت جماعت کے شعبۂ تربیت کے مرکزی سکریٹری ہیں۔ موصوف تحریر وتصنیف کا بھی عمدہ ذو ق رکھتے ہیں ۔ یہ کتاب بہت پہلے ایس آئی او کے اشاعتی ادارے سے شائع ہوئی تھی۔ اب اس کی دوسری اشاعت ہدایت پبلشرز نئی دہلی سے ہوئی ہے۔

یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اوّل کا عنوان ’محبتِ رسول ؐ    ‘ ہے ۔ اس میں محبت کا مفہوم ، اس کی قسمیں ، ا س کے مقاصد  اور اس کے مراتب کا بیان ہے ۔ آخر میں اللہ اوررسول سے محبت پرروشنی ڈالی گئی ہے ۔ باب دوم ’ایمان بالرسالۃ‘ کے ’عنوان سے ہے ۔ اس میں منصبِ نبوت سے بحث کرنے کے بعد رسول پر ایمان لانے کا مطلب بیان کیا گیا ہے اوریہ واضح کیا گیا ہے کہ رسول کی محبت میں افراط وتفریط ایمان کے منافی ہے ۔ چنانچہ رسول کی بشریت کا انکار کرنا، آپؐ کو عالم الغیب ماننا ، ہرچیز کوآپؐ کے قبضۂ قدرت میں تسلیم کرنا اورآپؐ کو حاضر وناظر سمجھنا درست عقائد نہیں ہیں۔ باب سوم میں محبت رسول کے تقاضے تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

کتاب کا انداز پیش کش بہت عام فہم اورمؤثر ہے ۔ فاضل مصنف نے آیاتِ قرآنی کے ساتھ کتب حدیث وسیرت سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے ۔ جابجا صحابۂ کرا م کے واقعات بیان کیے ہیں کہ وہ کس طرح اللہ کے رسول ؐ سے محبت کرتے تھے اوراس کے تقاضوں پر عمل کرتے تھے ؟ کتاب کی ابتداء میں مولانا محمد فاروق خاں کا مختصر دیباچہ ہے ، جس میں انہوںنے مصنف کا تعارف کرایا ہے۔

یہ کتاب ایک اہم موضوع سے بحث کرتی ہے اوردینی لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے ۔ امید ہے ، دینی وتحریکی حلقوں میں اسے قبول عام حاصل ہوگا اوراس سے بھر پور استفادہ کیا جائے گا۔

(محمد رضی الاسلام ندوی)

نام كتاب           :            رسول کریم ﷺ کی چالیس مجلسیں

مصنف               :            شاہ اجمل فاروق ندوی

ناشر                       :            مکتبہ الفاروق G-5/A ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی25-

 صفحات               :            ۱۲۰ ،قیمت:۱۰۰ روپے

حضور پاک ﷺ کی احادیث ِ مبارکہ سے جو شغف اور لگاؤ مسلمانوں کو ہے وہ بالکل فطری ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺمحسن انسانیت ہیں۔ آپ نے ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف فراہم  کیا۔ آپ کی ذات گرامی اہل ایمان کے لیے نمونہ ہے۔ ہردور میں احادیث کی تشریح وتوضیح کرنے والے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب احادیث کے ان دروس کا مجموعہ ہے، جو مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی نے جاپان کے شہر تاتے بایاشی میں فجر کی نماز کے بعد دیے تھے۔ یہ درس زیادہ سے زیادہ دس منٹ کا ہوتا تھا۔ درس کی ترتیب یہ اختیار کی گئی تھی کہ امام نوویؒ کی مشہور تصنیف ’ریاض الصالحین‘کے پہلے باب سے ترتیب وار ایک حدیث کا انتخاب کیا گیا۔ باب کی تمام احادیث کو دیکھنے کے بعد جو سب سے جامع حدیث ہوتی، اسے منتخب کرلیا جاتا اور اس کی روشنی میں پورے باب کی احادیث کا مفہوم پیش کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اس طرح کل چوّن (۵۴)؍ ابواب کو چالیس(۴۰) دروس میں سمیٹ کر حدیث کا یہ مجموعہ تیار کیا گیا ہے۔ یہ دروس انسانی زندگی کے اہم گوشوں سے متعلق ہیں ۔ مثلاً: نیت کا اثر، توبہ واستغفار، صبروشکر، سچ اور جھوٹ، یقین کامل، بدعت، نیک کام میں تعاون، خیرخواہی، دوسروں کے عیب چھپانا، بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک، اہل وعیال پر خرچ کرنا، پڑوسیوں کی اہمیت، والدین کا مقام ۔  تمام دروس بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔

تقویٰ کے متعلق ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:

’’اتقوالنساء‘ (عورتوں کے فتنے سے بچو) کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عورتوں سے نفرت کرو اور ان سے دور رہو۔ اسلام نے تو نکاح کو ضروری قرار دیا ہے، عورتوں کی عزت واحترام کرنے کا حکم دیا ہے ۔ یہاں پر عورتوں کے فتنے سے بچتے رہنے کا مطلب ہے کہ نامحرموں کو  دیکھنے، بے شرمی کی باتیں کرنے، بے حیائی کی تصویریں اور مناظر دیکھنے سے بچتے رہو۔ آج  مغربی تہذیب نے دنیا کے دل ودماغ پر عورت کو سوار کردیا ہے اور عورتوں کو صرف ایک مزے لوٹنے کی چیز بنادیا ہے، اس سے عورتوں کی  سرعام بے عزتی ہو رہی ہے اور پوری انسانیت کا جو نقصان ہورہا ہے، وہ ہرآدمی دیکھ رہا ہے۔ ‘‘

کتاب میں ڈاکٹر شاہ عبادالرحمان نشاط (خلیفۂ مجاز مولانا علی میاں ندوی وسابق پروفیسر ام القریٰ یونی ورسٹی، مکہ مکرمہ) کا دل نشیں مقدمہ اور پشت پر جناب سید مجیب الرحمان (رکن مجلس شوریٰ اسلامک سرکل جاپان) کی تحریر بھی ہے۔

مصنف ِ کتاب کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کاسمجھانے کا  اندازِ  بڑا نرالا ہے۔ بات کو پیش کرنے کا اچھا ہنر رکھتے ہیں۔

اس کتاب کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خواص کے ساتھ عوام بھی اس سے بھرپور استفادہ کریںگے اور کتاب کو قبولِ عام حاصل ہوگا۔

وسیم اکرم ندوی

نام كتاب           :            ہندو محققین کا مطالعۂ قرآن و سیرت

مصنف                :             ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی

ناشر                       :            مرکزی مکتبۂ اسلامی پبلشرز، D-307، جامعہ نگر، نئی دہلی  ۲۵

سنۂ اشاعت :  ۲۰۱۸ ،صفحات  : ۱۴۴، قیمت115/-؍روپے

طلوعِ اسلام کے بعد بہت جلد اسلامی تہذیب نے عرب سے باہر پوری دنیا میں نہ صرف اپنا تعارف کرایا، بلکہ عالمی تہذیبوں کو مسحور کرکے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ چنانچہ شاید ہی کوئی صدی گزری ہو جس میں قرآن مجید اور سیرت رسول نے اپنی پُرکشش تعلیمات سے غیر مسلمین کو متاثر نہ کیاہو۔ یہی وجہ ہے کہ اولین دوصدیوں ہی میں کرۂ ارض کے بڑے خطے میں اسلام کو پذیرائی حاصل ہوئی اسلامی نظام فکر اس خطے کاطرہّ امتیاز بن گیا۔ ہندوستان بھی اس روشنی سے محروم نہ رہا اور یہاں کے اہل علم ودانش نے نہ صرف اسلام کی پذیرائی کی، بلکہ بہت سوں نے اس کو قبول بھی کیا۔

ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی نے اپنی سنجیدہ اور پُرمغز کاوش سے اُن ہندوستانی اہلِ دانش وبینش کے خیالات کو یکجا کردیا ہے جنھوں نے قرآن اور سیرت کے موضوع پر انگریزی ، اردو، یاہندی زبان میں خامہ فرسائی کی ہے۔ مصنف نے ان قلم کاروں کے توصیفی، تنقیدی اور متعصب رجحانات کی واضح نشان دہی بھی کردی ہے، البتہ منفی رجحانات کاجواب دینے سے احتراز کیا ہے، کیوں کہ بہ قول مصنف متعد د ہندو اہل قلم کے مثبت بیانات ان منفی رجحانات اور اشکالات کا خود شافی جواب فراہم کرتے ہیں۔ مثبت رجحانات کے ضمن میں انہوں نے بطور خاص ڈاکٹر نشیکانتا اپادھیائے، پروفیسر ٹی۔ایس واسوانی ، این ۔ کے۔ سنگھ اور نتن ویاس کے اقتباسات نقل کیے ہیں ۔ دوسری طرف قرآن وسیرت میں موجود فلسفۂ اخلاق کی وضاحت بھی کی ہے ،جو متعدد ہندو اہل قلم نے اپنے رشحات قلم سے سپردقرطاس کی ہیں۔

یہ کتاب چار( ۴ )ابواب پرمشتمل ہے۔ باب اول ’ہندو محققین کا مطالعۂ قرآن‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں آٹھ(۸) کتابوں کاتعارف کرایا گیا ہے۔ باب دوم ’مطالعۂ سیرت پر برادران وطن کی خدمات‘ میںتیرہ( ۱۳ ) انگریزی کتابوں کااور باب سوم ’ہندو اہل علم کی سیرت نگاری ‘ میں تیرہ( ۱۳) اردو اورہندی کتابوں کاتعارف ہے۔ ان میں منظوم سیرت نگاری کو بھی شامل کیاگیاہے۔ اس کے علاوہ اس باب میں ہندونعت گو شعراء کی اردو تخلیقات کے ذیل میں چودہ( ۱۴) شعراء کے کلام سے روبرو کرانے کے بعدچار(۴) نو مسلم خواتین کی شہادتیں بھی پیش کی ہیں۔باب چہارم میں اسلام کے فلسفۂ ٔاخلاق پر ہندو اہل علم کا مثبت ردعمل پیش کیاگیا ہے۔ یہ باب گویا ماحصل و خلاصۂ کلام ہے ، جس کو خود ہندو اور مغربی اسکالرز کی کاوشوں کے ذریعہ مدلل اور مزین کیاگیا ہے۔ اس باب میں فلسفۂ اخلاق کے آٹھ الگ الگ پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس باب کو اور واضح کیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بردران وطن کے درمیان تہذیب اسلامی ایک متبادل کے طور پر ان کے غوروفکر کا محور بن سکے گی۔

مصنف نے جن ہندو اسکالرز کی تحریروں کاجائزہ لیاہے ان میں اکثر کے مثبت ومنفی معروضات کو ضمیمہ میں درج کردیا ہے۔ ان اقتباسات سے اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ یہ مصنفین کس قسم کے رجحانات کے مالک ہیں؟ اپنے مخصوص طرزِ نگارش کے مطابق ڈاکٹر فلاحی نے ہر باب کی ابتدا میں تمہیدی کلمات لکھے ہیں، جن میں باب کے مقصد، افادیت، اور مواد پر عمومی گفتگو کی ہے ۔ پھر ہر کتاب کا تعارف، خلاصہ اور آخر میں تجزیہ وتبصرہ پیش کیاہے۔ اس طرح انیسویں صدی کے ہندوستان میں اسلام کے تعلق سے ہندوؤں میں مطالعہ کاشوق واضح طور پر سامنے آتا ہے اور بحیثیت مجموعی اُس وقت اسلام کےبارے میں ان کے مثبت رویے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ گو معاند اور متعصب قلم کار بھی سامنے آتے ہیں، مگر حقیقت طلب اور انصاف پسند قلم کاروں کی اکثریت کا اندازہ ہوتاہے۔ ان کے بعض مجموعی مثبت احساسات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

۱۔ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلااورتلوار کااستعمال محض دفاع کے لیے ہی کیاگیا ہے(پنڈت سندر لال /والجی گوونددیسائی)

۲۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی موت مشرقی دنیا کی موت کے مترادف ہوگی(واسوانی)

۳۔ محمدبن قاسم نے برہمنوں پر اعتماد کیااور انھیں اپنے قدیم مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی (ایم این رائے)

۴۔ اسلامی معاشرہ غیر طبقاتی تھا۔ محمد ﷺ نے پروہت پرستی کے خلاف آواز اٹھائی تھی (سامنتا، وی ویکانند)

کتاب کے مطالعے کے دوران ہندوشعراء کے ایسے اشعار بھی پڑھنے کو ملے کہ اگر شاعر کانام معلوم نہ ہو تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ آسکے کہ یہ اشعار کسی ہندو شاعر کے ہیں مثلاً:

رخِ مصطفی کاجمال اللہ اللہ                                      زباں کا وہ حسنِ مقال اللہ اللہ                         (پنڈت بالمکند عرش)

نبی کا نطق ہے نطقِ الٰہی                                               کلامِ حق ہے فرمانِ محمد                                                     (دلورام کوثری)

یہی وہ نور تھا جو باعثِ تخلیق آدم تھا                  یہی دنیائے محزوں میں چراغِ خانۂ غم تھا(جگن ناتھ کمال)

انگریزی ، اردو اور ہندی زبانوں میں قرآن مجید کا مطالعہ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس قدر مثبت بیانات واعترافات کے باوجود یہ پہلو قابل غور ہے کہ ان برادران وطن کو اسلام کی توفیق کیوں نہیں مل سکی ؟غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دولتِ اسلام کی معرفت کا حصول اور ہدایتِ اسلام کی توفیق دوالگ الگ چیزیں ہیں ۔ معرفتِ اسلام انسانی کسب سے حاصل ہوسکتی ہے، جب کہ ہدایت توفیق الٰہی سے نصیب ہوتی ہے۔ البتّہ جن مصنفین کو توفیق الٰہی سے ہدایت نصیب ہوئی اُن کے لئے ایک الگ عنوان ’ نو مسلموں کے تاثرات ‘ مختص کیا گیا ہے۔ اس عنوان میں ڈاکٹر عبد الغنی کی کتاب ’’ ہم کو خدا کیسے ملا؟ ‘‘کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں دنیا بھر کی اسّی( ۸۰ )خواتین کے قبولِ اسلام کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں کچھ ہندوستانی نو مسلم خواتین، مثلاً امینہ تھامس، ڈاکٹر کملا ثریا، راج کماری جاوید بانو بیگم، دیا نگر کی شہزادی اور ڈاکٹر عائشہ عبدللہ کے نام دیے گئے ہیں اور اسلام سے متعلق ان کے تأثرات پیش کیے گئے ہیں ۔ کتاب کی ابتدا میں مفصل فہرستِ مضامین اور آخر میں ابجدی ترتیب کے ساتھ اشاریہ سے مطا لعہِ کتاب میں مزید سہولت فراہم ہوتی ہے۔سرِ ورق سادہ، مگر دیدہ زیب ہے۔

غرض فاضل مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُن کے قلم سے چشم کشا اور قلب آسا تحریر صادر ہوئی ہے ۔میں دعا گو ہوں کہ موصوف کو اس موضوع کو خود بھی آگے بڑھانے کا موقع ملے اور دوسرے اہل قلم کے لیے بھی یہ کتاب باعثِ تشویق ہو۔ (آمین)

(ڈاکٹرمحمدریاض کرمانی)

فورٹ انکلیو، پٹواری کا نگلہ،علی گڑھ ۲۰۲۰۰۱

نام كتاب           :            غبارِ شوق (شعری مجموعہ)

شاعر                    :            احمد سجاد ساجد قاسمیؔ

ناشر                       :             فرید بک ڈپو(پرائیویٹ) لمیٹڈ، نئی دہلی

سنۂ اشاعت :  ۲۰۱۸ ،صفحات  : ۲۰۵، قیمت۱۵۰/-روپے

’غبارِ شوق‘ احمد سجاد ساجدقاسمی کا شعری مجموعہ ہے۔ اس میں صرف    ذوق کی تسکین کا ہی سامان نہیں ہے ، بلکہ روح کی تسکین کا بھی سامان ہے۔ علم کے انمول نگینے اشعار کی شکل میں موجود ہیں۔ شاعر موصوف کے والد مفتی ظفیر الدین ، جید عالم دین تھے ، دارالعلوم دیوبند میں استاد اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فعال رکن تھے۔

احمد سجاد قاسمی دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس وقت بہار کے ضلع دربھنگہ کے ایک اسکول میں بحیثیت استاد خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے اندر شاعری کی خدا داد صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اس کی تقریباً تمام  اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ان میں نظمیں،غزلیں، شخصی مر ثیے اور منظوم خطوط شامل ہیں ۔ ان کی شاعری میں نظموں اورغزلوں کا رنگ جدا جدا ہے ۔ ان کے یہاں غزلوں میں موضوع کا تنوّع پایا جاتا ہے ۔ وہ ایک موضوع کوسورنگ سے باندھنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ انہوں نے روایت سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ہے اورفطری زبان میں شعر گوئی کی ہے ۔ وہ  سادگی اور صفائی سے بات کہنے کےقائل ہیں، چنانچہ بڑی سے بڑی بات بھی آسان اورعام فہم زبان میں کہہ جاتے ہیں۔

چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

اب تو بے خانماں ہیں عنادل

بجلیوں نے جلائے نشیمن

بجھ گئے آرزوؤں کے سارے دیے

دل میں بس یاد کی روشنی رہ گئی

جس نے بخشا ہے شرف میری جبیں کوساجدؔ

ساری دنیا سے حسیں مجھ کو وہ در لگتا ہے

یہ فرقہ پرستی ہے یا ظلم کی ہے ناگن

معصوم جوانوں کوچن چن کے یہ ڈستی ہے

اس مجموعے میں شامل غزلوں کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں سیاسی ، سماجی معاشی ، معاشرتی اورتہذیبی پیکر کے اشعار بھی ہیں اور عشق حقیقی اورعشق مجازی کے اشعار بھی ، مگر کمال یہ ہے کہ شاعر نے ہر موضوع کوحالات اور زمانے سے اس طرح مربوط کرکے شعر کے قالب میں ڈھالا ہے کہ وہ آج کا معلوم ہوتا ہے ۔ شاعر جوکچھ کہتا ہے، پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ میرے دل کی بات ہے ۔ لفظوں کا برتاؤ نیا ہے، لہجے میں فرسودگی نہیں۔ مولانا روم ، حافظ ، سعدی ، خسرو،اقبال، فیض اورمومن وغیرہ کا عکس ان کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں ہے ۔ حالات جتنی تیزی سے بدلے ہیں، ہماری قدریں اسی تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہوئی ہیں ،انہوں نے اس کیفیت کو بھی محسوس کیا ہے۔

شاعر موصوف نے اپنی نظموں کو مافی الضمیر کے اظہار کا خوب صورت وسیلہ بنایا ہے ۔ ایک بند ملاحظہ کریں:

آج کے اس دور میں سستا ہے انساں کا لہو

آج کچلی جارہی ہے ہر امید و آرزو

آج چھینا جارہا ہے ہرگلی کا رنگ وبو

ہر طرف پھیلی ہوئی ہے گرچہ فرقہ واریت

پھر بھی اے اہلِ وطن آؤ منائیں حرّیت

ساجد قاسمی کی شاعری رواں اورعام فہم ہے  ۔ یہ وہ شاعری ہے جس سے فکروفن کے دریچے وا ہوتے ہیں ۔ اس عمدہ شاعری پہ ساجد قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں۔

(خان محمد رضوان)

Mob:9810862283

Email:[email protected]

مشمولہ: شمارہ فروری 2019

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223