نماز اور سورۂ فاتحہ کا تعلق

(7)

قرآن میں جہاں جہاں طاغوت کا لفظ استعمال ہواہے، ان تمام مقامات کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طاغوت کا لفظ غیر اسلامی اقتدار اور غیر اسلامی عدالت کے لئے استعمال ہواہے، مطلب یہ کہ جو فرد اور ادارہ اور حکومت بندگئی رب سے تجاوز کر جائے وہ طاغوت کی تعریف میں آجاتی ہے ، یوں تو بہت سے مفسرین نے لفظ طاغوت کی تشریح کی ہیں ، لیکن بیسویں صدی عیسوی کے ایک مفکر اسلام و مفسر قرآن ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورئہ بقرہ کی آیت  ۲۵۶  فَمَنْ یّکْفُر بِالطّاغُوتِ وَ یُوْ مِنْ بِا للہِکے حاشیہ ۲۸۶ کے ذیل میں جو تشریح کی  ہے، وہ تمام تفسیروں کا احاطہ کرلیتی ہے، چنانچہ ان کی تفسیر کی چند سطر یں من و عن نقل کی جا رہی ہے۔(طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو، قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے، جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی و خد ا وندی کا دم بھرے، اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے، خدا کے مقابلہ میں ایک بندہ کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں، پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کا نام فسق ہے، دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اصولاً اس کی فرماں برداری سے منحرف ہو کر ،یا تو خود مختار بن جائے ،یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے، یہ کفر ہے، تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور ا س کی رعیت میںخود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبہ پر جو بندہ پہنچ جائے، اسی کا نام طاغوت ہے، اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کامومن نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔ (تفہیم القرآن جلد ۱صفحہ ۱۹۶(

قرآن مجید کی مذکورہ آیت اور اس کے تفسیری کلمات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ایک نمازی نے حالت نماز میں مسجد میںکھڑے ہو کر ہر باطل اقتدار و عدالت سے بچنے کا عہد و اقرار کر لیا ہے، اس کے باوجود بھی اگر وہ کسی باطل حکومت و عدالت کی حمایت کرتا ہے، یا اس کی معاونت کرتا ہے، تو گویا اس نے اپنی نماز کی مخالفت کی، اورابھی وہ اپنی نماز کا پابند نہیں ہوا، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے نمازیوں نے صرف نماز پڑھنے کو نماز کی پابندی سمجھ لیا ہے ،جب کہ نماز پڑھنا اور چیز ہے، اور نماز کی پابندی اور چیز ہے، نماز کی پابندی یہ ہے ،کہ جو عہد اقرار ایک نمازی حالت نماز میںکرتا ہے، نماز کے بعد کی زندگی میں اس کی پابندی کرے، لیکن نماز کی پابندی، نمازی اسی وقت کر سکتا ہے ،جب کہ وہ نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی آیات و اذکار کو سمجھے، پابندی کا لفظ اردو زبان میں کسی اقرار و عہد کو پورا کرنے کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے ،صرف کسی چیز کے عہد و اقرار کرنے کو پابندی نہیں کہتے، بلکہ عہد و اقرار پر قائم رہنے اور اسے پورا کرنے کو پابندی کہتے ہیں، مگر افسوس ہے کہ شیطان نے بڑی آسانی کے ساتھ نمازیوں میں صرف نماز پڑھ لینے کو نماز کی پابندی کا خیال جما دیا ہے۔

چنانچہ آج مسلم معاشرہ میںزیادہ ترنمازی ایسے ہی ہیں، جنہیں اپنی نمازوں کا علم تک نہیں ہے اور نہ ہی سورئہ فاتحہ کامطلب معلوم ہے اور نہ ان کی زندگی نماز کے پیغام کے مطابق ہے، لیکن ان کا گمان یہ ہے کہ وہ نماز کے پابند ہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ امت کی اکثریت نے انہیں نماز کی پابندی کرنے والوں کا خطاب دیدیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے اندر نماز کے متعلق احساس بر تری پیدا ہوگیا ہے، اب وہ نہ اپنی نماز کی دعوت کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں، اور نہ نماز کی پابندی کرنے کے لئے تیار ہیں ،وہ اب اپنے لئے صرف نماز ادا کرنے کو کافی سمجھے ہوئے ہیں، اور زندگی بھر اسی طرز عمل پر قائم رہنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے ایسے نمازیوں سے کوئی سمجھ اور سنجیدگی کی بات تو نہیں کی جا سکتی، لیکن اتمام حجت کے طور پر یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے، کہ اس بات پر تمہارا ایمان و یقین ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا، جس کی نماز درست نکلی، اس کے باقی اعمال بھی درست نکلیں گے، اور جس کی نماز درست نہیںنکلی، اس کے باقی اعمال بھی درست نہیں نکلیں گے، تو نماز کے حساب میں صرف نماز کے پڑھنے ہی کا حساب نہیں ہوگا، بلکہ نماز کے حساب میں لازماً یہ حساب بھی ہوگا کہ تم نے نماز میں جو کچھ پڑھا اور سنا تھا، اس کے مطابق بعد میں عمل کیا یا نہیں؟ جن نمازیوں نے نماز کے بعد کی زندگی میں نماز کے بیان پر عمل کیا تھا یقینا ان کی نماز درست قرار پائیگی، اور باقی اعمال بھی درست قرار دیئے جائیں گے، اور جن نمازیوں کی نماز کے بعد کی زندگی نماز کے بیان کے مطابق نہیں گزری، یقینا ان کی نمازیں نا درست نکلیں گی ،اور باقی اعمال بھی نا درست قرار دیئے جائیں گے، واضح رہے کہ قرآن مجید اللہ کے بیانات کامجموعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کی ایک صفت ھٰذا بیانُ لِلنّاس بھی ہے ،یعنی یہ لوگوں کے لئے ایک بیان ہے، اور یہی بیان ہر نماز میں پڑھا، اور سنا جاتاہے، لیکن نہیں سمجھنے کی وجہ سے ایک نمازی کو اس سے جو فائدہ ہونا چاہئے تھا ،وہ نہیں ہو پارہا ہے ،لیکن جب نمازی اس بیان کو سمجھ کر پڑھنے اور سننے کا عادی ہو جائے گا ، تو ضرور، یہ بیان اس کو فائدہ پہنچائیگا، لیکن ایسالگتا ہے کہ ابھی عام نمازیوں نے ان پانچ اوقات کے اجتماعات کو اتنی بھی اہمیت نہیں دی، جتنی اہمیت وہ اپنے اجتماعات کو دیتے ہیں ، چنانچہ ہر نمازی اپنی جماعت کے ہر اجتماع میں اسلئے شریک ہوتا ہے کہ وہ اجتماع کی تقریر و بیان کو سنے اور سمجھے اور بعد میں اس کے مطابق عمل کرے، لیکن بد قسمتی سے ابھی پنجوقتہ نمازیوں نے نماز کے اجتماعات کو یہ اہمیت نہیں دی، جب کہ تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نمازوں کے اجتماعات دینی جماعتوں کے اجتماعات سے کئی درجہ بہترہیں، اور جب تک نمازوں کے اجتماعات میں تعلیمی و تربیتی رنگ نہیں بھرا جاتا، تب تک مسلمانوں کی تعلیم و تربیت بھی نہیں ہو سکتی۔

چونکہ ہر نمازی نے صِرَاطَ الّذِینَ اَنْعَمْتَ  کہہ کر اپنے اوپر سب سے پہلے انبیاء کی پیروی کو عائد کر لیاہے ،تو اللہ کی بندگی اور اجتناب طاغوت کے ساتھ جو دوسری ذمہ داری ایک نمازی پر عائد ہوتی ہے ،وہ ہے اللہ ہی سے ڈرنا، اور کسی سے نہ ڈرنا، چنانچہ تمام رسولوں کے حوالہ سے قرآن میں رسولوں کی ایک اہم صفت یہ بیان کی گئی ہے ۔  اَلّذِینَ یُبَلّغُونَ رِسٰلٰتِ اللہِ وَ یَخْشَونَہ وَلاَ یَخْشَوْنَ اَحَداً اِلاَّ اللہَ وَ کَفٰی بِاللہِ حَسِْیباً۔(احزاب آیت ۳۹) ترجمہ : جو لوگ اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں، اور اس سے ڈرتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کسی او ر سے نہیں ڈرتے، اور اللہ کافی ہے حساب کے لحاظ سے۔ اب اس آیت سے ہر نمازی پریہ بات عائد ہو گئی ہے، کہ وہ زندگی کے ہر معاملہ میں صرف اللہ ہی سے ڈرے، یہاں تک کہ اگر وہ اللہ کے ساتھ کسی اور سے بھی ڈر رہا ہے تو اس نے پورے طور پر نبیوں کی پیروی نہیں کی، کیونکہ پیغمبروں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں ڈرتے۔اسی کے ساتھ ہر نمازی پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ صدیقین، شہداء، اور صالحین کی تاریخ بھی معلوم کرے، کیونکہ ہر نمازی نے بیک وقت اپنے اوپر، ان چار گروہ کے راستہ کو واجب کرلیا ہے، اب اگر وہ ان گروہ کے راستہ سے واقف نہیں ہو رہا ہے، تو وہ اپنی قبول کی ہوئی چیز سے منہ موڑ رہا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج پچاس ساٹھ سالہ پنجوقتہ نمازی بھی انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین کی زندگیوں کو جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ، جب کہ زندگی کی پہلی نماز کی پہلی رکعت ہی کے ذریعہ ہر نمازی پر ان مذکورہ گروہ کے راستہ سے واقفیت و پیروی ضروری ہوگئی ہے ، اس عدم احساس کی بھی اصل وجہ نمازیوں کا اپنی نمازوں کے بیان کو نہ سمجھنا ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نمازیوں میں تفہیم نماز کی تحریک و دعوت شروع ہو ، تاکہ تعمیلِ نماز آسان ہو۔

قرآن مجید کی ساتویں آیت غیَرْ الْمَغضُوبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّالِیْنَ ہے ،یعنی نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو سیدھے راستہ سے بھٹک گئے ہیں، اس سے مراد یہود و نصاریٰ و مشرکین ہیں، اسی طرح جو بھی صراط مستقیم کو چھوڑے ہوئے ہیں، وہ تمام افراد ضالین یعنی سیدھے راستہ سے بھٹکے ہوئے افراد میں آجاتے ہیں، اسی طرح ہندوستان میںجنتی غیر مسلم قومیں ہیں وہ سب کے سب قرآنی لحاظ سے مشرکین میں آتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مسلمان بھی مشرکین میں داخل ہو جاتے ہیں ،جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکتے اور سجدہ کرتے ہیں،اور اللہ کے علاوہ کسی اور کو حاجت روا،اور مشکل کشا سمجھتے ہیں، اور ایسے تمام افراد کے راستہ سے بچ کر زندگی گزارنے کی دعا و اقرار ہر نمازی ، نماز کی ہر رکعت میں کر رہا ہے۔اب اگروہ یہود و نصاریٰ و مشرکین اور گمراہ لوگوں کے راستہ پر چلتا ہے، تو وہ اپنی نماز کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے، اب جب کہ ہر نمازی پر یہود و نصاریٰ و مشرکین کے راستہ سے بچنا ضروری ہو گیا ہے، تو ہر نمازی کیلئے یہ بھی ضروری ہو گیا ،کہ وہ یہود و نصاریٰ و مشرکین کے راستہ کا علم حاصل کرے، کیونکہ یہود و نصاریٰ و مشرکین کے راستہ کا علم حاصل کئے بغیر ان کے راستہ سے بچنا ممکن نہیں ہے۔

اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہود و نصاریٰ اپنے زمانہ کی افضل قومیں تھیں، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام دنیا والوں پر فضیلت عطا کی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کے چھٹے رکوع کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطاب کرکے فرمایا ۔   یٰبنیِٓ اِسْرَٓئِیْلَ اذْکُرُ وا نِعمَتیِ الَّتیِٓ اَنعمْتُ عِلَیْکُمْ وَ اٰنّیِ فَضَلْتُکُمْ عَلیَ الْعٰلَمیِنَ (سورئہ بقرہ آیت ۴۷)  یعنی اے بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی ،اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔ واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں یہود بھی آتے ہیں، اور نصاریٰ بھی آتے ہیں ساتھ ہی قرآن میں یہود و نصاریٰ کو اہل کتاب کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے، بہت سے مفسرین اور مترجمین نے مغضوب  عَلَیھْم کا مصداق یہود کو قرار دیا، اور ضالین کا مصداق نصاریٰ کو قرار دیا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ جن لوگوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا ،اور جو سیدھے راستہ سے بھٹک گئے ہیں، اس سے مراد اولین طور پر یہود و نصاریٰ ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو بھی فرد، ادارہ،پارٹی اور حکومت اللہ کی نافرمان اور اسلام کے راستہ سے ہٹی ہوئی ہے، وہ  مغضوب  عَلَیھْم اور ضَالینْ میں داخل ہے، اسی طرح دنیا کی تمام مشرک اور گمراہ قومیں بھی مغضوب  عَلَیھْم اور  ضَالّینْ  میں داخل ہیں ،چونکہ یہود نصاریٰ اولین طور پر اللہ کی غضب یافتہ اور گمراہ قومیں ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے جرائم اور گمراہی کے اسباب معلوم کئے جائے ،تاکہ ان کے راستہ اور کردار سے بچا جائیں، کیونکہ جس طرح اللہ کے انعام یافتہ بندوں کے راستہ کو جاننا ضروری ہے، اسی طرح اللہ کے غضب یافتہ اور گمراہ لوگوں کے راستہ کو جاننا بھی ضروری ہے، قرآن وحدیث میں یہود و نصاریٰ کے جرائم اور گناہوں کی جو فہرست بیان ہوئی ہے، اس کے لئے تو ایک بڑی کتاب درکار ہے، البتہ یہاں یہود و نصاریٰ کے چند بڑے بڑے گناہ بیان کئے جار ہے ہیں، جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، تاکہ نماز پڑھنے والے ان گناہوں سے واقف ہو کر ان سے بچیں،اور اس طرح ان کے لئے اپنی نمازوں پر عمل کرنا آسان ہو جائے، ورنہ نمازی اگر یہود و نصاریٰ کے جرائم اور گناہوں کو نہ جانیں تو، ان کے لئے اپنی ہر نماز کی ہر رکعت کی ایک اہم بات ، غیَرْ الْمَغضُوبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّالِیْنَ  پرعمل کرنا نا ممکن ہو جائے۔

قرآن مجید کے سورئہ بقرہ کے پانچویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے چند باتوں کا حکم دیاہے، اور چند باتوں سے منع کیاہے ، جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا، ان میں سب سے پہلی بات اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کا حکم ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے ،  وَ اَوْفُوا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ، یعنی اے بنی اسرائیل میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کرونگا، اللہ کے مذکورہ حکم سے یہ بات واضح ہوتی ہے، کہ بنی اسرائیل نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا تھا، اور یہ عہد اللہ ہی کی بندگی کرنے کا عہد تھا، اور ساتھ ہی والدین کے ساتھ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک اور لوگوں سے بہتر بات کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا عہد تھا، جیسا کہ سورئہ بقرہ ہی کے دسویں رکوع میں تفصیل کے ساتھ اس عہد و میثاق کا تذکرہ ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کو توڑ ڈالا، صرف تھوڑے لوگ اس عہد پر قائم رہیں ۔ مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے ،  کہ بنی اسرائیل کا سب سے بڑا جرم اور گناہ اللہ سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دینا ہے، اور یہی جرم اور گناہ اللہ کے غضب کا سبب بنا، اس لحاظ سے موجودہ امت مسلمہ جس کا ایک نام بنی اسما عیل بھی ہے، دن میں پانچ مرتبہ اسے حالت نماز میں بنی اسرائیل کے طرز عمل سے بچنے کی تلقین کی جارہی ہے، اور ایک نماز میں کئی مرتبہ یعنی جتنی رکعتیں ہیں، اتنی مرتبہ لیکن افسوس ہے کہ جس طرح سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل بد عہدی کے جرم کی مرتکب ہوئی تھی موجودہ امت مسلمہ، بنی اسماعیل بھی بد عہدی کے جرم میں مبتلا نظر آتی ہے ،صرف تھوڑے لوگ بندگی کے عہد پر قائم نظر آتے ہیں واضح رہے کہ   لاَ اِلٰہَ اِلاّ اللہُ مُحّمَدُ رَسُولُ اللہَ کا اقرار اللہ ہی کی بندگی کا ایک عہد ہے، اور غیر اللہ کی بندگی کا انکار ہے، ساتھ ہی زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی اطاعت کا عہد و اقرار ہے، اب اگر کوئی مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبہ میںاللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے منہ موڑے گا ،تو وہ اللہ سے کئے ہوئے بندگی کے عہد کو توڑنے والا شمار ہوگا، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے پنجوقتہ نمازی بھی زندگی کے بہت سے شعبوں میںخصوصاً شعبہ سیاست میں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے منہ موڑے ہوئے ہیں، اور گمراہ و بے دین لوگوں کو اپنا رہنما و لیڈر بنائے ہوئے ہیں، جو نماز کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

بنی اسرائیل کا دوسرا بڑا جرم اور گناہ ،اللہ کے غضب و عذاب سے بے خوف ہوجانا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کے پانچویں رکوع ہی میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا ،  وَاِیَّایَ فَارْھَوُنِ یعنی ائے بنی اسرائیل مجھ ہی سے ڈرو، یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی فرد اور قوم اللہ کے غضب و عذاب سے بے خوف ہو جاتی ہے، تو پھر وہ اللہ کی نافرمانی پر جری ہو جاتی ہے، اور مسلسل اللہ کی نافرمانی کے باوجود اسے کوئی احساس نہیں ہوتا، ، یہود و نصاریٰ کے اسی غلط احساس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورئہ مائدہ میں بیان فرمایا،  وَ قَالَتِ الْیَھُودُ و النَّصٰرٰ نَحنُ اَبْنآئُ اللہِ وَ اَحِبَّآ ئُ ہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّ بُکُمْ بِذنوْ بِکُمْ (سورئہ مائدہ آیت ۱۸) ترجمہ : اور کہا یہود و نصاریٰ نے ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں، کہہ دیجئے پس وہ تمہیں کیوں عذاب دیتا ہے، تمہارے گناہوں کے سبب، مطلب یہ کہ اگر تم حقیقت میں اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہو ،تو پھر اللہ کو تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث عذاب نہیں دینا چاہئے تھا، لیکن جیسا کہ تم جانتے ہوکہ اللہ نے تمہیں عذاب بھی دیا ہے، تو تمہارا اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہونے کا دعویٰ ہی غلط ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے ،کہ کسی فرد اور کسی قوم سے اللہ کی نہ ذاتی دوستی ہے، اور نہ ذاتی دشمنی ہے ، بلکہ اللہ نے اس کو اپنی اطاعت اور اپنی نافرمانی پر رکھاہے ،مطلب یہ کہ جو اللہ کی اطاعت کرے، وہ اللہ کا دوست ہے، چاہے وہ کافر کا بیٹا کیوں نہ ہو ، جیسے حضرت ابراہیم ؑ جو ایک کافر کے بیٹے تھے، اسی طرح حضرت نوحؑ کا، کافر بیٹا جو ایک نبی کا بیٹا تھا، لیکن یہ المیہ ہی ہے ،کہ جس طرح بنی اسرائیل کی اکثریت اللہ کے غضب و عذاب کے متعلق بے خوف ہو گئی تھی، اور آخرت کی نجات کے سلسلہ میں اطمینانی کیفیت میں مبتلا تھی ، آج امت مسلمہ کی اکثریت بھی اللہ کے غضب و عذاب کے متعلق بے خوف ہو گئی ہے، اور آخرت کی نجات کے متعلق اطمینانی کیفیت میں مبتلا ء ہے، یہاں تک کہ بہت سے جہالت اور غفلت میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں کا احساس ہے کہ چونکہ ہم آخری نبی کی امت ہیں اس لئے آنحضورﷺ نے اپنی پوری امت کی اللہ سے بخشش کروالی ہے، اور کچھ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کیا ہمارا سایہ بھی دوزخ میں نہیں جائیگا، کیونکہ رسول پاکؐ کو دیکھا نہ جائیگا۔

قرآن میں یہود و نصاریٰ کے غلط دعویٰ کے باوجود ان کا یہ اعتراف بھی موجود ہے ،جس کو اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ میں بیان فرمایا،   وَ قَالُوْا لَنْ تَمسَّنَا النَّارُ اِلّاَ ٓ اِیَّا مَا مَّعدُوْدَۃً  (بقرہ آیت ۸) یعنی یہود و نصاریٰ نے کہا ہر گز ہم کو آگ نہیں چھوئیگی ،مگر چند دن، مطلب یہ کہ یہود و نصاریٰ کو بھی چند دن دوزخ کی آگ میں ڈالے جانے کا اعتراف تھا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے چند، دن کے اعتراف و خیال کو بھی مسترد کر دیا، اور اس کے بعد کی آیت میں انہیں جواب دیا،  بَلیٰ مَنْ کَسَبَ سَیّئۃً وَّ وَاحَاطَتْ بِہِ خَطِیئتُہ فَاُ ولٰٓئِک اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیھَا خٰلِدُونَ(بقرہ آیت ۸۱) یعنی کیوں نہیں جو کوئی برائی کرے، اور اس کی برائیاں اسے گھیر لیں ،تو یہی لوگ دوزخ والے ہیں ،اور وہ اس میںہمیشہ رہیں گے۔ بنی اسرائیل کا تیسرا بڑا جرم اور گناہ قرآن مجید پر ایمان نہیں لانا تھا،جو توریت و انجیل کی صحیح تعلیمات کی تصدیق کرنے والا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ ہی کے پانچویں رکوع میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا، وَ اٰمِنُوبِمَآ اَنزَلْتُ مُصَدِّ قاً لّمَا مَعَکُمْ وَ لاَ تَکُونُوآ اَوَّلَ کَافِرِِ بِہ اور ایمان لائو جو میں نے نازل کیا ہے ،جو تصدیق کرنے والا ہے ،جو تمہارے ساتھ ہے ،یعنی توریت و انجیل کی، اور مت ہو جائو، قرآن کے اول درجہ کے کافر۔ حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا توریت و انجیل پر بھی صحیح ایمان نہیں تھا، ورنہ اگر بنی اسرائیل کا توریت و انجیل پر صحیح ایمان ہوتا، تو وہ آنحضورﷺ کی نبوت و قرآن پر بھی ایمان لاتے، کیونکہ توریت و انجیل میں حضرت محمدﷺ کی نبوت او رقرآن کی بشارت موجود تھی ،اللہ کی کتابوں کے متعلق بنی اسرائیل کا یہ تاریخی جرم اور گناہ رہا ہے ،کہ جب بھی کسی رسول نے ان کے سامنے ان کی خواہشات کے خلاف کوئی تعلیم پیش کی، تو رسولوں کی ایک جماعت کو بنی اسرائیل نے جھٹلایا، اور ایک جماعت کو قتل کر ڈالا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کے گیارہویں رکوع میں بنی اسرائیل کے اس جرم اور گناہ کو بیان فرمایا،   اَفَکُلّمَا جَائَ کُمْ رَسُولُ بَمَا لاَ تَھْوٰیٓ اَنْفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْ تُمْ فَفَرِیقاً کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیقاً تَقْتُلُوْنَ۔یعنی ائے بنی اسرائیل جب جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسی تعلیمات لے کر آیا ،جو تمہارے نفس کی خواہشات کے مطابق نہیں تھی، تو تم نے تکبر کیا،پس ایک جماعت کو جھٹلایا، اور ایک جماعت کو قتل کر ڈالا۔واضح رہے کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی یہ فہرست قرآن میں اس لئے بیان ہوئی ہے کہ امت مسلمہ ان جرائم سے واقف اور آگاہ ہو کر ان جرائم سے بچیں، اور نماز میں غَیْرِ  الْمَغْضُوبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّینَ کی آیت رکھنے کا مقصد یہی ہے۔

یقیناً قرآن کے متعلق یہ بات کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اور سچا کلام ہے، اس کو پوری امت مسلمہ تسلیم کرتی ہے ،لیکن جہاں تک قرآن پر ایمان کے لازمی تقاضے ہیں کہ اس کو سمجھ کر پڑھا اور سنا جائے،اور  اس کے احکام پر عمل کیا جائے، اس کی تبلیغ کی جائے ،  معاشرہ ملک میں جدوجہد کرنے کی تبلیغ کی جائے ، اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی اکثریت کا طرز عمل وہی ہے ،جو بنی اسرائیل کی اکثریت کا طرز عمل اپنی کتابوں توریت و انجیل کے متعلق تھا، فرق صرف اتنا ہے، کہ یہود و نصاریٰ توریت و انجیل کے بہت سے احکامات کو، ان کتابوں سے نکال دیتے تھے، اور ان کی جگہ اپنی مرضی کی باتیں شامل کر دیتے تھے ، لیکن قرآن مجید کی حفاظت ،چونکہ خود اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے، اس لئے قیامت تک کوئی بھی فرد اور گروہ قرآن مجید کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا ،البتہ بہت سے لوگ قرآن کی بہت سے آیات کی من مانی تاویلات کرتے رہیں گے، لیکن ساتھ ہی اہل حق کی جماعت، ان غلط تاویلات کی نشاندہی کرکے ان آیات کی صحیح تشریح پیش کرتے رہےگیں، اور اس سلسلہ میں وہ کسی ملامت سے نہیں ڈرے گی، امت مسلمہ پر قرآن کے ایک طرح سے سات حقوق عائد ہوتے ہیں، پہلا حق ایمان بالقرآن ہے، دوسرا حق تلاوت قرآن ہے، تیسرا حق تعلیم قرآن ہے، چوتھا حق تدبر قرآن ہے ، پانچواں حق عمل قرآن ہے ، چھٹا حق تبلیغ قرآن یا دعوت قرآن ہے، ساتواں حق نفاذ قرآن ہے ، قرآن مجید کے ان سات حقوق کے متعلق اگر موجودہ مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ الحمد للہ قرآن پر ایمان تو سب مسلمانوں کا ہے ،لیکن جہاں تک بعد کے چھ حقوق کی بات ہے تو اس میں مسلمان افسوس ناک حد تک غافل نظر آتے ہیں، وہ یہ کہ صرف ایک فیصد مسلمانوں کو قرآن کی تلاوت آتی ہے، اور جو مسلمان قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ان میں سے صرف ایک فیصد مسلمان قرآن کو سمجھ کر پڑھتے اور سنتے ہیں، اور جو مسلمان قرآن کو سمجھ کر پڑھتے اور سنتے ہیں، ان میں سے بہت تھوڑے مسلمان قرآن کے پورے احکامات پر عمل کرتے ہیں، اور جو تھوڑے مسلمان قرآن پر عمل کرتے ہیں، ان میں سے بہت تھوڑے مسلمان قرآن کی تبلیغ کرتے ہیں، اور جو تھورے مسلمان قرآن کی تبلیغ کرتے ہیں، ان میں سے بہت تھوڑے مسلمان قرآن کے نفاذ کی جدو جہد کرتے ہیں۔ قرآن کے متعلق مذکورہ جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ، فی الحال مسلمانوں میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور سننے والے ایک فیصد سے بھی کم مسلمان ہیں، تو ظاہر ہے جس پوری امت کا ماضی ،حال، مستقبل قرآن سے علمی و عملی وابستگی سے جڑا ہوا ہے، اتنی کم تعداد کی قرآن سے وابستگی کے ساتھ وہ امت کیسے باقی رہ سکتی ہے؟ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی و ملکی و مقامی سطح پر جو قوم سب سے زیادہ بے بس ،کمزوراور مظلوم ہے، تو وہ مسلمان قوم ہے، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ جہاں سے اس قوم کو طاقت ملتی ہے، اس طاقت کے سرچشمہ سے مسلمان قوم نے اپنا تعلق توڑ لیا ہے، اس لئے مسلمان اگر اپنے سنہرے ماضی کو دوبارہ لانا چاہتے ہیں، تو ان کے لئے قرآن کی طرف پلٹنا ضروری ہے۔

اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورئہ ابراہیم کی آیت ۲۷ میں بیان فرمایا۔  یُثَبّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فیِ الْاٰخِرَۃِ یعنی اللہ مضبوطی عطاء کرتا ہے، ایمان والوں کو قولِ ثابت، یعنی قرآن کے ذریعہ دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔ اس آیت میں ایک طرح سے مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی مضبوطی و ترقی کا راز ہے ،ساتھ ہی اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اگر مسلمان قولِ ثابت ،یعنی قرآن کو چھوڑ دیں تو وہ دنیا و آخرت میں کمزور اور ناکام ہو جائیں گے، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان قرآن کو چھوڑ کر دنیا کی ترقی اور مضبوطی کے خواب دیکھ رہے ہیں،  اسی قرآن نے ماضی میں مسلمانوں کو پوری دنیا کا امام بنایا تھا، اور جب سے مسلمانوں نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے ، تب سے پوری دنیا میں مسلمان  غلام بنے ہوئے ہیں ،آج بھی قرآن میں وہی طاقت ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان قرآن کی فکر و پیغام سے خود بھی جڑیں، اور دوسروں کے سامنے بھی اس پیغام کو پیش کریں، خصوصاً موجودہ دور میں قرآن کے سیاسی نظام کو شدو مد اور جراء ت و ہمت کے ساتھ پیش کریں، کیونکہ اسوقت پوری دنیا سیاسی ظلم و ستم اور سیاسی استحصال کا شکار ہے، اور دنیا کو اس سیاسی ظلم و ستم سے صرف قرآنی سیاست ہی سے نکالا جا سکتا ہے، اوراس کی جگہ سیاسی عدل و انصاف قائم کیا جا سکتا ہے ،ویسے بھی دنیا نے دو چار صدیوں میں بادشاہی نظام ، قومی نظام، وطنی نظام، کمیونزم اور جمہوریت کی ناکامی و نا انصافی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، اس کے باوجود بھی مسلمان اگر اسلام کے سیاسی نظام کو چھوڑ کر جمہوری نظام یا قومی نظام یا کسی اور نظام میں سیاسی کامیابی ڈھونڈیں گے، تو ان کا یہ قدم علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق ٹھہرے گا، جس میں علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کی غلط حکمتِ عملی پر طنز کرتے ہوئے فرمایا۔

 یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر

 یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا

علامہ اقبالؒ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی وقت اسلام کو لے کر کھڑے ہونے کا زیادہ مناسب ہے، لیکن مسلمانوں کی نادانی یہ ہے کہ وہ اسلام کو چھوڑنے میں اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں، بہر حال بنی اسرائیل نے اللہ کے نازل کردہ احکامات کو نظام زندگی کی حیثیت سے قبول نہیں کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا غضب نازل کیا، اس لئے امت مسلمہ کے ہر نمازی کو حالت نماز میں تلقین کی جارہی ہے ،کہ وہ بنی اسرائیل کے جرم کا ارتکاب نہ کریں ،ورنہ اس کا شمار بھی اللہ کے غضب یافتہ لوگوں میں ہو جائے گا، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے نمازی دن میں سے پانچ مرتبہ حالت نماز میں اللہ کے غضب یافتہ لوگوں کے راستہ سے بچنے کے اقرار و عہد کے باوجود اسلام کو نظام زندگی کی حیثیت سے قبول نہ کرنے کے جرم کا ارتکاب کئے ہوئے ہیں، جو یہود و نصاریٰ کی خصلت ہے، اس کا بھی بڑا سبب یہی ہے کہ ابھی نمازیوں نے اللہ کے غضب یافتہ اورگمراہ لوگوں کے طرز عمل کو نہیں جانا، اور نہ ہی نماز کے تقاضہ  غَیْرِ الْمغضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّآلیِنْ کے مفہوم و مطلب کو جانا ،اور ستم ظریفی یہ کہ نمازیوں کو اپنی نماز کے اس نقص اور لا علمی کا احساس بھی نہیں ہے ۔

بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کا چوتھا بڑا جرم اور گناہ، اللہ کی آیات کو دنیا کی تھوڑی قیمت کے عوض بیچنے کا تھا ،جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ ہی کے پانچویں رکوع میںبنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا،  وَ لاَ تَشْتَرُوْا یاٰیٰتیِ ثَمَناً قَلِیلاً وَ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنَ۔یعنی ائے  بنی اسرائیل مت بیچوں میری آیات کو تھوڑی قیمت میں، اور مجھ ہی سے ڈرو، مطلب یہ کہ دنیا کے تھوڑے سے فائدہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات کو رد مت کرو ،اور نہ انہیں بدلو، اور نہ انہیں چھپائو ،بلکہ جوں کا توں انہیں قبول کرو، واضح رہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات کو رد کرنے کے نتیجہ میں پوری دنیا کی دولت و حکومت بھی مل رہی ہوتو وہ تھوڑی قیمت ہے، اس لئے کہ دنیا کی دولت و حکومت عارضی اور ختم ہونے والی چیز ہے، اور اللہ کے احکام و ہدایات کو قبول کرنے کا  فائدہ جنت کی صورت میں دائمی ہے ۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل میں اور خصوصاً ان کے علماء میں دنیا کے فائدہ کی خاطر اللہ کے احکام و ہدایات کو رد کرنے اور بدلنے و چھپانے کا جرم اور گناہ عام تھا ۔

)جاری(

مشمولہ: شمارہ جولائی 2017

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau