م نسیم: اپنے ایک خط کے آئینے میں

سید عبد الباری

میری فکری وتخلیقی نشوونما کا سنہرا دور وہ ہے، جب میں ۱۹۵۵ سے ۱۹۵۷ تک لکھنؤ میں مقیم تھا اور یونی ورسٹی میں گریجویشن کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔ اس عہد میں ا س شہر کاایک سراپا حکمت و عمل نوجوان م۔ نسیم میرے لیے خضر راہ بنا ہوا تھا۔ ہم دونوں جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے اور اس کے ادبی حلقے ’’ادارۂ ادب اسلامی ہند‘ سے بھی وابستہ تھے۔ م نسیم اُ س زمانے میں ایک نرالا ادبی ماہنامہ ’نئی نسلیں‘ شائع کر رہے تھے اور ملک کے بہت سے قلم کاروں کو اپنے گرد جمع کرلیا تھا۔ ہمارے سوز وگدازاورفکری خروش کا اصل محور تحریک اسلامی تھی، جس کے برابر اجتماعات ہوتے، جن میں اکثر م۔ نسیم اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے۔ امیرحلقہ یوپی مولانا عبدالغفار ندوی ہم سب کے روحانی اورفکری پیشوا تھے۔ شہر میں موجود ترقی پسندوں اور اشتراکی نوجوانوں سے برابر ہم فکری پنجہ آزمائی کرتے اور نوجوان طلبہ کو اسلام کی عصری معنویت سے آگاہ کرتے ۔ ابوالمجاہد زاہد، رشید کوثر فاروقی، احمد حسین انصاری وغیرہ کی سرگرمیوں نے اس عہد کو میرے لیے مسجد قرطبہ سے زیادہ دلکش بنا دیا تھا۔

۱۹۶۷؁ء سے ۱۹۷۲؁ء تک جب ٹانڈہ سے ’دوام‘ شائع ہوتا تھا تو اس کی ترتیب وطباعت کے لیے میں ہر ماہ لکھنؤ حاضر ہوتا اور م ۔نسیم اکثر میرے میزبان ہوتے۔۱۹۷۰ آتے آتے میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کی شخصیت سے متاثر ہوا اور ان کی سیاسی ومعاشرتی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی لینے لگا۔ اس دوران تحریک اسلامی سے ہمارے مطالبات کا سلسلہ انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ دینے تک دراز ہوگیا۔ م نسیم صاحب اکثر میرے ساتھ ڈاکٹر فریدی سے ملتے تھے۔ بلکہ ایک بار ان کے مضافاتی دولت خانہ چنہٹ میں ان سے انٹرویو لینے میرے ساتھ گئے۔ ۱۹۷۳ میں میں نے جزوی اختلاف کی وجہ سے جماعت اسلامی ہند سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ میرے اس اقدام سے سب سے زیادہ صدمہ م۔ نسیم کو ہوا۔ انھوں نے مجھے ایک طویل خط لکھا جس میں اپنا دل نکال کر صفحہ قرطاس پر رکھ دیا۔ اب اس خط کو پڑھتا ہوں تو میرا ایمان دوبارہ تازہ ہوتا ہے ۔ خط کا متن درج ذیل ہے:

لکھنؤ۳/ جولائی ۱۹۷۴؁ء

برادرعزیز!                                               سلام مسنون، رحمت وبرکت

خط کا جواب آئے ہوئے کافی دن ہوگئے مگر میں تفصیلی جواب کے پھیر میں پڑا رہا۔ یہ بھی اطمینان تھا کہ ۱۰/ جولائی تک آپ ٹانڈہ اور جونپور میں ملیں گے۔ مصروفیات یوں ہیں :

غم دنیا سے گرپائی بھی فرصت سر اٹھانے کی

فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی

بہ ہرحال اب خدا کے بھروسے قلم اٹھایا ہے۔ دیکھیے کہاں رکتا ہے۔ تفصیلی خط لکھنے کا پہلا محرک ایک شکایت ہے۔ عرصے سے آپ کا آنا اور ملنا ایک حادثہ سا بنتا جارہا ہے۔ بے گمان نمودار ہوکر بے تحاشا رخصت ہوتے ہیں۔ آپ بہت سی ملاقاتوں کا حوالہ دے سکتے ہیں مگر میں ان کو ملنا نہیں کہہ سکتا ۔ میں نے جان کر کبھی آپ پر کوئی بات لادنے کی کوشش نہیں کی ۔ ہوسکتا ہے میری طول بیانی سے آپ گھبرا گئے ہوں۔ لیکن اس کا سبب بھی یہی ہے کہ اتنی کم ملاقات میں کئی موضوعات چھڑتے ہیں۔ یوں بھی میں اسے اپنی کمزوری مانتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ میرے خیرخواہ اسے دور کرنے میں مجھے مدد دیں گے نہ کہ مجھ سے کترائیں گے۔دوسرامحرک یہ ہے کہ آپ کے اس گریز میں مجھے آپ کی جماعت سے علیٰحدگی کارفرما نظر آتی ہے ۔ خدا کرے کہ یہ شبہ نکلے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا رہا ہے۔ میں بہ ہرحال شاکی ہوں کہ آپ نے جماعت سے استعفیٰ دیا ہے، اسلام سے تو نہیں دیا۔ پھر اگر آپ کے خیال میںجماعت ان مسائل کی طرف متوجہ نہیں تھی جوآپ کی نگاہ میں اہم ترین ہیں، تب بھی اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اب یہ گروہ گم کردہ راہ قافلہ بن جائے اور آپ کے پچھلے ساتھی اب ملنے ملانے کے اسلامی اور انسانی حقوق سے بھی محروم ہوجائیں۔ آپ خود سوچیے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم ﴿ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی مرحوم ﴾کے دور میں بھی اور بعد میں بھی آپ کا بیسوں بار آنا جانا لگا رہا ہے۔ مختلف سماجی تقریبات سے لے کر﴿ماہانہ دوام کے لیے﴾ ’’چندہ مہم‘‘تک آپ کا دائرۂ کار وسیع تھا ،لیکن ہمارے حصے میں وہی وقت آتا جو بچ جاتا تھا اور کبھی وہ بھی نہیں۔مجھے یہاں ’’دوام‘‘ کے مسائل سے لے کر ادبی اور تعلیمی محاذ کی باتوں تک ، ہر ایک پر آپ سے باتیں کرنے اور بات سننے کو طبیعت چاہی، مگر اس چاہنے سے کیا ہوتا ہے   :

چاہنا ہم کو تو ان کا چاہیے

وہ ہمیں چاہیں تو پھر کیا چاہیے

ان سطروں سے اگر شکوے کے علاوہ آپ نے کوئی غلط اثر لیا تو میں سمجھوں گا کہ یا تو مجھے اداے مطلب نہیں آتا یا آپ کی سمجھ میں میری باتیں نہیں آتیں۔ دونوں صورتوں میں:آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر۔

خط کا تیسرا محرک یہ ہے کہ آپ سے آج تک تفصیل سے میں نے اپنے اُن احساسات کا اظہار نہیں کیا، جو جماعت سے آپ کی علاحدگی پر میرے دل میں پیدا ہوئے تھے اور جن کو اتنے دن بعد میں اور پختہ تر پا رہا ہوں۔ یہ ایک امانت تھی آپ کے سپرد کرتا ہوں۔

میرے نزدیک جماعت سے آپ کی علاحدگی اتنی تکلیف دہ نہیں تھی، جتنی آپ کے استعفے کی دلیلیں۔ میں ان باتوں کو مانتا ہوں چاہے یہ اعتراف کسی کے لیے تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو:

  • کہ جماعت نے ان پچھلے پندرہ بیس برسوں میں بہت کچھ کھویا بھی ہے۔
  • کہ جماعت کا جو منفردImage اپنوں اور باہر والوں کی نظروں میں تھا، وہ دھندلا ہوتا چلا گیا ہے ۔ ﴿کیوں؟ اس پر کئی بار آپ سے بات ہوئی ہے ، ابھی بھی امکان ہے۔ صرف آپ کا آنا شرط ہے﴾ یہ دھندلاہٹ فطری ہے۔ یا ہمارے اپنے کرموں کا پھل ہے۔ جو کچھ بھی ہو۔ مگر کسی کے ذہن میں اس کا یہ اثر نہیں ہوناچاہیے کہ میں اب اس جماعت ہی میں کیوں رہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کسی رکن کو یہ سوال اہم نہیں معلوم ہوتا کہ کسی اورجماعت کے مقابلے میں اس جماعت کی شرکت آخر الگ اور منفرد کیوں ہو۔ شاید یہی سبب ہے کہ اس جماعت میں آنے اور پھر اس کو چھوڑنے کو بہت Lightly لیا جانے لگا ہے اور اس پر کم ہی تعجب ہوتا ہے۔

لیکن آپ کی دلیل علاحدگی ایسی ہے، جس کی آپ سے توقع نہیں تھی ۔ میں نے اس پر رنج کے ساتھ سوچاہے اور چاہتا ہوں کہ آپ بھی رنج کے ساتھ نہ سہی مگر میرے ساتھ سوچیں ضرور۔

﴿۱﴾ جماعت کے لٹریچر یا کسی اور ذریعے سے بھی مجھ پر ﴿یا آپ پر﴾ یہ منکشف ہوا کہ اسلام نظام زندگی ہے ۔ معقول بھی ہے قابل عمل بھی ہے۔ مسائل کا حل بھی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم بہ حیثیت اطاعت گزاروں کی پارٹی ﴿امت مسلمہ﴾ کے اس کے قیام پر مامور بھی ہیں۔

﴿۲﴾ میں نے تمام جماعتوں میں یا تو دین کاایک جز پایا یا پھر محض ملت کی مدافعت پائی یا پھر ان میں باطل سے لین دین کی بنیاد پر صلح جوئی پائی۔ لیکن چونکہ یہ کام مقصد زندگی تھا اور بغیر اجتماعی ہیئت کے یہ مقصد ابتدائی شکل میں بھی حاصل نہیں ہوتا تھا، اس لیے میں آخر کار جماعت اسلامی سے منسلک ہوگیا۔

﴿۳﴾اب اس جماعت سے باہر نکلنے کے لئے میرے پاس دو امکانی وجہیں ہیں یا تو مجھے بعد میں اس کا شعور ہو کہ جماعت کاحقیقی مقصد یہ نہیں کچھ اور ہے۔ یا پھر اس بات پر سے یقین ختم ہوجائے کہ یہ مقصد واقعی مقصد زندگی ہے بھی۔

﴿۴﴾ ان دو باتوں کے علاوہ اور کوئی وجہ علاحدگی کے لیے نہ عقلاً صحیح ہے اور نہ شرعاً۔

﴿۵﴾ دوسری جتنی وجہیں ممکن ہیں ، ان کا درجہ کام کے طریقے، تحریک کے رخ اور معیار کے اختلاف اور پسند وناپسند کی شدت سے زیادہ نہیں﴿آپ کااختلاف اس سے زیادہ نہیں ہے﴾

﴿۶﴾ ان اختلافات کو ختم کرنا نہ تو ممکن ہی ہے نہ فطری طور پر صحت مند ہی ہے۔ ان کو کسی بھی ہیئت اجتماعی میں رائے عامہ ہم وار کرکے اپنی پسند کے مطابق منوایا جاسکتا ہے۔ ﴿میں پسند کا لفظ جان بوجھ کر لکھ رہا ہوں اس لیے کہ سارے دلائل کی بنیاد آخر جہاں آکر ٹھہرتی ہے، وہ یہ کہ موجودہ صورت حال مجھے پسند نہیں ۔ فلسفوں کے اختلاف سے لے کر رنگوں کے انتخاب تک میں اور سائنسی نظریات سے لے کر دینی اجتہادات میں ہر ایک اپنے انتخاب کرنے والے کی پسند کا آئینہ دار ہے۔

﴿۷﴾ کسی ایک اختلاف کو مثال بنانے سے بات کھل جائے گی ۔ مان لیجیے کہ میں سماج میں انقلاب کے ساتھ ساتھ حکومت وسیادت کے انقلاب کا بھی قائل ہوں۔ بلکہ شدید رائے رکھتا ہوں کہ انقلاب قیادت کے بغیر انقلاب معاشرہ ممکن ہی نہیں ہے ۔پر میں جس جماعت میں ہوں اس میں میرے ہم نوائوں کے علاوہ بہت سے لوگ میری ہی جیسی شدت کے ساتھ یہ سنجیدہ اور مدلل رائے رکھتے ہیں کہ انقلاب معاشرہ کا انجام ہی انقلاب امامت ہے۔ اس اختلاف کے نتیجے میں دونوں رائے والے طریقۂ کار ، پالیسی پروگرام یا کسی اقدام کے بیسوں اجزائ سے متفق نہ ہوں گے یا اسے اپنی مرضی کے خلاف ہوتا پائیں گے تب ؟ آخر کیا صورت ہو؟ دو امکان ہیں:

﴿الف﴾ اگر میں اس اختلاف کو بنیادی سمجھنے لگا ہوں تو میںاس جماعت سے الگ ہوجائوں گا۔ مگر مجھے اس شعور کے ساتھ الگ ہونا پڑے گا کہ میں دنیا کی جس جماعت میں شامل ہوں گا، اس میں یہی الجھن میرا دامن تھام لے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اپنی پسند کی چند باتیں کسی جماعت میں پاکر میں اس کی طرف کھنچوں اور پھر ان باتوں کو ہوتے دیکھنے کی آرزو یہ دن دکھائے کہ مجھے جان بوجھ کر مقصد بھلا دیناپڑے۔ طریقوں میں بیسوں ناواجب باتیں گوارا کرنی پڑیں اور ان لوگوں کا ساتھ وہاں تک دینا پڑے، جن کے ساتھ کہیں تک جانا بھی پہلے مجھے گوارا نہ تھا۔ اس کا علاج پھر یہی ہے کہ میں اس پارٹی کو چھوڑ دوں۔ لیکن ہر پارٹی میری پسند کے ساتھ میری ناپسندیدہ باتوں کا ایک خفیہ یا آشکارا بوجھ بعد میں اٹھاکر میرے سر پر رکھ دے گی کہ اسے بھی سر پر لادنا ہے۔ تو پھر؟ جواماں ملی تو کہاں ملی۔ دراصل بات وہی گھوم پھر کر ابتدا تک پہنچتی ہے کہ بنیادوں کے بعد ہر اختلاف کے رفع کرنے کا جمہوری دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ یعنی یہ کہ :

﴿ب﴾ اگر مجھے اور میرے ساتھیوں کو کسی مسئلے یا بہت سے مسائل میں دوسروں سے اختلاف ہے تو جمہوریت یہی ہے کہ میں اپنے دوسروں کے لیے اختلاف کا حق محفوظ رکھوں اور کوشاں رہوں کہ عام رائے زیادہ تر میرے ساتھ ہوجائے تاکہ عملاً میری رائے کے مطابق کام ہو۔ لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ جب میری رائے کے مطابق کام ہو تو دوسروں کو کوئی اختلاف ہی نہ رہے یا کسی کا اختلاف اور اس کے لیے ہم نوائی کی اس کی کوششیں غیر جمہوری یا ناگوار ہوجائیں۔

﴿۸﴾ دوسری خدا ناشناس پارٹیوں میں تو میری پسند بسا اوقات وقار کا سوال اور زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے ۔ اس لیے کہ میرا کیریئر میری شہرت بلکہ میری قیادت سب دائوں پر لگ جاتا ہے۔ اس لیے یہاں کی ناکامی بڑی جانکاہ ہے ۔ کیوں کہ اپنی قیادت ہر قیمت پر باقی رکھنا میری زندگی کا مسئلہ ہے اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر میری کامیابی پر میری قیادت کا انحصار۔ اس لیے ہر مسئلے میں کامیابی میری ذمے داری ٹھہرتی ہے۔

﴿۹﴾ لیکن خدا شناسی پھر اقامت دین کی داعی پارٹی میں میرا بوجھ بہت کم ہے۔ مقصد کی عبا پہن کرکے اس کو اپنانا اور ہم مقصد پارٹی میں شامل ہوجانا میری ذمے داری ہے۔ اس کے بعد کے جتنے پہلو ہیں ان میں خالق اور مخلوق دونوں کے سامنے میری ذمے داری اس سے زیادہ نہیں کہ غوروفکر کے بعد جو مدلل بات مجھے کسی مسئلے پر مناسب لگے اس کا میں برملا اور واشگاف اظہار کروں۔ جمہورکی رائے اپنے حق میں ہم وار کرنے کی کوشش کروں۔ تاکہ میری ہم نوائی اتنی ہوجائے کہ بالآخر وہی بات چلنے لگے۔ اس سے زیادہ کی میری قطعی ذمے داری نہیں اور صرف یہ بات میرے کسی جماعت سے بھی ﴿چہ جائے کہ ایک دینی تحریک سے﴾ ہٹنے کے لیے قطعی کافی نہیں۔

﴿۱۰﴾ مجھے اپنی ذمے داری کے ایسے کم ہونے پر اطمینان کا احساس ہے۔ ایک طرف میرے رب کی طرف سے میرا اجر نہیں مارا گیا۔ دوسری طرف میری کوشش میرے رب کے اور عام انسانوں کے نزدیک قابل قدر ٹھہری۔ باعث ملامت نہیں۔ تیسری طرف جو نتیجہ میںچاہتا تھا اس کا نکلنا نہ نکلنا میرے اوپر موقوف نہیں رہا۔ بلکہ جماعت کی ذمے داری ٹھہری اور چوتھی طرف ضمیر اور ایمان کے آگے میں کسی شرمندگی اور کوتاہی کا مجرم نہیںٹھہرا۔

﴿۱۱﴾ اس کے برعکس اگر میں نے وہ ذمے داری قبول کرلی جو خدا نے بھی مجھ پر نہیں ڈالی اور جس کا مخلوق بھی مجھ سے جواب طلب نہیں کرسکتی تو پھر خدا بھی مجھ سے میرے معیار کے مطابق حساب کتاب کا معاملہ کرے گا اور مخلوق بھی میرے مقرر کیے ہوئے معیار پر ہی مجھے پرکھے گی۔ خدا سے معاملے کا مطلب یہ کہ مجھے اپنے رب کے سامنے ثابت کرنا ہوگا کہ دین کا اکمل تقاضا وہی تھا جو میں نے سمجھا تھا اور وہ اتنا شدید تھا کہ مقصد سے اتفاق ہونے پر بھی مجھے اس جماعت سے نکلنا لازم نظر آیا۔ پھر یہ جواب دہی بھی کرنی ہوگی کہ کسی جماعتی زندگی کو ترک کرکے میں نے اپنا مقصد اور اپنے اس طے کردہ مقصد کا تقاضا کس طرح اور کس انداز سے پورا کیا۔ کیاکسی اور جماعت میں مجھے اس مقصد یاا س کا تقاضا پورا ہوتا نظر آیا۔ کیا اس تقاضے کو پورا ہوتا نہ دیکھ کر میں نے اس جماعت کو خیرباد کہا یا مجبوراً اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرکے اس پر چلتا رہا۔ اگر ایسا ہوا تو میراپہلی پارٹی سے نکلنے کا کیا جواز تھا۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ مجھے اس سوال کا جواب دینا پڑے گا ﴿بلکہ ثابت کرنا ہوگا﴾ کہ میں اختلافات کے مرحلے میں اس بات کا اپنے رب کی جانب سے مکلف بھی تھا اور مجھے اس بات کی جواب دہی کا خطرہ بھی تھا کہ اختلاف رائے پر ہم نوائی نہ پاکر اگر میں نے جماعت نہ چھوڑ دی تو میرا رب مجھے پکڑ لے گا۔ کیا میں خداکے روبرو یہ بات ثابت کرسکوں گا؟ یا یہ بات مصیبت بن کر میرے گلے کا طوق بن جائے گی کہ جس بات کو منواڈالنے کی ذمے داری خدا کی طرف سے مجھ پر تھی ہی نہیں وہ بات بڑھاکر میں نے اتنی اہم کردی کہ اس کے سبب دین کے لیے جماعتی زندگی تر ک کردی۔ جس کی جواب دہی بہرحال مجھے کرنی ہوگی اور جس کا معقول عذر نہ ہونے پر مجھے اپنی نجات کے لالے پڑجائیں گے۔

بس عزیز بھائی! میری اور آپ کی جتنی جواب دہی ہے، اس کے ہلکے بوجھ کو اٹھا لینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ خدا کے آگے اگر ہم خم ٹھونک کر کھڑے ہوجائیں کہ تونے ہم کو صرف اقامت دین کے لیے کوشش کا مکلف کیوں ٹھہرایا؟ کیوں نہ ہم تیرے دین کو قائم کرڈالنے پر اپنے آپ کو مامور سمجھیں؟ تو خدا کو بھلا کیا اعتراض ہوگا۔ وہ صرف یہ کرے گا کہ ہمارے لیے شرط نجات اقامت دین کردے گا اور ہم کو ہمارے ہی پیمانوں سے ناپ کر فیصلہ کرے گا۔ العیاذ باللہ۔ کچھ ایسا ہی حال پہلے کہی ہوئی بات کا بھی ہے۔ آپ نماز باجماعت کے پابند ہیں۔ اسے یا کسی کی امامت کو اسی وقت ترک کرسکتے ہیں جب کہ یقین ہو کہ مسجد مسجد ضرار ہے اور امام مصلح کے بجائے مفسد ہے۔ اس سے ہٹ کر چاہے تمام باتیں ناگوار ہوں نمازوں کا وقت امام کی امامت کا طریقہ ، اس کے خطبے کی بے اثری، خشوع وخضوع کی کمی، نمازیوں کا آپسی جھگڑا ، ان میں سے کوئی بات بھی نماز باجماعت کے ترک پر دلیل نہیں ہے اور اگر ان باتوں کوسمجھا بجھاکر ٹھیک کرنے کی جگہ آپ نماز چھوڑ بیٹھتے ہیں تو یہ پرہول ذمے داری اپنے سر لے رہے ہیں کہ خدا کے پاس یہ ثابت کردیں گے کہ یہ چیزیں اتنی اہم تھیں کہ ان کی خاطرنماز کی جماعت چھوڑ دی تھی۔ یا پھر یہ کہہ سکیں گے کہ تیری نماز کا درد دل میں اتنا تھا کہ جن باتوں کا تونے مجھے مکلف بھی نہیں کیا تھا میں نے ان کو بھی اپنی ذمے داری بنا لیا!

اللہ سے دعا ہے کہ جو باتیں قلم نے حق لکھی ہیں ان کو میرے اور آپ کے لیے نافع بنائے اور غلط باتوں کے برے اثر سے مجھے اور آپ کو محفوظ رکھے۔ آمین۔  والسلام

آپ کا بھائی م نسیم

مشمولہ: شمارہ اپریل 2012

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau