دوسرا پروگرام: دینی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ کے لیے عصری تعلیم کے مراکز :
ہمارے ملک میں دینی مکاتب و مدارس کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ الحمدللہ ان کی خدمات لائق ستائش ہیں جہاں یہ دین کے تحفظ اور ترویج کا ذریعہ ہیں وہیں ملک میں خواندگی کی شرح میں ان کے ذریعے اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں یہ اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے دین کے یہ قلعے کچھ خارجی دباؤ اور مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں کو عصری علوم سے جوڑا جائے۔ عصری علوم سے ان اداروں کو جوڑنے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک آسان اور قابل عمل شکل ان اداروں کا ’این آئی او ایس ( Naional institute of open schooling ) سے الحاق بھی ہے۔
یہ مرکزی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ایک بورڈ ہے جو ابتدائی تعلیم ( کلاس سوم، کلاس پنجم اور کلاس ہشتم )، دسویں، بارہویں اور کچھ ڈپلوما کورسوں کو فاصلاتی نظام کے تحت چلاتا ہے۔ اس کے ذریعے دی جانے والی اسناد چاہے وہ دسویں جماعت کی ہو یا بارہویں جماعت کی یا ڈپلوما کورسوں کی یا ابتدائی کلاسوں کی۔ ان تمام اسناد کو ملک کے تمام تعلیمی بورڈ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے بارہویں جماعت میں کام یاب ہونے والے طلبہ نیٹ (NEET) اور دیگر مسابقاتی امتحانات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس ادارے کا صدر دفتر دہلی کے علاقہ نوئیڈا میں واقع ہے جب کہ ریاستی دفاتر متعلقہ ریاستوں کے صدر مقام پر قائم ہے۔ یہ ادارہ مرکزی وزیر تعلیم کی راست نگرانی میں کام کرتا ہے۔ اس سے حاصل شدہ سرٹیفکیٹ کے ذریعے سرکاری نوکریاں اور محکمۂ دفاع کے مختلف شعبوں میں بھی داخلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس بورڈ کی ایک اورخاص بات یہ ہے کہ یہ بارہویں اور دسویں کے امتحانات کے علاوہ ‘او بی ای ’(Open basic education ) اسکیم کے تحت درجہ سوم، درجہ پنجم اور درجہ ہشتم کے امتحانات بھی منعقد کرتا ہے۔ ان امتحانات میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد طالب علم اگر چاہے تو اپنی تعلیم ریگولر اسکول یا کالج میں جاری رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی طالب علم ’او بی ای‘ اسکیم کے تحت درجہ سوم کا امتحان دیتا ہے اور اس میں کام یابی حاصل کرلیتا ہے تو وہ کسی بھی عام اسکول میں چوتھی جماعت (Class IV) میں داخلہ لے سکتا ہے اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک طالب علم’ او بی ای‘ اسکیم کے تحت جماعت پنجم (Class V)کا امتحان دیتا ہے اور وہ کام یاب ہوجاتا ہے تو وہ کسی بھی عام اسکول میں درجہ ششم ( Class VI) میں داخلہ لے سکتا ہے۔ اسی طرح جماعت ہشتم (Class VIII) کا امتحان دینے والے طالب علم کو یہ موقع حاصل رہے گا کہ وہ درجہ نہم (Class IX)میں داخلہ لے۔
مضامین کا انتخاب
اوپن بیسک ایجوکیشن یعنی درجہ سوم(Class III)، درجہ پنجم (Class V)اور درجہ ہشتم (Class VIII)، ان جماعتوں کے امتحانات کے لیے ضروری مضامین’ این آئی او ایس ‹ طے کرتی ہے۔ اس میں دو زبانوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور تین مضامین ہوتے ہیں۔ تین مضامین میں ایک سائنس، دوسرا ریاضی اور تیسرا مضمون ’ای وی ایس‘ یعنی انوائرنمنٹل اسٹڈیز (ماحولیات کی تعلیم)، ضروری مضامین ہیں۔
یہ تو رہا معاملہ تیسری، پانچویں اور آٹھویں جماعتوں کے امتحانات کے لیے۔ دسویں اور بارہویں جماعتوں کے لیے طلبہ کو تقریباً 35 مضامین میں سے پانچ مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ان پانچ مضامین میں سے زیادہ سے زیادہ دو زبانوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
دینی مدارس کے طلبہ کے لیے مندرجہ ذیل مضامین موزوں ہوسکتے ہیں۔’ شاہین گروپ‘ کی طرف سے چلائے جارہے حفظ (پلس کورس) میں اکثر مراکز میں انھی پانچ مضامین کو پڑھایا جاتا ہے۔ (1) زبان اردو،(2) زبان انگریزی،(3) سائنس،(4) ریاضی، (5) ڈیٹا انٹری آپریٹر (کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم)۔
یہ مضامین دینی مدارس کے طلبہ بآسانی پڑھ لیتے ہیں۔ انھیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دینی مدارس سے جو طلبہ حفظ کرکے ’ شاہین حفظ پلس کورس‘ میں داخلہ لیتے ہیں، وہ بآسانی ایک سال میں مندرجہ بالا پانچ مضامین کی تیاری کرکے امتحان دیتے ہیں اور اعلیٰ نمبرات کے ساتھ کام یابی حاصل کرتے ہیں۔ ان مضامین میں سہولت یہ ہے کہ دینی مدارس سے فارغ طلبہ اردو جانتے ہی ہیں، اردو کے علاوہ اگر شعبہ حفظ میں ہیں تو دیگر مضامین کی معلومات کم ہوتی ہیں تاہم ان کا حافظہ بہتر ہونے اور زندگی میں ڈسپلن ہونے کی وجہ سے وہ سخت محنت کرتے ہیں اور ان مضامین کو سیکھ لیتے ہیں۔ وہ طلبہ جو حفظ کے بجائے عالمیت کا کورس کرتے ہیں۔ اس شعبے میں اردو کے علاوہ بنیادی انگریزی اور ریاضی کا علم رکھتے ہیں۔
آج بیشتر بڑے مدارس میں کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم دی جارہی ہے۔ اگر کسی مدرسے میں کمپیوٹر کی تعلیم کاانتظام نہیں ہے تو یوں بھی کمپیوٹر کی آج بنیادی معلومات رکھنا ضروری ہے۔ جس طرح آج سے پہلے تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو قلم پکڑنا اور لکھنا آئے، اسی طرح فی زمانہ اہل علم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو کمپیوٹر چلانا آئے۔ اس طرح طلبہ دو زبانوں کے علاوہ ان مضامین کو آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔
دسویں اور بارہویں کے امتحانات کے لیے کم سے کم پانچ مضامین کا انتخاب ضروری ہے۔لیکن کوئی طالب علم پانچ سے زائد مضامین لینا چاہتا ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ میڈیکل کے لیے تو فزکس، کمسٹری اور بائیولوجی مضامین کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ انجینئرنگ کے لیے ریاضی کی اور بعض کورسوں کے لیے کمپیوٹر سائنس کا مضمون لینا ہوتا ہے، لہٰذا اگر ایک طالب علم میڈیکل اور انجینئرنگ دونوں کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ فزیکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے علاوہ دو زائد مضامین، ریاضی اور کمپیوٹر سائنس بھی لے سکتا ہے۔ اس طرح اگر اس طالب علم کو میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا ہے تو وہ انجینئرنگ بھی کرسکتا ہے۔
اگر کوئی طالب علم سائنس کے میدان کے بجائے آرٹس یا کامرس کے میدان کو منتخب کرنا چاہتا ہے تو اسی اعتبار سے وہ مضامین کا انتخاب کرسکتا ہے۔
تعلیمی زبان
‘این آئی او ایس ’تین زبانوں میں تعلیم کا انتظام کرتا ہے۔ انگریزی، ہندی اور اردو۔ دینی مدارس کے طلبہ میٹرک تک کے امتحانات اردو زبان میں لکھ سکتے ہیں۔ جن مضامین کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان مضامین کو اردو میں پڑھایا جاسکتا ہے۔ اردو میں ان کی کتابیں دستیاب ہیں۔اردو میں امتحان دیا جاسکتا ہے۔ بعض اداروں میں اس طرح کا انتظام دستیاب ہے۔ان اداروں میں میٹرک کا امتحان اردو زبان میں دیا جاتا ہے لیکن ہاں، اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ طلبہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات انگریزی زبان میں دیتے ہیں۔جب وہ بارہویں کا امتحان انگریزی زبان میں دیتے ہیں تو انھیں گریجویشن کی تعلیم کسی بھی شعبے میں حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ہے۔
بارہویں کی تعلیم
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد طلبہ بارہویں کا امتحان دے سکتے ہیں جسے ‘این آئی او ایس ’ کی زبان میں‘سینئر سیکنڈری ایگزام’کہا جاتا ہے۔ دراصل این آئی او ایس ‘ میں گیارہویں نہیں ہوتی ہے بلکہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد دو سال کے وقفے سے بارہویں کا امتحان دیا جاسکتا ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ طلبہ میٹرک کے ایک سال بعد دو مضامین کے امتحان دیں۔ یعنی پانچ میں سے دو مضامین، اردو اور کمپیوٹر سائنس۔ بقیہ تین مضامین کا امتحان یعنی ریاضی، سائنس اور انگریزی کا امتحان دو سال بعد۔ یہ ایک طریقہ ہے جسے آسانی کی خاطر اختیار کیا جاسکتا ہے۔
عمر کی حد
‘این آئی او ایس ’کے امتحانات کی بنیاد عمر ہوتی ہے۔ یہ عمر اتنی ہی ہے، جو’ سی بی ایس ای ‘ اپنے امتحانات کے لیے طے کرتی ہے۔ عمر کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
‘اوبی ای ’درجہ سوم کے امتحان کے لیے 8 سال سے زیادہ کی عمر ہونی چاہیے۔ اسی طرح پانچویں کے امتحان کے لئے10 سال سے زیادہ کی عمر ہونی چاہیے۔ آٹھویں جماعت کے امتحان کے لیے 13 سال سے زیادہ کی عمر ہونی چاہیے۔ میٹرک کے امتحان کے لئے15 سال کی عمر مکمل ہونی چاہیے اور بارہویں جماعت کے امتحان کے لئے18 سال مکمل ہونے چاہئیں۔ واضح رہے کہ یہ مطلوبہ کم سے کم عمر کی حد ہے۔
دینی مدارس میں اسے کیسے جاری کریں
(1) شعبہ حفظ۔ شعبہ حفظ میں ‘این آئی او ایس ’کے امتحان کو جاری کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ دوران حفظ طلبہ کو زبان اردو اور زبان انگریزی یا ریاضی کی بہت بنیادی تعلیم روزانہ یا ہفتہ میں چند دنوں آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک دی جاسکتی ہے۔ عموماًطلبہ14 سال کی عمر میں حفظ مکمل کرلیتے ہیں۔ بعض کا دور بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ‘این آئی او ایس ’اسکیم کے تحت درجہ سوم، پنجم، ہشتم اور میٹرک کے امتحانات عمر کی بنیاد پر لیے جاسکتے ہیں۔میٹرک کا امتحان دینے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ طالب علم نے ‘این آئی او ایس ’کی جماعت ہشتم کا امتحان پاس کیا ہو۔ لیکن بارہویں جماعت کے لیے یہ لازم ہے کہ طالب علم نےمیٹرک پاس کیا ہو، چاہے‘این آئی او ایس ’ے یا کسی بھی حکومت کے تسلیم شدہ بورڈ سے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد چاہے طالب علم کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو، اسے ایک سال کا وقفہ دینا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ‘این آئی او ایس ’میں گیارہویں نہیں ہے بلکہ راست طالب علم بارہویں کا امتحان دیتا ہے۔
رہے وہ طلبہ جو حفظ مکمل کرچکے ہیں، انھیں وہ پانچوں مضامین پڑھانے کا انتظام کیا جائے جنھیں اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ان مضامین کو پڑھانے کے لیے ٹائم ٹیبل کچھ اس طرح ہوسکتا ہے :
یومیہ ٹائم ٹیبل کا ایک نمونہ درج ذیل ہے:
یومیہ ڈیڑھ گھنٹہ ریاضی، ایک گھنٹہ سائنس، ایک گھنٹہ کمپیوٹر سائنس، اور ایک گھنٹہ انگریزی، آدھے گھنٹے سے پون گھنٹہ اردو۔ کل ملا کر آپ روزانہ آٹھ گھنٹے تک تدریسی عمل جاری رکھیں گے۔ آٹھ گھنٹوں میں سے طلبہ مدرسے میں کم سے کم ایک سے دو گھنٹے سیلف اسٹڈی (ذاتی مطالعہ ) کریں اور ہوم ورک وغیرہ مکمل کریں۔ اس پروگرام کی جو کلاسیں ہوں گی، وہ عام کلاسوں کی طرح نہیں ہوں گی بلکہ طلبہ کی استعداد کے مطابق ان کے گروپ بنائے جائیں گے۔ ہر گروپ میں چھ تا آٹھ طلبہ ہوں۔ ان کے درمیان استاد بیٹھیں اور ہر طالب علم کی استعداد کے مطابق سبق پڑھایا جائے۔ اس سبق کو جب تک تمام طلبہ مکمل نہ کرلیں آگے کا سبق شروع نہیں کیا جائے۔
عا لمیت کورس میں‘این آئی او ایس’ کا نظام
عا لمیت کورس میں طلبہ کو مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔عموماً عالمیت میں داخلہ 13 یا 14 سال ہی میں لیا جاتا ہے۔ یہاں پر یا تو مضامین تمام کے تمام ایک ساتھ پڑھائے جائیں یا پھر 14 سال کی عمر سے پڑھانا شروع کریں۔ اس کے تین ماڈل ہوسکتے ہیں۔ (1) وہ طلبہ جو 14 سال کی عمر کے ہیں، انھیں عالمیت کے مضامین کے ساتھ ساتھ ان مندرجہ بالا پانچ مضامین میں سے ابتدا میں دو مضامین پڑھائیں جیسے اردو اور کمپیوٹر سائنس۔ اور15 سال کی عمر میں انھیں دو مضامین کے امتحانات دینے کے لیے تیار کریں۔ (2) دوسرے سال یعنی 16 سال کی عمر میں طالب علم تین مضامین کے امتحانات دیں۔ جیسے ریاضی، سائنس اور انگریزی۔(3) تیسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر طالب علم سمجھ رہے ہیں کہ بوجھ زیادہ ہے تو پھر تیسرے سال بھی ان امتحانات کو دیا جاسکتا ہے اور17 سال کی عمر میں طالب علم میٹرک پاس کرسکتا ہے لیکن ہمارا یہ تجربہ ہے کہ طلبہ کو اگر تھوڑی سی محنت کرادی جائے تو 16 سال کی عمر میں وہ میٹرک پاس کرلیں گے۔
بارہویں کے امتحانات
میٹرک کے بعد طلبہ دو سال کے وقفے کے سے بارہویں کے امتحانات دے سکتے ہیں۔ عالمیت کورس کرنے والے طلبہ اپنا کورس جاری رکھتے ہوئے کل پانچ مضامین میں سے دو مضامین کے امتحانات پہلے سال دے سکتے ہیں اور دومضامین کے امتحانات دوسرے سال دے سکتے ہیں۔ اس طرح طلبہ عالمیت کے ساتھ ساتھ بارہویں کی سرٹیفکیٹ 18 یا 19 سال کی عمر میں حاصل کرسکتے ہیں۔ موجودہ نظام میں مختلف بڑے مدارس سے عالمیت کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کو راست ‘بی اے ’میں داخلہ ملتا ہے۔ لیکن یہ طلبہ سائنس کے کورسوں میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب وہ طلبہ ‘این آئی او ایس ’کے ذریعے سائنس مضامین کو لے کر بارہویں پاس کرتے ہیں تو پھر وہ نیٹ کا امتحان دے سکتے ہیں یا پھر سائنس کے کسی بھی کورس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
مطالبے پر امتحان
‘این آئی او ایس’میں ایک اور سہولت ‘مطالبے پر امتحان’کی ہے۔ یعنی میٹرک اور بارہویں کے سالانہ امتحانات میں پرچہ لکھنے کے بعد اگر کسی طالب علم کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ وہ کسی مضمون میں فیل ہوسکتا ہے یا اسے کم نمبرات مل سکتے ہیں تو پھر ایک مہینے بعد وہ ‘مطالبے پر امتحان’دے سکتا ہے۔‘مطالبے پر امتحان’دینے کا عمل ایک مضمون کے لیے بھی ہوسکتا ہے یا کئی مضامین کے لیے بھی۔ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو کسی اور بورڈ میں فراہم نہیں ہے۔ اگر ایک طالب علم تین مضامین میں کام یاب ہوجاتا ہے اور اس کے دو مضمون رہ جاتے ہیں، جن میں وہ پاس نہیں ہوا ہے تو نتائج آنے کے ایک ماہ بعد وہ ایک مضمون کا امتحان دے سکتا ہے یا دو مہینے کے بعد اس مضمون کا امتحان دوبارہ دے سکتا ہے اور جس مضمون کا امتحان رہ گیا، تین ماہ کے بعد اچھی تیاری کے ساتھ اس کا امتحان دے سکتا ہے۔ اس طرح طلبہ مختلف وقفوں میں تمام مضامین کا امتحان دے کر اپنا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
سال میں دو بار داخلے کا موقع
اس بورڈ میں ہر سال دو بار داخلے کا موقع آتا ہے۔ طلبہ اپنی سہولت اور حالات کے مطابق داخلہ لے سکتے ہیں۔ پہلا موقع 11 مارچ تا 31 جولائی کا ہے۔ اس کا امتحان اکتوبر، نومبر میں ہوتا ہے۔ دوسرا موقع 15 ستمبر تا 31 جنوری ہے۔ اس کا امتحان اپریل، مئی میں ہوتا ہے۔اگر کوئی طالب علم دونوں داخلے کی تاریخوں میں فارم نہیں پُر کرسکا تو لیٹ فیس کے ساتھ بھی فارم پر کرنے کی ایک مدت دی جاتی ہے۔
’این آئی او ایس‘ کے مراکز کا قیام کیسے؟
‘این آئی او ایس’سے تعلیم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ طلبہ اپنے طور پر‘این آئی او ایس’ سے رجسٹریشن کراسکتے ہیں۔ انھیں ان کے مقام سے قریب واقع‘این آئی او ایس ’کے سینٹر سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ وہاں طالب علم کو ہفتہ میں ایک بار جانا ہوتا ہے۔ پریکٹیکل والا اگر مضمون ہے تو پریکٹیکل کرنے ہوتے ہیں۔ ورنہ وہاں کنٹیکٹ کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے طلبہ اپنے مدرسے سے قریب والے سینٹر کو منتخب کرسکتے ہیں اور وہاں امتحان دے سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ‘ این آئی او ایس ’دینی مدارس کو بھی اب اپنا اسٹڈی سینٹر بنا رہا ہے۔ پہلے یہ بات قدرے مشکل تھی لیکن اب یہ آسان ہوچکی ہے۔ پہلے ’این آئی او ایس‘ اس اسکول یا مدرسے کو مرکز بناتا تھا جو‘سی بی ایس ای’سے یا پھراسٹیٹ بورڈ یا مدرسہ بورڈ سے ملحق ہوتا تھا۔ لیکن اب اگر کوئی مدرسہ‘اسٹیٹ بورڈ’یا ‘مدرسہ بورڈ ’سے ملحق نہیں ہے لیکن اس کے پاس اتنی عمارت دستیاب ہے جہاں کلاسوں کا اہتمام کیا جاسکتاہے اور اس میں مدرسین کی وہ تعداد موجود ہے جو‘این آئی او ایس’کے مضامین کو پڑھا سکتے ہیں تو اسے سینٹر دیاجاسکتا ہے۔
فیس
’این آئی او ایس‘سے جڑنے کے لیے‘این آئی او ایس’کی فیس زیادہ نہیں ہے۔ یہ فیس داخلہ اور امتحان کے لیے دوہزارروپے تک ہے(برائے سال 2023)۔ اس میں رجسٹریشن، امتحان کی فیس اور کتابوں کی رقم شامل ہے۔‘این آئی او ایس’ہر طالب علم کو اردو اور ہندی زبانوں میں کتابیں فراہم کرتا ہے۔ دل چسپی رکھنے والے طلبہ یا ادارے مزید تفصیلات ‘این آئی او ایس ’کی ویب سائٹ سے حاصل کرسکتے ہیں جس کا ایڈریس یہ ہے https: //www.nios.ac.in
تعلیمی ایجنڈے کے مزید کچھ نکات
اس مضمون میں اب تک ‘ملت کے تعلیمی ایجنڈا کا تعارف ’اور ‘مقاصد تعلیم’جیسے عناوین کے علاوہ ’ تعلیم کی دوئی‘ پر بحث کی گئی جو ملت کے زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔نیز فی زمانہ اس کا آسان حل بھی پیش کیا گیا جسے اپنا کر ملت اسلامیہ زوال و انحطاط سے بچ سکتی ہے۔اسی طرح عصری اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ کے لیے دینی تعلیم کے مراکز کا قیام اور دینی علوم حاصل کررہے طلبہ کے لیے عصری تعلیم کے امکانات کو بھی پیش کیا گیا۔ اگلی سطور میں ملت کے تعلیمی ایجنڈے کے کچھ مزید نکات سپرد قرطاس کیے جارہے ہیں۔
تعلیمی ثقافت کا فروغ
ملت کے تعلیمی ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ملت میں تعلیمی ثقافت (Educational culture)کو کیسے فروغ دیں؟
دنیا کے تمام ماہرین نفسیات جو تعلیم کے شعبے میں بھی عبور رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بچے اپنے ماحول،معاشرے، اپنی تہذیب و ثقافت اور ان رویوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں جو وہ اپنے اطراف میں محسوس کرتے ہیں یا جن رویوں سے ان کی وابستگی ہوتی ہے۔ چناں چہ جس کلچر میں تعلیم کا ماحول ہوتا ہے، تعلیم کی اہمیت کو قبول کیا جاتا ہے اور گھر اور سماج میں علمی گفتگو ہوتی ہے، اس سماج کی نسل ان اثرات کو بہتر طور پر قبول کرتی ہے۔ یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کا تعلیمی کلچر بام عروج پر تھا۔ اُن دنوں بغداد کی گلیاں راتوں میں قمقمے کی چمک اور قندیلوں کی روشنی سے جگمگاتی رہتی تھیں۔ اس روشنی میں علمی مجالس کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ خطاط کتابوں کی نقلیں تیار کرتے تھے اور مخطوطات کی خریدو فروخت ہوتی تھی۔ جب کہ اسی دور میں مغربی ممالک میں لوگ توہم پرستی کا شکار تھے۔دن ڈھلتے ہی اپنے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ رات کی تاریکی نحوست لے کر آتی ہے۔اندھیرے کی چادر پھیلتے ہی سڑکیں اور گلیاں آسیب کے زیر اثر آجاتی ہیں، اس لیے وہ رات کی تاریکی میں کوئی علمی کام انجام نہیں دیتے تھے جب کہ علم و تحقیق میں دل چسپی نہ ہونے کے سبب دن کے اجالے میں بھی ان کی علمی سرگرمیاں انتہائی سست رہتیں۔ پھر زمانے نے کروٹ لی اور حالات یوں بدل گئے کہ تیرھویں صدی کے اُسی مسلم علمی ورثے کو لے کر آج مغرب علم و تحقیق کے اونچے پائیدان پر کھڑا ہوا ہے۔
اس وقت مغربی ممالک میں تعلیمی دل چسپی کا عالم یہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق وہاں کی خواتین ہر سال اوسطاً چھ ضخیم کتابیں پڑھ لیتی ہیں۔اس کے برخلاف بھارت کی مسلم خواتین مطالعے کے معاملے میں اور کتابوں سے شغف رکھنے کے تئیں بہت کم زور ہیں۔ انٹرویو میں جب ہم مسلم لڑکیوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے نصابی کتب کے علاوہ بھی کوئی کتاب پڑھی ہیں؟ تو اکثر کا جواب ‘نفی ’میں ملتا ہے۔ بعض لڑکیاں جواب میں دو کتابوں کا نام لیتی ہیں۔ اول: بہشتی زیور، دوم: فضائل اعمال۔ ان دونوں کتابوں کے علاوہ بہت کم لڑکیاں دیگر کتابوں کا مطالعہ کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ اگر ہم اس ملک میں ملت کے اندر کوئی تعلیمی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت اس کے تقاضوں کے مطابق کرنی ہوگی۔ ہم اپنے بچوں کی تربیت علمی ماحول میں نہیں کرتے اور نہ ہی گھروں میں علمی ماحول فراہم کرتے ہیں۔ بہت کم گھر ایسے ہیں جہاں علمی موضوعات پر فیملی ڈسکشن ہوتا ہو، اجتماعات ہوتے ہوں یا ایک ساتھ بیٹھ کر کتابیں پڑھی جاتی ہوں۔ ہمارے گھروں میں جو عام طور پر گفتگو ہوتی ہے، وہ کرکٹ، فلمی دنیا اور ٹی وی سیریز جیسے موضوات پر ہوتی ہے یا پھر دنیا پرستی کی باتیں کہ کس کے پاس کتنا روپیہ ہے۔ کون عالیشان گاڑی، بنگلہ کا مالک ہے اور کون کہاں سیر و تفریح کے لیے جارہا ہے اور کس کی زندگی راحت و آسائش بھری ہے۔ یہی ہمارے گھروں کے مرغوب موضوعات ہیں۔ اسی اعتبار سے ہماری نسل کی پرورش و تربیت ہورہی ہے۔
ایجنڈے کے ان نکات کے تحت ہمیں کوشش کرنی ہے کہ بھارت کے مسلمانوں میں ایک علمی کلچر کو فروغ دیں۔ اس کے لیے مسلسل تربیت کی ضرورت ہے، جسے ہم ممکنہ وسائل کا استعمال کرکے یقینی بناسکتے ہیں۔ اس کلچر کو عام کرنے میں خطبات و تقاریر اور سوشل میڈیا وغیرہ کی مدد لی جاسکتی ہے۔
گھروں میں تعلیمی کلچر
تیس، چالیس سال قبل ملت میں یہ کلچر کسی نہ کسی درجے میں موجود تھا کہ گھروں میں داخل ہوتے تو برآمدے اور دیوان خانے میں کتابوں کی الماریاں نظر آتیں۔ ان الماریوں میں نئی اور قدیم و نایاب کتابیں سجی ہوئی ہوتیں۔ جب کوئی مہمان آتا تو مہمان کے ساتھ ان کتابوں پر گفتگو ہوتی اور علمی سماں بندھ جاتا۔ ماضی قریب تک بھارت میں ذاتی لائبریریوں کاچلن پایا جاتا تھا۔ بی بی سی کے ایک مشہور صحافی رضا علی عابدی نے اس پر ایک دل چسپ سیریز (کتب خانوں سے) کے عنوان کے تحت پیش کی تھی۔ بعد میں اس پروگرام کوکتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا۔ اس کتاب میں انھوں نے کرناٹک کے دور دراز علاقے ’بیجا پور‘ کی ایک ذاتی لائبریری کا ذکر کیا ہے تو رامپور کی رضا لائبریری اور پٹنہ کی خدا بخش لائبریری کا بھی دل چسپ تذکرہ کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ کلچر اب قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ اب گھر چھوٹے ہوگئے ہیں، ڈرائنگ روم میں الماریاں اور شوکیس موجود ہیں، مگر ان میں کتابیں نہیں بلکہ خوب صورت کھلونے یا ڈنر سیٹ، ٹی سیٹ اور نگاہوں کو فرحت عطا کرنے والی اشیا ملیں گی۔ دماغ کی غذا کے لیے جو اشیاء پہلے الماریوں میں ہوا کرتی تھیں، ان کی جگہ زبان کے ذائقے اور پیٹ کو بھرنے والی اشیا نے لے لی ہے۔ یہ طرز زندگی بتا رہا ہے کہ کس طرح ملت اب دماغ کے لیے کم اور پیٹ کے لیے زیادہ سوچتی ہے۔
ہر تعلیم یافتہ گھرانہ یا وہ خاندان جو علم و حکمت کو فروغ دینا چاہتا ہے، وہ اپنے بجٹ میں تعلیم کو اہم مقام دیتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم ملت میں تعلیم کے لیے بجٹ مختص کرنے کا کوئی مزاج نہیں ہے۔ ہم کھانے کے لیے،کپڑوں کے لیے، زیوروں کے لیے، گاڑی کے لیے اور شادی بیاہ میں نمائش کے لیے ضرور ی بجٹ بناتے ہیں اور اس کے لیے سرمایہ جوڑتے ہیں، لیکن کتابوں کے لیے، تعلیمی سرگرمیوں کے لیے ہماری بجٹ پلاننگ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہمیں ملت میں بیداری لانے کی ضرورت ہے کہ ہر گھر چاہے معاشی اعتبار سے کم زور ہو یا متمول۔ حسب حیثیت تعلیمی مشاغل اور علمی سرگرمیوں کے لیے ایک بجٹ مختص کرے۔ تاکہ ہر مسلمان کا گھر علم کا گہوارہ بن جائے۔ ہر گھر اپنے آپ میں ایک مدرسہ اور لائبریری ہو، تب جاکر ایک تعلیمی انقلاب برپا ہوگا اور ہم دنیا کو دینے والے بنیں گے۔ جب ہم تعلیمی اعتبار سے بلند ہو کر دنیا کو دینے والے بن جائیں گے تو دنیا کے دل کو مسخر کرنا ہمارے لیے آسان ہو گا۔ وہ تعمیری انقلاب جس کے ہم متمنی ہیں، اس کے لیے تعلیم ایک اہم شاہراہ ہے۔ ہمیں مختلف انداز اور ذریعوں سے اپنے شعور کو بیدار کرنا ہوگا کہ اپنے گھروں میں بچوں کی تعلیم کے لیے ایک ماحول پیدا کریں، ایسا ماحول جو ان کی تعلیم کے لیے سازگار ہو۔ آج کل گھر چھوٹے ہوتے ہیں، بچے پڑھنے والے ہوتے ہیں تو انھیں وہاں پرسکون ماحول دستیاب نہیں ہوتا۔ موبائل فون پر اہل خانہ بلند آواز سے گفتگو کرتے ہیں یا پھر موبائل اور ٹی وی پر مَن چاہے پروگرام دیکھتے ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم میں خلل پڑتا ہے۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ گھر میں کچھ دیر کے لیے ‘نو موبائل اورس‘’ڈکلیئر کیا جائے، یعنی شام کے کچھ مخصوص اوقات میں گھر کے تمام لوگوں کے موبائل بند ہونے چاہیئں اور ان کا استعمال صرف فوری شدید ضرورت ہی کے لیے کیا جائے۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو گھر کا ایک گوشہ تعلیم کے لیے مختص کردیا جائے۔ وہاں بچوں کے لیے صاف ستھرا ماحول دستیاب ہو۔ تعلیمی اوقات کے درمیان باورچی خانے کی سرگرمیاں بھی کم کردی جائیں، ممکن ہوتو ان سرگرمیوں کو بالکل روک دیا جائے۔ اسی طرح خوشگوار تعلیمی ماحول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ماں باپ کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور گفتگو نرم لہجے میں کی جائے، کسی طرح کی لڑائی جھگڑا اور بلند آواز سے قطعی اجتناب کیا جائے۔ نصابی کتابوں کے علاوہ غیر درسی کتابوں کے مطالعہ کا ایک ماحول بنایا جائے۔ گھر میں کسی کتاب کا اجتماعی مطالعہ کرنے کی عادت بنائی جائے، چاہے آدھے گھنٹے کے لیے ہی سہی۔ اس سے طلبہ اور افراد خانہ میں مطالعے کی عادت کو فروغ ملے گا۔ اگر اجتماعی مطالعہ ممکن نہیں ہے تو گھر کا ہر فرد اپنی پسندیدہ کتاب کا انتخاب کرے اور اس کا مطالعہ کرے۔ سال میں ایک دو بار پوری فیملی کے ممبران کتابوں کی مارکیٹ یا کتابوں کی نمائش کا دورہ ضرور کریں۔
تعلیم حاصل کررہے طلبہ کی ہمیشہ ہمت افزائی کی جانی چاہیے، انھیں مناسب غذا دی جائے۔ ان سے خوشگوار گفتگو کی جائے، کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جو انھیں نفسیاتی طور پر چوٹ پہنچائے۔ اگر طالب علم کسی مضمون میں کم زور ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔گھر کے بڑے، بچوں کے مسائل توجہ سے سنیں اور انھیں حل کرنے میں دل چسپی لیں۔ یہ چند باتیں تھیں، گھروں میں علمی کلچر کو فروغ دینے کے لیے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری باتیں ہیں جو گھروں میں تعلیمی کلچر کو فروغ دینے کی راہ ہم وار کرتی ہیں۔ انھیں اختراعی صلاحیتوں کے ذریعے رائج کیا جاسکتا ہے۔
اجتماعی مقامات میں تعلیمی کلچر
تعلیمی کلچر کو فروغ دینے کے لیے مختلف تعلیمی پروگرام مساجد، اسکولوں اور عام فنکشن ہالوں میں منعقد ہونے چاہئیں۔ ملت کے تعلیمی ادارے محض طلبہ کو امتحان کے لیے تیار کرنے کے مراکز بن گئے ہیں۔ اسی طرح فنکشن ہال صرف شادی اور دیگر تقاریب کے انعقاد کے مراکز ہیں۔ مساجد صرف نماز گاہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ان تینوں مقامات میں علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کو جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً سائنسی اور سماجی موضوعات پر لکچر، ویڈیو شو، ڈرامہ، تعلیمی میلے، کیریئر گائڈنس کے لکچر، کوچنگ سینٹر، اسٹڈی سینٹر، مختلف تعلیمی مقابلے اور کتابوں کی نمائش، کتابوں کے میلے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں ان چیزوں کو مختصراً بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملت میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والے افراد، تنظیمیں اور جماعتیں اپنی بنیادی سرگرمیوں کے ساتھ تعلیمی کلچر کو بھی فروغ دینے کی کوشش کریں۔ اس مضمون میں ہم آگے بھی چند تجاویز ایجنڈے کے طورپر پیش کریں گے جو ملت اسلامیہ کے اندر تعلیمی کلچر کو فروغ دینے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
مادری زبان کے سلسلے میں سنجیدہ کوششیں
ملت کے تعلیمی ایجنڈے کا ایک نکتہ مادری زبان کو فروغ دینے کا ہونا چاہیے۔ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت کی مادری زبان اردوہے۔ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو ماہرین تعلیم بہت اہمیت دیتے ہیں۔زبان اور تعلیم کے سلسلے میں ایک روسی ماہر نفسیات لیو ویگوسکی (Lev Vygotsky)نے بہت کام کیا ہے۔ ویگوسکی کے مطابق ایک فرد تین انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ اول: دوسروں کے ساتھ۔ دوم: اپنے آپ سے۔ سوم: اپنے ذہن سے۔
(الف ) انسان جب بولنا شروع کرتا ہے تو وہ اپنے ماحول میں اپنی مادری زبان کے ذریعے بات چیت کرتا ہے۔ اسی مادری زبان کے ذریعے وہ علم کی تشکیل کرنے کے عمل کا آغاز کرتا ہے۔
(ب) ہر انسان جب وہ کم عمر ہوتا ہے تو اپنے آپ سے گفتگو کرتا ہے۔ بعض افراد کے اندر یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ مثلاً اگر آپ بچوں کوکھیلتے ہوئے دیکھیں تو اکثر وہ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے یا اپنے کسی کھیل کے لیے وہ پہلے اپنی زبان سے حکم صادر کریں گے، پھر اس پر عمل کرنا شروع کریں گے۔ اس کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی بچے کو آپ ایک کھلونا ریل گاڑی دیں۔ اس کو چلانے کے لیے پٹریاں بنانے سے پہلے وہ بچہ اپنے آپ سے کہے گا کہ میں اسے رکھوں گا، اس کے بعد اسے لگاؤں گا، پھر کہے گا کہ ٹرین میں چابی بھرنا ہے، پھر اس کو اسٹارٹ کرنا ہے۔اس طرح بچہ اپنے لیے خود احکام جاری کرتا ہے۔ یہ تمام احکام وہ اپنی مادری زبان ہی میں جاری کرتا ہے۔
(ت) اپنے آپ سے انسان باتیں کرتا ہے، سوچتا ہے، اپنے ذہن سے باتیں کرتا ہے۔ یہ عمل کئی انداز کا ہوتا ہے۔ اسی میں خواب بھی شامل ہیں۔ یہ عمل یعنی ذہن سے گفتگو کرنے کا عمل اور خواب دیکھنے کا عمل مادری زبان میں ہی ہوتا ہے۔ چناں چہ گویسکی کہتا ہے کہ علم کی تشکیل، ذہن کی نشو و نما اور فکر کی بالیدگی، اختراعی صلاحیتوں میں اضافہ، جمالیاتی حس کی بلندی، یہ سب مادری زبان میں ہی ہوتے ہیں۔
مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کو تمام ترقی یافتہ ممالک تسلیم کرتے ہیں۔ چناں چہ جاپان، جرمنی، کوریا، روس، فرانس و دیگر ممالک میں بنیادی تعلیم اس ملک کی زبان میں ہی دی جاتی ہے۔ بھارت میں چوں کہ ہم سامراجی حکومت کے تحت ایک طویل مدت تک زندگی گزارچکے ہیں۔ اس لیے مادری زبان میں تعلیم کے بجائے غیر ملکی زبان کو فوقیت دیتے ہیں۔ جب کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تعلیم مادری زبان ہی میں موثر ہوا کرتی ہے۔ تمام ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔مادری زبان میں طلبہ علم کو شعور میں لاتے ہیں اور شعور کے ذریعے انھیں فہم حاصل ہوتا ہے جسے علم و آگہی کا عمل(cognative process) کہاجاتا ہے۔ بنیادی تعلیم مادری زبان کے بجائے کسی دوسری زبان میں دی جاتی ہے تو اس میں جو کم زوری پیدا ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ بچہ علم کو رٹ کر ( حفظ کرکے ) سیکھتا ہے۔ جب کہ سیکھنے کا تعلق رٹنے یا حافظے سے نہیں بلکہ اس کے شعور سے ہوتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں یہ کم زوری بڑی عام ہے۔ ہم مادری زبان میں بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کے بجائے غیر ملکی زبان میں تعلیم دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔ انگریزی اگر کوئی بولتا ہے تو ہم اسے تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے سماج میں تعلیم انگریزی زبان سے جڑ گئی ہے۔
ہمارے ملک کے تناظر میں یہ حقیقت ہے کہ سماجی عدم مساوات کو کسی حد تک دور کرنے کا ذریعہ انگریزی زبان بھی ہے۔ جو انگریزی بولتا ہے، وہ اپنے آپ کو اونچے سماجی گروہ میں شامل کرلیتا ہے۔ چوں کہ موجودہ زمانہ مادہ پرستی کی پوری لپیٹ میں ہے اور مادہ پرستی کا ایک اہم عنصر صنعتی ذہنیت (corporate mentality) بھی ہے۔ اس ذہنیت میں بنیادی مقام انگریزی زبان کو حاصل ہے۔ لہٰذا تعلیمی ایجنڈے کے تحت پسماندہ گروہوں کے بچوں کو انگریزی تعلیم دینا بھی سماجی عدم مساوات کو حل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ انگریزی تعلیم کو ہم نے زیر بحث تعلیمی ایجنڈے کا ایک نکتہ قرار دیا ہے۔ چناں چہ اس پر کچھ تفصیلی گفتگو آگے ہوگی۔
ہمارے ملک میں مسلم اکثریت کی مادری زبان اردو ہے۔ لیکن افسوس کہ ان کی نئی نسل صرف اردو بولنا جانتی ہے، وہ اردو کے کم الفاظ کے بولنے پر ہی قادر ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اردو مادری زبان بولنے والوں کی کثیر آبادی صرف پانچ سو الفاظ کی معلومات رکھتی ہے جب کہ اردو ڈکشنری میں محاورات و مرکبات اور ضرب الامثال سمیت تقریبا سوا لاکھ الفاظ پائے جاتے ہیں۔ الفاظ کے علاوہ نئی نسل محاوروں، ضرب الامثال، اور کہاوتوں کے ذخیرے سے نابلد ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہے۔ چناں چہ آج بیشتر اردو داں حضرات اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی چاہے وہ اسٹیج پر کی جاتی ہو یا دو افراد کے مابین ہونے والے مکالمات میں، دونوں جگہ اعلی درجے کی اردو زبان میں نہیں کرپاتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے تعلیم میں آگے بڑھیں، نئی تحقیقات کریں اور اس کے ساتھ علم کے صحیح مقصد کو حاصل کریں، حق سے متعارف ہوں، معرفت الٰہی کے حصول میں آگے بڑھیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیں تو انھیں اردو زبان بھی سکھانی ہوگی اور اس کا باضابطہ انتظام بھی کرنا ہوگا۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ جو طلبہ انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ اردو سے نابلد ہوجاتے ہیں۔ وہ اردو بولتے ہیں لیکن پڑھ، لکھ نہیں سکتے۔ اگر طلبہ اردو پڑھنا لکھنا جان لیں تو انھیں بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ طلبہ اپنی تہذیب و ثقافت کو جان سکتے ہیں اور اسے صحیح طریقے پر اختیار کرسکتے ہیں۔کسی بھی تہذیب میں زبان کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ زبان تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہر تہذیب اپنی زبان سے وابستہ ہوتی ہے۔ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب کی ترجمان ہے اور یہ تہذیب اسلامی تہذیب سے بہت قریب ہے۔ تہذیب کا ایک اہم عنصر عقیدہ بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ جو طلبہ اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ اسلامی عقیدے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے بھی مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ پالیسی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بنیادی تعلیم کا انتظام مادری زبان میں کیا جانا چاہیے، اس کے لیے حکومت ضروری اقدامات کرے۔
بعض ماہرین کی رائے یہاں تک ہے کہ اس خصوص میں قانون سازی بھی ہونی چاہیے۔ اس حقیقت کو یوں تو تمام تعلیم یافتہ حضرات مانتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے بچوں کو تعلیم انگریزی میڈیم اسکولوں ہی میں دلانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے دورخے پن کے پیچھے جہاں ایک وجہ مادری زبان کے اسکولوں میں معیار تعلیم کی کمی ہے، وہیں یہ سماجی تصور بھی ہے کہ انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو مستقبل میں بہترین مواقع حاصل ہوتے ہیں اور یہ بھی تصور ذہنوں پر چھایا ہوتا ہے کہ انگریزی بولنا سماجی حیثیت Position کو اونچا اٹھاتا ہے۔ انگریزی میڈیم کے اسکولوں کو سماج میں اسکول کے معیار کی درجہ بندی میں سب سے اوپر کے درجے پر رکھا گیا ہے۔
مادری زبان کے حوالے سے ایک عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ بھارت میں اردو اہل زبان کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے بہت کم ریسرچ اسکالر اور محققین وجود میں آئے ہیں۔ ایسے افراد کی جنھوں نے سماج کے کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہوں یا کوئی تھیوری پیش کی ہوں، اردو میں بے انتہا کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اردو مادری زبان والے طلبہ چوں کہ اپنی تعلیم کسی دوسری زبان میں حاصل کرتے ہیں، اس لیے ان کے اندر اختراعی صلاحیت کم زور ہوجاتی ہے۔
زبان کے حوالے سے ملت کی پالیسی کیا ہو
ہمارا ملک کئی زبانوں اور لہجوں کا گہوارہ ہے۔ مسلمانوں کی کثیر آبادی ایسی ہے جس کی مادری زبان اردو ہے۔ تعلیم کے شعبے میں قومی تعلیمی پالیسی سہ لسانی فارمولہ اختیار کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے، یعنی مادری زبان کے علاوہ طلبہ مزید دو زبانیں سیکھ سکتے ہیں۔ ایک ریاستی زبان اور دوسری انگریزی۔ اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ ملک بھر میں ملت اپنے لیے ایک سہ لسانی فارمولہ تجویز کرے اور اس لسانی فارمولے پر زیادہ سے زیادہ عمل کرے۔ ہم یہ تجویز دیتے ہیں کہ وہ مسلمان جن کی مادری زبان اردو ہے، وہ کوشش کریں کہ جہاں جہاں اردو میڈیم کے معیاری اسکول موجود ہیں، وہاں اپنے نونہالوں کی تعلیم درجہ پنجم تک لازماً اردو میں دیں۔ کم سے کم گریڈ 5 تک بچہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرے، یعنی اس کی پہلی زبان ( First language ) اردو ہو اور ریاستی زبان کو دوسری زبان ( Secong language ) کے طور پر پڑھیں اور تیسری زبان ( Third language) انگریزی ہو۔ ریاستی زبان کا سیکھنا ملت کے نونہالوں کے لیے کئی اعتبار سے ثمر آور ہے۔ ایک تو اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ طلبہ کو مستقبل میں اپنا کردار ایک داعی کی حیثیت سے بھی ادا کرنا ہے۔ یہ کردار بنا مقامی زبان جانے ممکن نہیں ہے۔ موجودہ بھارت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں بڑھتی خلیج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی ریاستوں میں مسلمانوں کی زبان اردو ہے اور غیر مسلموں کی زبان کچھ اور۔ یہ دونوں طبقے آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو یا ڈائیلاگ نہیں کرپاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے موجودہ سنگین سماجی حالات کا ایک حل مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ڈائیلاگ اور بات چیت بھی ہے، اور بات چیت کو موثر بنانے میں مقامی زبان کا رول بڑا اہم ہوتا ہے۔
مقامی زبان سیکھنے کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ ریاستی سطح کی سرکاری اسامیوں کے تقررات کے لیے جو ٹیسٹ اور امتحانات لیے جاتے ہیں، ان میں ریاستی زبان کا پرچہ لازمی طورپر ہوتا ہے۔ جنوبی ہند کی بعض ریاستوں میں مسلمان طلبہ علاقائی زبان میں مہارت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے انھیں سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
جن مسلمانوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے، ان کے لیے مندرجہ ذیل سہ لسانی فارمولہ تجویز کیا جاسکتا ہے۔پہلی زبان (First language) ان کی اپنی مادری زبان ہو، دوسری زبان ( Second language) یا تو اردو یا انگریزی، تیسری زبان ( Third language) انگریزی یا اردو۔ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ ایسے طلبہ کو اردو سکھائی جانی چاہیے۔ اردو سیکھنے سے چند مذہبی اور ملی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ اسلام کے لٹریچر کا ذخیرہ عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ اردو اور فارسی میں موجود ہے۔ اردو کو عربی زبان کی چھوٹی بہن بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی لٹریچر کی اردو میں موجودگی ایک عام ذہن کو اسلامی ذہن بنانے اور اسلامی فکر کو استوار کرنے میں بڑی مدد کرتی ہے۔ قرآن کی تفاسیر چاہے وہ کلاسیکی ہوں، یا دور جدید کے، اردو زبان میں بھی موجود ہیں۔ بلکہ عربی کے بعد اردو اور فارسی میں ہی لکھی گئی ہیں۔
ہمارے ملک میں مسلمانوں کی ملی زبان اردو بن گئی ہے۔ اس کے اپنے فوائد بھی ہیں۔ آج ملت کے مسائل اسی زبان میں زیر بحث آتے ہیں۔ملی میڈیا اردو ہی میں کام کرتا ہے۔ ملت کے اجلاس و تقاریب اور اس کی بقا و ترقی کے لیے منعقد ہونے والے مباحث بھی بیشتر اردو زبان میں ہی ہوا کرتے ہیں۔اگر کوئی شخص اردو نہیں جانتا ہے تو وہ ان مباحث کی روح کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ بعض موقعوں پر تو اردو سے عدم واقفیت ملت سے کٹ جانے کے مترادف ہوجاتی ہے۔ اس لیے نئی نسل کو اردو پڑھانا اور اس کے لیے مناسب انتظام کرانا ضروری ہے۔
ہم نے اوپر سہ لسانی فارمولے کے دو ماڈیول پیش کیے ہیں۔اس کے علاوہ بعض مقامات پر کچھ ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے کہ طلبہ اردو زبان کو اسکولوں میں سہ لسانی فارمولوں کے تحت لے نہیں پاتے۔ لیکن ہم یہاں اس تلخ حقیقت کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ملت کی جانب سے چلائے جانے والے انگریزی میڈیم پرائیویٹ اسکولوں میں اردو کا انتظام کم ہوتا ہے۔ اس کے لیے شعور کی بیداری کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ اردو زبان سکھانے کے لیے انتظام کرے۔ اس سے پہلے طلبہ کے سرپرستوں پر یہ واضح کیا جائے کہ دینی و ملی اعتبار سے اردو زبان کا سیکھنا کتنا ضروری ہے اور اپنی مادری زبان کو سیکھنے سے بچوں میں جمالیاتی حس کی بیداری کتنی ممکن ہے اور اس سے وہ زندگی کا سرور کس طرح حاصل کرسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو سرپرستوں کے سامنے پیش کیا جائے اور انھیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اردو زبان سکھائیں۔
جو پرائیویٹ اسکول ملت کی جانب سے قائم نہیں ہیں، اور انھیں غیر مسلم انتظامیہ چلاتی ہے وہاں بھی ہم کوشش کریں کہ اردو زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ بعض سرکاری اسکولوں میں بھی اردو زبان سکھانے کا انتظام نہیں ہوتا۔ ان دونوں صورتوں میں قانون کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ ایک خاص تعداد میں طلبہ اپنی مادری زبان کو سیکھنے کا اسکول انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں اور اگر سرکاری اسکول ہے تو سرکاری انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس زبان کو سکھانے کا انتظام کریں۔ اس کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اردو داں طبقہ اپنی زبان کے حوالے سے اب حساسیت اور جذباتیت قدرے کم رکھتا ہے، اس لیے اسکولوں میں اردو زبان کو سکھانے کا انتظام رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ اردو کی بقا و فروغ کے لیے کام کررہی تنظیموں کے ذریعے اس شعور کو بیدار کرنے اور اردو زبان کو سکھانے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔
اگر کسی مقام پر اسکولوں میں اردو زبان سکھانے کا انتظام موجود نہیں ہے اور کوشش کے باوجود قائم نہیں ہورہا ہے تو ایسے مقامات پر جزوقتی مکاتب، ’اسلامیات‘ کی جو تجویز اور عملی شکل ہم نے اس مضمون کے قسط اول میں بیان کی ہے، ان جزوقتی مکاتب میں اردو زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ چند برس قبل تک اردو کی بقا و فروغ کے لیے انفرادی طور پر چند افراد اور اجتماعی طور پر تنظیمیں سرگرم نظر آتی تھیں، لیکن اب ایسی شخصیات اور تنظیمیں معدوم ہورہی ہیں۔ یہ ملت کا عظیم نقصان ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو کی بقا مدارس اسلامیہ کے مرہون منت ہے۔ ہمیں ایجنڈے کے اس نکتے پر مناسب توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ ایک دینی اور ملی ضرورت ہے اور کار خیر بھی۔(جاری)
٭مضمون نگار سے اس ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: 9844158731
مشمولہ: شمارہ مئی 2023