ملت کا تعلیمی ایجنڈا کیریئر گائڈنس، کیریئر کونسلنگ

مسلمانوں کے گھروں میں جب بچہ یا بچی کچھ جملے بولنے کے لائق ہوجاتے ہیں، تو انھیں سماجی و معاشرتی سرگرمیوں سے متعلق کچھ باتیں ذہن نشین کرائی جاتی ہیں، ان میں چند مذہبی باتوں کے علاوہ اس سوال کا جواب بھی خاص طور سے یاد کرایا جاتا ہے کہ ’آپ بڑے ہوکر کیا بنیں گے؟‘ظاہر ہے بچہ تو ابھی اتنا باشعور نہیں ہوتا ہے کہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے کوئی سوچا سمجھا جواب دے سکے، لیکن والدین اس کے ذہن کو ناپختہ عمر سے ہی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا جواب یاد کراکے ایک نہایت محدود دائرے میں محصور کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت تعلیم کو بچوں کا ڈاکٹر یا انجینئر بننا اور ان کے بہتر مستقبل کو انھی دو پیشوں کے دائرے میں سمٹا ہوا دیکھتی ہے۔ بہت کم ایسے والدین ہیں جو تعلیم کے میدان میں مستقبل کے منصوبے کو بہت واضح طور پر مضبوط بنیادوں پر طے کرتے ہیں۔

اکثر والدین اور طلبہ تعلیم کے میدان میں موجود مواقع سے ناواقف ہیں۔ نہ تو والدین بچے کی ذہنی صلاحیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی بچہ اپنا تجزیہ کرتا ہے کہ وہ تعلیم کے کس میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ وہ ڈاکٹر یا انجینئر کے خول سے باہر نکل کر تعلیم کے وسیع مواقع کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ جب کہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بچے کے اندر کس علم کے حصول کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور معاشی حصول کے لیے کس ذریعے کو ان کا مقدر بنایا ہے۔ وہ ڈاکٹری یا انجینئرنگ میں بچے کا مستقبل تلاش کررہے ہوتے ہیں جب کہ ممکن ہے کہ اللہ نے اس کی فطرت میں کسی اور میدان میں کمالات دکھانے اور بلندی کو چھونے کا ہنر رکھا ہو۔ لہٰذا مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے وقت بچے کی ذہنی صلاحیت اور اس کی استعداد و رجحان کا تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ آج بے شمار ایسے طلبہ ہیں جو دیگر میدانوں میں اپنی خداداد قدرتی صلاحیتوں کا جوہر دکھا کر کسی ڈاکٹر یا انجینئر سے زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے وہ میدان چُنا ہے جو ان کی خداداد صلاحیتوں کے عین مطابق ہے۔

کیریئر کونسلنگ یعنی مختلف کورسوں کا تعارف اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے والدین اور طلبہ کو واقف ہونا ضروری ہے۔ طلبہ کا ایک بڑا طبقہ میڈیکل، انجینئرنگ اور اب یو پی ایس سی امتحانات کو ہی تعلیم کا حاصل سمجھتا ہے اور اسی کو ہدف بنائے ہوئے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں اجتماعی و انفرادی طور پر مندرجہ ذیل کام کرنے کی ضرورت ہے:

وہ تعلیمی ادارے جہاں ملت کے طلبہ زیر تعلیم ہیں، کیریئر کونسلنگ کے پروگرام منعقد کیے جائیں۔ کیریئر کونسلنگ کے پروگراموں کا آغاز مختلف مضامین اور کورسوں کے تعارف سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام بالخصوص ہائی اسکول کے طلبہ کے لیے منعقد کیے جائیں۔ تعارف کے بعد طلبہ کا نفسیاتی (psychometric) ٹیسٹ لیا جائے۔ یہ ٹیسٹ طلبہ کی تعلیمی رجحان، دل چسپیوں فطری لگاؤ اور ذہنی رجحان کو جانچنے میں مدد دیتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے بعد ماہرین طالب علم کی سماجی، معاشی کیفیات اور دیگر عناصر کا جائزہ لے کر اس سے گفتگو کے بعد کورسوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔کسی ایک کورس کے بجائے طالب علم کے سامنے دو تین کورسوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ طالب علم کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کورس کا انتخاب کرے۔

کیریئر کونسلنگ میں مصروف ماہرین کو ہمیں اس بات کی بھی تربیت دینی ہے کہ وہ طلبہ کو کورس تجویز کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ طلبہ تعلیم کے طویل المیعاد (اخروی کام یابی) اور قلیل المیعاد (دنیاوی فوز و فلا ح) مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ طویل المیعاد مقصد کے حصول کے تحت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ طلبہ ملک عزیز میں دین کے قیام، دعوت دین اور ملت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معاون کورسوں اور تعلیمی میدانوں کا انتخاب کریں۔ یہ رہ نمائی دینی مدارس کے طلبہ اور عصری علوم حاصل کررہے طلبہ کے لیے ضروری ہے۔

ملت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں اور سینٹروں میں کیریئر کونسلر کا انتظام کیا جائے۔ بڑے ادارے کیریئر کونسلروں کو اپنے اسکولوں میں باضابطہ اور مستقل طور پر رکھ سکتے ہیں یا پھر کنسلٹنٹ کی حیثیت سے متعین ایام میں ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

کیریئر کونسلنگ کے لیے درکار امتحانات کی فیس اگر طلبہ ادا کرسکتے ہوں تو ان سے لی جائے ورنہ اسے ادارہ برداشت کرے۔ بسا اوقات فیس کے متحمل نہ ہونے کے سبب طلبہ کونسلنگ میں شمولیت سے گریز کرتے ہیں۔

کیریئر کونسلنگ یا مختلف کورسوں کے بارے میں شعور کی بیداری کے لیے جمعہ کے خطبات، نمازِ جمعہ کے بعد یا دیگر متعین ایام میں خصوصی لیکچروں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔

کیریئر کونسلنگ میں جو کونسلر ہوںگے، انھیں اس بات کا شعور بھی ہونا چاہیے کہ کون سے پروفیشن مردوں کے لیے اور کون سے خواتین کے لیے موزوں ہیں۔ ان کونسلروں کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ موجودہ زمانے میں ملت کے افراد میں فرض منصبی کی ادائیگی کی استعداد پیدا کرنے کے لیے کیا کورس اور کیا مضامین پڑھائے جائیں۔

دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبہ میں بھی کیریئر کونسلنگ کے پروگرام ضروری ہیں۔ چندماہ قبل راقم نے کیریئر کونسلنگ کا ایک پروگرام ’جامعة الفلاح اعظم گڑھ‘میں منعقد کیا تھا۔ اس پروگرام میں طلبہ کی شرکت اور ان کی اس پروگرام میں دل چسپی غیر معمولی اور حوصلہ بخش تھی۔

دینی مدارس کے طلبہ کو بھی کونسلنگ کی ضرورت ہے اور انھیں بھی مشورے درکار ہیں کہ موجودہ دور میں علما کو کس طرح سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے اور وہ کس طرح عصری علوم حاصل کرکے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔ یہاں ہم اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چند بڑے دینی مدارس کی اسناد کو بعض یونیورسٹیاں اپنے یہاں داخلے کے لیے قبول کرتی ہیں۔ بیشتر مدارس کے طلبہ کو یہ مراعات اور اعزاز حاصل نہیں ہے۔ اس لیے ان طلبہ کو این آئی او ایس (National Institute of Open Schooling )سے میٹرک اور بارہویں کے امتحانات دلائے جاسکتے ہیں۔ اس کی تفصیل ہم نے اس مضمون کی گذشتہ قسط میں پیش کی ہے۔

کیریئر کونسلنگ کے متعلق فولڈر اور کتابچے تیار کیے جائیں اور انھیں طلبہ تک پہنچایا جائے۔

کیریئر کونسلنگ کے لیے ملک میں مختلف سینٹر قائم ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ انھی میں سے ایک اہم سینٹر’سی ٹیگ‘(Center for training guidance) ہے۔ اس ادارے میں کیریئر کونسلنگ کے لیے باضابطہ کونسلروں کی ٹیم موجود ہے۔ ’سی ٹیگ‘سے طلبہ انفرادی طور پر اور ادارے بھی اپنے طور پر رابطہ قائم کرسکتے ہیں اور سی ٹیگ کے مراکز اپنے اسکولوں اور شہروں میں قائم کرسکتے ہیں۔ ’ی ٹیگ‘کی جانب سے ہر سال کیریئر کی رہ نمائی کے لیے پوسٹر تیار کیے جاتے ہیں۔ انھیں حاصل کرکے مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں چسپاں کیا جاسکتا ہے۔

سائیکلوجیکل کاؤنسلنگ (نفسیاتی مسائل میں رہ نمائی)

موجودہ دور میں بچے ہوں یا بڑے، نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کے متعدد اسباب ہیں جیسے: بدلتا ہوا معاشرتی نظام، سہولت پسند طرزِ زندگی اور موبائل فون کا بڑھتا استعمال۔ اس عادت نے دور جدید کے بچوں کی زندگی کو روبورٹ کے مانند کردیا ہے۔ ایک مخصوص نظام الاوقات کے تحت وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسکول کے بعد گھر کی چہار دیواری میں محصور ہوکر موبائل فون کے سہارے دل بہلانا اور وقت گزاری کرنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔گھر پر ان کے زیادہ تر اوقات موبائل فون کے ساتھ گزرتے ہیں جب کہ ماہرین بارہا آگاہ کرتے رہے ہیں کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال بچوں میں درج ذیل نفسیاتی کم زوریوں کو جنم دے رہا ہے:

بچے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کرکے تنہائی پسند بن رہے ہیں۔ وہ تنہائی میں آزادی کے ساتھ ڈیجیٹل ورلڈ میں من پسند سیر کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل ورلڈ میں بے لگام گردش کی وجہ سے کم عمری ہی میں بچے جنسی الجھنوں اور متشدد خیالات کا شکار ہورہے ہیں۔

طلبہ میں بہت زیادہ خود پسندی اور انفرادی سرور کی ہوس بڑھ رہی ہے۔

رشتے ناطے اور صلہ رحمی جیسے اوصاف اب حقیقی دنیا کے محض بول بن کر رہ گئے ہیں جنھیں ڈیجیٹل ورلڈ میں رہنے والا نوجوان رجعت پسندی قرار دیتا ہے۔

طلبہ کے نفسیاتی مسائل میں ایک اہم مسئلہ ان میں بڑھتا ہوا ذہنی تناؤ ہے۔ یہ تناؤ ہم جماعت طلبہ اور والدین کی طرف سے ان کے کیریئر کے حوالے سے ہوتا ہے۔ آج طلبہ کی بڑی تعداد والدین کے پسندیدہ کورسوں کے دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ دباؤ سے پیدا ہونے والا یہ تناؤ طلبہ کو خود کشی تک لے جارہا ہے۔ ہر سال بورڈ اور مسابقتی امتحانات کے بعد کئی خاندان اپنے لعل و گہر کھو دیتے ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جسے حکومت نے بھی محسوس کرتے ہوئے اب بڑے اسکولوں پر یہ لازم کردیا ہے کہ ان کے یہاں ایک سائیکلوجیکل کونسلر بھی ہو۔ اسی طرح بعض اسکولوں میں کمسن لڑکیوں کے حمل کے واقعات بھی نوٹ کیے جارہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ آئندہ چند برسوں میں شدّت اختیار کرسکتا ہے۔

ان مسائل کے علاوہ ہمارے ملک کے سیاسی و سماجی حالات بھی چند مسائل کو جنم دے رہے ہیں جن میں نفرت اور اسلاموفوبیا بھی شامل ہیں۔ آج ان مسائل سے نبرد آزما طلبہ کی تعداد ہوسکتا ہے کم ہو، تاہم بہت جلد یہ تعداد بڑی ہوجائے گی۔ چناں چہ ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں دو کام کرنے ہیں۔

اول: بڑی تعداد میں سائیکلوجیکل کونسلروں کی کھیپ تیار کرنا جن کا فکر و تصور قرآن و حدیث پر مبنی ہو۔ یوں تو سماج میں سائیکلوجیکل کونسلروں کی کمی نہیں ہے لیکن یہ کونسلر الجھنوں میں مبتلا مسلم طلبہ و طالبات کی رہ نمائی اسلامی نقطہ نظر سے نہیں کرپاتے ہیں۔ اس لیے دینی علوم کے حاملین مرد و خواتین بالخصوص علما و عالمات طبّی نفسیات و غیر طبّی نفسیات (clinical psychology and non clinical psychology)کے کورس پڑھیں اور اسلامی سائیکلوجسٹ بنیں۔

دوم: پری پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک طلبہ کی رہ نمائی اور ان کی نفسیاتی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے ملی تعلیمی اداروں، مساجد اور اسلامی مراکز میں کونسلنگ سینٹر قائم کیے جائیں۔

اگر اس مسئلے پر غور نہیں کیا جاتا ہے اور عملی تدابیر اختیار نہیں کی جاتی ہیں تو خدشہ ہے کہ ہماری نسل صراط مستقیم سے ہٹ جائے اور مابعد جدیدیت کی چکا چوند میں گم ہوکر اپنی ملی و دینی شناخت کو پس پشت ڈال بیٹھے۔

تعلیمی اداروں کا قیام

ہمارے ملک کی تعلیمی پالیسی رفتہ رفتہ تعلیم کو سرکاری دائرے سے نکال کر پرائیویٹ دائرے کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نمایاں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ یہ تبدیلی جہاں طرزِ تعلیم کو ایڈریس کرتی ہے، وہیں تعلیمی شعبے کو بڑی حد تک حکومت کی ذمہ داری سے آزاد کرتی ہے، یعنی اب تعلیمی میدان میں پرائیویٹ اداروں کی ہمت افزائی کی جائے گی۔ اتنا ہی نہیں، غیر ملکی یونیورسٹیوں کو ہمارے ملک میں اپنے کیمپس قائم کرنے کی اجازت بھی دی جائے گی۔ غالباً حکومت ایسا اس لیے کرنا چاہتی ہے کہ تعلیم پر ایک بڑے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت اس بوجھ کو اٹھانا نہیں چاہتی۔ حالاں کہ دستور ہند کے مطابق چار سال سے چودہ سال تک کے بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام حکومت کے ذمہ ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 پرائیویٹ اداروں پر شکنجہ کسنے کے بجائے انھیں سہولیات فراہم کرنے کی بات کرتی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ جہاں کچھ مثبت پہلو لیے ہے، وہیں اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں، بالخصوص ان طلبہ کے لیے جن کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سیکنڈری لیول تک کی تعلیم سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ اسکول زیادہ بہتر دے رہے ہیں۔اب سرکاری اسکولوں کی کیفیت بڑی ابتر ہوتی جارہی ہے۔ غریب خاندان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کررہے ہیں۔ لہٰذا ملت کے سیاسی سربراہوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہے، سرکاری اسکول قائم کریں۔ جو اسکول پہلے سے موجود ہیں، ان کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اسکولوں کی سطح اوپر اٹھائیں۔ یعنی جو اسکول پرائمری تک ہیں، انھیں میٹرک کی اور جو میٹرک تک ہیں انھیں بارہویں کی سطح تک لے جانے کے بارے میں سوچیں۔ مسلم علاقوں میں قائم اسکولوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے حکومت کے علاوہ این جی اوز اور اہل خیر حضرات کا تعاون حاصل کرکے آگے بڑھیں۔( اس پر قدرے تفصیل سے ہم آگے گفتگو کریں گے)

مذکورہ صورت حال کے پیش نظر ملت کے باشعور افراد کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے فوری بعد مسلمانوں نے تعلیمی میدان میں ملی اداروں کے تحت کام یاب کوششیں کی تھیں۔ ان کوششوں کی درخشاں مثالیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ان یونیورسٹیوں کے علاوہ ملی انجمنیں اور اداروں نے مختلف شہروں میں تعلیمی ادارے قائم کیے تھے۔ لیکن ادھر چند برسوں سے تعلیمی میدان میں اجتماعی کوششیں کم زور ہوگئی ہیں۔ اس کے برخلاف پرائیویٹ ٹرسٹ یا سوسائٹی یا خاندانی ٹرسٹ اور سوسائٹی تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کررہے ہیں۔ اکثر ایسے ادارے تجارتی انداز میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہمیں ان کی ان خدمات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ لیکن ملت کو اس سوال پر بھی گفتگو کرنی چاہیے کہ اب ملت تعلیمی ادارے قائم کرنے میں کیوں پیچھے ہے؟ گذشتہ دو تین دہائیوں کے دوران ملک بھر میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ قائم نہیں ہوسکا جسے اجتماعی کوششوں کا نتیجہ کہا جاسکے۔ البتہ مسلمانوں کے پرائیویٹ ٹرسٹ اور سوسائٹیوں نے یقینًا بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جو کسی ایک شخصیت یا ایک خاندان کے تصرف میں ہیں۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ تعلیمی ادارے جو ملت کی اجتماعی کوششوں سے قائم ہوئے تھے، ان کا معیار رفتہ رفتہ گرتاجارہا ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کا وقار مجروح ہورہا ہے اور سماج میں ان کی افادیت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے اداروں کے معیار کو بلند کرنے کی کوششیں بھی ہونی چاہئیں۔

ہم اس ذیلی عنوان کے تحت ملت اور ملت کے باشعور افراد کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے وہ تعلیمی ٹرسٹ قائم کریں اور ان ٹرسٹوں کے تحت تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لائیں۔ اداروں کا آغاز بنیادی تعلیم (فاؤنڈیشن ایجوکیشن) سے کریں۔ اگر اس کام کو ملت کی طرف سے انجام دینے میں رکاوٹ حائل ہورہی ہو تو ایسے افراد جن کے یہاں دولت کی فراوانی ہے، انھیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ مسلم علاقوں میں کوالٹی اسکول قائم کریں۔ اب بڑی تیزی کے ساتھ بڑے برانڈیڈ اسکولوں کا جال (Chain of schools) بچھایا جارہا ہے۔تعلیم کے میدان میں موجود امکانات چند دنوں تک باقی رہیں گے، اس دوران اگر ہمارے ملی ادارے یا تجارتی ادارے (Commercial establishments) اس موقع کو استعمال نہیں کرتے ہیں تو پھر پانچ دس برسوں میں اس میدان میں بھی بڑے تجارتی ادارے آجائیں گے اور ہماری نسل کی جو حفاظت ممکن تھی، وہ بھی ہمارے ہاتھوں سے جاتی رہے گی۔ اب ملت اور ان کے افراد کو چھوٹے اسکولوں کے علاوہ بڑے اقامتی اسکولوں (Residential Schools) کا پروجیکٹ بھی ضرور بنانا چاہیے۔ اس لیے کہ آج جس طرح سماج کا انداز اور طرز زندگی بدل رہا ہے، اور میاں بیوی دونوں معاشی جدو جہد میں مصروف ہورہے ہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہے۔ ایسے گھرانے جن میں شوہر اور بیوی دونوں برسر روزگار ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو کسی اقامتی اسکول میں داخل کروائیں۔ اب یہ رجحان مسلمانوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔ انھی اقامتی اسکولوں میں ایک قسم ان اسکولوں کی ہے، جنھیں ہم ہفتہ کے دنوں میں رہائشی اسکول (Weekdays residential school ) کہتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں طلبہ پانچ دن رہتے ہیں اور چھٹے و ساتویں دن یعنی ہفتہ اور اتوار کو اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ایسے اسکول شہروں کے قریب قائم ہیں۔ ہفتے کے پانچ دن شوہر اور بیوی روزگار میں مصروف رہتے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہوتی ہے لہٰذا بچے گھر آجاتے ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ یہ نظام ہمارے ملک میں بھی آہستہ آہستہ فروغ پارہا ہے۔ اس لیے بڑے شہروں کے قریب اس طرح کے Weekdays residential school کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے اسکولوں کو ملت اگلے چند برسوں میں قائم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے۔

عموماً مسلمانوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ملی ادارے مسلمانوں کو تعلیم دینے کے لیے یا ملت کے غریب طبقے کو خواندہ بنانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب ایک دوسرے انداز سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ اب حکومت تعلیم کے میدان سے اپنا دامن چھڑا رہی ہے، ایسے میں ملک میں آباد پسماندہ طبقہ تعلیم کہاں حاصل کرے؟ اس خلا کو ملت کے ادارے پُر کریں۔ اگر ہم اپنے بچوں کے علاوہ سماج کے پسماندہ اور پچھڑے طبقات کے بچوں کی تعلیم کا بھی انتظام کرتے ہیں تو سماج میں ایک مثبت پیغام جائے گا۔ اتنا ہی نہیں، اگر پچھڑے طبقات کے طلبہ ملی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو موجودہ دور میں جو نفرت کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، اور ہندو مسلم تفرقے کو بڑھاوا اور غلط فہمیوں کو ہوا دی جارہی ہے، اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں مندرجہ ذیل نکات پر ملت غور کرے :

ملی ادارے اور ملت کے متمول افراد تعلیمی میدان میں پروجیکٹ بنائیں اور تعلیمی میدان میں خدمات کا آغاز کریں۔

وقف کی املاک کو تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے استعمال کیاجائے۔

بڑی مساجد، درگاہوں اور عید گاہوں کے زیر نگرانی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ درگاہوں کے تحت چلائے جارہے تعلیمی اداروں کی ایک کام یاب مثال گلبرگہ کے خواجہ بندہ نواز ٹرسٹ کی ہے۔چند سال قبل اسی نہج پر اجمیر میں درگاہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے تحت یونیورسٹی کا ایک خاکہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ملک میں ان دو درگاہوں کے علاوہ اور بھی کئی درگاہیں ہیں جن کی املاک اور آمدنی اتنی زیادہ ہے کہ ان کے ذریعے معیاری اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔

بڑی مساجد میں بچوں کے لیے پلے اسکول اور پرائمری اسکول قائم کیے جاسکتے ہیں۔ بچوں کے لیے جزوقتی مکاتب کا قیام بھی ان مساجد میں ممکن ہے۔

مسلم اکثریتی شہروں کے قریب اقامتی اسکولوں کا قیام عمل میں آئے۔

بڑے مدارس جن کے یہاں انفراسٹرکچر موجود ہے، وہ اپنے مدارس میں دینی درسگاہوں کے ساتھ عصری علوم کے معیاری اسکولوں کا آغاز کریں۔

چوں کہ حکومت اپنا دامن تعلیمی میدان سے چھڑا رہی ہے، اس لیے تعلیم کا حصول مہنگا ہوتا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں تعلیم کا حصول غریب گھرانوں کی دسترس سے باہر ہونے لگے گا۔ ممکن ہے بڑی تعداد میں مسلم بچے یا تو تعلیم حاصل نہیں کریں گے یا پھر بڑی تعداد میں ڈراپ آؤٹ کا شکار ہوں گے۔گذشتہ دنوں ‘انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز’ نئی دہلی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ طلبہ کا فیصد دیگر اقوام اور قومی ریکارڈ سے زیادہ ہے۔ اس لیے ملی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے طلبہ کے لیے اقامتی اسکولوں کا بندوبست کریں جہاں ان کی تعلیم کا مناسب انتظام ہو۔ ورنہ ڈراپ آؤٹ طلبہ اور ناخواندہ بچوں کی اکثریت گمرہی کے راستے پر پڑ کر چھوٹے بڑے جرائم میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

اساتذہ کی تیاری

ملک میں تعلیم کا منظر نامہ آنے والے برسوں میں بڑی تیزی کے ساتھ بدلنے والا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ (national curriculum framework) جسے 6 اپریل 2023 کو ملک کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر عوام کی رائے مانگی گئی تھی، اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہونے جارہی ہے ۔ مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ جو تقریبا 678 صفحات پر مشتمل ہے، تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیوں کے علاوہ تدریسی انداز، کلاس روم مینجمنٹ، طلبہ، کمیونٹی، والدین، سماج اور دیگر تعلیمی امور پر اثر انداز ہونے والے عناصر کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ جہاں یہ خاکہ (فریم ورک) ملک کو تعلیم کے میدان میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لے جانا چاہتا ہے، وہیں اس کا ایک کم زور پہلو یہ ہے کہ فریم ورک میں تجویز کردہ نکات کو موجودہ اسکولوں کی ایک معتدبہ تعداد اس طرح اختیار نہیں کرسکتی جس طرح کیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ پرائیویٹ نظام کے تحت چل رہے اسکولوں میں خدمات انجام دے رہے اساتذہ اس فریم ورک کے شاید 10 سے 20 فیصد حصے کو ہی عمل میں لاسکتے ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں اسکولوں کی درجہ بندی موجودہ درجہ بندی سے زیادہ شدید ہوجائے۔ ان حالات میں جن پرائیویٹ اسکولوں کے پاس تربیت یافتہ اساتذہ ہیں، وہ تو نئے انداز تدریس کو اختیار کرلیں گے لیکن جن کی مالی حیثیت کم زور ہے اور جہاں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، وہاں نئے فریم ورک کے مطالبات پر عمل آوری مشکل معلوم ہوتی ہے۔ ان حالات میں تعلیم یافتہ طبقے میں بھی اسی طرح کی درجہ بندی وجود میں آنے کا خدشہ ہے، جس طرح کی درجہ بندی ہم اپنے سماج میں دیکھتے ہیں، کوئی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والا ہے تو کوئی دلت۔ یہاں اس بحث سے ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملت کے وہ اسکول جو غریب طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں، نئے طرز تعلیم کو اختیار کرنا ان کے لیے ایک دشوار کن مرحلہ بن سکتا ہے۔

نئے طرز تعلیم کے لیے قومی تعلیمی پالیسی 2020 قومی سطح پر اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ایک مرکز (ادارہ) قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ویسے ایک ادارہ قومی کونسل برائے ٹیچر ایجوکیشن (National Council for Teacher Education) قائم ہے۔ ہوسکتا ہے حکومت اس کے ذریعے سے ہی مجوزہ کام لے لے۔ مرکزی حکومت کا منصوبہ ہے کہ پورے ملک میں اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے 57 سینٹر قائم کیے جائیں۔ حکومت کا منصوبہ اب ’بی ایڈ‘کو چار سالہ کورس میں تبدیل کرنے کا بھی ہے۔ آئندہ برسوں میں ’بی ایڈ‘ایک پروفیشنل کورس ہوگا جس میں داخلہ بارہویں کے بعد دیا جائے گا۔ ان چار برسوں میں طلبہ کی ایسی تربیت کی جائے گی کہ وہ موجودہ ڈیجیٹل ورلڈ میں کارگر ثابت ہوں۔

مجوزہ قومی نصاب تعلیم کے خاکے (national curriculum framework) کے تناظر میں اگر ہم اپنے اداروں سے منسلک اساتذہ کا جائزہ لیں تو 80 فیصد اساتذہ میں مطلوبہ اہلیت ناکافی ہوگی اور نتیجتاً انھیں برخاست کرنا پڑے گا۔ملت کے اکثر اداروں میں ٹیچنگ اسٹاف کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ وہ مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ کے مطابق بچوں کو تعلیم دینے کے معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ ان کے نزدیک آج بھی تعلیم کا مطلب جوابات کو حفظ کرادینا اور انھیں امتحانات میں جوابی پرچوں پر منتقل کر دینا ہے۔ ان ٹیچروں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو نہ تو تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی اسے اپنے پیشے کے ساتھ جذباتی لگاؤ ہے۔ اساتذہ میں بیشتر خواتین ہوتی ہیں، ان میں سے بڑی تعداد ضرورت مند خواتین کی ہوتی ہے۔ بعض کے گھریلو مسائل ہوتے ہیں، کچھ کے خاوند بے روزگار ہوتے ہیں، کچھ شادیوں کے مسئلے کی شکار رہتی ہیں، ان میں مطلقہ اور بیوہ بھی شامل ہیں۔ ایک استاد جو شدید معاشی، سماجی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو، وہ کس طرح اختراعی انداز میں بچوں کو تعلیم دے پائے گا؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ ہماری نظر میں تعلیم کے میدان میں ملت کا سب سے اہم مسئلہ اساتذہ کا ہے۔ اسکول کھل جاتے ہیں، انفراسٹرکچر بن جاتا ہے، طلبہ بھی داخلہ لے لیتے ہیں، لیکن جس معیار کے اساتذہ درکار ہیں، وہ دستیاب نہیں ہوتے، اس کی بنیادی وجہ ہے سماج میں معیاری اساتذہ کی قلت۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ قحط الاساتذہ کے اس سنجیدہ مسئلے کی طرف مسلم سماج خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہا ہے۔ صورت حال کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ملت کو چاہیے کہ وہ قابل، تجربہ کار، ہنر مند اساتذہ کی بڑی کھیپ ہر سال تیار کرے اور موجود اساتذہ کی ٹریننگ کا باضابطہ انتظام کرے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند تجاویز پر غور کیا جاسکتا ہے:

مسلم سماج معلمی کے پیشے کو ایک معتبر پیشہ سمجھے۔ نوجوان لڑکے و لڑکیاں ٹیچرس ٹریننگ کریں، چار سالہ بی ایڈ کورس کریں، مزید تربیت لیں اور معیاری استاد بننے کی کوشش کریں۔تاکہ سماج میں معیاری اساتذہ کا یہ خلا پُر ہوسکے۔

پرائیویٹ ادارے اساتذہ کی تنخواہوں کو معقول بنائیں، تنخواہ کی ادائیگی کے لیے مختلف ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں، معاشی طور پر اگر ادارہ کم زور ہے تو اسے بہتر بنانے کے لیے عطیات کا بندوبست ہو۔ بشرطیکہ یہ معاشی کم زوری واقعی ہو نہ کہ مصنوعی۔ بعض ادارے جو بظاہر کم زور محسوس ہوتے ہیں، ان کی بھی آج کل اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ ایسے ادارے چوں کہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے تحت ہوتے ہیں لہٰذا ٹرسٹ کے ذمہ داران، ٹرسٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ اپنے خاندان کے لیے استعمال کرنے کا جواز نکال لیتے ہیں اور اساتذہ کو ان کا پورا حق نہیں دیا جاتا۔ جو اسکول ملی اداروں کے تحت چلتے ہیں، ان اداروں کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی تنخواہیں معقول کریں، جب یہ ادارے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے تو پھر پرائیویٹ ادارے تنخواہیں بڑھانے پرمجبور ہوجائیں گے۔

ملی اداروں کے تحت چلائے جانے والے اسکول اور پرائیویٹ اسکولوں میں معیاری اساتذہ کو اسپانسر کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں تعلیم کے میدان میں کام کررہی ایک مشہور این جی او ٹی ایف آئی (Teach For India) سے ہمیں ترغیب لینی چاہیے۔ ’ٹی ایف آئی‘ملک بھر میں کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا انتخاب کرتا ہے جو تعلیمی میدان میں محض سماجی جذبے کے تحت اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ ان تعلیم یافتہ مرد و و خواتین کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ٹریننگ کے بعد گورنمنٹ اور بعض کم زور وسائل والے پرائیویٹ اداروں میں قلیل مدت کے لیے ان کا تقرر کیا جاتا ہے۔ اس این جی او میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اور مرد ہوتے ہیں۔ ایسے نوجوان مرد و خواتین کو ماہانہ وظائف بھی دیے جاتے ہیں جو لگ بھگ  25 ہزار کے قریب ہوتا ہے۔ اس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ ملازمت کے لیے نہیں بلکہ غریب طلبہ کی خدمت کے لیے آتے ہیں۔ اس طرح کے ادارے کا ایک خاکہ مضمون نگار نے بھی تیار کیا ہے۔ مختلف دینی و ملی اداروں کو مل کر’ٹی ایف آئی‘کے طرز پر ایک ادارہ ملکی سطح پر قائم کرنا چاہیے۔

ملت کی بے شمار پڑھی لکھی خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھریلو زندگی میں مصروف ہوجاتی ہیں اور شادی کے بعد اپنا دائرہ کار گھر تک محدود کردیتی ہیں۔ ملت کی ایسی خواتین سے گزارش ہے کہ وہ بنیادی ٹیچرس ٹریننگ حاصل کرکے اپنے گھر سے قریب قائم گورنمنٹ اسکول یا پھر کم وسائل والے پرائیویٹ اسکولوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ضروری نہیں کہ وہ دن بھر اسکول میں حاضر رہیں، بلکہ متعینہ وقت کے لیے ایک سے دو گھنٹے یا ایک دو مضامین پڑھانے کے لیے اسکول میں حصہ لے سکتی ہیں۔ بعض خواتین جو برسر روزگار ہیں اگر انھیں ہفتہ یا اتوار کو چھٹی ہوتی ہے تو ان دنوں میں وہ اسپیشل کلاسوں کا اہتمام کریں۔ ملت میں تعلیم یافتہ لڑکیوں اورخواتین کی اب کمی نہیں ہے۔ ہمیں ان خواتین میں خدمت کے اس رجحان کو بڑھانا ہے۔ اس کی ابتدا وہ خواتین کریں جو مختلف دینی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔

ہمارے ملک میں اس طرح کا ایک نظام ’ہندوتوا وادی‘این جی اوز چلاتے ہیں جنھیں ’ودیا والنٹیئر” یعنی ودیا رضاکار کہا جاتا ہے۔ یہ رضاکار 20 سال سے لے کر 70 سال تک کے مرد و خواتین ہوتے ہیں۔ بعض رضاکار تو وہ ہیں جو اسکولوں میں جاکر بچوں کو صرف کہانیاں سناتے ہیں یا انھیں آرٹ و کرافٹ سکھاتے ہیں۔ دینی جماعتوں سے وابستہ افراد جوان و عمر رسیدہ افراد کی اصلاح کے لیے تو فکر مند رہتے ہیں اور اس کے لیے تگ و دو بھی کرتے ہیں لیکن نوخیز نسل جو کہ ان جماعتوں کا اصل ہدف ہونا چاہیے، اور یہ جماعت انھیں اسکولوں میں مل بھی سکتی ہے، اس طرف ان کی توجہ مبذول کیوں نہیں ہوتی؟
اسی نہج پر حکومت ہند نے بھی ایک پروجیکٹ لانچ کیا ہے جس کا نام ہے vidyanjali.org۔  یہ دراصل ایک ویب سائٹ ہے جس میں وہ افراد جو اسکولوں میں پنی مفت خدمات پیش کرنا چاہتے ہیں، ان کا ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے اور اسی ویب سائٹ میں وہ اسکول بھی اپنی تفصیلات درج کرتے ہیں جنھیں انسانی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ویب سائٹ خدمت پیش کرنے والے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کے درمیان گویا ایک پل کی طرح ہے۔

ملی اداروں کو چاہیے کہ وہ ہر ریاست میں اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ایک ادارہ قائم کریں۔ اس ادارے میں استاذ از خود فیس ادا کرکے ٹریننگ حاصل کرے یا پھر اسکول اسپانسر کرکے ٹریننگ میں ان کی مدد کرے۔ اس طرح کا ٹریننگ سینٹر ایچ ای بی ’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ ‘کے پیش نظر ہے۔ دیگر ادارے’ایچ ای بی ‘کا تعاون کرسکتے ہیں۔ فی الوقت ’ایچ ای بی ‘آن لائن اور آف لائن ٹریننگ کا اہتمام کررہا ہے۔

مشمولہ: شمارہ جون 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223