دینی تعلیم وتربیت کا ایک ایسا وسیع اور ہمہ گیر نظام قائم کرنا چاہیے کہ ہر مسلمان دین کی ابتدائی معلومات سے ضروری طور سے واقف ہوسکے، لیکن ابتدائی معلومات سے مراد صرف ایمان وعقیدہ اور نماز روزہ کے ضروری مسائل ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں دین کا یہ علم بھی داخل ہے کہ اس کا تعلق صرف عقائد وعبادات ہی سے نہیں ہے بلکہ اخلاق اور دنیاوی معاملات سے بھی ہے۔ یعنی تفریق دین ودنیا کا جو تصور عام ہے، اس کو مٹاکر اس کی بہ جائے دین کی وسعت وہمہ گیری کا تصور عام کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر نہ صحیح معنوں میں ان کی زندگی اسلامی زندگی ہوسکتی ہے اور نہ وہ عہد حاضر کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ آج جو مسلمان تیزی کے ساتھ لادینی تحریکات کا شکار ہوتے جارہے ہیں، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کے نزدیک یہ تحریکات دنیاوی معاملات ومسائل کے حل سے تعلق رکھتی ہیں اور دین کو ان مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ ان کی دل چسپی ایسے ہی کم ہوتی جارہی ہے۔ پھر اس تصور کے مطابق ہمارا جو دینی عملی نمونہ ہر جگہ دیکھنے میں آرہا ہے وہ بہ جائے خود اس زمانے کے ذہین طبقہ کو دین سے بے رغبت کرنے والا ہے۔ وہ ایسے دین کو ایک لایعنی شے سمجھنے لگے ہیں جو زمانہ کی عملی دشواریوں میں کوئی نقطہ نظر ہی نہ رکھتا ہے چہ جائے کہ وہ ان کے حل میں کچھ معاون ثابت ہوسکے۔ اس غرض کے لیے ہمیں ایک وسیع پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔
)مسلمانان ہند آزادی کے بعد(
مشمولہ: شمارہ نومبر 2020