امت مسلمہ دنیائے انسانیت کے لیے خیر وفلاح کی داعی ہے جو پوری نوع انسانی کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔اس کا نصب العین انسانیت کو کفر وشرک، گمراہی اور انسان کے بنائے ہوئے مذاہب ونظریات سے نکال کر راہ حق کی طرف دعوت دینا ہے اور دنیا کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آنا امت مسلمہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ اس عظیم الشان فریضے کو انجام دینے کے لیے اچھی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کرنے کی بے حد تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (النحل: ۱۲۵)’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو، وحکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ ‘‘
ابن کثیر ؒنے اس آیت کی وضاحت یوں کی ہے:
ای فیہ من الزواجر والوقائع بالناس ذکرہم بما لیحذروا بأس اللہ تعالی۔ )۱(
یعنی خوف اور لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات سے لوگوں کو ڈرانا۔
اس آیت میں مسلمانوں کو بالعموم اور علماء ودانشوروں کو بالخصوص یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کو حکمت، موعظہ حسنہ اور جدال بالاحسن (علمی وعقلی دلائل) سے اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں نہ کہ اپنی ذاتی خواہشات، ذوق اور مذاق کی بنیاد پر۔ اس کے علاوہ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اہل باطل نے اسلام کے مختلف احکام کے بارے میں جو شکوک وشبہات پھیلائے اور اسلام کو مسخ کرنے کی جو کوشیش کی ہیں ان کے علمی اور فکری اشکالات وشبہات کا جواب علمی وفکری زبان میں ہی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کارخیر میں ان تمام ذرائع ووسائل کو استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہے جو اس کام کو بحسن وخوبی پایہ تکمیل کو پہنچا سکیں۔
ہمارا یقین ہے کہ ’’اسلام میں ہر مسئلے کا حل ہے‘‘ لیکن اس کو عمدہ طریقے سے ثابت بھی کرنا ہے کہ یہ کس طرح جملہ مسائل کا حل پیش کرتا ہے ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘ لیکن اس کو دنیا کے سامنے کیسے اور کس طرح واضح کردیں گے کہ اسلام ہی مکمل نظام حیات ہے ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیائے انسا نیت کے لیے اسلام ہی متبادل ہے لیکن جدید دنیا کو ہم مدلل اور جامعیت کے ساتھ کیسے منوائیں گے، اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات جن کا حل تلاش کرنے کے سلسلے میں نئی حکمت عملی واضح کرنی ہوگی۔ عصر حاضر میں مسلمان مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اسلام کو عصری اور سائنٹفک اسلوب میں پیش نہیں کررہے ہیں اور نہ اس کے لیے جدید ذرائع ووسائل اور منظم اداروںکو بڑے پیمانے پر استعمال میں لایا جارہا ہے۔ ہم وہ لٹریچر بھی تیار کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں جو اس عظیم کار خیر میں ممد ومعاون ہوسکے ۔ اس وقت مسلم دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں اصول دین، فقہ، علم کلام، حدیث کی تشریحات وتوضیحات اور تفسیری ذخیرے پر مشتمل ہے جن میں تخلیقی اور سائنٹفک اسلوب کی بے حد کمی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جب کہ ایسے لٹریچر کی بے حدکمی محسوس ہورہی ہے جو جدید مسائل اوربحران پر گہرائی اورگیرائی سے تیار کیا گیا ہو۔ اور جو لٹریچر بھی تیار ہورہا ہے اس میں تحقیق وتجزیہ تو کسی حد تک ہوتا ہے لیکن مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں ہورہی ہے جو وقت کی ضرور ت ہے۔ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی :
It seams that muslim response to western endavoures either failed to reach their western auidence or was unable to inform their perecption and judgements (2)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغرب کی تحقیقی کاوشوں پر مسلم دانشوروں کا جواب یا تو مغربی سامعین و قارئین تک پہنچنے میں ناکام ہورہا ہے یا تو ان کے فہم وادراک کو مطمئن کرنے میں موثر ثابت نہیں ہورہا ہے۔جدید دنیا میں نت نئے اور ابھرتے ہوئے مسائل کا اسلامی تناظر میں حل نہ نکالنا یا اس سے صرف نظر کرنا اسلامی اسکالرس اور دانشوروں کے لیے بہت بڑا المیہ ہے نیز وہ اعلیٰ علمی وتحقیقی معیار قائم کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ معروف ایرانی مفکرڈاکٹر مرتضیٰ مظہری اس حوالے سے لکھتے ہیں :
We are the responsible people we have not produced sufficient literature on various aspacts of islam in the current Languages. Had we made available the pure and sweet waters in abandance, people would not have contented themselves with pouluted waters. (3)
’’ہم ذمہ دار ہیں کیوں کہ ہم نے اسلام کے متنوع پہلوؤں پر عصری زبانوں میں لٹریچر تیار نہیں کیا۔ کیا ہم نے صاف اور شیریں پانی وافر مقدار میں بہم پہونچانے کا اہتمام کیا ہے جب کہ لوگ گندہ پانی استعمال کرنے پر مطمئن نہیں ہیں‘‘۔
البرٹ ہورانی (Albert Horani) کی یہ بات بھی چشم کشا کے لیے کافی ہے کہ موجودہ نظریات پر مسلم اسکالرس کی تحریریں اس معیار پر پوری نہیں اترتی جو جدید دنیا کو مطلوب ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
Most of the writings of Islam by muslims are not on the level of curent thought. (4)
مسلم دنیا ریسرچ اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔ معیاری یونیورسٹیز ، تحقیقی ادارے اور تھنک ٹینکس نہ ہونے کے برابر ہے ۔ایک دور وہ بھی تھا جب یورپی اور مغربی دنیا علوم وفنون میں عالم اسلام سے استفادہ کرتی تھی لیکن اب حالات بدل گئے اب ہم ریسرچ اور ٹکنالوجی کے میدان میں دوسروں پر انحصار کرتے ہیںسائنس کا اشاریہindex) (سائنس واچ نام کا ایک ادارہ تیار کرتا ہے اس کے مطابق جنوری ۲۰۱۱ء سے اگست ۲۰۱۱ء کے درمیان ۱۴۷ ممالک میں سے ۶۰ ممالک نے کم سے کم ۱۰ ہزار ریسرچ پیپرز شائع کئے ۔ریسرچ پیپرز کے اعتبار سے سرفہرست ۲۰ ممالک میں سب سے اوپر امریکہ ہے اس کے بعد چین ، جرمنی، جاپان انگلیڈ، فرانس ، کناڈا ،اٹلی، اسپین ،آسٹریلیا،ہندوستان ،جنوبی کوریا، روس نیدرلینڈ،برازیل ،سئیزرلینڈ،سویڈن ،تائیوان،ترکی اور پولینڈ ہیں۔) ۵ ( اس فہرست میں صرف ترکی ہی مسلم دنیا کی نمائیندگی کرتا نظر آ رہا ہے جو ۱۹ ویں نمبر پر ہے ،جو قوم ستاروں پر کمندیں ڈالتے تھے اس کا اب ہر معاملے میں درآمد پر انحصار ہے ۔جو دینے والے ہاتھ تھے وہ اب ہر معاملے میں لینے والے ہاتھ بن چکے ہیں۔
دورِ نبوت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو عقل، فطرت اور مشاہدے کی بنیاد پر اسلام کی طرف راغب کیا تھا۔ آج بھی اس رہنما اصول کو عمل میںلانے کی ضرورت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈاکٹر مراد ہاف نے اس حوالے سے ایک اچھی بات کہی ہے کہ آج کے دور میں آپ کو اسلام کی دعوت پیش کرتے وقت اعلیٰ معیار اور سائنسی اسلوب کو بھی اختیار کرنا پڑے گا۔مثلاً اگر آپ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تو آپ کو ثبوت کے طور پر سائنسی حقائق کو پیش کرنا ہو گا اس طریقے سے ان کو اللہ اور اس کے وجود پرایمان لانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ موصوف مزید لکھتے ہیں کہ ہمارے پاس جو لٹریچر موجود ہے وہ اس معیار مطلوب کے مطابق نہیں ہے(۶) موجودہ لٹریچر میں کسی بھی نئے مسئلے یا نظریہ کی منفی پہلوؤں پر بحثیں تو مل جاتی ہیں لیکن ان کو کیسے دور کیا جائے یہ زور آور اور محکم دلائل کی بنیاد پر نہیں بتایا جاتا ہے۔ (۷)جہاں تک دینی مدارس کا تعلق ہے تو ان کے حلقوں سے جن موضوعات پر کتابیں شائع ہورہی ہیں ان کے سرسری جائزے سے جو نقشہ سامنے آتا ہے ،وہ کچھ اس طرح ہے:
)۱(درسیات ومتعلقات درسیات:۶۵۔ ۶۰ فیصد
)۲(فتاوی واحکام ،اصلاح و تبلیغ اور تذکرہ:۱۷۔۱۵ فیصد
)۳(وعظ وتقریر و ملفوظات اور مکتوبات :۱۲۔۱۰ فیصد
)۴(مسلکی تنازعات،تعویذات وعملیات:۱۰۔۹ فیصد
)۵(علمی و تحقیقی اور جدید موضوعات پر کتابیں :۱ فیصد(۸)
۱-موجودہ زمانے کا صحیح اور گہرا مطالعہ:
دور جدید مغربی فکر وتہذیب کے غلبے کا زمانہ ہے۔ اس کا سطحی اور سرسری مطالعہ کرنے کی بجائے اس کے نظریاتی اساس اور بنیادی اقدار کا گہرائی سے جاننا انتہائی ضروری ہے۔ مسلم دانشوروں اور علماء کرام کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ خاموش تماشائی بن کر ہاتھ پر ہاتھ منتظر فردا کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے ارد گرد میں اور عالمی سطح پر انہی دشمنوں خاص کر مغرب کے متعصب مصنفین اور مشتشرقین کی کارستانیوں اور ان کی سرگرمیوں پر پوری تحقیقی نظر سے دیکھتے رہیں۔ان کی فکری چال بازیوں اور سازشوں سے امت مسلمہ کو باخبر کراتے رہیں۔ اس کے لیے مغرب کی فکری سازشوں اور کارستانیوں سے آگاہ رہنا بے حد ضروری ہے۔ عالم عرب کے مشہور مفکر انور الجندی کے الفاظ میں ’’مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اس وقت شروع ہوگی جب وہ مغرب کی سازشوں کو صحیح طور سے سمجھ لیں گے‘‘۔ لہٰذا ان سے غافل رہنا ایک بڑی کوتاہی ہوگی فقہ کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ جاہل‘‘ یعنی جو شخص اپنے زمانہ کے لوگوں کو نہیں پہچانتا وہ جاہل ہے۔ اس لیے زمانہ شناس بن کے رہنا انتہائی ضروری ہے ۔ مسلم اسکالرس اور دانشوروں کا بس اتنا ہی کام نہیں ہے کہ وہ مغربی مصنفین کی پھیلائی ہوئی غلطیوں اور استشراقی لٹریچر کا علمی مطالعہ اور تجزیہ کریں اور ان کی دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں کی تصحیح کرنے کے لیے تصنیفی وتالیفی پروگرام مرتب کریں۔ (۹)بلکہ فکری بحران کے اس دور میں آگے بڑھ کر زمانے کے تقاضوں کے ساتھ رہنمائی کرنے کا فریضہ انجام دیں۔
پس چہ باید کرد
۲-ذرائع ووسائل کا استعمال:
ماضی میں مسلمانوں کی علمی وسائنسی خدمات پر گیت گانا کافی نہیں ہے بلکہ سائنس وٹکنالوجی کے اس دور میں علم کے ہر شعبہ میں اپنا قائدانہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ووسائل اور ابلاغ کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے پیدا کردہ وسائل کو پہلے منظم خاکہ بنانا ہوگا اس کے بعد ایک سالہ، دوسالہ، تین سالہ اور پانچ اور دس سالہ منصوبہ بندی کرکے جدید ذرائع ووسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
۳-علمی اور تحقیقی ماحول کو پروان چڑھانا:
مغربی فکر وتہذیب اور جدیدیت کے مضر اثرات سے امت مسلمہ کی اساس یعنی نئی نسل کے سامنے اسلام کو جملہ فکری بیماریوں کا مداوا کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے طلبہ ، نوجوانوں اور اسکالرس میں علمی وتحقیقی ذوق ومذاق پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تجدیدی نظریات پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
۴-اعلیٰ علمی اور تحقیقی لٹریچر کی تیاری:
جدید تقاضوں اور عصری اسلوب میں اعلیٰ علمی اور تحقیقی معیار پر سیاسی، سماجی، معاشرتی، اقتصادی ماحولیاتی وغیرہ جیسے موضوعات پر قابل قدر لٹریچر منصہ شہود پر لانا ہے۔ یہ لٹریچر مغربی تحقیق ونہج اور مواد سے بھی اور اسلوب اور معیار سے بھی اعلیٰ ہو جس میں زندگی کے متنوع مسائل کا ٹھوس، مدلل اور حرف آخر والا جواب ہو۔ اس کے لیے ذہین وفطین اور محنتی طلبہ وریسرچ اسکالرس کو تیار کرنا ہوگا اس کے علاوہ نیا تحقیقی لٹریچر تیار کرنے میں اجتماعی طور سے کوشش کرنی چاہئیں کیوں کہ اس میں اعلیٰ علمی معیار کا عنصر غالب رہے گا۔
حوالہ جات
)۱( حافظ عمادالدین بن کشیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیوبند،۲۰۰۲،جلد دوم،ص:۷۷
Muhmood Ahmad Gazi,Book Reveiw, Islamic Hamderdecus,Karachi, junary march 1982,p:101
(3) Murtaza Mutaharri, Islamic Movents in the twenteeth century, iran culture House India p:84
)۴(علام اللہ حقانی خان ،دور جدید کا علمی چلینج، حکمت قرآن،جولائی ۲۰۰۵
)۵( روزنامہ انقلاب، ۱۹ اگست،۲۰۱۵
(6) Murad Hoffman , persuation is the only way to present Islam to Europe, Monthly Dawah ,Riyadh,August, p:13
(7) Ziauddin Sardar, Islamic Futures the supper ideas Ideas to come ,New yark press, p:33
)۸(مدارس میں تصنیفی و تحقیقی صورت حال کا جائزہ،وارث مظہری،افکار ملی،اکتوبر ، ۰۱۳،ص:۴۱
)۹(سید صباح الدین عبدالرحمن ، اسلام اور مستشرقین، دارلمصنیفین اعظم گڑھ ،جلد ۱، ص:۱۲۶
مشمولہ: شمارہ جون 2016