جزائے خیر عطا فرمائے۔ اسی طرح ’’ازالۂ غربت کی اسلامی تحریک‘‘ میں بھی بہت عمدہ سیر حاصل گفتگو رہی ہے ۔
مسلم تحریکات کو دیے گئے مشورے بہت اہم ہیں،تاہم گورنمنٹ کی اسکیموں کا جہاں ذکر تھا، وہیں اس میں لڑکیوں کی اسکالرشپ، بیوہ فنڈ اور دوران کووڈ یتیم بچوں کی اسکیم کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے ۔
نازآفرین صاحبہ کامضمون ” مسلم عورت داعیانہ کردار کی بازیافت ” پسند آیا ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
ایک جگہ ضروری محسوس ہوا کہ اپنی ذاتی رائے بطور تجویز پیش کروں، محترمہ لکھتی ہیں ۔
’’عمومی طور پر ایک کم زوری یا کوتاہی طالبات کی شادی کے بعد نظر آتی ہے۔ وہ یکسر اپنی تحریکی سرگرمیوں سے لا تعلق ہو جاتی ہیں۔ ایسی خاموشی دعوت و اصلاح کے میدان میں تشویش کا باعث ہے۔ لہذٰا طالبات اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ زندگی کے مختلف محاذوں میں توازن برقرار رہے۔ ‘‘
یہ شکایت اکثر بڑوں کو رہتی ہے۔ طالبات بھی سوال پوچھا کرتی ہیں کہ وہ شادی کے فوراً بعد تحریک اسلامی کے اس کاز کا حق بہت متحرک رہ کر ادا نہیں کرپارہی ہیں۔ سسرال کا غیر تحریکی ماحول بڑا سبب بتایا جاتاہے ۔
شادی کے بعد دوران ِ ملاقات طالبات مغموم انداز میں ذکر کرتی ہیں کہ ہم شادی سے پہلے تحریک میں بہت متحرک رہا کرتے تھے (یہاں متحرک سے مراد ہوتا ہے فزیکلی اجتماعات میں شرکت اور ذمہ داریوں کی ادائیگی ) لیکن شادی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ تحریکی زندگی ہم سے چھن گئی ہو۔
لبوں پر غیر تحریکی گھرانے کا شکوہ ہوتا یا شادی کے بعد کی زندگی پر افسوس، یا اگر کوئی متحرک ہوبھی تو دیگر افرادِ خاندان اشارے میں شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ گھر پر توجہ کم ہے ۔
اور مشاہدہ بھی کیجیے کہ نو بیاہتا متحرک تو ہوجاتی ہے، لیکن دوسال کا بچہ اجتماعات میں چپس کے پیکٹ اور موبائیل کے ذریعے بہلتا ہوا نظر آتا ہے ۔
’متحرک ‘ ہونے کی اس صورت میں فرائض سے کوتاہی کا اندیشہ ہوتا ہے ۔
شادی کا مقصد نسل انسانی کی تربیت اور خاندان کومستحکم بنانا بھی ہے۔ ابتدائی ایام میں کسی متحرک بہن کی گھریلو مصروفیت اور خاندان پر پوری توجہ مرکوز کرنے تک رخصت پر رہنے کو تحریک میں نارمل( معمول کی بات )بنانا چاہیے ۔
اسلامی تحریک کا رکن بن کر متحرک رہنا بلاشبہ عزیمت کی راہ اور جذبہ ایثار و قربانی سے عبارت ہے، لیکن اس فرد سے جڑے دیگر افرادِ خاندان کے فرائض اور حقوق کی ادائیگی اور انھیں حسنِ اخلاق سے قائل کرنا بھی تحریکِ اسلامی کا مشن ہے ۔
ورنہ افرادِ خاندان گھریلو زندگی میں بے اعتدالی اور لاپروائی کو دیکھ کر تحریک ہی سے متنفر ہونے لگتے ہیں ۔
یہاں اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شادی کے بعد ابتدائی برسوں میں پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ ترجیحات کو بدلنا، افراد خاندان کو اس کاز میں حصہ بنانے پر فوکس ہونا اور بچوں پر توجہ کا حق ادا کرتے ہوئے فراغت کے اوقات میں دعوتی کتب کا مطالعہ بڑھانا، گھر میں رہتے ہوئے قلمی تعاون اور بسہولت ڈیجیٹل طریقہ کار کو اپناتے ہوئے تحریکی سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی تحریکی کام ہے۔ اگر حالات اس کی بھی اجازت نہ دیں تو یہ دورانیہ شخصیت سازی کا بہترین موقع ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ زندگی کا مقصد نگاہوں کے سامنے رہے۔ اپنی توجہ کو خاندان تک محدود کرنے کا یہ سلسلہ حالات کے قابو میں آنے تک رہے اور بعد ازاں بلا تامل متحرک ہوکر حسب صلاحیت فعّال رول ادا کریں ۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2021