عالمی تحریکات ہوں یا برصغیر کی تحریکات یا ان کے تصورات کی امین تحریک اسلامی ہند، کے لیے سیاست کبھی شجر ممنوعہ نہیں رہی۔ دراصل جس تصوردین کی اصلاح کے لیے یہ تحریکات برپا ہوئیں، ان میں دین وسیاست کی تفریق ایک مرکزی نکتہ ہے۔
فرد کی اصلاح ہو یا معاشرے کی تعمیر یا ریاست کی تشکیل ، سب کے لیے بنیاد دین اسلام اور اس کی شریعت ہے۔ عقیدہ توحید سے شروع ہونے والا یہ سفر اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ سے ہوتا ہوا سماج کی بنیادی اکائی خاندان اور اس کے مجموعے سے بنے ہوئے معاشرہ کو اس عقیدے اور اس کے لازمی تقاضے بلکہ ثبوتِ عقیدہ، یعنی اعمال صالحہ کے ظہور سے ہوتا ہوا کسی خطۂ زمین پر نظام حکمرانی اور نظم حکمرانی کی درستگی کی راہ سے پورے خطۂ زمین پر اللہ تعالیٰ کے کلمے کے بلند ہونے پر منتج ہوتا ہے۔ اس سفر کا ہر مرحلہ اظہار دین اوراقامت دین ہے۔ اس پورے سفر کا ان ہی نشان راہ سے اسی ترتیب سے گزرنا اور تکمیل تک پہنچنا دراصل مشیت الٰہی پر منحصر ہے۔ انسان تو صرف کوششوں کا مکلف ہے۔ جن انبیاء ؑ نے توحید کا کلمہ بلند کیا اور کسی نے ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا انھو ںنے بھی بدرجہ اتم اظہار دین کیا اور سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ صدا جوپورے روئے زمین پر گونجی اور گونجتی چلی جارہی ہے، بھی اقامت دین کا مکمل نمونہ ہے۔ معاملہ نتیجے کا نہیں بلکہ سمت سفر کے تعین کا ہے۔ دراصل درست سمت سفر کا تعین اور اس قبلہ کو تاحیات برقرار رکھنا ہی تکمیل سفر ہے۔ سفر خود منز ل ہے۔ ابتداء ہی انتہا ہے۔ بلکہ اس راہ عشق و وفا میں ابتداء اور انتہا کی تمیز بے معنی ہے۔
ہماری آج کی گفتگو اس پورے سفر کے ایک مرحلہ یعنی نظام حکمرانی اور نظم حکمرانی (Government & Governance) پرمرتکز ہوگی۔ ہم یہ گفتگو ایک زیادہ مقبول عام اصطلاح سیاسی عمل (Political Process) کے حوالے سے کریں گے۔ انشاء اللہ۔ یہ اصطلاح سنتے ہی ذہن انتخابی سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ انتخابی سیاست کی تاریخ اپنے تمام تر ہنگامہ آرائیوں کے باوجود نسبتاً کم عمر ہے۔ غیر انتخابی سیاسی عمل زیادہ پختہ بنیادوں پر قائم ہے اور زیادہ دور رس نتائج کا حامل ہے۔
سیاسی عمل کی حاجت
تحریک اسلامی ہند ملک عزیز میں صالح افکار کی داعی ہے ، ان کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ان افکار کوقبولیت عام حاصل ہو۔ مطلوبہ تبدیلیوں کی راہ یہی ہے کہ رائے عامہ کو ان کے حق میں ہموار کیاجائے۔ نظام حکمرانی اور نظم حکمرانی میں تبدیلیاں اور ان کی درستی اس قبول عام اور ہموار رائے عامہ کا لازمی نتیجہ ہوگا۔ رائے عامہ کی ہمواری ایک غیر انتخابی عمل ہے اور اس کا ظہور (Reflection) جن ذرائع سے ممکن ہے ان میں ایک انتخابی عمل بھی ہے۔ اس طرح غیر انتخابی سیاسی عمل وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر آگے کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔
رائے عامہ کو کسی فکر کے لیے ہموار کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس فکر کے حاملین کا عوامی نفوذ ہو اور انھوں نے وہاں ایسا اثر ورسوخ حاصل کرلیا ہو کہ ان کے افکار ونظریات کا نفوذ ان کے ساتھ ساتھ ہورہا ہو۔ دوسرے لفظوں میں تحریک اسلامی ہند سے متعلق افراد کے عوامی نفوذ کی راہیں کھولنے کا کام اس سیاسی عمل کا پہلا زینہ ہے۔
یہ معاملہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ تحریک اسلامی ہند کی اب تک کی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ اس کی خمیر میں غیرعوامی اور بالائی ذہنیت (elitist approach) کے عناصر و افر مقدار میں موجود ہیں۔ اس رویے کی اصلاح کے بغیر کوئی سیاسی یا سماجی عمل کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس غیر عوامی رجحان کے اسباب کی نشاندہی اور ان کے تدارک کے طریقے پر الگ سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔ البتہ چند باتیں بطور یاد دہانی اور بغرض اصلاح بیان کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(الف) خالص علمی مسائل اور قرآنی نکتوں کو عوام کے درمیان بیان کرنے اور گفتگو میں ایسی اصطلاحوں اور تراکیب کا استعمال جو عام طور پر نہیں سمجھے جانے کی وجہ سے تفہیم اور ترسیل کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں اخوان المسلمون کے طریق کار کی معنویت سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اختلافی اور علمی مسائل سے مکمل احتراز برتتے ہیں۔ مخاطب کا لحاظ کرتے ہوئے موضوع اور زبان کو اختیار کرنا ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن اس کے بغیر افکار کی ترسیل ممکن نہیں ہے۔
(ب) کام کی درست ترتیب یہ سمجھ لی گئی ہے کہ پہلے سماج کے بڑے، نمایاں اور سربرآوردہ لوگوں تک بات پہنچائی جائے اور پھر ان کے ذریعے عوام تک پہنچا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرز فکر کے حق میں تحریکی لٹریچر میں شرعی اور تاریخی دلائل موجود ہیں جو اصلاً نادرست ہیں۔ ہوسکتا ہے جس زمانے میں مولانا امین احسن اصلاحی یا دیگر لوگوں نے اس ترتیب کام کی وکالت کی تھی اس وقت اس کی افادیت ہو ۔ لیکن آج کے عوامی دور میں جب ہر شخص آزاد ہے اور آزادانہ فیصلے کر رہا ہے اس طریق کار کی کمزوری واضح ہے۔ ہم اگر تخصیص کے قائل ہیں تو ہم بھی مخصوص کردیے جائیں گے اور عملاً ایسا ہی ہورہا ہے۔ امت مسلمہ کا فطری طور پر جز بن جانے اور پوری امت کو اپنے ساتھ لے کر اقامت دین کی جدوجہد میں آگے کی سمت بڑھتے چلے جانے کے لیے خود کو عوامی بلکہ عامی بنانا ضروری ہے۔
(ج) لاشعوری طور پر یہ خیال تحریک سے وابستہ چند افراد کے ذہن میں جگہ بنا چکا ہے کہ وہ ’’شعوری‘‘ مسلمان ہیں اور عوام الناس ’’غیر شعوری‘‘ مسلمان۔ ’’من وتو‘‘ کا فرق کیا گیا اور اصلاً فرق پیدا ہوگیا۔ شعور کے اصلاح کی حاجت ہے جو جیسا ہے ویسا ہی قبول کرلینا اور پھر ساتھ لے کر اس کی اور اپنی اصلاح پر توجہ مرکوز رکھنا اس مرض کا علاج ہے۔
نظام حکمرانی اور نظم حکمرانی
سیاسی عمل کا مقصد ان دونوں کی اصلاح ہے۔ نظام حکمرانی میں جو چیزیں بوسیدہ، فرسودہ اور فاسد موجود ہیں ان کی اصلاح کے لیے رائے عامہ کو بیدار کرنا اور موضوع کو حکمت کے ساتھ گفتگوکا موضوع بنائے رکھنا تحریک اسلامی ہند کے لیے ایک طرف اس لیے ضروری ہے کہ اصلاً اصلاح ہوسکے۔ دوسری طرف تحریک اسلامی ہند کو یہ تصوروراثتاً ملا ہوا ہے اور اس سے دستبردار ہوکر اسے اپنے نظم کو بچاکر رکھنا محال ہوگا اور اگر تنظیم کا ڈھانچہ بچ بھی جائے تو تحریک کی روح راہِ فرار اختیار کرلے گی۔
دراصل نظام حکمرانی کے فاسد اجزاء جہاں جتنے زیادہ ہوتے ہیں وہاں اتنے ہی درجہ فساد فی الارض ہوتا ہے۔ ہمارے ملک عزیز کے نظام حکمرانی خصوصاً اس کے دستور میں دیگر بہت سے ممالک کے مقابلے میں خیر کے وافر اجزاء موجود ہیں۔ اس لیے یہاں فساد فی الارض ان ممالک سے کم موجود ہے۔ شاید اسی وجہ سے اصلاح کی کوششوں کے لیے راہیں دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ کھلی ہیں۔ البتہ ہم اپنے گرد جو حشر بپا دیکھتے ہیں ان کے وجوہ کی تلاش کی جائے تو اس کے دو نمایاں اسباب سمجھ میں آتے ہیں۔
(الف) نظام حکمرانی میں موجود فکری کوتاہی جس کے نتیجے میں اقدار حیات بھی جمہور کی رائے کے تابع ہوگئے ہیں۔ نتیجتاً کوئی قدر بھی محفوظ نہیں ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ افراد، خاندان اور معاشرہ کی اخلاقی حالت کا دن بدن بگڑتا چلا جانا ہے۔ مثلاً زنا کے امکانات روشن اور شریفانہ زندگی گزارنے کے مواقع مشکل ہوگئے ہیں۔ لیو ان ریلیشن (Live in relation) درست قرار دے دیاگیا اور اس ’’رشتۂ ازدواج‘‘ سے پیدا ہونے والی ’’جائز‘‘ نسل کے حقوق کا تحفظ زیر غور ہے۔ کسی بھی قدر کا دائمی نہ ہونا بے قید جمہور کی حکمرانی (Absolute Government & the people) کا شر ہے۔
(ب) حکمرانی پر فائز افراد کی بے ضابطگیاں اور شرارتیں ان بگاڑ کا دوسرا سبب ہے جو ہم اپنے ملک کے اندر دیکھتے ہیں ۔ ہم اس مضمون میں اسے نظم حکمرانی سے تعبیر کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام الناس پریشان ہیں اور آبادی کا ایک چھوٹاحصہ مادی اور دیگر وسائل پر قابض اور اس کا یہ تسلط بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔ یہ دراصل قانون کی حکمرانی کے کمزور ہونے اور افراد کی حکمرانی کا مضبوط ہونے کا معاملہ ہے۔
تحریک اسلامی ہند کے کرنے کا کام
تحریک اسلامی ہند کے لیے کام کا یہ بڑا میدان ہے۔ ایک طرف نظام حکمرانی میں مطلوبہ تبدیلیوں کے لیے عوام الناس کو بیدار کرنا اور دوسری طرف قانون کی حکمرانی اوربالادستی کے لیے اپنے طور پر کشمکش کرنا اور دیگر افراد و تنظیمیں جو اس میدان میں کام کر رہی ہوں ان سے تعاون کرنا۔ غیر انتخابی سیاسی عمل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میدان میں کام ہر زمانے میں جاری رہتا ہے کیونکہ انتخابی سیاسی سرگرمیوں کی طرح یہ کام موسمی نہیں ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی عوام سے مستقل رابطے میں رہنے کے لیے ہر موسم میں جدوجہد کرتی رہتی ہیں تاکہ انتخاب کے موقع پر ’’ثمریاب‘‘ ہوسکیں۔
تحریک اسلامی ہند کے لیے غیر انتخابی سیاسی عمل کی کئی شکلیں ممکن ہیں۔ ہم درج ذیل عناوین کے تحت چند باتیں کرکے اپنی گفتگو سمیٹ لیں گے۔
(الف) تحریک اسلامی کا مستقل نوعیت کی تنظیم بناکر کام کرنا۔
(ب) تحریک اسلامی کا اپنے نظم کے تحت کام کرنا۔
(ج) تحریک اسلامی کا دیگر افراد و تنظیموں کے ساتھ کسی خاص زمانے میں سرگرم عمل ہوجانا۔
(د) عوام کے لیے موجود سہولیات کودستیاب کرانا۔
پہلی صورت میں اگر بیرون ملک سے حاصل رقوم (foreign funding) سے مکمل احتراز ممکن ہوتو بہتر ہے۔ یہ دراصل ایک این جی او کلچر (N.G.O. Culture)ہے جس میں فنڈ حاصل کرکے تقسیم کا کام کیا جاتا ہے۔ اس طریق کار نے ہمارے ملک کی بائیں بازو کی تحریک (Left movement) کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہےاور اس میں تحریک اسلامی ہند کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا نے کی کافی صلاحیت موجود ہے ۔ عوام میں بھی اس سے جذبۂ شکر پیدا نہیں ہوتا ہے۔ عام رائے یہی بنتی ہے کہ یہ لوگ دس لاتے ہیں، چار تقسیم کردیتے ہیں اور چھ ہڑپ کرجاتے ہیں۔
بقیہ تین طریقوں سے کام کیا جاسکتا ہے
دراصل این جی او کلچر اور تحریکی طریق کار میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت اور بیرون ملک اداروں سے فنڈ حاصل کیا جائے، اپنے اخراجات بھی اس سے پورے کیے جائیں اور لوگوں کے درمیان تقسیم بھی کیاجائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیت المال میں خود اپنا تعاون بھی دیا جائے اوردوسروں سے بھی تعاون لیاجائے اور پھر جو بھی حاصل ہوا ہو اپنے آپ کو اسی کا مکلف سمجھتے ہوئے خدا کے دین اور بندگانِ خدا کی جو خدمت کی جاسکتی ہو کی جائے۔ دونوں طریقوں کے نتائج جدا جدا ہیں۔ پہلے طریقے کا نتیجہ مصر کی سلفی تحریک، نوری پارٹی ہے اور دوسرے کا نتیجہ مصر ہی کی اخوان المسلمون ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کا جہاں اور
مشمولہ: شمارہ جولائی 2014