ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ ، نئی دلی، جولائی ۲۰۱۴ءکے شمارہ میں ایک مضمون بعنوان ’’غیر انتخابی سیاسی عمل تحریک اسلامی ہند کے تناظر میں‘‘شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار محترم ڈاکٹر وقار انور صاحب ہیں۔ اِس مضمون کے بعض قابل غور پہلوئوں پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔
تحریک اسلامی کایہ تعارف؟
اس ملک میں تحریک اسلامی کا تعارف کراتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’تحریک اسلامی ہند ملک عزیز میں صالح افکار کی داعی ہے ‘‘ اس جملے میں ’’صالح افکار‘‘ سے مراد ظاہر ہے کہ بندگی رب اور خدائی اطاعت کا نظام دین اسلام ہے۔ بالفاظ دیگر تحریک ملک عزیز میں بندگان خدا کوبندگی رب کی دعوت دیتی ہے۔ یہ دین اسلام کی داعی اور ترجمان ہے۔ دوسری طرف عملاً واقعہ یہ ہے کہ ملک عزیز میں جو نظریہ و نظام غالب، نافذ اور رائج ہے اس کا اللہ وحدہٗ لاشریک اور اس کی ارسال کردہ ہدایات سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ کفر و شرک الحاد و دہریت اور دیومالائی تصورات پر مبنی انسان کا خود ساختہ نظریہ و نظام ہے۔ اسلامی تحریک اسے غیر اسلامی، لادینی اور خلاف حق تصور کرتی ہے۔ تحریک کا نصب العین اس کی دعوت اور طریقہ کار سب کچھ قرآن حکیم اور سنت رسول سے ماخوذ ہے۔ اس کی پوری تصویر اس کے بنیادی لٹریچر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ لٹریچر بڑے پیمانے پر مختلف زبانوں میں چھپتا اور پڑھا جاتا ہے۔ اپنے کارکنان کو اس کا مطالعہ کرنے اور کرانے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔ تحریک کا مقصد کبھی یہ نہیں رہا ہے کہ وہ رائج الوقت لادینی جمہوری نظام کی اور اس کو چلانے والے حکمراں گروہ کی ’’اصلاح‘‘ کرے اور اس غرض سے وہ ابتداء غیر انتخابی سیاست میں سرگرم رہ کر اپنے نظریہ و نظام کو عوام میں مقبول بنائے۔ رائے عامہ کو اس کے حق میں ہموار کرے ، عوام میں گھل مل کر ’’عوامی‘‘ بن جائے۔ پھر اگلا مرحلہ انتخابی سیاست کا آسکتا ہے۔ اس وقت وہ انتخاب میں حصہ لے لادینی جمہوری نظام کا حصہ بن کر اس کی اصلاح کرے اور حکمراں گروہ میں شامل ہو کر ان کی اصلاح کرے۔ لادینی جمہوری نظام کے لئے محترم مضمون نگار نے ’’نظام حکمرانی‘‘ اور حکمراں گروہ کے لئے ’’نظم حکمرانی‘‘ کی اصطلاح ایجاد اور استعمال کی ہے۔ نظام حکمرانی کی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ اس میں جو چیزیں ’’بوسیدہ، فرسودہ اور فاسد ‘‘ موجود ہیں ان کی اصلاح کی جائے، اسی طرح نظم حکمرانی میں جو ’’بے ضابطگیاں اور بگاڑ موجود ہے اُس کی اصلاح مقصود ہے۔
نظام باطل کی اصلاح یا اس کا استیصال
گزارش ہے کہ لادینی جمہوری نظام اس شجر خبیثہ کے مانند ہے جس کی جڑیں انسانی معاشرہ میں پیوست ہیں۔ اس کے کڑوے کسیلے پھل بندگان خدا کے اندر مختلف قسم کے موذی امراض کو جنم دیتے اور پروان چڑھاتے ہیں۔ چنانچہ اس کی ’’اصلاح‘‘ سے کام نہیں بنے گا بلکہ اس شجر خبیثہ کو جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر پھینکنے کی ضرورت ہے اور اس کی جگہ شجر طیبہ کے قیام کی ضرورت ہے۔ یہ فریضہ خدا بیزار اور آخرت فراموش حکمرانوں میں شامل ہوکر ان کی ’’اصلاح‘‘ سے انجام نہیںپا سکتا۔
بطور مثال رائج الوقت لادینی قومی جمہوریت کے بارے میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے صاف اور دو ٹوک انداز میں کہا تھا:
’’موجودہ زمانے کی لادینی قومی جمہوریت تمھارے دین و ایمان کے قطعاً خلاف ہے۔ جس اسلام کے نام پر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو اس کی روح اس نظام کی روح سے، اس کے بنیادی اصول، اس کے بنیادی اصولوں سے اور اس کا ہر جزو، اس کے ہر جز سے متصادم ہے۔ اسلام اور یہ نظام ایک دوسرے سے کہیں بھی مصالحت نہیں کرتے۔ جہاں یہ نظام برسر اقتدار ہوگا وہاں اسلام نقش برآب رہے گا۔ اور جہاں اسلام برسراقتدار ہوگا وہاں اس نظام کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی۔‘‘ (دعوت اسلامی ، اصول اور تقاضے صفحہ ۲۰) مولانا مودودی کی معرکۃ الآرا تفہیم القرآن اسی تصور کی ترجمان ہے۔ اس تصور کی پشت پر قرآن و سنت، تجربات و مشاہدات سے مضبوط دلائل فراہم کئے گئے ہیں اب اگر کسی کے نزدیک یہ تصوردعوت غلط ، ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہے تو اسے ٹھوس دلائل کے ساتھ اس کی تردید کرنی چاہئے اور اس کے بجائے جس جدید تصور اور نظریہ و نظام کو وہ پیش کرنا چاہتا ہو اس کے حق میں قرآن وسنت اور تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اپنے دلائل پیش کرنے چاہئیں۔یہ صورتحال انتہائی غلط اور مضحکہ خیز ہوگی کہ تحریک کی پشت پر جو عظیم لٹریچر ہے جس کو کارکنان تحریک خود پڑھتے اور دوسروں کو پڑھواتے ہیں اس کے صریحاً خلاف تصورات بلا دلیل پیش کیے جائیں اور تحریک سے انہیں منسوب کیا جائے۔
ایک بے بنیاد الزام
محترم مضمون نگارکا ارشاد ہے ’’تحریک اسلامی ہند کی اب تک کی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ اس کے خمیر میں غیر عوامی اور بالائی ذہنیت (Elitist Approach) کے عناصر وافر مقدار میں موجود ہیں اس رویے کی اصلاح کے بغیر کوئی سیاسی یا سماجی عمل کامیاب نہیںہو سکتا‘‘۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’خالص علمی مسائل اور قرآنی نکتوں کو عوام کے درمیان بیان کرنے سے اور گفتگو میں ایسی اصطلاحوں اور تراکیب کے استعمال سے جو عام طور پر نہیں سمجھے جاتے‘ دعوت کی تفہیم اور ترسیل کے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔‘‘ موصوف یہ ناقابل فہم اور خلاف واقعہ بات اس تحریک کی طرف منسوب کر رہے ہیں جس کی دعوت نہایت عام فہم زبان و انداز بیان میں ہے۔ تحریک نے جس قدر عام فہم لٹریچر مردوں، عورتوں، بچوں اور عوام و خواص کے لئے تیار کیا اور پیش کیا ہے اس کی نظیر شاید کہیں اور نہیں مل سکتی۔ یہ بات ناقابل فہم ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ اس تحریک کے اندر غیرعوامی اور بالائی ذہنیت کے عناصر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ فرماتے ہیں:’’اصلاح سے مراد یہ ہے کہ اس کے کارکنان و ذمہ داران آسمان کی بلندیوں سے نیچے اتر کر انسانی معاشرے میں عوام میں آکر شریک ہو جائیں۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو ان کا کوئی سیاسی و سماجی عمل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ مضمون نگارکی یہ بات بھی صریحاً خلاف واقعہ ہے کہ جماعت کے اندر کام کی درست ترتیب یہ سمجھ لی گئی ہے کہ پہلے سماج کے بڑے، نمایاںلوگوں اور سربراہوں تک پہنچا جائے اور پھر ان کے ذریعے عوام تک پہنچا جائے۔‘‘ یہ کس دنیا کی بات کی جارہی ہے واقعات و حقائق کی اس دنیا میں تحریک کا دعوتی انداز یہ کبھی نہیں رہا۔ موصوف نے اس خلاف واقعہ بات کے اظہار پر ہی بس نہیں کیا بلکہ یہ تک فرما گئے کہ ’’افسوس کی بات ہے کہ اس طرز فکر کے حق میں تحریکی لٹریچر میں شرعی اور تاریخی دلائل موجود ہیں۔ جو اصلاً نا درست ہیں‘‘۔ مگر ان کے ’’نادرست‘‘ ہونے کے ثبوت میںموصوف نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔
تحریک کا ایک ایک کارکن اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کا دعوتی میدان خود اس کا گھر، خاندان، محلہ اور آبادی ہے۔ اس میں وہ سر گرم عمل رہتا ہے۔ بلا شبہ یہ حقیقت ہے کہ دعوت اسلامی جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہے کسی آمیزش کے بغیر بگڑے ہوئے معاشرے میں جب اور جہاں کہیں پیش کی گئی عوام کے سامنے ہی نہایت عام فہم زبان میں پیش کی گئی مگر اس کی طرف راغب ہمیشہ سوسائٹی کے وہی افراد ہوئے جوگرچہ عوام ہی کے درمیان رہتے بستے تھے۔ مگر ذہین اور خیر پسند تھے۔ بگڑے ہوئے معاشرہ میں عموماً سربر آوردہ اور نمایاں شخصیتوں نے داعیان حق کو اور حق کی دعوت کو اپنے لئے خطرے کا الارم ہی تصور کیا ہے۔ باطل اقتدار ، بگڑے ہوئے علماء اور قائدین نے ہمیشہ اس کی مخالفت ہی کی ہے۔ غریب اور غیر معروف عوام کے اندر ہی سے تحریک اسلامی کو کارآمد افراد ملتے رہے ہیں۔
لادینی جمہوری نظام اور حکمراں گروہ کا حصہ بن کر ان کی ’’اصلاح‘‘ کی غرض سے جو سعی و جہد مطلوب ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مضمون نگار کہتے ہیں کہ’’ رائے عامہ کو کسی فکر کے لئے ہموار کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس فکرکے حاملین کا عوامی نفوذ ہو۔ تحریک امت مسلمہ کا فطری طور پر جز بن جائے۔ پوری امت کو اپنے ساتھ لے کر اقامت دین کی جدو جہد میں آگے کی سمت بڑھتے چلے جانے کے لئے خود کو عوامی بلکہ عامی بنانا ضروری ہے۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی اصولی اور نظریاتی تنظیم اسی وقت عوامی اور عامی بن سکتی ہے جبکہ وہ عوام کے مزاج ورجحان کے مطابق خود کو پوری طرح ڈھال لے۔ اور یہ کام اگر ممکن ہو سکتا ہے تو اسی وقت جبکہ وہ تنظیم اپنے اصول و نظریہ سے کلی طور پر تائب ہوجائے۔ مضمون نگار یہ نہیںمان رہے ہیں کہ دینی جماعت امت مسلمہ کے افراد میں دینی شعور کو بیدار کرے، دین اسلام اور اس کے تقاضوں سے انھیں واقف کرائے اور ان کے اندر جو مشرکانہ اور منافقانہ جراثیم پیدا ہو گئے ہیں اور اپنے فرائض منصبی سے جس غفلت کاوہ شکار ہو گئے ہیں اس کی اصلاح اور تزکیہ کی سعی و جہد کرے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی دعوتی سعی و جہد کے نتیجے میں تحریک کے ساتھ ٹھیک وہی سلوک ہوگا جو ماضی میں انبیاء کرام اور داعیان حق کے ساتھ ان کی قوموں نے روا رکھا تھا۔
شعوری اور غیر شعوری کی لاحاصل بحث
مضمون نگار کو اس پر اعتراض ہے کہ ’’تحریک سے وابستہ چند افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شعوری مسلمان ہیں اور عوام الناس غیر شعوری ’’مسلمان‘‘ ۔من و تو کا فرق کیا گیا اور اصلاً فرق پیدا ہو گیا۔ اس کی اصلاح کی حاجت ہے۔ جو جیساہے ویسا ہی قبول کر لینا اور پھر ساتھ لے کر اس کی اور اپنی اصلاح پر توجہ مرکوز رکھنا اس مرض کا علاج ہے‘‘۔ غالباً موصوف یہ چاہتے ہیں کہ تحریکی افراد میں خود کے شعوری مسلمان ہونے کا احساس ایک مرض کی شکل میںموجود ہے۔یہ مرض ’’چند افراد‘‘ میں ہوتا تو شاید وہ اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے۔کسی بھی تحریک کے اندر ’’چند افراد‘‘ کی سوچ پوری تحریک کی سوچ قرار نہیںپا سکتی۔ بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تحریک سے وابستہ افراد قرآن و سنت اور لٹریچر کا مطالعہ کرکے یہ محسوس کرتے ہیں کہ پردہ غفلت ان پر پڑا ہوا تھا وہ چاک ہو گیا ہے ان کے احساس و شعور میں بیداری محسوس ہو رہی ہے۔اور ان کے بہت سے ساتھی اور آبادی کے مسلم عوام دینی شعور سے ابھی تک محروم ہیں ان کے اندر شعور بیدار کرنے کی اور غفلت کو دور کرنے کی ضرورت ہے تو کیا یہ ادراک واحساس شرعاً ممنوع ہے؟ شعور اور عدم شعور کے امتیاز اور دونوں کے جداگانہ انجام سے کوئی کیوںکر انکار کر سکتا ہے؟
مضمون نگارکی نگاہ میں کرنے کا اصل کام اس ملک میں یہ ہے ’’ایک طرف نظام حکمرانی میںمطلوبہ تبدیلیوں کے لئے عوام الناس کو بیدار کرنا اور دوسری طرف قانون کی حکمرانی اور بالادستی کے لئے اپنے طور پر کشمکش کرنا اور دیگر افراد اور تنظیمیں جو اس میدان میں کام کر رہی ہیں ان سے تعاون کرنا۔‘‘ کیا یہی وہ عظیم فریضہ ہے جسے اقامت دین کہتے ہیں اور جس کی تحریک داعی اور علمبردار ہے۔ کیا تحریک کا قیام اسی کام کی انجام دہی کے لئے ہوا تھا؟ موصوف کا ارشاد ہے کہ ’’پوری امت کو اپنے ساتھ لے کر اقامت دین کی جدو جہد میں آگے کی سمت بڑھتے چلے جانے کے لئے خود کو عوامی بلکہ عامی بنانا ضروری ہے۔ یہاں بھی غالباً ’’اقامت دین‘‘ سے مرادموصوف کی نگاہ میں لادینی جمہوری نظام کا حصہ بن کر اس کی اصلاح اور حکمراں گروہ میں شمولیت اختیار کرکے اس کی ’’اصلاح‘‘ کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ انبیاء کرام اور دیگر داعیان حق کی دعوتی سرگرمیوں میں کیا کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے اور کیا یہ ممکن بھی ہے کہ وہ اپنے اپنے دور کے عوام میں گھل مل کر عوامی اور عامی بن گئے ہوں؟ یہ تصور کہ دینی تحریک غیر انتخابی سیاست میں خود کو عوامی اور عامی بنائے پھر اگلے مرحلے میں انتخابی سیاست میں داخل ہو کر کامیابی سے ہمکنار ہو اور اس طرح وہ نظام حکمرانی اور نظم حکمرانی میںمطلوبہ تبدیلیاں پیدا کرے ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014