اسلام میں طلاق کے آداب

آج کل عورت کے حقوق اور مرد کے ساتھ اس کی کامل مساوات کے متعلق بحث جاری ہے ۔اس بحث میں بالخصوص طلاق قابل ذکر ہے ، بعض افراد اسلام کے نام پر  نادانی کی باتیں کہہ اور لکھ رہے ہیں ،  کچھ کہتے ہیں کہ اسلام نے ہر لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں کامل مساوات رکھی ہے ، بعض اپنی کم فہمی کے با عث یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو حقیر خیال کر تا ہے ، اور کم تر قرار دے کر  اس کو ادنیٰ مقام دیتا ہے۔ عورت ، مرد کی حیوانی خواہشات کی تسکین کا محض ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے۔ ان دونوں گروہوں کو اسلام سے واقفیت نہیں۔

بعض لوگ جان بوجھ کر دوسروں کو دھوکہ دینے کی خاطر حق کو با طل کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہیں ،تا کہ معاشرے میں انتشار اور ابتری پھیلے ۔اہلِ ایمان انسانی زندگی کے بارے اشتراکیت یا سرمایہ داری کے تنگ نقط نظر کے قائل نہیں ہیں ،جس کی وجہ سے انسانی ذندگی جانوروں کی سی پست سطح پر گر کر رہ جا تی ہے ۔ا سلام کی امتیازی شان ہے کہ اس نے عورت کو آزادمعاشی مقام عطا کیا ، اور اس کو یہ حق دیا کہ وہ  اپنی جا ئداد میں خود تصّرف کر ے، زندگی کے اہم مسئلے ’’ شادی ‘‘  کے معاملے میں بھی عورت کی آزاد حیثیت کو قائم کیا اور بتایا کہ اس کی مر ضی کے بغیر شادی نہیں کی جا سکتی ۔پیغمبر اسلام کا فرمان ہے کہ :

’’  کسی بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کسی کنواری کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہ کرو  ‘‘  ۱؎

اسلام نے عورت کی رضامندی کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اگر نکاح کے بعد کو ئی عورت یہ کہہ دے کہ اس کا نکاح اس کی رضامندی سے نہیں کیا گیا تو نکاح فسخ ہو جا تا ہے ۔

طلاق کا مفہوم:

زوجیت کے رشتے کو ختم کرنے کا نام طلاق ہے، جیسے کوئی شخص کہے تو طلاق والی ہے (یا تجھے طلاق ہے ) اس کو طلاق صریح کہتے ہیں ۔اور اگر کو ئی شخض اپنی بیوی کو کہے اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا (دفع ہو جا ) یا (برقع اوڑھ لے)اور اس میں طلاق کی نیت کر لے ، تو طلاق ہو جا ئیگی اسے طلا ق کنا یہ کہتے ہیں ۔ طلاق سے پہلے ، عورت کو سمجھانا، نصیحت کرنا ، بستر الگ کردینا ، یا بڑوں (حکمین) سے فیصلہ کرا نا ضروری ہے ۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے حالت طہر میںدو  مر تبہ طلاق دینا مناسب ہے ،ایک ساتھ تین طلاق دینا مناسب نہیں ،کیو نکہ اس سے رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔طلاق میاں بیوی سے ضرر دور کرنے کے لئے مشروع اور جائز ہے ،اس کے بہت سے دلائل ہیں۔جیسے قرآن کی یہ آیت :

الطلاق مرّتان فامساک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاولئک ہم الظالمون   ؎۲

ترجمہ : طلاق دو بار ہے پھر یا تو بطریق شائستہ رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور یہ جا ئز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو ،اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قا ئم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت رہائی پانے کے بد لے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں ،یہ خدا کی (مقرّر کی ہوئی) حدیں ہیں ۔ ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں وہ گنہگار ہو ں گے ۔

اسی سے متعلق قرآن کریم کی ایک اور آیت پیش نظر ہے :

یاایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن و احصوالعدۃ   (۳)

ترجمہ : اے پیغمبرﷺ  :جب تم عورت کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شماررکھو۔

طلاق کا جواز:

حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو ماہواری کے دوران طلاق دے دی تھی ، آنحضرتﷺ نے انھیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرما یا کہ اس کے طہر تک انتظار کرو۔ وہ پاک  ہوجائے تو  جی چاہے تو اسے رکھ لو ورنہ اسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دےدو۔

طلاق کے جواز پر اجماع  ہے اور عقلی دلیل یہ ہے کہ کبھی کبھی میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہتی اور کسی ایک کو کافی مشکلوں سے دو چارہونا پڑتا ہے ،اور ایسی صورت میں شادی کو با قی رکھنا  خرابی کا سبب ہوتا ہے ، شوہر پر خرچے اور رہائش کا انتظام لازم کرنا اس کے لئے  باعث  ضرر ہو تا ہے۔ بیوی کو اس صورت میں روکے رکھنا سوئِ معاشرت کے سواکچھ نہیں ہوتا جو دونوں کے درمیان جھگڑے کا باعث ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں  طلاق کو جائز قرار دیا ہے ۔  حدیث  سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے آپﷺ سےاپنی بیوی کی بد زبانی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اسے طلاق دینے کااِذن دیا۔  البتہ  آپﷺ نے فرمایا کہ جو عورت بغیر کسی وجہ کے شوہر سے طلاق ما نگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔  ۴؎

قرآن کریم نے زوجین کو آداب معاشرت بتائے  جن سے اچھی گھریلو زندگی اور ازدواجی زندگی کے فیوض بحسن خوبی حاصل ہو سکتے ہیں ۔ طلاق کا اختیار تواسلام نے دیا ہے مگرحتی الامکان اسے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اگر معاملات بہت زیادہ بگڑ جائیں اور ازدواجی زندگی  متاثر ہو اور اصلاح کا امکان نہ ہو تو ایسی صورت میں علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔

طلاق کی اجازت میںحکمت  پو شیدہ ہے ،  اس کی اجازت نا پسندیدگی کے ساتھ چند قیود لگا  دی گئی ہے ۔

مثلاً:اگر میاں بیوی میں ایک دوسرے کی طرف سے زیادتی کا خوف ہوتو اس کے حل  کے لئے ضروری ہے کہ مر دعورت کو سمجھائے ، بڑوں سے مشورہ کرے  ، اگر پھر بھی بات نہ بنے تو مرد چاہے تو اسے طلاق دےدے ۔مگر کوئی بھی چیز جو اس نے بیوی کو دی ہو اسے واپس لینا جائز نہیں ، اور نہ بچوں کی پرورش کا حق ا س سے چھیننا درست ہے ،البتہ اگر عورت تفریق چاہتی ہو تو بعض حقوق ما لیہ سے دستبردار ہو نے کی شرط ، مرد لگا سکتا ہے۔۵؎

احادیث نبویہ میں طلاق کو نا پسند یدہ قرار دیا گیا ہے ، اور خوامخواہ طلاق مانگنے پر وعید وارد ہو  ئی ، ارشاد نبوی ؐ ہے :

’’ اللہ تعالیٰ کو حلال اشیاء میں سب سے زیادہ نا پسند طلاق ہے ‘‘ ۶؎

طلاق کا اختیار:

طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں دینے کی کچھ وجہیں ہیں ،عموماً وہ عورت کے مقابلے میں زیادہ صابر  ہوتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلا حیت رکھتا ہے ،جو بھی فیصلہ کرتا سوچ سمجھ کے کرتا ہے ۔ اور اسی بنا ء پر عموماً عقد نکاح قائم رہتا ہے ،جبکہ عورت  حساس  ہوتی ہے۔ نرم دل ہونے کی وجہ سے بسااوقات درست فیصلہ نہیں کر پاتی اور جلد ہی طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہے ۔ اگر اس کے ہا تھ میں یہ اختیار ہوتا تو جلد طلا ق دے دیتی ۔

یاد رہے کہ عورت کو اپنی مر ضی سے شادی کر نے کا اختیار دیا گیا ہے ۔نکاح کے وقت وہ شوہر پر شرائط عائد کرسکتی ہے ، لیکن وہ شرائط عقد کی حکمتوں کے خلاف نہ ہوں ۔

مثلاً اسی شہر میں رہنے کی شرط وغیرہ ۔  اسی طرح  شوہربیوی کو طلاق کا اختیار دے سکتا ہے ،( شادی کے بعد بھی دے سکتا ہے ۔)ازواج مطہرات نے آنحضرت ﷺ سے نفقہ کا شکوہ کیا تو اللہ نے  فرمایا:

یاایھاالنبی قل لازواجک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔للمحسنات منکن اجرا عظیما  (۷)

تر جمہ : اے نبی کہہ دو اپنی بیویوں سے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اسکی زینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں کچھ ساما ن دوں اور احسن طریقے سے تمہیں چھوڑ دوں  اور اگر تم اللہ اور اسکے رسول کو اورآخرت کے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے احسا ن کرنے والیوں کے لئے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے ۔ ‘‘

اس آیت سے یہ  اشارہ ملتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اختیار دے سکتا ہے یعنی اسے ساتھ رہنے یاجدا ہو جانے کا اختیار ہے۔عورت علیٰحدگی چاہے تو وہ اسے طلاق کا جوڑا دے ،اور اس کے واجبات ادا کردے  اور اس کو جدا کردے۔عورت کو نصیحت کی گئی ہے کہ محض تنگدستی کی بنیاد پر تفریق کے مطا لبہ میں جلدی نہ کرے۔

اگر عورت کو شوہر کی جا نب سے  مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو تو اسلام نے آزادی دی  ہے کہ وہ اپنا معاملہ قاضی کے پاس لیجائے اور قاضی ان ودنوں کے درمیان تفریق کا فیصلہ کر دے ۔

طلاق کی قسمیں:

طلاق کی کئی قسمیں ہیں :مثلاً

طلا ق السنۃ : شوہر عورت کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اسے اس نے ہاتھ نہ لگایا ہو ۔

طلاق البدعۃ:یہ وہ طلاق ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حالت حیض و نفاس میں ،یا ایسے طہر میں جس میں اس نے ہم بستری کی ہو طلا ق دے یا ایک وقت یا ایک جملے میں تین طلاقیں دے دے ۔

طلاق بائن :یہ ایسی طلاق ہے جس کے بعد طلا ق دینے والے کو رجعت کا حق نہیں رہتاالبتہ وہ چاہے تو عورت کو ازسرِنو پیغام نکاح دے سکتا ہے۔ عورت کو اختیار ہوگاکہ وہ اس کا پیغام قبول کرکے  اس سے نکاح کرلے ،یا اس کا پیغام رد کر دے ۔اس کی چند صورتیں ہیں :

(الف)مر د اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دےدے اور پھر عدت اس کی گزر جائے تو وہ محض عدت گزر جا نے سے بائنہ ہو جا ئےگی ۔ ( البتہ ازسرِنو، دونوں کی رضامندی سے، نئے مہر کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔)

(ب) مر د اپنی بیوی کو مال کے بد لے طلاق دے جیسے خلع ۔

(ج) دو حکم (فیصلہ کرنے وا لے ) اگر تفریق کا فیصلہ کر یں ۔

(د) عورت کو طلاق قبل الدخول (مباشرت سے پہلے) دی جائے ۔اس صورت میں اس پر عدت بھی نہیں ہے ۔

طلاق مغلظہ:

تین طلاق دیدے چا ہے ایک مجلس میں ہوں یا علیحدہ علیحدہ مجلس میں ، اس کو طلاق مغلظہ کہتے ہیں ۔ اب  عورت  اس مرد کے پاس واپس  نہیں آسکتی۔ا   لاّ یہ کہ اتفاقاًایسا ہو کہ عورت کی دوسرے شخص سے شادی ہو، وہ دوسراشخص وفات پاجائے یا وہ بھی عورت کو طلاق دے دے۔ تب اس کی اجازت ہے کہ عورت اور پہلا شوہر، باہم رضامندی سے نئے مہر پر نکاح کرلیں۔

طلا ق رجعی : یہ وہ طلاق ہے جس میں دینے وا لے کو رجوع کا اختیار باقی  رہتا ہے ۔

طلا ق صریح :یہ وہ طلا ق ہے جس میں طلا ق کا لفظ صریح ہوتا ہے مثلاً تجھے طلاق ہے ،تو طلاق والی ہے ، وغیرہ  ۔

طلاق معلق :طلاق کو کسی فعل پر معلق کردیا جاے ، جیسے :  ’’ اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ہے ۔ ‘‘

طلاق تملیک ، طلاق تخییر : اس میں شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ ’’ میں نے تجھے اپنی جدائی یا ساتھ رہنے کا اختیار دیا ‘‘ ۔ لہٰذا اگر وہ طلاق اختیار کر لے تو ا سے طلاق پڑ جائے گی۔

تملیک اسے کہتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ میں نے تیرے معاملے کا تجھے مالک بنا دیا ۔

طلاق بالکتابت : بیوی کو لکھ کر طلاق  دینا۔

طلاق با لوکالت : کسی وکیل کے ذریعے طلاق کہلوائی جا ئے ۔

طلاق تحریم :اپنی بیوی سے یہ کہنا تو مجھ پر حرام ہے ، اگر یہ کہنے سے طلاق کی نیت کی ہو تو یہ طلاق ہے ، ظہا ر کی نیت کی ہو تو ظہار ہوگا ۔

طلاق کے بعد عورت کے حقوق :

مبا شرت سے قبل طلا ق ہو نے کی صورت میں آدھا مہر ملتا ہے ۔ اس کی وضا حت قرآن کی اس آیت سے ہو تی ہے ۔

وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم    (۹)

تر جمہ :  ’’ اگر تم انھیں چھونے سے قبل طلاق دو اور ان کیلئے مہر مقرر کیا ہوتو مقرر کئے ہو ئے مہر کا آدھا انھیں دو ۔‘‘

اس طرح عورت کو ’’ متاع ‘‘ دی جائےجب اسے طلاق دی جا ئے۔اس معاملے میں اما م احمد کا مسلک ہے کہ یہ ہر قسم کی مطلقہ کا حق ہے ،یہی قول حضرت علی ؓ ، حسن بصری ، سعید بن جبیر ، ابو قلابہ زھری ؒ وغیرہ کا ہے ، جس کی وضا حت اس آیت سے ہو تی ہے :

وللمطلقات متاع م بالمعروف حقاعلی المتقین (۱۰)

تر جمہ :  ’’  اورمطلقہ عورتوں کے لئے معروف طریقے سے کچھ سامان دینا ہے یہ حق ہے پر ہیز گا رو ںپر ۔‘‘

اسی طرح ایک دوسری آیت :

یا ایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا وز یتنھا فتعا لین ا متعکن وا سر حکن سراحا جمیلا       (۱۱)

تر جمہ :  ’’  اے پیغمبر ؐ ـ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت و آ رائش کی خواستگار ہو تو آئو میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کروں ۔ ‘‘

اس مسئلے میں اما م احمد بن حنبل ؒ کا کہنا ہے کہ عورت سے مبا شرت ہو ئی ہو یا نہیں ، مہر مقرر ہو ا ہو یا نہیں ہر صورت میں اسے متاع دینا واجب ہے ۔اور امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ہر قسم کی مطلقہ کو متاع دینا مستحب ہے ،سوائے اس عورت کے جس کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اسے طلاق قبل الدخول دی گئی ہو ، اسے متاع دینا واجب ہے ۔

شریعت نے طلاق دینے کا اختیار صرف مر د کو دیا ہے کیو نکہ وہ خاص طور سے ر شتہ زوجیت قائم رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور وہ زوجیت کی بناء پر  مال خرچ کرچکا ہو تا ہے ،اس سے توقع ہے کہ مسئلے کو سلجھانے کی اہلیت رکھتا ہے ، بخلاف عورت کے کہ وہ  حساس، نرم مزاج ہے ، اس پر شوہر کے کوئی مالی حقوق واجب نہیں ہو تے ، اس لئے شریعت نے طلاق کا اختیار مر د کے ہاتھ میں رکھا ہے اور عورت کے لئے خلع کا حق رکھا ہے تا کہ وہ چاہے تو تفریق  ہوسکے۔

میراث کا حق:

اگر شوہر  طلاق دےدے یا  شوہر کا انتقال ہو گیا ہو تو جب تک عورت عدت میں ہے اسے تر کہ میں سے حصہ ملے گا ۔ امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک جب تک دوسری شادی نہ کی ہو تب تک ملے گا ، کئی صحابہؓ سے بھی یہی مر وی ہے ۔

 خلع کا حق:

خلع کے لغوی معنی اتارنا ہیں ،  جب عورت اپنے شوہر کی بد اخلاقی ، دین سے غفلت ، مکاری یاکمزوری سے نا لاں ہو جائے یا اسے نا پسند کرے اور اسے خوف ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حق کی پا سداری نہ کر سکے گی تو وہ شوہر سے خلع کے ذریعے علیٰحدگی حاصل کر سکتی ہے، یہ کسی عوض کے بدلے بھی ہوسکتا ہے جس سے وہ چھٹکارا حاصل کر سکے ۔اس کی دلیل اس آیت سے واضح ہو تی ہے :

فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھا فیما افتدت بہ ۱۲؎

تر جمہ :  ’’پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ا س میں جو وہ عورت فدیہ دے کر جان جھڑائے ۔‘‘

حدیث میں ہے کہ : ثا بت بن قیس ؓ کی بیوی خدمت نبوی ﷺ میں آئی اور بولی کہ ’’ میں اپنے شوہر کے دین و اخلاق پر الزام نہیں لگاتی مگر میں اسلام میں کفر سے ڈرتی ہوں ، تو آپﷺ نے فر ما یا کیا تو اس کا باغ اسے وا پس کر سکتی ہے ؟ اس نے کہا ’’ جی ہاں ‘‘ تو اس نے باغ واپس کر دیا اور آپﷺ نے حکم دیا تو ثا بت نے اسے الگ کر دیا ۔

ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فر ما یا کہ با غ قبول کر لے اور ایک طلاق دیدے ۔ ۱۳؎

اگر شوہر صحیح ہو اور عورت کے تمام شرعی حقوق پورے کرتا ہو تو اس حا لت میں خلع لینا مناسب نہیں ہے ، اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے ’’ جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ ‘‘

خلع کے بارے میں فقہاء کا کہنا ہے کہ لفظ خلع یا اس کے ہم معنی ٰ الفاظ ہو نا ضرور ی ہے ۔مثلاً : مبارات ، فدیہ جیسے الفاظ۔ اور اگر خلع کے معنی میں نہیں تو خلع منعقد نہ ہو گا ۔

ائمہ ار بعہ کے نزدیک عورت خلع لینے کے بعد اپنے نفس کی ما لک ہو جا تی ہے اور اس کا معاملہ خود بخوداس کے ہا تھ میں آجا تا ہے کیو نکہ اس نے اس شخص کی زوجیت سے نکلنے کے لئے مال خر چ کیا ۔

لہٰذا جس طرح مرد کو طلاق کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو خلع کا اختیار شریعت نے دیا ہے ،اس میں شوہر مطالبہ کرے تو عورت کو شوہر سے لیا ہوا مہر واپس کرنا ہوتا ہے ۔البتہ شوہر کو مہر کے علاوہ کچھ اور مال لینا درست نہیں  ۔

طلاق اور خلع واقع ہونے کی صورتیں :

۱؎:نکاح کے وقت عورت نے اپنے لئے طلاق کا حق رکھا ہو اور شوہر نے اس پر رضامندی دی ہو تو اختیار کو استعمال کرناعورت کا حق ہے۔

۲؎:    جب وہ شوہر کی زیادتی کے با عث گناہ میں پڑنے کا خوف کرے ۔

۳؎:  شوہر کا سلوک اس سے خراب ہو ،یعنی وہ اس پر اس کے دین یا جان کے بارے میں ظلم روا رکھے اور عورت اس سے مال دیکر طلا ق حاصل کرنا چا ہے ۔

امام ابو حنیفہ ؒبیوی سے ناروا سلوک کر نے والے شوہر کیلئے  مہر واپس لینا بھی مکروہ سمجھتے ہیں کیونکہ اسلام دین مروت ہے وہ عورت سے برا سلوک قبول نہیں کرتا۔اس کی وضاحت اس آیت سے ہے :

وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احداھن قنطارا، فلاتا خذو ا منہ شیئا اتا خذو نہ بھناناو اثما مبینا ۱۵؎

تر جمہ :  ’’  اور جب ایک کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے کسی کو سونے کے ڈھیر بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ نہ لو بھلا تم نا جا ئز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال واپس لو گے ۔ ‘‘

اگر شوہر کو برص یا جزام کی بیماری ہو تو اما م محمدؒ کا قول ہے کہ بیوی کو حق ہے کہ وہ اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے اور علیحدگی کا مطالبہ کرے ،اور قاضی ان میں علیحدگی کرا سکتا ہے ۔جبکہ شیخین کا اس با رے میں کہنا ہے کہ عورت کو اس صورت میں علیحدگی کا اختیار نہیں ۔

اس طرح کی علیحدگی طلاق بائن میں شمار ہوگی اور شوہر کو اپنی بیوی کی رضا مندی کے بغیر رجوع کرنا جائز نہ ہو گا ، البتہ باہمی رضا مندی سے نئے مہر کیساتھ دوسرا نکاح کیا جا سکتا ہے ۔

اسلام نے  زوجین کی مشکلات کے حل کے طور پر طلاق کی اجازت دی ہے اسی طرح علیحدگی کی اور خلع کی ۔ لیکن طلاق  بہرحال ناپسندیدہ ہے۔طلاق کا وقوع کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا  طریقہ یہ ہے کہ مر دو عورتوں میں ثقافت اسلامیہ کو اجا گر کیا جائے قرآن و سنت اور اسلامی فکر سے روشناس کرایا جائے ۔

مشرق میں اس وقت جو سماجی اور معاشی حالات پائے جاتے ہیں ان کو دیکھتے ہو ئے بظاہر ایسا معلوم ہو تا ہے کہ عورت کے لیے خلع  کے حق کی حیثیت ایک فریب نظر سے زیادہ نہیں ہے ، مگر مشرق کے یہ موجودہ حالات اسلام کے پیدا کردہ نہیں ہیں ، بلکہ یہ اسلام سے انحراف کا نتیجہ ہیں ،اور قوانین اسلام کے عملی نفاذ میں سدّ ِ راہ بنے ہوئے ہیں ۔اسلام کے دور اول میں عورت اپنے اس حق کو استعمال کرتی تھی اور آنحضورؐ اورآپؐکے خلفاء نے عورت کے اس حق کو پوری طرح تسلیم کیا ۔آج ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ تمام اسلامی قوانین کو نا فذ کیا جائے اور ان کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں انھیں دور کیا جائے ،خواہ  رکاوٹیں مشرق کے مو جو دہ اقتصادی اور سماجی حالات کی پیداوار ہوں یا دوسروں کی دیکھا دیکھی غیر اسلامی طور طر یقوں کی اندھی پیروی کا نتیجہ ہوں۔

حوالہ جات

۱؎: قرآن کریم  ، سورہ بقرہ آیت  ۲۲۹

۲؎: نفس مصدر ،  سورہ طلاق آیت   ۱

۳؎: منہاج المسلم  ( ص ، ۴۱۳)

۴؎: اسلام اور دیگر مذاہب و معاشروںمیں عورت کے حقوق و مسائل ، عبداللہ مرعی بن محفوظ حامی  ، فرید بک ڈ پو  لمیٹیڈ ، اگست ؍ ۲۰۰۴؁  طبع اول  ، (ص ،  ۱۶۱)

۵؎: ابو دائو د ۔ ابن ماجہ

۶؎: قرآن کریم  ، سورہ احزاب   آیت  ۲۸؍ ۲۹

۷؎: اسلام اور دیگر مذاہب ومعاشروں میں عورت کے حقوق و مسائل ، عبداللہ مرعی بن مخفوظ حامی ، فرید بک ڈپو لمیٹیڈ ،  اگست ؍۲۰۰۴؁  طبع  اول ، (ص ،۱۶۸)

۸؎: نفس مصدر  ،  سورہ بقرہ    آیت  ۲۳۷

۹؎: نفس مصدر  ، سورہ بقرہ   آیت  ۲۴۱

۱۰؎: نفس مصدر  ، سورہ احزاب  آیت  ۲۸

۱۱؎: نفس مصدر ،  سورہ بقرہ  آیت  ۲۲۹

۱۲؎:  المغنی  (ج ۸؍ ص  ۱۷۵)

۱۳؎:نفس مصدر  ،  سورہ بقرہ  آیت  ۲۲۹

۱۴؎: نفس مصدر  ، سورہ النساء  آیت  ۲۰

۱۵؎: الہدایہ  (ج؍۳  ص  ۲۶۸)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau