اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے وہ دو زمروں میں تقسیم ہے۔ پہلا حقوق اللہ یعنی بندوں پر اللہ کے حقوق اور دوسرا حقوق العباد یعنی ایک بندے پر دوسرے بندے کے حقوق۔ ان دونوں حقوق کے بارے میں جوابدہی طے کر دی گئی ہے۔ اللہ کی عدالت میں جب ہماری حاضری ہوگی اور چھوٹے بڑے اعمال کی باز پرس کی جائے گی تو اس وقت ان دونوں حقوق کے بارے میں سوالات ہوں گے اور بندے کو ہر سوال کا جواب دینا ہوگا۔ سورہ الماعون میں دونوں طرح کے حقوق کا ذکر ملتا ہے۔ اس سورہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی خاص تلقین کی گئی ہے۔ ”یتیم کے ساتھ بدسلوکی، محتاج کی مدد نہ کرنا، ریاکاری اور نماز و زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی مومن کی شان کے خلاف ہے“۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کی ادائیگی میں ہوئی کوتاہیوں میں نرمی اور درگذر کا معاملہ فرما سکتا ہے لیکن حقوق العباد میں کوتاہی کا سخت مواخذہ ہو گا اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر معاملہ ختم نہیں کیا جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (لتؤدن الحقوق الی اھلھا یوم القیامۃ حتی یقاد للشاۃ الجلحاء من الشاۃ القرناء)’’ تم حقداروں کے حق ادا کروگے قیامت کے دن یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری (جس نے سینگ ماری ہو) سے لیا جائے گا) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقوق العباد میں کوتاہی کا معاملہ بہت حساس ہے۔ اس کی ادائیگی کے سلسلے میں ہم سب کو بہت زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کی معاشرے میں مختلف حیثیتیں ہیں اور ہر حیثیت میں ایک دوسرے پر کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں۔ ہم باپ ہیں، بیٹے ہیں، شوہرہیں، بھائی ہیں۔ کسی کے قریبی رشتہ دار ہیں، ملازم ہیں، مالک، تاجر یا کسی عہدے اور منصب پر فائز ہیں، کسی کے ساتھ کام کرتے ہیں، کسی کے پڑوسی ہیں۔ ہر صورت میں ہم پر دوسرے کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے۔اسلام میں تمام حقوق کی ادائیگی بالخصوص پڑوسیوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دلائی گئی ہے اور حسن ہمسائیگی کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ترمذی شریف کی ایک روایت میں اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔ پڑوسی چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، حسن سلوک کے معاملے میں کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا ہے۔ صحابہ کرام اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کا خوب خیال رکھتے تھے۔ جامع ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کا واقعہ مذکور ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی، انہوں نے گھر والوں سے کہا (أھدیتم لجارنا الیھودی؟ أھدیتم لجارنا الیھودیکیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا؟ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ’جبرئیل مجھے پڑوسی کے حقوق کی مسلسل تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے۔) ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا (من کان یؤمن باللہ و الیوم الآخر فلیحسن الی جارہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔)
ہمارا پڑوسی غیر مسلم ہو تو درج ذیل باتوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے تاکہ انہیں ہمارے کسی بھی عمل سے تکلیف نہ پہنچے۔ اپنے گھر کے اندر اونچی آواز میں بات کرنا جس سے پڑوسی کو الجھن ہو، اونچی آواز میں ٹی وی چلانایا کسی اور ذریعے کا استعمال کرنا جس سے شورو غل ہو۔ اگر ہمارا گھر پڑوسی کے گھر سے اونچا ہے یا ہماری گیلری ان کے دروازے کے سامنے ہے تو اس بات کا پورا خیال رکھا جانا چاہئے کہ ان کے گھر کے لوگوں کی بے پردگی نہ ہو اور نہ ہی اپنے یا ان کے گھر کے باہر کوڑے ڈالے جائیں۔ اپنے گھر کے آگے صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے تاکہ راستے سے گزرتے پڑوسیوں کو پریشانی نہ ہو۔ یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ کسی پریشانی، بیماری یا اچانک آنے والی مصیبت کے وقت پہلے پڑوسی ہی کام آتے ہیں، دوست اور رشتہ داروں تک تو خبر بعد میں پہنچتی ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر عربوں میں ایک مقولہ معروف ہے ” الجار القریب خیر من الاخ البعید“۔ قریب کا پڑوسی دور کے بھائی سے بہتر ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اگر وہ کسی پریشانی میں ہو، کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس کی ہر ممکن مدد کرے۔ اگر وہ معاشی طور پر کمزور ہو تو مالی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ بالخصوص رمضان کے مہینے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ غیر مسلم پڑوسی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ اگر محلے میں غیر مسلم خاندان رہتے ہیں تو مسجدوں میں رات کے وقت یا سحری کے وقت سے بہت پہلے تیز آواز میں مسلسل اعلانات نہ کیے جائیں جس سے ان کی نیند میں خلل پڑے۔ اگر مسلم محلے کے قریب، غیر مسلم محلے ہوں تو ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ رمضان کے مہینے میںبعض جگہوں پر دیکھا گیاہے کہ تراویح کی نماز کے بعد مسلم نوجوان شور شرابا کرتے ہیں، تیز رفتاری سے گاڑیاں چلاتے ہیں، سائلنسر کی آواز کو بڑھا دیتے ہیں جس سے خود مسلمانوں اور غیر مسلم پڑوسیوں کو ذہنی کلفت ہوتی ہے۔ ان غیر اخلاقی اور غیر اسلامی چیزوں سے بچنا چاہئے۔ اسی طرح عید الاضحی کے موقع پر اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں۔قربانی کے جانوروں کو محلوں، بازاروں اور گلیوں میں گھمانا، عام راستے، سڑک پر قربانی کرنا یا غیر مسلموں کے گھر کے سامنے مذبوحہ جانور کا خون بہانا یا گندگی پھیلانا، پڑوسیوں کو تکلیف دینے والا عمل ہے۔ اس طرح کی چیزوں سے مسلم معاشرے کو روکنا بہت ضروری ہے۔ ایک حدیث میں ایسی حرکتوں پر سخت وعیدآئی ہے۔ فرمایا گیا (لایدخل الجنۃ من لا یأمن جارہ بوائقہوہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا ہم سایہ اس کے مکرو فساد سے محفوظ نہ ہو ۔ )
پڑوسیوں کے حقوق میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوں، شادی بیاہ، تہوار و تقریبات کے موقع پر اپنے پڑوسیوں کو بلائیں، وقتا فوقتا ہدیے و تحفے پیش کریں، ان کی تقریبات میں شریک ہوں اور اسلامی حدود کا خیال رکھتے ہوئے مبارکباد بھی دیں تاکہ انہیں احساس ہو کہ آپ ان کے ہمدرد اور دکھ درد میں ان کے ساتھ ہیں۔ تہوار یا شادی کی تقریبات کے موقعے پر سادگی اور اسلامی تعلیمات کا خیال رکھیں تاکہ ان کے سامنے اسلامی طرز زندگی کا تعارف اور اسلام کی عملی شہادت بھی پیش ہو جائے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ پڑوسی صرف وہی نہیں ہے جو ہمارے گھر سے متصل رہتے ہیں۔ سورہ النساء کی آیت ” و الجار ذی القربیٰ والجار الجنب و الصاحب بالجنب، الآیۃ“ کی تشریح میں مفسرین لکھتے ہیں کہ جو مسافر ہمارے ساتھ بس، ٹرین، ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہیں، وہ بھی ہمارے پڑوسی ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان کا خیال رکھنا حق ہمسائیگی کا حصہ ہے۔ لہٰذا دوران سفر کسی کو اپنی سیٹ پر پریشانی ہو رہی ہو تو اپنی سیٹ پیش کردینا، سامان رکھنے میں دشواری ہو تو اپنا سامان ایڈجسٹ کرکے ان کے سامان کے لیے جگہ بنانا، یہ بظاہر چھوٹی باتیں ہیں لیکن تاثیر کے اعتبار سے بڑی اہم ہیں۔ اپنے ہم سفر پڑوسی سے جتنا جلد ممکن ہو تعارف کر لیا جائے اور مشترک امور پر بات چیت شروع کی جائے اور فطری انداز میں اسلامی تعلیمات کا ذکر حکمت و دانائی کے ساتھ کیا جائے۔ اگر پڑوسی میں دلچسپی ہو تو فون نمبر کا تبادلہ کرکے سفر کے بعد بھی ان سے روابط رکھنے کی کوشش کی جائے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک سچا مسلمان، انفرادی و اجتماعی طور پر نوع انسان کا حقیقی خیر خواہ ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے اور انہیں راحت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔اس کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ زمین پر بسنے والے ہر فرد بشر کو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ملے۔ خاص طور پر غیر مسلم کے لیے فکر مند ہونا دینی تقاضا ہے تاکہ دنیا کی بھلائیوں کے ساتھ ساتھ انہیں آخرت کی کامیابیاں بھی حاصل ہوں۔ اپنی فکر مندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلند اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرکے اسلام کی عملی شہادت پیش کریں۔ اعلیٰ اخلاق اور حسن ہمسائیگی کا معیاری نمونہ پیش کرنا، غیر مسلم پڑوسیوں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کے برابر ہے، مگر بدقسمتی سے اس حق کی ادائیگی میں ہم مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں جس کی وجہ سے امت مسلمہ کے سامنے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے والوں کی راہیں آسان ہو رہی ہیں۔ اگر ہم حق ہمسائیگی ادا کرنے کے عادی بن جائیں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






