زمانے کے ساتھ ساتھ افراد، معاشروں اور ریاستوں کے حالات بھی پلٹاکھاتے ہیں۔ شریعت تو اپنی جگہ غیرمبتدل رہتی ہے مگر اس کے مقاصد بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے حالات واحوال کی تبدیلی کے ساتھ مقاصد شریعت اور ان کی تعریف میں تبدیلی ایک ناگزیر عمل ہے۔ مثلاً کبھی مسلمان شریعت پرعمل پیراہوتے ہیں ، کبھی اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیںاور کبھی کافرانہ نظام کے تحت ہونے کی وجہ سے شریعت کے بہت کم اجزاءپر عمل کرسکتے ہیں۔ ان تینوں صورتوں میں شریعت کے مقاصد یکساں نہیں ہوسکتے ۔ ان میں اختلاف پایاجانا ایک فطری بات ہے۔
آج حالات یہ ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں پر ہرطرف سے حملہ کیاجارہا ہے اور ان کو ان کے معاشروںاور حکومتوں کو تباہ کرنے کی ہرطرح کوشش کی جارہی ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ داخلی اور قریبی خطروں کے پہلو بہ پہلو ‘دور کاخطرہ’بھی آج موجود ہے۔ مراد میری ٹیلی ویژن اور اس کے نہ صرف دین سوز بلکہ انسانیت سوز خطرات ہیں، جو دور فضا سے سٹیلائٹس کے ذریعے گھر گھر پہنچ رہے ہیں اوراسلام کے عقائد سے لے کر معمولی احکام تک کو تباہ کررہے ہیں۔ دوسرا خطرہ وہ فضائی جنگ ہے، جس کی شروعات B-25طیاروں میں آپ دیکھ سکتے ہیں جو کیلی فورنیاسے اڑکر افغانستان اور عراق پر بمباری کرکے پھر اپنے اڈوں پر واپس بھی ہوسکتے ہیں۔ ان حالات میں’مقاصد شریعت‘ کی ایک نئی تعریف کی ضرورت ہے، جو ان سارے امور پر حاوی ہو۔
مقاصد شریعت کی نئی تعریف
ہمارے زمانے میںمقاصد شریعت اس امر سے عبارت ہیں کہ مسلم فرد معاشرے اور ریاست کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ مل جل کر عالمی سطح پر خیر امت کے فرائض حتی الامکان بحسن وخوبی ادا کرسکیں۔خود شریعت پر عمل پیرا ہوسکیں اور دوسروں کو اس کی دعوت دے سکیں۔تاکہ غلبۂ دین حق کو بروئے کارلاسکیں۔ کہنے والا کہہ سکتاہے کہ مقاصدِ شریعت کی یہ کوئی نئی اور اچھوتی تعریف نہیں ہے۔ اس سے پہلے جن حضرات نے اس موضوع پر قلم اٹھایاہے وہ بعینہٰ یہی چاہتے تھے۔ فرق یہ ہے کہ اس میں آج کل کی چلتی ہوئی اصطلاحوں میں یہی بات کہی گئی ہے۔ چلیے ٹھیک ہے۔ اس کے بعد اس تعریف کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
خیرامت اور اس کا مقصد وجود
خیرامت اور اس کا مقصد وجود خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میںاس طرح بیان فرمایاہے:
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ … ﴿آل عمران:۱۱۰﴾
’تم وہ بہترین امت ہو جس کو لوگوں کے لیے وجود میں لایاگیاہے ﴿تاکہ﴾ تم معروف کا حکم دو اور منکر سے منع کرو اس حال میں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘
گویہ آیت سارے ہی مسلمانوں کے بارے میں تھی مگر ان میں سے بھی ایک ایسے گروہ کے وجود کی ضرورت پر اس آیت سے چند آیات پہلے زور دیاجاچکا ہے ، جس کا ترجمہ ہے:
’تم میں ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو خیر کی طرف بلاتاہو اور معروف کا حکم دیتا ہو اور منکر سے منع کرتاہو اور یہی لوگ دراصل فلاح یاب ہونے والے ہیں۔‘
اس میں کم از کم یا زیادہ سے زیادہ ’امت‘ کی مشترکہ حفاظت کو مزید واضح کلمات میں اس طرح بیان فرمایا:
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَائ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً… ﴿البقرۃ:۱۴۳﴾
’اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط و معتدل امت بنایاہے تاکہ تم لوگوں پر شہادتِ ﴿حق﴾ کا ﴿فریضہ﴾ ادا کرسکو۔ اس حال میں کہ رسول تم پر پیغام حق پہنچانے کی شہادت دے۔‘
آگے بڑھ کر زمین میں اقتدار کے مالک ہونے کے بعد ان کی روِش کیاہونی چاہیے، اس کو کھول کھول کر ان الفاظ میں بیان کیا:
’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ہم اگر زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی اور بھلائی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے روکیں گے اور معاملات کاانجام تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔‘ ﴿النور:۴۱﴾
کمر توڑنے والی ذمے داری
یہ ایک ایسی کمر توڑنے والی ذمے داری ہے، جس کاآغاز فرد سے لے کر معاشرے سے گزرتاہوا ریاست پر اختتام کو پہنچتاہے۔ فطری طورپر اس کاآغاز فرد، لڑکا اور لڑکی سے ہوتاہے، جن میں ہر ایک کو روزِ اوّل سے پکا مسلم یا پکی مسلمہ بنانے کی جان توڑکوشش کرنی ہوگی۔ اس کے لیے خود ان کے والدین کا اسلام کے دنیا اور آخرت میں حقیقی نجات دہندہ ہونے پر غیرمتزلزل ایمان پر قائم ہونا ضروری ہے۔ تاکہ وہ اس کے بعد ہر مادی اور دنیوی شئے کو ثانوی درجے کی اہمیت دیں۔ ان کے ہاں سب سے بڑی اور پہلی ضرورت لڑکے یا لڑکی کا ہر معنی میں نہ صرف مسلمان ہونا ہو بلکہ دوسروں کو اس دینِ حنیف کی طرف دعوت دینا اور اس راہ میں ہر قسم کے گرم سرد سہنا اور قربانی دینا بھی ہو۔اگر ایسا خاندان اور ماحول میسر آجائے تو بچوں کی گھریلو تربیت روزاول سے اسلامی خطوط پر ہوگی، جن کی بنیادیں توحید، رسالت اور آخرت پرہوںگی۔
ہم سب ہی جانتے ہیں کہ عصر حاضر میں دشمنان اسلام نے مدرسوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں اور ان کے نظامِ تعلیم و تربیت کو مسلمان نسل کو اسلام سے نہ صرف دور کرنے، بلکہ اس کے خلاف زہر بھرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بنایاہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس غیراسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کے منفی اور زہریلے اثرات کا مقابلہ اور ازالہ کرنے کے ذرائع و وسائل، مدرسوں کے اندر، اگر ممکن ہوسکے تو ، ورنہ مدرسوں سے باہر ۔مسلسل غورو فکر کیاجاتا رہناچاہیے اور وقت اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ ان وسائل اور ذرائع میں بھی مناسب اور حسبِ ضرورت تبدیلی لائی جانی چاہیے۔
ایک دوسرا مؤثر ہتھیار جو دشمنوں نے اسلام کو راستے سے ہٹانے کے لیے استعمال کیاہے، وہ ذرائع ابلاغ کا ہتھیار ہے، جن میں اخبارات اورجرائدو رسائل کے ساتھ ٹیلی ویژن، ریڈیو، موبائل وغیرہ شامل ہیں۔ ان بے پناہ قوت کے حامل وسائل و وذرائع کے ذریعے وہ اسلام کے ایک ایک عقیدے اور حکم کو مختلف انداز میں چیلنج کرکے اس کو مٹانے کی پیہم کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ان دو مہلک وسائل کے تباہ کن نتائج سے بچنے کے مندرجہ ذیل طریقے ہوسکتے ہیں:
نظام تعلیم
حقیقت تو یہ ہے کہ باطل نظام تربیت کا جواب اسلامی نظام تعلیم و تربیت ہے، جو کسی ملک اور معاشرے میں ’’لازمی نظامِ تعلیم‘‘کی حیثیت سے برسرپیکار ہو اور جس سے پیدا ہونے والی نسلوں کا معاشی، سیاسی اور معاشرتی مستقبل وابستہ ہو۔ اگر ایسا فی الحال ناممکن ہوتوصباحی (Morning) اور مسائی (Evening)مدارس کے ایسے مؤثر نصاب تیار کیے جائیں اور ران کو پڑھانے کے لیے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ اساتذہ، مرد اور عورت، مہیا کیے جائیں جو بچوں کو قرآن کریم، احادیث نبویہ اور فقہ کی نظری اور عملی تعلیم اس حد تک دے سکیں کہ ان کا فکری، عملی اور قلبی تعلق اپنے خالق اور اس کے دین سے استوار ہوجائے۔ سب سے پہلے اس میں خود ماں باپ کو رغبت دلانے کی ضرورت ہے ورنہ ان کو یورپ، امریکہ، کناڈا اور آسٹریلیا بھیجنے کی تمنا میں وہ یہیں ان کو افرنچی رنگ میں اچھی طرح رنگنا چاہتے ہیں، تاکہ مادی اور دنیوی نقطۂ نظر سے وہ اور ان کابچہ یابچی ‘بڑے کامیاب’ لوگوں میں شمار ہوسکیں۔
ذرائع ابلاغ
ذرائع ابلاغ کی تباہ کاریاں، اخلاق سوزیاںبلکہ انسانیت سوزیاں، فلموں، فیچروں، اشتہاروں اور مناظر کے ذریعے کہیں پر مخفی نہیں ہیں، حتی کہ بچوں کے لیے جو فلمیں اور پروگرام پیش کیے جاتے ہیں، ان میں خالص مادہ پرستانہ رجحانات اور اخلاق اور دین دشمن اعمال و افکار پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔
ہمیں اس امر کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ آج مشینی دور اور زندگیوں کی وجہ سے انسانوں کے پاس بہت کچھ فالتو وقت ہوتاہے۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ اس فالتو وقت کو اسلام دشمن اور انسانیت سوز فلموں، فیچروں، کہانیوں اور اشتہارات سے کس طرح اور کیونکر بچایاجاسکتا ہے اور ان کے مقابلے اور ان کے بدلے اسلامی معیارات سے اور اسلامی اخلاق سے زیادہ سے زیادہ مناسبت رکھنے والے پروگرامس فلمیں، فیچرس وغیرہ کس طرح تیار کرکے پیش کیے جاسکتے ہیں؟ اب روک تھام کی طرف بڑھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ے کہ اگر متوازی نظامِ تعلیم جو دنیوی فلاح و بہبود اور آخری نجات کی تعلیم دیتاہو قائم کیاجاسکے تو بہت ہی اچھی بات ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو کئی اس قسم کے نصابِ تعلیمی اور تربیتی پروگرامس بنائے جانے چاہییں جو مختلف حالات اور ماحول میں تھوڑی بہت تبدیلی اور حذف و اضافے کے ساتھ قابلِ عمل بن سکیں۔ رہا ٹیلی ویژن وغیرہ کا معاملہ تو اس میں جہاں تک بن پڑے صاف ستھرے اخلاق پرور اور اسلام دوست فلمیں، فیچرس، کہانیاں اور فلمی کارٹون تیار کرکے پیش کیے جانے چاہییں۔
بچوں کی حد تک چھوٹے چھوٹے سبق آموز قصے کہانیاں اور کارٹون بنائے جانے چاہییں۔ اسی طرح ان کی فکری، علمی اور اخلاقی نشوونما کے لیے کوئز ﴿سوالات﴾ بھی مختلف میدانوں میں تیار کیے جانے چاہییں۔ مثلاً تاریخ، جغرافیہ، نباتات، حیوانات وغیرہ ۔ ان کی ضرورت اور موسم گرما کی لمبی اور موسم سرما کی مختصر چھٹیوں میں بہت زیادہ محسوس کی جاتی ہوگی۔
غرض ان سارے ہی امور میں جہاں تک بن پڑے فکری،عملی اور مالی جدوجہدمسلسل اور ان تھک اندازمیں کرنی چاہیے کفر اور اکادکی طاقتوں کی اجتماعی قوتوں سے زیادہ نہ کہ بہت ہی کم۔ بل کہ نہ ہونے کے برابر۔ اگر مناسب مقدارمیں پیسہ فراہم نہ ہوسکے اور مناسب صلاحیتیں جمع نہ کی جاسکیں اور معیاری کام سرانجام نہ پاسکیں تو پھر اس امت کواپنے کیے کا انجام بھگتنے کے لیے مستعدرہنا بھی چاہیے۔ ایسے ہی نازک اور فیصلہ کن تاریخی موقعوں پر اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی واشگاف الفاظ میں بیان کرکے جہاں بڑے بڑے اجر کے وعدے فرمائے ہیں، وہیں ان کے بجائے دوسری قوموں کو لے آنے کی دھمکی بھی واضح انداز میں دی ہے۔ اس لیے نمود ونمائش، شادیوں اور دیگر تقاریب اور گھروں اور دکانوں کو بالکل کفار کی طرح سجانے اور سنوارنے کی راہوں میں جو پیسہ پانی کی طرح بہایاجارہاہے، اس کو بند ہونا چاہیے اور اس کا صحیح اور مفید مصرف ہونا چاہیے۔ یہ عام اصلاحی موضوعات میں سے ایک اہم موضوع بھی ہے۔ یہ اصلاحی کوششیں اور اپیلیں اس لیے بے اثر ہوجاتی ہیں کہ قابل عمل اور اطمینان بخش تعلیمی اور ثقافتی منصوبے بطور بدل نہیں پیش کیے جاتے ہیں۔
باب سیاست
اس نازک باب کے بارے میں بغیر تفصیلات میں پڑے یہ عرض کروںگا کہ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے بذات خود ایک جگہ پر نبیﷺ کو مشورے کا حکم دیا ہے، جب کہ دوسری جگہ پر شوریٰ، مشاورت کومومنین کی اہم ترین حفاظت کے طورپر ذکر فرمایاہے، اس لیے سیاسی میدان میں شوریٰ ایک طے شدہ فارمولا ہوجاتا:
…َ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْن ﴿آل عمران: ۱۵۹﴾
’آپ ان کو معاف کردیں اور ان کے لیے استغفار کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کریں تو جب کسی بات پر آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو پسند فرماتاہے۔‘
میں نے ارادۃً عقد اور استغفار کو شاور سے پہلے نقل کیاہے، تاکہ یہ ثابت کیاجاسکے کہ ان سے غلطیوں سے درگزرکرنے اور ان کے لیے استغفار کرنے کے باوجود ان سے مشورے کا حکم، صیغہ امر میں دیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ غلطیوں اور کوتاہیوں کے صدور کے باوجود مشاورت ایک امر ربانی ہے۔ اس سے منہ موڑنا، کسی بھی تاویل اور توجیہ کی وجہ سے سرکشی اور نافرمانی کی دلیل ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے سرکش اور نافرمان بننے سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔
وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون ﴿الشوریٰ:۳۸﴾
’اور ان کاطریقۂ حکم / نظام حکم ان کے درمیان مشورے پر مبنی ہے اور وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے ان کو بطور رزق عنایت کیاہے۔‘
خیال رہے کہ اس سے پہلے اسی سورت کی آیت ۳۹کے آخر میں اس کی صفت ایمان توکل علی اللہ کاذکر فرمایا۔ پھر آیت ۳۷ میں فرمایاکہ وہ کبائر سے اجتناب کرتے ہیں اور فواحش سے بھی اور جب وہ غضبناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں۔ آیت ۸۳ کی ابتدائ میں فرمایاکہ وہ اللہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے بعد ان کے سیاسی نظام کے بارے میں فرمایاکہ وہ شوریٰ پر مبنی ہوتاہے۔ اتنے پر ہی خاموشی اختیار نہیں کی ، بل کہ فرمایاکہ جب ان پر بحیثیت مسلمان زیادتی کی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب جمع کے صیغے ہیں۔ یہ جماعت المسلمین کے بارے میں نازل کردہ آیات ہیں۔ یہاں کسی بھی فرد کا بحیثیت فرد ذکر اور اشارہ تک نہیں ہے۔ اس لیے اس میں مجموعۂ مسلمین میں مشاورت اور غوروفکر کی صفت کاپایاجانا ان صفات سے متصف ہونے کے لیے ازحدضروری ہے۔
یہ تو نظامِ حکم کی بات ہوئی جو ایک بڑی اور اہم بات ہے۔ یہ اسلام وہ ہے جس میں طلاق سے جدا ہونے والے شوہر اور بیوی سے یہ تک کہاجارہاہے کہ اگر وہ ﴿ماں باپ﴾ دو برس کے اندر ہی اپنی رضا اور مشورہ سے دودھ چھڑالیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے:
فَاِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا
﴿البقرہ: ۲۳۳﴾
’پھر اگر ماں باپ چاہیں کہ دودھ چھڑالیں یعنی دو برس کے اندر ہی، اپنی رضا اور مشورے سے تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔‘
اس سے پتا چلتاہے کہ خلافت حق، عدل و انصاف پر مبنی حکومت کو کہتے ہیں جس میں سب سے پہلے حاکم غاصب نہیں ہوتاہے جو تلوار کے بل بوتے پر یا وراثت کے پُل پر چل کر ، حکومت پر قبضہ جمالیتا ہے۔ بل کہ مسلمان سارے ہی مسلمان ہوتے ہیں۔ وہ سب مل کر آپس کے مشورے سے حکومت چلاتے ہیں اور جب ان پر کسی جانب سے، اندرونی یا بیرونی یا دونوں جانب سے زیادتی ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ﴿شوریٰ:۹۳﴾
بالفاظ دیگرسورۂ شوریٰ کی یہ مربوط آیات مبارکہ مسلمانوں میں چند خصوصیات اور حفات، اجتماعی طورپر دیکھنا اور پیدا کرناچاہتی ہیں۔ ان کا، اجتماعی سطح پر، اپنے معاشرے میں پیدا کرنا اور اجاگر کرنا ضروری ہے۔
یہ بھی توجہ طلب امر ہے کہ ایک پوری سورت کی سورت کا نام ’’الشوریٰ‘‘رکھاگیاہے۔ یہ بھی شوریٰ کی آیت اور ضرورت بل کہ وجوب کو ثابت کرنے کی ایک اہم دلیل ہے۔ یوں بھی آج کل علمِ جنین (Genetics)کے عام ہونے کے بعد وراثتی حکومتیں ایک ہی یا کم از کم مشابہہ جنین کی خصوصیات کی حاصل ہونے کی وجہ سے ایک خاص طرز اور ڈگر پر چلتی اور چلائی جاتی ہیں۔ اس لیے ان میں مناسب اوقات اور خطرناک تاریخی موڑوں پر تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ہے۔
یاد رکھیے انتخابی امور اور طریقۂ انتخاب یہ سب منصوص چیزیں نہیں ہیں۔ یہ انسانی تجربات اور ان کے نتائج سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے وقت ، مکان اور ضروریات کے لحاظ سے ان کو اختیار کیاجاسکتاہے، ان میں حسب ضرورت تبدیلیاں بھی لائی جاسکتی ہیں جو منتخب افراد اور نظام انتخاب دونوں کو مفید اور قابل عمل بنانے کی ضامت دار ثابت ہوسکتی ہیں۔
انتخاب کے ذریعے پٹریوں کے خلائ Generation Gapکو بھی خاص ترتیب سے پرکیا جاسکتا ہے کہ ایک نسل (Genration) کے بعد دوسری نسل بالکل فطری طورپر ذمے داری نبھالے اور زمانے کا ساتھ دیے ورنہ حکومت کی مشینری زنگ آلود ہوکر ٹھپ ہوجائے گی، خواہ وہ بظاہرکتنی ہی قوی نظر کیوں نہ آئیے۔ وہ کم زور اور بوسیدہ ہوکر کسی بڑے اندرونی یا بیرونی طوفان کاڈٹ کر مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔ ان حقائق کو تاریخی پس منظروں میں بڑی بڑی وراثتی حکومتوں کے زوال اور اسباب زوال میں تلاش کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام شورائی انتخابی نظام ہے، جس کو حالات اور ضروریات کے لحاظ سے بدلابھی جاسکتا ہے۔ اصل ہے شورائیت اور انتخاب۔
معیشت و مالیات
یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کانہایت اہم باب ہے، اس کی اہمیت کااندازہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس قول سے لگایاجاسکتا ہے ، جو کم عقلوں کو ان کے اموال کی ذمے داری سونپنے کے ضمن میں وارد ہواہے:
وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَہَآئ أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ قِیَاماً وَارْزُقُوہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوہُمْ وَقُولُواْ لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً ﴿النساء:۵﴾
’اور تم نہ حوالے کرو، تمھارے ان اموال کو، کم عقلوں کے، جن کو اللہ نے تمھاری زندگیوں کو قائم کرنے کا ذریعہ بنایاہے اور ان میں ان کو کھلاؤ پلاؤ اور ان کے لباس بناؤ اور ان سے اچھی اور معقول بات کرو۔‘
اس آیت میں ‘ان کے’ نابالغ کم عقل یتیموں کے اموال کو تمھارے ان کے، ان کے سرپرستوں کے اور سارے ہی معاشرے کے اموال قرار دیا۔ یہ بتانے کے لیے کہ وہ اپنی کم عقلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ان کو اگر برباد کردیں اور ان کا صحیح اور بارآور مصرف نہ کرسکیں تو یہ نہ صرف ان کا اپنا نقصان ہے، بل کہ اے سرپرستو! تمھارا بھی نقصان ہے اور تماممسلمانوں کا نقصان بھی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اموال پورے معاشرے کے ہوتے ہیں، اس لیے ان کی حفاظت اور ان کا صحیح اور ثمرآور استعمال ایک نہایت ضروری امر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کا کوئی شخص، خاندان یا مجموعۂ افراد اموال کو بے عقلی اور ناسمجھی کے کاموں میں صرف کرے تو ان کاہاتھ روکنا پورے معاشرے کی ذمے داری ہے۔ ورنہ سب کو ان کے بُرے اعمال کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اس کی بہترین مثال امریکی، یورپین، جاپانی، غرض ساری دنیا کے بینکوں اور سرمایہ کار کمپنیوں کا، ان کے ذمے داروں کے ذاتی مفادات کی خاطر، بغیر سوچے سمجھے اور قرض کاری کے سارے معیاروں کی بساط لپیٹ کر اندھا دھند قرض پر قرض دیناتھا۔ اس میں خود مرکزی اور سرکاری بینک بھی شامل تھے اور بحالت امریکا فیڈرل ریزرو FEDکے حکم اور علم سے یہ سب کچھ ہوا۔
اب کیا حال ہے؟ اٹلی کے زلزلے سے تباہ شدہ شہر میں منعقد آٹھ بڑوں کی کانفرنس کے ایجنڈے کا سب سے پہلا ایجنڈایہی عالمی معاشی بحران ہے، جس کے خاتمے کی نہ صرف کوئی امید نہیں ہے، بل کہ اس کے پھیلنے اور بڑھنے کے ‘روشن’ امکانات پائے جاتے ہیں جن پر ان آٹھ بڑوں(G-8)کا اتفاق بھی ہے۔
یہ ہے نتیجہ نادانوں، لالچ بھرے خود غرض چوروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھ نہ پکڑنے کا ، بل کہ ان کو مزید لوٹ مار مچانے میں مدد کرنے کا۔
اس لیے اس آیت کریمہ کو اس کے صحیح پس منظرمیں سمجھنے اور اس سے صحیح نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں مالی ،مادی زرعی،صنعتی اور تجارتی ذرائع و وسائل کا بہترین اور سوچا سمجھااستعمال ازخودشامل ہوجاتا ہے۔ یہ استعمال کرنے کا مسئلہ اس وقت اٹھے گاجب کہ پیداواری سرگرمیوں کے نتیجے میں دولت وثروت قومی سطح پر افراد ، خاندانوں اور مختلف طبقات کے ہاتھوں میں آئے۔ اس لیے سب سے پہلے دولت پیدا کرنے کے ذرائع اور وسائل زرعی دولت، صنعتی دولت اور تجارتی دولت اور دیگر وسائل سے دولت کی دیگر شکلیں اور صورتیں پیدا کرنا اور ان کا سوچے سمجھے منصوبہ بندی کے تحت صحیح استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ دولت و ثروت پیدا کرنا ہے اور اسی سلسلے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کام اور آمدنی کے ذرائع مہیا کرنا ہے۔
‘کام کے مواقع پیدا کرنا’ حکومت اور معاشرے کی سب سے بڑی ذمے داری ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ کام پر اقتصادی سیکٹر میں پیدا کرنا ادا کرتے ہی رہنا ازحد ضروری ہے۔ کیونکہ آبادی بھی مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔ یہ سوچ بچار اور منصوبہ بندی اجتماعی انداز میں مسلسل ہوتی رہنی چاہیے۔
آج کل کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مسلسل بڑھتی ہوئی قومی آمدنی کے ذریعے ہی پورا کیاجاسکتا ہے۔ یہ نئے نئے شہر اور گاؤں، یونیورسٹیاں، کالج، ہائی اسکول، پرائمری اسکول، کھیل کے میدان، ایئرپورٹس، اسٹڈیز، ہاسپٹلس، سڑکیں، باغات، پانی جمع کرنے اور تقسیم کرنے والے پراجکٹس، بجلی اور بڑے بڑے فوجی دفاعی پراجکٹس، یوں ہی اور ‘قرض پر’ پورے نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان کے لیے ہر مرد اور عورت کو۔ اس کے اپنے دائرۂ کار ، پیداوارانہ سرگرمیوں میں شریک ہونا پڑے گا۔ ورنہ فقروفاقہ ، جھلی اور مرض کا شکار ہوکر ‘مادی پہلو سے’ ترقی یافتہ قوموں کے پیچھے کاسہ لیسی کرتے رہناپڑے گا۔
اس سلسلے میں مسلمانوں کو اور ان میں سے بھی خصوصاً دین دار مردوں اور عورتوں کو ‘دنیا کمانے’ کے ‘گناہ’ کے عقیدے سے آزاد ہونا ناگزیر ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ‘دنیا کمانا’ کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر اس کا ہدف دنیاکے راستے سے اور دنیا میں رہتے ہوئے، آخرت میں سرخرو ہونا اور کامیاب ہونا ہو، مثلاً اگر کوئی مرد یا عورت حلال ذرائع سے حلال کمائی کماکر اور پورے توازن کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرتے ہوئے مال کو اس دین کے سربلندی کے کاموں میں لگادے تو اس سے بڑھ کر خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ ایک عجیب تصور عرصے سے جاگزیں ہوگیا ہے کہ دیندار آدمی دنیا نہیں کماتا ہے یا دنیا نہیں کماناچاہتاہے، اس لیے نہ تو دین ہی کو اور نہ دین کے لیے کام کرنے والوں کو مال واسباب کی کوئی ضرورت ہوتی ہے یا ضرورت ہونی چاہیے۔ ان تصورات سے نجات حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم بھی دیاہے اور مطالبہ بھی کیاہے۔یہ دونوں اسی وقت پورے کیے جاسکتے ہیں،جب انسان کمائے ۔کمائی اور خرچ پر اس لیے اتنازور دے رہاہوں کہ یہ تصور بھی عام ہوگیاہے کہ اسلامی ریاست ایک ایسی فلاحی ریاست ہوگی جس میں روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم اور صحت عامہ کے پورے انتظامات ہوںگے اور اس کے علی الرغم کسی قسم کے ٹیکس سوائے زکوٰۃ کے ادا نہیں کرنے ہوںگے۔
زکوٰۃ اور مصارف زکوٰۃ اور مستحقین زکوٰۃ کا۔ آٹھ مستحقین زکوٰۃ کا۔ ذکر التوبہ آیت نمبر ۰۸ میں آیاہے۔ یہ زکوٰۃ خواہ کم ہو یا زیادہ۔ ان آٹھ مدّات ہی میں صرف ہوگی۔ ان میںنہ تو عام انسانوں کے کھانے پینے علاج اور تعلیم کا کہیں ذکر ہے اور نہ کہیں یونیورسٹیوں اور ہاسپٹلس دفاعی اخراجات اور دیگر ضرورتوں پر مصارف کا بیان ہے۔ ان سب کے لیے آمدنی کہاں سے ہوگی؟ ظاہر بات ہے ٹیکسوں ہی سے ہوگی۔ وہ بھی ایسے ٹیکسوں سے جو موجودہ زمانے کے معاشروں اور ریاستوں کے اخراجات، وقتی اخراجات اور دور رس اخراجات پورا کرسکیں۔
یہاںمیں عصر حاضر کی ریاستوں اور معاشروں کے ‘خیالی رفاہی’ پروگراموں اور ان کے مہلک اخراجات اور نتائج کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں، جن کادکھڑا صدر اوباما نے ۴جولائی ۹۰۰۲ کی نشری تقریر میں جو اتفاقاً امریکا کی آزادی کے جشن کے دن سے ٹکراگئی، میں خوب رویا ہے۔ انھوںنے کہاکہ علاج کے لیے اخراجات سے پیداشدہ مسائل اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں کہ وہ پورے بجٹ کو ہڑپ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
دوسرا خطرناک پہلوبل کہ روایت ان معاشروں اور ریاستوں کا قومی قرضوں پر زندہ رہنے کی عادی ہے، جو ۳،۴ فیصد سود سے عوام سے قرض لے کر حاصل کیے جاتے ہیں۔ ان معاشروں اور ریاستوں کی ، ان کے شہریوں کی طرح ‘نہ ختم ہونے والی ضروریات اور خواہشات’ انھیں قومی قرض لینے پر مجبور کرتی ہیں اور یہ قرض ہمالیہ سے بھی اونچے ہوکر ان کی معیشتوں کو لے ڈوبنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ شاید لوگوں کو یہ معلوم کرکے سخت صدمہ اور زبردست تعجب ہوگاکہ ‘قرض کی حدمتعین کرنے والی’ ایجنسی نے برطانیہ کی معیشت کو تین (AAA) کے بجائے صرف دو (AA) عطا کیے ہیں اور وراننگ دی ہے کہ آئندہ چھ ماہ بعد شاید صرف ایک ہی ((Aدینا پڑے۔ ایک ((Aکا مطلب مفلس معیشت ہے۔امریکی معیشت کے بارے میں اس نے کہاہے کہ وہ تین (AAA)سے دو (AA) پر اترنے کے لیے پر تول رہی ہے۔اس لیے اسلامی معیشت اور اسلامی مالی نظام کے ذمے داروں کو حالیہ سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ معیشتوں کے ایسے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہونا ازحد ضروری ہے، جو ان کو لے ڈوبنے کا سبب نے ہیں۔
ان دونوں نظاموں کے ناکام ہونے سے سب سے بڑا اور اہم نتیجہ جس تک میں پہنچ سکاہوں، یہ ہے کہ جب کوئی بھی نظام عوام کے ہاں، عوام کے ﴿نہ کہ خواص کے﴾ روزمرّہ کے معاشی مسائل حل کرنے سے عاجز آجاتاہے تو پھر اس نظام کی موت کا خود بخود اعلان ہوجاتاہے۔ بعض وقت یہ اعلان حالات کے ناقابل برداشت دباؤ کے تحت اس نظام کے ذمے داروں کو خود اپنی زبانوں سے کرنا پڑتا ہے، جیساکہ سوویت یونین اور سرخ چین کے بارے میں ہوا اور بعض وقت یہ اعلان اس لیے نہیں کیاجاتاہے کہ دور بہت دور امید کی کوئی کرن نظرنہیں آتی ہے جیساکہ امریکی، یورپین اور جاپانی اور چینی سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں آج ہورہاہے۔
ایک اور بات میں اسلامی معاشی اور مالی نظام کے بارے میں غوروفکر کرنے والوں سے عرض کرناچاہتاہوں اور وہ یہ ہے کہ وہ آج کے پیچیدہ در پیچیدہ حالات میں پرانے زمانے کے تصورات مثلاً مرابحہ، مشارکۃ، مضاربۃ وغیرہ کی پیوند کاری، کانٹ چھانٹ کر اور پورا زور لگاکر نئے حالات میں ان کو فِٹ کرنے کی ناکام کوششوں سے بازآئیں۔
اسلامی نظام معیشت کی رو سے حرام، مکروہ اور مشکوک فیہ امور کی لسٹ بنائی جائے تو وہ بمشکل ۰۳،۰۴ اشیا او رتصورات سے زیادہ ہرگز نہیں ہیں۔ ان کو چھوڑکر باقی ہزاروں بل کہ لاتعداد ایسی چیزیں اور تصورات اور نظریات ہیں جو صد فیصد حلال ہیں، ان کو ملاکر نئے نئے تصورات اور نظام بنائے جانے چاہییں۔ ان کے تجربات بھی کیے جانے چاہییں۔ ضروری ہے کہ ان کے ہر جز کے حلال ہونے کا ہر طرح اطمینان کرلیاجائے۔ اگر ان میں اتنی فکری اپج اور، ہمت اور بلندی نہیں ہے تو انھیں خاموشی اختیارکرلینی چاہیے۔ کیونکہ ادھ کچے پیوندی تصورات جب ایک کے بعد دوسرے ناکام ہوتے جاتے ہیں تو ہمتیں بھی توڑتے جاتے ہیں۔ انھیں ایسی خام خیالانہ جرأتیں کرکے ایک پوری امت کی ناکامی میں حصہ لینے سے خوف کھانا چاہیے۔ بالفاظ دیگر ان جیسے سارے سیاسی، مالی، معاشی، اجتماعی، عسکری اور بین الاقوامی تعلقات کے نظاموں کی تعمیر جدید، اسلامی بنیادوں پر تعمیر جدید، کے لیے ایسے لاتعداد مجتہدین مطلق کی اشد ضرورت ہے جو اسلام کے ایک زندہ اور متحرک نظامِ حیات ہونے پر نہ صرف غیرمتزلزل ایمان رکھتے ہوں بل کہ ان کی نظریں اس نظامِ کامل و شامل کے سارے ہی نظاموں اور پہلوؤں پر گہری اورمجتہدانہ ہوں کہ وہ مقاصد شریعت کے بدلتے ہوئے حدود کو علم یقین کی حد تک جان کر اور ان کی تجدید و تعین کرکے یہ کہہ سکیں کہ مثلاً اجتماعی نظام کے بھی اور بے روزگاری کے پہلوؤں پر اتنا ہی خرچ کیاجاسکتا ہے اور اس خرچ کی روشنی میں اتنی ہی اور فلاں فلاں سہولتیں ہی مہیا کی جاسکتی ہیں اور اگر اس سے زیادہ اخراجات کیے گئے تو پھر معاشی اور مالی نظام میں یہ خلل اور وہ عدم توازن پیداہوگا، جو آگے چل کر دفاعی اور بین الاقوامی تعلقات کے ان ان پہلوؤں پر اس طرح اثرانداز ہوگا اور جس کے نتیجے میں سیاسی پوزیشن کچھ اس طرح متاثر ہوگی۔
آج مغرب پورے طمطراق کے ساتھ اس لیے پراگندہ اور پریشان ہورہاہے کہ سود کی بنیادپر افراد ، مؤسسات اور حکومتوں کو قرض پر زندہ رہنے کی جو چاٹ پڑگئی تھی وہ عراق، افغانستان، ایران، صومالیہ وغیرہ کی اعلان کردہ اور پوشیدہ جیساکہ وادی سورت، وزیرستان اور صوبہ سرحد کی غیراعلان کردہ جنگوں کے بے شمار اخراجات سے قریب خاتمہ ہے۔ اب افلاس کی بھٹی سے یہ بہت ہی قریب ہیں جس میں ان کو جلنا ہے اور وہ یہ بھٹی ہے جس میں انھوں نے دنیا کو چھ سو، سات سو سالوں سے مسلسل جلایاہے۔
سارا مغرب جس میں اب بدقسمت روس اور بدبخت چین بھی جاپان کے ساتھ شامل محض اس لیے ہے کہ کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام حیات کی ناکامی کے بعد ان کے سامنے کوئی تیسرا نظام حیات یا تیسرا راستہ ، اسلامی راستہ نہیں ہے۔ وہ مجبوراً اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کا ساتھ دیںگے، جب تک کہ اسلامی نظام کا سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ لاتعداد مجتہدین مطلق کے جلو میں طلوع نہ ہوگا۔ پھر یہ لاتعداد مجتہدین مطلق اپنی عقابی نظروںاور فولادی عزم سے ان کو صراط مستقیم کی برکتوں سے آشنا کریںگے۔ اس عرصے میں انسانیت کو کرب و اضطراب اور قتل و غارت گری اور بے چینی اور بدامنی کی بڑی بھاری قیمت ادا کرتے رہنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بھٹکی ہوئی انسانیت پر رحم و کرم فرمائے اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کے ہراول دستوں کو مشرق و مغرب اور شمال اور جنوب میں کامیابیوں سے سرفراز کرکے عالمی اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرے۔
عسکریت و بین الاقوامی تعلقات
یہ میدان بل کہ میادین انسانی زندگی کے نازک ترین پہلوؤں سے تعلق رکھتا/ رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اندرون یا بیرونِ ملک دشمنانِ اسلام اور مخالفین اسلام اور افراد، جماعت، حکومتوں اور معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعلقات دوستانہ، غیرجانب دارانہ، پابندی معاہدات سے لے کر جنگ و جدل تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ ان سب میں اسلام کی ‘مسلمانوں کی اور اسلامی ریاست اور معاشرے کی قریبی اور دور رس مصلحتوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا اسلامی ریاست کے ذمے داروں ،کارکنوں اور کارندوں کا سب سے اہم فریضہ ہے۔
اس سلسلے میں قرآن مجید کی صرف ایک ہی آیت ہماری رہ نمائی کے لیے کافی ہے۔ وہ یہ ہے:
‘اور تیار کرو تم اتنی قوۃ جس کی تم میں استطاعت ہے اور گھوڑوں کے اصطبل ﴿فوجی چھاؤنیاں جن میں تیز رفتار تربیت یافتہ گھوڑے باندھے جاتے ہیں﴾ جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور ﴿خود﴾ تمھارے دشمن کو ڈراسکو اور ان دوسروں کو بھی، ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے مگر اللہ ان کو جانتاہے اور جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کا تمھیں پورا بدلہ چکایاجائے گا اور تمھارے حق میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔’
یہ آیت اسلامی ریاست کی فوجی پالیسی کا سنگ بنیاد ہے کہ اس کے پاس ﴿اس کی عددی ﴿آبادی﴾ اور مالی ﴿مادی﴾ استطاعت کے لحاظ سے جتنی بھی قوت، ذاتی قوت مہیا کرسکتی ہے تو اسے مہیا کرنا ہی چاہیے اور اگر پھر بھی یہ قوت ناکافی ہو تو اپنے دوست ملکوں سے مل کر اس قوت کو اکٹھا کرنا لازمی ہے۔
یہاں لفظ ‘قوت’ نکیرۃ ،قوۃٍ آیاہے۔ جو غیرمحدودیت پر دلالت کرتاہے۔ اس لیے ہر قسم کی مادی طاقت اور قوت اپنے اپنے زمانوں اور حالات کے لحاظ سے تیار کی جانی چاہیے۔ اس کی مقدار اس طرح معین فرمائی کہ اس کے ذریعے جانے اور ان جانے، اندرونی اور بیرونی، قریب کے اور دور کے سارے دشمنوں پر ایک قسم کا خوف، دبدبہ اور رعب چھائے کہ اگر صرف دور یا قریب سے چھیڑبھی لیاتو چھ پیسے دینے پڑیںگے۔
یہ یورپ، امریکا اور ان کے چھوٹے بڑے خلفا کا سفید جھوٹ نہیں ہے کہ سارا یورپ، پورا امریکا وغیرہ عراق اور افغانستان پر اپنی پوری مادی اور معنوی قوتوں کے ساتھ ٹوٹ پڑے ہیں اور مسلسل ۸ سال سے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ نیویارک میں ۲۵۰۰ یا ۳۵۰۰ اشخاص نائن الیون میں مارے گئے تھے اور لندن کے انڈرگراؤنڈ ﴿ٹیوب﴾ میں ۱۰۰ یا ۵۰ آدمی مرے تھے۔
اندازہ لگائیے کہ نومبر ۲۰۰۱ سے لے کر آج تک افغانستان، عراق اور پاکستان میں ایک ڈیڑھ کروڑ سے کم لوگ قتل نہیں ہوئے ہیں۔ اور ۷،۸ کروڑ سے کم زخمی نہیں ہوئے ہیں اور ۱۵،۲۰ کروڑ سے کم بے گھر نہیں ہوئے ہیں ﴿اس میں صومالی کونہ بھولیے﴾ مگر کل مسٹر امن پسند اوباما اسکائی ٹی وی کو بیان دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم اور برطانیہ ﴿اور دوسرے ناٹو کے ارکان﴾ افغانستان اور پاکستان کو القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہ Safe Heavenہرگز بننے نہیں دیں گے اور وہاں اور دیگر ملکوں میں جنگ جاری رکھیں گے۔ تاکہ نیویارک اور لندن کے حادثات دوبارہ وقوع پذیر نہ ہوسکیں۔ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ نہ صرف پچھلا حساب بھی چکایاجارہاہے بل کہ اگلے حسابات بھی انھی سے وقوع پذیر ہونے اور واجب الادا ہونے سے پہلے ہی چکالیے جارہے ہیں۔ اسلام ایسی جھوٹ اور دھاندلی اور مکرو فریب کو روانہیں رکھتاہے۔ اسلام کے ہاں جنگ جیسے ناقابل کنٹرول حالات میں بھی ہمیشہ اور ہر حال میں عدل وانصاف بل کہ ہوسکے تو معافی کا حکم سخن کے ساتھ دیاگیا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات
ان کااور فوجی ،اقتصادی اور مالی قوتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لیے کسی قوم اور ریاست اور معاشرے کے بین الاقوامی تعلقات کاانحصار اور ان کی نوعیت اس ریاست اور معاشرے کی فوجی کالی، اقتصادی، اخلاقی قوت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے دیکھاجائے تو اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کو ہرمعنی ہر طرح اور ہر پہلو سے خیرامت کے مصداق ہونا چاہیے۔ عقائد، اخلاق، عادات اور تقالید میں خیرامت، مالی اور اقتصادی میدان میں خیرامت، اجتماعی اعتبار سے خیرامت، فوجی اور عسکری لحاظ سے خیرامت، لین دین اور تجارتی معاملات میں خیرامت، تعلیمی، صنعتی اور زرعی میدانوں میں خیرامت۔
دوسرے الفاظ میں اسے یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ اس ریاست اور معاشرے کو خیرامت کا معاشرہ اور ریاست بن کر انسانیت کے ہر میدان ، فکر وعمل اور ہر پہلو سے انسانیت کا ہراول دستہ اور رہ نما ریاست اور معاشرہ بننا ہے۔ اسے یوں بھی ادا کیاجاسکتاہے کہ جو امت ہر میدان حیات میں پست اور پیچھے ہو اسے خیرامت کہلانے کاحق حاصل نہیں ہوتاہے۔
جب یہ امت واقعۃً خیرامت بن جائے تو دوسرے معاشرے، حکومتیں، افراد اورجماعت سے تعلقات قائم کرنے اور اس کے خیرعام سے مستفید ہونے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔ اس وجہ سے دنیا دوستوں اور خیرطلبوں اور دشمنوں اور شر طلبوں میں بٹ جائے گی اور پھراس امت کو اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو اپنی ڈپلومیٹک قوتوں کے ساتھ، دوستوں اور دشمنوں سے ایک لمبی مدت کے لیے نمٹناپڑے گا۔ اس میں ہر قسم کے ذرائع و وسائل اور ہتھیار استعمال کرنے پڑیں گے۔ اس میں کامرانی اسی وقت حاصل ہوگی جب یہ امت اپنے دوستوں کو ایک جھنڈے کے نیچے اور ایک ہدف کے اوپر جمع کرکے خود حکیمانہ اور عادلانہ اور جرأتمندانہ قیادت کا نمونہ اور ثبوت پیش کرے گی۔
یاد رکھیے اندلس سے لے کر آج تک مسلمانوں کی شکست اور غلامی کا سبب آپس کا اختلاف ہے بل کہ اپنے بھائی کے مقابلے میں اپنے دشمن کا ہر طرح ساتھ دینا ہے، جب کہ مغرب ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہوکر لڑاہے۔ یہاں تک کہ وہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم اور ناٹووغیرہ کے جھنڈوں تلے آج بھی افغانستان، عراق اور فلسطین اور صومال کو مسلسل لڑرہاہے۔
تاریخ یہ درس ہمیشہ یاد رکھے گی کہ مغرب نے ۴۱۹۱ کے بعد سے ہمیشہ امریکی قیادت کو دل و جان سے قبول کیااور اس کی کمانڈ میں آج تک ناٹو کے نام پر لڑتے رہے ہیں۔ یہی ان کی کامیابی اور لمبی مدت تک بقاء کا راز ہے۔
مسلمانوں کو اس سے اور ان کی دوسری مفید اور مثبت پالیسیوں سے درس لینا چاہیے۔ کیونکہ ہرحکیمانہ بات مومن کی متاع گم گشتہ ہے۔ اسے ڈھونڈنا اور حاصل کرنا ان کا فریضہ ہے کیونکہ وہ اس سے استفادہ کرنے کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
خاتمۂ کلام
ان صفحات کو میں نے مقاصد شریعت کی تعریف، اس کی ضرورت اور اس کی تشریح میں سیاہ کیے ہیں۔ یہ آخری اور حتمی باتیں نہیں ہیں۔ ان میں بہت سے عیوب اور خامیاں ہوںگی۔ اب مسلمان مفکرین کا کام ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس کو یا تو یک لخت رد کردیں یا پھر اس کی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرکے اس کو زیادہ سے زیادہ مفید اور کارآمد بنائیں۔ بہرحال اور بہرصورت ان کو اس میں حصہ لینا ہے تاکہ اس امت کو خیرامت بنانے میں ان کا بھی ہاتھ رہے اور ان کی یہ جدوجہد آخرت میں ان کی مغفرت کا سبب بنے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2011