جز وقتی مکاتب میں قرآن و دینیات کی تعلیم

صورت حال، مسائل اور حل

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ ﴿سورہ قمر، آیت: ۷۱﴾

’’ہم نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے آسان کردیا، پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔‘‘

خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعلَّمَہ‘۔﴿حدیث﴾

’’تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘

یہ اور اس طرح کے قرآن اور حدیث کے بیشتر ارشادات ہیںجنھوںنے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم کی طرف راغب رکھا۔ اس کے علاوہ مسلم معاشرے میں قرآن کی تعلیم کا رواج بھی ایک تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ قرآن کو حفظ کرنا اور قرآن کے معانی اور مفہوم پر غور کرنا، یہ مسلم معاشرے کاامتیازی وصف رہاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِمبارک سے لے کر مسلمانوں کے دورِ عروج کے زمانے تک قرآن سے شغف اور قرآنی علوم پر غورو فکر اور قرآنی فکر کی نشرو اشاعت مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہاہے۔ دورِ زوال میں بھی قرآن سے یہ تعلق برابر قائم رہا۔ ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے مسلمانوں کے دورِ حکومت میں مدارس کاایک شاندار سلسلہ قائم رہا جو قرآنی و دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ دیگر ضروریات کو پورا کرتے رہے۔ اس ملک میں انگریزوں کی آمد کے بعد منصوبہ بند طریقے سے مدارس کے اس نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی آمدنی کے ذرائع مسدود کیے گئے تاآنکہ مدارس آہستہ آہستہ دم توڑنے لگے۔

ملت اسلامیہ ہند نے ان ناگفتہ بہ حالات میں اپنے خون جگر سے ان اداروں کو سینچا۔ اپنی زکوٰۃ و صدقات کابہترین مصرف ان کو سمجھا اور ان اداروں کی مالی سرپرستی کرتے رہے۔ ملک کی آزادی کے ساتھ ہی متوازی طورپر ملک میں ایک سیکولر تعلیمی نظام جاری ہوا اور آہستہ آہستہ اس کا ایک وسیع نیٹ ورک ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ نجی اداروں نے بھی اس میدان میں قدم رکھا اور اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے پرائیویٹ ادارے قائم کیے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کابھی ایک مضبوط نیٹ ورک اس وقت ملک میں قائم ہے۔ مسلم ملت نے بھی اپنے خانگی ادارے قائم کیے اور اس طرح اپنی زبان اور کلچر کے تحفظ کی کوشش کی۔ لیکن یہ ادارے تعداد میں ناکافی اور معیار تعلیم کے لحاظ سے کم تر ہونے کی وجہ سے سارے مسلمان بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا نہ کرسکے۔ اس لیے مسلم ملت غیرمسلم خانگی اداروں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے مجبور ہوئی۔ اب ملت کی بہت بڑی تعداد ان تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہورہی ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے اورپرائیویٹ تعلیمی ادارے مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کی ضرورت کو کسی صورت مکمل نہیں کرسکتے، بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ازخود جو تعلیمی ادارے قائم کیے ان میں دینی تعلیم کاکوئی مؤثر اور معقول انتظام نہیں کیاجاسکا۔ کہیں کہیں برائے نام دینیات یا اسلامیات کے نام پر ایک مضمون شامل کردیاگیا، جس کوبے دلی کے ساتھ اساتذہ پڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمان بچوں کو ابتدائی دینی معلومات بھی خاطر خواہ حاصل نہیں ہوپاتی۔ بیشتر مسلم تعلیمی اداروں ﴿اسکولوں﴾ نے قرآن کو سرے سے شامل نصاب ہی نہیں رکھا۔ ان کا یہ مفروضہ ہے کہ قرآن ناظرہ کی تعلیم مساجد اور گھروں میں حاصل ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جزوقتی مسجد میں پڑھنے والے بچوں اور اسکولوں میں پڑھنے والے مسلم بچوں کی تعداد میں کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ مسلم اسکولوں میں پڑھنے کے باوجودمسلمان بچے قرآن کی تعلیم سے محروم ہیں۔ ریاست آندھرا پردیش کے مسلمانوں کے فروغ کے لیے کوشاں ایک ذمّے دار کے یہ احساسات صورتِ حال کو سمجھنے میں مددگار ہوں گے:

’’حیدرآباد کے ۹۰ فیصد انگریزی میڈیم کے اسکول میں پڑھنے والے مسلم بچے قرآن کی تعلیم سے محروم ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ مہاراشٹر ممبئی کے ایک تعلیمی ادارے نے ہائی اسکول کی سطح پر مسلم بچوں کی دینی معلومات کاجائزہ لے کر اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ جدید علوم اور معلومات کے سلسلے میں ان کے نمبر امتیازی تھے اور اسلامیات کی بنیادی معلومات کے سلسلے میں انھوں نے ۹۱ فیصد مارکس حاصل کیے۔

راقم الحروف کو اکثر مسلم اساتذہ کے ٹیچرس ٹریننگ پروگراموں میں حصہ لینے کا موقع ملتارہتا ہے۔ جب ان اساتذہ کی دینی معلومات کاجائزہ گیاتو یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آئی کہ ان اساتذہ کی قابل لحاظ تعداد قرآن ناظرہ پڑھنے پر قادر نہیں ہے۔ بیشتر اساتدہ کو نماز کے صحیح اذکار بھی یاد نہیں ہیں۔ ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل بالخضوص اساتذہ کی یہ صورت حال نہ صرف المناک بلکہ ان کے سایے میں پرورش پانے والے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے تشویش ناک انجام کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ اترپردیش فلاح عام سوسائٹی لکھنؤ ہرسال اساتذہ کی فنّی تربیت کے لیے ٹیچر ٹریننگ پروگرام کااہتمام کرتی ہے۔ مسلم اساتذہ کی اس صورت حال کے پیش نظر انھوںنے اپنے تربیتی پروگرام میں اذکار نمازکی صحت اور قرآن صحیح پڑھنے کے پروگرام کو شامل کیاہے۔

سچر کمیٹی کا ایک اہم سچ

سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ ایک اہم انکشاف بھی کیاہے کہ مسلمانوں میں مدرسہ جانے والے بچوں کی تعداد محض ۴ فیصد ہے اور باقی قابل تعلیم بچوں کی کثیرتعداد عام اسکولوں میں تعلیم پاتی ہے۔ عام اسکولوںکا دینی تعلیم کے تئیں کیا رویہ ہے اس کاتذکرہ اوپر کی سطور میں آچکاہے۔

جزوقتی دینی مکاتب

جن مسلم بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اسکولوں میں نہیں ہوپارہی ہے، ان کے لیے ملت کے بہی خواہوں نے جوحل دریافت کیاہے، وہ یہ ہے کہ ان اسکولوں میں جانے والے بچوں کے لیے مساجدمیں صباحی و شبینہ جزوقتی مکاتب قائم کیے جائیں۔ بلاشبہ یہ ایک مناسب متبادل ہے۔

جزوقتی مکاتب کی صورت حال

یہ مکاتب تعداد میں بہت کم ہیں۔ ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد بھی کم ہے۔ بچوں کی تعداد کی کمی کے سبب اساتذہ کی تعداد بھی کم ہے۔ اکثر جزوقتی مکاتب میں یہ دیکھاگیاہے کہ ایک ہی استاد ہے اور اس کے سامنے مختلف سطحوں کے بچے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ قرآن کے مختلف مرحلوں میں پڑھنے والے بچے بھی ہیں اور حروف شناسی اور اس کے بعد کے مرحلے کے بچے بھی اسی استاد کے سامنے زانوے تلمذتہہ کررہے ہیں۔ ان حالات میں اُستاد اجتماعی طورپر تعلیم دینے سے قاصر ہے۔ وہ ایک ایک بچے کو تعلیم دیتاہے، گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی تعلیم اور جب وہ انفرادی طورپر دی جائے تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک طالب علم کے حصے میں کتنا وقت آتاہوگااور قرآن پڑھنے کی کتنی استعداد اُس میں پیداہوتی ہوگی۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ ایسے مکاتب میں سالوں بچے پڑھتے ہیں اور ان کے اندر رواں قرآن پڑھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوپاتی اور قرآن مجید کی اسی ناقص پڑھائی کے ساتھ وہ مدرسوں سے باہر آجاتے ہیں۔ اس کے بعد کم ہی اس بات کاموقع ملتاہے کہ وہ قرآن کو صحیح طور پر پڑھنے کے قابل ہوسکیں۔ لہٰذا وہ ناقص طریقے سے ہی تلاوت قرآن مجید آخر عمر تک کرتے رہتے ہیں او ر اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کو یہ احساس بھی نہیں ہوپاتاکہ وہ اللہ کی کتاب کو صحیح طورپر پڑھ بھی نہیں سکتے۔

قرآن فہمی کا کوئی سوال ہی نہیں

ناظرہ خوانی کے اس پورے مرحلے میں قرآن کو سمجھنے سمجھانے کاکوئی موقع نہیں آتا۔ نہ ہی استاد اس کی کوئی ضرورت سمجھتاہے کہ کم ازکم بڑی عمر کے بچوں کو ہی وہ یہ بتادے کہ یہ سورت مکی ہے اور یہ مدنی ہے۔ انبیائ علیہم السلام کے نام متعدد بار قرآن مجید میں جابجا آتے ہیں، لیکن اُستاد اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ان کے موٹے موٹے واقعات اور قصص بچوں کو سنادے۔ نماز، روزہ اور دیگر موٹے موٹے احکام کی تشریح تو دور کی بات ہے۔اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ بچوں کے ذہنوں میں بڑی عمر میں بھی کبھی یہ سوال پیدا نہیں ہوتاکہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، یہ ہماری زندگی کادستور العمل ہے اور ہمیں اس کے معانی و مطالب کو سمجھناچاہیے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ کتاب ہدایت جس میں سارے انسانوں کے لیے رہنمائی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام کے ساتھ نازل فرمایاہے،جس رات کو نازل فرمایا اس کو ہزار مہینوں سے بڑھ کر قرار دیا اور جس مہینے میں نازل فرمایا، اس کے پورے ماہ میں روزے فرض کیے، تاکہ اس ہدایت الٰہی کاشکریہ ادا کیاجاسکے اور اس کی بڑائی بیان کی جاسکے۔ لیکن ہمارے اس رویے کی وجہ سے سمجھانے اور اس کتاب سے ہدایت حاصل کرنے کے معاملے میں ملت کے حصّے میں محرومی ہی آتی ہے۔

انقلابی تبدیلی کی ضرورت

ان حالات میں اس بات کی شدّت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ جزوقتی مکاتب کے اس پورے نظام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے۔ یہاں دی جانے والی تعلیم کے اثرات کاجائزہ لیاجائے اور اصلاح حال کا ایک جامع اور وسیع منصوبہ بنایاجائے۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی جزوقتی مکاتب کے اساتذہ کی تربیت کے ایک پروگرام کو بروئے کار لایاجائے، جس میں قرآنی تعلیم کے تئیں اِس روایتی انداز کو بدلاجائے۔ اجتماعی طریقے سے قرآنی تعلیم کی تربیت دی جائے۔ اس بات کی بھی تربیت دی جائے کہ وہ معصوم ذہنوں میں بچپن ہی سے اس بات کو راسخ کریں کہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور بتدریج اِن بچوں کے سن و سال کے لحاظ سے قرآنی واقعات اور قرآنی احکام ان کے ذہن نشیں کیے جائیں۔ قرآن مجید کے آخری پارے کی بیشتر سورتیں بلکہ مکمل پارہ ان کو بامعنی یاد کرایاجائے۔ تاکہ نماز میں بار بار پڑھی جانے والی ان سورتوں کے معانی ومطالب بچوں کے ذہن نشیں ہوجائیں اور بڑی عمرمیں پڑھی جانے والی نمازوں میں خشوع پیداہو۔ ان اساتذہ کو تعلیم کے جدید طریقوں کی واقفیت دی جائے، بچوں کی نفسیات سے واقف کرایاجائے تاکہ وہ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق تعلیم و تربیت کاکام انجام دے سکیں اور مکاتب کانظام تعلیم و تربیت بھی پرُکشش اور دلچسپ بن سکے اور ان مکاتب میں بچوں کا رجوع بڑھ سکے اور وہ ذوق و شوق کے ساتھ ان میں شریک ہوسکیں اور قرآنی تعلیم اور دینیات کی تعلیم سے صحیح طورپر فیض یاب ہوسکیں۔

جزوقتی مکاتب کے اساتذہ کایہ کیمپ زیادہ سے زیادہ دنوں پر مشتمل ہوسکتاہے، جس میں انھیں مذکورہ بالا چیزوں کے علاوہ دینیات اور قرآن کی تعلیم کے نمونے کے اسباق، انتظام مدرسہ، کلاسوں کی مناسب درجہ بندی، جزوقتی مکاتب کے انتظامی و دیگر مسائل، سرپرستوںکی حصے داری، مکاتب کے طلبا کے لیے ہم نصابی سرگرمیاں، مکاتب کے طلبا کی حاضری کے مسائل وغیرہ امور و معاملات پر رہ نمائی کی جاسکتی ہے۔ ان تمام امور کو سامنے رکھ کر شعبۂ تعلیم مرکز جماعت اسلامی ہند نے ماہرین کے مشورے سے مکاتب کے اساتذہ کے لیے پندرہ روزہ تربیتی پروگرام تیار کیاہے، جو اس مقالے کے ساتھ منسلک ہے۔

صورت حال کی اس سنگینی کا تقاضاہے کہ جزوقتی مکاتب کے اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ:

1)    جزوقتی مکاتب کے سلسلے کو وسیع کیاجائے۔

2)    ان امور و معاملات میں ملت کے ارباب حل و عقد دلچسپی لیں۔

3)    جزوقتی مکاتب کے اس پورے نظام کو ملت کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے ایک وسیع نیٹ ورک کے طورپر قائم کیاجائے تاکہ ملت کاکوئی بچہ ابتدائی دینی تعلیم وتربیت سے محروم نہ ہو۔

4)    جزوقتی مکاتب کے لیے دینی تعلیم و تربیت اور قرآن پڑھنے کاایک جامع نصاب ہو۔

5)    جزوقتی مکاتب کے پورے نظام کو بچے کے لیے پُرکشش اور دلچسپ بنایاجائے تاکہ ان میں بچوں کارجوع بڑھے اور سرپرست بھی ا س کی اہمیت کو محسوس کرسکیں۔

6)    مدارس کے فارغین اور وہ دین دار جو جدید تعلیم یافتہ ہیں، لیکن بچوں کی دینی تعلیم و تربیت سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اس سلسلے میں پیش قدمی دکھائیں اور اس نظام کو مؤثر بنانے میں دلچسپی لیں۔

جزوقتی مکاتب کے معلمین کے ٹریننگ پروگرام کے مقاصد

  1. a.جزوقتی مکاتب کے معلمین کو اس طرح تربیت دیناکہ وہ اپنی تدریس کو مؤثر بناسکیں۔

2)    جزوقتی مکاتب کے معلمین کو اصول اور طریقہ ہائے تدریس سے واقف کرنا۔

3)    جزوقتی مکاتب کے معلمین کو تدریس اسلامیات کے مقاصد سے واقف کرنا اساتذہ میں دینی تعلیم اور جزوقتی مکاتب کی ضرورت و اہمیت کو راسخ کرنا۔

4)    اساتذہ کو بچوں کی نفسیات کاعلم دیناتاکہ وہ بچوں کی ذہنی وجسمانی کیفیت و صلاحیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ مناسب رویہ اختیارکرسکیں۔ نیز ان میں طلبہ کے تئیں مشفقانہ رویہ اور ہمدردانہ رویہ پیداہو۔

5)    اساتذہ کواسلامی تعلیم کی تاریخ (History of Islamic Education) سے واقف کرنا۔

6)    اساتذہ میں صلاحیت پیداکرنا کہ تعلیم کے مختلف نظریات و تصورات کو وہ اسلامی نظریۂ تعلیم سے تقابل کرنے کے قابل ہوجائیں۔

7)    اساتذہ میں اپنے مضمون کے تئیں مہارت ، دلچسپی کے مضامین ﴿ناظرہ قرآن، تجوید، دینیات، عربی زبان،اردو ادب﴾ میں تخصص کرنے کارجحان پیداکرنا۔

8)    مبادیات ناظرہ، مبادیات عربی/مبادیات تجوید سے واقف کروانا۔

9)    اساتذہ کو طلبہ کی عمر اور اکتسابی صلاحیت کی بنیادپر درجہ بندی کرنے اور اس کے لحاظ سے موزوں ومناسب نصاب کی ترتیب و تشکیل دینے کے قابل بنانا۔

10)                       نصاب کے اہم مشتملات کی تفہیم کرانا اور تقسیم نصاب کے لیے میقاتی و سالانہ منصوبہ بندی سے متعلق ﴿عملی﴾ رہ نمائی کرنا۔

11)                       مکتب چلانے اور ان کے انتظامی امور کے تقاضوں سے اساتذہ کو واقف کرنا۔

12)                       معلمین کی فکری وفنّی لحاظ سے تربیت کرناتاکہ ان کی شخصیت کاارتقا ہو۔

13)                       جانچ کے طریقوں سے واقفیت تاکہ طلبہ کی ترقی کے مراحل و منازل طے کیے جاسکیں۔

14)                       ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کی نشوونما، ان کے اندر اظہار خیال کی صلاحیت پیداکرنا، ان کے اندر کاخوف دور کرنا، نشست و گفتگو کے آداب سے انھیں واقف کرانا اور انھیں نظم و ضبط کا پابند بنانا۔

15)                       طلبہ میں اچھی عادت و اطوارنماز کی پابندی اور طہارت ونظافت جیسی خوبیوں کوپروان چڑھانا۔

16)                       سرپرست حضرات،منتظمین اور دوسرے نمایاں افراد کاتعاون حاصل کرنا۔

پندرہ روزہ ٹریننگ- پروگرام کاخاکہ

درکار گھنٹہ

1)            جزوقتی مکاتب کی اہمیت وافادیت                                ۱

2)            موجودہ صورت حال اور مطلوبہ کردار                     ۱

3)            مدارسِ دینیہ کی مختصر تاریخ                            ۲

4)            مکاتب کے مسائل اور ان کا حل                         ۱

5)            مکاتب کے قیام و استحکام کے طریقے                      ۱

6)            مکاتب کے نصاب کی تفہیم                            ۲

7)            مکاتب کی ہم نصابی سرگرمیوں کی تفہیم                   ۱

8)            اسلامی نظریہ تعلیم ونظام تعلیم کاتعارف                   ۲

9)            عصری نظام تعلیم ، تعارف اور تجزیہ                      ۲

10)                               تعلیمی نفسیات کاتعارف، اہمیت اور استعمال                 ۱

11)                               بچوں کے نشوونما کے مراحل، بچپن، لڑکپن اور غفوان شباب    ۳

12)                               نظم و ضبط                                         ۱

13)                               سزا و انعام                                        ۱

14)                               توجہ و دلچسپی                                       ۱

  1. a.بچوں میں پسندیدہ عادات ڈلوانے اور
  2. b.ناپسندیدہ عادات ترک کروانے کی تدابیر       ۲

15)                               ترغیب وتحصریص (Motivation)                    ۱

16)                               حافظہ اور اس کے لوازمات                             ۱

17)                               جزوقتی مکاتب کے طلبہ کے مخصوص مسائل اور ان کا حل      ۲

طریقۂ تدریس

1)    ۱۹-     فن تدریس کاتعارف                                 ۱

2)    ۰۲-     تدریس کے عام اصول                               ۱

تدریس کے مختلف طریقے

1)            سوال وجواب کاطریقہ                                        ۱

2)            بیانیہ طریقہ                                       ۱

3)            عملی ومظاہراتی طریقہ                                        ۱

4)            حضورﷺ کا طریقہ تعلیم و تربیت                       ۱

5)            قرآن کاطریقہ تعلیم و تربیت                            ۱

6)            مائیکروٹیچنگ کی مختلف مہارتیں:تعارف ، مظاہرہ، عملی مشق    ۳

﴿تین مہارتیں سوال وجواب، بلیک بورڈ اور اسٹیج﴾

1)            حروف شناسی ومخارج، مرکب حروف-طریقۂ تعلیم           ۲

o       مرکب حروف                                     ۲

o       ناظرہ قرآن                                       ۲

o       تجوید کی تدریس                                    ۲

اسلامیات ﴿دینیات﴾ کی تدریس-نظری ومظاہراتی

–       عبادات: طہارت، وضو، تیمم، غسل وغیرہ- نظری وعملی     ۱+۱=۲

–       عقائد وسیرت                                      ۱+۱=۲

–       اذکارو دعائیں                                      ۱+۱=۲

v    –       کثیرالجماعتی تدریس                                  ۱+۱=۲

تنظیم مکتب

تنظیم مکتب، تعارف، اہمیت وضرورت                    ۱

مکتب کی کامیابی کے شرائط                             ۱

معلم اور اُس کی ذمّے داریاں                           ۱

معلم کے اوصاف                                   ۱

اُستاد اور شاگرد کاتعلق                               ۱

معلم کاعلمی، فکری اور فنّی ارتقا                          ۱

سرپرست اور معاشرے سے تعلق                       ۱

نصاب کی سالانہ منصوبہ بندی                           ۱

مکتب کا سالانہ لائحہ عمل ، اہمیت وضرورت و خاکہ             ۱

مکتبہ کا ضروری ریکارڈ و رجسٹراور اس کا اہتمام                         ۱

امتحان اور جانچ کے طریقے                            ۱

سوالیہ پرچے کی تیاری اور نمونہ                          ۱

مطالعہ ماحولیات- اہمیت و ضرورت اور تحفظ کا طریقہ         ۱

مشقی اسباق

حروف                                   ۲

۱-      ناظرہ

مرکب حروف                             ۲

۲-      تجوید                                            ۲

۳-     ناظرہ قرآن                                       ۲

۴-     اسلامیات                                         ۲

۵-      اردو، عربی زبان دانی                                ۲

۲۱

لائحہ عمل میں شامل سرگرمیاں

۱-      ماہانہ اجتماع                                        ۱

۲-      توسیعی لکچرس-ماہانہ                                 ۱

۳-     تعلیمی سیر

۴-     سالانہ مظاہرہ

۵-      جلسۂ تقسیم انعامات

افتتاحی جلسہ                                       ۲

اختتامی جلسہ                                       ۲

امتحان                                           ۱

کل گھنٹہ                                          ۴۸

روزانہ ۶پیریڈکے حساب سے ۱۵ دن میں اس کورس کو سیٹ کیاجائے۔

ادارے کے ششماہی تعلیمی معائنے کانظم ہوناچاہیے۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2010

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau