اللہ تعالیٰ نے انسان سے اپنی عبادت کا مطالبہ کیا تو اس کے لیے مواقع کا اہتمام بھی کردیا کہ کسی نہ کسی موقعے سے انسان فائدہ اٹھا لے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عبدیت کا اظہار کرکے اللہ کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز ایک ’’ساعتِ خاص‘‘ رکھ دی جس میں مومن اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگنا چاہے تو اُسے عطا ہو جائے۔ رات کے لمحاتِ پُرسکون میں رات کا پچھلا پہر انسان کے لیے دعا و مناجات اور ادائے نوافل کے لیے مخصوص کر دیا۔ ہفتے کے سات دنوں میں جمعہ کا دن ’’یومِ خاص‘‘ قرار پایا۔ سال کے بارہ مہینوں میں رمضان کا ماہِ مبارک خیر و برکات اور نزولِ رحمات کا وقتِ خاص ٹھہر ایا۔ بارہ مہینوں کی تمام شبانہ عبادتوں پر لیلۃ القدر کی عبادت کو فوقیت و برتری عطا ہوئی۔ سال کے تمام دنوں پر ’’یومِ عرفہ‘‘ کو فضیلتِ خاص حاصل ہوئی۔ رمضان کے آخری دس دنوں کا عشرہ عبادت کے حریصوں اور مغفرت کے طلب گاروں کے لیے عفو عام کا عشرہ بنادیا گیا اور ذوالحجہ کا پہلا عشرہ افضل قرار دے کر زائرین حرم اور عازمین حج و عمرہ کے لیے رحمتوں بخششوں کا دَر کھول دیا گیا۔
یہ خالق کائنات کی رحمتِ خاص ہے کہ اُس نے انسانیت کو جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچانے کے ہزاروں وسیلے پیدا کر دیے۔ ارکانِ اسلام میں حج پانچواں رکن ہے۔ اس کی ادایگی زندگی میں ایک بار فرض ہے مگر قبولیت کا اجر گناہوں سے ایسی پاکیزگی حاصل ہو جانا ہے جیسے ماں کے بطن سے جنم لینے والا بچہ گناہوں کی آلائشوں سے پاک و صاف ہوتا ہے۔ اخراجاتِ حج کی استطاعت نصیب ہوتے ہی جو شخص اس فریضے کی ادایگی میں جلدی کرے گا اُس کے لیے بے شمار انعامات کا وعدہ لسانِ نبوت علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ حج کے اخراجات میں صرف ہونے والی دولت کو کئی گنا اضافے کا شرف حاصل ہوجاتا ہے۔ جس طرح انفاق فی سبیل اللہ کا اجر سات سو گنا تک ہے حج پر صرف کی گئی دولت پر بھی ایسے ہی اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔
حج گناہوں کا کفارہ اورخطائوں کا مداوا ہے۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا: مَنْ حَجَّ ھٰذَا البَیْتَ فَلَمْ یَرْفُثْ، وَلَمْ یَفْسُقْ، رَجَعَ کَیَوْمَ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ۔(بخاری)
’’جس شخص نے اس بیت اللہ کا حج کیا، اور اس دوران میں کوئی شہوانی فعل اور کوئی بدعملی نہ کی تو وہ ایسی پاک صاف حالت میں واپس آئے گا جیسے اُس دن تھا جب اُس کی ماں نے اُسے جنم دیا تھا۔‘‘
فرمایا: اِنّ الرُّکْنَ وَالمُقَامَ یَاقُوتَتَانِ مِنْ یَاقُوْتِ الجَنَّۃِ، طَمَسَ اللّٰہُ نُوْرَھَمُا، وَلَو لَمْ یَطْمِسْ نُوْرَھُمَا، لَأَضَا ء تَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔(ترمذی)
’’رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم جنت کے یاقوت میں سے دو یاقوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے نور کررکھا ہے، اگر اللہ انھیں بے نور نہ کرتا تو یہ مشرق سے لے کر مغرب تک دنیا کو روشن کر دیتے۔‘‘
پیغمبر رحمتﷺ نے فرمایا: اِنّ اِسْتِلَامَھُمَا یَحُطُّ الخَطَایا۔(ترغیب)
’’ان دونوں کا بوسہ لینا گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
حج کی جزا عظیم ہی نہیں عظیم تر ہے۔ نبی ﷺنے فرمایا: ’’کوئی شخص ایک بار لا الٰہ اِلَّا اللہ کہتا ہے، یا کوئی شخص ایک بار اللہ اکبر کہتا ہے تو اُس کو جنت کی خوش خبری دے دی جاتی ہے۔‘‘ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ایک عمرہ دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور حج مبرور (مقبول) کی جزا تو جنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘(بخاری)
حج کو مقبول و مبرور بنانے والے اعمال میں اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنا ہے۔ فرمایا: وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ۔(البقرہ2:203)
’’ان گنتی کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد کو اپنا معمول بنائے رکھو۔‘‘
گنتی کے ان دنوں کے بارے میں رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کو عمل صالح کی انجام دہی ان دنوں کی نسبت زیادہ محبوب ہو۔ یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس روز۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! جہاد فی سبیل اللہ بھی زیادہ محبوب نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جی ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی محبوب تر نہیں، اِلَّا یہ کہ کوئی آدمی اپنی جان و مال لے کر راہِ خدا میں نکل جائے اور پھر ان میں سے کوئی شے بھی واپس نہ آئے۔‘‘(بخاری)
اس عشرہ ذی الحجہ کے دوران انجام پانے والی عظیم ترین عبادت، حج کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ۔(البقرہ197:2)
’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہناچاہیے کہ حج کے دوران اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہو گا۔ سفرحج کے لیے زادِراہ ساتھ لے جائو، اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔‘‘
رسول اللہﷺنے اپنے خطبۂ حج میں بہت سی اہم اور عظیم ہدایات سے انسانیت کا دامن لبریز کیا ہے۔ انسانوں کو یاد دلایا کہ تمھارا رب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی کسی سے اعلیٰ و برتر نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ تقویٰ و پرہیزگاری میں آگے ہو۔ یہ رنگ و نسل کی برتری، یہ قبیلہ و کنبہ کی کہتری، یہ آباء و اجداد پرفخرومباہات اور علاقہ و خطہ پر ناز سب باطل قرار دیے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺسے تمسک کو لازم اور تمام مسائل کا حل قرار دیا۔ ہر مسلمان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس امت کے آخری لوگوں کی حالت بھی ایسے نسخے پر عمل سے بہتر ہو گی جس پر عمل کرنے سے پہلے لوگوں نے دنیا میں سرفرازی پائی تھی۔ یہ نسخہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐہے۔ یہی امت کی سربلندی و سرفرازی، امن و امان اور ترقی و استحکام کا ذریعہ ہے۔
تقویٰ سے بہتر کوئی سامانِ سفر نہیں اور تقویٰ کے معنی رب کی نافرمانیوں سے اجتناب ہے۔ معاصی سے دور رہنا ہے، محرمات سے ہر صورت اجتناب کرنا ہے۔ اعمالِ حج کی انجام دہی کے دوران منہیات و ممنوعات سے بچنا اور اُن کا ارتکاب نہ کرنا ہی حج کو حج مبرور بناتا ہے۔ یہ موقع انسان کے اندرونی جذبات اور بیرونی مظاہرات کے امتحان کا موقع ہے۔ تقویٰ اس امتحان میں کھل جاتا ہے۔ حرماتِ الٰہی کی تعظیم کو ایمان و عمل کا حصہ بنا کر اعمالِ حج انجام دینا مطلوب و محمود ہے۔ یہ تقاضا اور مطالبہ ہے اللہ بزرگ و برتر کا حجاج کرام سے۔ فرمایا :
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔(الحج32:22)’’اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘‘
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۔(الحج:30)’’اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے گا تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔‘‘
حرمات اللہ کیا ہیں؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اِنَّ ھٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللّٰہُ، لَا یُعْضَدُ شَوْکَہٗ، وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہُ، وَلَا یَلْتَقِطُ لُقْطَتَہُ اِلَّا مَنْ عَرَّفَھَا۔(بخاری)
’’اس شہر مکہ کی حرمت کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیاہے، اس کے درختوں سے کانٹا تک نہیں توڑا جا سکتا، اس کے حدود میں موجود شکار کا جانور بھگایا نہیں جا سکتا، اُس کے حدود میں گری پڑی چیز کو وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو اُس کے مالک کو جانتا ہو۔‘‘
رسول کریم ﷺنے اسی طرح کے الفاظ مدینہ کے بارے میں فرمائے کہ مدینہ یہاں سے وہاں تک حرم ہے، اس کے درختوں کو کاٹا نہیں جا سکتا، یہاں کوئی فساد برپا نہیں کیا جا سکتا، جو شخص بھی یہاں کوئی فساد انگیزی کرے گا وہ اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق ہو گا۔‘‘(بخاری)
حرماتِ الٰہیہ کی تعظیم مومن کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ مسافرِ حج جب کعبہ کی حرمت کو تصور میں لاتا ہے تو اُس کے مسلمان بھائی کی حرمت فوراً اس کے حیطۂ خیال میں ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ اُسے یاد آ جاتا ہے کہ مسلمان کی عزت و آبرو اور اس کا خون اور مال سب محرماتِ الٰہی ہیں۔ عبداللہ بن عمرؓنے ایسے ہی موقع پر کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا تھا: ’’اے کعبہ تو کس قدر عظمت والا ہے، تیری حرمت کس قدر عظیم ہے، مگر مومن اللہ کے نزدیک تجھ سے بڑھ کر حرمت رکھتا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے خطبۂ حجۃ الوداع آج کی مہذب و ترقی یافتہ انسانیت کے لیے حیات آفریں ہے۔ حرمتوں کی پاسداری سے متعلق حصہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ آج مشرق سے لے کر مغرب اور شمال سے لے کر جنوب تک جانی، مالی اور عزت و آبرو کی حرمتوں کو جس بری طرح پامال کیا جا رہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ آج کوئی حرمت تقدس کی حامل نہیں رہی۔ ہر حرمت کو بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے پامال کیا جاتا ہے۔ جانیں قتل ہو رہی ہیں مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مال و دولت اور اسباب و اثاثے لوٹے جا رہے ہیں، آبروئوں کی حرمت محفوظ نہیں رہنے دی جاتی۔ گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، مقدس مقامات (مساجد ہوں یا کلیسا و کنیسا) سب تباہ کن جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ عالم اسلام کے اندر قتل وغارت کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں تو انسانی جان کا احترام و حرمت بالکل ناپید ہے۔ ایک شریعت، ایک قانون، ایک دین اور ایک ایمان کے حامل افراد، ایک جیسی قومیتیں رکھنے والے مسلمان باہمی جنگوں میں جھونک دیے گئے ہیں۔ عراق و شام کے اندر خون کی ہولی کھیلی گئی ہے اور اب تک جاری ہے۔ فلسطین کے مظلوم مسلمان غزہ کے اندر اپنی ہی سرزمین پر تباہی و ہلاکت سے دوچار کیے گئے، بچے بوڑھے عورتیں اور جوان اسرائیلی درندگی کا جس بہیمانہ ووحشیانہ انداز میں شکار ہوئے اُس نے دس ہزار کے قریب انسانی جانوں کو مفلوج کر دیا اور دوہزار معصوموں کی جان لے کر صہیونی درندگی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔
رسولِ رحمتﷺنے اپنے خطبے میں انسانی جان (خون)، مال اور عزت و آبرو کو جس بلیغ انداز میں حرام ٹھیرایا وہ قابل صد توجہ ہے۔ فرمایا: تمھارے خون، تمھارے مال و دولت اور تمھاری عزت و آبروئیں اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا تمھارا یہ دن (یومِ عرفہ) تمھارے اس شہر میں اس ملک کے اندر قابل احترام ہے۔‘‘ رسول اللہﷺ نے حاضرین و سامعین کو یہ یاددہانی کراتے ہوئے کہ جس طرح تمھارے نزدیک یہ یومِ عرفہ حرمت کا حامل ہے، یہ شہر مکہ حرمت رکھتا ہے، یہ ملک تمھارے نزدیک قابل احترام ہے، انسانی جان و مال اور عزت وآبرو بھی اسی طرح قابل احترام ہیں۔
خطبۂ حجۃ الوداع میں محسن انسانیتﷺ نے مجمع عرفات کو خصوصی طورپر متوجہ کرکے فرمایا: میرے بعد کفر کی طرف واپس نہ چلے جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگو۔ رسول کریم ؐنے یہ خبر صادق بھی دی کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائیاں اور جنگ و جدال شیطان کی کارستانی ہے۔ آپؐ نے فرمایا شیطان اس بات سے تو مایوس ہو چکا کہ جزیرۂ عرب میں نمازی اس کی عبادت کریں گے مگر وہ ان کے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے میں کامیاب ہو گا۔
حاجیوں کے رمی جمرات (کنکریاں مارنے) کا عمل اپنے اندر بلیغ درس رکھتا ہے کہ ہم شیطان کے پیدا کردہ وسوسوں کو بھی اسی طرح کنکر مار کر بھگا دیں گے اور اپنے درمیان اُس کی فساد انگیزی کو ہرگز قبول نہ کریں گے۔ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کا دشمن قرار دیا ہے تو اسے اپنا دشمن ہی سمجھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔(فاطر:6)
’’درحقیقت شیطان تمھارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیروکاروں کو اپنی راہ پر اس لیے بلاتا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔‘‘
شیطان کے عمل کی پیروی نہیں کی جا سکتی۔ ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں اُن سے سخت بازپرس کرے گا۔ اس عظیم جرم سے ایسے افراد کو تائب ہو جانا چاہیے کہ رسول کر یم ﷺ نے اس پرسخت سزا کی وعید سنائی ہے۔ آپؐ نے اس جرم کو عظیم جرم قرار دیا ہے۔ فرمایا: لَزَوَالُ الدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہ مِنْ قَتْلِ نَفْسٍ مُوْمِنَۃٍ۔’’پوری دنیا کو زوال آ جانا ایک مومن کے قتل سے ہلکا جرم ہے۔‘‘ ہر ظالم و جابر اور قاتل و غارت گر کو یہ علم و احساس ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کی گھات میں ہے وہ مجرموں سے انتقام لینے کے لیے تیار ہے۔ کوئی ظالم اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا۔
امت مسلمہ امت واحدہ ہے۔ طرح طرح کے روابط و تعلقات افرادِ امت کو باہم جوڑتے اور ایک اجتماع بناتے ہیں۔ اس کا رب ایک ہے، رسول ایک ہے، کتاب ایک ہے، قبلہ ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے عبادات کے جو طور طریقے مقرر کیے ہیں، ان میں اس وحدت کی اصل اور اس کی نشوونما اور تجدید و احیا کے عوامل بے شمار ہیں۔ نماز کے لیے اذان ہو جائے تو سب کے سب جلدی سے مسجد کی طرف لپکتے ہیں۔ مسجد میں جانے کا مقصد کسی رنگ و نسل کی تفریق و امتیاز کے بغیر ایک صف میں کھڑے ہو کر رب کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔ پنج گانہ نماز کے بعد نمازِ جمعہ سات دن کے بعد ایک محلے اور علاقے کے افراد کو یکجا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ پھر سال کے بعد نمازِ عید کی ادایگی کے لیے ملک بھر کے مسلمان مرد و عورت اور جوان و بچے کھلے میدانوں میں جمع ہوتے ہیں۔ عید کا یہ موقع انھیں مسرت و انبساط اور فرحت و بہجت سے سرشار کرتا ہے۔ معانقے ہوں تو دلوں کا ملاپ ہوتا ہے اور مصافحے ہوں تو ہاتھوں میں ہاتھ دے کر گرم جوشی اور یک جہتی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عید کی مبارک باد کا تبادلہ ہوتاہے۔
عبادات میں سے عظیم ترین عبادت حج کی ادایگی کے لیے لوگ دنیا کے پست و بالا مقامات سے آتے اور میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ مختلف نسلوں، مختلف رنگوں، مختلف زبانوں اور مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی حاضری کا مقصد نہایت عجزو انکسار کے ساتھ یہ اعلان کرنا ہوتا ہے کہ لَبَّیْکَ أَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ… لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ… اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ!!
یہ اللہ کی عبودیت خالصہ ہے، جو روئے زمین پر بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں کو رشتۂ اخوت اور سلسلۂ محبت میں پرو دیتی ہے۔ یہ وہ رشتہ و پیوند ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں کو باہم جوڑ کر قائم فرمایا ہے۔ سچ فرمایا ہے اللہ رحمٰن و رحیم نے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۔وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْم۔(الانفال63-62:8)
’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے۔ یقینا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔‘‘
اخوت کا یہ رشتہ میدانِ عرفات میں ننگے سر کھڑے بندگانِ رب کے اجتماع میں روشن تر ہو کر سامنے آتاہے۔ مسلمانوں کے درمیان یہ مقدس بندھن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام کے تمام مسلمانوں پر فرض ٹھہر ایا ہے۔ یہی رشتہ ہے جس کی پاسداری کی خاطر مسلمان ایک دوسرے کی خوشی غمی، تنگی تکلیف میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے مفادات و مصالح کے پاسبان ہوتے ہیں، اور اُن پر آنے والی آفتوں مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے باہمی تعاون کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ کسی بھی مسلمان قوم پر کوئی جارحیت کرے تو یہ مل کر اُس کا جواب دینے کے پابند ہیں۔ یہ اپنے کلمہ گو مسلمان بھائیوں کی مصیبتوں میں اُن کی غم خواری اور مدد و نصرت کو اپنا ایمان جانتے ہیں۔ اسی طرح تو امت مسلمہ باہمی رحمت و مودت میں جسد واحد کی شکل اختیار کرتی ہے۔
آج اس فکرو نظر اور ایمان و یقین کی حامل امت مسلمہ کی تشکیل ضروری ہے۔ رسولِ رحمتؐ کا خطبۂ حجۃ الوداع ایسی امت کی تعمیر کا بہترین دستور اور نقشہ ہے۔ انسانیت کو محرومی و ذلت اور ظلم و عدوان سے نجات دلانے کا بہترین منشور ہے۔ یہ وہ اساس ہے جو ہر انسان کے لیے امن و امان کے دروازے کھولتی ہے کہ وہ رب کی شریعت کے سائے میں زندگی گزارے خواہ اُس شریعت کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے تو یہاں تک انسان کو اختیار دے دیا کہ وہ اپنی مرضی و منشا سے اپنے لیے دین کا انتخاب کرے، اس کے اوپر کوئی جبرو قہر نہیں اور کوئی زور و زبردستی نہیں ہو سکتی۔ رسول کریمﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن(یونس99:10) ’’اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟۔‘‘
اگرچہ حالات بد سے بدترین شکل اختیار کر گئے ہیں مگر مناسک حج میں سے صفا و مروہ کے درمیان سعی کا عمل مومن کو یہ یاد دلاتا ہے کہ مایوسی نہیں امید پر نظر رکھنی چاہیے۔ سیدہ ہاجرہؑ نے صفا و مروہ کے درمیان امید اور آس کے ساتھ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ سات چکر لگائے کہ پانی مل جائے۔ جب اُن کی یہ جدوجہد مقبول ہو گئی تو بارگاہِ اِلٰہ سے چشمۂ زَم زَم کا اجرا عمل میں آ گیا۔ آج ہمیں بھی امید اور رجا سے مصروفِ عمل ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کو اللہ کے دین کی طرف اور اسلام کے حیات آفریں پیغام اور نظام کی طرف بلائیں۔ ہم خود ایسے اخلاق و اقدار عام کریں جن کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ قوم کو بامقصد، باوقار، امن و سلامتی اور تعمیر و ترقی کا باعث بننے والے سنجیدہ عمل کو اختیار کرنے کی دعوت دیں۔ ابنائے امت کو شعور و بیداری اور تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی نیت کا اخلاص دکھائیں، اپنے عمل کی صداقت اور اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ حج کے اعمال سے ملنے والے دروس و اسباق کو حرزِجاں بنائیں۔ نتیجتاً اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو گا، اس کی خیروبرکات کی فراوانی ہو گی، امن و امان اور سکون و سلامتی کا دور دورہ ہو گا۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2015