آ پ کی رائے

زندگی نودسمبر ۲۰۰۹؁ میں شائع شدہ جناب سید قاسم رسول الیاس صاحب کامراسلہ پیش نظر ہے ۔ موصوف، جناب احسن مستقیمی صاحب کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ان کی تحریر سے غلط فہمی پیدا ہونے کااندیشہ ہے۔ جب کہ مستقیمی صاحب کی گفتگو واضح اور دو ٹوک ہے۔ جماعت کے بنیادی لٹریچر اور دستور جماعت کے مطابق ہے۔ اِسی لیے مہرالدین صاحب نے ان کی تقریباً تمام باتوں سے اتفاق کیاہے۔ مہرالدین صاحب نے خود یہ بات قبول کی ہے کہ اقتدار وقت کے دبائو میں آکر جماعت نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قاسم رسول الیاس صاحب بے جا طورپر اس بات کو مستقیمی صاحب کی طرف منسوب کررہے ہیں۔مستقیمی صاحب کا سوالیہ جملہ ملاحظہ فرمائیں:

کیا وہ شاندار ماضی برقرار ہے؟ کیا ہمارے موقف میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے؟ اور کیا اُس قت سیکولر جمہوری نظام اور دستور کے مذکورہ محاسن موجود نہیں تھے؟

اس کے جواب میں مہرالدین صاحب نے کہاہے :

یقینا تبدیلی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک یہ تبدیلی ہونی چاہیے تھی۔ ان مخالفتوں کے مضراثرات سامنے آرہے تھے، جن سے تحریک و جماعت کو بچاناتھا۔ ایک یہ کہ علمائ ومفتیان کرام اور مسلم قائدین کی مخالفتوں نے ہمیں معاشرے کے اندر بالکل اجنبی بناکر رکھ دیا تھا، ہم بے یارو مددگار نظرآنے لگے تھے۔ دوم یہ کہ اقتدار وقت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے ہماری ناک میں دم کر رکھاتھا۔ اس کے کارندے ہمارے ساتھ سایہ کی طرح رہتے تھے۔ وہ ہمیں فرقہ پرست حتیّٰ کہ نیم فوجی تنظیم کا جھوٹا الزام لگاکر بدنام کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ متعدد بار ہمارے اکابرین کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ہمارے دفاتر کی تلاشیاں لی گئیں۔ معاشی طورپر ہمارے کارکنوں کو بدحال کردیاگیاتھا۔

اَب میں سیدقاسم رسول الیاس کی تحریرکا ایک نمونہ پیش کرناچاہتاہوں،جو زندگی نو مارچ ۲۰۰۸؁ میں شائع ہواتھا۔ فاضل مقالہ نگار تحریر فرماتے ہیں:

’’میری ذاتی رائے میں یہ ایک طاغوتی نظام نہیں ہے، جو خدا کے شعوری انکار اور بغاوت پر مبنی ہو۔‘‘

ہمیں اِس سادگی پر حیرت ہے کہ خلاف حق بھی کہتے ہیں اور اسے طاغوتی نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَلَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُونَ اَنْ یَّتَحَاکَمُواْ اِلیَ الطَّاغوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُواْ بِہٰ ط وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلاً بَعِیداً  ﴿النسأ: ۶۰﴾

’’اے نبی! تم نے دیکھانہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کافیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیاگیاتھا، شیطان انھیں بھٹکاکر راہِ راست سے بہت دور لے جاناچاہتا ہے‘‘

اس آیت کی تشریح تفہیم القرآن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس طرح کی ہے:

یہاں صریح طورپر ’’طاغوت‘‘ سے مراد وہ حاکم ہے، جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتاہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت ‘‘طاغوت’’ کی حیثیت رکھتی ہو، اس کے پاس اپنے معاملات فیصلے کے لیے لے جاناایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کالازمی اقتضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔

جناب سیدقاسم رسول الیاس اگرڈاکٹر فضل الرحمن فریدی کے ’’زندگی نو‘‘ نومبر ۲۰۰۹؁ کے اداریے اور امیر جماعت اسلامی ہند جناب مولانا سید جلال الدین عمری کے خطبۂ عیدالفطر کا بہ غور مطالعہ کرتے تو شاید یہ رویّہ اختیار نہ کرتے۔ خاص طورپر فریدی صاحب کی تحریر جس میں قرآن و سنت سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ امت مسلمہ کی زبوںحالی کیوں ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔

قمرالطاف

جھریا، ضلع دھنباد

اکتوبر ۲۰۰۹؁ کے شمارے میں دو مقالے ’’جماعت اسلامی ہند کو درپیش چیلنجز‘‘ اور ’’انتخابات او رجماعت اسلامی ہند‘‘ علی الترتیب ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور س۔م ۔ملک رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ کے شائع ہوئے ہیں۔ جناب س۔ م۔ ملک کامضمون ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے اس مشورے کانتیجہ ہے کہ جماعت اسلامی کو ہر سطح پر انتخابات میں حصہ لیناچاہیے۔ فی الوقت ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے مضمون پر کچھ معروضات پیش کرنا ہے۔

ڈاکٹر صاحب جماعت اسلامی کے معروف دانشور اور ماہرمعاشیات ہیں۔ مضمون مذکورہ کو پڑھنے سے جو تاثر قائم ہوتاہے وہ یہ کہ کسی قومی جماعت کے فرد کے خیالات ہیں، جس کا جمعیتہ علمائ کی پالیسی کی طرف جھکاؤ ہے۔ میں نے کیوں یہ تاثر قائم کیا اس کی وجہ موصوف کایہ کہنا ہے :

’’سیاست بڑی اہم ہے، ملکی انتظامیہ اور لوکل باڈیز سے کنارہ کشی بڑی مضر ہے۔ میری رائے مانیے اپنا ووٹ ہمیشہ استعمال کیجیے اور ہر سطح کے انتخابات میں ووٹ ڈالیے۔ ان انتخابی حلقوں میں بھی ووٹ ڈالیے جن میں کوئی امیدوار آپ کی شرائط پر پورا نہیں اترتا ہو۔ یہ اس لیے کہ کام تو اس ناقص ماحول اور معیار سے گری دنیا میں ہونا ہے‘‘۔

اس تاثر کے سلسلے میںیہ بحث نہیں اٹھانا چاہتاکہ قانونی ودستور ی موقف آپ کے نصب العین کے لحاظ سے کیا ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ آپ نے سیاست سے اجتناب اس کوغیراہم سمجھ کر ہی کیاتھا۔ موصوف نے جس انداز سے ماننے کی بات کہی ہے اُسے میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ان جیسا دانشور کیا یہ نہیں جانتا کہ جمعیتہ علمائ آزادی کے بعد سے عملی سیاست میں حصہ لے رہی ہے۔ پوری ۶۰ سالہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ اس نے ملت کی کونسی خدمت انجام دی ہے اور اس سلسلے میں کیا ریکارڈ ہے؟ سواے چند احتجاجی جلسوں اور قراردادوں کے کچھ نہ ہوسکا۔ حالاں کہ ان لوگوں نے آزادی کی لڑائی میں کانگریس کے دوش بدوش کام کیا۔ ان کی قربانیاں کانگریس کی قیادت سے کچھ کم نہیں رہی ہیں۔ پھر پڑوسی ملک کا اس سلسلے میں تجربہ کیا ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ ۹۵فیصد مسلم آبادی میں ۱۰، ۱۲ فیصد کے سوا حاصل نہ ہوا ۔ اب ۸۶ فیصد غیرمسلم آبادی میں آپ کیا کرسکیں گے ظاہر ہے۔

مسلم Empowerment، خواتین کا فعال رول اور برادران وطن سے فعال ربط و تعلق کے سلسلہ میں کیا صاحب موصوف فراموش کرچکے ہیں کہ آپ اس تحریک کے ذمہ دار فرد ہیں جو یہ عزم لے کر اُٹھی تھی کہ نصب العین کی بنیاد پر فرد کا ارتقائ معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل ہی مسائل کا حل ہے۔ کیا اس پہلو سے جائزہ آپ نے لیا ہے۔ آپ کے ارکان کی تعداد ۷،۸ ہزار سے زیادہ نہیں اگر پورے ملک میں ۲۰ لاکھ افراد بھی آپ کے ساتھ ہیں تو یہ مسلم معاشرے کا ایک فیصد اور ملک کی مجموعی آبادی کا 0.66 فیصد ہے۔ کیا اثرانداز ہونے کے لئے یہ کافی ہے۔ خدمت خلق کے کام کو ایمانی تقاضے کے طورپر ادا کرنے سے ہمیں پورا اتفاق ہے مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خدمت خلق کے کام کے لیے جس سرگرمی سے آپ کے کارکن متحرک ہوتے ہیں دعوت کے لیے اس میں سے دسواں حصّہ بھی نہیں۔

جہاں تک خواتین کے رول کے سلسلہ میں صاحب مضمون کا اظہار خیال ہے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورت بھی مغربی معاشرے ہی کی طرح اپنا رول ادا کرسکتی ہے۔ یہی تو مغرب چاہتا ہے اور ہمارے دانشوراس سے متاثر ہیں۔

موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیاہے کہ تاریخ ان صحابیات کے تذکرے سے بھری پڑی ہے جنھوں نے کوئی دوسرا پبلک رول اختیارکیا۔ مثلاً قومی خدمات انجام دینا، بازار میں خریدو فروخت، تجارت، جائیدادوں کاانتظام و انصرام وغیرہ۔ میری ناقص معلومات کی حد تک مذکورہ مدات میں ایک دو یا تین ناموں سے زیادہ نہیںہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر موصوف کو تاریخ کے اس پردے کو اُٹھانا چاہیے جو صحابیات کی سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے تاکہ ہم جیسے کم علموں کو اس کا علم ہو۔ دوسرے ان صحابیاتؓ نے یہ رول نیا نہیں شروع کیا بلکہ پہلے ہی سے وہ یہ کام کررہی تھیں اور اسلام نے ان پر قدغن نہیں لگائی۔ مگر اسلام نے کسب معاش اور بیرونی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں بنیادی طورپر مرد کو ذمہ دار قرار دیاہے۔ جس دین نے عورت کی گھر میں عبادت کو مسجد کی عبادت سے افضل قرار دیا ہے اس کے تعلق سے یہ کہناکہ وہ مردو عورت کی مغربی طرز کی مساوات کاقائل ہے، ناقابل فہم ہے۔

جماعت اسلامی کے کارکن دعوتی کام سے زیادہ دوسرے کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ کارکن کی خوبی یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ کتنے اجتماعات میں شریک ہوتاہے، حالاں کہ محض ان اجتماعات میں شرکت کا دعوتی کام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے نتیجے میں لٹریچر کے مطالعے سے غفلت ہے۔ حالاں کہ لٹریچر قرآن و حدیث کا ذوق پیدا کرتا ہے۔ اجتماع کی غرض و غایت کابھی کارکنوں کو شعور نہیں ہے۔ وہ عام جماعتوں کی طرح اُسے ایک نشست سمجھتے ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہ شعور نہیں ہے۔

میں جہاں تک سمجھتاہوں جماعت اسلامی کی تشکیل اس لئے ہوئی تھی کہ وہ افراد سازی کرکے ان کو اس قابل بنائے گی کہ وہ اپنی منصبی ذمہ داری ادا کریں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آپ مٹی کی دیواروں پر سیمنٹ کی عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں جو لوگ نماز باجماعت کے اہتمام میں متساہل ہیں معاملات اور تعلقات میں عام سماج جیسے کردارکا مظاہرہ کرتے ہیں ان سے آپ کیا توقع رکھیں گے کہ وہ کوئی کارنامہ انجام دیں گے۔

ڈاکٹر صاحب نے مضمون کے آخر میں بہت اہم بات کہی ہے ’’اصل طاقت اخلاق و کردار کی طاقت ہے اور سب سے مضبوط اخلاق وہ ہے جو عقیدہ توحید پر مبنی ہو‘‘۔ یہ ہے اصل پروگرام جس کی انجام دہی پر ہی سارے پروگرام پر کامیاب عمل آوری ممکن ہے۔ ہمارے اقتدار کا چھِن جانا اور اس کے بعد مسلسل زوال سے ہمارے دوچار ہونے کا اصل سبب یہی اخلاقی انحطاط ہے اس لیے کہ بنیادِ توحید ہی منہدم ہوگئی ہے۔ جماعت اسلامی ہند اسی کے تدارک کے لیے اُٹھی ہے اور اپنے افراد و اجتماعیات کو توحید کی بنیادپر ڈھالنا چاہتی ہے ۔اس کے بغیر کامیابی کا کوئی راستہ نہیں مگر افسوس اس کاہے کہ وہ اپنے ۶۰، ۷۰سال کے عرصہ میں غیرمحسوس طورپر اصل کام سے غافل ہوتی رہی ہے۔

ابوالکرم عرفان

حیدرآباد

 

’’زندگی ن‘‘ اکتوبر کے شمارے میں ‘‘بعض اہم اختلافی مسائل پر تبادلۂ خیال’’ کے تعلق سے میری جو معروضات شائع ہوئی ہیں، ان پر نقد و تبصرہ جناب سید قاسم رسول الیاس صاحب کے ایک مراسلے کی شکل میں حالیہ شمارہ ماہ دسمبر میں شائع ہوا ہے۔ مجھے چند نکات پرکچھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ رفیق موصوف فرماتے ہیں:

’’احسن مستقیمی صاحب کاخیال ہے کہ جماعت اس وقت تک ﴿ابتدائی تیس سال تک﴾ راہ راست پر تھی۔ موصوف کے خیال میں رفتہ رفتہ بزرگوں کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ان کے بعد آنے والے، کم فہم، بے علم اور ڈر اور خوف کا شکار ارکان شوریٰ نے جماعت کو راہ راست سے ہٹادیا‘‘۔

محترم موصوف نے واوین میں جو جملے نقل کیے ہیں، وہ میرے نہیں وہ خود ان کے اپنے ہیں۔ اسی طرح ان سے جو مفہوم اخذ کیاہے، وہ بھی انھی کااخذ کردہ ہے۔ یہ جملے اور ان سے کشیدہ مفہوم نہ صرف یہ کہ میرے نہیں ہیں بلکہ ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہیں ہیں۔اس واوین کو کمپیوٹر کی غلطی کہہ کر نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ مزید ارشاد ہے :

’’جماعت کے حالیہ فیصلوں کے بارے میںمحترم مستقیمی صاحب کا خیال ہے کہ ‘‘وہ قرآن وسنت کا براہ راست علم رکھنے والے علمائ کرام کی بجاے شوریٰ میں موجود علم دین سے بے بہرہ دانشوروں کی تائید سے ہورہے ہیں۔‘‘

میرا یہ خیال ہرگز نہیں ہے اور نہ یہ خیال میرے جملوں سے ماخوذ ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:

’’احسن مستقیمی صاحب کا خیال ہے کہ شوریٰ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔‘‘

میرا تو ہرگز یہ’’خیال‘‘ نہیں ہے اور نہ یہ میرے کسی جملے سے اخذ کیاجاسکتا ہے۔ اپنے خودساختہ مفہوم کو دوسروں کی طرف منسوب کردینے کی گنجایش تحریک اسلامی کے دائرے میں نہیں ہونی چاہیے۔

برادر موصوف فرماتے ہیں:

محترم احسن مستقیمی صاحب کے ’’اس پورے انٹرویو میں جماعت کی قیادت اور مجلس شوریٰ کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کے فیصلے ، دین کے قیام ، اسلام اور مسلمانوں کے اہم مفادات یعنی دینی مفادات کے تحفظ کے بجائے، حکومت وقت اور نظام وقت سے ڈر اور خوف کی بنیاد پر کیے گئے‘‘ ۔

میں پھر عرض کروںگا کہ ’’دین کے قیام اور اسلام اور مسلمانوں کے اہم دینی مفادات‘‘ کو بنیاد بناکر میں نے ’’ڈر او ر خوف‘‘کی بات نہیں عرض کی ہے اور نہ میرے کسی جملے سے یہ مفہوم نکالاجاسکتا ہے۔

محترم موصوف فرماتے ہیں :

’’اور نہ یہ کہنے کی جرا ٔت کرسکتا ہوں کہ وہ ﴿مستقیمی﴾ قارئین کو گمراہ کررہے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ شدت احساس نے انہیں ﴿مستقیمی کو﴾ متوازن نہ رہنے دیا ہو۔‘‘

جرأت اظہار کی کمی کاسہارا لے کر جو کچھ محترم موصوف نے احقر کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے، اس پر میں اس کے سوا کیا عرض کرسکتا ہوں کہ ’’محترم کی بات کو جھٹلائیں کیا‘‘۔

’’مراسلے‘‘ کی تنگ دامانی مانع ہے اس لیے اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ میرا مافی الضمیر اور نقطہ نظر صرف ایک پیراگراف سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے وہ یہ ہے:

’’اس حقیقت سے تو آپ بھی انکار نہیں کریں گے کہ سیکولر جمہوری نظام اور الکشنی سیاست کے تعلق سے مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس نمایندگان نے جتنے فیصلے جواز اور عدم جواز کے کیے ہیں، ان میں بیش تر کثرتِ راے سے ہوے ہیں۔ آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ارکانِ مجلس کے مابین ان پر شدید اختلافات رہے ہیں۔ کچھ ارکان نھیں عقیدہ و ایمان کامسئلہ قرار دیتے ہیں اور کچھ اجتہادی مسئلہ تصور کرتے ہیں۔ یہاں بجاطورپر سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حق و ناحق، جائز و ناجائز، اور حرام و حلال کے فیصلوں کامجاز کون ہے؟ اس طرح کے مسائل میں اجتہادکا حق کسے حاصل ہے؟ کیامرکزی شوریٰ اس کی مجاز ہے؟ مجلس نمائندگان کو یہ حق پہنچتا ہے ؟ کیا اجتہاد اور فتویٰ کے لیے محض اتنی بات کافی ہے کہ اسے مجلس شوریٰ یا مجلس نمائندگان کی رکنیت کا شرف حاصل ہو؟ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حق اُن علمائے حق کو ہی پہنچتا ہے، جن کی نظر قرآن وسنت پر گہری ہو اور جو مسائل کے استنباط کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ میں یہ نہیں کہتاکہ وہ لازماً کسی دینی درس گاہ کے سند یافتہ ہوں مگر یہ ضرور عرض کروںگاکہ تحلیل و تحریم جائز وجائز اور حق وناحق کے فیصلے کے لیے اور اجتہاد کے لیے بہرحال کچھ شرائط ہیں، جو خود جماعت کے اندر علمائ کرام سے اور محترم امیر جماعت سے آپ معلوم کرسکتے ہیں۔ پھر آپ دیکھیں کہ مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس نمائندگان کے کتنے ارکان ان شرائط پر پورے اترتے ہیں۔ غیرمشروط اطاعت تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگی۔ ان کے علاوہ ہر ایک کی اطاعت فی المعروف سے مشروط ہوگی۔ خواہ امیر جماعت ہوں یا مرکزی مجلس شوریٰ یا مجلس نمائندگان یا کوئی اور۔‘‘  ﴿زندگی نو اکتوبر صفحہ ۶۲،۶۳

 

یہ ہے وہ تلخ حقیقت جس کااظہار میں نے کیاہے۔ کیا اس میں ارکانِ شوریٰ کو کہیں، کم فہم، بے علم، اور خوف کا شکار ، علم دین سے بے بہرہ وغیرہ کہاگیا ہے؟ کیا کوئی لفظ ایسا استعمال ہوا ہے، جس سے ارکان شوریٰ کی توہین ہوتی ہو؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ میں یا کسی دینی تنظیم میں بگاڑ ، کم فہم اور بے علم افراد کے ذریعہ نہیں آیاکرتا۔ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، آپ دلائل سے اس کی تردید کیجیے۔ محترم موصوف نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ’’جن ارکان شوریٰ نے بہت شدت سے اسے عقیدے کا مسئلہ سمجھا، ان کی اکثریت بھی ’’معروف معنی میں علمائ کے دائرے میں نہیں آتی‘‘ ٹھیک ہے۔ مگر معروف علمائ تو اس دائرے میں آتے ہیں؟ مولانا سید احمد عروج قادری رحمتہ اللہ علیہ کیا آپ کے پیش کردہ دائرے سے باہر ہیں؟ ان کے یہ الفاظ ہیں’’غیراللہ کے اقتدار اعلیٰ پر مبنی نظام حکومت سے تعاون حرام ہے۔ ووٹ دینا عقیدۂ توحید کے خلاف ہے۔‘‘ مولانا سید حامد علی صاحب علیہ الرحمہ کیا آپ کے متعینہ دائرے سے خارج ہیں؟ فرماتے ہیں: ’’حاکمیت کے بارے میں اسلام کا جو عقیدہ ہے الکشن میں حصّہ لینا اس عقیدے کے خلاف ہے‘‘۔ مراسلہ کی طوالت مانع ہے۔ جن دو کتابوں کے مطالعے کا مشورہ رفیق محترم نے دیاہے ان کا مطالعہ قارئین پر روز روشن کی طرح واضح کردے گا کہ میں نے مندرجہ بالا پیرا گراف میں جو بات کہی ہے وہ صد فی درست ہے یا نہیں۔

جماعت اسلامی کی تشکیل کیوں اور کس لیے ہوئی اس کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے عرض کیاکہ ’’جماعت اسلامی ہند کا شاندار ماضی ﴿تقریباً ابتدائی تیس سال﴾ اس موقف کا حقیقی ترجمان رہا ہے۔‘‘ملاحظہ ہو صفحہ ۵۴،۵۵۔ اس کی تعبیر محترم موصوف یہ فرماتے ہیں کہ ’’اس کا مطلب تو یہ ہواکہ تیس سال تک جماعت راہ راست پررہی اور بعد میں اس نے اپنا راستہ بدل لیا‘‘ یہ تعبیر میری نہیں ہے۔ میں نے جو بات عرض کی ہے ﴿ص ۵۹پر﴾ وہ یہ ہے’’۔ ‘‘دراصل ہماری قیادت پر زبردست دباؤتھا۔ دباؤ کس کا؟ ارکان و کارکنان جماعت کا؟ نہیں انھیں تو پندرہ بیس سال تک اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئ‘‘ ۔اس حقیقت سے ہماری چشم پوشی درست نہیں ہے کہ ۱۹۸۵؁سے قبل ۱۹۶۱؁ کے بعد جو فیصلے کیے جاتے رہے ’’ا ُن میں سیکولر، لادینی جمہوری نظام اور الکشنی سیاست میں حصّہ لینے کے لیے رفقائ کے سامنے مختلف شکلیں پیش کی جانے لگیں۔‘‘

رہی یہ بات کہ اقتدار کادبائو تھا یا کچھ اور تو ۱۹۸۵؁ میں اگر یہ بات کہی جاتی کہ یہ فیصلے شدید دبائو میں آکر کیے گئے تو شاید کچھ احباب کو مشکل ہی سے یقین آتا۔ مگر ۱۹۸۵؁ سے آج ۲۰۰۹؁ تک جماعت اسلامی ہند کی جو سرگرمیاں ، سیکولرزم ، لادینی جمہوریت اور الکشنی سیاست کے تعلق سے سامنے آچکی ہیں اور آتی جارہی ہیں۔ صفحہ۵۸، ۵۹ پر اس کی ایک جھلک میں نے پیش کی ہے۔ یہ سب کچھ اقتدار وقت کے دباؤ میں ہوا۔ دباؤ میں دونوں پہلو ہوتے ہیں خوفناک انجام کی دھمکیاں اور سمجھوتہ کرنے کی صورت میں نوازشات و عنایات کے وعدے۔ اس کے ثبوت میں بطور مثال ایک عظیم دانشور کے یہ الفاظ نوٹ کرلیں:

’’ووٹ دینے کا میں بھی قائل ہوں مقصدیہ ہے کہ الیکشنی مہم سے الگ تھلگ رہنے کی مضرتوں سے بچاجاے اور ہم اس اتہام سے بچ سکیں کہ سیاسی کاموں میں حصّہ نہ لینافرقہ پرستی ہے جس کاعلاج BANکرنا ہے۔ ﴿ڈاکٹرمحمد نجات اللہ صدیقی﴾ ‘‘

﴿جماعت اسلامی ہند اور مسئلہ انتخابات ،ص: ۸﴾

احسن مستقیمی، میرٹھ

مضمون ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں‘‘ پڑھنے کا موقع مِلا۔ اس میں آپﷺ کی خانگی مصروفیات کاذِکر کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑوں سے جوئیں خود نکال لیا کرتے تھے۔ براہِ کرم اِس حدیث کی وضاحت فرمائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو صفائی ستھرائی کا نمونہ تھے اِس لیے یہ حدیث سمجھنے میں زحمت محسوس ہورہی ہے۔   والسلام

فیروزاحمد

 

ہرچند کہ جماعت اسلامی ہند سیاست کو شجرممنوعہ نہیں سمجھتی اور نہ سمجھنا چاہیے، مگر سیاست میں براہِ راست حصّہ لینے کے فیصلے کو خاکسار قبل از وقت فیصلہ قرار دیتا ہے۔ جماعت کا نصب العین ‘اقامت دین’ ہے۔ اس کاایک شعبہ سیاست بھی ہے۔ مگر نصب العین کے بنیادی اہداف کی تکمیل کے بغیر نہ تو سیاست کی منزل طے کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اقامتِ دین کے بنیادی امور پر خاطر خواہ توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ بلکہ خود اقامت دین کا ہدف بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں جماعت کے ذمہ داروں سے نہایت ادب کے ساتھ یہ سوال کرناچاہوںگا کہ ہمارے پڑوسی ممالک میں تقریباً ۶۰،۶۵سالوں سے جماعت اسلامی براہِ راست سیاست میں حصّہ لیتی آرہی ہے، مگر اب تک ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جماعت اقتدار پر قابض نہ ہوسکی۔ جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ان ممالک کے مسلم عوام میں جماعت اپنا اثرو رسوخ قائم نہ کرسکی تو کیا ایوان سیاست طشت میں سجاکر اس کی خدمت میں دے دی جاتی۔

دوسرا توجہ طلب امر یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ میں جو پہلی اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو اس کے اسباب یہی تو تھے کہ اسلام پوری طرح سے مدینہ کے عوام میں رچ بس چکا تھا اوران اسلام پسند عوام کے لیے اسلام سے بہتر کوئی نظامِ حیات نہ تھا، جسے پورے شعور اور احساس کے ساتھ قبول کرتے ہوئے اسلامی ریاست کے قیام پر مسلمانانِ مدینہ نے لبیک کہا۔ لھٰذا مذکورہ معروضات کے پیش نظر یہ غور کیاجائے کہ اقامتِ دین کے تعلق سے جماعت کہاں تک اپنے اہداف کو مکمل کرسکی ہے۔ سیاست اقامتِ دین کی آخری منزل ہے۔ اس سے قبل کی جو منزلیں ہیں، وہ اب تک طے نہیں پاسکی ہیں۔ پڑوسی ممالک میں جماعت کاجو حال ہے وہ پیش نظر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بلاتفریق مذہب وملّت خدمت خلق اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے ہم بشمول برادرانِ وطن اپنے کلمہ گو بھائیوں میں پوری طرح سے اپنی شناخت قائم کروائیں اور ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنائیں۔ تب جاکر اسمبلی اور پارلیامنٹ کی سیٹوں پر اپنی جگہ محفوظ کرنے کی تدبیریں کریں۔

والسلام

محمد امین عامر

۱۰۱۔پیلخانہ، سکنڈلین، ہوڑہ۔ ﴿مغربی بنگال﴾

 

نومبر۲۰۰۹؁ کا شمارہ ملا۔ ’’آپ کی رائے‘‘ میں ’’جماعت اسلامی ہند اور انتخابات‘‘ کا موضوع ہی زیربحث آیا ہے۔ جناب احسن مستقیمی صاحب کا طویل خط پڑھنے کے بعد بھی یہ سمجھ میں نہیں آیاکہ وہ آخر جماعت کے نقطۂ نظر کو سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں؟ میں جناب موصوف سے گزارش کروں گا کہ وہ درج ذیل سوالات کا جواب دے کر ہمارے کنفیوژن کو دور کریں۔

۱۔ہندوستان دعوتی نقطۂ نظر سے مکّی اور مدنی ادوار میں کون سے دور سے قریب تر ہے؟

۲۔جس دور کی بھی آپ نشاندہی کریںگے، اس کے پیش نظر اقامتِ دین کی منزل کی طرف گامزن رہنے کے لیے تحریک کو کیا طریقۂ کار اختیارکرنا چاہیے ۔ اس کے خدوخال کیا ہوں؟

۳۔ہندوستان کے سیکولر جمہوری نظام نے ﴿جو کہ غیراسلامی ہے﴾ ’’شہادت حق علی الناس‘‘ کی جو آزادی دے رکھی ہے، کیا اس کو ٹھکرادیاجاے کہ یہ غیراسلامی نظام سے ملی ہوئی آزادی ہے؟

۴۔اگر حکومت جماعت پر پابندی عائد کرکے اس کے شہادت حق واشاعتِ دین کے کام کو روک دے تو کیا ملک کے سیکولر جمہوری دستور ﴿جو کہ غیراسلامی ہے﴾ کے ذریعہ اس پابندی کو ہٹانے کی کوشش کرنا، اپنے نصب العین سے ہٹ جانے کے برابر ہے؟

۵۔حکام جمہور، اگر جماعت کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کریں،تو کیا جماعت صعوبتیں برداشت کرے یا ملک سے ہجرت کرے یا پھر ملک کے مروّجہ طریقہ سے وقتی طورپر فائدہ اٹھاکر رکاوٹوں کو دور کردے۔

اُمید کرتاہوں کہ آپ کے رسالہ کے ذریعہ احسن مستقیمی صاحب اپنی آرائ سے مطمئن کریں گے۔    والسلام

محبوب علی بلگانور

پرنسپل انجمن پی ۔یو کالج

سندگی586121ضلع بیجاپور ﴿کرناٹکا﴾

 

ہندوستان کے موجودہ سیکولر جمہوری نظام کی وضاحت میں جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کی قراردادیں ﴿۱۹۷۰؁-۱۹۷۴﴾ موجود ہیں۔ جنہیں ﴿قراردادیں ۱۱۹۶ئا ۱۹۹۷؁﴾ میں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت کے ایک فیصلے کے بموجب یہاں کے انتخابات میں حصہ لینے کا تعلق عقیدہ سے نہیں بلکہ حکمت عملی ﴿ Strategy﴾ سے ہے۔ ﴿ مجلس شوریٰ ۱۹۸۶؁﴾ اس کے باوجود برادر محترم مستقیمی اور دیگر مراسلہ نگاران زندگی نو بابتہ نومبر ۲۰۰۹؁ کے اس سلسلے کے اشکالات دور نہ ہوں تو کیا کیاجاسکتا ہے؟

جماعت اسلامی ہند کی قیادت کی روش یا طرزفکر سے یہ بعید تھا کہ بانی جماعت کے ماقبل آزادی ہند کے خیالات یاتحریروں سے براہ راست اختلاف کرکے اپنی آزادانہ رائے کا اظہارکرے۔ چنانچہ پڑوسی ملک ہجرت کرجانے کا معاملہ ہو یا آیندہ لائحہ عمل کو جاری رکھنے کا مسئلہ ہو یا سیکولر جمہوری نظام اور دستور ہند کے بنیادی حقوق ہوں یا یہاں کے انتخابات میں حصہ لینے کی بات ہو، جماعت کی مجلس شوریٰ کے فیصلے اور قراردادیں شاہد ہیں کہ وہ ماقبل آزادی کے طرزفکر سے جداگانہ ہیں اور انھی امور کے سلسلہ میں اس کے اِجتہاد کامظہر ہیں۔البتہ بانی جماعت کی رایوں سے اختلاف سلیقے اور استدلال کے ساتھ کیاگیا ہے۔

برادرِ محترم س م ملک صاحب نے اپنے مقالے میں جماعت کے فیصلوں اور قراردادوں کی روشنی میں جو کچھ لکھا ہے، اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ رہا نفس حاکمیت الہ اور موجودہ نظام کی شرعی حیثیت وغیرہ امور تو جماعت کے فیصلوں کے حوالے کے بغیر علمی گفتگو یا مباحث ان پر ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ کہ ۱۹۷۰؁ سے لے کر تاحال مرکزی مجلس شوریٰ نے ان امور پر اس قدر تفصیل سے غورو فکر کیا اور مناسب فیصلے کیے ہیں کہ جن کے باعث ان پر بھی اب غورو فکر کرنا لاحاصل اور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مجلس شوریٰ ہی اپنے فیصلوں اور قراردادوں کی صحیح تعبیر کرسکتی ہے۔ جب کہ موقر ماہنامہ کے ذریعہ یہ ناممکن ہے۔ ہمیں جماعت کی صفوں میں پراگندہ خیالی پیدا کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

مولانا ابواللّیث ندوی صاحبؒ کے موقف کا تذکرہ درج ذیل سطور میں موجود ہے:

’’مسئلہ کی اہمیت اور پیچیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا نے فرمایاکہ متعدد وجوہ سے اس مسئلہ میں جماعت کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور میرا رجحان جواز کی طرف ہے۔ بلکہ شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ جماعت کی اس ضمن میں پالیسی میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں موجودہ جمہوری و دستوری ڈھانچے پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانانے فرمایاکہ اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کے لیے مسلمانوں کاالیکشن میں حصّہ لینا ناجائز نہیں ہے۔ ایسا ان کا رجحان ہے نیز یہ مسئلہ منصوص نہیں ہے بلکہ اجتہادی اور استنباطی نوعیت کاہے۔ اس لیے اس میں غلظت اور شدت کا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔ مخالف رایوں پر بھی نظررکھنا ضروری ہے۔ پھر ہندوستان کے مختلف دینی مکاتب فکر کے علمائ بھی حصّہ لینے کے جواز کے قائل ہیں۔ خاص طور سے ایسے علمائ جن کے تقویٰ اور خلوص پر اعتماد کیاجاسکتا ہے۔ اس لیے بھی ہمیں سنجیدگی کے ساتھ ان حضرات کے دلائل پر غور کرنا چاہیے اور ان کو ضروری اہمیت دینا چاہیے۔

مولانا نے مزیدفرمایاکہ الیکشن میں اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کے لیے حصّہ نہ لینا مصالح امت اور جماعتی مفاد کے بھی خلاف ہے۔ مسلمانوں سے جماعت کا رشتہ منقطع ہوجاتاہے۔ پھر اگر الیکشن کی راہ اختیار نہیں کی جاتی ہے اور مسلمانوں کو مشورہ دیاجاتاہے کہ وہ بھی الیکشن سے الگ رہیں تو اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پھر جماعت اپنی روش سے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے طرزعمل کے بارے میں ایسی کھٹک پیدا کررہی ہے جس کی عنداللہ ہم پر ذمہ داری ہے۔ ان وجوہ سے اگرچہ میرے نزدیک الیکشن میں حصہ لینا مباح نہیں ہے لیکن حالات موجودہ جو اضطراری ہیں، ان کے پیش نظر الیکشن کی قباحتوں کے باوجود مسلمانوں کے لیے حصّہ لینے کو ناجائز اور غلط نہیں کہناچاہیے‘‘

﴿غیرمعمولی اجلاس مرکزی مجلس شوریٰ منعقدہ ۱۴ تا ۱۹/دسمبر ۱۹۶۱ بمقام دہلی﴾

مولانا محترم نے ’’مسئلہ انتخابات‘‘نامی کتاب میں جو موقف اختیارکیاتھا ﴿۱۹۵۰؁کے بعد﴾ اس کے برعکس اس موقف کو ملاحظہ کیاجاے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس مسئلہ میں وہ خاموش ہوگئے تھے۔؟  والسلام

سید شکیل احمد انور

۴۹۹، پرانی حویلی، حیدرآباد

 

اللہ تعالیٰ فریدی صاحب کو توانا و تندرست رکھے۔ کئی شماروں میں اُن کے اشارات نہ آنے سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ شاید ان مہینوں میں طبیعت زیادہ علیل رہی۔ ویسے توایک عرصہ سے موصوف کی طبیعت علیل چلی آرہی ہے۔ اللہ شفائے کاملہ و عاجلہ عطافرمائے۔ نومبر کے شمارے میں ‘‘اشارات’’ تحریر فرمائے ہیں یک گونا آگاہی بھی ہوئی اور خوشی بھی۔   والسلام

عبد الحمید

 

ماہنامہ زندگی دسمبر۲۰۰۸؁ میں ’’دعاکی فرضیت و فضیلت‘‘ صفحہ ۲۹ کے آخری حصّے میں دوسروں سے دعا کی گزارش کرنے کو غلط ثابت کیا ہے۔ یہ روایت کہاںسے حاصل ہوئی، جو حدیث کے بالکل مغائر ہے۔ جب کہ نبی کریمﷺ نے متعدد مرتبہ دشمنوں کے لیے دعائے خیر فرمائی اور نیک ہدایت کی دعافرمائی۔

حدیث سے ثابت ہے کہ جو کوئی اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعا کرتاہے تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتاہے۔ بندہ اپنے علاوہ دوسروں کی فکر کرتا اور دعاکرتاہے اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور فوراً دعا قبول فرمادیتے ہیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے دور خلافت میں حضرت عباسؓ سے دعا کی گزارش کی کہ آپ نبی کریمﷺکے چچا ہیں۔آپ کی دعا زیادہ اور جلد مقبول ہوگی۔ دوسروں سے دعا کروانے کے واقعات بہت ملتے ہیں۔

محض محدود کورس پڑھ کراور MAعربی یا PHDکی ڈگری حاصل کرکے علمائ کے مقام ومرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ علمائ علم کے سمندر ہیں۔ نائب انبیائ بھی ہیں۔ فتویٰ بھی دے سکتے ہیں۔جب کہ عام لوگ فتویٰ نہیں دے سکتے۔ قرآنی آیتوں کا غلط مطلب نکال کر گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر خواجہ معین الدین

9-4-90ٹولی چوکی، حیدرآباد

 

بعض اہم امور پر محترم احسن مستقیمی صاحب سے گفتگو کے سلسلے میں ایک تنقیدی مراسلہ جناب سید قاسم رسول الیاس صاحب کا دسمبر کے شمارہ میں پڑھا۔ اس مراسلے میں فرماتے ہیں:

’’موصوف ﴿مستقیمی صاحب﴾ کے خیال میں ‘‘رفتہ رفتہ بزرگوں کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد آنے والے کم فہم، بے علم اور ڈر اور خوف کاشکار ارکان شوریٰ نے جماعت کو راہ راست سے ہٹادی‘‘

اور یہ کہ محترم مستقیمی صاحب کاخیال ہے کہ وہ ﴿فیصلے﴾ قرآن وسنت کا براہ راست علم رکھنے والے علمائ کرام کی بجائے شوریٰ میں موجود علم دین سے بے بہرہ دانشوروں کی تائید سے ہورہے ہیں’’ اور یہ کہ

’’احسن مستقیمی صاحب کاخیال ہے کہ شوریٰ نے اپنی حدود سے تجاوز کیاہے‘‘

بحوالہ ﴿زندگی نو دسمبر ۹۰ صفحات ۸۸۔۸۹﴾

سوال یہ ہے کہ مستقیمی صاحب کے یہ ’’خیالات‘‘ مرکزی شوریٰ کے محترم رکن جناب سید قاسم رسول الیاس صاحب نے آخر مستقیمی صاحب کے کن الفاظ اور جملوں سے اخذ فرمائے ہیں؟ اس شائع شدہ گفتگو میں جس پر وہ تنقید فرمارہے ہیں۔ ان الفاظ اور جملوں کا تو کہیں نام ونشان نہیں ہے۔ کیا اس طرز استدلال کو مبنی بر انصاف قرار دیاجاسکتا ہے۔

مراسلہ نگارموصوف نے لکھاہے کہ

’’شوریٰ میں موجود علمائ کرام کی اکثریت اسے عقیدے کامسئلہ نہیں سمجھتی تھی‘‘

اب ذرا اختصار کے ساتھ مرکزی شوریٰ کے بعض اہم ارکان کی رائیں ملاحظہ فرمائیں:۔

۱۔            مولیٰنا سید احمد عروج قادری علیہ الرحمہ : ’’غیراللہ کے اقتدار اعلیٰ پر مبنی نظام حکومت سے تعاون حرام ہے۔ ووٹ دینا عقیدۂ توحید کے خلاف ہے‘‘۔

۲۔           مولیٰنا سیدحامد علیؒ : ’’حاکمیت کے بارے میں اسلام کا جو عقیدہ ہے الکشن میں حصّہ لینا اس عقیدے کے خلاف ہے‘‘

’’ہم جس طرف جماعت کو لے جاناچاہتے ہیں اسی طرف مسلمانوں کو بلانا چاہیے اور وہ راہ اقامت دین کی راہ ہے اسلام اور مسلمانوں کا مفاد اسی میں ہے‘‘۔

۳۔           جناب انعام الرحمن خاںؒ ’’اس نظام سے تعاون اللہ سے بغاوت میں تعاون ہوگا۔ غیراسلامی دستور کے تحت الکشن میں حصّہ لینا عقیدۂ توحید کے خلاف ہے‘‘۔

۴۔           ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی صاحب : ’’ہم اس نظام کو غیرجانبدار نہیں کہہ سکتے۔ اسے طاغوت کہہ سکتے ہیں کیو ںکہ وہ خدا سے بغاوت پر مبنی ہے‘‘۔

۵۔           مولیٰنا عبدالحیؒ رامپور: ’’پنچایتی انتخاب سے لے کر پارلیمنٹ تک ہر جگہ اس میں حصّہ لینا نقصان دہ ہوگا۔ حصّہ لینا مباح نہیں ہوگا‘‘۔

۶۔           محمد یوسف صاحبؒ ﴿سابق امیرجماعت اسلامی ہند﴾’’اصولی طورپر اس میں شرکت، تعاون اور نفوذ حرام ہے‘‘۔

۷۔           انیس الدین احمدؒ  ’’اضطراری حالت میں الکشن میں حصّہ لیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ صورت حال ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے‘‘۔

۸۔           مولیٰنا ابواللّیث ندویؒ : ’’اگرچہ میرے نزدیک الکشن میں حصّہ لینا مباح نہیں ہے۔ لیکن حالاتِ موجودہ اضطراری ہیں، اُن کے پیش نظر الکشن کی قباحتوں کے باوجود مسلمانوں کے لیے حصّہ لینے کو ناجائز اور غلط نہیں کہنا چاہیے۔ مرکز کے سرکلر کے جواب میں بھی اندازہ ہوتاہے کہ عام طور سے ووٹ دینے پر سے پابندی ہٹانے کاذہن نہیں ہے‘‘۔

اِن حضرات کے یہ تأثرات خود ان کے الفاظ و جملوں میں ہیں۔ جو مطبوعہ ہیں۔ آج بھی جو علمائ شوریٰ میں اور جماعت میں موجود ہیں ان میں شاید ہی کوئی قابل ذکر شخصیت ایسی ہو جو سیکولرجمہوری نظام اور الکشن کی سیاست میں ملوث ہونے کو درست سمجھتی ہو۔

مزید موصوف اپنے مراسلے میں فرماتے ہیں:

’’مستقیمی صاحب فرماتے ہیں کہ ‘‘مجلس نمائندگان میں دوبار کثرت رائے سے انتخابات میں حصّہ لینے کے خلاف فیصلہ ہوچکاتھا۔ اس کے بعد بھی مجلس شوریٰ نے اس کے حق میں فیصلہ کیا’’۔ لیکن جماعت میں پالیسی امور میں فیصلہ کرنے کی مجاز باڈی مرکزی مجلسِ شوریٰ ہے نہ کہ مجلس نمائندگان ۔ مجلس نمائندگان میں معاملہ اسی وقت جاتا ہے۔ جب وہ مجلس شوریٰ میں اختلافی قرار پائے اس لئے مجلس نمائندگان میں کسی بات کا کسی وقت فیصلہ ہوجانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اب اس پر غور وفکر باب مرکزی مجلس شوریٰ کے لیے بند ہوچکا ہے‘‘۔ ﴿صفحہ ۸۹﴾

میری گزارش یہ ہے کہ مجلسِ نمائندگان کی حیثیت ایوان بالا کی ہے۔ چونکہ یہ اختلافی مسائل کے حل کے لیے آخری ایوان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ مجلس نمائندگان میں اُسی وقت گیاہوگا ، جب مجلس شوریٰ میں اختلافی رہا ہوگا۔ اب اگر اس مسئلہ میں مجلسِ نمائندگان نے غورو فکر کے بعد کوئی فیصلہ کیاہے تو نظرثانی بھی مجلسِ نمائندگان کو ہی کرنی چاہیے۔ اگر مجلس شوریٰ پہلے ہی کسی فیصلے پر پہنچ جاتی تو مسئلہ مجلسِ نمائندگان میں آتا ہی نہیں۔ میں نے دستور جماعت کو کئی بار پڑھا ہے اور یہی سمجھاہے۔ دستور کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔

والسلام

مہرالدین رکن جماعت ، غازی آباد

۲۹/نومبر    ۲۰۰۹؁

مشمولہ: شمارہ جنوری 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223