مستشرقین اور حجّیتِ حدیث

ڈاکٹر کمال اشرف قاسمی

یہود و نصاریٰ پہلے دن سے اسلام اور مسلمانوں سے حسدکرتے آئےہیں ۔یہودبنی اسرائیل میں آخری نبی کی آرزو لیے بیٹھے تھے، لیکن بنی اسماعیل میں اس کے ظہور نے انہیںاسلام کا بدترین دشمن بنا دیا ۔چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے نکال دیا۔ پھر حضرت عمر فاروقؓنے ا ن کو ان کی سازشوں کی وجہ سے آخر کارجزیرہ سے ہی نکال باہر کیا ۔ انہوں نے فرمایاکہ مجھے اپنے محبوبؐ کا یہ ارشاد اچھی طرح یاد ہے کہ یہود و نصاری کو جزیرۃ العر ب سے نکال دو۔(ابوداؤد)

یہود ونصاریٰ نے بعد میں باہرسے اپنی سازشیں جاری رکھیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا نے کی کوششوں میں لگے رہے ۔ مسلمانوں کو ان سے بعد میں بہت سی جنگیں لڑنی پڑیں۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ صلیبی جنگوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’یورپ کی متحدہ عیسائی طاقتوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کیا۔دین مسیح اور صلیب کی حفاظت کے نام پر یورپ کے ان وحشی اور غیر مہذب دیوانوں نے جس سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کیا،نصرانیت کی تاریخ میں اسے ’مقدس لڑائی‘ کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ عیسائیوںاورمسلمانوںکی الم ناک کش مکش، جو تقریبادو صدی تک جاری رہی، تاریخ میں صلیبی جنگوں کے نام سے مشہور ہے۔(تاریخ اسلام ، ص ۳۵)

ان تخریبی کارروائیوں کے باوجودمسلمانوں میں کبھی تذبذب،اضطراب اور شکستگی کا احساس تک پیدا نہ ہوا ،بلکہ انہوں نے ہر میدان میں ثابت قدمی دکھائی ،جس کی وجہ سے وہ ان علاقوں میں نا قابل تسخیر سمجھے جانے لگے۔اسلام نے میدان جہاد کے علاوہ یہود و نصاری کے مسخ شدہ عقیدہ پر بھی ضرب لگائی، جس کی وجہ سے ان کے کم زورعقیدے والے ہی نہیں،بلکہ راسخ العقیدہ حضرات بھی رفتہ رفتہ اسلام کو گلے لگاتے جارہے تھے۔ ان حالات کو دیکھ کر انہوں نے اپنی پالیسی بدلی اور اسلام کے علمی مآخذ، تہذیب وثقافت اوراقدار پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔  اس کے لیے انہو ں نے پوری جاں فشانی سے اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا ۔ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ عربی زبان تھی۔ چنانچہ کو جنیوا کے کلیسانے عربی زبان کو مختلف یونی ورسٹیوں میںداخلِ نصاب کر نے کا فیصلہ کیا اور۱۷۸۳ء امیں اس کی پہلی کانفرنس منعقدہوئی ۔ اس تحریک کا نام استشراق(Orientalism) رکھا گیا۔(تراث الاسلام ، ۱؍۳۵)

مقاصد استشراق

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے تحریک استشراق  کے معرض وجود میں آنے کے چار محرکات بیان کیے ہیں :

(۱)          مذہب عیسوی کی اشاعت و تبلیغ کرنا اور اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنا کہ مسیحیت کی ترجیح اور برتری خود بخود ثابت ہو اور نئی نسل کے لیے مسیحیت میں کشش پیدا ہو ۔

(۲)          مشرق میں مغربی حکومتوں اور اقتدار کے ہر اول دستہ(Pioneer)کی موجودگی اور مغربی حکومتوںکو علمی کمک اور رسد پہنچانا ۔نیز ان مشرقی اقوام ممالک کے رسم ورواج ، طبیعت ومزاج ،اور زبان وادب بلکہ جذبات ونفسیات کے متعلق صحیح اور تفصیلی معلومات باہم پہنچانا ۔

(۳)          اقتصادی طور پر مضبوط ہو نا ۔متعدد مغربی لوگ اس فکر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر کے مشرقیات اور اسلامیات کی کتابیں تحریر کرتے ہیں ،جن کی یورپ اور ایشیا میں بڑی منڈی ہے ۔اس ذریعہ سے وہ ناشرین سے بہت سے مالی فوائدحاصل کرتے ہیں۔

(۴)         بعض فضلاء مشرقیات و اسلامیات کو اپنے علمی  ذوق و شغف کے ما تحت بھی اختیار کرتے ہیں اور اس کے لیے دیدہ ریزی،دماغ سوزی اور جفاکشی سے کام لیتے ہیں،جس کی داد نہ دینا اخلاقی کوتاہی اورعلمی نا انصافی ہے۔ان کی مساعی سے بہت سے مشرقی و اسلامی علمی جواہر وعلمی نوادرات پردۂ خفاسے نکل کر منصئہ شہودپر آئے۔متعددعلمی اسلامی مآخذاور تاریخی وثائق ان کی محنت و ہمت سے پہلی مرتبہ شائع ہوئے۔

اس علمی اعتراف کے باوجودمستشرقین عمومی طور پر اہل علم کاوہ بد قسمت و بے توفیق گروہ ہے جس نے قرآن و حدیث، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم،فقہ اسلامی اور اخلاق و تصوف کے سمندر میں باربار غوطہ لگائے اور بالکل خشک دامن اور تہی دست واپس آیا، بلکہ اس کا عناد ،اسلام سے دوری اور حق کا انکار کا جرم اور بڑھ گیا ،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک نتائج ہمیشہ مقاصد کے تابع رہے ہیں۔

علم حدیث پر مستشرقین کے الزام تراشیاں

عصر حاضر میں مستشرقین نے اسلام کے خلاف ایک اور محاذ کھول رکھا ہے ۔ ان کی کوشش ہے کہ اسلامی تعلیمات کو غیر عقلی اور غیر فطری ثابت کیا جا ئے اور یہ باور کرایا جائے کہ اسلامی تعلیمات بنیادی انسانی  حقوق سے متصادم ہیں اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو نے کی وجہ سے نا قا بل عمل ہیں۔اس وقت یہ محاذمسلمان اہل علم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔حضرت شاہ ولی اللہ (م ۱۷۶۴ء) نےحجۃ اللہ البالغۃ میں جس طرح مقاصدِ شریعت کو واضح کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو انسانی عقل ودانش کا تقاضا قرار دیا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ آ ج کی زبان اور محاورے میں دین کی تعبیر و تشریح کیے اس اسلوب کو جدید علم کلام کی روشنی میں بیان کیا جائے ۔

مستشرقین نے علم حدیث پر جو بنیادی اعتراضات کیے ہیں ، ذیل میںانہیں بیان کیا جاتا ہے :

(۱) مستشرقین نے علم حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ دور اول کے مسلمان حدیث کو حجّت نہیں سمجھتے تھے۔ یہ خیال مسلمانوں میں بعد میں رائج ہوا۔

مستشرق جوزف شاخت نے لکھا ہے کہ امام شافعی (م۲۰۴ھ)سے دو پشت پہلے احادیث کی موجودگی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ شاذ اور استثنائی واقعہ ہے۔

مستشرق آتھر جیفری کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ان کے ماننے والوں کی بڑھتی تعداد نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی راہ نمائی موجود نہیں ہے، لہٰذا ایسے مسائل کے حل کے لیے احادیث کی تلاش شروع کی گئی ۔

(۲) محدثین کے ہاں سند کی جو اہمیت ہے،وہ دلائل کی محتاج نہیں، حتی کہ انہو ں نے سند کو دین قرار دیا ہے ۔مستشرقین چوں کہ سند کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں ،اس لیے انہوں نے سند کو من گھڑت قرار دے کر احادیث کو نا قا بل اعتبارقرار دینے کی کوشش کی اور دعوی کیا کہ اس دور میں لوگ مختلف اقوال اور افعال کورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے ۔کیتانی اور اسپرنگر ان مستشرقین میں شامل ہیںجن کے نزدیک سندکا آغاز دوسری صدی کے اواخر یا تیسری صدی کے شروع میں ہوا ۔

مستشرق گولڈ زیہر امام مالک (۱۷۹ھ) پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انہوں نے سند کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کوئی مخصوص طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ اکثر وبیش تر وہ عدالتی فیصلوںکے لیے ایسی حدیث بیان کرتے تھے جن کا سلسلۂ سند صحابہ تک نہیںپہنچتا تھا۔جب کہ جوزف شاخت کا کہنا ہے کہ اس مفروضے کو قائم کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اسناد کے با قاعدہ استعمال کا رواج دوسری صدی سے قبل ہو چکا تھا ۔منٹگمری واٹ نے سند کے مکمل بیان کو امام شافعی کی کوششوںکا نتیجہ قرار دیا ہے۔

(۳)مستشرقین نے کہا کہ بہت سی احادیث و روایات یہود و نصاری کی کتب سے متاثر ہو کر گھڑی گئی ہیں۔ مثلاًوہ احادیث جن میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کسی معجزانہ شان کا ذکر ہے ۔ ان پرتبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورانٹ (Will Durant)کہتا ہے کہ’’ بہت سی احادیث نے مذہب اسلام کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔( محمدصلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس معجزات دکھانے کی قوت ہے،لیکن سیکڑوں حدیثیں ان کے معجزانہ کار ناموں کا پتہ دیتی ہیں۔ اس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ بہت سی احادیث عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تشکیل پزیر ہوئیں۔

اس قسم کا دعویٰ کرنے والوں میں فلپ کے ہٹی بھی قابل ذکر ہے

(۵)مستشرقین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ چوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے منع کر دیا تھا ،اس لیے دور اول کے علماء نے علم حدیث کی حفاظت میں سستی اور لا پروائی سے کام لیا، جس کے نتیجہ میں یا تو حدیثیں ضائع ہو گئیں یا پھر ان میں اس طرح کا اشتباہ پیدا ہو گیا کہ پورے یقین کے ساتھ کہنا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، ممکن نہیں ۔ مستشرق الفرڈ گیوم (Alfred Guillaume)لکھتا ہے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حدیث کے بعض مجموعے اموی دور کے بعد مدوّن ہوئے۔

مشہور مستشرق میکڈونلڈلکھتا ہے کہ بعض محدثین کا صرف زبانی حفظ پر اعتماد کرنا اور ان لوگوں کو بدعتی قرار دینا جو کتابت حدیث کے قائل تھے ،یہ طرز عمل بالآخر سنت کے ضائع ہونے کا سبب بنا ۔

مستشرقین نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت ان عظیم شخصیات کو  اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو حدیث و سنت کے جمع وتدوین اور حفاظت میں بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اس مقصد کے لیے انہوں نے جن شخصیات کو خاص طور پر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ان میں ایک تو مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ (م۵۹ھ)اور دوسرے نام ور تابعی امام ابن شہاب زہری (م۱۲۴ھ)ہیں۔گولڈ زیہر (م۱۹۲۱ء)نے حضرت ابو ہریرہؓ پر وضع حدیث کا الزام عائد کیا اورمحدث امام ابن شہاب زہری پر اتہام باندھا ہے کہ وہ بنو امیہ کے مذہبی اور سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے احادیث وضع کرتے تھے۔

جوزف شاخت امام اوزاعی(م۱۵۷ھ)پر وضع حدیث کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’ان کے زمانے میں مسلمانوں میں جو بھی عمل جاری تھا،اس کو رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کردینے کا رجحان تھا،تاکہ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید حاصل ہوجائے،خواہ حدیث اس عمل کی تائید کرتی ہو یا نہ کرتی ہوں۔امام اوزاعی کا یہی عمل تھااور اس رجحان میں عراقی فقہاءامام اوزاعی کے ساتھ تھے‘‘۔

یہ الزامات صحیح نہیں

مستشرقین کے ان گم راہ کن نظریات کی ایک وجہ تو ان کی ہٹ دھرمی اور اسلام سے ان کی عداوت کو قرار دیا جاسکتا ہے ، ان کا طرز عمل یہی رہا ہے کہ جو چیز یں ان کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں ،اگر ان کو کلّی طور پر رد کرنا ممکن نہ ہو تو کم ازکم ان میں اشتباہ ضرور پیدا کردیا جائے ۔علم حدیث کے بارے میں یہ لوگ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اس کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی سے لگا سکتا ہے جو عالم اسلام میںـانکارحدیث کے فتنہ سے واقفیت رکھتا ہے ۔ اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ فتنہ انکار حدیث کا فکری سر چشمہ مستشرقین کے یہی افکار و نظریات ہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چوں کہ مستشرقین نے زیادہ تر حقائق کی جستجو میں اسلام کے اصل مصادر و مراجع کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ثانوی مآخذپر اکتفا کیا ہے، اس لیے اصل حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔

مستشرقین کا یہ الزام کہ مسلمانوں میں حدیث کی اہمیت اور اس کی حجیت کا تصور بعد کے دور کی پیدا وار ہے ،قطعی غلط ہے ۔ اس کو تسلیم کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کو اس کے اصل تشخص سے ہی محروم کردیاجائے۔ مولانا پیرکرم شاہ نے لکھا ہے :

’’اگر احادیث کی اہمیت اور حجیت کا ثبوت صرف احادیث طیبہ اور تاریخ اسلام کی مد سے ہی پیش کرنا پڑتا تو مستشرقین اپنے خیالات کے مطابق اسے بڑی آسانی سے رد کر سکتے تھے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے احادیث کی اہمیت اور حجیت کو قرآن میں بیان کردیا ۔قرآن کی بے شمار آیات احادیث کی اہمیت وحجیت کو ثابت کر رہی ہیں۔مستشرقین کی ایک معقول تعداد اب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں جو قرآن ہے ،یہ بعینہ وہ ہے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے سامنے پیش کیا تھا۔اس لیے وہ قرآن کی کسی آیت کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بعد کے مسلمانوں نے خود گھڑی ہے،۔ جب کہ قرآن کی بے شمار آیات احادیث طیبہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کو بیان کررہی ہیں۔ تویہ کیسے ممکن ہے کہ دور رسالت کے مسلمانوں نے احادیث طیبہ کو کوئی اہمیت نہیں دی ہواور صدی ،ڈیڑھ صدی بعد مسلمانوں کو مجبوراً احادیث کی طرف متوجہ ہونا پڑا ہو ؟ ۔ ‘ ‘ (ضیاء النبی ، ۷؍۲۸)

سوال یہ ہے کہ وہ تمام آیات جس میں آپؐ کی اطاعت اور اتباع کا حکم ہے اور مستشرقین کی ایک بڑی تعداد تسلیم بھی کرتی ہے کہ قرآن اپنی اصل شکل میں محفوط ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں نے ان آیات کو کوئی اہمیت نہ دی ہو جن میں رسولؐ کی اتباع کو جزوایمان قرار دیا گیا ہے ۔

یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو ان تمام قرآنی آیات کا علم نہ تھا جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ؟کیا ان مسلمانوں کو قرآن کو سمجھنے اور اس کے احکام پر منشائے خداوندی کے مطابق عمل کرنے کے لیے رسولؐ کی راہ نمائی کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی ؟کیا انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا تھا کہ ان کا نبیؐ صرف مبلّغِ کتاب ہی نہیں، بلکہ معلّمِ کتاب و حکمت بھی ہے؟وہ چیزیں جن کی حرمت کا فیصلہ قرآن نے نہیں، بلکہ نبی ؐنے کیا تھا؟کیا قرون اولیٰ کے مسلمان ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے تھے ؟ عجیب بات ہے کہ مستشرقین اور ان کے ہم نوا دیگر اہل مغرب چودھویں صدی کے مسلمانوں کو تو بنیاد پرست سمجھتے ہیں اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ قرآن کی بے شمار آیات، جو اطاعت رسولؐ کا حکم دے رہی تھیں،ان کی طرف ان کی توجہ نہ تھی ۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہر زمانے کے مسلمان رسولؐ کی اطاعت کو فرض سمجھتے تھے ،قرآن کے اسرار ورموز کو سمجھنے کے لیے رسولؐ کی راہنمائی کو ضروری سمجھتے تھے،وہ احکام قرآنی پر رسولؐ کے عملی نمونے کی روشنی پر عمل کرتے تھے ،وہ رسولؐ کو معلّمِ کتاب و حکمت اور مزکی قلوب سمجھتے تھے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ وہ جس طرح قرآن حکیم کو دین کا اول  مصدر سمجھتے تھے ،اسی طرح سنت رسولؐ کو اور احادیث طیبہ کو مصدر ثانی سمجھتے تھے۔(حوالہ سابق ص ۵۴)

قرآن مجید کے کتنے ہی احکام ایسے ہیں جن پر اس وقت تک عمل ممکن نہیں جب تک کہ حدیث و سنت کو ساتھ نہ ملا یا جائے ۔ مثلاً :نماز ، روزہ،زکوٰۃ،اور حج جیسی بنیادی عبادات پر اس وقت تک عمل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ سنتِ رسول کوراہ نما نہ بنایاجائے۔

جہاں تک سوال فتنۂ وضع حدیث کا ہے تو یہ کوئی ایسا انکشاف نہیں ہے جس سے مسلمان آگاہ نہیں تھے ، اور مستشرقین نےاس کا پتہ چلایا ہے ، بلکہ حفاظتِ حدیث کے پورے نظام پر نظر رکھنے والاکوئی شخص باور کرسکتا ہے کہ محض کہہ دینے سے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، لوگ مطمئن نہیں ہو جاتے تھے،بلکہ پوری تحقیق کے بعد اسے قبول کیاجاتا تھا ۔ایک ایسا معاشرہ، جہاںیہود و نصاری اور منافقین اہل ایمان کے خلاف مسلسل بر سر پیکار تھے،ان کے لیے ضروری تھا کہ کسی بھی خبر کو قبول کرنے سے پہلے خبر لانے والے کے کردار اور عمومی طرز عمل کو پیش نظر رکھیں ۔اس لیے ایک ایسا معاشرہ جس کے افراد کی تربیت روایت و درایت کے لازوال اصولوں کی روشنی میں ہوئی ہو،ان میں موضوع روایات کا رواج پذیر ہونا کسی صورت میں ممکن نہ تھا، پیرکرم شاہ ازہری فتنۂ وضع حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’اس بات سے انکار نہیں کہ دشمنان اسلام نے سنت رسول کے چشمئہ صافی کو گدلا کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے ایسی باتوں کو آپؐ کی طرف منسوب کرنے کی کوشش بھی کی جو آپؐنے نہ فرمائی تھیں ،لیکن صورت حال یہ نہ تھی کہ ایسے کم بختوں کی مذموم کاروائیوںکو کسی نے روکانہ ہو ۔حدیث گھڑنے والے گھڑتے رہے، لیکن وہ لوگ جن کی نظریں قرآن حکیم کی ان آیات پر تھیں جو کسی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کا سبق دیتی ہیں، یاجوافتراء علی اللہ کو ظلم عظیم قرار دیتی ہیں اور جن لوگوں کی نظریں آپؐکی اس حدیث پر تھیں جو جھوٹی حدیث گھڑنے والوں کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا رہی ہے،ایسے لوگوں نے کبھی ان لوگوں کو کھیلنے کا موقع نہیں دیاجو احادیث طیبہ کے چشمئہ صافی کو گدلا کرنا چاہتے تھے۔ قرآن حکیم نے انہیں فاسق کی خبر کے متعلق محتاط رہنے کا حکم دیا ہے۔‘‘(حوالہ سابق ص ۶۰۔۶۱)

اسماء الرجال جیسے فن کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے، جس میں دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم سری کا دعوی نہیں کر سکتی۔اس علم کی بدولت محدثین نے لا کھوں انسانوںکی زندگیوں کے شب وروز ،ان کے اخلاق و کردار اور ان کے انداز زیست کاریکارڈ جمع کردیا اور ہر خبر کے راویوں کا کھوج لگایا تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ کسی حدیث کے سلسلۂ سند میں کسی فاسق و فاجر اور کذاب کا نام تو نہیں آتا۔محدثین کی ان عظیم الشان کوششوں کا اعتراف مستشرقین نے بھی کیا ہے ۔ڈاکٹراسپرنگرلکھتے ہیں :

’’ مسلمانوں کے علمی ذخیرے کی شان ان کے سوانحی ادب میں نمایاں ہوتی ہے،(دنیا میں) ایسی کوئی قوم نہ تھی نہ ہے جس نے مسلمانوں کی طرح بارہ صدیوں میں علم و ادب سے تعلق رکھنے والے ہر آدمی کے حالات زندگی محفوظ کیے ہوں۔اگر مسلمانوں کے سوانحی ذخیرے کو جمع کیا جائے تو ہمیں کم و بیش پانچ لاکھ ممتاز افراد کے حالاتِ زندگی میسر ہوں گے اور یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان کی تاریخ کا کوئی عشرہ یا کوئی اہم مقام نہیں جس کی نمائندگی کرنیوالے لوگ (اس ذخیرے میں)نہ پائے جاتے ہوں۔‘‘(حوالہ سابق، ص ۱۲۴)

اسلام نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ و ہ کسی نئی دعوت کا علم بردار ہے، بلکہ وہ تو پہلے ہی سے اس بات کا داعی ہے کہ اس کی دعوت سابقہ انبیاء کی دعوت کا تسلسل ہے اور اسلام اس دین کا مکمل ترین ایڈیشن ہے جس کی ابتدا حضرت آدم سے ہوئی تھی ۔ لہٰذا اگر اسلام کی بنیادی تعلیمات کی اصل سابقہ الہامی کتابوں میں پائی جائے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ اصولی طورپر اسلام اور سابقہ انبیاء کی دعوت کے بنیادی نکات ایک ہی ہیں۔ خود قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ سابقہ الہامی کتابوں کی غیر محرف تعلیمات کی تصدیق کرنے والا اور ان کی اصل شکل کو بیان کرنے والا ہے۔ (النساء:۴۷، المائدہ:۴۸)یہی وہ پس منظر ہے جس میں قرآن نے اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے صاف طورپر کہا : ’’اے اہل کتاب! آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔‘‘(آل عمران:۶۴) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام کا مرکز ومحور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور کسی بھی شخص کا دعویٔ اسلام اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب تک اس کا دل اللہ کے رسولؐ کی محبت سے لبریز نہ ہوں –

رہی یہ بات کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثیں لکھنے سے منع کردیا تھا ، اس کا جواب ان کی نکات کی شکل میں دیاگیا ہے:

۱۔            کتابتِ حدیث کی ممانعت والی رویات منسوخ ہیں، کیوں کہ ان کا سیاق وسباق ، تاریخی پس منظر اور دیگر شواہد اس موقف کی تائید کرتے ہیں ۔ پھر صحابہ کرام کی کثیر تعداد کا کتابتِ حدیث کی طرف عملی رجحان ان احادیث کے مفہوم کو متعین کرنے میں ہمارے لیےحجت ہے۔

۲۔           جمع وتطبیق کے اصول کی روشنی میں بھی ان روایات کا مفہوم متعین کیا جاسکتا ہے۔ یعنی نہی نزول قرآن کے وقت التباس کی وجہ سے کی گئی تھی،لیکن جب التباس کا خطرہ نہ رہا تو آپؐ نے احادیث لکھنے کی اجازت دے دی۔

۳۔           ان روایات کی ایک توجیہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ آپؐ نے ایک ہی صفحے پر قرآن مجید کے ساتھ احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا، جیسا کہ کئی روایات سے اشارہ ملتا ہے، جب کہ احادیث کو الگ صفحات پر لکھنے کی اجازت تھی۔

۴۔           ممانعت کا حکم ان لوگوں کے لیے تھا جو حدیث کے حفظ کرنے میں اور باہم مذاکرہ کرنے میں سستی کا شکار ہورہے تھے اور صرف کتابت حدیث پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ شاید اسی پس منظر میں آپؐ نے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی فرمائی تھی جو حدیث کو یاد کرتے ہیں اور اس کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں،جب کہ جو لوگ حفظ کے خوگرتھے ان کو آپ کی طرف سے احادیث لکھنے کی اجازت تھی۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2015

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau