جب ہم اسلامی تمدن کی بات کرتے ہیں تو ہم اس تمدن کی بات نہیں کرتے ہیں جو دور قدیم میں زمین کے اس خطے میں پایا جاتا تھا جسے آج ہم عرب دنیا یا مسلم دنیا کہا کرتے ہیں۔ بلکہ ہم اس آئیڈیا پر بات کریں گے جس نے دنیا بھر میں سوچ کے دھارے کو بدل دیا، حیات دنیوی کو سہولت بخش بنانے میں ایجادات کا سلسلہ شروع کیا اور سارے انسانوں کے لیے خوشحالی اور ترقی کے تصور کو عام کیا۔ یہ صرف مسلمانوں کا تمدنوںنہیں تھا بلکہ اس نے سارے انسانی معاشرے کو متاثر کیا جس کے درخشاں آثار آج بھی دنیا کے مختلف تمدن میں نظر آتے ہیں۔ مسلم تمدن کے روشن آثار ایک الگ مضمون کا متقاضی ہیں۔ یہاں اتنا درج کرادینا ضروی محسوس ہوتا ہے کہ آج دنیا مطالعہ اور تحقیق کے جس منہج کو سائنسی طرز فکر کہتی ہے اس کی اساسیات قرآن سے ماخوذ ہیں۔ عدل، آزادی اور مساوات کے نعرے آج جہاں بھی بلند ہورہے ہوں، وہ دراصل اسلامی تمدن کی عطا ہے۔ بہبود پر مبنی انتظامیہ کا رویہ اور عادل حکم رانوں کی عدل گستری اسلامی تمدن کی خشت اول رہی ہے۔ عادلانہ معیشت کی بازگشت اور فلاحی ریاست کے طرز حکم رانی کا غلغلہ جہاں بھی اٹھتا ہے، اس میں اسلامی تمدن کی روح اور اس کے اثرات کا سراغ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اسلامی تہذیب کی طرح اسلامی تمدن کی بنیادیں بھی قرآن و سنت میں پیوست ہیں۔ قرآن کی بیشتر آیتیں، تمثیلات اور قصص بالواسطہ یا بلا واسطہ غور و فکر پر ابھارتے ہیں، آثار فطرت و کائنات کا مشاہدہ کرنے اور فطرت کے راز کو دریافت کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں اور انسانی تمدن کے لیے استخلاف اور استعمار فی الارض کی تشویق پیدا کرتے ہیں۔ اسلامی تمدن کی بنیادوں کو دریافت کرنے کا دوسرا ذریعہ نبوی معاشرہ ہے۔ جس اسلامی سوسائٹی کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ڈالی وہاں سے اسلامی تمدن کی شروعات ہوتی ہے اور اس کا سلسلہ صدیوں تک دراز رہا ہے جس میں قدرتی وسائل کا مفاد عامہ کے لیے استعمال، کائنات کا سائنسی مطالعہ، نئے علوم و فنون کی دریافت شامل ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کو سمجھنے کا ایک تیسرا بڑا ذریعہ وہ دور ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے متصل تھا، جسے دنیا ’اسلام کے سنہرے دور‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اس دور میں جو وسائل حیات کی دریافتیں ہوئیں اور ان کے استعمالات میں جو ترقیاں ہوئیں، آج دنیا ان کی مرہون منت ہے۔ اُس دور میں جو تمدنی جلوے مسلم سماج میں نظر آ تے ہیں، وہ بھی اس موضوع سے متعلق ہیں۔ مگر ہم اس مضمون میں ان پر گفتگو نہیں کریں گے۔ ہم اپنی گفتگو کو صرف ان بنیادوں پر مرکوز رکھیں گے جو قرآن اور سیرت میں ہمیں ملتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دانش وروں میں سے کوئی مسلمانوں کے دور اول کی تمدنی ترقی کے سلسلے میں یہ رائے رکھے کہ اس تمدنی کارناموں میں ہم سے پہلے کی اقوام کی دریافتیں بھی شامل ہیں، جنھیں مسلمانوں نے اپنی تہذیب کے مطابق ڈھال لیا۔ مگر جب قرآن و سنت کے حوالے دیے جائیں گے تو اس سے کسی کو اختلاف ممکن نہیں۔ یہ مسلّم ہے کہ قرآن ایک اصولی کتاب ہے جس نے زندگی کے تمام گوشوں کے لیے بنیادیں فراہم کی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عملی نمونہ اور خاکہ اپنے زمانے میں پیش کیا جو اپنے وقت سے بہت آگے کی چیز تھی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوہ ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اور مسائل حیات کی ہر گتھی سلجھانے کے لیے آپ ﷺ ہی کی مبارک زندگی میں رہ نمائی تلاش کریں گے۔ یہاں تک کہ تہذیب و تمدن کے معاملے میں بھی رہ نمائی کے لیے ہم انھیں کی حیات مبارکہ کی طرف رجوع کریں گے۔ نبی بننے کے بعد آپ کی روز مرہ کی زندگی میں ہمیں رہ نمائی ملے گی۔ خواہ وہ خانگی پہلو ہو یا سماجی، معاشیات سے متعلق ہوں یا مذہبیات سے، امور سیاست ہوں یا جنگی اسکیمیں و صلح نامے، ان سب کو ہم نبی کے کارنامے کی حیثیت ہی سے دیکھتے ہیں اور جب ضرورت پڑے ان کی طرف رجوع کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق اس زمین پر انسان سب سے عظیم مخلوق ہے۔ اس کی حیات دنیوی کے لیے اسلام نے جو ضابطے مقرر کیے ہیں ان میں کچھ پابندیاں ہیں اور باقی سب امور و معاملات میں انسانی حاجات، ضروریات، مصالح مرسلہ اور اس کی تحسینیات کا خیال رکھا گیا ہے۔[1]
اسلام نے جہاں اس کی روحانی ضروریات کو ایڈریس کیا ہے، وہیں اس کی دنیاوی زندگی کو بہتر و خوشگوار بنانے کےسلسلے میں رہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اور کیسے ممکن ہے کہ اسلام اس کے دنیوی امور میں رہ نمائی سے پہلوتہی کر لے جب کہ وہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ دین ہے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام انسانوں کے سماجی، معاشی، سیاسی امور کو ایڈریس کرتا ہے اور تمدنی ترقی، سہولیات اور آسائش کی راہوں کو کشادہ کرنے کے لیے روشنی بھی عطا کرتا ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جو مذہب پر عمل کرنے کے نتیجے میں اچھی دنیوی زندگی کی بشارت دیتا ہے۔[2] جب کہ دوسرے مذاھب صرف مابعد الموت نجات کی بات کرتے ہیں اور اس دنیا میں تمدن و ترقی کے بارے میں یا تو خاموش ہیں یا ان کے نزدیک وہ غیر محمود ہے۔
اسلامی تمدن اسلامی روحانیت اور مذہبی امور کی کماحقہٗ ادا ئیگی کے جذبے کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی طرز فکر میں عبادات کا پہلو انتہائی اہم ہے اور جب ہم یہ کہیں کہ اسلامی عبادات نے اسلامی تمدن کو جنم دیا تو ہو سکتا ہے کہ بہتوں کو تعجب ہو۔ مگر حقیقت یہی ہے اسلامی تمدن کے شجر سایہ دار نے اسلامی عبادات ہی کے بیج سے جنم لیا۔ اگر کائنات کا سائنسی مطالعہ نہ ہوتا اور سائنسی آلات کی ایجادات نہ ہوتیں تو اسلامی عبادات کی عمارت ناپائیدار بنیادوں پر کھڑی رہتی، اسلام کا تصور امت ناقص رہ جاتا بلکہ ان سے وہ فوائد حاصل نہیں ہو پاتے جو ان میں پنہاں ہیں۔
اسلامی شریعت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اور انسانی سماج کو اتنا اونچا اٹھایا جائے کہ وہ اپنے درجہ کمال کو پہنچ جائے۔ غور و فکر کی جو استعداد اس کو بخشی گئی ہے اس کے استعمال سے وہ کائنات کی وسعتوں میں پھیلے، زمین کو ادھیڑ کر اس کے مدفون و مخفی خزانوں کو برآمد کرے اور سمندر کی گہرائی میں ڈوب کر زیرآب دنیا کی نعمتوں سے بھی بہرہ ور ہو۔ فقہ کی زبان میں شریعت کے پیش نظر ہر وہ کام مستحسن ہے جس سے انسانیت کا فائدہ ہو اور وہ سرگرمیاں بھی لائق تعریف ہیں جن سے انسانوں کو ضرر سے بچایا جائے۔ ہمارے فقہا نے لکھا ہے کہ شریعت کے پیش نظر یہ دو اہم ترین مقاصد ہیں:
دفع شر: اسلام روحانی اور مادی پاکیزگی کو فروغ دیتا ہے، جس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ فرد اور سماج صحت مند رہیں، اسراف و تبذیر سے بچیں، معاشی استحکام آئے، زندگی ترقی پذیر ہو اور تکریم و خوشحالی سے مالا مال ہوں۔ اسلامی تمدن کے ارتقا میں یہ نکتہ اہم ترین رہا ہےکہ اس کی کسی ایجاد اور کسی دریافت سے انسانی سماج کے کسی ایک فرد کا بھی روحانی ذہنی معاشی نقصان نہ ہو اور ہورہا ہو تو اس سے اسے بچایا جائے۔
جلب منفعت: اسلامی تمدن میں حصول علم تحقیق دریافت کا مقصد دراصل انسانی زندگی کو بہتر بنانا ہے تاکہ حیات دنیوی حیات اخروی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ کسی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اچھے مشورے دینا اس لیے ضروری ہے کہ دین نصیحت کا نام ہے۔ طیب ذرائع اختیار کرنے پر ابھارا گیا۔ خود غرضی،خود پسندی اور خود مرکزیت کو مذموم قرار دیا گیا۔ حصول علم کو فرض قرار دیا گیا جس میں تمام علوم شامل ہیں جنھیں آج دینی علوم اور دنیاوی علوم میں بانٹ دیا گیا ہے۔ سماج میں مختلف مذاہب کے ساتھ پرامن بقائے باہم کی تعلیم دی گئی اور مذہبی امور میں جبر سے روکا گیا تاکہ خوشحال اور پرامن سماج ظہور میں آئے۔[3]
قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور جب وہ ایسا ہے تو زندگی کا کوئی گوشتہ کیسے تشنہ رہ جائے گا؟ اسلامی روح اور تعلیمات سے متغایر یہ بات ہوگی کہ زندگی کے بعض پہلوؤں میں قرآن نے ہماری رہ نمائی نہیں کی ہے۔ اسلام صرف عبادات کا مذہب نہیں ہے، جیسا کہ عام معنوں میں مذہب کے لفظ کا غلط استعمال ہوتا ہے بلکہ زندگی کی ساری ضروریات کی تفصیلات قرآن و سنت کی روشنی میں ترتیب پائے، اسلام اس سلسلے میں معاشرے کو حساس بناتا ہے۔ دنیا کے سارے امور تقوی، اقدار اور اسلامی اصولوں کے مطابق انجام پائیں تو وہ بھی اسلام کی نگاہ میں عبادات میں زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔
قرآن عظیم تمدن کو جنم دینے کا طاقت ور محرک
اس سے پہلے کے مضامین میں یہ بات آچکی ہے کہ کائنات میں پنہاں رازوں کو دریافت کرنا، زمین کے اوپر، زمین پر اور زمین کے نیچے جو قدرتی وسائل ہیں ان کی ماہیت، افادیت اور خاصیت کو دریافت کرنا اور انھیں انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کی راہیں نکالنا تمدن کا موضوع ہے۔ قرآن نے کائنات کے اجزا کے بارے میں بتایا کہ ان سب کو اللہ تعالی نے انسانی زندگی کی منفعت کے لیے مسخر کر رکھا ہے۔ آسمان و زمین کی خلقت میں، زمین کے کرہ کی شکل ہونے میں، رات اور دن کے باری باری آنے اور جانے میں، سورج کی گرمی میں اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے میں، خدا کی رحمت کا پیغام لانے والی ہواؤں میں، پانی کے بخارات سے بوجھل پہاڑ جیسے بادلوں کے چلنے میں، زمین پر موسلا دھار بارش کے برسنے میں، زمین سے انواع و اقسام کے پھولوں اور پھلوں کے نمودار ہونے اور پکنے میں، پہاڑوں کو زمین پر میخوں کی طرح گاڑنے میں، سردی گرمی اور جنگوں میں پہننے کے لیے کپڑوں کی دریافت میں, انسانوں کے مٹی سے، پھر نطفے سے بننے میں، حمل کے مرحلوں میں، وضع حمل اور عمر کے مختلف مرحلوں سے گزرنے میں, اونٹوں کو انسانوں کے لیے صحرا کی کشتی بنائے جانے میں، شہد کی مکھی کی سرگرمیوں اور خود شہد میں، گائے کے گوبر اور خون کے درمیان سے نکلنے والے دودھ میں، گھوڑوں کی جان نثاری میں، کتے کی وفاداری میں، پرندوں کی چہچہاہٹ میں، خنزیر کی حرمت میں, جانوروں کی بار برداری، اون، گوشت اور خوش نمائی میں غور و فکر کرنے والے اولو الالباب کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں اور مومنوں کا شیوہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان میں وہ غور و فکر کرتے ہیں۔[4]
قرآن وہ بے مثال کتاب ہے جو آفاق و انفس کا معروضی مطالعہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس سے قبل انسان کائنات کی مہیب چیزوں کو دیکھ کر ان کے آگے سرنگوں ہو جاتا تھا۔ صدیوں سے ان پر پڑے سربستہ رازوں سے قرآن نے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ یہ سب خدا کی مخلوق ہیں، ایک نظم میں بندھی ہوئی ہیں جس سے وہ یک سر مو انحراف نہیں کر سکتیں اور یہ سب انسانوں کی خدمت پر مامور ہیں۔ قرآن کائنات کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے اور ہر چیز کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ جسے ہم آج سائنسی طرز تحقیق کہتے ہیں قرآن نے اپنے پڑھنے والوں کو اس طریقے کا تعارف کرایا۔
سائنس داں کے اس طریقہ تحقیق کو جس کی روح کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ ہے سائنٹفک میتھڈ کہا جاتا ہے۔ اس سائنسی طریقہ تحقیق کے چار مراحل ہوتے ہیں[5]۔
- اول تجربہ (experiment)
- دوم مشاہدہ (observation)
- سوم اخذ نتائج (inference)
- چہارم تنظیم نتائج (systemization of inference)
اب ذرا ان آیتوں کے مطالعہ کیجیے تو آپ کو مندرجہ بالا چاروں مرحلے یکے بعد دیگرے نظر آئیں گے۔
هُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِیهِ تُسِیمُونَ ﴿١٠﴾ ینبِتُ لَكُم بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّیتُونَ وَالنَّخِیلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیةً لِّقَوْمٍ یتَفَكَّرُونَ ﴿١١﴾ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّیلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ﴿١٢﴾ وَمَا ذَرَأَ لَكُمْ فِی الْأَرْضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیةً لِّقَوْمٍ یذَّكَّرُونَ ﴿١٣﴾ (النحل)
(وہی ہے جس نے آسمان سے تمھارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمھارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس پانی کے ذریعے سے کھیتیاں اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے۔ اس میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ اس نے تمھاری بھلائی کے لیے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور سب تارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں۔ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمھارے لیے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں، ان میں بھی ضرور نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں۔)
پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ آسمان سے بارش برستی ہے اور اس کے نتیجے میں اناج اور چارہ اگتا ہے جسے تم کھاتے اور پانی پیتے ہو۔ یعنی تم اس کا تجربہ کرتے ہو۔ دوسری آیت میں بتایا گیا کہ تمھارے لیے صرف ایک قسم کی غذا تمھارے کریم رب نے نہیں رکھی کہ تم اسے کھاؤ اور زندہ رہو، بلکہ لذت کام و دہن کے لیے انواع و اقسام کے پھل فروٹ اور سبزی و ترکاری اس نے پیدا کیں۔ ان میں سے ایک ایک چیز پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی۔ پھر بتایا کہ صرف زمینی اشیا نہیں بلکہ آسمان کے اجرام فلکی بھی تمھارے لیے مسخر کر دیے گئے ہیں۔ کائنات کے ان تمام اجزا کے درمیان ایک مسلسل ربط و ہم آہنگی اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔ جو لوگ عقل سے کام لیں گے وہ اس نتیجے تک پہنچ پائیں گے۔ چوتھی آیت میں بتایا گیا کہ انسان اگر سائنسی مطالعہ کا طریقہ کار اپنائے تو پانچوں حواس کے ذریعے حاصل شدہ معلومات سے ایک بڑی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ اوپر کی تین آیتوں میں قوت سامعہ، قوت باصرہ اور قوت لامسہ کے استعمال کی ترغیب ہے اور آخری آیت میں قوت شامہ اور قوت ذائقہ کے استعمال کا ذکر ہے۔ مختلف رنگ کی چیزیں پیدا کیں، ان کی خوشبو اور ذائقے میں بھی الگ الگ لطافتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر انسان تمام نتائج کو منظم کرے تو پھر وہ اس عالم میں موجود ہر ہر شے سے ایک نئے تمدن کی داغ بیل رکھ سکتا ہے۔
قرآن صرف اس پر اکتفا نہیں کرتا کہ مشاہدہ کائنات کے سلسلے میں تم اپنی سی کوشش کرو بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جیسے جیسے زمانہ کائنات کے علم کی باریکیوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرے گا اور ان میں موجود قوتوں کو استعمال کرنے کا متحمل ہوگا ویسے ویسے انسان کی ذات اور کائنات کی نئی نشانیاں اس کے سامنے کھولی جاتی رہیں گی۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کائنات کے مطالعے کا رجحان جتنا آگے بڑھے گا اتنا ہی یہ محسوس ہوگا کہ انسانوں کی رہ نمائی کے لیے صرف حواس خمسہ کافی نہیں ہیں۔ اس پیچیدہ کائنات کی گتھیاں صرف مشاہدے سے حل نہیں ہو پائیں گی بلکہ تصور خدا کے بغیر اس کائنات کی صحیح توجیہ ممکن نہیں ہوگی۔ اس وقت وحی الٰہی کی صداقت کا یقین بھی ہونے لگے گا۔
سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ یتَبَینَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیءٍ شَهِیدٌ (فصلت: 53)
(ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے، اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے؟)
اسلامی تمدن کی ماں اسلامی عبادات
اسلام دنیا کا واحد مذہب اور انسانی تاریخ میں اس پہلو سے انوکھا ہے کہ اس میں عبادات کی سرگرمی انجام دینا وقت اور رخ پر منحصر ہے[6]۔
پانچ وقت کی نمازیں اپنے وقت پر فرض ہیں اور ہر علاقے میں موسموں کی تبدیلی سے نماز کے اوقات الگ ہو جاتے ہیں نمازوں کے اوقات ہر علاقے میں متعین ہیں اور ان کی ادایگی کے لیے قبلے کا تعین کرنا شرط لازم ہے۔ مسلمان جب تک مدینہ میں تھے قبلے کا رخ متعین کرنا ان کے لیے آسان تھا، چوں کہ مکہ جنوب کی طرف واقع تھا۔ پھر مسلمان قبلے کا تعین طول الارض اور طول البلد، مطلع وغیرہ جیسے جغرافیائی امور کی بنیاد پر طے کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا ویسے ویسے قبلہ کا رخ متعین کرنا سائنسی طریقے کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اذان ایک ایسا عمل ہے جس میں وقت کا علم بھی ہو اور موذن قبلہ رخ بھی ہو۔ نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں حضرت بلالؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم دیتے تھے، لیکن بعد کے زمانے میں اسلام جب دور دور تک پھیل گیا تو موذن کے لیے ایک لازمی صفت قرار پائی کہ اسے علم فلکیات اور علم موسمیات کاعلم بھی ہو[7]۔
اسلام میں قربانی کا تصور قبلے کے رخ سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح اسلام میں مردوں کی تدفین میں بھی قبلہ رخ ہونے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ علم فلکیات اور علم ارضیات اور ریاضی کے علم کے بغیر نہ وقت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ٹھیک رخ متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس نفیس ترین مسئلے کے بہترین حل کے لیے spherical astronomy استعمال کیا گیا[8]۔
زمان و مکاں کا اسلام کا اپنا ایک تصور ہے۔ روزوں کا تعلق رمضان کے ہلال سے ہے۔ اور چاند جس طرح سے زمین کے اطراف گردش کرتا ہے اس کے مدار اور چکر کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا اسلامی تعلیمات میں انتہائی اہم ہے۔ اس میں چوک جانے سے حلال و حرام کے خط امتیاز میں خلط ملط ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ یہی حال مطلقہ عورت یا بیوہ کی عدت کا ہے۔ اس کا حساب چاند کی تاریخ سے رکھا جاتا ہے۔ اگر چاند کی تاریخ طے کرنے میں غلطی ہوجائے تو شریعت کے ایک باریک تقاضے پر عمل کرتے ہوئے حدود کو پھلانگنے کا امکان رہتا ہے۔ ان عبادتوں اور مذہبی رسوم کی ادایگی کے لیے کائنات کے متعلقہ سائنسی طریقے کواختیار کیا گیا، اس کے لیے اوقات نماز کےجدول بنائے گئے، قبلے کے جدول تیار ہوئے، ریاضیات کے فارمولے ایجاد ہوئے، دنیا کے نقشے ایجاد ہوئے اور کائنات کا مطالعہ کرنے اور قبلہ کا رخ دریافت کرنے کے لیے آلات ایجاد ہوئے[9]۔
نویں اور دسویں صدی میں بغداد دنیا کا سائنسی مرکز تھا اور سائنس کی زبان عربی تھی۔ سائنس کی ملکہ فلکیات تھی، اور فلکیات کا آئیکن وہ فلکیاتی آلہ تھا جسے اسطرلوب کہا جاتا ہے[10]۔ وہ آلہ دو جہتوں میں تین جہتی کائنات کا ایک ماڈل تھا۔ کوئی بھی شخص اسے ہاتھ میں لے کر زمین اور کائنات کے مطالعے کے سلسلے میں مفید آپریشنوں کے ذریعے مختلف کام انجام دے سکتا ہے۔
اسی طرح سے اسلام میں میراث کی تقسیم کی جو اہمیت ہے اور اس سلسلے میں قرآن میں جس طرح کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ پیچیدہ ہیں، اس میدان میں اسلام کا دیگر ادیان سے موازنہ کیا جانا ممکن نہیں۔ ورثا کے حقوق اور حصص کا تعین اور شرعی ضابطوں کے مطابق میراث کی تقسیم کے لیے ریاضی کے علم پر گرفت ہونا ضروری ہے۔ شریعت پر عمل کرنے کے لیے، اوپر جو تقاضے بیان ہوئے ہیں ان کے لیے مسلمانوں نے مختلف علم کے متعلقہ شعبوں پر کام کیا۔ مشاہدہ کائنات کے علم کو انھوں نے ترتیب دیا اور اسے علم میقات کا نام دیا۔ اسی طرح تقسیمِ میراث کے معاملات ومسائل کے لیے علم فرائض کی ضرورت ہوئی اور اس علم کو مرتب کیا گیا۔ ان دونوں علوم میں مسلمانوں کا کنٹریبیوشن نفیس ترین اور برتر قدر کا حامل تسلیم کیا گیا ہے[11]۔
مسلمانوں کے سنہرے دور میں جس طرح سے قرآن اور سنت کے علم کو مقدس علم مانا جاتا تھا اسی طرح سے ان سائنسی علوم کو بھی مقدس مانا جاتا تھا اور ان کا حصول فرض کفایہ قرار دیا گیا۔ آج مغربی تمدن کی موجودہ شکل کی بنیاد میں اسلامی تمدن کے کارنامے نظر آتے ہیں۔ فلکیات، ریاضیات اور موسمیات کا علم اسلام کے دینی فرائض پر عمل آوری کے لیے بنیادی ضرورت تھی۔ مسلمانوں نے اسے فرض عین سمجھا اور ان موضوعات پر path breaking ideas کے طرز کی کتابیں لکھیں۔ وہ فلکیات اور ریاضیات کے علوم کے سہارے شمسی و قمری مہینے، عبادات کے اوقات کا تعین، قبلہ کے رخ متعین کرنے کے سائنسی ضوابط اور وراثت کے پیچیدہ مسائل کو درست انداز سے حل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ تاریخ ساز سائنس دانوں نے اسلامی تمدن کو آگے بڑھانے میں جو کارنامے انجام دیے ہیں ان پر تفصیل سےآگے لکھا جائے گا۔
سیرت نبوی اور تمدن
اسلامی تمدن کا دوسرا سرچشمہ مدینہ کے اقدامات ہیں۔ اسلامی تمدن کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد ڈالی۔ آپ نے چار بنیادی کام کیے جو آگے چل کر دنیا کے بہت سے تمدنوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے اور آئندہ بھی ہوں گے۔
1.مسجد: اسلامی تمدن کی سب سے نمایاں علامت مسجد ہوا کرتی ہے۔ ہر زمانے میں تمدنی اظہار تفاخر کے لیے لوگ اونچی اونچی عمارتیں بنایا کرتے تھے یا پتھروں کو تراشتے اور ان میں رہائش گاہیں، اسکول اور عبادت خانے بناتے تھے۔ آج بھی ہندوستان کے طول و عرض میں اس طرح کے بے شمار علاقے ہیں جہاں کسی زمانے میں کسی خاص مذہبی گروہ کے معاشرے پائے جاتے تھے۔ مختلف تمدنوں کے وہاں بسنے اور عروج پانے کی علامات آج بھی پائی جاتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچنے کے بعد مسجد کی بنیاد ڈالی۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اسلامی معاشرے کی روحانی اور دنیاوی ضروریات کے مطابق رہ نمائی کی جاتی اور بہت سے وہ امور وہاں انجام پاتے، جنھیں آج کے زمانے میں تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی خانوں میں ڈالا جاتا ہے۔مسجد کے جنوبی حصہ میں کھیل ہوا کرتے تھے[12]۔ صحابہ کرام اور ان کے بچے گھڑ سواری کرتے، دوڑ کے مقابلے کرتے، تیر اندازی میں اپنے ہنر کے جوہر دکھاتے۔ بعض مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر ان کا معائنہ کرتے اور دوڑ میں آگے نکل جانے والوں کو انعام سے نوازتے۔
2.عقد مواخات اور معاشی استحکام: جب مہاجرین مدینہ کی طرف ہجرت کر کے آئے تو ان کے ہاتھ میں تقریبًا کچھ نہ تھا، جب کہ انصار کے پاس زمینیں اور کھجور کے باغات تھے۔ درحقیقت مکہ میں کچھ مہاجرین تھے جو کافی امیر تھے، لیکن مسلمانوں کی حیثیت سے مدینہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے، مکہ والوں نے انھیں اپنا مال منتقل کرنے نہیں دیا۔ ہر وہ چیز جو مہاجرین نے مکہ میں مال تجارت اور جائیداد کی شکل میں چھوڑی تھی، اسے فروخت کے لیے رکھ دیا، یا مکہ کے مشرکین نے چھین لیا یا انھوں نےاسے تباہ کر دیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد مہاجرین اور انصار مسجد نبوی کے آس پاس ایک ساتھ مل جل کر رہنے لگے۔ جب کہ آج بھی ہندوستان میں ایسے شہر ملیں گے جہاں طبقہ اشرافیہ کے محلے اور نچلی ذات کے محلے ایک دوسرے سے دور بنائے گئے ہیں۔آپ نے مہاجرین کی آبادکاری کا ایک انوکھا طریقہ اپنایا۔ پانچ ماہ بعد مکی مدنی خاندان کے سربراہوں کو بلایا اور آپسی تعاون اور ادغام کی نصیحت کی۔ یہ رشتہ بہت سود مند ہوا[13]۔
مہاجرین کی نوآباد کاری کے جو ماڈل دنیا میں پائے جاتے ہیں ان کے بالمقابل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے تاجروں اور مدینہ کے زراعت پیشہ باغبانوں کو کسی اونچ نیچ کے تصور کے بغیر آپس میں بھائی بھائی بنا دیا تاکہ اسلامی ریاست کا کوئی بھی فرد معاش کے لیے پریشان حال نہ ہو۔ ہنگامی طور پر یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کے نتیجے میں اسلامی ریاست کے اولین شہریوں کے لیے دین کا کام کرتے ہوئے زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا انتظام ہوگیا۔ ریاست کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس کے ہر شہری کو معاش کے یکساں مواقع ملیں۔
یہ عقد جس انداز سے رو بہ عمل میں آیا اس کو دیکھتے ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک اخلاقی اپیل نہیں تھی۔ لیکن تاریخ کے پیمانے سے اگر اس اقدام کے نتائج و ثمرات کا اندازہ کیا جائے تو بلاشبہ اسے ایک غیر معمولی کارنامہ کہا جائے گا۔ اس نے اس بنیادی اصول کو عہد تازہ کی صورت میں پھر پیش کیا کہ انسانوں کے باہمی تعلق کی اصل بنیاد وطن رنگ نسل زبان غیرہ نہیں بلکہ صرف دین اور حق ہے[14]۔
3.دستور : ایک تکثیری سماج میں بغیر ٹکراؤ کے جینے معاشی سرگرمیوں کو انجام دینے اور ایک اچھی زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ قوانین وضع فرمائے جن پر اس ریاست کے تمام تہذیبی گروہوں کے نمائندوں نے دستخط کیے۔ یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا جس کے باون حصے تھے.
اس دستور کے مطابق ایک پارلیمانی نظام قائم ہوا اور بلدیاتی نظم و نسق کا نظام بھی قائم کیا گیا۔ تعلیم، اقامتی درسگاہ، تعلیم بالغان، اساتذہ کی تقرری، فن جراحی، کھیل، کشتی، دوڑ، نشانہ بازی، گھڑ سواری، مردم شماری، خواتین کی تعلیم، بچوں کی تعلیم، صحت و صفائی، بازار اور منڈی، وجود میں آئے[15]۔ گلیاں سات ہاتھ چوڑی، کہ دو سامان سے لدے اونٹ بغیر ٹکرائے آمنے سامنے سے گزر جائیں[16]۔
آج دنیا کے بہت سے ملک تکثیری ممالک کے زمرے میں آتے ہیں، جہاں مختلف مذاہب، ذات پات، تہذیبی اکائیاں اور متنوع زبان بولنے والے پائے جاتے ہیں۔ ایسے سماج میں مفادات کا ٹکراؤ اور آپسی تصادم کے آئے دن مواقع نکلتے رہتے ہیں۔ حکومت کا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ تصادم کے بغیر معاشرہ ملک کی کام یابی کی طرف آگے بڑھے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ کچھ عنوانات کے تحت سب کے درمیان اتفاق ہو جائے۔ سب قسم کے گروہوں کو اپنے مذاہب اور مراسم پر عمل کرنے کی آزادی ملے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکم رانوں کو اتنی دانش مندی ملے کہ اس حقیقت کو وہ سمجھ سکیں کہ سماج مختلف تہذیبی گروہوں سے بنتا ہے۔ ان کے درمیان لازمی طور پر بعض امور میں اختلافات پائے جائیں گے۔ اس تنوع کو قبول کرنا اور نظام مملکت میں انھیں آزادی فراہم کرنا ہوشمندوں کا کام ہوتا ہے، جس سے آج ہمارے ملک کے حکم راںعاری ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں پائے جانے والے مختلف مذہبی گروہوں کے امن کے ساتھ بقائے باہمی کی راہ نکالی اور ایک دستور مرتب کیا جو دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور مانا جاتا ہے۔
4.مدینہ مارکیٹ : اسلام کسی ایسی سوسائٹی کا تصور نہیں کرتا جہاں لوگ نان شبینہ کے لیے ترستے ہوں، جہاں اشیائے خورد و نوش کی مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی ہو اور دولت صرف دولتمندوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جائے۔ اسلام کے اصول معیشت اور تجارت کی بنیاد پر آپ نے مدینہ میں ایک مارکیٹ قائم فرمائی۔
زراعت کے لیے ایک زرخیز نخلستان ہونے کے علاوہ، اس کے جائے وقوع کی اہمیت نے مدینہ کو ایک قابل ذکر تجارتی مقام کی پہچان دی تھی، جہاں یہودی، بہر حال، اقتصادی طور پر عربوں سے زیادہ مضبوط رہے۔ مدینے کا جغرافیائی محل وقوع اپنے لوگوں کو نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی دنیا کے ساتھ کاروبار کرنے کی ترغیب دینے میں اہم تھا۔ یہ یمن اور شام کے درمیان تجارتی راستے کے قریب تھا۔
مدینے میں کچھ حالات اس طرح کے پیدا ہوگئے کہ ایک نیا بازار بنانے کا خیال پختہ ہوگیا۔ بازار کی جگہ کا انتخاب کرنے کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا: ’’یہ تمھارا بازار ہے، اسے (تعمیرات اور قبضہ کے ذریعے) تنگ نہیں کیا جائے گا اور اس سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ مارکیٹ میں جگہ پانے کا نظام مسجد میں نماز کے لیے جگہ حاصل کرنے کے نظام سے مماثل تھا یعنی جو مارکیٹ کھلنے کے بعد پہلے کسی جگہ پر آیا اور اس نے اس پر دکان کھول لی اور جب تک وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا اس وقت تک اس پر اس کا قبضہ برقرار رہے گا۔ مارکیٹ میں جگہ پانے کا یہ اولین انتظام تھا۔ بازار تقریباً پانچ سو میٹر لمبا اور سو میٹر سے زیادہ چوڑا تھا۔ بازار اتنا بڑا تھا کہ شہر کے بازار سے متوقع ہر چیز بسہولت وہاں دستیاب ہوسکے۔ یہ درحقیقت اس سے بڑا تھا جس کی اس وقت ضرورت تھی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بصیرت کا ایک اور مظہر تھا[17]۔
مسجد کے احاطے کے قریب بازار ہونے کا مطلب یہ بھی تھا کہ اس میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے کام کو آسان بنانا ہے۔ بعض لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ یا عارضی طور پر اس کام پر مامور کیا تھا۔ تاہم کچھ صحابہ مسجد سے جاتے ہوئے بازار سے باقاعدگی کے ساتھ گزرتے تھے اور مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہ تھا کہ آپس میں حق کی نصیحت اور صبر و استقامت کی تلقین، نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد اور گناہ اور نافرمانی کے کاموں سے روکا جائے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی، قومی یکجہتی، تعاون باہمی، اخلاق و فضائل پر مبنی معاشرہ بنایا، اس میں عدل و انصاف کا حصول آسان اور ممکن بنایا، اور اسے علم و آگہی سے مالا مال کیا۔ اس طرح ایک کامل انسانی معاشرہ بنا کر دنیا کے سامنے ایک بہترین مثال قائم کی۔ ہم آپ کے اس کارنامے کو محض اس حیثیت سے نہ دیکھیں کہ آپ صرف ایک مذہبی قائد تھے بلکہ آپ تمدن ساز اور ایک نو خیز ریاست کے رہ نما اور حکم ران بھی تھے۔ یہ بات بھی ہمیں یاد رہے کہ آپ اللہ کے آخری رسول تھے اور آپ کا ہر کام تا قیامت انسانوں کے لیے اسوہ ہے۔
[1] Abdelhak, Mansouri. “The Muslim Society During the Life of the Prophet Mohammed and After His Death.” The State of Social Progress of Islamic Societies. Springer, Cham, 2016. 3-23.
[2] 16: 97
[3] ibid as reference no 1
[4] 2: 29, 27: 60, 16: 81, 35: 11, 22: 36, 100: 1-8, 5: 3
[5] اسلام اور سائنس محمد رفیع الدین اکادمی پاکستان کراچی
[6] King, David A. “The sacred geography of Islam.” Mathematics and the Divine: A Historical Study (2005): 161-178
[7] کتاب العروج تہذیب کے قرآنی سفر کا ایک چشم کشا تذکرہ، راشد شاز، ملی پبلیکیشنز نئی دہلی
[8] King, David A. “Book Review: In synchrony with the heavens: studies in astronomical timekeeping and instrumentation in Medieval Islamic civilization, ii: Instruments of mass calculation/Brill, Leiden, lxxvi+ 1066 pp., 2005, ISBN 90-04-14188-X.” Journal for the History of Astronomy 37 (2006): 233-238
[9] King, David A. “The sacred geography of Islam.” Mathematics and the Divine: A Historical Study (2005): 161-178.
[10] A newly-rediscovered Abbasid astrolabe from Baghdad, ca. 900, David A. King, Goethe University, Frankfurt, www.davidaking.academia.edu, © David A. King 2020
[11] King, David A. “Book Review: In synchrony with the heavens: studies in astronomical timekeeping and instrumentation in Medieval Islamic civilization, ii: Instruments of mass calculation/Brill, Leiden, lxxvi+ 1066 pp., 2005, ISBN 90-04-14188-X.” Journal for the History of Astronomy 37 (2006): 233-238
[12] محاضرات سیرت محمود غازی 383 اریب اپلیکیشنز
[13] پیغمبر اسلام ملی پبلی کیشنز نئی دہلی 25, 193
[14] عہد نبوی میں ریاست کا نشو و ارتقا ڈاکٹر نثار احمد، نشریات لاہور
[15] عہد نبوی کا بلدیاتی نظم و نسق نجمہ راجہ یسین، اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی۔
[16] خطبات بہاولپور ڈاکٹر محمد حمید اللہ اسلامک فاؤنڈیشن نئی دہلی
[17] MADINAH MARKET DURING THE PROPHET‘S TIME, Prof. Dr. Spahic Omer, Kulliyyah of Architecture and Environmental Design, International Islamic University Malaysia.
مشمولہ: شمارہ فروری 2022