ہماری دعوت کیا ہے؟ اس کا جواب ایک جملہ میں یہ دیا جا سکتا ہے کہ ’’ہماری دعوت اسلام کی دعوت‘‘ ہے۔ اسے ہم ’’دینی دعوت‘‘ اور ’’دعوت اسلامی‘‘ کہتے ہیں۔ مگر اس دینی دعوت کا صحیح تعارف، اس کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کیا ہے؟ اس کاجواب اتنا آسان نہیں ہے۔ نہ عام فہم ہے کہ ایک دو جملوں میں سمجھا اور سمجھایا جا سکے۔
نماز کی دعوت بہت آسان ہے اور عام فہم ہے۔ آپ جسے سمجھانا چاہتے ہیں اسے کسی طرح مسجد لے کر چلے جائیںوہاں وہ بڑی آسانی کے ساتھ وضو اور نماز سے واقف ہو جائے گا۔ اس کے لئے کچھ زیادہ سمجھ بوجھ کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نماز عملاً قائم ہے۔ وضو اور نماز ہمارے معاشرے میں نافذ ہے۔ مگر دین اسلام کی دعوت کو سمجھنا اور سمجھانا دقّت طلب بھی ہے اور دیر طلب بھی ۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ دین ہمارے معاشرے میں قائم اور نافذ نہیں ہے۔ اسے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے فہم کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو لوگ سوجھ بوجھ سے محروم ہیں خدا کی دی ہوئی عقل کو کام میں لانا نہیں چاہتے ان کے لئے دین اسلام کو سمجھنا اگرناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ بلاشبہ نماز بھی دین اسلام کا ہی ایک اہم ستون ہے۔ جو ہمارے معاشرہ میں قائم ہے۔ مگر ان ستونوں پر دین اسلام کی جو عالیشان بلڈنگ تعمیر کرنی ہے وہ ابھی زیر تعمیر ہے۔ اس کی مکمل اور جامع تصویر اس نقشہ میںموجود ہے جو قرآن حکیم، سنت رسول اور صحابہ کرام کے اسوہ کی شکل میںہمارے پاس محفوظ ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ھدایت، تائید و توفیق سے اور اپنے جاں نثار صحابہ کرام کو لے کر آج سے چودہ سو سال قبل دین اسلام کی یہ عالیشان بلڈنگ کرۂ ارض کے ایک وسیع حصے پر تعمیر کی تھی۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دین اسلام کو اس کی پوری آن بان کے ساتھ قائم، غالب اور نافذ کیا تھا۔ جس وقت اور جس معاشرے میں یہ جاری و نافذ تھا اس میں اس دین اسلام کو اسی آسانی کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جا سکتا تھا جس آسانی سے آج نماز کو ہم جان اور سمجھ سکتے ہیں۔ اسلام جب غالب و نافذ تھا اس وقت معاشرے کے ہر گوشے میں وہ چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ مساجد کے اندر بھی اور بازاروں میں بھی،معاملات اور لین دین میںبھی اور عدالتوں میں بھی ہرجگہ اسلام ہی اسلام نظر آتا تھا۔ اس وقت اسلام کے نام لیوا گویا اسلام کی چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی تصویر تھے۔ مگر آج یہ کیفیت نہیں ہے۔ آج ہمارے معاملات و مسائل، ہمارے بازار اور تجارتی مراکز،ہماری عدالتیں اور تعلیمی ادارے کہیںبھی دین اسلام کی ادنیٰ جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ خود ہم مسلمانوں کے گھروں میں شادی بیاہ اور لین دین میں خوشی اور غمی کی مجالس میں کیا اسلام کی تصویر متحرک نظر آتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے دل و دماغ کو کام میں لانا پڑتا ہے۔ فکر و فہم اور سوجھ بوجھ کی ضرورت پڑے گی۔
یہاں میں دینِ اسلام کی چند بنیادی خصوصیات کا ذکر کرونگا تاکہ اس کی روشنی میںہم اپنی ذمہ داریوںکو ٹھیک طور پر محسوس کر سکیں۔ اگرچہ ہمارے رفقاء ان سب باتوںسے بخوبی واقف ہیں اورمجھ سے زیادہ واقف ہیں مگر پھر بھی میںخود اپنے ا ور آپ سب کے لئے بطور یاد دہانی عرض کر رہا ہوں۔
دین اسلام جس کی دعوت لے کر ہم اٹھے ہیں اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام انسانوں کے لئے اللہ رب العٰلمین کا پسندیدہ اور ارسال کردہ بندگی رب کا نظام ہے۔ اسے ہم اطاعت الٰہی کا نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی اس کرۂ ارض پر دین حق ہے ، اس کے علاوہ اطاعت اور بندگی کے جتنے نظام اور نظرئیے ہیں وہ سب انسانی ذہن کے خود ساختہ اور خواہشات انسانی کے پرداختہ ہیں۔ غیر اسلامی ہیں، باطل ہیں، دنیائے انسانیت کے لئے مہلک ہیں۔ دین اسلام فلاح دارین کا ضامن ہے۔ا س دنیا کے لئے بھی وہ باعث رحمت ہے اور کل آخرت میںبھی رضائے الٰہی کے حصول کا ضامن ہے۔
دین اسلام حق ہے۔ خدا کا پسندیدہ اور ارسال کردہ ہے۔ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے۔ اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر پہلو سے جامع اور مکمل ہے۔ ہر دور اور ہر جگہ اور ہروقت کے لئے جدید اور اپ ٹو ڈیٹ (Uptodate)ہے۔ اس میں کسی طرح کاکوئی نقص نہیں ہے۔ اس لئے یہ کسی اور نظریہ و نظام سے پیوند کاری ، مداہنت،مصالحت اور کمپرو مائز (Compromise) کا قائل نہیں ہے۔ خدائی اطاعت کے اس جامع نظام کا کوئی جزء کسی غیر الٰہی اور غیر اسلامی نظام میں فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کسی غیر اسلامی نظام کا کوئی جزو اسلامی نظام اطاعت میں فٹ نہیں ہوگا۔ دین اسلام ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر غالب ہو۔ انسانی معاشرہ میں اس کا نفاذ ہو کیونکہ یہی واحد دین ہے جسے خالق کائنات کی رضا مندی اور سند حاصل ہے۔ اگر کسی وقت کسی مقام پر لادینی نظام اطاعت جاری اور مسلط ہے تو یہ اس کا انسانی سماج پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی کے حصے بخرے کرے، زندگی کے بعض گوشوں اور معاملات میں تو اللہ، اس کے رسول کی اطاعت کرے اور باقی اجتماعی معاملات و مسائل میں غیر اللہ کی اطاعت اور بے دین قائدین کی اتباع کرے۔ اللہ کی کتاب، اس کے رسول کی حیات مبارکہ اور صحابہ کرام کے اسوہ میں کہیں زندگی اور دین اسلام کی اس تقسیم کا تصور نہیں ملتا۔ دین اسلام اپنے ماننے والوںسے صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ ایمان لانے والو! تم بے کم و کاست پوری زندگی اسلام کے حوالہ کرو۔ اور اس سے ہٹ کر تم جو روش اختیار کروگے وہ شیطانی روش ہوگی وہ شیطانی طور و طریق ہوں گے اور شیطان تو تمھارا کھلا دشمن ہے۔ کسی شخص پر کوئی دبائو اور زور زبردستی نہیں ہے کہ وہ لازماً اسلام کو قبول کرے۔ ھدایت اور ضلالت، حق اور ناحق کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ اب جو بھی کفر بالطاغوت اور ایمان با اللہ کا ثبوت پیش کرے اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںہے کہ طاغوت کی مخالفت میں، باطل افکار و نظریات اور لادینی نظام کی تردید اور ابطال میں جتنی شدت ہوگی، خدا پرستانہ نظریہ و نظام سے اتنا ہی مضبوط اور والہانہ تعلق ہوگا۔ باطل سے اگر شدید نفرت نہ ہوگی تو حق سے کبھی محبت اور گہری وابستگی نہیںہو سکتی۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشیںکر لینی چاہئے کہ خدا پرستانہ نظام اطاعت یا بندگی رب کا نظام کوئی لباس نہیں ہے کہ عبادت گھر اور شادی بیاہ، نکاح و طلاق کی مجالس میں گئے تو زیب تن کرلیا اور رائج الوقت میدان سیاست میں قدم رکھا تو اسے اتار کر رکھ دیا اور وہ لباس پہن لیا جو سیکولرزم، لادینی جمہوری نظام اور بے دین قیادت میں معروف و مقبول اور مطلوب ہے۔
ملت اسلامیہ کے زوال اور ہر جگہ اس کی ذلت و رسوائی کے اور بھی اسباب ہو سکتے ہیں مگر جو سب سے نمایاں سبب ہے جس نے اس ملت کی کمر توڑ کر رکھدی ہے وہ یہی خدا اور قیصر کے درمیان زندگی کی تقسیم ہے۔ اس ظالمانہ روش میں شرک اور نفاق دونوں کی بھرپور آمیزش ہے۔ ہمارے علماء اور قائدین اپنی تقریروں، تحریروں اور دروس کی محفلوں میں دین اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کہتے ہیں دیگر لادینی افکار و نظریات کو باطل، غیر اسلامی اور خلاف حق قرار دیتے ہیں مگر جب مساجد اور وعظ و نصیحت کی مجلسوں سے نکل کر سیاسی اسٹیج پر آتے ہیں تو بلا تکلف رائج الوقت نظریہ و نظام کی بھرپور تائید بھی کرتے ہیں اور مختلف بے دین سیاسی پارٹیوں میں شرکت اور خدا ناشناس قائدین کی اتباع میں رواں دواں بھی ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنے عقیدتمندوں کو یہ کہہ کر تسلی بھی دیتے ہیں کہ ’’دین و ملت کا درد، مظلوم مسلم قو م کے مفادات ہمیںمجبور کر رہے ہیں کہ ہم باطل نظام کا حصہ بنیں اس میں شریک ہوکر ہی ہم دین و ملت کا دفاع کر سکتے ہیں۔‘‘ اس طرح مسلمانوں کے اندر دین اسلام کا انتہائی ناقص تصور پروان چڑھ گیا۔ جس میں زندگی جو قرآن و سنت کی نگاہ میں ایک ناقابل تقسیم اکائی تھی وہ خدا اور قیصر کے درمیان، رب العٰلمین اور ارباب من دون اللہ کے درمیان، دین اور لا دینیت کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئی۔ ہماری اور ہمارے کارکنوں کی یہ اہم ذمہ داری اور دینی فریضہ ہے کہ وہ بندگی رب کے اس ناقص تصور کی اپنے قول و فعل سے بھرپور تردید کریں۔ ہماری اور ہمارے ایک ایک کارکن کی یہ اہم ذمہ داری ہے وہ خود اپنی زندگی کا احتساب کرتا رہے کہ کہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر ہماری زندگی بھی مختلف خانوں میں تقسیم ہوکر تو نہیں رہ گئی ہے۔ اگر زندگی کے کسی گوشے میں نفاق، تناقض، شرک اور بے دینی کے جراثیم پائے جاتے ہوں تو پہلی فرصت میں ان سے اپنی زندگی کو پاک کرے۔ ساتھ ہی اپنے گھر، محلہ اور آبادی میں مسلمانوں کے سامنے بندگی رب کا وہ واضح اور جامع تصور پیش کرے جو قرآن و سنت میں موجود ہے۔ بندگی رب کے ناقص تصور، زندگی کی تقسیم اور اس کے مہلک اثرات جو ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں ان سے انھیں آگاہ کرے۔
تحریک اسلامی ہند کے داعی اول نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں یہ وارننگ دی تھی کہ ’’میں صاف کہتا ہوں کہ موجودہ زمانے کی لادینی، قومی جمہوریت تمھارے دین و ایمان کے قطعاً خلاف ہے جس اسلام کے نام پر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو اس کی روح اس نظام کی روح سے ، اس کے بنیادی اصول اس کے بنیادی اصولوں سے اور اس کا ہر جزو اس کے ہر جزو سے متصادم ہے۔ اسلام اور یہ نظام ایک دوسرے سے کہیںبھی مصالحت نہیں کرتے۔ جہاں یہ نظام برسراقتدار ہوگا وہاں اسلام نقش برآب رہے گا اور جہاں اسلام برسر اقتدار ہوگا وہاں اس نظام کے لئے کوئی جگہ موجود نہ ہوگی۔‘‘ قائد تحریک مزید فرماتے ہیں ’’بندگی رب کے ان سب (ناقص) مفہومات کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں۔ ان کو مٹانا چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی جتنی شدت کے ساتھ نظام کفر کے ساتھ ہے اتنی بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ بندگی کے ان (غلط) مفہومات کے خلاف ہے۔‘‘(دعوت اسلامی اصول اور تقاضے، مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی)
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آپ اپنی قوم کی ان خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیں ان سے باز رکھنے اور بے آمیز خدا پرستی کو اختیار کرنے کی نہ صرف یہ کہ دعوت دیںگے بلکہ اس کے لئے عملاً جد و جہد بھی کریں گے تو اس بگڑی ہوئی قوم میں نیچے سے اوپر تک ایک طرح کی ہیجانی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور ہرطرف سے آپ کے خلاف مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوگا۔ دعوت اسلامی کی یہ خاصیت اور واضح علامت ہے کہ وہ جب بھی بگڑی ہوئی قوم اور بگڑے ہوئے معاشرے میں پیش کی جائے گی تو داعیانِ حق کو لازماً آزمائشوںسے دوچار ہونا پڑے گا۔ جس دعوت سے کرپٹ معاشرے میں ہلچل اور ایوان باطل میں لرزہ پیدا نہ ہو وہ سب کچھ ہو سکتی ہے مگر دعوت اسلامی نہیں ہو سکتی۔ جس داعی حق فرد یا گروہ کو بگڑی ہوئی قوم کے غیض و غضب سے سابقہ پیش نہ آئے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر داعی حق نہیںہو سکتا۔
اپنے ملک کے اندر بلا شبہ غیر مسلم برادران وطن بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں جنھیں خدا کے پیغام سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ بھی اپنے پروردگار اللہ وحدہٗ لاشریک کے نازل کردہ بندگی رب کے نظام کو قبول کر سکیں اور وہ بھی فلاح دارین کے مستحق قرار پائیں۔ مگر اس حقیقت سے چشم پوشی درست نہ ہوگی کہ ترجیحی بنیاد پر ہماری اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اپنی آبادی اور اپنی قوم مقدم ہے۔ غیر مسلم برادران وطن کے سامنے ہماری اپنی داعیانہ زندگی ایک بند کتاب کے مانند ہے۔ وہ ہماری دعوت سے متاثر ہو سکتے ہیں اور ہماری تعریف و تحسین بھی کرتے ہیں اور یہ کام ہے بھی نہایت آسان اور آرام دہ۔ دنیا کی باطل طاقتوں اور ظالم حکمرانوں کے لئے بھی اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں ہے اور انھیں اصل خطرہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ سے نہیں ہے بلکہ اصل خطرہ اس شخصیت، تحریک اور تنظیم سے ہے جو کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ کے محاذ پر بنیان مرصوس کی شکل میں متحرک اور سرگرم ہو۔قرآن و سنت میں صحابہ کرام کے اسوہ میں، ائمہ کرام اور علماء حق کے شاندار کارناموں میں ایسی کیفیت اور صورتحال کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی کہ بگڑے ہوئے معاشرے میں انھوں نے دعوت دین کا فریضہ انجام دیا ہو۔ اس کے لئے انھیں باطل اقتدار کی ٹھنڈی چھائوں ملی ہو اور قوم کے علماء کرام اور قائدین ملت نے انکی تعریف و تحسین کی ہو اور عوام نے جگہ جگہ ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا ہو۔ یہ سب تو اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ داعیان حق اپنے احتساب سے غافل، اپنے گھر، خاندان، محلہ، آبادی اور بگڑی ہوئی قوم سے آنکھیں میچ کر باہر کے ان لوگوں کے پاس جاکر حاضری دیںجوان کے لیل و نہارسے واقف نہ ہوں۔ جنکی نگاہ میں یہ داعیان حق سراپا معصوم اور فرشتہ صفت ہوں گے ۔اس کام میں دور دور تک بھی کسی دشواری کانام و نشان بھی نہیںملتا۔ بلکہ داعیان حق کا تعریف و تحسین کے پھولوں سے استقبال ہوتا ہے۔ ایسے داعیان حق پر قرآن حکیم اور احادیث کے اندر جو تبصرہ کیا گیا ہے اسے پڑھ کر رونگٹا کانپ اٹھتا ہے۔
رفقاء محترم! اللہ رب العٰلمین کا فرمان غلط نہیں ہو سکتا اس نے صاف لفظوں میں وارننگ دی ہے کہ ام حسب الناس ان یترکوا………… ولیعلمن الکاذبین (العنکبوت ۱ تا ۳) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گذرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟‘‘ صاحب تفہیم القرآن اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لئے ہیں کوئی شخص مجرّد زبانی دعویٰ ایمان کرکے ان کا مستحق نہیںہو سکتا۔ بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائش کی بھٹی سے گذرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے وعدے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمھیں بخش دیں۔ اس کے لئے تو امتحان شرط ہے۔ ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی۔ جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا۔ طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی، خطرات، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ خوف سے بھی آزمائے جائوگے اور لالچ سے بھی۔ ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو ہماری رضاء پر قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمھیں ناگوار ہے ہمارے لئے برداشت کرنی ہوگی۔ تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعویٰ تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔‘‘
رفقائے کرام! ہمارے دستور نے بھی ہمیں پابند کیا ہے کہ ہم اپنے لئے اخلاق میں، برتاؤ میں، معاشرت اور تمدن میں، معیشت و سیاست میں غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت کو ہدایت مانیں اور صرف اسی کے ضابطے کو ضابطہ تسلیم کریں جو اللہ کا مقرر کردہ ہو یا اس کے احکام و ہدایات کے تحت ہو اور جو اس کی شریعت کے خلاف ہو اسے رد کر دیں۔ ہم اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خداکی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی کو اصل حجت، سند اور مرجع قرار دیں جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے اختیار کریں اور جو ان کے خلاف ہو اسے رد کر دیں۔ (دستور جماعت سے ماخوذ)
اب یہ ہمارے سوچنے اور جائزہ لیتے رہنے کی بات ہے کہ ہم فکری اور عملی طور پر ، انفرادی اور اجتماعی شکل میں اپنے اس دستوری عہد کو جو فی الاصل اللہ رب العٰلمین کو شاہد بناکر برسر عام کیا ہے اس کا کس حد تک پاس و لحاظ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے دین کا مخلص خادم بنائے اور اپنے فرائض منصبی کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2013