مسئلہ فلسطین، اسلامی علمی ورثہ کا ضیاع اور صیہونی عزائم

فلسطین کی اہمیت کا صرف ایک حوالہ کہ وہ مسلمانوں کے لئے ابتداء اسلام تک ان کا قبلہ اوّل رہا ہے، کافی ہے۔مستند مؤرخین کے بقول موجودہ دور کے اکثررہایش پذیرفلسطینی کنعانی اور عموری نسل سے تعلق رکھتے ہیں ،جن کے پاس سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی تشریف لائے اورنورتوحید سے ان کے قلوب واذھان کومستیزکیا،اس دور کے حاکم ملکی صادق نے بھی توحید کی تبلیغ میں ان کی حمایت کی ،یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی علاقہ میں ’’الخلیل‘‘ شہر کو اپنا مستقربھی بنائے رکھا،بعدازاں حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام(جن کا لقب اسرائیل تھا،انہی کے بارہ بیٹے اور اولادو احفاد بنی اسرائیل کہلائے)کا وطن بھی یہی رہا،تاہم بنی اسرائیل نے مصر کی طرف ہجرت کی،جہاں حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے مقابلہ کرکے یہود کی جان چھڑائی،چونکہ یہود پربزدلی غالب آچکی تھی اس لئے وہیں قیام پذیر رہے اور جناب موسی علیہ السلام کو کہہ دیا:

فاذھب انت وربک فقاتلا اناھھنا قاعدون (المائدۃ:۲۴)

یوں انہوں نے خود ہی ارض مقدس جانے سے انکار کردیا۔ 963-923ق م تک حضرت سلیما ن علیہ السلام کا زریں عہد خلافت رہا،جس کے بعد حالات دگرگوں ہوگئے اور فلسطین کے شمال میں اسرائیل کی سلطنت قائم ہوئی ،جو اپنی خراب سیاست کی بناپر جلد آشوریوں کے قبضہ میں آگئی اور بالاآخر یہودی حوان، کردستان اورفارس کے علاقوں میں منتقل ہوگئے۔ اس طرح تورات میں مذکور خدائی وعدہ کے مطابق یہود کو دنیاکے ہر کونے میں ذلت سے دوچارہونا پڑا،کیونکہ وہ اللہ تعالی سے ہرمرحلہ پربے  وفائی کے مرتکب ہوئے۔بائبل کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

Therefore He raised up His hand in an oath against them to overthrow them in the wilderness, to overthrow their descendants among the nations.

عہد رسالت میں اس کو فتح کرنے کے لئے لشکر بھیجے گئے،چنانچہ فتح خیبر اورفدک (7ھ)، غزوہ موتہ (8ھ)،غزوہ تبوک (9ھ) اوراسامہ بن زید کی مہم (11ھ) اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں، بالآخر ۶۱ھ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بیت المقدس مسلمانوں کے زیرنگین آگیا۔ خلیفہ راشدنے بیت المقدس کی چابیوں کو سنبھالا،اس معرکہ میں چارہزاراجلہ صحابہ کرام شامل تھے،مسجد اقصی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وافت کے بعد پہلی مرتبہ اسی موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ چھٹی صدی ہجری میں  ایک دفعہ پھر طاغوتی طاقتوں نے بلاد اسلامیہ پر صلیب کے نام پر حملہ کردیا، اور فلسطین میں صلیبی حکومت قائم کرلی گئی، اس جنگ میں ظلم وبربریت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے ستر ہزار مسلمانوں کی گردن زدنی کی گئی،  تاہم ظلم پر مبنی یہ صلیبی غلبہ ریت کی دیوارثابت ہوا،اورعظیم مجاہد صلاح الدین ایوبی نے جلد ہی بیت المقدس کو صلیبی پنجہ استبداد سے آزاد کرالیا،یوں رجب ۵۳۸ھ کو بیت المقدس  اوراس کے گردونواح میں ایک مرتبہ پھر اذان بلالی کی یادیں دھرائی گئیں۔

بعدازاں عالم اسلام کو استعماری طاقتوں نے اپنی سازشوں کا ایک دفعہ پھرہدف بنایا اور فلسطین کی سرزمین برطانیہ کے استعماری قبضہ میں آگئی تو مکار اور شاطر یہودیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس خطے کے حصول کی خاطر کوششیں تیز کردیں ۱۸۳۹ء میں سب سے پہلا مغربی سفارتخانہ جو بیت المقدس میں کھلا وہ حکومت برطانیہ کا تھا، جس کا واحد مقصد یہودیوں کی خدمت گذاری تھا، اس کے ساتھ ہی پوری دنیا سے یہودیوں کو بیت المقدس میں جمع کرنا شروع کردیاگیا، اس وقت پورے فلسطین میں صرف نو ہزار کے قریب یہودی تھے۔

یہودی مملکت کی ضرورت اور غاصبانہ روے:

۱۸۹۵ء میں ایک یہودی مفکر ’’النمساوی ہیرتسل‘‘ نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا  ’’یہودی مملکت‘‘ جس میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہودی قوم کو ایک حکومت کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے فلسطین سے بہتر کوئی جگہ ان کی نظر میں نہ تھی۔ اس دور میں یہودیوں کی عالمی سطح پر دو بڑی کانفرنسیں ہوئیں، پہلی کانفرنس ۱۸۹۷ء اور دوسری ۱۸۹۸ء میں، جن کا حاصل یہ تھا کہ یہود اپنے قدیم وطن فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے منظم ہوجائیں، چونکہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا اور وہی اس کے مالک ومتصرف تھی، اس کے مقابلے کے لیے قوم یہود نے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے شروع کردئیے۔

یہودی مملکت کا استحقاق اورعلامہ اقبال:

بقول علامہ اقبال جون 76عیسوی کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہودی اور یہود نواز حلقوں کی ایک رائے یہ سننے میں آرہی ہے کہ یہودیوں کو عربوں نے ان کے وطن سے نکالا تھا، اس لیے اگر انہوں نے اپنا وطن دوبارہ زبردستی لے لیا ہے تو اس میں ان کا کیا قصور، یہ سر زمین تو جیسا کہ صیہونی (ZIONISTS) کہتے ہیں ارض موعودہ (PROMISED LAND) ہے جہاں ہر یہودی کا آنا بہت ضروری ہے۔

اقبال نے اپنے خطوط و بیانات میں اس کا جواب دیا تھا کہ یہودی فلسطین سے اپنی مرضی سے نکلے تھے اور یہ ’’خروج‘‘ عربوں کے فتح فلسطین سے پہلے ہی ہوچکا تھا تاہم اقبال نے یہودیوں کے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے ایک چبھتا ہوا سوالیہ اٹھا دیا کہ اگر فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے تو عربوں کا حق اسپین اور سسلی اور دوسرے یورپین مفتوحہ علاقوں پر کیوں نہیں ہوسکتا ہے، یہودیوں کا یہ دعوا ایسا ہی ہے جیسے ریڈ انڈین امریکہ پر اور ہن، گاتھ اور گال قومیں برطانیہ پر دعوا کردیں یا ہندوستان کے آریہ ایران اور روس پر دعوا کردیں کہ ان کا وطن اصلی واپس دیا جائے ۔ ’’اقبال کی نظر میں یہ ‘‘تایخی ظلم اس کے ساتھ مذاق اور اسے اپنی مرضی سے بدلنے کی مضحکہ خیز کوشش ہے اگر انہیں وطن دینا ہی ہے تو جرمنی میں دینا چاہیے جہاں سے وہ نکالے گئے، اپنے دعویٰ سے ہزار سالہ دست برداری اور خاموشی کے بعد یہودیوں کا نیا دعویٰ بالکل بے دلیل ہے اور اس کے پیچھے مغرب کا ہاتھ ہے:۔

ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و رطب کا!

خلافت عثمانیہ کے عہد میں یہودی سازشیں:

خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کے لیے انھوں نے مختلف سطحوں پر ساز باز شروع کی، جس میں بھاری رقوم دے کر ترکوں کو خریدا گیا، خود خلیفہ عبدالحمید کو لالچ دئیے گئے یہاں تک کہ ایک دفعہ ترکی کے یہودیوں کا ایک وفد سلطان سے ملا اور ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ فلسطین اگر یہودیوں کو دے دیا جائے تو اس کے بدلے ہم خلافت عثمانیہ کے ماتحت رہ کر خلافت کے سارے قرضے اتار دیں گے، جواب میں سلطان نے زمین سے ایک تنکا اٹھاکر ان کو دکھایا پھر فرمایا ”اگر فلسطین کا اتنا حصہ بھی تم لینا چاہوگے تو نہیں ملے گا“۔سلطان عبدالحمید سے مایوس ہوکر اللہ کے غضب کی ماری اس قوم نے ان کی شہرت عام کو بگاڑنے کی کوشش شروع کردی، چونکہ ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کی اجارہ داری تھی اس لیے اس ہتھیار سے کام لے کر سلطان پر ”رجعت پسند ا ور نسل پرست“ جیسے بے پر کے الزامات کا سلسلہ شروع کردیاگیا، نتیجتاً خلافت عثمانیہ میں قومی نعروں کی پروان ملی۔ ۱۹۰۹ءمیںسلطان عبدالحمیدکا انتقال ہوا تو گویا اس دن سے اسرائیل کے وجود کی بنیاد پڑگئی، حکومت میں موجود صہیونیت نواز لوگوں کا ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو برابر یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنے میں مدد دیتارہا، یہاں تک کہ ۱۸۹۷ء میں ان کی تعداد پچاس ہزار تھی اور یہی تعداد ۱۹۱۴ء میں ۸۵ ہزار ہوگئی۔یہود ایک مالدار قوم تھے، ہر ملک میں بڑے بڑے بیوپاریوں اور ساہوکاروں کی صورت میں موجود تھے، جس کی وجہ سے ملکوں کی سیاست اور معاملات پر ان کا اثر انداز ہونا کوئی تعجب خیز امر نہیں تھا، انھوں نے خلاف عثمانیہ کو ہر طرح اور ہر سطح پر دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی، اور دنیاکو باور کرایا کہ فلسطین کا حصول یہودیوں کے لیے ناگزیر ہے، لیکن خلافت عثمانیہ ان کے باطل عزائم اور ارادوں کے سامنے سد سکندری ثابت ہورہی ہے۔ چنانچہ اس بے حقیقت مفروضے کی بنیاد پر حکومت مصر کے توسط سے صحراء سینا میں یہودیوں کو بسانے کی ایک مرتبہ کوشش بھی کی گئی، جس میں وہ ناکام ہوئے۔ اس کے بعد دنیا کی سیاست میں کچھ ایسے حالات آئے جو فلسطین میں بدی کی ”نمائندہ قوم“ کے لیے قیام حکومت کی راہ ہموار کرتے چلے گئے، جن میں چار حالات کا بطور خاص ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے:

(۱)          دو عالمی جنگوں کا وقوع پذیرہونا۔

(۲)        ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام جس سے وہ دنیاکو اپنی مظلومیت ثابت کرپائے۔

(۳)         خلافت عثمانیہ کا سقوط۔

(۴)         فلسطین کا برطانوی استعمار کے زیردست ہوجانا۔

آخر الذکر سبب کے تحت برطانوی استعمار نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے لیے حتی المقدور تعاون کیا۔ مقامی باشندوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیاگیا، یہودی بستیاں آباد کی گئیں، تل ابیب کو مضبوط کیا، یہودیوں کے استحکام سے مطمئن ہوکر خود ۱۴/مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین سے نکلنے کا اعلان کیا، جاتے جاتے اہم مقامات، سرکاری دفاتر، ہوائی اڈے یہودیوں کو بطور بخشش دے گئے، جبکہ مسلمانوں کا جانی، مالی اور اقتصادی استحصال کیاگیا، جس کے نتیجے میں کچھ قتل ہوئے اور اکثر ہجرت پر مجبورہوئے۔یوں ۱۵/مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی مملکت کا اعلان قیام ہوگیا۔

بقول مولانا علی میاں:پہلی جنگ عظیم کا افسوسناک انجام یہ تھا کہ نزلہ عالم اسلام پر گرا، ادھر ترکی کی خلافتِ اسلامیہ کا شیرازہ بکھر گیا اور اتحادیوں نے سیاسی بندر بانٹ اور تقسیم کا پرانہ حربہ آزادی سے استعمال کیا، چنانچہ ترکی کا مشرقی حصہ روس کے ہاتھ لگا اور مغرب کے یورپی صوبے بلقان، ہنگری، بلغاریہ وغیرہ مکمل طور پر خود مختار ہوگئے، ایران اور شام فرانس کے ہاتھ لگا اور مصر اور عراق پر برطانیہ نے قبضہ جمایا، اس طرح سے عالم اسلام کے حصے بخرے ہوگئے۔ فلسطین کا مسئلہ ذرا بین الاقوامی نوعیت کا تھا اس لیے اسے ’’تہذیب و ترقی‘‘ کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے برطانیہ کے زیر انتداب رکھا گیا اقبال اس صورت حال پر روشنی ڈالتے ہیں اور یورپ کی اس سیاسی چال کو سامنے لاتے ہیں کہ وہ پہلے کمزور ممالک کو ظلم کا نشانہ بناتا ہے اور پھر اس کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بھی بہاتا اور ہمدردی ظاہر کرتا ہے تاکہ عالمی سیاسیات میں ساکھ بھی قائم رہے اور اپنا مقصد بھی نکل آئے:

آفریں بر دلِ نرم تو کہ از بہر ثواب

کشتہ غمزدہ خو درا نہ نماز آمدہ

یورپ اس حکمت عملی کو تہذیب اور اصلاح، انتداب اور نگرانی کا نام دیتا ہے لیکن یہ استحصال کے سوا اور کچھ نہیں:

اقبال کو شک اسکی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار

جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ و شورا

ترکانِ جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

جمعیت اقوام (LEAGUE OF NATION) نے اس زمانے میں بھی عربوں اور ایشیائیوں کے ساتھ موجودہ امتیازی سلوک جاری رکھا تھا اور اس پر یہودی اور مغربی ممالک مسلط تھے، اقبال اسی لیے اسے کہیں ” داشتہ پیرک افرنگ کہتے ہیں” کہیں ان کفن چوروں سے تشبیہ دیتے ہیں جو مشرق کو قبرستان بنا کر اسے بھی تقسیم کر لینے کے درپے رہتے ہیں۔بہر تقسیم قبورا نجمنے ساختہ اند!اقبال مغربی سیاسیات پر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر کو سمجھ گئے تھے ان کا خیال ہے کہ ایک نہ ایک دن یورپ ان کے دام فریب کا شکار ہو کر رہے گا۔

تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار

جن کی روباہی کے اگے ہیچ ہے زدِ ملنگ

خودبخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح

دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ

شہر یروشلم کی بنیاد اور یہودکی علمی بددیانتی:

الغرض یہ بات تاریخی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ ’’ القدس ‘‘ ایک کنعانی عرب شہر ہے، جسکی تاریخ تقریبا۵۳۰۰سال قبل مسیح بیان کی جاتی ہے ، گویا یہ شہر اس وقت تاریخی اعتبار سے پانچ ہزار سال سے زائد عمر کا ہوچکا ہے ، یہ شہر مسجد اقصی کے جنوب مشرقی جانب سنوان نامی بستی کے مضافات میں قلعہ یبوس پر واقع ہے اور اس کی قوم ’’ اور شلیم الکنعانیہ ‘‘ کہلاتی تھی، یہودیوں نے یہ قدیم کنعانی نام ’’ اورشلیم ‘‘ چورایا تاکہ بعد میں اس کی تاریخ اپنے نام کرلیں۔ حالانکہ کنعانی عرب یہاں کے اصل رہائشی تھے، جو اس جگہ کو ’’ یروسالم ‘‘ ، ’’ یروسلم ‘‘ اور ’’ شالم ‘‘ پکارتے تھے، جسکا معنی ’’ السلام ‘‘ یعنی سلامتی دینے والا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں قدیم کنعانی بادشاہ ’’ ملکی صادق ‘‘ (نویں صدی قبل مسیح) نے سب سے پہلے ’’ اورشلیم ‘‘ کا لفظ تحریر کیا ، کیونکہ وہ سلامتی اور امن کوپسند کرتاتھا، کہا جاتا ہے کہ آپکو ’’ ملک السلام ‘‘ اور شہر کو سلامتی کا شہر یعنی ’’ یروشالم ‘‘ پکارا جاتا تھا اور اسکے پرانے بادشاہ ایک خدا کو ماننے والے سامی عرب تھے ۔  ان تاریخی شواہد کو ماننے کی بجائے اہل مغرب اوریہودسرے سے فلسطینیوں کے وجود ہی سے منکر ہیں جیسا کہ اسرائیلی وزیر اعظم ’’ گولڈ امئیر ‘‘ نے کہا ’’ فلسطینیوں کا اس بستی میں کبھی وجود ہی نہیں تھا ‘‘

مسئلہ فلسطین اور علامہ اقبال کی حساسیت:

شاعرمشرق علامہ اقبال  کے فہم وبصیرت سے استفادہ کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین پر ان کی ذاتی طورپر گہری دلچسپی  اور اضطراب کے تناظرمیں ان کے تحریر کئے گئے چند اہم خطوط کا تذکرہ کرتے ہیں ،جن میں انتہائی اہم نکات سامنے آتے ہیں،جن کی عصری معنویت ابھی بھی بدستور قائم ہے،ان خطوط میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں ان کی دلی اضطراب کا پتہ بھی چلتا ہے، وہ مس فارقوہرسن کو لکھتے ہیں:

’’ فلسطین پر یہودیوں کا بھی کوئی حق نہیں یہودیوں نے تو اس ملک کو رضامندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضہ سے بہت پہلےخیر باد کہہ دیا تھا صیہونیت بھی کوئی مذہبی تحریک نہیں، علاوہ اس امر کے کہ مذہبی یہودیوں کو صیہونیت سے کوئی دلچسپی نہیں خود فلسطین رپورٹ نے اس امر کو روز روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔‘‘

وہ مسٹر جناح کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے (مسلم لیگ کی بدولت) شاید فلسطین کے عربوں کو کچھ فائدہ پہنچ جائے، ذانی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام ددنوں پر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ ایشیا کے دروازے پر ایک مغربی چھاؤنی کا مسلط کیا جانا اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے پر خطر ہے۔‘‘

ہندوستان میں جتنی فلسطین کانفرنسیں ہوئیں سب میں اقبال کے مشورے اور ہمدردیاں شامل تھیں، علامہ نے فلسطین رپورٹ کے خلاف مسلمانان لاہور کی کانفرنس کے موقع پر ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ :

’’عربوں کے ساتھ جو ناانصافی برتی گئی ہے، مجھے اس کا ایسا ہی شدید احساس ہے جیسا مشرق قریب کی صورت حال سے واقف کسی شخص کو ہوسکتا ہے یہ مسئلہ مسلمانانِ علام کو ایک موقعہ بہم پہنچاتا ہے کہ وہ پوری قوت سے اس امر کا اعلان کردیں کہ وہ مسئلہ جس کا حل برطانوی سیاستدان تلاش کررہے ہیں محض قضیہ فلسطین ہی نہیں بلکہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شیدید اثر تمام دنیائے اسلام پر ہوگا ۔مسئلہ فلسطین کو اگر اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو فلسطین ایک خالص اسلامی مسئلہ ہے، بنی اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو فلسطین میں مسئلہ یہود تو 13 صدیاں ہوئی حضرت عمرؓ کے یروشلم میں داخلہ سے قبل ختم ہوچکا تھا، فلسطین سے یہودیوں کا جبری اخراج کبھی بھی عمل میں نہیں آیا بلکہ بقول پروفیسر ہوکنگ یہود اپنی مرضی اور ارادہ سے اس ملک سے باہر پھیل گئے اور ان کے مقدس صحائف کا غالب حصہ فلسطین سے باہر ہی مرتب و مدون ہوا، مسئلہ فلسطین کبھی بھی عیسائیوں کا مسئلہ نہیں رہا، زمانہ حال کے تاریخی انکشافات نے “پیٹروی ہرمٹ” کی ہستی ہی کو محل اشتباہ قرار دے دیا ہے ۔۔الخ‘‘

القدس میں قیمتی مخطوطات اور کتب خانوں پر حملے :

یہود کی فکری اور سیاسی بد دیانتی کے اسی تناظر میں صیہونیت کی دہشت گردی کا ایک اور انتہائی خوفناک زاویہ فلسطین اور القدس میں موجود اسلامی کتب خانوں اور مخطوطات کو تباہ اور ضائع کرناہے ،جن کی ایک معتدبہ (کثیر) تعداد اس ارض مقدس میں موجود ہے ، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ارض مبارک میں موجود یہودی تسلط کی وجہ سے اس گرانقدر علمی ورثہ اور مسلم دینی متاع سے بہت کم لوگ آشنا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مبارک سر زمین پر سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کا فاتحانہ داخلہ (۳۸۵ھ) دوزاویوں سے خاص طور پر ایک اہم ترین تاریخی وقوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

1 ۔    علمی زاویہ:

2 ۔   سیاسی زاویہ:

ہمارا موضوع چونکہ علمی زاویہ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے سردست ’’ سیاسی زاویہ ‘‘ کو پس منظر میں رکھتے ہوئے یہود کی صرف علمی بد دیانتیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، اگرچہ یہ زاویہ بھی کسی طوربھی غیر اہم نہیں ہے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ’’ القدس ‘‘ فتح کرنے کے بعد سب سے پہلے مدارس اور تحقیقی اداروں کے قیام کا حکم دیا ۔جس کے لئے مسجد اقصیٰ کے کتب خانے میں کتابوں کی ایک بڑی تعداد کا اضافہ کیا ۔ قرآنی نسخوں کی بڑے پیمانے پر تیاری کا حکم ،فقہ اور لغت کی عظیم درسگاہیں’’ دارالاسبّار ‘‘ ،’’ مدرسہ صلاحیۃ ‘‘ اور مسجد اقصیٰ کے منبر کی پچھلی جانب ’’ مدرسہ خنشنیۃ ‘‘ قائم کی گئیں ۔ نیز ان اداروں میں قیمتی مخطوطات اور کتب بہم پہونچائی گئیں۔

صلاح الدین ایوبی کے بعد اس کے پیروکاروں نے اسی طریقہ سے مدارس و مکاتب کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا، نادر کتابوں اور مخطوطات سے ان اداروں کو بھر دیا ، اس طرح علمی دنیا میں فلسطین قیمتی مخطوطات کا مرکز بن گیا۔ صرف ’’ القدس ‘‘ میں تقریباًدس بڑے کتب خانے ماضی قریب تک موجود تھے ، جن میں سے سب سے زیادہ مخطوطات ’’ دارکتب المسجد الاقصیٰ ‘‘ اور ’’ دارکتب اٰل خالد ی ‘‘ میں رہے۔ دارکتب ’’ اٰل خالدی ‘‘ حرم شریف سے آتے ہوئے دائیں جانب باب السلسلۃکی لکیر پر واقع ہے۔اس مکتبہ میں دس ہزار مصنفین کی تحریر کردہ کتب جن میں سے پانچ ہزار مخطوطات کی صورت میں موجود تھیں۔ جبکہ دارکتب المسجد الاقصی جو کہ مسجد اقصیٰ کی مغر بی جانب واقع ہے ، اس میں تقریباً ایک ہزار مخطوطات ہیں جو اسلامی اور عربی علوم کی قیمتی ترین متاع شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور کتب خانہ ’’ دار الکتب الخلیلیۃ ‘‘ کے نام سے بھی موجود ہے، جسکو شیخ محمد بن محمد الخلیفی (م ۷۴۱۱ھ) نے وقف کیا ، اس میں بے شمار مخطوطات تھے جو علم دشمن یہودیوں کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ’’ دار الکتب الفخریہ ‘‘ میں بھی تقریباً دس ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ ’’ خزانہ اٰ ل قطینہ حنبلیۃ ‘‘ باب عمود پر واقع ہے، اس مکتبہ میں علم ریاضی ، فلکیات ، نجوم اور دیگر سائنسی فنون پر مشتمل کتب کا بہترین ذخیرہ اور خزانہ موجود تھا، لیکن آج یہاں کوئی ایسی قابل ذکر قیمتی کتاب نہیں ملتی جو علم میں نئے اضافے کا سبب بن سکے۔

یہودیوں نے مسلمانوں کی اس علمی متاع کو بھی مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے۔ مخطوطات کا ایک بہت بڑا مرکز ’’ خزانہ اٰل البدیری ‘‘ ہے ، یہ مسجد اقصیٰ کے پہلو میں واقع ہے، اٰل بدیر کے قیمتی مخطوطات ونوادر یہاں موجود تھے، اسی طرح علامہ عبداللہ مخلص کا خزانہ کتب بھی انفرادی اہمیت کا حامل ہے،اس میں تاریخی آثار اور مزاحمتی ادب پر مشتمل بہت سا سرمایہ محفوظ تھا، شیخ عبداللہ مخلص ان عظیم فلسطینیوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے مخطوطات کے کردار اور ان کی علمی اہمیت اجاگر کرنے میں اپنا وقیع کردار ادا کیا ۔ فلسطین میں ہی ایک اور قابل ذکر کتب خانہ ’’ خزانہ الشیخ محمود اللحام ‘‘ کے نام سے پہچاناجاتا ہے، یہاں چار ہزار سے زائد مصنفین کی کتابیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار نجی کتب خانے اور ذاتی ملکیت کی لائبریریاں ہیں، جن میں قدیم مصاحف ، ربعات ، کتب تفسیر و تجوید ، قرأت ، رسم ، حدیث ، کتب اصول ، فقہ و فتاویٰ ، مذاہب اربعہ ،فرائض، کلام ، تصوف ، مواعظ و حکم ، نحو و بلاغت ، ادب ، سیاست ، قوانین ، سیرت ، مناقب ، تراجم ، فلکیات ، طب اور متفرق جامع کتب موجود ہیں۔

صیہونی عزائم:

لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کہ ذکر کردہ کتب خانوں میں سے صیہونیت نے تقریباً ۷۰ فیصد مخطوطات اور نادر کتابیں غائب کردی ہیں اور تاحال صیہونیت اس ارض مقدس سے اسلامی ورثہ اور اس کے انسانی ، اخلاقی ، علمی اور سیاسی اثرات کو ملیامیٹ کرنے کی مسلسل کوشش میں ہے۔

صیہونیوں کی اس علمی اور ثقافتی  ورثہ کی پامالی اور اعلانیہ دہشت گردی کی جو بھی وجوہات بیان کی جائیں  جہاں وہ سب غیر منصفانہ ،خلاف عقل اور ظلم پر مبنی ہیں ،وہیں  اس کی حقیقی وجہ کا ادراک بھی ضروری ہے،اور وہ یہ ہے کہ مغرب کو اپنے مراکز ، تحقیقی اداروں ، جامعات اور مستشرقین کے ذریعے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ امت مسلمہ کو اس وقت تک شکست دینا ممکن نہیں ہے ، جب تک ان میں اسلامی تشخص برقرار ہے،اس لئے اس قوم کو تابع بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے امت مسلمہ کے منفرد اسلامی تشخص اور علمی میراث کا خاتمہ اور روح اسلام کے اس جذبہ کاخاتمہ جو ان کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی قوت  محرکہ فراہم کرتا ہے۔

’مہذب‘ مغربی دنیا علم کے ساتھ اپنے تعلق اور وابستگی کو اس طرح پیش کرتی ہے گویا صفحۂ ہستی پر علم و تحقیق کے میدان میں غیر جانبدارانہ رویوں کے اظہار میں اُنکا کوئی سہیم وشریک نہیں ہے، لیکن اس مغربی تاثر کی حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ انہی  طاقتوں کی پروُردہ ریاست ’’ اسرائیل ‘‘ کھلے عام فلسطین میں علمی وتعلیمی اداروں اوروہاں کےبیش قیمت کتب خانوں کو اپنی بمباری کا نشانہ بناکر اس کو ضائع کرتی  ہے اورایسے میں پوری مغربی دنیا ،انسانی حقوق کی تنظیمیں اور فروغ تعلیم وتحقیق کے لئے آوازاٹھانے والی این جی اوز اپنے بلند آہنگ نعروں کے باوجوداس علمی ورثہ کے ضیاع پر قطعی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں۔

اسلامی مدارس ومعاہد کی تخریب اور نظام تعلیم کی تباہی:

المیہ یہ ہے کہ آتش و خو ن ،با رود اور گولیوں کی جنگ کے بعد اسرائیلیوں نے ایک نئے محا ذ کی یا فت کی ہے اس محا ذ میں فلسطین کی وہ تعلیمی نسل نشانہٴ تخریب ہے جس پر پوری قوم کی قسمت معلق ہے ،ضروری ذرائع تعلیم، قلم ،کاپی ، پینسل اور اس طر ح کی ہلکی پھلکی ضروریا ت پر پابندی اور تعلیمی میدا ن میں فلسطینیوں کو نا خوا ندہ رکھنے کی ہر کوشش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، در اصل پہلے فلسطین کی فضا ء میں گولیوں کا بہتر ین نشا نہ فلسطینی عوام کی جسموں سے نکلنے والے بارود کی بو ہو تی تھی اب وہ طلبہ وطا لبا ت کی اندرونی شخصیتوں کی چرمراہٹ سننے کی عادی ہو گئی ہے کیو نکہ جو لڑائی گلیو ں کی تھی وہ آ ج ا پنا دائر ہ پھیلا چکی ہے افسوس اب تعلیم کی شمع بجھا کر فلسطینیو ں کو قسطو ں کی تا ریکی دکھا ئی جا رہی ہے تا کہ تعلیم کی روشنی میں فلسطینیو ں کو پھر سے کہیں زندہ ہو نے کا موقع نہ مل جا ئے۔یہ سچ ہے کہ فلسطینیو ں کو حصا ر میں رہنے کی عا دت ہے ، سنگینیو ں کے سا ئے میں سونا ان کا معمول ہے ،ہر صبح لاشو ں کو کا ندھا دینا ا نکی ذمہ دا ری ہے ،پا نی ،بجلی ،اشیا ء ما کو لا ت ،طبی سہولیات اور تعمیرا ت ہر طر ح کی بندش کے با وجود ا نہو ں نے اپنے عز م کو قا ئم رکھا ،اپنا حوصلہ تھامے رکھا، اسرائیلیو ں کو ا نکا صبر زہر لگا انہو ں نے مز ید ظلم کر نے کی ٹھا ن لی اور ا س طر ح انسا نی حقوق کی پا ما لی کرتے ہوئے غز ہ میں اسکو لی سا ما نو ں کی درآ مد پر روک لگا دی ۔ فلسطینی اقتصا دو معیشت کے وزیر حاتم عو یضہ نے ا پنے ایک ا نٹر ویو میں کہا کہ غا صب اسرائیل فلسطین میں اسکو لی آ لا ت کی در آ مد ی پر شدت سے رو ک لگا رہی ہے تا آ نکہ انسا نی حقوق کی محا فظ تنظیمو ں کے مطالبات کو بھی ٹھکرا دیا ہے حا لا نکہ ا ن دنو ں غز ہ میں اسکو لی لوا ز ما ت کی بے پنا ہ ضرورت ہے،مزیدا ر بات یہ ہے کہ ان سنگین حا لا ت کی ا طلا ع ا ن تما م مما لک کو ہے جو حقوق انسانی اور تعلیمی بیدا ری کا پروپیگنڈہ کر تے ہیں مگر اس معا ملے میں انکی حسا س اور خود سا ختہ لب گویائی پر خوف و مصلحت کا تا لا پڑا ہوا ہے۔

واضح ہو کہ غزہ میں حالیہ اقوام متحدہ کے اسکول پرحملہ کوئی نادر واقعہ نہیں بلکہ یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے، چنانچہ غزہ میں اس تعلیمی ظلم کے خلا ف 9ستمبر 2009کو فلسطینی طلباء و طالبا ت نے زبردست احتجا ج کیا تھا ،وہ لوگ ا پنے ہا تھو ں میں احتجا جی بینر تھا مے ہو ئے تھے جس پر متعدد احتجاجی جملے رقم تھے مثلا “ہما ری کتا ب اور ہما ری کا پیا ں کہا ں ہیں”،”ہم نونہا لا ن پر لگا ئی گئی تعلیمی بندش کو ختم کرو،ہم پڑھنا چاہتے ہیں”ہم اپنا تعلیمی حق چاہتے ہیں”۔۔۔اس احتجاجی جلسے کے بعد کم عمر طلباء نے اقوام متحدہ کے مقا می مرکز کو اسرائیل کی ظا لما نہ بندش پر اپنا احتجا جی پیغام پیش کیا جسکے مخا طب اقوام متحدہ کے صدر با ن کی مون تھے ،اس ا حتجا جی وفد کا مطا لبہ یہ تھا کہ موصوف محتر م اور عالمی برا دری اسرائیل کی تعلیمی خلا ف ورز یوں پر رو ک لگا ئیں ۔نو سا لہ اکرم احمد پور ی معصو میت کے سا تھ یہ کہتا ہے کہ”یہو دیو ں نے میر ے وا لدین کو مارڈا لا اور ہماری رہا ئش گا ہو ں کو زمین بو س کرڈا لا ،میری کا پیا ں اور میر ی کتا بیں اس ظا لما نہ کاروائی کی نذر ہو گئیں، مجھے کتا ب ، قلم اور کا پی کی ضرورت ہے ،میں پڑھنا چاہتا ہوں”۔مشہو ر عربی مجلہ’ فلسطین مسلمہ‘کے اعدادو شما ر جو ا نہو ں نے فلسطینی وزا رت تعلیم و تر بیت سے حا صل کیا ہے؛کے مطا بق اس سال 240 طلبا ء او ر 15اسا تذہ اسرا ئیلی دہشت گردی کی نذر ہوئے او ر تقریبا 942طلبا ء اور ا سا تذہ زخمی ہوئے جن میں سے ا کثر پور ی طرح اپا ہج ہو چکے ہیں، اس رپورٹ میں یہ بھی درج ہے غزہ میں تقریبا 7اسکو ل پور ی طر ح تبا ہ اور بے شما ر تعلیم گا ہو ں کو جزوی طور پر نقصا ن پہنچایا گیا ہے ،علا وہ ا زیں اب تک پورے فلسطین میں مجموعی طور پر 4828ایسے مکا نو ں کو پوری طر ح منہد م کر دیا گیا ہے جس میں ا سکو لی طلبا ء مقیم تھے اور اسی طر ح کے 9738 مکانوں کو جز وی نقصا ن پہنچا یا جا چکا ہے،وزا رت تعلیم وتر بیت کے تر جما ن خا لد را ضی نے فلسطین مسلمہ کو دئے گئے اپنے ا نٹر ویو میں کہا کہ ’’حا لیہ جنگ نے تعلیمی میدا نو ں کو سخت نقصا ن پہنچا یا ہے خصوصا تعلیم گاہوں،ہاسٹلز، کلاسوں اور لا ئبریریوں کو پور ی طر ح نشا نہ بنا یا گیا ہے۔‘‘  اسرا ئیل جس طرح مدارس اور تعلیم گاہوں کو بر با د کرر ہا ہے اس سے یہی اشا رہ ملتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ہر حق کو پا ما ل کرنا چاہتا ہے ، لا ئبریریوں،درسگا ہو ں اور اقامت گاہو ں کو تبا ہ کرنے کے سا تھ سا تھ اسکو لی ا شیا ء پر مکمل بندش لگاکر یقینا اسرا ئیل نے شیطنت کا عظیم مظاہرہ کیا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تما م مظالم پر دنیا کب تلک خا موش رہے گی؟

ساری دنیا کی مسلم آبادی ، ماہرین فن، مسلم دانشور اور اسلامی تنظیمیں اس سلسلہ میں گہری تشویش سے دوچار ہیں ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سرزمین کو ان کے ایمان اور یقین کی کیفیات سے ایک مضبوط رشتہ اور تعلق ہے، فلسطین کی مساجد ، مکاتب اور علمی اکیڈمیاں دراصل ہماری عظیم اسلامی ثقافت کا قیمتی سرمایہ ہیں ، لیکن چونکہ مغربی دنیا کو اسرائیل ہی کے مفادات کا تحفظ عزیز ہے اس لئے وہ اس غیر اخلاقی حرکت پر کسی ملال اور اندیشے کا اظہار نہیں کرتے۔پیش نظرمقالہ میں آج کی طاقتور دنیا کا یہی منافقانہ چہرہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کس طرح فلسطین میں علوم کے مراکز گرتا دیکھ کر چپّی سادھنے کے باوجودبھی تحقیق و آگہی سے اپنا تعلق ظاہر کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔

الغرض اسلامی امت کا اس مبارک ارضی ٹکڑے سے دینی،ثقافتی اور سماجی تعلق توڑنے کے لئے مغربی اور صیہونی علمی دہشت گردی ایک ایسا پہلو ہے جو نسبتانظروں سے اوجھل رہا ہے مگر اثرات اور خطرات کے اعتبار سے زیادہ مہلک اور نقصان دہ ہے، یہود مسلم علمی ورثہ کو غائب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تاکہ اس زمین سے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے تعلق کا کوئی بھی دستاویزی ثبوت نہ مل سکے۔

لیکن اب ہمیں دھوکہ ، فریب، ظلم اور دسیسہ کاریوں کے اہم کرداروں کو بے نقاب کرناہے اور دنیا پر یہ واضح کرنا ہے کہ مغرب کے پیش نظر حق و انصاف کی بنیاد پر مسائل کاحل کبھی نہیں رہا ہے بلکہ اس کے نزدیک مشرق وسطی میں مسلمان مرد،عورتیں اور بچے نہیں بستے بلکہ وہاں اس تہذیب اور دین کے وارث اور ماننے والے بستے ہیں جو مغرب (عیسائیت اور یہودیت) کے لئے ایک ہزار سال تک سنگین خطرہ بنے رہے۔ہاں ،البتہ آج وہاں سے تیل پھوٹتا ہے جو مغرب میں خوشحالی کے چراغ جلائے رکھنے کے لئے نا گزیر ہے۔ دنیا کو اب یہ باور کروانا ضروری ہو گیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران جس وقت مغرب کو اپنی فکر اور نظام کے کھو کھلے پن کا احساس ہوا،اور اس کے مسلسل ترقی کے خواب بکھر گئے تو اس نے اپنی تاریخ کے سب سے سنگین مسئلے ،یعنی اسلام سے نبٹنا اور اس کے حل کی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں،تاکہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔

 حواشی وحوالہ جات:

قدیم بنی اسرائیل کی تاریخ اور اس کی مذید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:ظفرالاسلام خان، تاریخ فلسطین القدیم 1220 ق م-1459م:منذاول غزویہودی حتی آخرغزوصلیبی (بیروت: دارلنفائس، 1984ء)، محمد ادیب العامری، عروبۃ فلسطین فی التاریخ (بیروت: المکتبۃ العصریۃ،1972) نیزاحمد المرعشلی (اشراف)، الموسوعۃ الفلسطینیۃ(دمشق: ھیئۃ الموسوعۃ الفلسطینیۃ،1984ء)۔

انگریزی بائبل King James کا معروف نسخہ دیکھئے Psalms: 106: 26, 27.

اسی موقع پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے “معاھدہ عمریۃ” بھی کیا، جس کی تفصیلات کیلئے ملاحظہ ہو:ابن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک ، تحقیق ابوالفضل ابراھیم (القاھرۃ: دارالمعارف، 1969ء)، ج3ص418۔

تفصیل کے لئے دیکھئے: الازدی، تاریخ فتوح الشام (القاھرۃ: مؤسسۃ السجل العرب، 1970ء)،احمد کمال عادل، الطریق الی دمشق (بیروت: دارلنفائس، 1980ء) اور محسن صالح، الطریق الی القدس (لندن:فلسطین المسلمۃ، 1998ء)۔

محسن صالح، الطریق الی القدس، ص 120-128

مولانا یرید احمد نعمانی ،فلسطین . . . تاریخ کے آئینے میں، ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان – ذیقعده 1431 ھ مطابق ستمبر – اكتوبر 2010 ء

ایضا

مولانا ابوالحسن علی ندوی، نقوش اقبال،ترجمہ:مولانا شمس تبریزخان، مجلس نشریات اسلام، کراچی، 1975، ص199۔

ا یرید احمد نعمانی ،فلسطین . . . تاریخ کے آئینے میں۔۔۔

نقوش اقبال ،ص 197-98

البعدالدینی ،ص61

خرم مراد،مغرب اور عالم اسلام ایک مطالعہ، ص201

[اقبال نامہ 442/1]۔۔۔بحوالہ نقوش اقبال ،ص 198-99

[اقبال نامہ 27/2]۔۔۔بحوالہ نقوش اقبال ،ص199

[اقبال نامہ 452/1]۔۔۔بحوالہ نقوش اقبال ص 199

سہیل اختر قاسمی،فلسطینی طلباء کو ذرائع تعلیم سے محروم کرنے کی اسرائیلی سازش،ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربیع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ

ایضا

ایضا

مشمولہ: شمارہ نومبر 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223